Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 72

سورة التوبة

وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿٪۷۲﴾  15

Allah has promised the believing men and believing women gardens beneath which rivers flow, wherein they abide eternally, and pleasant dwellings in gardens of perpetual residence; but approval from Allah is greater. It is that which is the great attainment.

ان ایماندار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں ، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے یہی زبردست کامیابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Good News for the Believers of Eternal Delight Allah tells; وَعَدَ اللّهُ الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ ... Allah has promised the believers -- men and women, -- Allah describes the joys and eternal delight He has prepared for the believers, men and women in, ... جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ... Gardens under which rivers flow to dwell therein forever, (for eternity), ... وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً ... ... فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ... and beautiful mansions, built beautifully in good surroundings. In the Two Sahihs, it is recorded that Abu Musa, Abdullah bin Qays Al-Ashari said that the Messenger of Allah said, جَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ انِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا وَجَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ انِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلاَّ رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْن Two gardens, their pots and whatever is in them are made of gold, and two gardens, their pots and whatever is in them are made of silver. Only the Veil of Pride of Allah's Face separates the people from gazing at Him, in the garden of Eden. He also narrated that the Messenger of Allah said, إِنَّ لِلْمُوْمِنِ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُوْلُوَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ طُولُهَا سِتُّونَ مِيلً فِي السَّمَاءِ لِلْمُوْمِنِ فِيهَا أَهْلُونَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ لاَ يَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا For the believer in Paradise there is a tent like a hollow pearl which is sixty miles high in the sky, and in the tent the believer will have (so large) a family that he visits them all and some of them would not be able to see the others. The Two Sahihs collected this Hadith. It is recorded in the Two Sahihs that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَنْ امَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَةَ وَصَامَ رَمَضَانَ فَإِنَّ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا Whoever believes in Allah and His Messenger, offers prayer perfectly and fasts the month of Ramadan, will rightfully be granted Paradise by Allah, no matter whether he emigrates in Allah's cause, or remains in the land where he is born. The people said, "O Allah's Messenger! Shall we acquaint the people with this good news" He said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِايَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالاَْرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَعْلَى الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَن Paradise has one-hundred grades which Allah has prepared for the Mujahidin who fight in His cause, the distance between each two grades is like the distance between the heaven and the earth. So, when you ask Allah, ask Him for Al-Firdaws which is the best and highest part of Paradise, from it gush forth the rivers of Paradise and above it is the `Arsh (Throne) of the Beneficent. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said, that the Messenger of Allah said, إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَسَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَة If you invoke Allah for Salah (blessings) on me, then also invoke Him to grant me Al-Wasilah. He was asked, "What is Al-Wasilah, O Allah's Messenger!" He said, أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لاَ يَنَالُهَا إِلاَّ رَجُلٌ وَاحِدٌ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُو The highest grade in Paradise, it will be for only one man, and I hope I am that man. The Musnad contains a Hadith from Sa`d bin Mujahid At-Ta'i, that Abu Al-Mudillah said, that Abu Hurayrah said, "We said, `O Allah's Messenger! Talk to us about Paradise, what is it built of?' He said, لِبَنَةُ ذَهَبٍ وَلِبَنَةُ فِضَّةٍ وَمِلَطُهَا الْمِسْكُ وَحَصْبَاوُهَا اللُّوْلُوُ وَالْيَاقُوتُ وَتُرَابُهَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ يَدْخُلُهَا يَنْعَمُ لاَ يَبْأَسُ وَيَخْلُدُ لاَيَمُوتُ لاَ تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلاَ يَفْنَى شَبَابُه A brick of gold and a brick of silver. Its mortar is from musk, its gravel is pearls and rubies. Its sand is saffron. Whoever enters it will enjoy the delights, will never be hopeless, and will live forever and will not die. His clothes will never decay nor will his youth ever end." Allah said next, ... وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ... But the greatest bliss is the good pleasure of Allah, meaning, Allah's pleasure is more grand, greater and better than the delight the believers will be enjoying (in Paradise). Imam Malik narrated, that Zayd bin Aslam said that `Ata' bin Yasar said that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لاَِهْلِ الْجَنَّةِ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ Allah, the Exalted and Ever High, will say to the people of Paradise, `O residents of Paradise!' فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ They will say, `Labbayka (here we are!), our Lord, and Sa`dayk (we are happy at your service!) and all the good is in Your Hand.' فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمْ He will ask them, `Are you pleased?' فَيَقُولُونَ وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَى يَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ They will say, `Why would not we be pleased, O Lord, while You have given us what You have not given any other of your creation!' فَيَقُولُ أَلاَ أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ He will say, `Should I give you what is better than all this?' فَيَقُولُونَ يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ They will say, `O Lord! What is better than all this!' فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَ أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا He will say, `I will grant you My pleasure and will never afterwards be angry with you.' The Two Sahihs collected the Hadith of Malik. And, ... ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ That is the supreme success.

