Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 67

سورة التوبة

اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ بَعۡضُہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡکَرِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَقۡبِضُوۡنَ اَیۡدِیَہُمۡ ؕ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمۡ ؕ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۶۷﴾

The hypocrite men and hypocrite women are of one another. They enjoin what is wrong and forbid what is right and close their hands. They have forgotten Allah , so He has forgotten them [accordingly]. Indeed, the hypocrites - it is they who are the defiantly disobedient.

تمام منافق مرد و عورت آپس میں ایک ہی ہیں یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا بیشک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Other Characteristics of Hypocrites Allah says; الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ... The hypocrites, men and women, are one from another; Allah admonishes the hypocrites who, unlike the believers, who enjoin righteousness and forbid evil, ... يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ... they enjoin evil, and forbid the good, and they close their hands, from spending in Allah's cause, ... نَسُواْ اللّهَ ... They have forgotten Allah, they have forgotten the remembrance of Allah, ... فَنَسِيَهُمْ ... so He has forgotten them. by treating them as if He has forgotten them. Allah also, وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَأءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا And it will be said: "This Day We will forget you as you forgot the meeting of this Day of yours. (45:34) Allah said, ... إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ Verily, the hypocrites are the rebellious! the rebellious from the way of truth who embrace the wicked way,

ایک کے ہاتھ نیکیوں کے کھیت دوسرے کے ہاتھ برائیوں کی وبا منافقوں کی حصلتیں مومنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں ۔ مومن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں ۔ مومن سخی ہوتے ہیں منافق بخیل ہوتے ہیں ۔ مومن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ۔ منافق یاد الٰہی بھلائے رہتے ہیں ۔ اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا کہ تم ہم تمہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے ۔ منافق راہ حق سے دور ہوگئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں ۔ ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے ۔ وہاں کا عذاب انہیں بس ہوگا ۔ انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کر چکا ہے اور ان کے لئے اس نے دائمی اور مستقل عذاب رکھے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ' ہم تم ہی میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق ؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کف و نفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ 67۔ 2 اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ 67۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے ' مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] منافق امر تو منکرات کا کرتے ہیں اور نہی اوامر کی :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتاب و سنت میں اتنی زیادہ تاکید آئی ہے جس سے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض کفایہ کے بجائے فرض عین سمجھ لیا ہے اور یہ منافق لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں سب اس اہم فریضہ کے برعکس کام کرتے ہیں۔ کوئی برائی کی بات ہو، کفر و شرک کا معاملہ ہو یا اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا، ان کے دل فوراً ادھر مائل ہوجاتے ہیں اور اس میں ہر طرح سے امداد و تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں اور ایسے کاموں میں ان کے دلوں کو اطمینان اور راحت ملتی ہے اور جب کوئی اچھا کام ہو رہا ہو یا دین کی سربلندی کا معاملہ درپیش ہو تو ایسی خبر سنتے ہی ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسی تدبیروں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ یا تو وہ کام شروع ہی نہ ہو اور اگر ہوچکا ہے تو تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ [٨١] یعنی وہ رسم ورواج، دکھلاوے اور حرام کاموں میں تو اپنے دل کی خوشی سے اور فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جب جہاد کے لیے یا کسی بھی بھلے کام کے لیے چندہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے دلوں میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے اور کوئی چیز ہاتھوں سے نکالنے کو جی نہیں چاہتا۔ [٨٢] بھلانے کی نسبت اللہ کی طرف :۔ اللہ کا بھلانا یہ ہے کہ اس نے ان منافقوں کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کردیا اور اس کے بجائے سب مسلمانوں کی نظروں میں اللہ نے ذلیل و رسوا بنادیا۔ نیز عرب میں محاورہ یہ ہے کہ کسی چیز کے بدلے پر بھی اس کا نام بول دیتے ہیں۔ اور اسے مشا کلہ کہتے ہیں جیسے ( يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۝ۭ ) 2 ۔ البقرة :9) (وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور اللہ انہیں ان کے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے) اب اللہ نے اپنے بھلانے کی جو جو سزا بھی مقرر کر رکھی ہے۔ ان سب سزاؤں پر اس لفظ کا اطلاق ہوگا۔ جیسا کہ ان سزاؤں کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں کردی ہے یعنی اللہ کے بھلانے سے مراد ان پر اللہ کی پھٹکار اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ : یعنی منافق مرد ہوں یا عورتیں سب ایک جیسے ہیں اور سب کی ایک جیسی عادات اور بدخصلتیں ہیں، وہ برے کام کا حکم دیں گے، اچھے کام سے روکیں گے اور بخل کی وجہ سے اپنے ہاتھ بند رکھیں گے، یعنی خرچ نہیں کریں گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے انھیں بھلا دینے کا ذکر ان کے اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کے مقابلے میں فرمایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے یہی سلوک کیا کہ ان کی پروا ہی نہیں فرمائی، بلکہ انھیں اپنے فضل و کرم سے محروم کردیا۔ اس تاویل کی ضرورت اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی نقل فرمایا : (لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى) [ طٰہٰ : ٥٢ ] ” میرا رب بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ “ معلوم ہوا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی بھولنے کی طرف نسبت صرف لفظ کے ہم شکل ہونے تک ہے، ورنہ وہ ذات پاک بھولنے سے ہر طرح پاک ہے ۔ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ : یعنی فسق (نافرمانی) میں حد کمال تک پہنچ چکے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بےاعتقاد کی صلاحیت کیا معتبر ہے، اسے فاسق ہی کہنا چاہیے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first verse begins with a profile of the hypocrites. One of the expressions used there: يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ (and they withhold their hands) has been explained in Tafsir al-Qurtubi as abandonment of Jihad and non-compliance of obligatory rights and duties. Then, the sentence that follows: نَسُوا اللَّـهَ فَنَسِيَهُمْ literally means ` they forgot Allah, so He forgot them.& But, Allah Ta` ala is free of forgetfulness. So, the sense at this place is: ` those people had abandoned the commandments of Allah, as if they had forgotten it, therefore, Allah too abandoned their prospects of better life in the Hereafter, to the extent that there remained just no trace of any good, or reward, in their name.&

خلاصہ تفسیر منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک طرح کے ہیں کہ بری بات کی ( یعنی کفر و مخالفت اسلام کی) تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے ( یعنی ایمان اور اتباع نبوی سے) منع کرتے ہیں اور ( خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے) اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں انھوں نے خدا کا خیال نہ کیا، ( یعنی اطاعت نہ کی) پس خدا نے ان کا خیال نہ کیا ( یعنی ان پر رحمت خاصہ نہ کی) بلا شبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں، اللہ تعالیٰ نے منافق مردوں عورتوں اور ( علانیہ) کفر کرنے والوں سے دوزخ کی آگ کا عہد کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ ان کے لئے ( سزائے) کافی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان کو ( حسب وعدہ مذکور) عذاب دائمی ہوگا ( اے منا فقو ! ) تمہاری حالت ( کفر اور استحقاق جزائے کفر میں) ان لوگوں کی سی ہے جو تم سے پہلے ( زمانہ میں) ہوچکے ہیں جو شدت قوت میں اور کثرت اولاد و اموال میں تم سے بھی زیادہ تھے تو انہوں نے اپنے ( دنیوی) حصے سے خوب فائدہ حاصل کیا سو تم نے بھی اپنی ( دنیوی) حصہ سے خوب فائدہ حاصل کیا جیسا تم سے پہلے لوگوں نے اپنے ( دنیوی) حصہ سے فائدہ حاصل کیا تھا، اور تم بھی ( بری باتوں میں ایسے ہی گھسے جیسے وہ لوگ ( بری باتوں میں) گھسے تھے، ان لوگوں کے اعمال ( حسنہ) دنیا اور آخرت ( سب) میں ضائع ہوگئے ( کہ دنیا میں ان اعمال پر بشارت ثواب نہیں، اور آخرت میں ثواب نہیں) اور ( اسی حبط فی الدنیا والاخرة کی وجہ سے) وہ لوگ بڑے نقصان میں ہیں ( کہ دارین میں مسرت اور راحت سے محروم ہیں، پس اسی طرح تم بھی ان کی طرح کفر کرتے ہو تو انہی کی طرح خائب و خاسر ہوگے، اور جیسا