Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 78

سورة التوبة

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ سِرَّہُمۡ وَ نَجۡوٰىہُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿ۚ۷۸﴾

Did they not know that Allah knows their secrets and their private conversations and that Allah is the Knower of the unseen?

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالٰی غیب کی تمام باتوں سے خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ ... Know they not that Allah knows their secret ideas, and their Najwa, Allah states that He knows the secret and what is more hidden than the secret. He has full knowledge of what is in their hearts, even when they pretend that they will give away alms, if they acquire wealth, and will be grateful to Allah for it. Truly, Allah knows them better than they know themselves, for He is the All-Knower of all unseen and apparent things, every secret, every session of counsel, and all that is seen and hidden. ... وَأَنَّ اللّهَ عَلَّمُ الْغُيُوبِ and that Allah is the All-Knower of things unseen.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 اس میں منافقین کے لئے سخت وعید ہے جو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مخفی باتوں اور بھیدوں کو نہیں جانتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ وہ تو علام الغیوب ہے۔ غیب کی تمام باتوں سے باخبر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ : اس آیت میں منافقین کو سخت ڈرایا گیا ہے کہ کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کے راز اور سرگوشیاں سب جانتا ہے اور وہ تو تمام غیبوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔ کیا یہ اس سے بھی اپنی دلی حالت چھپا سکیں گے۔ دیکھیے سورة زخرف ( ٨٠) اور مجادلہ ( ٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝ ٧٨ ۚ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا سرر (كتم) وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ، أي : کتموها ( س ر ر ) الاسرار اور تسارالقوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) کیا ان منافقین کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ کو ان کے دلوں کے راز اور ان کی سرگوشیاں سب معلوم ہیں اور جو باتیں بندوں سے پوشیدہ ہیں ان سب باتوں کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:78) سرہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا بھید۔ ان کا راز۔ نجوہم۔ ان کی سرگوشیاں۔ اصل میں نجائ کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں۔ اور انجیتہ و نجیتہ کے معنی (الگ کردینے) نجات دینے کے ہیں۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے : فانجینا الذین امنوا (27:53) اور جو لوگ ایمان لائے۔ ہم نے ان کو نجات دی۔ النجوۃ کے معنی بلند جگہ کے ہیں جو بلندی کی وجہ سے اپنے ماحول سے الگ معلوم ہو۔ ناجیتہ میں نے اس سے سرگوشی میں کہا۔ یعنی اپنے بھید کو دوسروں سے الگ رکھنے (چھپانے کے لئے) اور اسے افشاء ہونے سے بچانے کے لئے۔ قرآن میں آیا ہے :۔ یایھا الذین امنوا اذا تناجیتم فلا تتناجوا بالاثم والعدوان و معصیت الرسول (58:9) اے مومنو ! جب تم سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرو۔ یا پھر اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجوکم صدقۃ (58:12) جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے مساکین کو کچھ دیا کرو۔ نجوی وہ سرگوشی جو کہ برائی پر مبنی ہو اور اس کو مشورہ سے طے کیا جاوے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ان آیتوں کے نازل ہونے کی خبر سن کر ثعلبہ زکوة لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھ کو تیری زکوة لینے سے منع فرمایا ہے اس نے بہت ہائے واویلا کی پھر حضرت صدیق اکبر کے زمانے میں زکوة لے کر آیا آپ نے بھی قبول نہ کی اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان نے بھی قبول نہ کی یہاں تک کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں وہ مرگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

