Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 64

سورة التوبة

یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ ﴿۶۴﴾

They hypocrites are apprehensive lest a surah be revealed about them, informing them of what is in their hearts. Say, "Mock [as you wish]; indeed, Allah will expose that which you fear."

منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے ۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو یقیناً اللہ تعالٰی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hypocrites fear Public Exposure of Their Secrets Allah tells; يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّيُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِم ... The hypocrites fear lest a Surah should be revealed about them, showing them what is in their hearts. Mujahid said, "The hypocrites would say something to each other then declare, `We wish that Allah does not expose this secret of ours," There is a similar Ayah to this one, that is, Allah's statement, وَإِذَا جَأءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِى أَنفُسِهِمْ لَوْلاَ يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِيْسَ الْمَصِيرُ And when they come to you, they greet you with a greeting wherewith Allah greets you not, and say within themselves: "Why should Allah punish us not for what we say!" Hell will be sufficient for them; they will burn therein. And worst indeed is that destination! (58:8) Allah said in this Ayah, ... قُلِ اسْتَهْزِوُواْ إِنَّ اللّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ Say: "(Go ahead and) mock! But certainly Allah will bring to light all that you fear." He will expose and explain your reality to His Messenger through revelation. Allah said in other Ayat, أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَـنَهُمْ وَلَوْ نَشَأءُ لاَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ Or do those in whose hearts is a disease, think that Allah will not expose their ill-wills? Had We so willed, We could have shown them clearly to you, so that you would know them by their marks; but you will know them by the tone of their speech! (47:29-30) This is why, according to Qatadah, this Surah is called `Al-Fadihah' (the Exposing), because it exposed the hypocrites.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراتے بھی ہیں آپس میں بیٹھ کر باتیں تو گانٹھ لیتے لیکن پھر خوف زدہ رہتے کہ کہیں اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بذریعہ وحی الٰہی خبر نہ ہو جائے اور آیت میں ہے تیرے سامنے آ کر وہ دعائیں دیتے ہیں جو اللہ نے نہیں دیں پھر اپنے جی میں اکڑتے ہیں کہ ہمارے اس قول پر اللہ ہمیں کوئی سزا کیوں نہیں دیتا ؟ ان کے لئے جہنم کی کافی سزا موجود ہے جو بدترین جگہ ہے ۔ یہاں فرماتا ہے دینی باتوں اور مسلمانوں کی حالت پر دل کھول کر مذاق اڑالو ۔ اللہ بھی وہ راز افشاء کر دے گا جو تمہارے دلوں میں ہے ۔ یاد رکھو ایک دن رسوا اور ذلیل ہو کر رہو گے ۔ چنانچہ فرمان ہے کہ یہ بیمار دل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں کی بدیاں ظاہر ہی نہ ہوں گی ۔ ہم تو انہیں اس قدر فضیحت کریں گے اور ایسی نشانیاں تیرے سامنے رکھ دیں گے کہ تو ان کے لب و لہجے سے ہی انہیں پہچان لے گا ۔ اس سورت کا نام ہی سورۃ الفاضحہ ہے اس لئے کہ اس نے منافقوں کی قلعی کھول دی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ : اب منافقین کی مزید کمینی حرکتوں کا ذکر ہوتا ہے اور کافی آگے تک چلا جاتا ہے، اس بنا پر اس سورت کو ” الفاضحہ “ بھی کہتے ہیں، یعنی منافقوں کے راز کھولنے والی اور ان کو رسوا کرنے والی۔ منافقین بظاہر ایمان کے باوجود دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفر رکھتے تھے، ان میں سے بعض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا سمجھنے کے باوجود ضد اور تعصب کی وجہ سے دل میں آپ سے کفر رکھتے تھے، کچھ شک میں مبتلا تھے، اس لیے ایمان سے خالی تھے اور جو بالکل دل سے آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے وہ بھی کئی دفعہ مشاہدہ کرچکے تھے کہ جوں ہی وہ ایسی کوئی بات یا حرکت کرتے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کردیتا، اس لیے وہ اپنے دلی کفر کی وجہ سے کبھی کبھی آپس میں اپنے دلی بغض کا اظہار کرلیتے، مگر ساتھ ہی خوف زدہ رہتے کہ کوئی سورت اترے گی جو ان کے راز اور دلی کیفیت ان کے سامنے اور مسلمانوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گی۔ ” تُنَبِّئُهُمْ “ میں ” ھُمْ “ کی ضمیر منافقوں کی طرف بھی جاسکتی ہے اور مومنوں کی طرف بھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم مذاق اڑا لو، تم جس بات کے ظاہر ہونے سے ڈر رہے ہو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے سب کے سامنے لے آنے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Announced in verse 64: إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِ‌جٌ مَّا تَحْذَرُ‌ونَ (Allah is surely to bring out what you are afraid of) is the news that Allah will expose their con¬spiracy and mischief. One such event came to pass while returning from the battle of Tabuk when some hypocrites had conspired to kill the Messenger of Allah. Allah Almighty informed him about the plan through angel Jibra&il (علیہ السلام) helping him to bypass the spot where the hypo¬crites were sitting in ambush. (Mazhari with reference to al-Baghawi) And Sayyidna ` Ibn ` Abbas (رض) says that Allah Ta` ala had in-formed the Holy Prophet al about the names of seventy hypocrites complete with their parentage and addresses. But, being the universal mercy, he did not disclose these before his people. (Mazhari)

(آیت) اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ ، اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ حق تعالیٰ منافقین کی خفیہ سازشوں اور شرارتوں کو ظاہر فرما دیں گے، جس کا ایک واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی کا ہے جب کہ کچھ منافقین نے آپ کے قتل کی شازش کی تھی، حق تعالیٰ نے آپ کو اس پر بذریعہ جبرئیل مطلع کرکے اس راستہ سے ہٹا دیا جہاں یہ منافقین اس کام کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ( مظہری عن البغوی) اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ستر منافقین کے نام مع ان کی ولدیت اور پورے نشان پتے کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیئے تھے، مگر رحمۃ للعالمین نے ان کو لوگوں پر ظاہر نہیں فرمایا ( مظہری )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ۝ ٠ ۭ قُلِ اسْتَہْزِءُوْا۝ ٠ ۚ اِنَّ اللہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ۝ ٦٤ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) عبداللہ بن ابی (منافق) اور اس کے (منافق) ساتھی اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ مسلمانوں کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ایسی سورت نازل ہوجائے جس میں ان کے نفاق پر اطلاع دے دے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ودیعتہ بن جذام، جدی بن قیس اور جہیر بن حمیر سے فرما دیجیے کہ اچھا تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے بارے میں چھپاتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّءُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ ط) ان کے دلوں میں چونکہ چور ہے اس لیے انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وحی کے ذریعے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک نہ کردیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :72 یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر سچا ایمان تو نہیں رکھتے تھے لیکن جو تجربات انہیں پچھلے آٹھ نو برس کے دوران میں ہو چکے تھے ان کی بنا پر انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہ کوئی فوق الفطری ذریعہ معلومات ضرور ہے جس سے آپ کو ان کے پوشیدہ رازوں تک کی خبر پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات قرآن میں ( جسے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف سمجھتے تھے ) آپ ان کے نفاق اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

57: منافقین میں اپنی نجی محفلوں میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اور اگر کبھی کوئی پوچھتا تو کہتے کہ ہم تو یہ باتیں دل لگی میں کرتے، سچ مچ نہیں کرتے۔ آیات 64 تا 66 ان کے اس طرز عمل پر تبصرہ کر رہی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٤۔ اس آیت کے دو معنے مفسروں نے بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ منافق سورت نازل ہونے سے ڈرتے ہیں اور آپس میں کہتے پھرتے ہیں کہ کہیں اللہ پاک ہمارا راز فاش نہ کردے کوئی سورت ہماری فضیحت میں اتارے اور پھر باوجود اس ڈر کے اپنی مسخرا پن کی باتوں سے باز نہیں آتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو اس آیت میں اللہ پاک نے خطاب کر کے بیان فرمایا خدا سے ڈرو وہ کوئی سورت اتار کر تمہارا بھید نہ کھول دے تمہارے دلوں میں جو بات ہے اس کی اطلاع مومنوں کو کردے پھر فرمایا اللہ بغیر اطلاع دیئے نہ رہے گا وہ ضرور تمہارے راز مسلمانوں پر کھول دیگا تم سے جہاں تک ممکن ہو دین کی باتوں میں مسخراپن کئے جاؤ خدا تمہاری ان باتوں کو ضرور ظاہر کر کے رہے گا جس کا تمہیں ڈر لگا ہوا ہے خواہ خدا کوئی سورت نازل کر کے بتاویگا یا بذریعہ جبرئیل کے اپنے رسول کو خبر کر دیگا آیت کے دو معنی جو اوپر بیان کئے گئے ان میں پہلے معنے مجاہد کے قول کے موافق ہیں اور حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں انہی معنوں کو قوی ٹھہرایا ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے جابر (رض) بن عبداللہ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں عبداللہ ابی منافقوں کے سردار کا یہ قصہ ہے کہ اس نے بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت اپنے ساتھیوں سے یہ کہ اتھا کہ اس لڑائی سے واپسی کے بعد مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جاوے گا۔ اور پھر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر اس قصہ کی صداقت چاہی تو اس نے قسمیں کھا کر اس بات کے کہنے سے انکار کیا آخر اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون کی آیتیں نازل فرما کر عبداللہ بن ابی کو جھوٹا ٹھہرایا جس سے وہ بہت رسوا ہوا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ ان منافقوں سے جہاں تک ہو سکے یہ دین کی باتوں میں مسخراپن کئے جاویں اور اس مسخراپن کو چھپادیں یہ یاد رکھیں کہ ان کا وہ مسخراپن چھپنے والا نہیں اللہ ان کے اس آپس کی بھید کو کھول کر ان کو اس طرح رسوا کریگا جس طرح بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت اس نے ان کے سردار عبداللہ بن ابی کو رسوا کیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:64) یحذر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ حذر مصدر (باب سمع) وہ ڈرتا ہے۔ آیہ ہذا میں جمع مذکر غائب کے لئے آیا ہے۔ وہ ڈرتے ہیں۔ تنبئہم۔ مضارع واحد مؤنث غائب اس کا فاعل سورة ہے وہ ان کو آگاہ کردے وہ ان کو مطلع کر دے۔ بنی ینبی تبنیہ (باب تفعیل) سے۔ نبأ مادہ۔ علیہم۔ میں ضمیر جمع مذکر غائب ہم۔ تنبئہم میں ضمیر ہم کا مرجع المؤمنین محذوف ہے اور فی قلوبھم میں ضمیر ھم المنفقین کے لئے ہے۔ یعنی منافق لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں مؤمنین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی سورة نازل نہ ہوجائے کہ ان کے دل کی حالت (منافقت) مومنین پر ظاہر ہوجائے۔ یا ان ہر سہ ضمیر کا مرجع منافقین ہیں۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ منافق خوف کھاتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے مافی الضمیر کو ظاہر کر دے۔ (اس صورت میں علی بمعنی فی ہوگا۔ ان کے بارے میں) ۔ استھزؤا۔ امر۔ جمع مذکر حاضر۔ استھزاء (استفعال) سے امر کا صیغہ تہدید کے لئے لایا گیا ہے۔ یعنی تم ہنسی اڑاؤ جیسا تم چاہتے ہو۔ جو چاپو کرلو۔ (آخر کار) ان اللہ مخرج ما تحذرون۔ جس بات سے تم ڈرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ نکال باہر لائے گا ہی۔ (یعنی تمہاری منافقت کو ظاہر کر دے گا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اور تم رسوا ہو کر رہو گے۔ اس بنا پر سورة کا نام سورة الفا ضحہ ہے۔ یعنی منافقین کے راز کھو لنے والی اور ان کو رسو کرنے والی۔ نیز اس سورة کو سو رہ حافرہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس سورة نے منافقین کے سینے کی باتوں کو کھود کر رکھ دیا ہے اور ان کے راز ہائے سربستہ کی قلعی کھول دی ہے۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقوں کا اپنے دل ہی دل میں خوف زدہ رہنا۔ منافق دوغلا ہوتا ہے دو غلاشخص اخلاقی لحاظ سے اندر سے کھوکھلا اور ضمیر کا چور ہوتا ہے کیونکہ وہ مختلف لوگوں سے ایک ہی بات مختلف مفہوم اور مذموم مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے اسے ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر لوگوں کو میری بات کی اصلیت کا پتہ چل گیا تو میں ہر طرف سے ذلیل اور لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوجاؤں گا۔ یہ خوف اسے ہر وقت بےچین رکھتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کی یہی حالت تھی وہ ہر وقت ڈرے اور سہمے رہتے تھے کہ نہ معلوم اللہ کے رسول پر کب وحی نازل ہوجائے جس میں ہماری سازشوں کو طشت ازبام کردیا جائے اور ہماری باتوں کی قلعی کھول دی جائے۔ بالخصوص غزوۂ تبوک کے موقع پر انھوں نے مسلمانوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ یہ ہیں وہ جیالے جو سلطنت روما کو فتح کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک کہتا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کل رومی جرنیل اچھی طرح ان کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پہنائے۔ دوسرا کہنے لگا مزا تو یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کی پیٹھوں پر کوڑے برستے ہوئے دیکھیں۔ اسی طرح وہ قرآن مجید کی پیش گوئیوں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ات کو استہزا کا نشانہ بناتے۔ جب ان کی باتیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچتیں اور آپ کبھی کبھار ان کی تفتیش کرتے تو یہ لوگ جھوٹا حلف دے کر کہتے کہ ہم تو دل لگی اور شغل کے طور پر باتیں کر رہے تھے۔ اس پر انھیں ڈانٹا گیا ہے کہ تم کس قدر ناعاقبت اندیش ہو کہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو ؟ جب تم سے پوچھا جاتا ہے تو مختلف قسم کے بہانے بنا کر معذرت کرتے ہو۔ اب تمہاری معذرتوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تم ایمان کے دعویدار ہو کر کفر کا مسلسل ارتکاب کرر ہے ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ تم سے درگزر کرتا ہے لیکن ان لوگوں کو ضرور عذاب دے گا جو سرغنہ ہیں۔ یہاں معاف کردینے کا اشارہ فرما کر چھوٹے منافقین کے لیے ایک دفعہ پھر معافی کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے کردار پر نظرثانی کرسکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو ؟ (رازی) مسائل ١۔ منافق اللہ کی ذات، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے۔ ٢۔ اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کو مذاق کرنا کفر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ایک ایک سرغنہ کو دنیا میں ذلیل کیا اور قیامت کو منافقوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن منافق دین کو کھیل تماشہ سمجھتے ہیں : ١۔ اے ایمان والو ! اہل کتاب اور کفار کی طرح دین کو کھیل تماشہ نہ سمجھ۔ (المائدۃ : ٥٧) ٢۔ جب منافقوں کو نماز کے لیے بلایا جاتا تو اسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥٨) ٣۔ کافروں نے میری آیات اور میرے ڈرانے کو کھیل تماشہ سمجھ لیا۔ (الکہف : ٥٦) ٤۔ ان کافروں کی سزا جہنم ہے جنھوں نے میری آیات اور رسولوں کو مذاق سمجھا۔ (الکہف : ١٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یحذر المنافقون ۔۔۔ کانوا مجرمین (آیت 64 تا 66) یہ آیات تمام منافقین کے عمومی رویے پر تبصرہ ہے کہ وہ اس بات سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں جو کھوٹ ہے اس کے بارے میں کہیں آیات نازل نہ ہوجائیں۔ اور ان کی دلی کیفیات کا انکشاف نہ ہوجائے۔ ان کے راز لوگوں پر کھل نہ جائیں۔ اس موضوع پر کئی روایات میں متعدد واقعات متعین طور پر بھی نقل ہوئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ان آیات کا سبب نزول یہ خاص واقعات ہیں۔ ابو معشر مدینی نے محمد ابن کعب قرظی سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ منافقین میں سے ایک شخص نے یہ کہا کہ میرے خیال میں ہم سے جو لوگ زیادہ قرآن پڑھتے ہیں وہ ہم سے پیٹ کے بارے میں زیادہ لالچی ہیں اور بات میں ہم سے زیادہ جھوٹے ہیں اور جنگ کے وقت بزدل ہیں (ان کا تبصرہ ان لوگوں کے بارے میں تھا جو قاری قرآن تھے) یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی۔ تو یہ منافق رسول اللہ کے پاس پہنچا۔ اس وقت رسول اللہ سفر پر روانہ ہونے کے لیے ناقہ پر سوار ہوگے تھے۔ اس منافق نے کہا رسول خدا ہم تو گپ شپ لگا رہے تھے۔ تو حضور نے فرمایا کیا تم اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول کی بابت گپ شپ لگا رہے تھے۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں قل اباللہ تا کانوا مجرمین اس شخص کے پاؤں پتھر پر رگڑے جا رہے تھے اور رسول اللہ اس کی طرف دیکھ بھی نہ رہے تھے اور یہ شخص رسول اللہ کی تلوار کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ محمد ابن اسحاق نے یہ نقل کیا ہے کہ منافقین کی ایک جماعت تھی جن میں ودیعہ ابن ثابت بنی امیہ کے بھائی ، ولد زید ولد عمرو ، ولد عوف تھے اور ایک شخص مخشی ابن حمیر بھی تھا جو اشجع قبیلے کا فرد تھا اور اشجع بنی سلمہ کا حلیف تھا۔ یہ جماعت حضور کے ساتھ تبوک کی طرف جا رہی تھی۔ ان میں سے بعض نے دوسروں سے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ رومی اس طرح لڑتے ہیں جس طرح عرب عربوں کے ساتھ لڑتے ہیں ؟ خدا کی قسم ہم تو دیکھتے ہیں کہ کل ہم رسیوں میں بندھے ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ایمان کے اندر خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کہتے تھے۔ اس موقع پر مخشی ابن حمیر نے کہا خدا کی قسم میں تو اپنے لی یہ سزا تجویز کرتا ہوں کہ ہم میں ہر شخص کو سو کوڑے مارے جائیں مگر ہمارے بارے میں تمہاری ان باتوں کی وجہ سے قرآن مجید نازل نہ ہوجائے ، مجھ تک جو اطلاعات بھی پہنچی ہیں ، ان میں یہ بھی ہے کہ حضور نے عمار ابن یاسر کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی مدد کو ہنچو یہ تو جہنم رسید ہوگئے ہیں۔ اور ان سے پوچھو کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ اگر وہ انکار کردیں تو پھر بتا دو کہ تم نے تو یہ کہا تھا۔ عمار ان تک گئے اور ان سے یہ بات کی۔ یہ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور معذرت کرنے لگے۔ رسول اللہ اپنی سواری پر بیٹھ چکے تھے اور ودیعہ ابن ثابت پہنچے۔ اس نے سواری کا کجاوا پکڑآ ہوا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم تو گپ شپ لگا رہے تھے۔ مخشی ابن حمیر نے رسول اللہ سے کہا فعد بی اسمی اور اسم ابی چناچہ اس آیت میں جسے معافی ملی وہ مخشی ابن حمیر تھے۔ بعد اس نے اپنا نام عبدالرحمن رکھ دیا تھا۔ اور اس نے خدا سے سوال کیا تھا کہ وہ خدا کی راہ میں اس طرح شہید ہوں کہ اس کا نام و نشان بھی معلوم نہ ہو۔ چناچہ یمامہ کی جنگ میں وہ شہید ہوا اور اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔ ابن منذر ، ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ غزوہ تبوک کے لیے پا بہ رکاب تھے کہ آپ کے ساتھ ایک گروہ منافقین بھی تھا۔ جنہوں نے کہا : کیا یہ شخص یہ امید لگائے بیٹھا کہ شام کے محلات اور قلعے اس کے لیے کھل جائیں گے۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے حضور کو اس کی اطلاع دے دی تو حضور نے حکم دیا کہ ان لوگوں کی سواریوں کو روک دو ۔ حضور نے ان لوگوں سے جا کر دریافت کیا کہ کیا تم نے یہ کہا ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ہم تو ہنسی مذاق کر رہے تے تو ان کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ہم ہنسی مذاق کر رہے تھے یعنی جن موضوعات پر وہ بات کر رہے تھے ان کا تو تعلق تو اصل ایمان سے تھا اور یہ ایسے مسائل نہ تھے جن کے بارے میں محض گپ شپ کے انداز میں بات کی جائے۔ قل اباللہ وایاتہ ورسولہ کنتم تستہزءون (کیا تم اللہ ، اس کے رسول اور اس کی آیات کے بارے میں ہنسی مذاق کرتے ہو) چونکہ انہوں نے ایک عظیم جرم کا ارتکاب کیا تھا ، اس لیے ان پر کفر کا فتوی صادر ہوا کہ انہوں نے کفریہ کلمات کہے ہیں۔ اور ایمان کے اظہار کے بعد انہوں نے کفر کیا ہے۔ چناچہ ان کو خوفناک انجام سے ڈرایا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ جلدی توبہ کرلیں اور صحیح ایمان لے آئیں تو یہ عذاب ان سے ٹل بھی سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ نفاق پر قائم رہے اور بدستور استہزائیہ انداز ان کا باقی رہا تو وہ عذاب کے مستحق ہوں گے کیونکہ انہم کانوا مجرمین (یہ مجرم تھے)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی مزید شرارتوں کا تذکرہ منافقوں کی شرارتیں جاری رہتی تھیں۔ ان میں سے جو لوگ غزوۂ تبوک کے لیے جانے والے مسلمانوں کے ساتھ سفر میں چلے گئے تھے (جن میں اہل نفاق کے لیے جاسوسی کرنے والے بھی تھے) انہوں نے طرح طرح سے تکلیفیں دیں اور برے منصوبے بنائے۔ منافقین کی عادت تھی کہ آپس میں مل کر اسلام اور داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل اسلام کے خلاف باتیں کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی انہیں یہ ڈر بھی لگا رہتا تھا کہ قرآن میں کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو ہمارے دلوں کی باتوں کو کھول دے۔ ان کی نیتوں، باتوں اور ارادوں کو سورة توبہ میں بیان فرمایا ہے۔ حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا کہ اس سورت کا ایک نام سورة الفاضحہ بھی ہے کیونکہ اس میں منافقوں کے بھیدوں اور حالوں کو خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ منافقین آپس میں چپکے چپکے اسلام کے خلاف باتیں کرتے رہتے تھے اور رسوائی سے ڈرتے بھی رہتے تھے لیکن اپنی بےہودگیوں سے باز نہیں آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (قُلِ اسْتَھْزِءُ وْا) تم مذاق بنا لو، یہ لوگ ایک ١ ؂ د ن آپس میں یوں کہہ رہے تھے کہ یہ شخص اس بات کی امید رکھتا ہے کہ ملک شام کے محلات اور قلعے اس کے لیے فتح ہوجائیں گے یہ تو کبھی بھی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی ان باتوں کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دے دی۔ آپ نے صحابہ (رض) سے فرمایا ان لوگوں کو روک لو۔ جب آپ ان کے پاس پہنچ گئے تو ان سے فرمایا تم نے ایسا ایسا کہا ہے اس پر انہوں نے اقرار تو کرلیا لیکن بات بناتے ہوئے عذر پیش کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ تو یوں ہی زبانی باتیں تھی۔ جو آپس میں دل لگی کے طور پر ہو رہی تھیں۔ سفر کی مسافت طے کرنے کے لیے کچھ باتیں ہونی چاہئیں لہٰذا یوں ہی وقت گزاری کے طور پر ہم ایسی باتیں کر رہے تھے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِءُ وْنَ ) (آپ فرما دیجیے کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ تم ہنسی کر رہے تھے) یہ تو عذر گنا بد تر از گناہ ہے۔ دل لگی اور وقت گزارنے کے لیے کیا اور کوئی بات نہ تھی۔ اس کے لیے اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کا مذاق ہی رہ گیا تھا۔ (لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ) تم عذر پیش نہ کرو کیونکہ جو عذر پیش کیا ہے وہ عذر نہیں ہے۔ وقت گزاری کی ضرورت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا مذاق بنانا جائز نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا مذاق بنانا تو کفر ہے تم ظاہری طور پر کہتے تھے کہ ہم مومن ہیں۔ اول تو یہ بھی جھوٹ تھا۔ لیکن اب تو اپنے اقرار سے ظاہری طور پر بھی کافر ہوگئے اندر سے تو پہلے ہی کافر تھے، زبانی طور پر جو ایمان کا دعویٰ تھا اس کے بارے میں فرمایا (قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ) پھر فرمایا (اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآءِفَۃٍ مِّنْکُمْ ) اگر ہم تم میں سے بعض کو اسلام قبول کرنے کی سعادت سے مالامال کر کے معاف کردیں گے اور کفریہ باتوں سے در گزر کردیں گے۔ (نُعَذِّبْ طَآءِفَۃً بِاَنَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ ) (تو ایک جماعت کو عذاب دیں گے، کیونکہ وہ مجرم تھے) یہ لوگ مجرم ہی رہیں گے اور آخر دم تک اسلام قبول نہ کریں گے۔ منافقین میں سے جن لوگوں نے توبہ کی اور پکے مسلمان ہوئے ان میں محنی بن حمیر کا نام لیا جاتا ہے انہوں نے اپنا نام عبدالرحمن رکھ لیا تھا اللہ تعالیٰ سے دعاء کی تھی کہ شہادت نصیب ہو اور قتل کا پتہ بھی نہ چلے۔ چناچہ غزوۂ یمامہ میں ان کی شہادت ہوگئی، نہ قاتل کا پتہ چلا نہ مقتول کا، اور ان کی کوئی خیر و خبر نہ ملی۔ (درمنثور ص ٢٥٤ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:“ یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ الخ ” ان منافقوں کو یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ مبادا ان کے بارے میں آیتیں نازل ہوجائیں اور ان کے دلی نفاق اور کفر وعناد کو ظاہر کر کے ان کو ذلیل ورسوا کردیں۔ “ قُلِ اسْتَھْزِءُوْ ” یہ امر تہدیدی ہے “ مخرج اي مظھر ” ، “ مَا تَحْذَرُوْنَ ” سے ان کا نفاق مراد ہے جس کے ظاہر ہوجانے کا ان کو ڈر تھا۔ یعنی اسلام اور پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑا لو کہاں تک اڑاؤ گے آخر اللہ تعالیٰ تمہارے دلی کفر ونفاق اور عناد کو ظاہر کر ہی دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64 منافق اس بات کا اندیشہ کرتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نہ نازل ہوجائے جو ان کو ان منافقین کے مانی الضمیر سے آگاہ کردے اور جو کچھ ان منافقوں کے دل میں ہے اس سے مسلمانوں کو باخبر کردے آپ کہہ دیجئے کہ اچھا تم استہزا اور مذاق اڑاتے رہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو ظاہر کرکے رہے گا۔ معلوم ہوگیا کہ خفیہ طور پر دین حق کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