ان کے اموال و اولاد ان کے کام نہ آئے تم تو ان چیزوں میں ان سے کمہو، تمہارے بدرجہ اولی کام نہ آویں گے، یہ تو ضرر آخرت کی وعید ہوئی، آگے احتمال ضرر دنیا کے ذکر سے متنبہ فرماتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کو ان ( کے عذاب و ہلاک) کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے ہوئے ہیں، جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیاں ( یعنی قرٰی قوم لوط) کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر صاف نشانیاں ( حق کی) لے کر آئے ( لیکن نہ ماننے سے برباد ہوئے) سو ( اس بربادی میں) اللہ تعالیٰ نے تو ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ( اسی طرح ان منافقین کو بھی ڈرنا چاہئے ) ۔ معارف و مسائل مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں منافقین کا ایک حال یہ بتلایا کہ وہ اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں، (آیت) يَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ، تفسیر قرطبی میں ہے کہ ہاتھ بند رکھنے سے مراد ترک جہاد اور حقوق واجبہ کا ادا نہ کرنا ہے، (آیت) نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ، اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو بھلا دیا، اللہ تعالیٰ تو نسیان اور بھول سے پاک ہیں، مراد اس جگہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے احکام کو اس طرح چھوڑ دیا جیسے بھول گئے ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ثواب آخرت کے معاملہ میں ان کو ایسا ہی کر چھوڑا کہ نیکی اور ثواب میں کہیں ان کا نام نہ رہا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝ ٠ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۝ ٠ ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٦٧ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے مُنْكَرُ والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے المنافقوں المنافقات بعضھم من بعض منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کی نسبت بعض کی طرف اس بنا پر کی ہے کہ نفاق پر ان سب کا اجتما ع اور ایکا ہے۔ اس لیے نفاق کا رویہ اختیار کرنے ، بھلائی سے روکنے اور برائی کا حکم دینے میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنے کی بنا پر یہ سب ہم رنگ اور ہم شکل ہیں ۔ جس طرح منجملہ مشابہت کی بناء پر ایک چیز کے بعض حصے کو ایک چیز کی طرف مضاف کردیا جاتا ہے۔ قول باری ہے ویقبضون ایدیھم اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں ۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہ خیر اور نیکی سے رکھتے ہیں ۔ یہ مراد لینا درست ہے کہ انہوں نے ان تمام مذکورہ بالا نیکیوں سے اپنے ہاتھ روک لیے تھے آیت کے لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے۔ قول باری ہے نسو اللہ فنسیھم یہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے اوامرکو اور ان پر عمل کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ ان کے نزدیک اللہ کے اوامربھولی بسری باتیں بن گئیں ، اس لیے کہ انہوں نے کے کسی حصے پر عمل نہیں کیا جس طرح بھلائی ہوئی چیز پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ قول باری فنسیھم کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم کردیا ۔ اللہ نے انہیں گناہ کے نام سے موسوم کیا اس لیے کہ اپنی رحمت سے اپنی محروم کردینا ان کے گناہ کے بالمقابل تھا اس لیے کہ یہ ان کے گناہ کی سزا اور اس کا بدلہ تھا، یہ مجازی تعبیر ہے جس طرح عربوں کا مقولہ ہے الجزاء بالجزاء اولے کا بدلہ یا جس طرح یہ قول باری ہے وجزاء سیئتۃ سیئۃ مثلھا برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے یا اسی طرح کی اور مثالیں ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) سب منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے طریقے پر ہیں کفر اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی تعلیم دیتے ہیں ایمان اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھوں کو روکتے ہیں، انہوں نے پوشیدگی کے ساتھ اطاعت خداوندی کو چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو دنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں آگ میں ڈال دیا، یقیناً یہ منافق پکے کافر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْم بَعْضٍ ٧ ) ان سب منافقین کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ‘ اندر سے یہ سب ایک ہیں۔ (یَاْمُرُوْنَ بالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ) یعنی اللہ کے احکام کے خلاف یہ لوگ امر با لمنکر اور نہی عن المعروف کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ دوسروں سے ہمدردی جتا کر انہیں نیکی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو اپنے خون پسینے کی کمائی کواِدھر ادھر مت ضائع کرو ‘ بلکہ اسے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سنبھال کر رکھو۔ (وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ ط) یعنی اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :75 یہ تمام منافقین کی مشترک خصوصیت ہے ۔ ان سب کو برائی سے دلچسپی اور بھلائی سے عداوت ہوتی ہے ۔ کوئی شخص برا کام کرنا چاہے تو ان کی ہمدردیاں ، ان کے مشورے ، ان کی ہمت افزائیاں ، ان کی اعانتیں ، ان کی سفارشیں ، ان کی تعریفیں اور مدح سرائیاں سب اس کے لیے وقف ہوں گی ۔ دل و جان سے خود اس برے کام میں شریک ہوں گے ، دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں گے ، کرنے والے کی ہمت بڑھائیں گے ، اور ان کی ہر ادا سے یہ ظاہر ہوگا کہ اس برائی کے پروان چڑھنے ہی سے کچھ ان کے دل کو راحت اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ۔ بخلاف اس کے کوئی بھلا کام ہو رہا ہو تو اس کی خبر سے ان کو صدمہ ہوتا ہے ، اس کے تصور سے ان کا دل دکھتا ہے ، اس کی تجویز تک انہیں گوارا نہیں ہوتی ، اس کی طرف کسی کو بڑھتے دیکھتے ہیں تو ان کی روح بے چین ہونے لگتی ہے ۔ ہر ممکن طریقہ سے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ہر تدبیر سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ اس نیکی سے باز آجائے اور باز نہیں آتا تو اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ پھر یہ بھی ان سب کا مشترک خاصہ کہ نیکی کے کام میں خرچ کرنے کےلیے ان کا ہاتھ کبھی نہیں کھلتا ۔ خواہ وہ کنجوس ہوں یا بڑے خرچ کرنے والے ، بہرحال ان کی دولت یا تو تجوریوں کے لیے ہوتی ہے یا پھر حرام راستوں سے آتی ہے اور حرام ہی راستوں میں یہ جاتی ہے ۔ بدی کے لیے چاہے وہ اپنے وقت کے قارون ہوں مگر نیکی کے لیے ان سے زیادہ مفلس کوئی نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

59: ہاتھوں کو بند رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کنجوس ہیں۔ جہاں خرچ کرنا چاہئے وہاں خرچ نہیں کرتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٧۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تین سو منافق تھے اور ایک سو ستر منافق عورتیں تھیں اللہ پاک نے ان کا حال بیان فرمایا کہ ان کے عمل ایک کے ایک سے مشابہ ہیں کہ یہ لوگ منکر کا حکم کرتے ہیں اور اس کو بجالاتے ہیں منکر اس کام کو کہتے ہیں۔ جو شرعا ناجائز ہوا امر معروف سے باز رہتے ہیں معروف اس کام کو کہتے ہیں جو شرعا پسندیدہ مطلب یہ ہے کہ ان کے کام مومنوں کے برخلاف ہیں مومن بری باتوں سے بچتے ہی اور اچھے کام کرتے ہیں اور یہ لوگ برے کام کرتے ہیں اور اچھے کاموں سے باز رہتے ہیں پھر فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انہوں نے روک رکھا ہے نہ صدقہ دیتے ہیں نہ جہاد میں خرچ کرتے ہیں اور نہ دوسرے نیک کاموں میں اپنا مال اٹھانا گوارا کرتے ہیں ان لوگوں نے خدا کو اپنے دل سے فراموش کردیا ہے خدا بھی انہیں بھول جائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی نظر رحمت سے دور رہیں گے یہ لوگ فاسق ہیں راہ حق کو چھوڑ کر گمراہی کے راستہ میں پڑے ہوئے ہیں ان کا فسق وفجور کامل ہے جو اپنے حال پر جمے ہوئے ہیں۔ معتبر سند سے ابوامامہ (رض) کی روایت مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے ایماندار آدمی کی نشانی پوچھی تھی جس کے جواب میں آپ نے فرمایا نیک کام کر کے جس آدمی کا دل خوش ہو اور برا کام کر کے وہ پچھتاوے ایسا آدمی ایماندار ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ ایماندار شخص کے دل میں عقبیٰ کے ثواب اور عذاب کا پورا یقین ہوتا ہے اس لئے نیک کام کر کے اس کے ثواب کی امید سے اس کا دل خوش ہوتا ہے اور برا کام کر کے عذاب کا خوف اس کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے اس لئے برا کام کرنے کا اسے پچھتاوا ہوتا ہے۔ منافق شخص کے دل میں عقبیٰ کے ثواب اور عذاب کا پورا یقین نہیں ہوتا اس لئے اچھا کام کرنے اور برے کام سے بچنے کی اسے بھی توفیق نہیں ہوتی اور دوسروں کر بھی وہ اپنے رنگ میں ملانا چاہتا ہے غلبہ اسلام کے زمانہ میں منافق وہ لوگ کہلاتے تھے جو مسلمانوں کے ہاتھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچانے کی غرض سے ظاہر میں تو اسلام قبول کرلیتے تھے مگر ان کے دل میں کفر کا اعتقاد جما رہتا تھا اگرچہ دل کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ زمانہ تک یہ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی کے اپنے رسول کو ایسے لوگوں کے دل کا حال بتلا دیا کرتا تھا اب وحی کا زمانہ باقی نہ رہنے کے سبب سے کسی کے دل کا حال تو معلوم نہیں ہوسکتا ہاں ظاہری عملوں میں جو شخص مثلا نماز میں سستی کریگا یا جھوٹ بولے گیا لڑائی جھگڑے کے وقت گالی منہ سے نکالے گایا امانت میں خیانت اس سے ظہور میں آویگی تو ایسے شخص کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شخص عملی منافق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے ظاہری عمل تو منافقوں سے ہیں لیکن اس کے دلی اعتقاد کا حال اللہ کو معلوم ہے صحیح بخاری میں حذیفہ (رض) بن الیمان کی جو یہ روایت ہے کہ منافق پنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک تھا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک اعتقادی منافقوں کا حال بذریعہ وحی کے معلوم ہوجاتا تھا وحی کے زمانہ کے بعد یہ دلی حال کسی کو معلوم نہیں ان حذیفہ (رض) کو منافقوں کا حال خوب تفصیل سے معلوم تھا یہاں تک کہ یہ اس بات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھید کی حدیثوں کا خزانہ مشہور تھے اعتقادی منافق اور عملی منافق میں یہ فرق ہے کہ اعتقادی منافق کافر ہے اور عملی منافق کبیرہ گناہ کا گناہگار ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:67) بعضہم من بعض۔ ای متشابھۃ فی النفاق کا بعاض الشیٔ الواحد۔ یعنی نفاق میں ایک دوسرے کے اس طرح مشابہ ہیں گویا ایک ہیشے کے حصے ہیں گویا ایک ہی کل کے پرزے ہیں۔ یقبضون ایدیہم۔ اپنے ہاتھوں کو بھینچ رکھتے ہیں۔ یعنی صدقات اور خرچ فی سبیل اللہ میں بخیلی سے کام لیتے ہیں۔ نسوا اللہ۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا۔ یعنی اس کے ذکر سے غفلت برتی اور اس کے احکام پر عمل نہ کیا۔ فنسیہم۔ پس اس نے ان کو بھلا دیا۔ یعنی اپنی رحمت اور فضل و کرم سے محروم کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 معلوم ہوا کہ کچھ عورتیں بھی منا فق تھیں۔ ( کبیر)7 اللہ نے انہیں بھلادیا، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و رحمت سے محروم کردیا، اس تاویل کی ضروت اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں بھولنے کی نسبت کرنا منا سب نہیں ہے کیونکہ وہ بھولنے سے پاک ہے۔ ( وحیدی)8 یعنی فسق میں حد کمال تک پہنچ چکے ہیں ( کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : بےاعتقاد کی صلاجیت کیا معتبر اسے فاسق ہی کہنا چاہیے۔ ( مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 67 تا 72 اسرار و معارف انسان مزاجاجل کر رہنے والا ہے اور مدنی الطبع ہے مگر اس میل کا سب سے مضبوط سبب بھی سوچ اور مزاج کی یک رنگی ہے لہٰذا منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اس لئے کہ سب برائی پھیلا تے ہیں اور نیکی کے کاموں کو فضول شمار کرکے ان سے روکتے ہیں اور گویا جہاد اور بقائے دین یا غلبہ اسلام کے لئے تو ان لوگوں نے اپنے ہاتھ کس کر باندھ لئے ہیں اور ان کے دل میں ذرہ برابر اللہ کی یاد نہیں ۔ یہ لوگ اللہ کو بھول ہی چکے ہیں جس کے نتیجے میں اللہ کے ہاں بھی ان کا حال یہ ہے جیسے انھیں بالکل بھلادیا گیا ہو۔ اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ نافرمان ہیں اور بدکر داری کی ہی سزا پا رہے ہیں بلکہ منافق مردو عورت اور کفار کے ساتھ تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان سب کے لئے بہت کافی ہے اس لئے کہ یہ اللہ کے غضب کا مظہر ہے اور رحمت الٰہی سے قطعی محرومی کی دلیل ہے اور پھر اس کا عذاب کفار ومنافقین کے لئے دائمی اور ابدی ہے کبھی ختم نہ ہوگا۔ باہمی رشتوں کا اہم سبب جیسے تمہارے زمانے سے پہلے لوگوں کا رویہ تھا حالانکہ دنیاوی شان ولوگوں سے بہت بڑھ کر تھے پھر وہ ایسی ہی برائیوں میں مبتلا ہوگئے اور جو مہلت ملی تھی اس میں اپنی پسند کے اعمال کرتے رہے تم بھی انہی حرکات میں مبتلاء ہو رہے ہو اور یہی شیطان کا طریقہ ہے کہ اگر کسی کافر نے ایک بہت ہی ناپسندیدہ جملہ کہا یا بہت ہی براکام کیا جس پر غضب الٰہی نے بھڑک کر اسے دنیا وآخرت میں رسوا کردیا تو بعد والوں کے منہ سے وہی جملہ کہلواتا ہے یا ان لوگوں کو بھی ایسے ہی کرتوتوں مبتلا کردیتا ہے ۔ آج کے دور کے اعتراضات سن کر اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں جو ابتدائے اسلام میں کفار ومشرکین نے کہی تھیں لہٰذاتم بھی چندے فائدہ اٹھا لو وقت جو مہلت کاملا ہے اس میں خوش ہو کر دیکھ لو پھر وہی نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا کہ ان کے اعمال دنیا میں بھی کوئی فائدہ نہ دے سکے آخرت کا نقصان تو تھا ہی لہٰذا وہ بہت ہی زیادہ نقصان میں رہے کہ دوعالم کی بھلائی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس میں تنبیہ موجود ہے کہ جو بھی شخص کفار کی حرکات اپنا تا ہے دراصل ہے دراصل اس میں کسی حدتک نفاق کے جراثیم ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے ۔ ان لوگوں نے بھی پہلی قوموں کے حالات یقینا سن رکھے ہوں گے جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم یا غاد اور ثمور کی مشہورقومیں یا ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور ایسے ہی مدین والوں کی معروف بستیاں جو الٹ کر زمین میں دھنسا دی گئی تھیں ۔ ان سب لوگوں نے یہی جرم کیا تھا کہ جب اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے تو اتباع کرنے کی بجائے انکار بھی کیا اور ان کا راستہ روکنا چاہا ورنہ اللہ کریم تو بندوں پہ زیادتی نہیں کرتے یہ ان کی شان کو سزاوار ہی نہیں ہاں لوگوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا اور ایسے اعمال اختیار کئے جن کا انجام تباہی و بربادی تھا ۔ آیات ٧٣ تا ٨٠ مومنین کی ذہنی ہم آہنگی اسی طرح نور ایمان بھی رشتہ استوار کرنے کا بہت بڑاسبب ہے اور مومن مرد اور خواتین ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اس لئے کہ ان کی سوچ اور کردار مشترک ہے ۔ سب ہی نیک بات کو پھیلا نے کی کوشش کرتے ہیں اور سب ہی برائی کو مٹانے کے لئے یکساں فکر مندہوتے ہیں سب کا کرداریہ ہے کہ نماز قائم کرتے ہیں یعنی عبادات میں پوری کوشش کرتے ہیں اور مال دنیا کی ہوس میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں ۔ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں پوری پوری محنت کرتے ہیں اور نہایت خلوص سے انجام دیتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی رحمت کو پائیں گے ۔ یعنی اپنی طرف سے بہترین کوشش کرنے کے باوجود اگر کمی رگئی تو اللہ کی رحمت پوری کردے گی کہ اللہ ہر طرح سے قادر اور حکیم ودانا تر ہے ۔ بلکہ مومن مردو خواتین سے آخرت میں ایک بہت ہی خوبصورت حیات کا وعدہ فرمارکھا ہے ۔ نہایت ہی اعلیٰ باغوں میں جن میں ہر آن نہریں رواں گی ۔ ہر یالی وخو بصورتی سدابہار ہوگی اور یہ لوگ بھی کبھی وہاں سے نکالے نہ جائیں گے ۔ بہت ہی عالیشان گھرانھیں عطا ہوں گے جو نہایت اعلیٰ درجے کے باغوں میں ہوں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر آن رب کریم کی رضا مندی حاصل ہوگی حقیقی دولت تو یہی ہے ۔ جیسے اس کی ناراضگی تمام عذابوں سے بڑھ کر ہے کہ سب عذابوں کا اصلی سبب وہی ہے ۔ ایسے ہی اس کی رضامندی بجائے خود سب سے بڑی کامیابی ہے کہ تمام انعامات کا بنیادی سبب یہی ہے کہ گویا باہمی الفت ثمرہ ایمان ہے جو آج دعوائے اسلام کے باوجود عنقا ہے یہ بات ہر مسلمان کے لئے لمحہ فکر یہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 70 یامرون (وہ حکم دیتے ہیں، سکھاتے ہیں) المنکر (بری بات) ینھون (وہ روکتے ہیں) المعروف (نیکیوں سے) نیکیاں یقضون (وہ روکتے ہیں) ایدیھم اپنے ہاتھوں کو نسو اللہ (انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ) نسیھم (اس نے ان کو بھلا دیا) عذاب مقیم (ہمیشہ کا عذاب) اشد (زیادہ شدید) استمتعوا (انہوں نے فائدہ حاصل کیا) استمتعتم (تم نے فائدہ اٹھا لیا) خلاق (حصہ) خصتم (تم گھسے) کالذی (جیسا کہ وہ) الم یات (کیا نہیں آئی) نبا (خبر، اطلاع) الموتفکت (الٹی ہوئی بستیاں) تشریح : آیت نمبر 67 تا 70 منافقین کی تمام بری حرکات کا مسلسل ذکر کیا جا رہا ہے آیت نمبر 67 سے آیت نمبر 72 تک اس بات کو تفصیل سے مقابلہ کر کے بیان کیا گیا ہے کہ مومن اور منافق کی صحیح پہچان اور مقاصد کیا کیا ہیں سب سے پہلے ان آیات میں منافقین کی چند علامتیں بتائی گئی ہیں۔ 1) پہلی علامت تو یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں نفسیاتی اور ذہنی طور پر ایک ہی ہیں۔ 2) جہاں کہیں برائی ہوتی دیکھیں گے وہ دوڑ کر پہنچ جائیں گے اور اگر کہیں نیکی کا کام ہو رہا ہوگا تو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوششوں میں لگ جائیں گے۔ اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ (3) تیسری علامت یہ ہے کہ وہ ہر نیک کام سے اپنے ہاتھوں کو باندھے رکھیں گے کہ ان کی جان چلی جائے لیکن ایک پیسہ بھی کسی نیک کام میں خرچ نہ ہونے پائے۔ کنجوسی ان کا مزاج ہوتا ہے۔ 4) چوتھی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں فرمایا گیا کہ اگر وہ اپنی من مانی میں لگے ہوئے ہیں تو اللہ کی ذات بےنیاز ہے۔ اگر انہوں نے ہمیں بھلا دیا تو ہم بھی ان کو بھلا دیتے ہیں فرمایا کہ درحقیقت یہ نافرمان لوگ ہیں اور یہی ان کا مزاج بن کر رہ گیا ہے فرمایا کہ ان جیسے منافقین کیلئے اور کفار کے لئے اللہ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جس میں نہ صرف یہ ہمیشہ رہیں گے بلکہ ان پر اللہ کی لعنت ہوگی اور عذاب ان کے سروں پر کھڑا رہے گا۔ فرمایا کہ یہ لوگ ان گذری ہوئی قوموں کی طرح ہیں جنہوں نے طاقت و قوت، مال اور اولاد کی کثرت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر منافقت اور کفر و شرک میں انتہا کردی تھی لیکن انجام کیا ہوا ؟ انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کے تمام اعمال برباد ہو کر رہ گئے اور سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ فرمایا کہ انہوں نے اپنے کرو شرک اور نفاق سے وقتی فائدے خوب اٹھائے تم بھی اٹھا رہے ہو۔ وہ کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹکتے رہے تم بھی بھٹکتے رہو لیکن تمہیں ان کا انجام سامنے رکھنا چاہئے کہ آج وہ اپنے وقتی مفادات ، بلڈنگوں، مال و دولت اور اولاد کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے بلکہ وہ سب اسی دنیا میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ تم بھی سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ کر چلے جائو گے۔ قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، مدینے والے اور ان بستیوں والے جن کی بستیاں ان پر الٹ دی گئی تھیں ان کے پاس اللہ کے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے لیکن جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی تو وہی ان کی دولت اور اولادیں ان کے لئے عذاب کا سبب بن گئیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا وہ تو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے لیکن انسان اپنی بدعملیوں میں مبتلا ہو کر اللہ کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ پر وہ خود ظلم اور زیادتی کرتا ہے اور اپنے لئے گڑھے کو کھود لیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی انہوں نے اطاعت نہ کی اللہ نے ان پر رحمت خاصہ نہ کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ ضرور مخلص ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ اور مشن ایک ہوتا ہے۔ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مشن برے کاموں کی تلقین اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا، نیکی کے معاملات میں رکاوٹ ڈالنا اور دین کی راہ میں روڑے اٹکانا، مسلمانوں کے صدقہ و خیرات کے بارے میں حوصلہ شکنی کرنا اور خود کنجوسی اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو فراموش کردینا۔ منافقین کا مشغلہ ہوتا ہے۔ ان اعمال کا بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے بھلا دینے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا حافظہ بھول جاتا ہے۔ بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے دور کردیتا ہے۔ تاکہ گناہ کرنے میں ان کی حسرت باقی نہ رہے۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اللہ تعالیٰ کو منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار پر اس قدر ناراضگی ہے کہ سزا سناتے ہوئے چار تاکیدی الفاظ استعمال کرکے فرمایا کہ ان کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں جہنم میں ضرور پھینکے گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کا وعدہ سچا اور پکا نہیں ہوسکتا۔ ان کو اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ جہنم ان کے لیے کافی ہے۔ یعنی اس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی اور ان پر عذاب جہنم قائم دائم رہے گا جس میں کبھی تخفیف نہ ہوگی۔ ایک جیسے الفاظ میں منافقین اور کفار کی سزا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ منافق بیشک تمام کام بظاہر مسلمانوں کی طرح کرتے اور اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن عملاً یہ کافر ہیں۔ اس لیے آخرت میں انھیں اکٹھا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ برائی کی بنیاد قائم کرنے والے کی سزا : (عن عاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَیْتُ جَہَنَّمَ یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَرَأَیْتُ عَمْرًا یَجُرُّ قُصْبَہٗ وَہْوَ أَوَّلُ مَنْ سَیَّبَ السَّوَاءِبَ ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ماجعل اللہ من بحیرۃ ولاسائبۃ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا تھا اور میں نے اس میں عمرو کو دیکھا جو اپنی چادر کو گھسیٹ رہا تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے ” بحیرہ اور سائبہ “ کا رواج ڈالا تھا “ مسائل ١۔ منافق مرد، منافق عورتیں اور کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ٢۔ ان پر مسلسل اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی۔ ٣۔ ان پر ہمیشہ عذاب قائم رہے گا۔ تفسیر بالقرآن منافقوں کا کردار اور انجام : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٣۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی سے جہاد کریں۔ (التوبۃ : ٧٣، التحریم : ٩) ٤۔ کفار اور منافقین کے ساتھ اللہ کا وعدہ جہنم کا ہے۔ (التوبۃ : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

منافقین تصورات ، اعمال اور اقوال پر یہاں تک تبصرہ کرنے کے بعد اب یہاں منافقین کی عمومی حقیقت کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ان کی وہ عمومی صفات بیان کردی جاتی ہیں جن کی بنا پر وہ مومنین صادقین سے جدا تصورت ہوتے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے کہ ان کے لیے کس قسم کا عذاب انتظار میں ہے۔ منافقین اور منافقات کی اک ہی فطرت اور خمیر ہے۔ ان کا مزاج بھی یکساں ہے۔ ہر زمان و مکان اور ہمیشہ ان کے یہی خدوخال رہے ہیں۔ ان کے اقوال و اعمال اگرچہ مختلف ہیں لیکن وہ ایک ہی مزاج اور ایک ہی سرچشمے سے ماخوذ ہوتے ہیں یعنی کینہ پروری اور بدفطرتی ، خفیہ سازشیں کرنا اور بےجا تنقیدیں کرنا اور کھل کر سامنے آنے سے کترانا اور کھل کر بات کرنے کی جرات نہ کرنا۔ یہ ہیں منافقین کی اصل علامتیں۔ اب ان کا طرز عمل کیا ہے۔ وہ منکر کا حکم دیتے ہیں اور معروف سے روکتے ہیں اور وہ پرلے درجے کے بخیل ہیں۔ اور اگر خرچ کرتے ہیں تو لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور وہ جب امر بالمنکر اور نہی عن المعروف کرتے ہیں۔ تو یہ کام وہ چھپ چھپا کر کرتے ہیں۔ اشاروں کنایوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے اندر اس قدر جراءت نہیں ہے کہ یہ لوگ کھل کر کام کریں یہ کھل کر کام اس وقت کرتے ہیں جب ان کو یقین ہو کہ حالات درست ہیں اور ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے اللہ اور اس کی رضا کو بھلا دیا ہے۔ نسو اللہ لہزا ان کے ہر کام کی غرض وغایت لوگوں کی رضا یا مالی مفاد ہوتا ہے۔ یہ لوگ جب خدا سے نہیں ڈرتے تو پھر یہ زمین کے زور آور لوگوں سے بہت ہی ڈرتے ہیں۔ یہ ان کے سامنے ذلیل ہو کر رہتے ہیں اور ان کی خوشامد کرتے ہیں۔ لہذا اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا فنسیہم لہذا اب ان کا کوئی وزن و اعتبار نہیں ہے۔ یہ دنیا میں لوگوں کے سامنے بھی بےوزن اور بےاعتبار ہوں گے اور آخرت میں بھی اللہ کے ہاں بےوزن اور بےاعتبار ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں لوگ تو جاندار اور زور آور لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں جو صاف صاف بات کرتے ہیں اور علی الاعلان بات کرتے ہیں جو اپنے نظریات پر رہتے ہیں اور جو اپنے نظریات کے معاملے میں لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ اگر جنگ کرتے ہیں تو پھر بھی علانیہ اور اگر صلح کرتے ہیں تو پھر بھی علانیہ۔ یہ لوگ لوگوں کو بھول جاتے ہیں اور لوگوں کے الہہ العالمین کو یاد رکھتے ہیں لہذا وہ حق کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے وار وہ چونکہ اللہ کو یاد کرتے ہیں اس لیے لوگ انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ بیشک منافق ہی فاسق ہوتے ہیں ان المنفقین ھم الفسقون لہذا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہوتے ہیں۔ یہ اصل راہ سے منحرف ہیں اور اللہ نے ان کے لیے ایسا انجام تجویز کردیا ہے جو کفار کے لیے تجویز ہوا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافق مرد و عورت نیکیوں سے روکتے ہیں، بخیل ہیں، اللہ تعالیٰ کو بھول گئے ہیں ان آیات میں منافقین کی مزید بد حالی بیان فرمائی ہے اول تو یوں فرمایا کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب آپس میں ایک ہی طرح کے ہیں۔ نفاق کے متقضیٰ پر عمل کرتے ہیں۔ اس میں سے یہ بھی ہے کہ برائی کا حکم دیتے ہیں۔ جس میں سے سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب پر لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں۔ اور نیکیوں سے روکتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑی نیکی کلمۂ توحید کی گواہی ہے۔ (وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ) اور یہ لوگ اپنے ہاتھوں کو روکتے ہیں اور کنجوس ہیں مٹھی بند رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے کاموں میں مال خرچ نہیں کرتے۔ پھر فرمایا (نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ ) کہ یہ لوگ اللہ کو بھول گئے یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری کو بالکل ہی چھوڑ بیٹھے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کی طرف سے بالکل پشت پھیرلی۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جو بھولنے والا کیا کرتا ہے، انہیں اپنے لطف اور مہربانی سے محروم فرما دیا۔ (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (بلاشبہ منافق فاسق ہی ہیں جو سر کشی میں اور نافرمانی میں کمال رکھتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:“ اَلمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ الخ ” یعنی یہ منافقین آپس میں ایک دوسرے سے متحد ہیں ان سب کا مقصد ایک ہے اور ان کے عزائم باہم متفق ہیں ان کے احوال ایمان والوں کے احوال سے سراسر مختلف ہیں۔ وہ برے کاموں (کفر و عصیان) کی لوگوں کو ترغیب دیتے اور نیک کاموں (ایمان و اطاعت) سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اور اللہ کیر اہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں۔ “ نَسُوْا اللّٰهَ فَنَسِیَھُمْ ” نسیان سے ترک مراد ہے۔ یعنی منافقین نے اللہ کے احکام کی پیروی ترک کردی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اپنی توفیق اور رحمت سے محروم کردیا “ غفلوا عن ذکرہ وترکوا طاعته (فنسیھم) فترکھم اللہ من توفیقه وھدایته فی الدنیا ورحمته فی الاخرة وترکھم فی عذاب ه ” (مظہری ج 4 ص 262) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

67 منافق مرد اور منافق عورتیں سب آپس میں ایک ہی طرح کے ہیں اور سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں بری باتیں سکھاتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھوں کو بند کئے ہوئے ہیں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا سو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا بیشک یہ منافق بڑے ہی نافرمان ہیں۔ یعنی منافق مرد اور عورتوں کی ایک سی چال ہے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر ابھارنا اور ان کی اطاعت سے منع کرنا اور بخل کا عادی ہونا اللہ نے بھلادیا یعنی ان کو چھوڑ دیا اور اپنی خاص و رحمت سے محروم کردیا۔