Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 7

سورة التوبة

کَیۡفَ یَکُوۡنُ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ عَہۡدٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عِنۡدَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ۚ فَمَا اسۡتَقَامُوۡا لَکُمۡ فَاسۡتَقِیۡمُوۡا لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۷﴾

How can there be for the polytheists a treaty in the sight of Allah and with His Messenger, except for those with whom you made a treaty at al-Masjid al-Haram? So as long as they are upright toward you, be upright toward them. Indeed, Allah loves the righteous [who fear Him].

مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا ہے جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو ، اللہ تعالٰی متقیوں سے محبت رکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Affirming the Disavowal of the Idolators Allah mentions the wisdom in dissolving all obligations to the idolators and giving them a four month period of safety, after which they will meet the sharp sword wherever they are found, كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ ... How can there be a covenant for the Mushrikin, a safe resort and refuge, while they persist in Shirk with Allah, and disbelief in Him and His Messenger, ... عِندَ اللّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ ... with Allah and with His Messenger ... إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ... except those with whom you made a covenant near Al-Masjid Al-Haram, on the day of Hudaybiyyah. Allah said in another Ayah (concerning the day of Hudaybiyyah), هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْىَ مَعْكُوفاً أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ They are the ones who disbelieved and hindered you from Al-Masjid Al-Haram and detained the sacrificial animals, from reaching their place of sacrifice. (48:25) Allah said next, ... فَمَا اسْتَقَامُواْ لَكُمْ فَاسْتَقِيمُواْ لَهُمْ ... So long as they are true to you, stand you true to them, if they keep the terms of the treaties you conducted with them, including peace between you and them for ten years, ... فَاسْتَقِيمُواْ لَهُمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ then stand you true to them. Verily, Allah loves those who have Taqwa. The Messenger of Allah and the Muslims preserved the terms of the treaty with the people of Makkah from the month of Dhul-Qa`dah in the sixth year (of Hijrah), until the Quraysh broke it and helped their allies, Banu Bakr, against Khuza`ah, the allies of Allah's Messenger. Aided by the Quraysh, Banu Bakr killed some of Bani Khuza`ah in the Sacred Area! The Messenger of Allah led an invasion army in the month of Ramadan, of the eighth year, and Allah opened the Sacred Area for him to rule over them, all thanks are due to Allah. The Messenger of Allah freed the Quraysh who embraced Islam after they were overpowered and defeated. These numbered around two thousands, and they were referred to by the name `Tulaqa' afterwards. Those among them who remained in disbelief and ran away from Allah's Messenger were sent promises of safe refuge for four months, during which they were allowed to move about freely. They included Safwan bin Umayyah, Ikrimah bin Abi Jahl and many others. Allah later on guided them to Islam, and they became excellent believers. Surely, Allah is worthy of all praise for all His actions and decrees.

پابندی عہد کی شرائط اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں ۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا ۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی ۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی ۔ رب العالمین نے مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا ۔ وللّٰہ الحمد والمنہ لیکن آپ نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا انہی لوگوں کو طلقاً کہتے ہیں ۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہوگئے ۔ رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے انکی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔ 7۔ 2 یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل :۔ ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورة کی آیت نمبر ٤ کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جو قریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمر و بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ نے فرمایا : اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔ ١۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔ ٢۔ قریش بنو بکر کی حمائت سے دستبردار ہوجائیں۔ ٣۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سیدنا عمر حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ (رض) تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ لیکن اس نے آپ کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بدعہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔ قریش اور بنو بکر کی بدعہدی & مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی :۔ ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بدعہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتناہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورة میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ سے دشمن زندگی بھر بدعہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔ یہود کی بدعہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بدعہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہوچکا ہے۔ دوسرے قبائل نے بھی بدعہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ سے دس آدمی طلب کیے تو آپ نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کردیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کردیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کردیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کردیا۔ جس کا رسول اللہ کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ اب ان کے مقابلہ میں آپ کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا :۔ ١۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے انہیں فرمایا کہ && مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔ && (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ والسیر۔ باب الوفاء بالعھد) حالانکہ اس موقعہ پر آپ کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ ٢۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں ٧٠ میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا && میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمر و بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔ && عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جاسکے برتی جائے مگر آپ نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کردیا (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٧٣) ٣۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرام (رض) کے دل بھر آئے۔ آپ خود بھی رحمتہ للعالمین تھے۔ لیکن آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کردیا اور کہا : ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہوچکی اور ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط علی الجھاد والمصالحۃ) ٤۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کردیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورة فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ ) ٥۔ آپ کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد اس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا اِنِّیْ لَمْ اَرَمِنْ مُحَمَّدٍ اِلَّا صِدْقًا وَّ وَفَآئً (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) (طبری ج ١۔ غزوہ خندق) پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کردی۔ ٦۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کردی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کرلی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ (تاریخ اسلام حمید الدین ص ١٣٨) ٧۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز باجماعت کا پرکیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰ کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہوگیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آجانا۔ (الفاروق ص ١٩٦) اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بدعہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے :۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لاسکیں۔ اس طرح یہ حق پرست دراصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چناچہ اس سلسلہ میں ١٩١٧ ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کردی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے ١٩١٥ ء اور ١٩١٦ ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے ١٩١٦ ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد :۔ i عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔ ii شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔ iii فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہوگا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہوگا۔ iv باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کرلی مگر اب پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنادی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کرلیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہوگیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کرلیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہوجاتا۔ اپریل ١٩١٧ ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بےنقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کردیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ : یعنی وہ لوگ جو ہیں ہی مشرک، جنھوں نے اپنے خالق کی توحید کا عہد ہی پورا نہیں کیا، ان کی طرف سے کوئی عہد پورا ہونا کیسے ممکن ہے، وہ تو جو عہد کرتے ہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : ان سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے (اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ) [ التوبۃ : ٤ ] میں گزر چکا ہے۔ صلح حدیبیہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی، یہ صلح نامہ چونکہ حدود حرم کے اندر قرار پایا تھا، اس لیے اسے ” عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “ فرما دیا۔ (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس عہد پر قائم رہے ان سے قتال مت کرو۔ اس معاہدے میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدے میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے، مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان ٨ ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ (ابن کثیر) ابن جریر طبری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد بنو بکر کے وہ قبائل ہیں جو صلح حدیبیہ والے اپنے عہد پر قائم رہے اور انھوں نے بنو خزاعہ پر نہ حملہ کیا، نہ اس میں مدد کی، کیونکہ ان آیات کے نزول کے وقت فتح مکہ کو ایک سال گزر چکا تھا، قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا بھی مل چکی تھی۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” صلح والے تین قسم فرمائے، ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری، ان کو جواب دیا (کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر جو مکہ کی صلح میں شامل تھے (تو) جب تک وہ دغا نہ کرے، یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی، لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔ “ (موضح) ” اسْتَقَامُوْا “ میں حروف ” سین “ اور ” تا “ کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ” پوری طرح قائم رہیں “ کیا گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : اور عہد کا پورا کرنا بھی متقی ہونے کے لیے ضروری شرط ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Uphold truth and commit no excess or injustice even against disbelievers is the teaching of Qur&an This statement of the Qur&an provides guidance for Muslims that they should never surrender truth and justice even when they are dealing with confronting enemies. Whenever they have to take up an issue with them, they are required not to slip into taking exaggerated approaches and stances against them. This is as it has been demon¬strated in these verses where full consideration has been given to the case of the disbelievers of Makkah. The fact was that most of them had broken their pledge. Naturally, when something like this happens in that setting, people tend to make a sweeping allegation against every-one. But, the Holy Qur&an, by saying: إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ (except those with whom you made a treaty near al-masjid-al-Haram), has exempted those who had not broken their pledge. In fact, it has ordered that Muslims should stay firm on their commitment as long as the oth¬ers remain committed and faithful to their pledge. The breach of trust committed by other people should in no case influence their stance whereby they themselves may be led to become breakers of the pledge given to them.