جو پہلے اس قدر غریب تھے کہ غربت اور تنگدستی کی وجہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بسر کرتے یہاں تک کہ لوگوں نے انھیں حمامۃ المسجد کا لقب دیا یعنی مسجد میں رہنے والی کبوتری۔ ایک دن وہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مال عنایت فرما دے تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل کھول کر صدقہ کروں گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ثعلبہ ! مال ایک آزمائش ہے اس لیے اس طرح ہی گزر بسر کرتے رہو۔ لیکن اس نے اصرار کیا۔ بالآخر آپ نے اس کے حق میں دعا کی نتیجتاً اس کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ اس قدر زیادہ ہوگئے کہ پہلے جماعت کے ساتھ نماز چھوٹی پھر جمعہ بھی مسجد نبوی میں پڑھنا مشکل ہوگیا۔ زکوٰۃ کا مہینہ آیا۔ اللہ کے رسول کے نمائندے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے پہنچے تو کہنے لگا یہ ایک چٹی اور جرمانے کے سوا کچھ نہیں۔ عاملین نے رسول معظم کو رپورٹ پیش کی تو آپ نے فرمایا۔ ثعلبہ ہلاک ہوگیا۔ جب اسے آپ کے الفاظ پہنچے تو وہ زکوٰۃ کا مال لے کر حاضر ہوا لیکن آپ نے اس کی زکوٰۃ وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اگلا سال آنے سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے۔ وہ اپنی زکوٰۃ خلیفہ اول کے پاس لایا۔ خلیفہ نے یہ کہہ کر زکوٰۃ کی وصولی سے انکار کیا کہ جس مال کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہیں کیا میں قبول کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر (رض) نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ کی۔ صحیح تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت ثعلبہ (رض) بدری صحابی ہیں جو نہایت مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ اس لیے ان آیات کو منافقین پر ہی چسپاں کرنا چاہیے اور وہی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے تھے۔ جہاں تک ان کی زکوٰۃ قبول نہ کرنے کا معاملہ ہے وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے مرنے تک نفاق گھر کرچکا ہے۔ اب انھیں توبہ نصیب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اپنے رب سے بار بار عہد شکنی اور کذب بیانی کرنے والے ہیں۔ انھیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جلوت و خلوت اور ان کی زندگی کے خفیہ رازوں سے پوری طرح واقف ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۔ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِّنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ )[ رواہ مسلم ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے قریب جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا ‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔ “ مسائل ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ ٢۔ خوشحالی ہوتے ہی منافق اللہ تعالیٰ سے کیے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ ٤۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے : ١۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٧٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٣۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگرشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ : ٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٥۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ : ٧) ٦۔ اس کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات ہے جو آسمانوں و زمین کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کیا ان کے دعوائے ایمان کے باوجود ان کو اس قدر علم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں سے خبردار ہے ، ان کے دلوں میں جو خیالات گزرتے ہیں وہ باہم جو گفتگو کرتے ہیں ، جو وہ خفیہ باتیں کرتے ہیں ، ان سے خبردار ہے کیونکہ الل پوشیدہ سے پوشیدہ امور کا بھی عالم ہے۔ دلوں کی نیات سے بھی باخبر ہے۔ ان کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے پھر بھی چھپاتے ہیں۔ اور پھر بھی وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ یہ خود ان کے علم کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ ان کے علم کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ نہ کوئی بات چھپاتے اور نہ وعدہ خلافی کرتے اور اللہ پر کوئی جھوٹ نہ باندھتے۔ اس آیت کے نزول کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں۔ ان میں سے ہم ابن جریر کی روایت نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے اور ابن ابو حاتم نے معاون سے نقل کیا ہے انہوں نے ابو امامہ باہلی سے انہوں نے ثعلبہ ابن حاطب انصاری سے کہ انہوں نے حضور سے یہ درخواست کی کہ ان کے حق میں بہت سے مال کی دعا کریں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " ثعلبہ وہ تھوڑا مال جس کی تم شکر گزاری کرسکو۔ اس سے زیادہ بہتر ہے جس کی تم شکر گزاری نہ کرسکو " کہتے ہیں کہ اس نے دوبارہ درخواست کی تو حضور نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم اللہ کے نبی کے مانند ہو۔ خدا کی قسم اگر میں چاہتا کہ میرے لیے پہاڑ سونے چاندی کے ہوجائیں تو ہوجاتے۔ اس نے پھر درخواست کی کہ خدا کی قسم اگر آپ نے میرے حق میں دعا کی اور اللہ نے مجھے مال کثیر دے دیا تو میں اس سے میں سے ہر صاحب حق کو حق دوں گا۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا " اے اللہ ثعلبہ کو مال دے دے " کہتے ہیں کہ اس نے بکریاں پالنا شروع کیں اور وہ کیڑے مکورؤں کی طرح بڑھنے لگیں۔ یہاں تک کہ مدینہ میں ان کا سمانا مشکل ہوگیا۔ چناچہ وہ مدینہ سے ہٹ کر ایک وادی میں چلا گیا اور ظہر و عصر کی نماز باجماعت پڑھتا اور باقی نمازیں ترک ہوگئیں۔ اس کے بعد اس کے مال میں اور اضافہ ہوگیا اور وہ اس قدر دور چلا گیا کہ صرف جمعے کی نماز کو حاضر ہوتا۔ یہ مال اس طرح بڑھتا رہا جس طرح کیڑے بڑھتے ہیں یہاں تک کہ جمعے کی نماز بھی چھوٹ گئی۔ اب وہ ان سواروں سے راستے میں ملتا جو جمعہ پڑھنے جاتے تھے تاکہ حالات دریافت کرے۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا کہ " ثعلبہ کا کیا ہوا ؟ " حضور کو بتایا گیا کہ اس نے بکریاں پا لیں۔ مدینہ میں ان کا سمانا مشکل ہوا اور اس طرح وہ دور چلا گیا اور اس کے حالات انہوں نے بتائے۔ حضور نے فرمایا ثعلبہ ہلاک ہوا ، ثعلبہ ہلاک ہوا ، ثعلبہ ہلاک ہوا۔ اس کے بعد اللہ کا یہ حکم نازل ہوا خذ من اموالھم صدقۃ (ان کے اموال سے زکوۃ وصول کرو) اور زکوۃ ک احکام نازل ہوئے۔ تو حضور نے زکوۃ کی وصولی کے لی دو مسلمان بھیجے۔ ایک جھینہ سے تھا اور دوسرا سلیم سے۔ آپ نے ان کو تحریری احکام دیے کہ وہ مسلمانوں سے کس حساب سے زکوۃ وصول کریں گے اور خصوصاً فرمایا کہ ثعلبہ اور فلاں کے پاس ہوتے ہوئے جاؤ (یہ فلاں بنو سلیم کا ایک شخص تھا) اور ان سے زکوۃ وصول کرو۔ یہ لوگ پہلے ثعلبہ کے پاس آئے اور اس سے زکوۃ کا مطالبہ کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم پڑھ کر سنایا تو ثعلبہ نے کہا یہ تو فقط جزیہ ہے۔ اگر نہیں تو جزیہ کی بہن ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کیا ہے۔ تم جاؤ اور دوسرے لوگوں سے فارغ ہو کر میرے پاس آؤ۔ دوسرے شخص سلیمی نے یہ حکم سنا تو اس نے اپنے اونٹوں میں سے بہت اچھے اونٹ زکوۃ کے لیے علیحدہ کیے اور رسول اللہ کے تحصیلداروں کا انتظار کیا۔ جب انہوں نے ان اونٹوں کو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ تم پر اس قسم کے اچھے اونٹؤں کی زکوۃ واجب نہیں ہے اس لیے ہم ان کو وصول نہیں کرسکتے۔ اس شخص نے کہا تم لوگ ان اونٹوں کو وصول کرلو۔ میں بطیب خاطر یہ دے رہا ہوں۔ یہ ان کے لیے ہیں۔ چناچہ انہوں نے اونٹ لے لیے اور دوسرے لوگوں سے وصولی کرتے ہوئے دوبارہ پھر ثعلبہ کے پاس آئے۔ اس نے کہا تم اپنا حکم مجھے دکھاؤ۔ اس نے رسول اللہ کا حکم پڑھا تو پھر کہا کہ یہ تو جزیہ ہے یا جزیہ کی بہن ہے۔ تم جاؤ میں سوچ کر فیصلہ کروں گا۔ یہ لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور جب حضور نے ان کو دیکھا تو فرمایا " وہ ہلاک ہوگیا " حضور نے ان کی بات سے پہلے ہی بتا دیا اور سلیمی نے برکت کی دعا فرمائی۔ ان لوگوں نے حضور کو ثعلبہ اور سلیمی دونوں کی روائیداد سنائی۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ومنھم من عاھد اللہ اس وقت رسول اللہ کے پاس ثعلبہ کے رشتہ داروں میں سے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے یہ سب کچھ سن لیا۔ وہ مدینہ سے چلا۔ اس سے ملا۔ اسے کہا ثعلبہ تم تباہ ہوجاؤ۔ تمہارے بارے میں تو یہ آیات نازل ہوگئی ہیں۔ ثعلبہ حضور کے پاس آیا اور درخواست کی کہ میری زکوۃ قبول کریں۔ تو حضور نے فرمایا مجھے تو اللہ نے آپ کی زکوۃ لینے سے منع کردیا ہے۔ ثعلبہ اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا گتو حضور نے فرمایا یہ تو تمہارا اپنا کرنا ہے۔ میں نے تو تمہیں مشورہ دیا تھا مگر تم نے میری بات نہ مانی۔ جب رسول اللہ نے اس سے زکوۃ لینے سے انکار کردیا تو وہ اپنی رہائش گاہ کی طرف واپس ہوا۔ تو حضور فوت ہوگئے اور اس سے زکوۃ وصول نہ کی۔ پھر حضرت ابوبکر کا دور آیا تو ثعلبہ نے ان سے درخواست کی کہ تم رسول اللہ کے ساتھ میرے تعلق سے بھی واقف ہو اور انصار میں میرا جو مقام ہے اس سے بھی واقف ہو ، میری زکوۃ وصول کیجئے۔ اس پر ابوبکر نے فرمایا چونکہ حضور نے آپ کی زکوۃ کو قبول نہیں فرمایا اس لیے میں نہیں لے سکتا۔ چناچہ حضرت ابوبکر نے زندگی بھر ان سے زکوۃ نہ لی۔ پھر ان کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے اور ان کے پاس بھی ثعلبہ زکوۃ لے کر آئے اور درخواست کی امیر المومنین میری زکوۃ قبول فرمائیں تو انہوں نے فرمایا کہ رسول نے قبول نہ کی ، حضرت ابوبکر نے قبول نہ کی میں کیسے قبول کرسکتا ہوں۔ چناچہ وہ بھی فوت ہوئے اور ثعلبہ سے زکوۃ نہ لی۔ جب حضرت ثمانہ خلیفہ بنے تو ان کے پاس ثعلبہ آئے تو ان سے بھی درخواست کی کہ میری زکوۃ وصول کریں۔ چناچہ انہوں نے بھی یہی کہا کہ رسول اللہ نے قبول نہ کی ابوبکر نے قبول نہ کی ، عمر نے قبول نہ کی کیا میں اسے لوں ؟ چناچہ انہوں نے بھی وصول نہ کی۔ چناچہ حضرت عثمان کے زمانہ میں خلافت میں وہ فوت ہوگیا۔ ان آیات کے نزول کا تعلق اس واقعہ کے ساتھ ہو یا کسی دوسرے واقعہ کے ساتھ ، آیت بہرحال عام ہے اور ایک عام حالت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ آیت ایک ایک شخص کی نفسیاتی تصویر کشی کرتی ہے جو بےیقینی کی کیفیت سے دوچار ہو اور ان کے دل و دماغ میں ابھی تک ایمان متمکن نہ ہوا ہو۔ اگر ان آیات کا شان نزول یہی ہو تو پھر ہم یہ کہیں گے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ علم تھا کہ ثعلبہ قیام تک منافق رہے گا اس لیے اس کی جانب سے زکوۃ کو قبول نہ کیا گیا اور اس کے ساتھ عام شرعی اصول کے مطابق معاملہ نہ فرمایا۔ عام شرعی اصول یہ ہے کہ منافقین کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ثعلبہ کے معاملے میں چونکہ اللہ کی جانب سے حضور کو خصوصی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ اس لیے ان کے ساتھ حضور نے سخت تادیبی معاملہ کیا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔ چناچہ ان کو مرتد بھی قرار نہ دیا گیا تاکہ انہیں ارتداد کی سزا دی جائے اور مسلمان تصور کرکے ان سے زکوۃ بھی قبول نہ کی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازروئے شریعت منافقی پر زکوۃ واجب نہیں ہے ، کیونکہ شریعت ان لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق معاملہ کرتی ہے ، کیونکہ زیر نظر معاملے میں ایک نبی کو خصوصی علم تھا۔ اس پر کوئی دوسرا شخص قیاس کرکے ایسا طرز عمل اختیار نہیں کرسکتا۔ ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دور اول کے مسلمان زکوۃ کو کن نظروں سے دیکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان پر اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔ جو شخص اس کے ادا کرنے سے محروم ہوا یا اج سکی طرف سے قبول نہ کی گئی وہ گویا عظیم بھلائی سے محروم رہا وہ اس قدر محروم اور گھاٹے میں رہا کہ اس پر رحم کیا جانے لگا۔ قرون اولیٰ کے مسلمان اس آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا ان کے اموال سے زکوۃ وصول کرو جو تم ان کی تطہیر کرتے ہو اور جس کے ذریعے تم ان کا تزکیہ کرتے ہو۔ ان کے نزدیک زکوۃ ایک غنیمت تھی ٹیکس نہیں تھا جس سے ان کا تاوان ہوتا۔ لہذا جو مال فرض اللہ کی جانب سے عاید ہوتا ہے اور اس سے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہوتی ہے اس میں اور اس مالی فریضے میں جو لوگوں پر بطور جبر عاید ہوتا ہے ، بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ سِرَّھُمْ وَ نَجْوٰھُمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ) (کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے راز کو اور خفیہ مشورے کو جانتا ہے اور بیشک اللہ غیبوں کا جاننے والا ہے) اس آخری آیت میں اس شخص کے لیے وعید ہے جو خلاف ورزی کی نیت سے وعدہ کرے یا وعدہ کر کے خلاف ورزی کرے، ہر شخص کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ کو سب کے دلوں کا حال معلوم ہے جو جیسی نیت رکھے گا اور جیسا عمل کرے گا اللہ جل شانہٗ کو اس کا علم ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق جزا سزا دے گا۔ فائدہ : جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ مال طلب کرنے اور پھر صدقہ نہ دینے کا واقعہ ابن کثیر اور معالم التنزیل نے ثعلبہ بن حاطب کے بارے میں لکھا ہے۔ ثعلبہ بن حاطب کو حافظ ابن حجر نے شرکاء بدر میں شمار کیا ہے۔ اور ابن الکلبی سے نقل کیا ہے کہ وہ احد میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد ثعلبہ بن حاطب اور ابن ابی حاطب کے نام سے ایک شخص کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ صدقہ نہ دینے کا جو واقعہ منقول ہے وہ ثعلبہ حاطب مدنی کا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ شرکاء بدر کے لیے مغفرت کی خوشخبری ہے۔ لہٰذا صاحب واقعہ دوسرا کوئی شخص ہوگا (خواہ ثعلبہ نامی ہو یا اور کسی نام کا کوئی شخص) واللہ اعلم۔ واقعہ جس کسی کا بھی ہو بہر حال پیش ضرور آیا ہے کیونکہ نص قطعی سے ثابت ہوا کہ کسی نے مال ملنے پر صدقہ دینے کا وعدہ کیا تھا پھر جب مال مل گیا تو نہیں دیا۔ یہاں حضرت حکیم الامت تھانوی نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب وہ مال لے کر آیا اور توبہ کی تو اس کی توبہ کیوں قبول نہیں کی گئی ؟ حضرت قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ اس کا زکوٰۃ لانا اور نہ لینے پر واویلا کرنا خلوص سے نہ تھا بلکہ دفع عار اور بد نامی کے لیے تھا کیونکہ اَعْقَبَھُمْ سے اس کا دائماً کافر ہونا معلوم ہوگیا پھر خلوص کا احتمال کب ہے ؟ الی آخر ماقال

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:“ اَلَمْ یَعْلَمُوْا الخ ” تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 کیا ان کو اتنی بھی خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کا راز اور ان کے پوشیدہ بھید اور ان کی باہمی سرگوشیوں کو خوب جانتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح واقف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک منافق تھا ثعلبہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا چاہی کہ مجھ کو کشائش ہو فرمایا کہ تھوڑا جس کا شکر ہو آوے بہتر ہے بہت سے کہ غفلت لاوے پھر آیا لگا عہد کرنے کہ اگر مجھ کو مال ہو میں بہت خیرات کروں اور غفلت میں نہ پڑوں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اس کو بکریوں میں برکت ملی یہاں تک کہ مدینہ کے جنگل سے کفایت نہ ہوتی نکل کر گائوں میں جارہا جمعہ جماعت سے محروم ہوا۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ ثعلبہ کیا ہوا لوگوں نے بیان کیا فرمایا ثعلبہ خراب ہوا پھر زکوٰۃ کا وقت ہوا سب دینے لگے اس نے کہا یہ تو مال بھرناگویا جزیہ دینا ہے بہانہ بنا کر ٹال دیا پھر حضرت کے پاس مال زکوٰۃ لایا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہ کیا بعد حضرت کے ابوبکر (رض) وعمر (رض) بھی اپنی خلافت میں اس کی زکوٰۃ نہ لیتے خلافت عثمان میں مرگیا۔ 12