Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 75

سورة التوبة

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾

And among them are those who made a covenant with Allah , [saying], "If He should give us from His bounty, we will surely spend in charity, and we will surely be among the righteous."

ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہوجائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites seek Wealth but are Stingy with Alms Allah says, وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللّهَ لَيِنْ اتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ فَلَمَّا اتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُواْ بِهِ وَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ

دعا قبول ہوئی تو اپنا عہد بھول گیا بیان ہو رہا ہے کہ ان منافقوں میں وہ بھی ہے جس نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ مالدار کر دے تو میں بڑی سخاوت کروں اور نیک بن جاؤں لیکن جب اللہ نے اسے امیر اور خوشحال بنا دیا اس نے وعدہ شکنی کی اور بخیل بن بیٹھا جس کی سزا میں قدرت نے اس کے دل میں ہمیشہ کے لئے نفاق ڈال دیا ۔ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے مالداری کی دعا کیجئے آپ نے فرمایا تھوڑا مال جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو ۔ اس نے پھر دوبارہ بھی درخواست کی تو آپ نے پھر سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند کرتا ؟ واللہ اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے ۔ اس نے کہا حضور واللہ میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ مجھے مالدار کردے تو میں خوب سخاوت کی داد دوں ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں ۔ آپ نے فرمایا اسکے لئے مال میں برکت کی دعا کی اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں یہاں تک کہ مدینہ شریف اس کے جانوروں کے لئے تنگ ہو گیا ۔ یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں ۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اسے اور دور جانا پڑا اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں ۔ مال بڑھتا گیا ، ہفتہ بعد جمعہ کے لئے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا ؟ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقے لے اور صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے آپ نے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ جہنیہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انہیں تحصیلدار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے بنی سلیم سے صدقہ لے آؤ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا صدقہ طلب کیا تو وہ کہنے لگا واہ واہ یہ تو جزیئے کی بہن ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کیا بات ہے اچھا اب تو جاؤ لوٹتے ہوئے آنا ۔ دوسرا شخص سلمی جب اسے معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انہیں لے کر خود ہی آگے بڑھا انہوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب اس نے کہا میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انہیں قبول فرمائیے ۔ بالآخر انہوں نے لے لئے اوروں سے بھی وصول کیا اور لوٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے اس نے کہا ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے ۔ پڑھ کر کہنے لگا بھئی یہ تو صاف صاف جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں ۔ یہ واپس چلے گئے انہیں دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلیمی شخص کے لئے برکت کی دعا کی اب انہوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا ۔ پس اللہ تعالیٰ جل وعلا نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی پڑھ سنائی یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا آپ نے فرمایا یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا ۔ یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی ۔ پھر یہ خلافت صدیقہ میں آیا اور کہنے لگا میری جو عزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی وہ اور میرا جو مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون؟ غرض آپ نے بھی انکار کر دیا ۔ جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ولی ہوئے یہ پھر آیا اور کہا کہ امیرالمومنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا ۔ پھر خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا تو میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثنا میں یہ شخص ہلاک ہو گیا ۔ الغرض پہلے تو سخاوت کے وعدے کئے تھے اور وہ بھی قسمیں کھا کھا کر ۔ پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سخاوت کے عوض بخیلی کی اور وعدہ شکنی کر لی ۔ اس جھوٹ اور عہد شکنی کے بدلے اس کے دل میں نفاق پیوست ہو گیا جو اس وقت سے اس کی پوری زندگی تک اس کے ساتھ رہا ۔ حدیث میں بھی ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے خلاف کرے جب امانت سونپی جائے خیانت کرے ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ دل کے ظاہر اور پوشیدہ ارادوں اور سینے کے رازوں کا عالم ہے وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یہ خالی زبان بکواس ہے کہ مالدار ہوجائیں تو یوں خیراتیں کریں یوں شکر گذاری کریں یوں نیکیاں کریں ۔ لیکن دلوں پر نظریں رکھنے والا اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ مال مست ہوجائیں گے اور دولت پا کر خرمستیاں ناشکری اور بخل کرنے لگیں گے وہ ہر حاضر غائب کا جاننے والا ہے ، وہ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ، ظاہر باطن سب اس پر روشن ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ : پہلے یہ لوگ فاقوں مرتے تھے اور ان کے شہر مدینہ جس کا نام ان دنوں یثرب تھا، اس کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد ان کا شہر پورے عرب کا مرکز بن گیا اور ان کی تجارت کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا اور جنگوں کی وجہ سے بہت سا مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آیا، جس سے یہ لوگ مال دار ہوگئے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین اتنے احسان فراموش ہیں کہ اللہ اور رسول جن کی بدولت انھیں یہ خوش حالی نصیب ہوئی، انھی کے خلاف بگڑ کر یہ اپنے دلوں کا فساد ظاہر کر رہے ہیں اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد تو یہ کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنا فضل عطا کیا تو ہم صدقہ بھی ضرور کریں گے اور نیک بھی ہوجائیں گے، لیکن اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس نے مال و دولت سے نوازا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ مال اسلام کی سربلندی کے لیے خرچ کرنے کے بجائے بخل کرکے اللہ اور اس کے رسول سے منہ ہی موڑ لیا، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا۔ بعض مفسرین نے ان آیات کا سبب نزول ثعلبہ بن حاطب کو قرار دیا ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کے لیے دعا کروائی اور صدقہ کرنے کا وعدہ کیا، جب مال بہت بڑھا تو نماز با جماعت چھوڑنے کے بعد جمعہ بھی چھوڑ دیا اور زکوٰۃ لینے والا اس کے پاس گیا تو کہنے لگا، یہ تو جزیہ ہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” افسوس ثعلبہ پر ! “ یہ سن کر وہ زکوٰۃ لے کر آیا، مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپ کے بعد ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان (رض) نے بھی قبول کرنے سے انکار کیا، اسی حالت میں وہ عثمان (رض) کے عہد میں فوت ہوگیا۔ مگر اہل علم نے اس روایت کا شدید رد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کی کوئی صحیح سند نہیں۔ ابن حزم (رض) نے فرمایا، یہ قصہ باطل ہے، کیونکہ ثعلبہ (رض) بدری صحابی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse: وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّـهَ (And among them there are those who made a pledge with Allah - 75) is also connected with a particular event which has been reported by Ibn Jarir, Ibn Abi Hatim, Ibn Marduwayh, Al-Tabarani and Al-Baihaqi on the authority of a narration from Sayyidna Abu Umamah Bahili (رض) . According to this report, a person called Tha&labah ibn Hatib al-Ansari presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and requested him to pray that he becomes rich. He said, ` Is it that you do not like my way? By the Being that holds my life in his His hands, if I had wished, mountains of Madinah would have turned into solid gold following behind me on my walkways. But, I do not like being that wealthy.& The man went away. But, he returned later and repeated his request for the same prayer with the pledge that, should he get the wealth prayed for, he would give every deserving person his share from it. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) made the prayer. The effect of the prayer showed up in an unprecedented increase in the number of goats he owned. When the number increased further, the space in Madinah became too small for him. So, he moved out into the outskirts from where he used to come to Madinah where he offered the Sa1ah of Zuhr and ` Asr with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) As for the rest of the prayers, he used to perform these in the wilderness where his herd of goats, his prized possession, was located. Then, this very flock of goats became so large that even that area on the outskirts became insufficient. He moved farther away from Ma¬dinah coming there only on Fridays for the Jumu&ah Sa1ah. As for the five daily prayers, he did them where he was stationed. Then came further increases in his wealth and he had to leave that spot too, only to go far away from Madinah where he sat deprived of his Jumu&ah and Jama&ah both. After the passage of some time, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked people about him. They told him that his ` wealth& had increased to such proportions that he had to go far away from Madinah and that is why he is not seen in the city. On hearing this, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ویحَ ثَعلَبَۃ (Alas for Thalabah) three times. By chance, it was the time when came the revelation of the verse of Sadaqat (60) where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been commanded to collect Sadaqat from Muslims - (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صدقَۃً ). He had the whole law of Sadaqat committed to writing, appointed two persons as the collectors of Sadaqah and sent them to collect the Sadaqat due on livestock owned by Muslims. They were ordered to go to Tha&labah ibn Ha¬tib as well, and to another person from the tribe of Bani Sulaym also. When the two collectors reached Tha&labah and presented the order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) he said that this thing had be-come a sort of Jizyah which is taken from non-Muslims. Then he hedged and asked them to leave on that occasion, however, they could call on him on their way back. The two of them left. Something different happened in the case of the other person from the tribe of Bahl Sulaym. When he heard about the order of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) he himself called on the two emissaries of his master carrying with him the best from out of his livestock of camels and goats, precisely according to his Zakatable nisab of Sadaqah. They told him that they have orders not to pick out the best among animals, in fact, they were supposed to take the average ones, therefore, they could not take these. The man from Bahl Sulaym insisted that it was his pleasure to present those very animals and requested that they be accepted as they were. After that, when these two emissaries had completed their circuit of Sadaqah collection, they returned to Tha&labah. He told them that he wanted to see that Law of Sadaqah they were talking about. He looked at it and said no more than what he had said earlier - ` this thing has become a sort of Jizyah that should not be taken from Mus¬lims.& ` All right,& he said, ` you can go for now. I have to think about it first. I will decide later.& When these two gentlemen reached Madinah, they went to see the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . At that time he, before hearing their report on the mission, repeated the words he had said earlier: یَا وَیحَ ثَعلَبَۃ یَا وَیحَ ثَعلَبَۃ یَا وَیحَ ثَعلَبَۃ (Alas for Tha&labah). He said it three times. After that, he was pleased to hear about the Sulaymi deal and prayed for him. Thereup¬on, came the verse: وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّـهَ (And among them there are those who made a pledge with Allah - 75). It means: ` if Allah gave them wealth, they would give out alms and charities and fulfill the rights of all de-serving people, the relatives and the poor, as done by the righteous people of the community. But, when Allah blessed them with wealth, out of His grace, they became misers overnight and turned away from their pledge of obedience to Allah and His Messenger.&