کفار کے مقابلہ میں بھی سچائی پر قائم رہنے اور ان کے متعلق مبالغہ آمیزی سے پرہیز کرنے کی تعلیم : قرآن کریم کے اس بیان نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ اپنے دشمن مخالفین کے معاملہ میں بھی جب کوئی گفتگو آئے تو سچائی اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دیں مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیں جیسا کہ ان آیات میں مشرکین مکہ کے بارے میں اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ اگرچہ معدودے چند لوگوں کے سوا سبھی نے عذر و عہد شکنی کی تھی اور ایسے حالات میں عام طور پر کہنے والے سبھی کو برا کہا کرتے ہیں مگر قرآن کریم نے (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام فرما کر ان لوگوں کا استثناء کردیا جنہوں نے عہد شکنی نہیں کی اور یہ حکم دیا کہ جب تک وہ استقامت اور وفاء عہد پر قائم رہیں تم بھی عہد پر قائم رہو دوسرے لوگوں کی خیانت سے متاثر ہو کر ان کے عہد کو نہ توڑو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝ ٠ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٧ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ مَسْجِدُ : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سد ہے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اللہ تعالیٰ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے کس طرح معاہدہ قائم رہ سکتا ہے، البتہ بنی کنانہ جنہوں نے حدیبیہ کے سال کے بعد معاہدہ کیا ہے تو جب تک یہ عہد پورا کریں تم بھی اس کو پورا کرو، اللہ تعالیٰ بدعہدی سے بچنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

فتح مکہ سے قبل صورت حال ایسی تھی کہ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے سلسلے میں بہت سے لوگ تذبذب اور الجھن کا شکار تھے۔ بعض مسلمانوں کے بیوی بچے اور بہت سے کمزور مسلمان جو ہجرت نہیں کر پائے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اکثر لوگوں کو خدشہ تھا کہ اگر مکہ پر حملہ ہوا تو بہت خون خرابہ ہوگا اور مکہ میں موجود تمام مسلمان اس کی زد میں آجائیں گے۔ اگرچہ بعد میں بالفعل جنگ کی نوبت نہ آئی مگر مختلف ذہنوں میں ایسے اندیشے بہر حال موجود تھے۔ اس سلسلے میں زیادہ بےچینی منافقین نے پھیلائی ہوئی تھی۔ چناچہ ان آیات میں مسلمانوں کو مکہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔ آیت ٧ (کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ) یہاں پر اس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس سے قبل مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہوچکی تھی ‘ لیکن اس معاہدے کو خود قریش کے ایک قبیلے نے توڑ دیا۔ بعد میں جب قریش کو اپنی غلطی اور معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے سردار ابو سفیان کو تجدید صلح کی درخواست کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ مدینہ پہنچ کر ابوسفیان سفارش کے لیے حضرت علی (رض) اور اپنی بیٹی حضرت اُمِّ حبیبہ (رض) (اُمّ المؤ منین) سے ملے۔ اِن دونوں شخصیات کی طرف سے ان کی سرے سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ بلکہ حضرت اُمِّ حبیبہ (رض) کے ہاں تو ابو سفیان کو عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ جب اپنی بیٹی کے ہاں گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر بچھا ہوا تھا ‘ وہ بستر پر بیٹھنے لگے تو اُمِّ حبیبہ (رض) نے فرمایا کہ ابا جان ذرا ٹھہریے ! اس پر وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بیٹی نے بستر تہ کردیا اور فرمایا کہ ہاں ابا جان اب بیٹھ جائیے۔ ابوسفیان کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ‘ وہ قریش کے سب سے بڑے سردار اور رئیس تھے اور بستر تہ کرنے والی ان کی اپنی بیٹی تھی۔ چناچہ انہوں نے پوچھا : بیٹی ! کیا یہ بستر میرے لائق نہیں تھا یا میں اس بستر کے لائق نہیں ؟ بیٹی نے جواب دیا : ابا جان ! آپ اس بستر کے لائق نہیں۔ یہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں ! چناچہ ابو سفیان اب کہیں تو کیا کہیں ! وہ تو آئے تھے بیٹی سے سفارش کروانے کے لیے اور یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہوگیا۔ چناچہ مطلب کی بات کے لیے تو زبان بھی نہ کھل سکی ہوگی۔ بہر حال ابو سفیان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل کر تجدید صلح کی درخواست کی مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہیں فرمائی۔ اِن حالات میں ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے چہ مہ گوئیاں کی ہوں کہ دیکھیں جی قریش کا سردار خود چل کر آیا تھا ‘ صلح کی بھیک مانگ رہا تھا ‘ صلح بہتر ہوتی ہے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں صلح نہیں کر رہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ اس پس منظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ان مشرکین کے لیے اب کوئی معاہدہ کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟ یعنی ان کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے ؟ (اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ج) اس معاہدے سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ) یعنی جب تک مشرکین صلح کے اس معاہدے پر قائم رہے ‘ تم لوگوں نے بھی اس کی پوری پوری پابندی کی ‘ مگر اب جب کہ وہ خود ہی اسے توڑ چکے ہیں تو اب تمہارے اوپر اس سلسلے میں کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ہے کہ لازماً اس معاہدے کی تجدید کی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم تھا کہ اب ان مشرکین میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ مقابلہ کرسکیں۔ ان حالات میں معاہدے کی تجدید کا مطلب تو یہ تھا کہ کفر اور شرک کو اپنی مذموم سرگرمیوں کے لیے پھر سے کھلی چھٹی (fresh lease of existance) مل جائے۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کی تجدید قبول نہیں فرمائی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :9 یعنی بنی کنانہ اور بنی خزاعہ اور بنی ضمرہ

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: آیت نمبر۷سے لے کر آیت نمبر ۱۶تک اتنی بات تو واضح ہے، کہ اس میں کفار قریش کا ذکر ہے، اور ان کی بد عہدی کا ذکر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کے قول و قرار پر بھروسہ نہ کریں، اور اگر وہ بد عہدی کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ لیکن اس معاملے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں کہ یہ آیات کب نازل ہوئی تھیں۔ مفسرین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ آیتیں فتح مکہ سے پہلے اس وقت نازل ہوئی تھیں جب کفار قریش کے ساتھ مسلمانوں نے حدیبیہ میں جو معاہدہ کیا تھا، وہ باقی تھا۔ اور ان آیتوں میں یہ پیشینگوئی کی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنے معاہدے پر قائم نہیں رہیں گے، لہٰذا اگر وہ عہد شکنی کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرو، اور گر وہ دوبارہ عہد کریں تو اب ان کی باتوں کا اعتبار نہ کیا جائے، کیونکہ وہ زبان سے کچھ کہتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اور جب تم ان سے جنگ کرو گے تو اﷲ تعالیٰ تمہاری مدد کرکے انہیں رسوا کرے گا، اور ان مسلمانوں کے دل ٹھنڈے ہوں گے جو ان کے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ اس تفسیر کے مطابق یہ آیتیں براء ت کے اُس اعلان سے پہلے کی ہیں جو آیت نمبر۱سے آیت نمبر ۶ تک بیان کیا گیا ہے، اور جو فتح مکہ کے ایک سال دو ماہ کے بعد سن ۹ھ کے حج کے موقع پر کیا گیا تھا۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیتیں براء ت کے اعلان سے پہلے کی نہیں ہیں، بلکہ آیت نمبر۱ سے براء ت کے اعلان کا جو مضمون چلا آرہا ہے، یہ اسی کا حصہ ہیں، اور ان میں براء ت کے اعلان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ پہلے ہی معاہدہ توڑ چکے ہیں، اور اب ان سے کوئی امید نہیں ہے کہ اگر ان سے کوئی نیا معاہدہ کریں تو اس کی پابندی کریں گے، کیونکہ ان مسلمانوں سے جو دُشمنی ہے، اس کی وجہ سے یہ نہ کسی رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں، نہ کسی معاہدے کا۔ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر اور اس کے بعد قریش کے بہت سے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اور ان کی کفار قریش کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں، اس لئے ان کے دل میں قریش کے بارے میں کوئی نرم گوشہ ہوسکتا تھا۔ ان آیات نے انہیں متنبہ کیا ہے کہ وہ ان لوگون کی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں، اور دل میں یہ عزم رکھیں کہ اگر ان سے لڑنا پڑا تو وہ پوری قوت سے ان کا مقابلہ کریں گے۔ راقم کو یہ تفسیر دلائل کی وجہ سے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔ اول تو اس لئے کہ آیت نمبر ۷سے ۱۶ تک کا نظم قرآن ایک ہی سلسلۂ کلام نظر آتا ہے ،اور آیت نمبر۷ کے بارے میں یہ تصور نظم کے اعتبار سے مشکل لگتا ہے کہ وہ پہلی چھ آیتوں سے نزول میں بہت مقدم ہو۔ دوسرے حضرت علیؓ نے اعلان کے وقت قرآنِ کریم کی جو آیات لوگوں کو سنائیں، ان کی تعداد روایات میں کم سے کم دس اور زیادہ سے زیادہ چالیس آئی ہے۔ (دیکھئے الدر المنثور ج :۴ص :۱۱۲ و نظم الدرر للبقاعی ج : ۸ ص ۳۶۶) اور نسائی (کتاب الحج، باب الخطبۃ یوم الترویۃ حدیث نمبر ۲۹۹۳) کی ایک روایت میں جو یہ آیا ہے کہ ’’انہوں نے اسے ختم تک پڑھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی آیات دے کر انہیں بھیجا گیا تھا، ان کے ختم تک پڑھا۔‘‘ تیسرے حافظ ابن جریر طبری، علامہ سیوطی، علامہ بقاعی، قاضی ابو السعود اور بڑے جلیل القدر محدثین اور مفسرین نے ان آیات کو براء ت ہی کا ایک حصہ اور اس کی توجیہ و تعلیل قرار دیا ہے۔ 8: اس سے مراد مشرکین وہ چوتھی قسم ہے جس کا ذکر اوپر حاشیہ نمبر۱ (د) میں آیا ہے۔ ان کو ان کے معاہدے کی مدت پوری ہونے تک مہت دی گئی تھی۔ اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدت میں اس وقت نو مہینے باقی تھے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران اگر وہ سیدھے چلتے رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ سیدھے چلو۔ اور اگر وہ بھی عہد شکنی کریں تو پھر اس مدت کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں ہے (تفسیر ابن جریر ج ۱۰ ص ۸۲)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ اس آیت میں اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ کیونکر ان مشرکوں کا عہد قائم رہ سکتا ہے ان کی حالت تو یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے یہ لوگ منکر ہیں پھر فرمایا کہ جو لوگ اپنے عہد پر قائم رہیں ان کے ساتھ تم بھی ویسا ہی کرو کہ اپنے عہد پر قائم رہو کیونکہ خدا کو احتیاط کرنے والے لوگ بہت پسند ہیں خدا ان کو دوست رکھتا ہے جو اپنے قول پر قائم رہیں اس واسطے کہ یہ صفت متقی لوگوں کی ہے وہ لوگ جنہوں نے عہد کو نباہا بنی خزاعہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن سے حدیبیہ کے دن حرم پاک کے نزدیک عہد ہوا تھا اور یہ عہد دس برس کا تھا انہیں کے متعلق یہ حکم ہوا کہ ان سے عہد پورا کرو جب تک یہ لوگ اپنے قول وقرار پر قائم ہیں یہ صلح ٦؁ ہجری میں ہوئی اس صلح کے دو برس کے بعد جب بنوبکر نے خزاعہ پر چڑھائی کی اور قریش نے ان کا ساتھ دیکر ان لوگوں کو حرم میں قتل کیا تو ناچار ٨؁ ہجری میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں سے لڑنا پڑا کہ ان لوگوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا تھا اس وقت میں حرم کے اندر لڑائی جائز ہوگئی تھی آخر مکہ فتح ہوگیا قریب دوہزار کے آدمی ایمان لائے اور باقی لوگ بھاگ گئے ان کے باب میں یہ حکم ہوا کہ چارمہینہ تک ان کو امان دو پھر اس میعاد کے ختم ہونے پر ان سے جنگ کرو باقی لوگوں میں صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل وغیرہ تھے خدا نے ان کے دلوں میں بیر اسلام کی ہدایت ڈالی اور یہ لوگ مسلمان ہوگئے اب صلح حدیبیہ کی ابتدایوں ہوئی کہ ٦؁ ہجری میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودہ سو کے قریب صحابہ کی جماعت کے ساتھ ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کے قصد سے مکہ کا ارادہ کیا اور مشرکین مکہ نے راستہ میں ایک مقام پر جس کا نام حدیبیہ ہے آپ کو روکا اور آخر صلح ہوئی جس کا تفصیلی قصہ سورة اِنَّافَتَحْنَا میں آویگا اس صلح میں تحریری صلح نامہ جو لکھا گیا تھا اس کے موافق قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کی حمایت اور امان میں رہا اور قبیلہ بنی بکر مشرکین مکہ کی حمایت اور امان میں۔ ان دونوں قبیلوں میں قدیمی عداوت چلی آتی تھی اس لئے صلح کے دو برس کے بعد بنی بکر نے خزاعہ پر یہاں تک زیادتی کی کہ حرم کی حدود کے اندر بھی بنی خزاعہ کے کچھ آدمیوں کو قتل کیا یہ بدعہدی تو قبیلہ بنی بکر کی ہوئی مشرکین مکہ نے یہ بدعہدی کی کہ بنی بکر کو ہتھیاروں کی بھی مددی اور حفیہ طور پر لڑائی میں بھی انکا ساتھ دیا اس بدعہدی کی خبر سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس ہزار صحابہ کی جماعت کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہوگیا۔ سورة انافتحنا میں اس صلح حدیبیہ کو اللہ تعالیٰ نے فتح جو فرمایا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ صلح آخر کو فتح مکہ کا سبب قرار پائی اور اس صلح کے سبب سے لشکر اسلام میں یہ ترقی ہوئی کہ دو برس میں لشکر اسلام کی تعداد چودہ سو سے دس ہزار تک پہنچ گئی حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت میں مشرکین مکہ اور قبیلہ بنی بکر کو عہد توڑ فرمایا اور قبیلہ خزاعہ کو عہد پر قائم رہنے ولے لوگوں میں شمار فرمایا اور حدیبیہ کے صلح نامہ کو عہد فرمایا۔ حدیبیہ کی صلح کو صاف طور پر حرم کی حد کے اندر کا عہد جو نہیں فرمایا اس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیبیہ حد حرم کے باہر ہے۔ حدیث کی کتابوں میں صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کی بابت میں جو بہت سی صحیح روایتیں ہیں وہ گویا آیت کی تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:7) کیف۔ کیسا۔ کیسے۔ کیونکر۔ یہاں بطور استفہام انکاری استعمال ہوا ہے۔ کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ وعندہ رسولہ۔ ان (عہد شکن) مشرکین کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی معاہدہ کیونکر ہوسکتا ہے (یعنی نہیں ہوسکتا) ۔ یعنی اگر یہ مشرکین اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کو بار بار توڑنے کا ارتکاب کرتے ہیں تو اللہ اور اللہ کا رسول ان کے ساتھ عہد کا پاس کیسے کرسکتے ہیں ۔ فما۔ ما مصدریہ ظرفیہ یا جزائیہ ہے (مثال مصدریہ وضاقت علیہم الارض بما رحبت (10:25) اور باوجود فراخ ہونے کے ان پر زمین تنگ ہوگئی۔ مثال مصدریہ ظرفیہ :۔ واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیا (19:31) اور اس نے مجھے تاکید کی ہے نماز کی اور زکوۃ کی جب تک میں زندہ ہوں۔ مثال جزائیہ :۔ ما یفعل افعل (جو کچھ وہ کرے گا میں کروں گا) ۔ یہاں اس آیت میں بمعنی مصدریہ ظرفیہ ہے۔ یعنی جب تک وہ تمہارے معاہدہ پر قائم رہیں تم بھی ان کے لئے قائم رہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یا ان کا عہد کیونکر عہد ہوسکتا ہے وہ تو بےایمان ہیں جب بھی عہد کرتے ہیں اسے توڑ ڈالتے ہیں۔ ( وحیدی)5 یعنی صلح حدیبیہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی۔ یہ صلح نامہ چونکہ حدود حرم کے اندر طر پایا تھا اس لیے اسے عندالمسجد الحرم فرما دیا۔ ( ابن کثیر)6 یعنی ان سے قتال نہ کرو چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاہدہ پر قائم ر ہے۔ اس معاہدہ میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خز اعہ کے مابین لڑائی چھڑگئی اور مشرکین نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بن خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، یہ چناچہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان 8 ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ ( ابن کثیر) شاہ صا حب فرمتے ہیں کہ صلح والے تین قسم فرمائے ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری ان کو جواب دیا کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر فو کے کی صلح میں شامل تھے تو جب تک وہ دغانہ کریں یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی لیکن آخر سب مشرکیہن عرب ایمان لائے۔ ( مو ضح)7 اور عہد کا پورا کرنا بھی پرہیز گاری کے لیے ضروری شرط ہے۔ ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٧ تا ١٦ اسرار و معارف مشرکین کے وعدوں کا کیا بھر وسہ اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک کہ جب انھیں عظمت باری کا احساس ہے نہ عظمت رسالت کا پاس مزاج میں کفر وشرک رچابسا ہوا ہے تو ایسے لوگوں سے خیر کی کیا تو قع کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود بد عہدی کی اور نقصان بھی اٹھایا مسلمانوں نے عہد نبھایا تو فتح دکامرانی سے سرفراز ہوئے سوائے اس جماعت یا ان لوگوں کے جنہوں نے حرم کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اگرچہ وہ بھی ابھی تک اسلام کی برکات سے محروم تھے مگر ان سے بھلے تھے کہ انھوں نے عہد نبھایا۔ اچھی بات کی تعریف گویا اچھے عمل کی تعریف کی جانی چاہیئے خواہ وہ کافر سے ظاہر ہوبھلائی بہرحال بھلائی ہوتی ہے اور مومن کے لئے مثالی بن جاتی ہے کہ یہ اچھائی تو کافر نے بھی نہیں چھوڑی بھلامومن کیوں ہاتھ سے جانے دے ۔ یہ دوسری جماعت کے بارے ارشاد ہورہا ہے کہ جب تک وہ خود معاہدہ نہ توڑیں مسلمان بھی اپنا عہد نبھائیں کہ رب جلیل احتیاط کرنے والوں کی پسند فرماتے ہیں ۔ لہٰذا دشمن اور کفار کے معاملہ میں بھی احتیاط کو ملحوظ رکھناہی مومن کو زیبا ہے ۔ کردار کا مدار کیفیات قلب پر ہوتا ہے رہے بد عہدی کرنے والے تو ان سے بھلائی کی امید ہی نہ رکھنی چاہیئے کہ اگر یہ تم لوگوں پر قابوپالیں تو ظلم کے پہاڑ تو ڑیں گے اور نہ کسی قرابت اور رشتے کا لحاظ کریں نہ کسی عہد کا پاس ۔ اس لئے کہ یہ صرف زبانی باتیں کرکے تھیں خوش رکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں نے تمہاری حیثیت کو قبول ہی نہیں کیا اور اعمال وکردار کا مدار تو دل کی کیفیات پر ہوتا ہے جب تک قلب درست نہ بڑے بڑے خوش گفتار بھی عملا بد کردارہوتے ہیں ، جیسے ان مشرکین کی اکثریت ہے یہ لوگ محض دنیا کے طالب ہیں اور دنیوی مفاد پر احکام الٰہی کو بچ کھاتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ دین کو دنیا پر ترجیح دی جائے لہٰذ امومن کو چاہیئے کہ وہ دین کو دنیا پر ترجیح دے اور احکام الٰہیہ کی پابندی کرے جس میں وفائے عہد بھی شامل ہے ورنہ دنیا کی لذات کے لئے دین چھوڑدینا بہت ہی برا فیصلہ ہے اور اسی غلط روش کی وجہ سے نہ انھیں کسی رشتے کا پاس ہے نہ اپنے وعدے کا اور بہت زیادتی کر گزرتے ہیں مگر بحیثیت انسان ان کے بھی انسانی حقوق ہیں ان کا یہ کردار قابل نفرین ہے پر انھیں ملامت نہ کریں کہ قبول اسلام قبل اسلام کے سب گناہوں کو معاف کرادیتا ہے لہٰذ اتم بھی ان کے زمانہ کفر کے اعمال کو معاف کرد و اور بھلا دو اب یہ تمہارے دینی بھائی ہیں لہٰذا ان کے برادرانہ حقوق کا پاس رکھیں ۔ دعوائے ایمان کا ثبوت یہاں اسلامی برادری کے ارکان کی ظاہر کی نشانیاں ارشاد فرمادی گئیں کہ اقرار ایمان کے ساتھ ادائے صلوۃ اور زکوۃ دینے کا اہتمام ہو یعنی عبادات میں بھی کوشاں ہو اور مال کی محبت بھی اللہ کی اطاعت سے نہ روکے تو مسلمان برادری کافرد ہوگا اور وہی حقوق پائے گا ورنہ ان سے محروم رہے گا جیسے منکرین زکوۃ سے جہاد کیا گیا ۔ اللہ کریم جاننے والوں تو بات کھول کر ارشاد فرمادیتے ہیں ۔ اور اگر یہ عہد شکنی کریں اور بد ستور کفر پر قائم رہیں بلکہ اسلام پر طعن وتشنیع کریں تو یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں بلکہ یہ لوگ کفر کے پیشوا ہیں اور ان کے ساتھ پوری شدت سے جہاد کرو۔ دین پر طعن اور لفظ امام عہد شکنی کے ساتھ کفار کی عادت بدکا ذکر ہے کہ دین پر طعن کرنے کی اجازت نہ دی جائے اگر کوئی اسلام اور ایمان کا دعویٰ رکھنے والا برائے نام مسلمان بھی یہ جرم کرے گا تو نہ صرف کفر کا مرتکب ہوگا بلکہ مسلمانوں پہ فرض ہے کہ اس کے خلاف جہاد کریں مثلا جیسے آج کے دانشور اور سیاستدان اسلامی حدود کو جو کتاب اللہ میں ارشاد ہوئی ہیں وحشیانہ سزائیں کہہ کرمذاق اڑاتے ہیں ایسا کرنے والے نہ صرف کا فر ہیں بلکہ کفر کے پیشوا ہیں ۔ اور یہاں لفظ امام کی تحقیق بھی سامنے آگئی کہ امامت کوئی منصب شرعی نہیں ہے بلکہ محض پیشوا اور لیڈر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اگر نیک لوگوں کا پیشواہوگا تو اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوگا جیسے انبیاء کو امام کہا گیا ہے اور اگر بدکاروں یا کفار کا پیشواہوگا تو انہی معنوں میں استعمال ہوگا جیسے ائمۃ الکفر یعنی کفر کے پیشوا یہ نبوت کی طرح کوئی منصب شرعی نہیں جیسا کہ شیعہ عقیدہ ہے اور مذہب شیعہ کی ساری عمارت کا مدار منصب امامت پر ہے جواز روئے قرآن ثابت ہی نہیں ہو پاتی ۔ جنگ اور جہاد میں فرق جنگ مخالفت کو کچلنے اور برباد کرنے کے لئے لڑی جاتی ہے تاکہ پھر وہ کبھی سرنہ اٹھا سکے اسلام چونکہ انسانیت کی بھلائی کا طالب ہے لہٰذا اسلام نے جنگ ارشاد ہوالعلھم ینتھون کہ وہ اعمال بد سے باز آجائیں محض ہوس ملک گیری کے لئے اسی لئے یہاں ارشاد ہو العلھم ینتھوب۔ کہ وہ اعمال بد سے باز آجائیں محض ہوس ملک گیری کے لئے یا دشمن کو تباہ کرنے کے لئے لڑنے کی اجازت نہیں ہاں ! اس حدتک مقابلہ ضرور ہوگا کہ وہ برائی سے رک جائیں اور ظلم و زیادتی کی روش تبدیل کرلیں اس میں یقینا دشمن کی بہتری اور خیر خواہی بھی مطلوب ہے۔ ا (رح) خراج الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ارشاد ہوا کہ بھلا ایسے لوگوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال دینے کا منصوبہ بنایا جیسے یہود مدینہ کہ انھوں نے کہا تھا ہم ان لوگوں کو جو معاذ اللہ ذلیل ہیں ، اپنے شہر سے نکال دیں گے مگر اللہ کریم نے ان سے جہاد کا حکم دی اور وہ خود ذلیل ہو کر شہر سے نکالے گئے اسی طرح جو شخص بھی اسلامی ریاست میں نفاذ اسلام کی راہ روکتا ہے یا اسلام کے نظام کے ریاست کی جگہ کسی اور ازم کو لانا چاہتا ہے وہ اخراج الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتکب ہے اور اس کے خلاف جہاد کیا جانا ضروری ہے اور فرمایا کہ فساد میں پہل بھی یہی لوگ کرتے ہیں یعنی اتنابڑا جرم کرکے پھر خود ہی فساد کی ابتدا بھی کرتے ہیں اس بھی ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائی جائے تو اس کی وجہ صرف ایک رہ جاتی ہے کہ تم ان سے دیتے اور ڈرتے ہو اور یاد رکھو مومن تو صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ ہی کو زیبا ہے کہ اس سے ڈراجائے اللہ کے سوا کسی اور سے یا کفار کی مادی طاقت سے مرعوب ہونا ایمان کے خلاف ہے اور مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔ کفار پر عذاب کا طریقہ کفار سے لڑو کہ اللہ کریم ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دیں گے ۔ اب وہ زمانہ نہ رہا کہ ابابیل پتھر بھینکیں اس لئے کہ بعثت محمد یہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ! اب خلق خدا کو برائی سے روکنا اور نیکی پہ چلانا یہ تمہاری ذمہ داری ہے جو لوگ ظلم کرتے ہیں اور اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے دین کو مٹا نے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے تمہارے ہاتھ عذاب نازل کرنے کا سبب بنیں گے اب ان پر اور احقاق حق کے لئے باطل کو مٹانے کے لئے میدان جہاد میں اترو اللہ کریم انھیں تمہارے ہاتھوں سزادیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے اور یہ رب جلیل کا وعدہ ہے کہ تمہیں دشمنان دین پر فتح دیں گے تا کہ تمہارے دل ٹھنڈے ہوں اور تمہارے دلوں کا وہ غبار جو ان کی طرف سے مسلسل عہد شکنی کرنے اور دین کی توہین کرنے سے پیدا ہوا تھا دور ہوگا اور تمہیں عزت عظمت اور راحت نصیب ہوگی ۔ لیکن یہ بات یادرکھو جب تک انسان زندہ ہے اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ان سب برائیوں کے بعد بھی اگر کوئی توبہ کرلے تو اسے نہیں روکوگے کہ اللہ کریم جس کی چاہے تو بہ قبول فرمالے وہ خود جاننے والا ہے کہ کس نے کیا جرم کیا اور بہت بڑاحکیم ہے اس کا کرم وسیع ہے لہٰذ جہاد تو یہ سے مانع نہ ہوگا جب بھی کوئی بڑے سے بڑا کافرتوبہ کرے اس کے لئے اسلام درواز ہ کھلاہوگا۔ اور یہ بھی سن لو کہ تم لوگ محض دعوائے ایمان پر ہی نجات نہ پاسکوگے بلکہ یہ دیکھاجائے گا کہ کس نے پوری محنت سے جہاد کیا اور اپنی دلی دوستی صرف اللہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور ایمانداربندوں سے رکھی ۔ اعزہ و اقارب کی محبت یا دنیا داروں کی دوستی اسے جہاد سے نہ روک سکی تب وہ اللہ کے قرب کا مستحق قرار پائے گا جہاد سے پہلوتہی اور عملی زندگی سے فرار کرنے والوں کا محاسبہ بہت سخت ہوگا کہ اللہ کریم کو تمہارے ہر ہر کام کی خبر ہے کہ کونسا کام کتنی محنت اور خلوص سے کیا جارہا ہے ۔ نیز ایسی دوستی جو دلی بھیدوں کو آشکاراکردے وہ کافر کے ساتھ جائز نہیں اور نہ ہی کوئی مخلص مومن ایسے فعل کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 7 تا 12 لغات القرآن۔ استقاموا۔ سیدھے ہیں۔ ان یظھروا۔ اگر وہ غالب آجائیں۔ لا یرقبوا۔ لحاظ نہ کریں گے۔ الا ۔ قریبی دوستی۔ رشتہ داری۔ ذمۃ۔ عہد۔ معاہدہ۔ یرضون۔ وہ راضی کرتے ہیں۔ افواہ۔ (فوہ) ۔ منہ۔ اشتروا۔ خرید لیا۔ لے لیا۔ ثمنا قلیلا۔ گھٹا ا قیمت۔ تھوڑی قیمت۔ المتعدون۔ حد سے نکل جانے والے۔ اخوان۔ (اخ) ۔ بھائی۔ نکثوا۔ توڑ دیں۔ ایمانھم۔ اپنی قسمیں۔ طعنوا۔ طعنے دیں۔ برائیاں نکالیں۔ ائمۃ الکفر۔ کفر کے سردار ۔ سرغنے۔ تشریح : قرآن کریم کی ان آیات سے جو ہدایات ربانی فراہم ہوتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ (1) وہ معاہدے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد حرام کے پاس اور اس کے آس پاس کے قبیلوں یعنی بنو کنانہ، بنو خزاعہ اور بنی حمیرہ کے ساتھ کئے تھے وہ اپنی آخری مدت تک قائم رہیں گے۔ فرمایا کہ اگر وہ سیدھے طریقے پر چلتے ہیں ۔ اپنے معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں تو اہل ایمان پر بھی تمام معاہدوں کی پابندی لازم ہے لیکن اگر وہ خود ہی اس عہدو معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں تو بیشک اللہ کو احتیاط پسند ہے مگر ہر قوم سے وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے مسلمانوں سے کیا ہوا ہے۔ (2) ان مشرکین کے ساتھ عہد و معاہدہ کی پابندی نہیں ہوسکتی جنہوں نے دشمنان اسلام کی مدد کرکے معاہدہ توڑ دیا ہے ۔ بلکہ معاہدہ کرتے وقت ہی ان کی نیت میں اخلاص نہ تھا وہ چکنی چپڑی باتیں جو ظاہر اً ان کی زبان پر تھیں وہ باطناً ان کے دل میں نہ تھیں۔ آج بھی ان کے دل کدورت اور نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ذرا بھی قابو پاجائیں تو اہل اسلام پر حملہ کرنے میں پس و پیش نہ کریں گے۔ نہ قرابت کا لحاظ کریں گے نہ کسی معاہدہ کا ہمیشہ زیادتی ان ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ فرمایا کہ ان مشرکوں کے ساتھ معاہدہ کی پابندیاں بھی نہیں ہوسکتیں، اگرچہ ان کے اندر کچھ اچھے لوگ بھی ہیں مگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نافرمان اور گناہ کے دل دادہ ہیں۔ جن کے دلوں میں ذرا بھی اللہ کا خوف نہیں ہے وہ اس مادی دنیا کے پیچھے پاگل بنے ہوئے ہیں حالانکہ دنیا کا فائدہ عارضی ہے۔ اور اس ابدی اور عظیم ترین فائدہ کو چھوڑ رہے ہیں جس کا نام خوشنودی الٰہی ہے۔ (3) فرمایا کہ اس سب کو باوجود اسلام نے معافی اور درگزر کا دروازہ اب بھی کھلا رکھا ہے۔ اگر وہ اب بھی تو بہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ لوگ ملت اور اخوت اسلامی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ (4) لیکن اگر انہوں نے اسلام دشمنی اور معاہدہ شکنی کی روش کو اپنایا تو پھر ان کے سرغنوں سرداروں اور کفر کے لیڈروں کو تلواروں کی نوک پر رکھا جائے گا کیونکہ وہ اب تلوار سے نیچے کسی طرح مانیں گے۔ معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نیا معاہدہ بیکار ہے۔ فرمایا کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر وہ اب بھی کفر وشرک سے توبہ کرکے دین اسلام کو سچے دل سے قبول کرلیں اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کے ذریعہ اپنی اسلاح کرلیں تو وہ نہ صرف ملت اسلامیہ کا ایک فرد بن جائیں گے بلکہ ان کے ماضی کے حالات اور عہد شکنیوں سے بھی اہل ایمان تعرض نہیں کریں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو صلوٰۃ و زکوٰۃ کا انکار کردے وہ مسلم نہیں ہے وہ مشرک و فاسق ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلافت میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپ (رض) نے صحابہ کرام (رض) کے سامنے اسی آیت سے استدلال کرکے فرمایا تھا کہ اگر وہ زکوٰۃ کا انکار کریں گے تو میں ان کے خلاف تلوار اٹھاؤں گا کیونکہ ایسے لوگ کتنے بھی اچھے اعمال کرتے ہوں اسلام کے اس عظیم رکن کی توہین بردات نہیں کی جائے گی۔ چناچہ جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے ساتھ ساتھ مانعین زکوٰۃ کے خلاف بھی جہاد کیا اور ان سے کافروں جیسا سلوک کیا گیا۔ (5) فرمایا گیا کہ اگر وہ اپنے عہد و معاہدے اور قسموں کو توڑتے ہیں اور اسلام کو طعن و طنز کے نشتروں سے زخمی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے سرغنوں اور سرداروں کے خلاف اقدامات کئے جائیں وجہ یہ ہے کہ یہی لوگ دین کے آڑے آرہے ہیں۔ یہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے عوام کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ جو لوگ دین اسلام کی طرف آنا چاہتے ہیں یہ ان کو طرح طرح کے نعرے دے کر اس سے روک رہے ہیں لہٰذا راست کی اس رکاوٹ کو دور کرکے ان سرداروں سے قتال کیا جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کیونکہ رعایت تو اس عہد کی ہوتی ہے جس کو دوسراشخص خود نہ توڑے ورنہ رعایت نہیں باقی رہتی مطلب یہ کہ یہ لوگ عہد کو توڑیں گے اس وقت اس طرف سے بھی رعایت نہ ہوگی۔ 6۔ یعنی ان سے امید ہے کہ یہ عہد قائم رکھیں گے۔ 7۔ یعنی جب تک یہ لوگ عہد نہ توڑیں تم بھی مدت عہد کی ان سے پوری کرو چناچہ زمانہ نزول برات میں اس مدت میں نوماہ باقی رہے تھے اور بوجہ ان کی عہد شکنی نہ کرنے کے ان کی یہ مدت پوری کی گئی۔ 8۔ پس تم بھی احتیاط رکھنے سے پسندیدہ حق ہوجاو گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین سے کیے ہوئے معاہدات سے برأت کرنے کی وجوہات۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے اسے اللہ تعالیٰ نے باقی ادیان پر غالب رہنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اس کا غلبہ اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب سچے مسلمان باہم متحد اور اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے جہاد کے لیے تیار رہیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھی بنیادوں پر صحابہ (رض) کی جماعت تیار فرمائی تھی جو جماعت اس قابل ہوئی کہ انھوں نے حدود حرم سے مشرکین کو نکال باہر کیا جب مشرکین کے دیس نکالے کا اعلان ہوا۔ تو انھوں نے اس پر مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کیا جس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشرکین کے عہد کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مشرک کئی بار معاہدہ کرنے کے بعد توڑ چکے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے مسجد حرام کے قریب رہتے ہوئے اپنے عہد کی پاسداری کی ان کے عہد کی مدت معینہ تک پاسداری کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ عہد شکنی اور کسی پر زیادتی کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی روشن خیالی اور وسعت طرفی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ عہد شکنی اور زیادتی پسند نہیں کرتا بلکہ وہ بدترین دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ بھی ایفائے عہد اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ بھی اخلاقی قدروں کا احترام اور ایفائے عہد کا خیال رکھیں۔ آپ کی نبوت سے پہلے مکہ میں چند لوگوں نے یہ عہد کیا کہ آج کے بعد کسی شخص کو کمزور، پردیسی اور بےسہارا پر ظلم نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے اجتماعی حلف اٹھایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبوت کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس حلف اور عہد کے لیے بلائے تو میں سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں گا۔ یہی تعلیم آپ نے صحابہ (رض) اور ہر امتی کو دی ہے۔ (الرحیق المختوم) (عن حُذَیْفَۃ بن الْیَمَانِ (رض) قَالَ مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی حُسَیْلٌ قَالَ فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ قَالُوا إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا مَا نُرِیدُہُ مَا نُرِیدُ إِلَّا الْمَدِینَۃَ فَأَخَذُوا مِنَّا عَہْدَ اللّٰہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَہُ فَأَتَیْنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ فَقَالَ انْصَرِفَا نَفِی لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ وَنَسْتَعِین اللّٰہَ عَلَیْہِمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب الوفاء بالعہد ] ” حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اور ابو حسیل کو غزوۂ بدر میں شرکت کرنے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔ ہمیں قریش مکہ نے پکڑ لیا انھوں نے پوچھا کہ بلاشبہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں ہمارا ان کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم تو مدینہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انھوں نے ہم سے اللہ کے نام پر حلف لیا ہم نے اس کی توثیق کردی کہ ہم مدینہ کی طرف ضرور جائیں گے مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر قتال نہیں کریں گے۔ ہم رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ہم نے آپ کو راستہ میں پیش آنے والے واقعہ کی خبر دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دونوں چلے جاؤ ہم اس عہد کی پاسداری کریں گے اور کفار کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے۔ “ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کی عہد شکنی کے مقابلے میں عہد توڑنا جائز ہے۔ ٢۔ اگر کوئی عہد کی پاسداری کرے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بھی عہد کو نبھائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگار اور عہد کی پاسداری کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ جو اللہ سے ڈریں ان سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ صبر کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٣۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٤۔ توکل کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ انصاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ : ٨) ٦۔ صاف ستھرا رہنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ : ١٠٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سابقہ آیات میں ، اسلامی حکومت اور جزیرۃ العرب کے دوسرے معاشروں اور مشرکین جزیرۃ العرب کے مابین تعلقات کی آخری شکل کو منضبط کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی حکومت اور ان دوسرے گروپوں کے درمیان معاہدے اور امن کی حالت ختم ہوجائے اور ان میں سے بعض کو چار ماہ کی مہلت دے دی جائے اور بعض کو انتہائے مدت معاہدہ تک کی مہلت دی جائے اور ان حالات میعاد کے ختم ہونے کے بعد تعلقات کی صرف دو صورتیں رہ جائیں یا تو اسلام قبول کرکے نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں یعنی اسلام قبول کرکے تمام فرائض کے پابند ہوجائیں اور قتال ، قیدی اور مورچہ بندی کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب صورت حالات ایسی ہوجائے تو پھر اگلی آیات میں بطور استفہام انکار اور سخت الفاظ میں یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ یہ بات اب نہ مناسب ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے کہ کسی مشرک کے ساتھ رسول اللہ کوئی معاہدہ کریں یعنی اصولاً ایسا ہونا ہی نہ چاہیے۔ یہ بات بنیادی طور پر اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ " ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ " موجودہ آیات کے اندر استفہام انکاری سے یہ متبادر ہوسکتا تھا کہ پہلی آیات میں جن لوگوں کے معاہدات کے لیے مدت معاہدہ تک مہلت دی گئی تھی ، جنہوں نے معاہدات کی پاسداری کی تھی اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہ کی تھی ، شاید موجودہ آیات اور حکم سے وہ مہلت بھی واپس لے لی گئی ہے اس لیے یہاں بتکرار یہ کہا گیا کہ ایسے لوگوں کی مہلت باقی ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ " بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے "۔ لیکن اس جدید تاکید میں ایک اضافہ بھی آگیا ہے۔ پہلے حکم میں یہ تھا کہ ان کو مہلت دے دی گئی ہے کیونکہ انہوں ماضی میں نقص عہد نہ کیا تھا۔ یہاں یہ شرط عائد کردی گئی کہ نزول آیت سے لے کر مدت معاہدہ تک بھی وہ عہد کا پاس رکھنے کے پابند ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بین الاقوامی معاملات کو منضبط کرنے میں بڑی باریکی سے کام لیا ہے۔ محض ضمنی اشارے اور قیاس کے بجائے صریح نص کا لانا ضروری سمجھا گیا۔ اس سورت کے تعارف اور اس سبق کے تعارف میں ہم نے جو کچھ کہا اور نزول سورت کے وقت جو حالات اور جو مظاہر اسلامی معاشرے کے اندر موجود تھے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ فیصلہ کن قدم کیوں اٹھایا گیا ، اب یہاں سے آگے کی آیات میں ممان نوں کو تسلی دیتے ہوئے ان کے دلوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور تردد اور پریشان کو دور کرتے ہوئے انہی اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں اور اسلامی نظام کے سلسلے میں خود ان مشرکین کے خیالات اور نیات کیسی ہیں ؟ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے کسی عہد کا کوئی پاس نہیں رکھتے۔ اس معاملے میں وہ ہر کارروائی کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ان معاہدات کی خلاف ورزی کے لیے وہ ہر وقت تیار رہتے ہیں ، وہ کبھی وفا نہیں کرتے ، وہ کبھی اپنے عہد کے مطابق اپنے آپ کو پابند نہیں کرتے اور جب بھی وہ قدرت پائیں وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ سالمیت ، امن کی صورت حال پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ان پر اس سلسلے میں کوئی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ الا یہ کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ: " ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ "۔ مشرکین صرف ایک اللہ کی بندگی نہیں کرتے۔ وہ رسالت محمدی کا اعتراف بھی نہیں کرتے۔ تو کیسے ممکن ہے رسول اللہ کے نزدیک ان کا کوئی عہد ہو۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے بندوں کی حیثیت کا انکار نہیں کرسکتے ، نہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کا انکار کرسکتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ اپنے خالق اور رازق حقیقی کا انکار کرتے ہیں۔ وہ اللہ اور رسول کے ساتھ عداوت کرتے ہیں لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ کے ہاں ان کا کوئی عہد ہو۔ اس استفہام انکاری میں اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے اور یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ یہ اصولاً اس بات ہی کو رد کردیتا ہے کہ کسی مسلمان اور اللہ اور رسول اور مشرک کے درمیان سرے سے کوئی معاہدہ ہو۔ قطع نظر موجودہ معاہدات سے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تو عملاً مشرکین کے ساتھ معاہدات موجود تھے۔ اور ان میں سے بعض معاہدوں کے بارے میں تو خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو اپنی مدت تک پورا کیا جائے اور مدینہ میں اسلامی مملکت کے قیام کے ساتھ ہی کفار کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے۔ یہودیوں کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے ، مشرکین کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے۔ چھٹی صدی ہجری میں معاہدہ حدیبیہ ہوا تھا اور سابقہ آیات میں ایسے معاہدات کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ اگرچہ ان آیات میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر خیانت کا اندیشہ ہو تو ان معاہدات کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ اگر آیت زیر بحث میں اصولاً اس بات ہی کو مستبعد قرار دیا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ معاہدہ کیسے ہوسکتا ہے تو پھر ان معاہدات کی اجازت کیوں دی گئی اور یہ معاہدات طے کیوں پا گئے اور پھر ان پر یہ استفہام انکاری کیوں آیا ؟ اگر اسلام کے تحریکی منہاج کو اس طرح سمجھا جائے جس طرح ہم نے سابقہ صفحات کے اندر سمجھانے کی سعی کی ہے۔ اس سورت کے آغاز میں اور سورت انفال کے آغاز میں تو یہ اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ در حقیقت یہ معاہدات ایک متعین وقت میں ، بعض عملی حالات کی وجہ سے طے پائے تھے اور یہ موزوں وقت پر موزوں وسائل جنگ تھے۔ عبوری دور کے لیے تھے۔ آخری اور انتہائی اور فائنل ہدایت بہرحال یہ ہے کہ مشرکین کے ساتھ کوئی عہد نہ ہو اور اللہ اور رسول اللہ کے ہاں اب کوئی عہد مشرکین کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک اسلامی کا آخری ہدف یہی تھا کہ اسلامی نظام کے سوا کوئی نظام نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کرہ ارض پر کوئی شریک نہ ہو لیکن معاہدات عبوری دور کے لیے کیے گئے۔ جہاں تک اسلام کا آخری ہدف ہے تو اس کا اعلان تو اول روز سے کردیا گیا تھا۔ ابتدائی اور عبوری دور کا تقاضا یہ تھا کہ جو مشرک مسلمانوں کے ساتھ نہ لڑتے تھے انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ان سے نمٹا جائے جو لڑتے تھے۔ اور یہ کہ جو لوگ تحریکی ادوار میں سے کسی دور میں دوستی چاہتے ہیں تو ان سے دوستی کی جائے۔ جو معاہدے کرنا چاہئے ان سے معاہدے کیے جائیں جو غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں ان کو رہنے دیا جائے لیکن آخری ہدف تو بہرحال یہ تھا کہ اور اس سے تحریکی حضرات کسی وقت بھی غافل نہیں رہے کہ پورے کرہ ارض اور خصوصاً جزیرۃ العرب سے شرک کا خاتمہ کردیا جائے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود مشرکین نے جو معاہدات اہل اسلام سے کیے وہ بھی وقت مقرر کے لیے تھی اور یہ بات لازمی تھی کہ میعاد ختم ہونے کے بعد وہ حملہ آور ہوسکتے تھے۔ وہ کیسے حضور کو چھوڑ سکتے تھے جبکہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ کے اہداف کیا ہیں ، وہ حضور سے امن کی حالت اس لیے قائم کرتے تھے کہ وہ اس دوران آپ کے خلاف تیاریاں کرلیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دائمی ہدایت تو دے دی تھی اور وہ کسی زمان و مکان کے ساتھ مخصوص نہ تھی۔ ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا " اور وہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں اپنے دین سے لوٹا دیں اگر وہ ایسا کرسکیں "۔ یہ ایک دائمی قول ہے ، دائمی نصیحت ہے ، جو کسی زمانے ، کسی معاشرے اور کسی بھی دور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اصولاً تمام معاہدات کے انکار کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے معاہدات کو مدت معاہدہ تک باقی رکھا جنہوں نہ تو معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا تھا ، بشرطیکہ وہ آئندہ بھی ایسا ہی طرز عمل جاری رکھیں ، یہ شرط یہاں نئی عائد کی گئی ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے " یہ لوگ جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جنہوں نے مسجد حرام کے پاس آپ سے معاہدہ کیا ، وہی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے " اس آیت میں ان کے سوا کوئی اور مراد نہیں ہے جس طرح بعض مفسرین نے سمجھا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر آیت چار میں عمومی براءت سے استثنائی کے لیے ہوا تھا ، اور دوسری مرتبہ ان کا تذکرہ اس لیے ہوا کہ اللہ نے کیف یکون کے ساتھ اصولاً بھی ہر مشرک کے ساتھ معاہدے کی نفی کردی۔ تو دوبارہ استثناء کی گئی کہ اس اصولی آیت سے کہیں سابقہ استثناء کو منسوخ تصور نہ کرلیا جائے۔ یہاں بھی تقویٰ کا ذکر ہوا اور اظہار کیا گیا کہ اللہ متقین کو پسند کرتا ہے اور وہاں بھی ایسا ہی اظہار کیا گیا تھا ، اشارہ یہ مطلوب تھا کہ مضمون ایک ہے ، موضوع آیت وہی ہے جبکہ دوسری آیت میں استثناء میں یہ اضافہ کردیا گیا کہ جس طرح ماضی میں وہ رویہ درست رکھے ہوئے تھے اسی طرح مستقبل میں بھی انہیں اپنا رویہ درست رکھنا ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے کہا یہ نہایت ہی باریک قانونی عبارت یعنی (Proviso) ہے اور دونوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ جس طرح وہ پہلے وفائے عہد کرتے رہے اسی طرح مہلت تب جاری رہے گی جب وہ آئندہ بھی درست رہیں یعنی دوران مہلت۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کو کسی قرابت داری اور معاہدہ کی پاسداری نہیں ان آیات میں اول تو مشرکین کی بد عہدی کے مزاج کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ ان کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے پہلے بھی عہد توڑا ہے اور آئندہ بھی توڑتے رہیں گے۔ ان کا حال یہ ہے کہ ظاہر میں زبانوں سے عہد ہے اور دلوں میں بغض کی آگ ہے اگر مسلمانوں پر غلبہ پاجائیں تو نہ کسی رشتہ داری کا لحاظ کریں اور نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا۔ بس یہ مسلمانوں کو اپنی زبانی باتوں سے راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ (وفائے عہد اور اطاعت کا زبانی وعدہ کرتے ہیں) اور ان کے دل ان کی اپنی زبانی باتوں سے راضی نہیں ہیں۔ اور ان میں اکثر فاسق ہیں۔ یعنی شرارت سے بھرے ہوئے ہیں کہ کسی بھی عہد کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں۔ اکا دکا کوئی شخص عہد کی پاسداری کرنا چاہے تو اس کی بات چلنے والی نہیں ہے۔ یہ لوگ اللہ کے احکام کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے حقیر دنیا ہے۔ انہوں نے حقیر دنیا کو لے لیا اور اللہ کے احکام کو چھوڑ دیا۔ تھوڑی سی حقیر دنیا کے جانے کا جو وہم تھا اس کی وجہ سے انہوں نے ایمان قبول نہ کیا کیونکہ جو شخص دنیا ہی کو سامنے رکھے گا وہ اللہ کے راستہ پر نہیں چل سکتا ایسے لوگ خود بھی ایمان قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی ایمان قبول نہیں کرنے دیتے۔ جن کاموں میں یہ لگے ہوئے ہیں ان کے یہ کام برے ہیں۔ (لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ) (کسی مومن کے بارے میں ان کے پاس نہ قرابت داری کی رعایت ہے۔ نہ معاہدہ کی پاسداری ہے) (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ) (اور یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم و زیادتی کرنے والے ہیں۔ ) (کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ) فرمانے کے بعد متصلاً ہی یوں فرمایا۔ (اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) علامہ نسفی فرماتے ہیں کہ استثناء میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن سے مسجد حرام کے قریب عہد ہوا تھا اور جو عہد پر قائم رہے۔ اور ان کی مدت معاہدہ باقی تھی جیسے بنی کنانہ اور بنی ضمرہ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم دیا کہ ان کے عہد کی رعایت کرو۔ (فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ ) (جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں یعنی مدت معاہدہ میں نقض عہد نہ کریں) (فَاسْتَقِیْمُوْا لَھُمْ ) (تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو) یعنی وفاء عہد کرو عہد کی خلاف ورزی نہ کرو۔ کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔ اس میں (اَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ ) کے مضمون کا اعادہ ہے اور اتنی بات زائد ہے کہ جب تک وہ مستقیم رہیں تم بھی مستقیم رہو اگر وہ عہد توڑ دیں تو تم پر عہد پورا کرنے کی پابندی نہیں۔ صاحب روح المعانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں۔ وأیاً ما کان فحکم الامر بالاستقامۃ ینتھی بانتھاء مدۃ العھد فیرجع ھذا الی الامر بالاتمام المار الخ (ص ٥٥ ج ١٠) (اور جو بھی ہو عہد ہر استقامت کا حکم معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے پھر یہ حکم گزشتہ عہد کی تکمیل کی طرف لوٹتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7: یہاں سے موانع قتال کے جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یعنی ایسے چار شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو مشرکین سے جہاد کرنے کی راہ میں حائل ہوسکتے تھے۔ یہ پہلے مانع کا جواب ہے۔ مانع یہ تھا کہ مشرکین سے تو مسلمانوں معاہدہ کر رکھا ہے پھر ان سے قتال کیوں کر جائز ہوسکتا ہے تو فرمایا کہ جن مشرکین نے اپنا عہد توڑ دیا اور مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مدد دی اللہ اور رسول کے نزدیک ان کا عہد کیونکر باقی رہ سکتا ہے ان کے نقض عہد کی وجہ سے معاہدہ ختم ہوگیا اس لیے نبذ عہد کا اعلان کر کے اور چار ماہ کی مہلت دے کر ان سے ڈٹ کر قتال کرو۔ “ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ الخ ” البتہ وہ مشرکین جو اپنے عہد پر قائم ہیں جب تک وہ عہد پر قائم رہیں ان سے اپنا عہد باقی رکھو اور ان سے کسی قسم کا تعرض مت کرو۔ اس سے مراد وہی بنی کنانہ اور بنی ضمرہ ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 بھلا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک ان مشرکوں کے کسی عہد کا اعتبار کیونکر ہوسکتا ہے اور یہ لوگ اپنے عہد پر کیونکر قائم رہ سکتے ہیں مگر ہاں وہ لوگ جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس عہد کیا تھا لہٰذا جب تک وہ لوگ تم سے سیدھی طرح رہیں تم بھی ان سے اپنے عہد پر قائم رہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بدعہدی سے بچنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں صلح والے تین قسم کے فرمائے ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری ان کو جواب دیا مگر جو مکہ کی صلح میں شامل تھے جب تک وہ دغا نہ کریں یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی۔ لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔ 12