مومنوں کو نیکی کے انعامات مومنو کی ان نیکیوں پر جو اجر و ثواب انہیں ملے گا ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ابدی نعمتیں ہمیشگی کی راحتیں باقی رہنے والی جنتیں جہاں قدم قدم پر خوشگوار پانی کے چشمے ابل رہے ہیں جہاں بلند و بالاخوبصورت مزین صاف ستھرے آرائش و زیبائش والے محلات اور مکانات ہیں ۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں دو جنتیں تو صرف سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ بھی وہاں ہے سب سونے ہی سونے کا ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں برتن بھی اور کل چیزیں بھی ان میں اور دیدارالٰہی میں کوئی حجاب بجز اس کبریائی کی چادر کے نہیں جو اللہ جل وعلا کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے ۔ اور حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے جنت میں ایک خیمہ ہو گا ایک ہی موتی کا بنا ہوا اس کا طول ساٹھ میل کا ہو گا مومن کی بیویاں وہیں ہوں گی جن کے پاس یہ آتاجاتا رہے گا لیکن ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں گی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ جو اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے نماز قائم رکھے رمضان کے روزے رکھے اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے وطن میں ہی رہا ہو لوگوں نے کہا پھر ہم اوروں سے بھی یہ حدیث بیان کر دیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کے مجاہدوں کے لئے بنائے ہیں ہر دو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ۔ پس جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے بہتر جنت ہے جنتوں کی سب نہریں وہیں سے نکلتی ہیں اس کی چھت رحمن کا عرش ہے فرماتے ہیں ۔ اہل جنت جنتی بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے چمکتے دھمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ یہ بھی معلوم رہے کہ تمام جنتوں میں خالص ایک اعلیٰ مقام ہے جس کا نام وسیلہ ہے کیونکہ وہ عرش سے بالکل ہی قریب ہے یہ جگہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ آپ فرماتے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو اللہ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو ۔ پوچھا گیا وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا وہ اعلیٰ درجہ جو ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے وہ شخص میں ہی ہوں ۔ آپ فرماتے ہیں موذن کی اذان کا جواب دو جیسے کلمات وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لئے وسیلہ طلب کرو اور جنت کی ایک منزل ہے جو تمام مخلوق الہیہ میں سے ایک ہی شخص کو ملے گی مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ہی عنایت ہو گی جو شخص میرے لئے اللہ سے اس وسیلے کی طلب کرے اس کیلئے میری شفاعت روز قیامت حلال ہو گئی ۔ فرماتے ہیں میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو دنیا میں یہ جو بھی میرے لئے وسیلے کی دعا کرے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا ۔ صحابہ نے ایک دن آپ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ہمیں جنت کی باتیں سنائیے انکی بنا کس چیز کی ہے؟ فرمایا سونے چاندی کی اینٹوں کی ، اس کا گارا خالص مشک ہے ، اس کے کنکر لولو اور یاقوت ہے اس کی مٹی زعفران ہے اس میں جو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو گا جو کبھی خالی نہ ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا جس کے بعد موت کا کھٹکا بھی نہیں نہ اس کے کپڑے خراب ہوں نہ اس کی جوانی ڈھلے ۔ فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جنکا اندر کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور باہر کا حصہ اندر سے ۔ ایک اعرابی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بالا خانے کن کے لئے ہیں؟ آپ نے فرمایا جو اچھا کلام کرے کھانا کھلائے روزے رکھے اور راتوں کو لوگوں کے سونے کے وقت تہجد کی نماز ادا کرے ۔ فرماتے ہیں کوئی ہے جو جنت کا شائق اور اس کے لئے محنت کرنے والا ہو؟ واللہ جنت کی کوئی چار دیواری محدود کرنے والا نہیں وہ تو ایک چمکتا ہوا بقعہ نور ہے اور مہکتا ہوا گلستان ہے اور بلند وبالا پاکیزہ محلات ہیں اور جاری و ساری نہریں ہیں اور گدرائے ہوئے اور پکے میوؤں کے خوشے ہیں اور جوش جمال لدھے پھندے ، سبزہ ہے پھیلا ہوا ، کشادگی اور راحت ہے ، امن اور چین ہے ، نعمت اور رحمت ہے ، عالیشان خوش منظر کوشک اور حویلیاں ہیں ۔ یہ سنکر لوگ بول اٹھے کہ حضور ہم سب اس جنت کے مشتاق اور اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ آپ نے فرمایا انشاء اللہ کہو پس لوگوں نے انشاء اللہ کہا ۔ پھر فرماتا ہے ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالا نعمت اللہ کی رضامندی ہے ۔ فرماتے ہں اللہ تعالیٰ عزوجل جنتیوں کو پکارے گا کہاے اہل جنت! وہ کہیں گے لبیک ربنا وسعدیک والخیر فی یدیک ۔ پوچھے گا کہو تم خوش ہوگئے؟ وہ جواب دیں گے کہ خوش کیوں نہ ہوتے تو نے تو اے پروردگار ہمیں وہ دیا جو مخلوق میں سے کسی کو نہ ملا ہو گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا لو میں تمہیں اس سے بہت ہی افضل و اعلیٰ چیز عطا فرماتا ہوں وہ کہیں گے یا اللہ اس سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا سنو میں نے اپنی رضامندی تمہیں عطا فرمائی آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناخوش نہ ہوؤں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اللہ عزوجل فرمائے گا کچھ اور چاہیے تو دوں وہ کہیں گے یا اللہ جو تو نے ہمیں عطا فرما رکھا ہے اس سے بہتر تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی ۔ اللہ فرمائے گا وہ میری رضامندی ہے جو سب سے بہتر ہے ۔ امام حافظ ضیاء مقدسی نے صفت جنت میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں اس حدیث کو شرط صحیح پر بتایا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 جو موتی اور یاقوت تیار کئے گئے ہوں گے۔ عدن کے کئی معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی ہمیشگی کے ہیں۔ 72۔ 2 حدیث میں بھی آتا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کے بعد اہل جنت کو سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی کی صورت میں ملے گی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اللہ کی خوشنودی سے مراد ؟ جنت کی نعمتیں بےشمار، لاتعداد اور لازوال ہیں جن کا ذکر کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور صحیح احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے کے بعد پکارے گا جنتی لبیک کہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا۔ && اب تم خوش ہو ؟ && وہ جواب دیں گے && پروردگار ! کیا اب بھی ہم خوش نہ ہوں گے جب کہ تو نے یہاں ہمیں ہر طرح کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا && کیا میں تمہیں ان سب نعمتوں سے بڑھ کر نعمت نہ عطا کروں ؟ && جنتی پوچھیں گے && اے پروردگار ! ان نعمتوں سے افضل اور کیا چیز ہوسکتی ہے ؟ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا && اب میں تم پر اپنی رضا اور خوشنودی اتارتا ہوں اور آج کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ && (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب کلام الرب مع اہل الجنۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ : ” عَدْنٍ “ ہمیشہ رہنے کا مقام، ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(جنت میں) ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ تمہارے لیے یہ (نعمت) ہے کہ تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے اور تمہارے لیے یہ (نعمت) ہے کہ تم زندہ رہو گے کبھی نہیں مرو گے اور تمہارے لیے یہ (نعمت) ہے کہ تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے اور تمہارے لیے یہ (نعمت) ہے کہ تم خوش حال رہو گے کبھی تنگی میں مبتلا نہیں ہو گے، سو یہ ہے اس کا فرمان : (وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأعراف : ٤٣ ] ” انھیں آواز دی جائے گی کہ یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے، اس وجہ سے کہ تم عمل کرتے تھے۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فی دوام نعیم أہل الجنۃ۔۔ : ٢٨٣٧ ] وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ : ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جنت والوں سے فرمائے گا : ” اے جنت والو ! کیا تم خوش ہوگئے ؟ “ وہ عرض کریں گے : ” اے ہمارے پروردگار ! ہم خوش کیوں نہ ہوں، تو نے ہمیں وہ کچھ عنایت فرمایا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” کیا میں تمہیں ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ایک اور نعمت نہ دوں ؟ “ وہ عرض کریں گے : ” اب اس سے بڑھ کر اور کون سی نعمت ہوسکتی ہے ؟ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” میں تمہیں اپنی خوشنودی سے نوازتا ہوں، اب کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ “ [ بخاری، التوحید، باب کلام الرب مع أہل الجنۃ : ٧٥١٨۔ مسلم : ٢٨٢٩ ] ” رِضْوَانٌ“ میں تنوین تقلیل اللہ تعالیٰ کی رضا کی عظمت بیان کرنے کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تھوڑی سے تھوڑی رضا بھی جنت کی نعمتوں اور جنت عدن کے پاکیزہ مکانوں سے بہت ہی بڑی ہے، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَدَ اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝ ٠ ۭ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَكْبَرُ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝ ٧٢ ۧ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ الجَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ رِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) مسلمان مردوں اور عورتوں سے اللہ تعالیٰ نے ایسے باغات کا وعدہ فرما رکھا ہے جن کے درختوں اور محلات کے نیچے شراب طہور پانی، شہد اور دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی، جنت میں یہ حضرات ہمیشہ رہیں گے اور ان سے نفیس مکانوں یا یہ کہ خوبصورت یا پاک یا یہ کہ بلند مکانوں کا وعدہ کر رکھا ہے جو مشک اور ریحان کی خوشبوؤں سے معطر ہوں گے جو جنت کے درجات عالیہ میں ہوں گے اور ان کے پروردگار کی رضامندی ان سب سے بڑی چیز ہے یہ جزا اور بدلہ انکی بہت بڑی کامیابی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط) (وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) جنت کی ساری نعمتیں اپنی جگہ ‘ مگر اہل جنت کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ ان سے راضی ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٢۔ اللہ پاک نے مومنوں کے اوصاف بیان کر کے عقبیٰ میں ان کے واسطے جو جزائے خیر مقرر کی ہے اس کا ذکر فرمایا کہ ہم نے مومنوں سے اس بات کا وعدہ کرلیا ہے کہ انہیں آخرت میں جنت کے اندر داخل کریں گے وہ مومن خواہ مرد ہوں خواہ عورت ہوں اور جنت بھی ایسی ہوگی جس میں نہریں جاری ہیں اور بہت اچھے اچھے مکان اس میں بنے ہوئے ہیں اگرچہ دوزخ کے عذاب اور جنت کی نعمتوں کی تفصیل میں بہت سی صحیح حدیثیں آئی ہیں لیکن صحیح بخاری ومسلم میں انس (رض) بن مالک کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کے عذاب کی جو تفصیل مجھ کو معلوم ہے اگر وہ تفصیل لوگو کو معلوم ہوجاوے تو وہ روتے روتے تھک جاویں اور ان کا ہنسی کی بات پر ہنسنا بالکل کم ہوجاوے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے جنت میں وہ وہ نعمتیں پیدا کی ہیں کہ جو نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ ان کا خیال کسی کے دل میں آسکتا ہے۔ ان صحیح حدیثوں کے موافق یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوزخ کے عذاب اور جنت کی نعمتوں کی پوری تفصیل انسان کی طاقت سے باہر ہے جنت میں ایک بہت بلند مقام ہے اور عرش سے بہت نزدیک اس کا نام وسیلہ ہے یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن ہے امام احمد ابوہریرہ (رض) سے ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ حضرت نے یوں فرمایا ہے کہ جب تم مجھ پر درود بھیجو تو میرے واسطے خدا سے وسیلہ مانگو پوچھا کہ یارسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا چیز ہے آپ نے فرمایا وسیلہ جنت میں ایک اعلی درجہ ہے جس کو سوائے ایک شخص کے اور کوئی نہیں پائے۔ گا مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں مسلم نے بھی اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی روایت سے یوں بیان کیا ہے کہ جب مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو جس طرح وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر دردد بھیجو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ پاک اس پر دس بار درود بھیجتا ہے پھر میرے واسطے وسیلے کی دعا مانگو اور وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے وہ کسی بندے کے لائق نہیں ہے سوائے ایک شخص کے میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہوں پھر فرمایا کہ جو شخص میرے واسطے اللہ سے وسیلہ کا سوال کرتا ہے۔ اس کو قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہوگی عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی یہ روایت ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں بھی ہے پھر اللہ پاک نے جنت کا حال بیان کر کے یہ فرمایا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں مومنوں سے راضی ہوں گا صحیح بخاری مسلم اور مؤطا میں ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جنت والوں سے کہے گا کہ کیا تم راضی اور خوش ہوئے وہ کہیں گے اے رب ہمارے ہم کو کیا ہوا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں ہمیں تو وہ چیزیں تو نے دی ہیں جو کسی مخلوق کو نہیں دیں اللہ پاک فرمائے گا کہ کیا اس سے بھی بہتر تمہیں دوں کہیں گے اے رب وہ کیا چیز ہے جو اس سے بھی بہتر ہے اللہ پاک فرمائے گا کہ میں تم پر اپنی خوشنودی نازل کر دوں گا اور پھر میں تم پر کبھی خفا نہ ہوں گا۔ یہ حدیث ورضوان من اللہ اکبر کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آقا کی رضا مندی غلام کے حق میں بڑی چیز ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:72) جنت عدن۔ عدن مصدر اس کا فعل ابواب نصر۔ ضرب سے آتا ہے۔ اس کے معنی ہیں رہنا۔ بسنا۔ کسی جگہ مقیم ہونا۔ جنت عدن کے معنی ہوئے رہنے بسنے کے باغات یعنی وہ جنتیں جہاں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ عدن کو بعض علماء علم قرار دیتے ہیں اور بعض صفت ۔ جو لوگ علم کہتے ہیں وہ اس کو جنت میں ایک خاص مقام کا نام دیتے ہیں اور اس آیہ شریفہ کو پیش کرتے ہیں۔ جنت عدن ن التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب (19:61) ہمیشگی کی جنتیں جن کا وعدہ رحمن نے اپنے بندوں سے درپردہ کر رکھا ہے۔ کیونکہ یہاں معرفہ کو اس کی صفت لایا گیا ہے۔ اور جو لوگ عدن کو علم نہیں بلکہ جنت کی صفت بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ عدن کے معنی اصل میں استقرار اور ثبات کے ہیں۔ چناچہ محاورہ ہے عدن بالمکان اس نے اس جگہ قیام کیا۔ اور عدن سے مراد اقامۃ علیء وجہ الخلود۔ یعنی دائمی طور پر رہنا۔ اسی وجہ سے تمام جنتیں جنت عدن ہیں۔ علامہ قرطبی کے نزدیک عدن جنت کے ایک اعلیٰ درجہ کا نام ہے جو وسط میں ہے اور دوسرے جنت اس کے اردگرد ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنتیں سات ہیں۔ دارالخلد۔ دار الجلال۔ دار السلام۔ جنت عدن۔ جنت الماوی۔ جنت نعیم۔ جنت الفردوس۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :۔ عدن دار اللہ لم تراھا عین ولم تخطر علی تلب بشر لایسکنھا غیر ثلثۃ النبیون۔ والصدیقون والشھدائ۔ یعنی عدن اللہ کا وہ گھر ہے جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی انسان کے دل نے تصور نہیں کیا۔ اس میں صرف تین قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ نبی، صدیق اور شہید۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : طوبی لمن دخلہا۔ خوش بخت ہے وہ جو اس میں داخل ہوا۔ رضوان۔ خوشنودی۔ رضا۔ مرضی۔ رضامندی۔ رضی یرضی کا مصدر ہے (باب سمع) بہت بڑی رضا مندی۔ اور نہایت خوشنودی کو رضوان کہتے ہیں۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اس لئے قرآن عظیم میں رضوان کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے رضا الٰہی کے لئے مخصوص ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 جنات یعنی ہمیشہ رہنے کا مقام۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت کے ایک مخصوص حصہ کا نام ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت عدن میں لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ ( ابن کثیر)2 جیسا کہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جنت والوں سے فرمائے گا : اے جنت والو ! کیا تم خوش ہوگئے وہ عرض کریں گے۔ اے ہمارے پروردگار ہم خوش کیوں نہ ہو تو نے ہمیں وہ کچھ عنایت فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ایک اور نعمت نہ دوں َ ؟ وہ عرض کریں گے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کون سی نعمت ہوسکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں تمہیں اپنی خوشنودی سے نوازتا ہوں اب کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ ( ابن کثیر) خوشنودی تست مطلب ما۔ یارب رحمے بیا ربما۔ ( ترجمان

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مومنوں کا انجام اور ان کا صلہ۔ مومن مرد اور عورتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سچا اور پکا وعدہ ہے کہ انھیں ایسی جنت میں داخل فرمائے گا جس میں آبشاریں اور نہریں جاری ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے صاف ستھرے اور بہترین محلات ہوں گے۔ ان نعمتوں کے ساتھ انھیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ہمیشہ کے لیے سر ٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ یاد رکھیں کہ اللہ کی رضا تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بڑھ کر ہے یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّہَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِینَ فِی سَبِیل اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں سودرجے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو۔ بلاشبہ وہ وسط اور سب سے بلند جنت ہے میں نے دیکھا کہ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس سے ہی جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ لِأَہْلِ الْجَنَّۃِ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ فَیَقُولُونَ لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ فَیَقُولُ ہَلْ رَضِیتُمْ فَیَقُولُونَ وَمَا لَنَا لَا نَرْضٰی یَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ فَیَقُولُ أَلَا أُعْطِیکُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُولُونَ یَا رَبِّ وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُولُ أُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلَا أَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ أَبَدًا) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب کلام الرب مع أہل الجنۃ ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا اے جنت والو ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں اور تمام بھلائی آپ ہی کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو ؟ جنتی کہیں گے۔ ہمارے رب ہمیں کیا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں اے اللہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں تمہیں اس سے بہتر نہ عطاکروں ؟ وہ کہیں گے اے باری تعالیٰ اس سے کون سی چیز بہتر ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تم پر اپنی رضا واجب کردی ہے آج کے بعد کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٢۔ مومنوں کے لیے جنت میں عمدہ رہائش گاہیں ہوں گی۔ ٣۔ مومن اللہ کی رضا کے مستحق ہیں۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کے ساتھ اللہ کے وعدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ باغات، نہروں، اچھی رہائش گاہوں اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ : ٧٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشگی کی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (مریم : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ زمین کی خلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النور : ٥٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ (الفتح : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ ان جنات میں باعز طور پر رہیں گے۔ لیکن ان کے لیے ان اعلی رہائش گاہوں سے بھی بڑآ انعام اللہ کی رضا مندی ہے اور جنت اپنی تمام آسائشوں کے ساتھ اس بڑے انعام کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ اور یہ خوشی یعنی رضائے الہی کی خوشی سب سے بڑی خوش ہے۔ اللہ کے ساتھ رابطے کا اعلی مقام انسان کو اس وقت ملتا ہے کہ جب وہ اللہ اپنی آنکھوں سے نظر آئے یعنی حالت شہود۔ اس مقام میں انسان دنیا کی کثافتوں ، اس کی پریشانیوں اور اس کی دلچسپیوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس مقام میں انسان کے دل کی گہرائیوں سے ایک روشنی نکلتی ہے۔ انسانی آنکھیں اس نور کو نہیں دیکھ سکتیں اور یہ نور ، نور الہی ہوتا ہے اور اس کا تعلق روح اللہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقام انسانوں میں سے نہایت ہی قلیل تعداد کو نصیب ہوتا ہے۔ اس مقام کا ایک لحظہ اور ایک چمک ہی پوری زندگی کے مال و متاع سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کی رضا مندی کا مقام تو اس سے بھی بلند مقام ہے اور اس میں انسان کی روح کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور انسان تسلسل کے ساتھ اس کا شعور اپنے اندر پاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر اہل ایمان کی آخرت کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (منافقین سے نار جہنم کا وعدہ فرمایا اور اہل ایمان سے باغوں کا وعدہ فرمایا اور دونوں جماعتوڈ کے بارے میں خٰلِدِیْنَ فِیْھَا فرمایا کہ اپنی اپنی جزا اور سزا کے مقام میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے) اہل ایمان کی نعمتوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے مزید فرمایا (وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ) یعنی ان حضرات کے لیے عمدہ مکان ہوں گے جن میں وہ رہیں گے۔ اور یہ ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہوں گے اولاً باغوں کا ذکر فرمایا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ پھر عمدہ مکانوں کا تذکرہ فرمایا جو ان باغوں میں ہوں گے اور عدن کی طرف ان باغوں کی اضافت فرما کر یہ بتادیا کہ یہ باغ واقعی رہنے کی جگہیں ہیں۔ جہاں سے نہ کبھی منتقل ہونا چاہیں گے اور نہ انہیں وہاں سے منتقل کیا جائے گا۔ صاحب روح المعانی ص ١٣٦ ج ١٠ نے لفظ عدن کی تفسیر کرتے ہوئے متعدد اقوال لکھے ہیں۔ اور بعض روایات بھی نقل کی ہیں۔ پھر اخیر میں لکھا ہے۔ و قیل العدن فی الاصل الاستقرار و یقال عدن بالمکان اذا اقام و المراد بہ ھنا الاقامۃ علی وجہ الخلود لانہ الفرد الکامل المناسب لمقام المدح أی فی جنات اقامۃ و خلود، و علی ھذا الجنات کلھا جنات عدن لَا یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلاً الی آخر ما قالَ ۔ (کہا گیا ہے کہ عدن کا معنی ہے ثبات و استقرار اور عَدَنَ بالمَکَانِ اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ کوئی کہیں اقامت پذیر ہوجائے یہاں دائمی طور پر رہنا مراد ہے کیونکہ یہی مقام تعریف کے مناسب رہائش کا فرد کامل ہے یعنی رہائش کے اور ہمیشہ کے باغات میں۔ اس بنیاد پر تمام جنتیں، جنات عدن ہیں جنتی اس سے نکلنا نہیں چاہیں گے۔ الی آخرہ) سورۂ صف میں اہل ایمان کو خطاب فرماتے ہوئے جو وعدہ فرمایا ہے اس میں بھی (مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ) فرمایا ہے اس سے بھی یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ عدن سے کوئی مخصوص جنت یا جنت کا کوئی مخصوص مقام مراد نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر جنتی کا جنت میں مستقل قیام ہوگا۔ جنت کے علاوہ دوسری جگہ جانا نہ ہوگا سورة حجر میں فرمایا (لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ) (وہاں ان کو ذرا بھی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے) اور سورة کہف میں فرمایا (لَا یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلاً ) کہ وہ وہاں سے کہیں منتقل ہونا پسند نہ کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت اپنے باغوں اور اپنے مکانوں میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ جگہ واقعی رہنے کی جگہ ہوگی وہاں سے نہ نکالے جانے کا احتمال ہوگا اور نہ وہاں رہتے رہتے جی بھرے گا۔ پھر فرمایا (وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) (اور اللہ کی رضا مندی تمام نعمتوں سے بڑی ہے) یعنی اہل ایمان جن نعمتوں میں ہوں گے وہ اپنی جگہ بڑی بڑی بےمثال نعمتیں ہوں گی۔ لیکن ان سب نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا۔ حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائیں گے اے جنت والو ! وہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں اور تعمیل ارشاد کے لیے موجود ہیں۔ اور ساری خیر آپ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سوال ہوگا کیا تم راضی ہوگئے۔ وہ عرض کریں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں گے حالانکہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا۔ کیا میں تمہیں اس سے افضل چیز عطا نہ کر دوں ؟ وہ عرض کریں گے کہ اے رب اس سے افضل اور کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں تم پر اپنی رضا مندی نازل کرتا ہوں اس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔ (صحیح بخاری) پھر آخر میں فرمایا (ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) (یہ جو کچھ اہل ایمان مردوں اور عورتوں کی نعمتوں کا تذکرہ ہوا یہ بڑی کامیابی ہے) اس میں منافقین سے تعریض ہے کہ دنیا جو تھوڑی سی ہے اور حقیر ہے اس کے لیے کفر اختیار کر کے ایسی ایسی نعمتوں سے گریز کر رہے ہیں اور تھوڑی بہت دنیا مل جانے کو جو کامیابی سمجھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ایمان قبول نہیں کرتے یہ ان کی بےوقوفی ہے اور بڑی کامیابی کی طرف سے غفلت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

72 اور اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے ایسے باغات کا وعدہ کررکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے اللہ نے نفیس اور عمدہ مکانوں کا بھی وعدہ کررکھا ہے یہ مکان انہی دائمی باغات میں ہوں گے اور ان سب نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی ان سب نعمتوں سے بڑی ہے اور ان سب مذکورہ نعمتوں کا حصول بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ اوپر منافق مرد اور عورتوں کا ذکر تھا اور ان کو ان کے انجام سے خوف دلایا تھا۔ آگے مومن مرد اور عورتوں کا ذکر فرمایا اور ان کو بشارت دی۔