Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 65

سورة التوبة

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۶۵﴾

And if you ask them, they will surely say, "We were only conversing and playing." Say, "Is it Allah and His verses and His Messenger that you were mocking?"

اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے ۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hypocrites rely on False, Misguided Excuses Allah said, وَلَيِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّهِ وَايَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِوُونَ If you ask them (about this), they declare: "We were only talking idly and joking." Say: "Was it at Allah, and His Ayat and His Messenger that you were mocking!" Abdullah bin Umar said, "During the battle of Tabuk, a man was sitting in a gathering and said, `I have never seen like these reciters of ours! They have the hungriest stomachs, the most lying tongues and are the most cowardice in battle.' A man in the Masjid said, `You lie. You are a hypocrite, and I will surely inform the Messenger of Allah.' This statement was conveyed to the Messenger of Allah and also a part of the Qur'an was revealed about it."' Abdullah bin Umar said, "I have seen that man afterwards holding onto the shoulders of the Messenger's camel while stones were falling on him, declaring, `O Allah's Messenger! We were only engaged in idle talk and jesting,' while the Messenger of Allah was reciting, أَبِاللّهِ وَايَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِوُونَ 'Was it at Allah, and His Ayat and His Messenger that you were mocking."' Allah said,

مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے ۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے ۔ ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا ۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے ۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت عمار نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی ، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں ۔ پس اس سے جناب باری نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہد کر دیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی رضی اللہ عنہ ورضاء ۔ ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہوگئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے ۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا ۔ جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملاکہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہوگئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی ۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 منافقین آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے، مومنین کا استہزا کرتے حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے سے گریز نہ کرتے جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے بعض مسلمانوں کو اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوجاتی۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہنسی مذاق کے لئے کیا تمہارے سامنے اللہ اور اس کی آیات و رسول ہی رہ گیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اگر مقصد تمہارا آپس میں ہنسی مذاق کا ہوتا تو اس میں اللہ، اس کی آیات و رسول درمیان میں کیوں آتے، یہ یقینا تمہارے اس خبث اور نفاق کا اظہار ہے جو آیات الٰہی اور ہمارے پیغمبر کے خلاف تمہارے دلوں میں موجود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] منافقوں کی دل لگی کا موضوع ؟ غزوہ تبوک میں منافقین کی ایک جماعت بھی شامل تھی۔ جنہیں چار و ناچار ساتھ جانا پڑگیا تھا۔ مگر راستہ میں بھی انہیں شرارتیں ہی سوجھتی رہیں اور ایسی باتیں کرنے لگے جس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ مثلاً ایک نے کہا : یہ مسلمان بھی عجیب غلط فہمی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم مکہ کے قریش پر غالب آگئے ہیں تو قیصر روم کا مقابلہ کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہیں حالانکہ روم وہ عظیم طاقت ہے جو کسریٰ کو بھی شکست دے چکا ہے اور اس وقت اس کا طوطی بول رہا ہے۔ دوسرا کہنے لگا میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم سب جکڑ بند کر کے قید کردیئے جائیں گے اور شاید ان کے ہاتھوں ہماری بڑی سخت پٹائی بھی ہو۔ پھر کبھی انہیں یہ خیال بھی آنے لگتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ ہماری ان باتوں پر اور دلوں کے حالات پر وحی کے ذریعہ مطلع کر دے۔ چناچہ ان کا یہ خطرہ سچ ثابت ہوا۔ اور جب آپ کو فی الواقع بذریعہ وحی ان لوگوں کے حالات سے مطلع کیا گیا تو آپ نے انہیں بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے : ہم تو یہ باتیں اس طویل سفر میں محض دل بہلاوے کے طور پر کر رہے تھے سنجیدگی سے نہیں کر رہے تھے۔ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ کیا تمہیں اس دل بہلاوے اور ہنسی مذاق کے لیے ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول کی سبکی ہوتی ہو اور اسلام کی سربلندی کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہو ؟ اور کوئی بات تمہیں دل بہلاوے کے لیے نہیں سوجھتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ : منافق آپس میں گپیں لگاتے ہوئے اللہ، اس کے رسول اور آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی ذریعے سے یا وحی الٰہی سے اطلاع ہوتی اور آپ پوچھتے تو وہ کہتے ہم تو یوں ہی راستہ کاٹنے کے لیے شغل کی باتیں اور دل لگی کر رہے تھے۔ فرمایا ان سے کہیے کہ تمہارے آپس کے شغل اور دل لگی کا اللہ اور اس کے رسول اور اس کی آیات کے ساتھ مذاق سے کیا تعلق اور کیا دل لگی کے لیے تمہیں یہی ملے ہیں ؟ وہ لوگ بار بار معذرت کرتے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی فرماتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ۝ ٠ ۭ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۝ ٦٥ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ خوض الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث : تفاوضوا . ( خ و ض ) الخوض ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کلمہ کفر مذاق میں بھی نہیں کہنا چاہیے قول باری ہے ولئن سالتھم لیقولن انما کنا نخوض ونلعب اگر تم ان سے پوچھیو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے تو جھٹ کہہ دیں گے ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے تا قول باری ان نعف عن طائفۃ منکم نعذب طائفۃ بانھم کانوا مجرمین اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے ۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ اکراہ اور جبر کی صورت کے سوا کلمہ کفر کے اظہار کے لحاظ سے دل لگی کے طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ اس کلمے کو زبان پر لانے والوں کا حکم یکساں ہے۔ اس لیے کہ ان منافقین نے یہ کہا تھا کہ انہوں نے ہنسی مذاق اور دل لگی کے طور پر یہ باتیں کہی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس طور پر کلمہ کفر بکنے کی بنا پر انہیں کافر قرار دیا تھا۔ حسن سے مروی ہے کہ انہوں نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر کہا تھا کیا یہ شخص ارشاد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کر طرف ہے شام کے محلات اور وہاں کے قلعے فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے ؟ یہ بڑی دور کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دے دی اور یہ بتادیا کہ انہوں نے ان کلمات کا اظہار کر کے کفر کیا ہے خواہ انہوں نے یہ باتیں سنجیدگی سے کہی ہیں یا دل لگی کے طور پر یہ امر اس دلالت کرتا ہے کہ کلمہ کفر کے اظہار کے لحاظ سے دل لگی کرنے والے اور سنجیدہ شخص دونوں کا حکم یکساں ہے ، نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے دین کے احکام کا مذاق اڑانا کفر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر استہزاء کے بارے میں آپ ان سے پوچھیں تو کہہ دیں گے کہ ہم تو ویسے ہی سواروں کی باتیں کررہے تھے اور آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے۔ اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم اس استہزاء پر عذر مت کرو تم تو خود اپنے آپ کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے اگر ہم جہیر بن حمیر کو معاف کردیں کیوں کہ اس نے خود ان کے ساتھ استہزاء نہیں کیا بلکہ ہنسا ہے تو ودیعۃ بن جزام اور جدی بن قیس کو ضرور سزا دیں گے کیوں کہ وہ تو پکے مشرک ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ولئن سالتہم “۔ (الخ) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا کہ غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک دن ایک مجلس میں کہا کہ میں نے ان مہمانوں جیسا اور نہ ان سے زیادہ خواہش والا اور نہ ان سے زیادہ جھوٹا اور نہ ان سے زیادہ دشمن کے مقابلے کے وقت بزدل کسی کو دیکھا ہے ایک شخص نے یہ سن کر کہنے لگا تو جھوٹا ہے اور یقیناً تو منافق ہے میں تیرے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کروں گا چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوگئی اور اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوگئی ، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے پیچھے لٹکا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ کیا تم لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی کرتے تھے۔ اس کے بعد دوسرے طریقہ پر حضرت ابن عمر (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس روایت میں اس منافق کا نام عبداللہ بن ابی بیان کیا ہے نیز کعب بن مالک (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ مخشی بن حمیر نے کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے سو سو کوڑے لگانے کا فیصلہ کیا جائے تاکہ ہمیں اس بات سے نجات مل جائے کہ ہمارے بارے میں کوئی حکم قرآنی نازل ہو چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی اطلاع ہوگئی تو یہ منافقین عذر پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تم اب عذر مت کرو، تو ان لوگوں میں سے مخشی بن حمیر کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، چناچہ اس کا نام عبدالرحمن رکھا گیا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے شہادت نصیب ہو اور میری شہادت کی جگہ کا کسی کو علم نہ ہو، چناچہ جنگ یمامہ میں وہ مارے گئے نہ ان کی شہادت کی جگہ کا علم ہوسکا اور نہ یہ معلوم ہوسکا کہ کس نے انکو شہید کیا ہے۔ نیز ابن جریر (رح) نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ کچھ منافقین نے غزوہ تبوک میں کہا کہ یہ شخص (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاہتے ہیں کہ شام کے قلعے اور محلات فتح ہوجائیں، کیسی نازیبا بات ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس بات پر مطلع کردیا، چناچہ یہ منافقین آپ کی خدمت میں آئے آپ نے فرمایا تم نے ایسی ایسی بات کی ہے وہ کہنے لگے کہ ہم تو محض ہنسی مذاق کررہے تھے چناچہ ان کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ منافقین جو آئے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ‘ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں ان سے باز پرس کریں تو فوراً کہیں گے کہ ہماری گفتگو سنجیدہ نوعیت کی نہیں تھی ‘ ہم تو ویسے ہی ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ (قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ ‘ وْنَ ) تو کیا اب ع بازی بازی با ریش با با ہم بازی ! کے مصداق اللہ ‘ اس کی آیات اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تمہارے استہزاء اور تمسخر کا تختۂ مشق بنیں گے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :73 غزوہ تبوک کے زمانہ میں منافقین اکثر اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور اپنی تضحیک سے ان لوگوں کی ہمتیں پست کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں وہ نیک تینی کے ساتھ آمادہ جہاد پاتے ۔ چنانچہ روایات میں ان لوگوں کے بہت سے اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ مثلا ایک محفل میں چند منافق بیٹھے گپ لڑا رہے تھے ۔ ایک نے کہا”اجی کیا رومیوں کو بھی تم نے کچھ عربوں کیطرح سمجھ رکھا ہے؟ کل دیکھ لینا کہہ سب سورما جو لڑنے تشریف لائے ہیں رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے ۔ “ دوسرا بولا”مزا ہو جو اوپر سے سو سو کوڑے بھی لگانے کا حکم ہو جائے؟“ ایک اور منافق نے حضور کو جنگ کی سرگرم تیاریاں کرتے دیکھ کر اپنے یار دوستوں سے کہا”آپ کو دیکھیے ، آپ روم و شام کے قلعے فتح کرنے چلے ہیں“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٥۔ ٦٦۔ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور قتادہ سے جو شان نزول ان آیات کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں ایک جماعت منافقین کی تھی کبھی تو وہ آنحضرت کی شان میں خفیہ طور پر بدگوئی کرتے رہے اور کبھی قرآن شریف کی شان میں کچھ کچھ کہتے تھے اور جب ان سے دریافت کیا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے تھے کہ ہم تو اور آپس کی باتیں کر رہے تھے ان کا حال ظاہر ہوجانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں تفسیر ابن مردو یہ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور قتادہ کی جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافق لوگ تبوک کے سفر میں لشکر السلام کے ساتھ تھے اور انہوں نے اپنی عادت کے موافق لشکر اسلام میں کمزوری پھیلانے اور دین اسلام میں رخنہ ڈالنے کی بہت سی باتیں خفیہ طور پر آپس میں کیں کوئی کہتا تھا جن لوگوں سے ہم لڑنے کو جا رہے ہیں اندازے سے تو یہ معلوم ہوتا کہ وہ لوگ ہم کو قید کر کے اور ہاتھ پیر رسیوں سے باندھ کر ڈال دیویں گے کوئی کہتا تھا کہ اگرچہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے کہ کبھی نہ کبھی روم کے ملک پر اہل اسلام کا قبضہ ہوجاویگا مگر ہم کو تو اس کا یقین نہیں آتا کوئی کہتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لئے کافی بتلاتے ہیں لیکن ہم کو تو قرآن اللہ کا کلام نہیں معلوم ہوتا ان لوگوں کی ان باتوں پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے اگر تم ان باتوں کا حال منافقوں سے دریافت کر دو گے تو یہ لوگ صاف کہہ دیں گے کہ مسافر لوگ رستہ کٹ جانے کی غرض سے جس طرح راستہ میں دل لگی کی باتیں کرتے ہیں ہم تو اس طرح آپس میں دل لگی کی باتیں کر رہے تھے لیکن ان لوگوں کا یہ عذر بالکل غلط ہے دل لگی کے لئے دنیا کی اور ہزاروں باتیں تھیں کیا یہی لشکر اسلام میں کمزوری پھیلانے اور دین اسلام میں رخنہ ڈالنے کی باتیں ان کے دل لگی کے لئے دنیا میں تھیں یہ لوگ ظاہری اسلام جو جتلاتے تھے ان باتوں کے منہ سے نکالنے کے سبب سے اب وہ بات بھی جاتی رہی کیونکہ ان باتوں کے منہ سے نکالنے سے یہ لوگ ظاہر و باطن سب طرح کافر ہوگئے۔ اب آخر کو فرمایا کہ علم آلہی کے موافق جو لوگ ان میں کے خالص دل سے توبہ کرلیں گے تو ان کے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور جو لوگ اس منافقانہ حالت پر مرجاویں گے وہ اپنے ظاہری اسلام سے پہلے اور ظاہری اسلام سے پچھلے سب اعمالوں کی سزا بھگتیں گے صحیح مسلم میں عمرو بن العاص (رض) کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلام لانے سے ہر شخص کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص خالص دل سے اسلام میں داخل ہو کر ظاہر و باطن سب طرح سے اسلامی احکام کا پابند ہوگا اسلام نہ لانے کے سبب سے ایسے شخص کے پچھلے سب گناہوں کا وبال عقبیٰ میں بھگتنا پڑے گا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلک اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر لگی رہتی ہے کہ نیک کام کرتے وقت انسان کے دل میں کسی طرح کی کھوٹ تو نہیں ہے تو نہیں ہے ان حدیثوں کو ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ آیتوں میں جن منافقوں کا ذکر ہے ان میں سے جتنے شخصوں نے منافق پن کو چھوڑ کر خالص دل سے ظاہر و باطن ہر طرح اسلام کی پابندی اختیار کی ان کو توبہ اور آئندہ کے خالص اسلام نے فائدہ پہنچایا اور ان میں کے جو لوگ دل میں کھوٹ رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان جتلاتے تھے اللہ تعالیٰ کی نظر ان کے دل پر ہی پڑی اس لئے جہاد میں ان کا لشکر اسلام کے ساتھ رہتا اور اوپرے دل سے ارکان اسلام کا بجالانا ان لوگوں کے کچھ کام نہ آیا عمر وبن العاص (رض) کی روایت کو عبداللہ (رض) بن مسعود کی روایت سے ملایا جاوے تو یہ مطلب بھی اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بغیر خالص دل کے اسلام لانے کے پچھلے گناہ معاف نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:65) نحوض۔ مضارع جمع متکلم خوض مصدر۔ (باب نصر) ہم تو شغلا کہہ رہے تھے۔ خوض کے اصل معنی ہیں گھسنا۔ قرآن میں اس کا استعمال قابل ذم کام کو مشغلہ بنانے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے ہے غور وخوض۔ یعنی کسی معاملہ کی تہ تک پہنچنے اور اس کے اندر گھس کر حقیقت معلوم کرنا۔ نلعب۔ مضارع جمع متکلم لعب مصدر۔ (باب سمع) ہم خوش طبعی اور دل لگی کر رہے تھے۔ کنتم تستھزؤن۔ تم ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ ماضی استمراری جمع مذکر حاضر ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 تبوک جاتے ہوئے کچھ منافقین بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو لئے تھے لیکن راستے میں موقع بےموقعہ اللہ و رسول پر پھبتیاں کستے رہتے تھے، ایک موقع پر ان میں سے یک شخص کہنے لگا، اس شخص کہنے لگا۔ اس شخص کو دیکھو ( یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شام کے رومی قلعے فتح کرنا چاہتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ دوسرا بو لا کیا رومیوں کو بھی اس نے عربوں کی طرح کمزور سمجھ رکھا ہے۔ ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی باتوں سے مطلع فرمادیا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں َ ؟ وہ کہنے لگے۔ ہم تو یو نہی راستہ کا ٹنے کے کے گپ بازی اور اسنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے، امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ اس آیت کی شان نزول میں بھی اس قسم کی روایات مروی ہیں۔ مگر آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ انہوں نے طعن و استہزا کے طور پر کوئی بات کہی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کو گپ بازی کا عنوان دے دیا۔ ( کبیر۔ ابن کثیر)3 وہ لوگ بار بار معذرت کرتے۔ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی فرماتے رہے۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:“ وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ الخ ” اس میں ان منافقین کا ذکر ہے جو ازروئے نفاق غزوہ تبوک میں شریک ہوئے مگر دوران سفر میں بھی شرارت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا راستے میں کچھ منافقینحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے آگے جا رہے تھے آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ شخص (حضور (علیہ السلام) کی طرف اشارہ تھا) ملک شام کے محلات اور روم کے قلعے فتح کرنیکے خواب دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی سے اس گفتگو کی آپ کو اطلاع دیدی آپ نے ان کو روک کر فرمایا تم یہ باتیں کر رہے تھے تو صاف مکر گئے اور کہنے لگے نہیں یا نبی اللہ ہم تو محض دل لگی کی خاطر ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے۔ ان کا یہ جواب صریح جھوٹ تھا اس لیے اس کو کوئی وقعت نہ دے کر اللہ نے فرمایا، ان سے کہو، ظالمو ! تم اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی اور استہزاء کرتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 اور اگر آپ ان سے اس استہزاء پر باز پرس کریں اور ان سے جواب طلب کریں تو یہ کہہ دیں گے ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے آپ کہہ دیجئے کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی کرتے تھے۔ یا تو کسی خفیہ مجلس کا واقعہ ہے یا تبوک کے سفر میں جو منافقوں نے رخنہ اندازی کی غرض سے سازش کی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