Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 76

سورة التوبة

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾

But when he gave them from His bounty, they were stingy with it and turned away while they refused.

لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

اس آیت کو بعض مفسرین نے ایک صحابی حضر ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں قرار دیا ہے لیکن سندا یہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بھی منافقین کا ایک اور کردار بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] منافقوں کا زکوٰۃ کو تاوان سمجھنا :۔ یہ بھی کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ منافقوں کی اکثریت ایسی ہی تھی کہ پہلے تو دعائیں مانگتے کہ ہم مال دار ہوجائیں پھر ہم اتنی اور اتنی خیرات کریں گے فلاں فلاں نیک کام کرینگے۔ اللہ کی شکر گزاری کریں گے۔ مگر جب ان پر اللہ اپنا فضل وکرم کرتا تو بخل کرنے لگتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ یہ مال تو ہماری اپنی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے اور ایک دوسری حدیث کے مطابق چوتھی علامت یہ ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ حقیقت میں زکوٰۃ نہ دینے والا اور اس کا انکار کرنے والا پکا کافر ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور سیدنا ابوبکر (رض) خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ لوگ کافر ہوگئے ( اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا) سیدنا عمر (رض) نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیونکر جہاد کریں گے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ جب یہ کہنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچالیں۔ مگر حق کے ساتھ & اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ واللہ ! اگر یہ لوگ ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ان سے ضرور لڑائی کروں گا۔ سیدنا عمر (رض) نے کہا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کا سینہ کھول دیا تھا اور میں جان گیا کہ حق یہی ہے۔ ( بخاری۔ کتاب الزکوۃ) سیدنا ابوہریرہ (رض) اور سیدنا ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں جو پانچوں نمازیں ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے مال کی زکوٰۃ نکالے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچے مگر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ (جنت میں) داخل ہوجا۔ (سنن النسائی۔ باب وجوب الزکوۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اٰتٰىہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝ ٧٦ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ بخل البُخْلُ : إمساک المقتنیات عمّا لا يحق حبسها عنه، ويقابله الجود، يقال : بَخِلَ فهو بَاخِلٌ ، وأمّا البَخِيل فالذي يكثر منه البخل، کالرحیم من الراحم . والبُخْلُ ضربان : بخل بقنیات نفسه، وبخل بقنیات غيره، وهو أكثرها ذمّا، دلیلنا علی ذلک قوله تعالی: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ [ النساء/ 37] . ( ب خ ل ) البخل ( دس ) اپنے جمع کردہ ذخائر کو ان جگہوں سے روک لینا جہاں پر خرچ کرنے سے اسے روکنا نہیں چاہیئے ۔ اس کے بالمقابل الجواد ہے بخل اس نے بخیل کیا باخل ۔ بخل کرنے والا ۔ البخیل ( صیغہ مبالغہ ) جو بہت زیادہ بخل سے کام لیتا ہو جیسا کہ الراحم ( مہربان ) سے الرحیم مبالغہ کے لئے آتا جاتا ہے ۔ البخیل ۔ دو قسم پر ہے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کو خرچ کرنے سے روک لے اور دوم یہ کہ دوسروں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرے یہ پہلی قسم سے بدتر ہے جیسے فرمایا : { الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ } ( سورة النساء 37) یعنی جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیں ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری فلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ میں منافقین کو سختی سے بھڑکا گیا ہے کہ انہوں نے جس چیز کی نذر مانی تھی اسے بعینہٖ وہ پورا نہ کرسکے۔ یہ بات ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو کسی معین چیز کی نذر ماننے کی صورت میں قسم کا کفارہ لازم کردیتے ہیں اور جس چیز کی نذر مانی ہے بعینہٖ اس چیز کی ادائیگی کے ایجاب کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ قول باری نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق کردینے کے جواز پر بھی دلالت کرتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں شخص آ جائے تو مجھ پر اللہ کے لیے صدقہ یا روزہ ہے۔ یہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جو نذر ملکیت کی طرف نسبت کر کے مانی جائے اس کا ایجاب ملکیت کے نذر ہوتا ہے۔ اگرچہ فی الحال ملکیت موجود نہ بھی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لا نذر فیما ایملک بن ادم انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اس میں نذر نہیں ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ملکیت کے اندر نذر قرار دیا ہے اور اسے پورا کرنا اس پر لازم کردیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایسی چیز میں نذر جس پر ملکیت نہ ہو یہ ہے کہ مثلاً نذر ماننے والا یہ کہے ۔ اللہ کے لیے میرے ذمہ زید کے کپڑے کو صدقہ میں دینا ہے، یا اسی قسم کا کوئی اور جملہ ۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کسی اجنبی عورت سے کہے اگر میں تجھ سے نکاح کرلوں تو تجھے طلاق وہ گویا اسے نکاح کے اندر طلاق دے رہا ہے۔ نکاح سے پہلے نہیں ۔ جس طرح اپنی نذر کو ملکیت کی طرف نسبت کرنے والا ملکیت کے اندر نذر ماننے والا ہوتا ہے۔ نذر ماننے دے پر نفس نذر کے ایجاب کے سلسلے میں اس آیت کی نظیر یہ قول باری ہے یا یھا الذین امنوا الم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا ً عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون ۔ اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جسے تم کرتے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں ۔ یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ جو بات کہی جائے اسے کر کے بھی دکھایا جائے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا بعینہٖ کہی ہوئی بات نہیں ہے، اسی طرح یہ قول باری ہے۔ تم میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرو میں تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا ۔ نیز ارشاد ہوا یوفون بالنذر وہ نذر پوری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ لوگوں کی اس بنا پر تعریف کی کہ وہ جس چیز کی نذر مانتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ وجعلنا فی قلوب الذین تبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھب نیۃ ابتعوھا ما کتبا ھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور نرمی رکھ دی تھی اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کرلیا ہم نے ان پر واجب نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے اللہ کی رضا مندی کی خاطر سے اختیار کرلیا تھا سو انہوں نے اس کی پوری پوری رعایت نہ کی ابتداع یعنی نئی بات کی ایجاد کبھی قول کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی فعل کے ذریعے ۔ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ انسان تقریب الٰہی اور عبادت کے طور پر قولا ً یافعلا ً جس عبادت کو خود شروع کرلے وہ اس پر واجب ہوجاتی ہے ۔ اس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو ایک عبادت شروع کر کے پھر اسے ترک کردے۔ نذر کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت ہے آپ نے فرمایا من نذر نذرا ً وسماد فعلیہ الوفاء ومن نذر نذرا ً ولم یسمعہ فعلیہ الکفارۃ یمین ۔ جو شخص کوئی نذر مان لے اور اس کا تعین بھی کردے اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے اور جو شخص نذر مانے لیکن اس کا تعین نہ کرے اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦۔ ٧٧) جب اللہ تعالیٰ نے ان کو شام والا مال دے دیا تو جو کچھ انہوں نے حقوق اللہ کی بجاآوری کا عہد کیا تھا اس میں بخل کرنے لگے تو اس وعدہ خلافی اور اس جھوٹ بولنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ان کے دلوں میں نفاق کو قائم کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :86 اوپر کی آیت میں ان منافقین کی جس کافر نعمتی و محسن کشی پر ملامت کی گئی تھی اس کا ایک اور ثبوت خود انہی کی زندگیوں سے پیش کر کے یہاں واضح کیا گیا ہے کہ دراصل یہ لوگ عادی مجرم ہیں ، ان کے ضابطہ اخلاقی میں شکر ، اعتراف نعمت ، اور پاس عہد جیسی خوبیوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

