Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 69

سورة التوبة

کَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡکُمۡ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرَ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ؕ فَاسۡتَمۡتَعُوۡا بِخَلَاقِہِمۡ فَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِخَلَاقِکُمۡ کَمَا اسۡتَمۡتَعَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ بِخَلَاقِہِمۡ وَ خُضۡتُمۡ کَالَّذِیۡ خَاضُوۡا ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۶۹﴾

[You disbelievers are] like those before you; they were stronger than you in power and more abundant in wealth and children. They enjoyed their portion [of worldly enjoyment], and you have enjoyed your portion as those before you enjoyed their portion, and you have engaged [in vanities] like that in which they engaged. [It is] those whose deeds have become worthless in this world and in the Hereafter, and it is they who are the losers.

مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے تم سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال اولاد والے تھے پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوگئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُواْ أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالاً وَأَوْلاَدًا فَاسْتَمْتَعُواْ بِخَلقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ... Like those before you: they were mightier than you in power, and more abundant in wealth and children. They had enjoyed their portion (a while), so enjoy your portion (a while... ) as those before you enjoyed, Allah says, these people were touched by torment in this life and the Hereafter, just as those before them. Allah's statement, ... بِخَلَقِهِمْ ... their portion, According to Al-Hasan Al-Basri, means, (they mocked) their religion. Allah's statement, ... وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُواْ ... and you indulged in play and pastime as they indulged in play and pastime, indulged in lies and falsehood, ... أُوْلَـيِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ... Such are they whose deeds are in vain, their deeds are annulled; they will not acquire any rewards for them because they are invalid, ... فِي الُّدنْيَا وَالاخِرَةِ وَأُوْلَيِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ in this world and in the Hereafter. Such are they who are the losers. because they will not acquire any rewards for their actions. Ibn Abbas commented, "How similar is this night to the last night, كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (Like those before you...). These are the Children of Israel, with whom we were compared. The Prophet said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَتَّبِعُنَّهُمْ حَتَّى لَوْ دَخَلَ الرَّجُلُ مِنْهُمْ جُحْرَ ضَبَ لَدَخَلْتُمُوه By He in Whose Hand is my life! You will imitate them, and even if a man of them entered the den of a lizard, you will enter it likewise!" Abu Hurayrah narrated that the Messenger of Allah said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ وَبَاعًا بِبَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبَ لَدَخَلْتُمُوه By He in Whose Hand is my soul! You will follow the traditions of those who were before you a hand span for a hand-span and forearm's length for forearm's length, and an arm's length for an arm's length. And even if they enter the den of a lizard, you will also enter it. They asked, "Who, O Allah's Messenger, the People of the Book?" He said, Who else." This Hadith is similar to another Hadith collected in the Sahih.   Show more

ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ۔ خلاق سے مراد یہاں دین ہے ۔ جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے ۔ ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا ۔ انکے یہ فاسد اعمال اکارت ہوگئے ۔ نہ دنیا میں سود مند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہیں ۔ یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ مل... ا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس امت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آگئی میرا تو خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم ان کی پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ جانور کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم بھی اس میں گھسو گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے لوگوں نے پوچھا اس سے مراد آپ کی کون لوگ ہیں؟ کیا اہل کتاب؟ آپ نے فرمایا اور کون؟ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو ( كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً ) 9 ۔ التوبہ:69 ) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں خلاق سے مراد دین ہے ۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے ۔ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کیطرح؟ آپ نے فرمایا اور لوگ ہی ہیں کون؟ اس حدیث کے مفہوم پر شاہد صحیح احادیث میں بھی ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔ 69۔ 2 خلاق کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور ... پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔ 69۔ 3 یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے۔ بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں ؟ آپ نے فرمایا، اور کون ؟ (صحیح بخاری) ۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (باعا بباع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔ (4) اولٰئک سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات و عادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یعنی قوم عاد، ثمود، نوح، ابراہیم وغیرہ وغیرہ ایسی اقوام تھیں جن کی شان و شوکت تم لوگوں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے تم سے بہت زیادہ عیش و عشرت سے زندگی بسر کی تھی۔ وہ لوگ طاقت کے لحاظ سے بھی تم سے مضبوط تر تھے اور مال اور اولاد کے لحاظ سے بھی تم سے بہت آگے تھے۔ وہ لوگ بھی دنیا میں مست ہو کر آیات کو...  بھول گئے تھے۔ اس کی نافرمانیوں پر اتر آئے اور اللہ کی آیات سے مذاق اور دل بہلاوے کرنے لگے تھے۔ اور آج تم بھی بعینہ وہی کچھ کر رہے ہو۔ اللہ کو بھول جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں کوئی اچھے کام کیے بھی ہوں تو آخرت میں وہ سب رائیگاں جائیں گے کیونکہ اعمال کی جزا تو صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان ہو اور جب یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو تو پھر جزاء کیسی ؟ اور اس سے بڑھ کر خسارہ کیا ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی کی ہوئی محنت کا ثمرہ ہی نہ مل سکے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ : اس سے پہلے منافقین کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ ہو رہا تھا، اب مزید تنبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں براہ راست مخاطب فرمایا، یعنی تم بھی ان لوگوں کی طرح ہو اور تمہارے کرتوت بھی ان لوگوں جیسے ہیں جنھوں نے تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ اس فرق کے ساتھ کہ وہ قوت میں ت... م سے زیادہ سخت اور اموال و اولاد میں بہت زیادہ تھے۔ تمہاری ایک دوسرے سے مشابہت دو طرح سے ہے، دنیا میں انھوں نے اپنے لکھے ہوئے حصے سے فائدہ اٹھایا، تم نے بھی اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح اپنے نصیب سے فائدہ اٹھایا اور انھوں نے اپنے انبیاء کا مذاق اڑایا اور ان کے متعلق فضول باتیں کیں، تم نے بھی یہی کام کیا۔ اب آخرت میں بھی اعمال ضائع ہونے اور خائب و خاسر ہونے میں تم دونوں ایک جیسے ہو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Let us now consider the statement: كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (You are) like those before you& in verse 69. According to one exegetical explanation, this is addressed to hypocrites while according to the other explanation, the address is to Muslims. The addition of ` you are& in parenthesis points out in this direction. Thus, it means that ` you too are like people before you. They went f... or worldly enjoyments and forgot all about the life to come. The result was that they sank into all sorts of sins. So shall you be. Explaining this verse, Sayyidna Abu Hurairah (رض) عنہ narrates a Hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . 1n al has been reported to have said that ` you too will take to the ways taken by communities before you. You will imitate them in toto as dittos and clones to the limit that should you see one of them entering into the hole of a lizard (iguana), you will follow him there too.& After having narrated this far, Sayyidna Abu Hurairah (رض) said that should anyone wish to as-certain the thematic authenticity of this Hadith, let him read this verse of the Qur&an: كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ `(You are) like those before you - 69.& On hearing this, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said: مَا اَشبَہَ اللَّیلَۃ بِالبَارِحَۃِ that is, ` how similar is this night (in our time) to the last night (way back) - they are the people of Bani Isra&il and we have been likened to them.& (Qurtubi) The aim of the Hadith is fairly evident. It warns that Muslims too will start following the ways of the Jews and Christians by latter times. This statement appears only after a punishment has been an¬nounced for the hypocrites. It serves as an indicator that good Mus¬lims would not do that. Only those among them, who are weak in &Iman may do so because they are still infected with the germs of hypocrisy. All good men and women of the Muslim community have been instructed in this verse that they should themselves abstain from such ways as well as help others do the same.  Show more

آیت (69) كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ میں ایک تفسیر یہ ہے کہ یہ خطاب منافقین کو ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں آچکا، اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ خطاب مسلمانوں کو ہے یعنی ( اَنتُم كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ) مراد یہ ہے کہ تم لوگ بھی اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح ہو جس طرح وہ لوگ دنیا کی لذائذ میں منہمک ہو ک... ر آخرت کو بھلا بیٹھے اور طرح طرح کے معاصی اور بد اخلاقیوں میں مبتلا ہوگئے تم بھی ایسے ہی لوگ ہوں گے۔ اسی آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم بھی وہی طریقے اختیار کرو گے جو تم سے پہلی امتیں کرچکی ہیں، ہاتھ در ہاتھ اور بالشت در بالشت یعنی ہوبہو ان کی نقل اتارو گے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں گھسا ہے تو تم بھی گھسو گے، حضرت ابوہریرہ نے یہ روایت نقل کرکے فرمایا کہ اس حدیث کی تصدیق کے لئے تمہارا جی چاہے تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو کالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ سن کر فرمایا : ما اشبہ اللیلۃ بالبارحة، یعنی آج کی رات گذشتہ شب سے کیسی ملتی جلتی اور مشابہ ہے یہ بنی اسرائیل ہیں ہمیں ان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ( قرطبی ) ۔ حدیث کا مقصد واضح ہے کہ آخر زمانے میں مسلمان بھی یہود و نصارٰی کے طریقوں پر چلنے لگیں گے اور منافقین کا عذاب بیان کرنے کے بعد اس کا بیان کرنا اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہود و نصارٰی کے طریقوں کا اتباع کرنے والے مسلمان وہی ہوں گے جن کے دلوں میں مکمل ایمان نہیں، نفاق کے جراثیم ان میں پائے جاتے ہیں، صلحاء امت کو اس سے بچنے اور بچانے کی ہدایت اس آیت میں دی گئی ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّۃً وَّاَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا۝ ٠ ۭ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَـمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِہِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ ... فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ ٦٩ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ اسْتِمَاعُ والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب اسمانع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ خَلَاقُ والْخَلَاقُ : ما اکتسبه الإنسان من الفضیلة بخلقه، قال تعالی: ما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ [ البقرة/ 102] ، وفلان خلیق بکذا، أي : كأنّه مخلوق فيه، ذلک کقولک : مجبول علی كذا، أو مدعوّ إليه من جهة الخلق . وخَلَقَ الثوبُ وأَخْلَقَ ، وثوب خَلَقٌ ومُخْلَق وأخلاق، نحو حبل أرمام وأرمات، وتصوّر من خَلُوقَة الثوب الملامسة، فقیل : جبل أَخْلَق، وصخرة خَلْقَاء، وخَلَقْتُ الثوب : ملّسته، واخلولق السحاب منه، أو من قولهم : هو خلیق بکذا، والخلوق : ضرب من الطّيب . خوض الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث : تفاوضوا . ( خ و ض ) الخوض ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩) ان لوگوں کے عذاب کے طریقہ پر جو ان منافقین سے پہلے ہوچکے ہیں تو انہوں نے آخرت کو چھوڑ کر اپنے دنیاوی حصہ سے خوب فائدہ حاصل کیا تھا اور تم بھی باطل اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب میں ایسے ہی جاداخل ہوئے جیسا کہ وہ باطل اور انبیاء کرام کی تکذیب میں داخل ہوئے تھے ان کی سب نیکیاں ... تباہ ہوگئیں اور یہ بڑے ہی نقصان اور خسارے میں ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (کَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) (کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْکُمْ قُوَّۃً وَّاَکْثَرَ اَمْوَالاً وَّاَوْلاَدًا ط) تم سے پہلے جو کافر قومیں گزری ہیں ‘ مثلا قوم عاد ‘ قوم ثمودوغیرہ وہ طاقت ‘ مال و دولت اور تعداد کے لحاظ سے تم سے بہت بڑھ کر تھیں۔ (فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِہِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِ... خَلاَقِکُمْ ) یعنی تمہاری مدت مہلت ختم ہونے کو ہے ‘ اب تم لوگ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہو۔ (کَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ بِخَلاَقِہِمْ ) (وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا ط) تم نے بھی اسی طرح کی روش اختیار کی جیسی انہوں نے اختیار کی تھی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :77 یہاں سے پھر ان کا غائبانہ ذکر شروع ہوگیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٩۔ ٧٠۔ اوپر کی آیتوں میں بہت دور سے آنحضرت کے وقت کے جن منافقوں کا ذکر آرہا ہے اب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے پہلے لوگوں کا حال ان منافقوں کو یاد دلایا اول تو مبہم طور پر یہ فرمایا کہ ان منافقوں کا حال رسول اور کلام الہی سے ٹھٹھا کرنے اور نافرمانی میں پہلے لوگوں کا سا ہے اور باوجود اس کے ... کہ پہلے لوگ جسمانی قول اور درازی عمر اور کثرت مال واولاد میں ان سے بڑھ کر تھے لیکن سوا چند روزہ شرارت کرلینے کے نہ دنیا میں ان کو کچھ ثمرہ ملا کس واسطے کہ اللہ کے رسول آخر کو غالب رہے اور رسولوں کے مخالف لوگ عذاب الہی میں گرفتار ہو کر پامال اور ہلاکت ہوگئے اور عقبیٰ میں جو کچھ ایسے لوگوں کا انجام ہوگا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجاویگا علاوہ اس کے عقبیٰ کے انجام کا نمونہ دنیا میں بھی بعضے موقعوں پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دکھا دیا مثلا ایسے لوگوں کے جنازہ کی نماز سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو منع فرما دیا جس کا ذکر آگے آتا ہے یا مثلا بعضے منافقوں کی موت کے وقت سخت آندھی چلی جس کا ذکر صحیح مسلم میں جابر (رض) بن عبداللہ کی حدیث میں ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس مہبم خوف کے بعد قوم نوح ( علیہ السلام) قوم ہود ( علیہ السلام) قوم صالح ( علیہ السلام) قوم ابراہیم ( علیہ السلام) قوم لوط ( علیہ السلام) قوم شعیب ( علیہ السلام) کا ذکر صراحت سے اس لئے فرمایا کہ ملک شام عراق یمن ایسی ہی بستیوں میں یہ آفت زدہ قومیں رہتی تھیں جہاں آنحضرت کے زمانہ کے منافقوں کا گزر تجارت کی غرض سے اکثر ہوتا رہتا تھا چناچہ تبوک کی لڑائی کے جاتے وقت راستہ میں منافقوں نے چند شرارتیں آنحضرت اور قرآن شریف کی بدگوئی کی جو کی تھیں اس وقت ان لوگوں کا گزر قوم صالح ( علیہ السلام) کے وطن میں تھا غرض اس روز مرہ گزر کے سبب سے یہ منافق رات دن سنتے رہتے تھے کہ خدا اور رسول کے محالف لوگوں کا انجام یہ ہے کہ کسی کو طوفان نے آن گھیرا اور کسی کو آندھی نے کسی پر پتھر برسے اور کوئی باوجود بادشاہی قوت رکھنے کے مچھر کا کھاجا بن گیا یہ جو کچھ رات دن سنتے رہتے تھے وہی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سنا کر اچھی طرح ان کے کان کھول دئے کہ اگر یہ اپنی شرات اور نافرمانی سے باز نہ آویں گے تو ان پر بھی کوئی بلا اللہ کی طرف سے آنے والی ہے پھر مسلمانوں کا ذکر آئندہ کی آیت میں اس صراحت سے فرمایا کہ منافقوں کی بڑی عادت کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ایک اچھی عادت ذکر فرمائی مثلا منافقوں کی عادت ذکر فرمائی کہ شریعت میں جو باتیں ناردا ہیں ان کو پھیلاتے ہیں اور آپس میں اسی کے چرچے رکھتے ہیں اور جن باتوں کا شریعت میں حکم ہے ان کو خود بھی نہیں کرتے اور اور لوگوں کو بھی ان باتوں سے روکتے ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی یہ عادت ذکر فرمائی کہ جن باتوں کا شریعت میں حکم ہے ان کو دہ خود بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان کے کرنے کی حرص اور رغبت دلاتے ہیں اور شریعت کی ناراوہ باتوں سے خود بھی بچتے ہیں اور اور لوگوں کے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح منافقوں کی یہ بری عادت ذکر فرمائی کہ وہ صدقہ خیرات سے اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی عادت ذکر فرمائی کہہ وہ زکوۃ اور صدقہ خیرات میں فراخ دست ہیں پھر اسی طرح دونوں فرقوں کا آخرت کا مقابلہ جتلانے کو فرمایا کہ منافقوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کا ٹھکانا ٹھہرار رکھا ہے اور مسلمانوں کے لئے جنت کا ٹھکانا ٹھہرار کھا ہے یہ مقابلہ کے طور پر دونوں فرقوں کی عادتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے ذکر فرمائیں کہ دونوں فرقوں کو ہدایت ہو منافق اپنے ناشائستہ عادتوں سے شرما کر ان عادتوں کو آئندہ ترک کریں اور مسلمانوں کہ عادتوں کو سیکھیں اور اختیار کریں اور مسلمان اپنی جگہ ہوشیار اور خبردار ہوجائیں اور ان میں کوئی چھوٹی بڑی منافقوں کی عادت ہو تو اس کو فورا چھوڑ کر سیدھے اور پکے مسلمان بن جائیں کیونکہ صحیح حدیثوں میں جہاں منافقوں کی عادت کا ذکر ہے وہاں اس کی بھی صراحت ہے کہ جس شخص میں یہ سب عادتیں ہیں وہ پورا منافق ہے اور جس میں ایک دو عادتیں ہیں وہ پورا مسلمان نہیں ادھورا منافق ہے چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی روایت میں اس کا ذکر صراحت سے ہے اور بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخر زمانہ میں لوگوں کا حال بہت بدل جاوے گا اور منافقوں کی عادتیں لوگوں میں بہت پھیل جاویں گی یہاں تک کہ دنیا میں ایسی بےدینی اور خرابی پھیل جاوے گی کہ ہزار میں ایک دیندار گھر ہوگا تو اس کو اپنا دین سنبھالنا ایسا مشکل ہوگا جس طرح مٹھی میں آگ کا انگارہ پکڑنا مشکل ہے۔ یہ حدیث انس (رض) بن مالک کی روایت سے ترمذی میں ہے اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے لیکن ناقابل اعتراض سند سے اس مضمون کی دوسری حدیث ابوثعلبہ (رض) خشنی کی روایت سے ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے جس سے اس انس بن مالک (رض) کی روایت کو تقوبت ہوجاتی ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ (رض) اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اچھے رفیق کی مثال مشک کی اور برے رفیق کی مثال لوہار کے کھال دھونکنے والے شخص کی فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشک کے پاس بیٹھنے