دوسری آیت وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ ، بھی ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، جو ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص ثعلبہ ابن حاطب انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ درخواست کی کہ آپ دعاء کریں کہ میں مالدار ہوجاؤ ں، آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو میرا طریقہ پسند نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں چاہتا تو مدینہ کے پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ پھرا کرتے، مگر مجھے ایسی مال داری پسند نہیں، یہ شخص چلا گیا، مگر دوبارہ پھر آیا اور پھر یہی درخواست اس معاہدہ کے ساتھ پیش کی کہ اگر مجھے مال مل گیا تو میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچاؤں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعاء کردی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ اس کی بکریوں میں بےپناہ زیادتی شروع ہوئی، یہاں تک کہ مدینہ کی جگہ اس پر تنگ ہوگئی، تو باہر چلا گیا، اور ظہر عصر کی دو نمازیں مدینہ میں آکر آپ کے ساتھ پڑہتا تھا، باقی نماز میں بھی جنگل میں جہاں اس کا یہ مال تھا وہیں ادا کرتا تھا۔ پھر انہی بکریوں میں اور زیادتی اتنی ہوگئی کہ یہ جگہ بھی تنگ ہوگئی، اور شہر مدینہ سے دور جا کر کوئی جگہ لی، وہاں سے صرف جمعہ کی نماز کے لئے مدینہ میں آتا اور پنجگانہ نمازیں وہیں پڑھنے لگا، پھر اس مال کی فراوانی اور بڑھی تو یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑی، اور مدینہ سے بہت دور چلا گیا، جہاں جمعہ اور جماعت سب سے محروم ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے اس کا حال دریافت کیا تو لوگوں نے بتلایا کہ اس کا مال اتنا زیادہ ہوگیا کہ شہر کے قریب میں اس کی گنجائش ہی نہیں، اس لئے کسی دور جگہ پر جا کر اس نے قیام کیا ہے، اور اب یہاں نظر نہیں پڑتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر تین مرتبہ فرمایا ویح ثعلبۃ، یعنی ثعلبہ پر افسوس ہے ثعلبہ پر افسوس ہے، ثعلبہ پر افسوس ہے، اتفاق سے اسی زمانہ میں آیت صدقات نازل ہوگئی، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کا مکمل قانون لکھوا کردو شحصوں کو عامل صدقہ کی حیثیت سے مسلمانوں کے مویشی کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیج دیا، اور ان کو حکم دیا کہ ثعلبہ بن حاطب کے پاس بھی پہونچیں، اور بنی سلیم کے ایک اور شخص کے پاس جانے کا بھی حکم دیا۔ یہ دونوں جب ثعلبہ کے پاس پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان دکھایا، تو ثعلبہ کہنے لگا کہ یہ تو جزیہ ہوگیا، جو غیر مسلموں سے لیا جاتا ہے، اور پھر کہا کہ اچھا اب تو آپ جائیں جب واپس ہوں تو یہاں آجائیں، یہ دونوں چلے گئے۔ اور دوسرے شخص سلیمی نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا تو اپنے مویشی اونٹ اور بکریوں میں جو سب سے بہتر جانور تھے، نصاب صدقہ کے مطابق وہ جانور لے کر خود ان دونوں قاصدان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ ہمیں تو حکم یہ ہے کہ جانوروں میں اعلیٰ چھانٹ کر نہ لیں، بلکہ متوسط وصول کریں، اس لئے ہم تو یہ نہیں لے سکتے، سلیمی نے اصرار کیا کہ میں اپنی خوشی سے یہی پیش کرنا چاہتا ہوں، یہی جانور قبول کرلیجئے۔ پھر یہ دونوں حضرات دوسرے مسلمانوں سے صدقات وصول کرتے ہوئے واپس آئے تو پھر ثعلبہ کے پاس پہونچے، تو اس نے کہا کہ لاؤ وہ قانون صدقات مجھے دکھلاؤ پھر اس کو دیکھ کر یہی کہنے لگا کہ یہ تو ایک قسم کا جزیہ ہوگیا، جو مسلمانوں سے نہیں لینا چاہئے، اچھا اب تو آپ جائیں میں غور کروں گا پھر کوئی فیصلہ کرونگا۔ جب یہ دونوں حضرات واپس مدینہ طیبہ پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے حالات پوچھنے سے پہلے ہی پھر وہ کلمہ دہرایا جو پہلے فرمایا تھا یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ، یعنی ثعلبہ پر سخت افسوس ہے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر سلیمی کے معاملہ پر خوش ہو کر اس کے لئے دعا فرمائی، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ ، یعنی ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو مال عطا فرماویں گے تو وہ صدقہ خیرات کریں گے، اور صالحین امت کی طرح سب اہل حقوق، رشتہ داروں اور غریبوں کے حقوق ادا کریں گے، پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے مال دیا تو بخل کرنے لگے، اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے پھرگئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللہَ لَىِٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٧٥ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نذر کو پورا کرنا لازم ہے قول باری ہے ومنھم من عاھد اللہ لئن اتا نا من فضلہ لنصد قن ولنکونن من الصالحین ۔ فلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون ۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے ۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پرواہ تک نہیں ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جو شخص تقرب الٰہی اور نیکی کے کام کی نذر مانے اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس لیے کہ عہد کے معنی نذر اور ایجاب کے ہیں ۔ مثلاً یہ کہے اگر اللہ تعالیٰ مجھے ایک ہزاردرہم عطا کردے تو میرے اوپر اس میں سے پانچ سو درہم ہم صدقہ کرنا لازم ہے۔ یا کسی قسم کا کوئی اور فقرہ ۔ اس آیت کے ضمن میں کئی احکام ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جو شخص کوئی نذر مانے گا اس پر بعینہٖ وہی نذر پوری کرنا لازم ہوگی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) منافقین میں سے ثعلبہ بن حاطب بن ابی بلتعہ نے قسم کھائی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے شام کا مال ہمیں دے دیا تو اس مال سے حقوق اللہ کی بجا آوری کریں گے اور صلہ رحمی کریں گے اور خوب نیک کام کریں گے۔ شان نزول : (آیت) ” ومنہم من عہد اللہ “۔ (الخ) طبرانی (رح) ، ابن مردویہ (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ضعیف سند کے ساتھ ابوامامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ثعلبہ بن حاطب نے کہا یارسول اللہ (رض) دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو مال دے، آپ نے فرمایا ثعلبہ دور ہوتھوڑا مال جس کا شکر ادا کیا جائے وہ اس زیادہ مال سے بہتر ہے کہ جس کے شکر کی طاقت نہ رکھے وہ کہنے لگا اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دے دیا تو پھر ہر ایک حق دار کا حق ادا کروں گا، آپ نے اس کے لیے دعا فرما دی۔ چناچہ اس نے بکریاں لیں وہ اتنی بڑھیں کہ اس پر مدینہ کی گلیاں تنگ ہوگئیں تو وہ مدینہ منورہ سے قرب و جوار کی چراگاہوں کی طرف چلا گیا، نمازوں میں آتا تھا اور پھر بکریوں کی طرف چلا جاتا تھا، پھر وہ بکریاں اور بڑھیں، یہاں تک کہ مدینہ کی چراگاہیں تنگ ہوگئیں تو وہ دور چلا گیا، اب صرف جمعہ کی نماز کے لیے آتا تھا اور پھر اپنی بکریوں میں چلا جاتا تھا اس کے بعد وہ بکریاں اور بڑھیں اور وہ اور دور چلا گیا اور وہ اس نے جمعہ وجماعت سب چھوڑ دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم “۔ (الخ) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات کی وصول یابی کے لیے دو آدمیوں کو عامل بنایا اور ان کو خط لکھ کردیا چناچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس گئے اور اسے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک پڑھ کر سنایا، اس نے کہا کہ پہلے اور لوگوں کے پاس جاؤ جب وہاں سے فارغ ہوجاؤ تب میرے پاس آنا، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، جب اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا یہ تو محض جزیہ کی ایک شاخ ہے، چناچہ وہ دونوں حضرات واپس چلے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ ان میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرلیتے ہیں الخ، نیز ابن جریر (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے بھی مولی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ لین جب خدا نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٥۔ ٧٨۔ اللہ پاک نے ان آیتوں میں فرمایا کہ بعضے منافق ایسے بھی ہیں جو قول وقرار کر کے پھرجاتے ہیں اپنا عہد و پیمان پورا نہیں کرتے ہیں ان کے دلوں میں مرتے دم تک منافق اپنے کا اثر رہے گا مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک ایسے لوگوں کو توبہ کی توفیق نہ ہوگی طبرانی ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ابوامامہ (رض) اور عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ثعلبہ بن حاطب انصاری تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ میرے واسطے دعا کریں کہ میں مالدار ہوجاؤں آپ نے فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا شکر بندے سے ادا ہو سکے وہی بہتر ہے اور اگر خدا نے زیادہ دولت دی انسان غفلت میں پڑھ گیا تو وہ کسی طرح بھی اچھی دولت نہیں ہے مگر ثعلبہ نے دوبارہ آنحضرت سے کہا کہ اگر مجھے مال مل جائے گا تو میں بہت خیرات کروں گا اور غفلت میں نہ پڑوں گا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی اس کی بکریوں میں یہاں تک برکت ہوئی کہ مدینہ کے جنگل کی زمین ان بکریوں کے چرنے کو کافی نہیں ہوتی تھی آخر وہ مدینہ سے نکل کر کسی گاؤں میں چلا گیا اور وہیں رہنے لگا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے محروم ہوگیا بلکہ جمعہ میں بھی حاضر ہونے سے عاجز ہوگا حضرت نے لوگوں سے پوچھا کہ ثعلبہ کا کیا حال ہے لوگوں نے بیان کیا کہ وہ خراب ہوگیا مال و دولت کی محبت میں پڑگیا بہرحال جب زکوۃ دینے کا وقت آیا تو اس نے نہیں دی اور کہنے لگا کہ یہ مال دینا تو گویا چٹی کا دینا ہے غرض کہ ایسی ویسی باتیں کر کے ٹال دیا تھوڑے دنوں بعد حضرت کے پاس زکوٰۃ لے کر آیا آپ نے قبول نہ کی اور آنحضرت کے بعد حضرت ابوبکر (رض) و حضرت عمر (رض) کی خلافت میں بھی اس کا مال زکوۃ میں نہ لیا گیا یہاں تک کہ حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں اس کا انتقال ہوگیا ابوامامہ (رض) سے جو شان نزول کی روایت ہے اس کی سند میں ایک راوی علی بن یزید الیمانی ضعیف ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت کی سند میں یہ راوی نہیں ہے اس واسطے یہ شان نزول صحیح ہے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ نفاق جو ان کے دلوں میں جگہ پکڑ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وعدہ کر کے قائم نہ رہے وعدہ کے خلاف کیا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اس حدیث کو ابوہریرہ (رض) کی روایت سے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے پھر اللہ پاک نے فرمایا یہ منافق اپنے دلوں میں یہ سجھے ہونگے کہ اللہ ان کے دلوں کی دغا بازی کو نہیں جانتا وہ تو ظاہر اور چھپی باتوں کو یکساں جانتا ہے وہ بڑا ہی غیب دان ہے اس کے نزدیک کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور جب سب باتوں کو کھلم کھلاوہ جانتا ہے تو وہ ہر ایک عمل مخفی پر بندوں کو جز اسزا بھی دیگا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلکہ اللہ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر ہے کہ اس کا دلی اعتقاد کیا ہے۔ معتبر سند سے طبرانی اور مسند بزار میں انس (رض) بن مالک کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب لوگوں کے اعمال نامے اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوں گے تو بعضے نیک عمل اگرچہ فرشتوں کو پورے اور لائق ثواب نظر آویں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرمادے گا کہ یہ عمل خالص نیت سے نہیں کئے گئے اس واسطے ان کو اعمال ناموں میں سے نکال ڈالا جاوے۔ آیت میں منافقوں کے خفیہ مشوروں اور دل کے بھیدوں کا یہ جو ذکر ہے کہ وہ سب اللہ کو معلوم ہیں یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل تک کا حال معلوم ہے اور اسی دل کے ارادہ اور نیت پر اس نے جزا اور سزا کا مدار رکھا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:75) عھد اللہ۔ اس نے اللہ سے وعدہ کیا۔ لنصدقن۔ مضارع جمع متکلم۔ با لام تاکید و نون ثقیلہ ۔ یا لام تعلیل کا ہے اور نون ثقیلہ تاکید کے لئے۔ تو ہم ضرور ہی خیرات دیدیں گے۔ صدقہ ادا کردیں گے۔ اصل میں نتصدقن تھا۔ ت کو صاد میں مدغم کیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کا صدقہ کرنے کے بارے میں فکر و عمل۔ عام طور پر انسانی فطرت ہے کہ جب آدمی عسر اور تنگدستی کی حالت میں ہوتا ہے تو اپنے رب کی بار گاہ میں بار بار التجا کرتا ہے کہ اگر مجھے تو نگری عطا کردی جائے تو میں شکر ادا کرتے ہوئے تیری راہ میں بےدریغ خرچ کروں گا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجائے تو پھر انسان کو کئی قسم کی سوچیں لاحق ہوجاتی ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنی ضروریات بڑھاتا چلا جاتا ہے کہ اگر فلاں کام مکمل ہونے کے بعد میں ضرور رب کی راہ میں خرچ کروں گا۔ بالآخر وہ بخل کی زنجیر میں اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ جس سے نکلنا اس کے لیے زندگی بھر مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی صورتحال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ غنائم ملنے اور خوش حال ہونے سے پہلے اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے کہا کرتے تھے کہ قتال میں حصہ لینا تو مشکل ہے البتہ جب ہمارا ہاتھ کشادہ ہوا تو ہم بھرپور طریقے سے مجاہدین کی مدد اور غرباء کے ساتھ تعاون کریں گے۔ لیکن جوں جوں ان کے پاس مال کی فراوانی ہوتی گئی وہ کنجوس سے کنجوس تر ہوتے چلے گئے۔ اسی کیفیت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے رہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے تو ہم اس کی راہ میں ضرور صدقہ کریں گے اور اس کے صالح بندوں میں شمار ہوں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انھیں کشادگی سے نوازا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمت کے مال سے انھیں مالا مال کردیا۔ خرچ کرنا تو درکنار وہ اپنی منافقت اور کنجوسی میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ثعلبہ (رض) کا واقعہ بیان جاتا کیا ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سیاق کلام بدستور آگے بڑھ رہا ہے اور منافقین کے خدوخال سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے افعال و اقوال پر تبصرہ ہورہا ہے۔ منافقین میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اللہ کے ساتھ یہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ان کو مال و دولت سے نوازا تو وہ راہ خدا میں خوب خرچ کریں گے اور اچھے اعمال کریں گے۔ لیکن یہ عہد فقر و فاقہ کے حالات میں تھا۔ اور اس وقت تھا جب کچھ ملنے کی امید تھی لیکن جب اللہ نے ان کی آرزو کو پورا کردیا تو یہ لوگ اپنے وعدوں کو بھول گے۔ ان لوگوں نے بخل اور کنجوسی کو اپنا لیا اور ہاتھ روک لیا۔ بلکہ وفائے عہد سے سرکشی کرنے لگا گویا اس نے کوئی عہد کیا ہی نہیں ہے۔ چناچہ وعدہ خلافی اور پھر جھوٹ کی وجہ سے اللہ نے ایسے لوگوں کے دلوں میں نفاق کو اچھی طرح بٹھا دیا۔ یہ لوگ آخر تک منافق رہے اور برے انجام تک پہنچے۔ نفس انسانی بہت ہی بخیل ہے۔ اس سے صرف وہ لوگ بچ نکلتے ہیں جنہیں اللہ بچاتا ہے۔ صرف وہی لوگ بخل سے بچ سکتے ہیں جن کا دل ایمان سے لبریز ہو۔ وہ دنیاوی ضروریات سے اپنے آپ کو سربلند کردیں۔ اور تمام لالچوں اور مفادات پر لات مار دیں اور ان کی آنکھیں آخرت کے عہد پر ہوں۔ اور رضامندی خالق ان کا نصب العین ہو۔ اور ان کے ایمان کی وجہ سے مطمئن ہوجائیں اور انفاق کی وجہ سے وہ مسکین ہونے سے نہ ڈرتے ہوں کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور اللہ کے خزانے میں جو کچھ ہے ، وہ باقی رہنے والا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جو انسان کو راہ خدا میں خرچ کرنے پر ابھارتا ہے اور انسان خوشی خوشی سے مال خرچ کرتا ہے۔ ایک مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے اگر مال چلا بھی جائے تو بھی آخرت کا اجر اجر عظیم ہے۔ لیکن جب کسی کا دل ایمان سے تہی دامن ہو تو وہ فطرتاً بخیل ہوجاتا ہے جب بھی اسے پکارا جائے کہ راہ خدا میں انفاق کی ضرورت ہے تو وہ فقر کے ڈر کے مارے بخل کرتا ہے اور ہاتھ روک لیتا ہے لیکن اسے کبھی بھی چین وقرار نصیب نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ بےقرار رہتا ہے۔ جو شخص اللہ کے ساتھ عہد کرتا ہے اور پھر اسی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ جھوٹ کرتا ہے وہ کسی کے ساتھ کبھی سچ نہیں کرسکتا۔ اور اس کا دل نفاق سے پاک نہیں ہوسکتا ، جس کی تین علامات جو رسول نے متعین کی ہیں۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو توڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ چناچہ عہد شکنی اور اللہ پر جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں پر نفاق مسلط ہوجائے اور وہ آیت کے فیصلے کے مطابق اس انجام تک پہنچیں۔ فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَهٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی ، اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے ، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا ، جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آیت بالا کے سبب نزول سے متعلق صاحب معالم التنزیل (ص ٣١٢ ج ٢) نے اور حافظ ابن کثیر (ص ٣٧٤ ج ٢) نے ایک واقعہ لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ثعلبہ بن حاطب ایک شخص تھا اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ سے دعا فرمائیے مجھے مال عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے زیادہ مال سے بہتر ہے جس کی تجھے برداشت نہ ہو۔ اس نے پھر اسی دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے۔ آپ نے اس کے لیے دعا فرما دی اس نے بکریاں پالنا شروع کردیا ان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی تو وہ مدینہ منورہ سے باہر کسی وادی میں چلا گیا۔ صرف ظہر اور عصر کی نماز میں حاضر ہوتا تھا پھر وہ وقت آیا کہ اسے مدینہ منورہ شہر میں حاضر ہونے کی فرصت ہی نہیں رہی۔ جمعہ کی حاضری بھی ختم ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمی مویشیوں کے صدقات وصول فرمانے کے لیے بھیجے۔ جب یہ دونوں ثعلبہ بن حاطب کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ تو جزیہ ہے یا جزیہ کی بہن ہے۔ اور یوں بھی کہا کہ ذرا غور کرلوں کہ مجھے کیا دینا ہے۔ اور کتنا دینا ہے۔ جب یہ دونوں حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر صورت حال بیان کرنے سے پہلے فرما دیا کہ ثعلبہ پر افسوس ہے۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَءِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر اپنے فضل سے ہمیں مال دیدے تو ہم ضرور ضرور صدقہ کریں گے اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے) اس موقعہ پر ثعلبہ کے رشتہ دار بھی خدمت میں عالی میں موجود تھے انہوں نے جا کر خبر دی کہ تیرے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے۔ اس پر وہ صدقہ لے کر آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے منع فرما دیا ہے کہ تیرا صدقہ قبول کروں۔ اس پر وہ سر پر مٹی ڈالنے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے کہا تھا (کہ تھوڑا مال شکر کے ساتھ زیادہ مال سے بہتر ہے جس کی برداشت نہ ہو) تو نے میری بات پر عمل نہ کیا۔ جب آپ نے اس کا صدقہ قبول فرمانے سے انکار کردیا تو وہ اپنا مال لے کر چلا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی پھر وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس اور ان کے بعد حضرت عمر (رض) کے پاس اور ان کے بعد حضرت عثمان (رض) کے پاس صدقہ لے کر آیا تو ان حضرات میں سے کسی نے قبول نہ کیا۔ اور خلافت عثمانی میں ثعلبہ کی موت ہوگئی۔ مال میں مشغول ہو کر اس نے جماعتوں اور جمعہ کی حاضری چھوڑ دی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھیجے ہوئے نمائندوں کو صدقہ نہیں دیا اور اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا تھا کہ مال ملے گا تو صدقہ دوں گا اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں گا اس کی خلاف ورزی کی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:“ وَ مِنْھُمْ مَّنْ الخ ” اس آیت میں ثعلبہ بن حاطب نامی منافق کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ یارسول اللہ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بہت سی دولت عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا۔ اے ثعلبہ وہ تھوڑا سا مال جس کے تم حقوق ادا کرسکو اس کثیر مال سے بہتر ہے جس کے حقوق ادا کرنے سے تم قاصر رہو۔ ثعلبہ نے اصرار کیا اور کہا مجھے اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا اگر اس نے مجھے دولت دی تو میں اس میں سے تمام حقوق واجبہ ادا کروں گا۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے حق میں دعا فرمائی۔ ثعلبہ نے چند بکریاں خرید لیں اللہ نے ان میں اس قدر برکت ڈالی اور وہ اس قدر بڑھیں کہ اسے مدینہ سے باہر جنگل میں بسیرا کرنا پڑا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نہ صرف مسجد نبوی میں پنج وقتہ نمازیں ادا کرنے سے محروم ہوگیا بلکہ نماز جمعہ سے بھی غیر حاضر رہنے لگا۔ جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے زکوۃ وصول کرنے کے لیے اس کے پاس دو محصل بھیجے جنہیں اس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ یہ زکوۃ تو جزیہ ہے۔ ابھی جاؤ میں سوچوں گا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ جب ثعلبہ کو آیتوں کا پتہ چلا تو مال صدقہ لے کرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اس کا صدقہ قبول نہ کیا اور فرمایا اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے بھی اس کا صدقہ قبول نہ کیا۔ “ فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا ”“ اَعْقَبَ ” کا فاعل اللہ تعالیٰ تعالیٰ ہے۔ یا بخل جو “ بَخِلُوْا ” میں ضمنًا مذکور ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں نفاق ڈال دیا۔ کیونکہ اس نے اللہ جو وعدہ کیا وہ پورا نہ کیا۔ “ اي اعقبھم اللہ نفاقا فی قلوبھم وقیل اي اعقبھم البخل نفاقاً ” (قرطبی ج 8 ص 212) ۔ “ بِمَا ” میں باء سببیہ ہے “ اي بسبب اخلافھم ما ودوا اللہ من التصدق والصلاح وکونھم کاذبین ” (مدارک ج 2 ص 105) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 اور ان منافقوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہم کو اپنے فضل سے مال و دولت عطا کرے گا تو ہم اس میں خوب خیرات کریں گے اور ضرور ہم اس کے نیک بندوں میں سے ہوں گے۔