66: حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس کا نام ثعبلہ بن حاطب تھا، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور درخواست کی کہ آپ میرے لئے مال دار ہونے کی دعا فرمادیں۔ آپ نے شروع میں اسے سمجھایا کہ بہت مال دار ہونا مجھے اپنے لئے بھی پسند نہیں ہے، لیکن اس نے بار بار اصرار کیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر میں مال دار ہوگیا تو ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا، آپ نے اس موقع پر حکیمانہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکو۔‘‘ اس پر بھی اس کا اصرار جاری رہا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرما دی۔ چنانچہ وہ واقعی مال دار ہوگیا، اور اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازیں چھوٹنے لگیں، پھر وہ ان جانوروں کی زیادتی کی وجہ سے مدینہ منوَّرہ سے باہر جا کر رہنے لگا۔ شروع میں جمعہ کے دن مسجد میں آ جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جمعہ کو آنا بھی چھوڑ دیا۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے اس پاس پہنچے تو اس نے زکوٰۃ پر پھبتیاں کسیں، اور ٹال مٹول کر کے ان حضرات کو واپس بھیج دیا۔ اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے (روح المعانی بحوالہ طبرانی و بیہقی)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:76) معرضون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ رخ گردانی کرنے والے۔ منہ موڑنے والے۔ اجتناب کرنے والے۔ اگر اعراض کے بعد عن آئے تو رخ پھیر لینے اور منہ موڑنے کے۔ اور اجتناب کرنے کے معنی ہوتے ہیں۔ فاعرض عنہم وعظہم (4:63) تم ان سے اعراض برتو۔ اور نصیحت کرتے رہو۔ یا ومن اعرض عن ذکری (20:124) اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا۔ اور بغیر عن بھی کثرت استعمال کی وجہ سے منہ موڑنے کے معنی میں آتا ہے ۔ مثلاً فاعرضوا فارسلنا علیہم (34:16) تو انہوں نے شکر گزاری سے منہ موڑ لیا پس ہم نے چھوڑ دیا ان پر ۔۔ اور اگر اعراض کے بعد علی آئے تو سامنے رکھنا۔ پیش کرنا کے معنی دیتا ہے۔ مثلاً ثم عرضہم علی الملئکۃ (2:31) پھر اس نے ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ اور اگر اعرض کے بعد لام آئے تو سامنے آنے کے معنی ہوتے ہیں مثلاً اعرض لی وہ میرے سامنے آیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا (فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) (پھر جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے مال عطا فرما دیا تو کنجوسی اختیار کرلی اور اعراض کرتے ہوئے رو گردانی کر گئے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76 پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے مال عطا کیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور بخیل بن گئے اور روگرداں ہوکر اپنے عہد سے پھرگئے۔