والے شخص کو خوشبو کا فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح اچھے رفیق کی رفاقت سے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچنے کی امید ہے اور جس طرح کھال دھونکنے والے شخص کے پاس بیٹھنے سے چنگاری اڑ کر پڑجانے اور کپڑوں کے جل جانے کا اندیشہ ہے اسی طرح برے رفیق کی رفاقت سے دین کی خرابی کا اندیشہ ہے ان سب حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت میں منافقوں کی جن عادتوں کا ذکر ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشین گوئی کے موافق اس آخری زمانہ میں جب وہ عادتیں کثرت سے لوگوں میں پھیل گئی ہیں تو گویا کھال دھونکنے والے شخص جیسے رفیق کثرت سے پیدا ہوگئے ہیں جن کی رفاقت سے ہر دیندار شخص کو پرہیز لازم ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی رفاقت سے جس دیندار شخص میں منافقوں کی سی کوئی عادت پیدا ہوگئی تو صحیح حدیث کے موافق وہ ادھورا منافق ہے اور جس دیندار شخص میں یہ سب عادتیں پیدا ہوگئ وہ پورا منافق ہے جھوٹ بولنا وعدہ خلافی کا کرنا امانت میں خیانت کا کرنا لڑائی جھگڑے کے وقت گالی کا منہ سے نکالنا یہی علامتیں اور عادتیں منافق لوگوں کی ہیں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانے کے موافق اس آخری زمانے میں یہ عادتیں ایسی عام ہیں کہ دیندار شخص کو ان عادتوں سے بچنا ایسا ہی مشکل ہے جس طرح آگ کے انگارہ کو مٹھی میں لینا مشکل ہے جن لوگوں میں تھوڑی یا بہت یہ عادتیں ہیں ان کو ان کے چھوڑ دینے کی اور جو اللہ کے بندے اب تک ان عادتوں سے بچے ہوئے ہیں ان کو ہمیشہ ان سے بچنے کی اللہ تعالیٰ تو فیق دیوے آمین یارب العالمین آخر کہ ہر ایک طرح کے گنہگار کو جتلا دینے کے لئے یہ فرمایا اللہ تعالیٰ کی عادت ظلم و زیادتی کی نہیں ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت کی حدیث قدسی ایک جگہ گزرچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا یہ حدیث آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:69) کالذین من قبلکم۔ میں ک محل رفع میں ہے بمعنی تم بھی اپنے سے پہلے آدمیوں کی طرح ہو۔ یا ک محل نصب میں ہے بمعنی تم نے بھی وہی کام کیا جو تم سے پہلوں نے کیا تھا۔ ای انتم کالذین من قبلکم۔ تم بھی اپنے سے پہلوں کی طرح ہو۔ کانوا اشد منکم۔ اشد شدۃ سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ کانوا کے عمل سے منسوب ہے (ا... سی وجہ سے اکثر منصوب ہے) تم سے زیادہ طاقے ور تھے اور امل و اولاد کی کثرت میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔ فاستمتعوا۔ انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ استمتاع (استفعال) سے۔ مال و متاع سے فائدہ اٹھانا۔ کام میں لانا۔ برتنا۔ متع مادہ خلاقہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا حصہ۔ فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلاقہم۔ تم نے بھی اپنے (دنیاوی) حصہ کا ویسے ہی فائدہ اور لطف اٹھایا۔ جیسا تم سے پہلوں نے اپنے (دنیاوی) حصہ سے فائدہ اور لطف اٹھایا تھا۔ خضتم۔ تم نے بحث و تمحیص۔ خاص یخوض (نصر) خوض سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ خوض کے معنی ہیں فضول بحث۔ بیہودہ گوئی۔ باتیں بنانا۔ اس کے اصل معنی پانی میں گھسنے کے ہیں بطور استعارہ سب کاموں میں گھسنے کیلئے اس کا استعمال ہوتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یا تمہارے کر توت بھی ان لوگوں جیسے ہیں۔ اعمال کے ضائع ہونے اور آخرت میں خائب و خاسر ہونے میں ان سے تشبیہ دی گئی ہے ( کبیر)6 یعنی جیسے انہوں نے اپنے انبیا ( علیہ السلام) اور دن کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ دنیا میں ان اعمال پر بشارت ثواب نہیں اور آخرت میں ثواب نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین بھی پہلی قوموں کی طرح مغضوب ہیں جس طرح ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوئے اسی طرح منافقین کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوں گے۔ جس طرح ان پر دنیا میں اللہ کا غضب ہوا۔ منافقوں پر بھی اللہ کا غضب ہوگا۔ عربی زبان میں ” ک “ کا حرف تشبیہ اور مانند کے...  لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں منافقین کی مغضوب اور ملعون قوموں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو مال و اسباب، اولاد اور افرادی قوت کے لحاظ سے بڑے کشادہ ہاتھ اور طاقت ور تھے۔ لیکن جب ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا تو ان کے مال واسباب اور اولاد انھیں کچھ فائدہ نہ دے سکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئے۔ اس اشارے اور تشبیہ کے بعد منافقین کو وارننگ دی گئی ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے۔ تم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھالو جس طرح مغضوب اور ملعون لوگوں نے اٹھایا تھا۔ لیکن یاد رکھو جس طرح ان پر غضب ہوا تم پر بھی اسی طرح غضب ہوگا۔” خَلَاقُ “ کا معنی ہے حصہ جس طرح انھوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا تمہارے لیے بھی جو حصہ عمر اور وسائل کے حوالے سے مقرر کیا گیا ہے فائدہ اٹھالو۔ اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان جس قدر باغی ہو اور جتنا چاہے دنیا میں بھاگ دوڑ کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود اور وسائل سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ بھلا ہے وہ انسان جو اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا اور آخرت سنوارلے۔ لیکن منافق اور خدا کے نافرمان اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ وہ دنیا کے عارضی وقار اور وسائل کی خاطر اپنے رب کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں جیسا کہ ان سے پہلے لوگ دنیا طلبی میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کے دنیا اور آخرت دونوں میں اعمال ضائع ہوئے اور وہ نقصان پانے والے بنے۔ اسی طرح ہی منافقوں کا حال ہوگا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِیِّ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّار فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب لایقول فلان شہید ] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ بندہ بعض اوقات اہل جنت کے اعمال سر انجام دیتا ہے لوگوں کے لیے بھی ایسے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے اور بلاشبہ کوئی بندہ جہنمیوں والے کام کرتا ہے اور لوگوں کو بھی ایسے ہی نظر آتا ہے جبکہ وہ اہل جنت سے ہوتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی پکڑ آنے پر منافق کو اس کی اولاد اور مال کچھ فائدہ نہیں دیتے۔ ٢۔ منافقین کے اعمال پہلی مغضوب قوموں کی طرح ضائع ہوں گے۔ ٣۔ منافقین دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن مغضوب قومیں مال اور اولاد میں زیادہ ہوتی ہے : ١۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر : ١) ٢۔ کافروں نے کہا ہم مال و اولاد کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ (سبا : ٣٥) ٣۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰمٓ السجدۃ : ١٥) ٤۔ دنیا کی زندگی کھیل، تماشہ، زینت، مال و اولاد کی کثرت ہے۔ (الحدید : ٢٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

منافقوں کا بےعمل ، منحرف اور گمراہ طبقہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ کسی بھی وقت انوکھا نہیں رہا ہے۔ اسلام سے قبل بھی انسانی تاریخ میں اس کے نمونے موجود رہے ہیں اور ادوار سابقہ کے منافقین کا انجام بھی ان کے فسق و فجور کے مطابق ایسا ہی رہا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کی فطرت میں کجی آجاتی ہے اور وہ صحی... ح راہ پر نہیں چلتے۔ اس سے قبل جو کافر اور منافق گزرے ہیں وہ حضور کے دور کے منافقین سے زیادہ مادار اور زیادہ افرادی قوت کے مالک تھے۔ لیکن یہ مالی اور افرادی وسائل انہیں نہ بچا سکے۔ قرآن کریم امم سابقہ کے منافقین کی طرف اشارہ کرکے انہیں بتاتا ہے کہ دیکھو تم ان لوگوں ہی کے راستے پر تو چل رہے ہو۔ آخر کیوں تمہارا انجام ان سے مختلف ہوگا۔ قوت کا فتنہ بھی خطرناک فتنہ ہوتا ہے۔ مالی قوت اور افرادی قوت سے انسان فتنے میں پڑجاتا ہے۔ جن لوگوں کا رابطہ بڑی قوت سے ہوتا ہے وہ چھوٹی قوتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ صرف قوی تر قوت سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ لہذا وہ سمع و اطاعت اس بڑی قوت کی کرتے ہیں اور اس بڑی قوت کی بات کو اونچا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مالی قوت اور افرادی قوت اثر نہیں کرتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مال و دولت اور انصآر و اولاد دینے والا تو اللہ ہے جو برتر قوت ہے۔ لہذا اگر ان کے پاس نعمت آجائے تو وہ شکر ادا کرنے میں بہت حریص ہوتے ہیں اور وہ مالی قوت اور افرادی قوت کو بھی اللہ کی اطاعت میں کھپا دیتے ہیں اور جن لوگوں کی فطرت میں انحراف ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اس قوت کا سرچشمہ کیا ہے۔ تو وہ تکبر ، غرور اور سرکشی اختیار کرلیتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو کھانے پینے تک محدود کردیتے ہیں جس طرح مویشی کھاتے تپیتے ہیں۔ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ : " سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں " حبط اعمال کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال بنیاد ہی سے باطل ہوگئے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے پودے کے مانند تھے جس کی جڑیں نہ تھیں۔ اس قسم کا پودا نہ سرسبز ہوا ہے اور منہ پھلتا پوھلتا ہے۔ اور ایسا پودا لگانے والے آخر کار گھاٹے میں ہوتے ہیں اور ان کا گھاٹا ہمہ گیر ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (کَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) (الآیۃ) اس میں منافقوں سے خطاب ہے کہ تم لوگ انہیں لوگوں کی طرح ہو جو تم سے پہلے تھے۔ وہ لوگ تم سے بڑھ کر قوت اور طاقت والے اور تم سے زیادہ اموال اور اولاد والے تھے۔ وہ لوگ اپنے دنیاوی حصہ سے مستفید ہوئے اور تم بھی دنیاوی حصہ سے مستفید ہوئے جیسا کہ تم ... سے پہلے لوگ اپنے حصہ سے مستفید ہوئے وہ لوگ بھی دنیا ہی میں لگے اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھا تم لوگ بھی انہیں کی راہ پر ہو۔ تم لوگ بھی باطل میں اور برائیوں میں اسی طرح گھس گئے جس طرح تم سے پہلے لوگ گھسے تھے۔ ان کا جو انجام ہوا تمہارا بھی یہی انجام ہوگا۔ پھر انجام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (اُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ ) کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے اعمال دنیا و آخرت میں بیکار چلے گئے۔ دنیا تھوڑی سی تھی۔ فانی تھی جو ختم ہوگئی اور جو کچھ ملا تھا وہ بطریق استدراج تھا۔ انعام و اکرام کے طور پر نہ تھا۔ اور آخرت میں تو ظاہر ہے کہ کسی کافر کے لیے کوئی نعمت ہے ہی نہیں (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ) (یہ لوگ پوری طرح خسارے میں ہیں) دنیا بھی گئی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی محروم ہوئے تم بھی انہیں کے طریقے پر چل رہے ہو خسارہ میں ہو۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69 اے منافقو ! تمہاری حالت بھی انہی لوگوں کی طرح ہے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں کہ وہ تم سے بہت زور آور اور مال و اولاد میں تم سے کہیں زیادہ تھے پھر وہ اپنے دنیوی حصے کا خوب فائدہ اٹھاگئے سو تم نے بھی اپنے دنیوی حصے سے اسی طرح فائدہ اٹھایا جیسا کہ تم سے پہلوں نے اپنے دنیوی حصے سے فائدہ حاصل کیا تھا اور...  تم بھی بری باتوں میں اسی طرح گھسے جس طرح بری باتوں میں وہ پہلے لوگ گھسے تھے ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں نیست و نابود اور ضائع ہوگئے اور وہی لوگ بڑے نقصان اور ٹوٹے میں ہیں۔ خلاصہ ! یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگ طاقت وقوت میں اور مال و اولاد کی کثرت میں تم سے زیادہ تھے پھر دنیوی عیش سے جو فائدہ ان کو حاصل کرنا تھا وہ انہوں نے کیا اور تم نے بھی دنیوی زندگانی کے مزے اسی طرح لوٹے جس طرح انہوں نے لوٹے تھے اور تم نے بھی وہی ناشائستہ حرکات اور بےہودہ نکتہ چینیاں کیں جس طرح وہ کیا کرتے تھے ان کا انجام یہ ہوا کہ ان کے تمام اعمال نیک برباد ہوگئے اور آج وہ دنیا اور دین دونوں کے اعتبار سے خسارے ہی خسارے میں ہیں دنیا کی زندگی ختم ہوگئی نہ طاقت کی شدت کام آئی نہ مال و اولاد کی کثرت نے ان کو بچایا اور چونکہ پیغمبروں پر ایمان نہ لائے اس لئے آخرت بھی برباد اور اکارت ہوئی اور خسر الدنیا والآخرہ ہوکر رہ گئے۔  Show more