Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 79

سورة التوبة

اَلَّذِیۡنَ یَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِیۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ اِلَّا جُہۡدَہُمۡ فَیَسۡخَرُوۡنَ مِنۡہُمۡ ؕ سَخِرَ اللّٰہُ مِنۡہُمۡ ۫ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۷۹﴾

Those who criticize the contributors among the believers concerning [their] charities and [criticize] the ones who find nothing [to spend] except their effort, so they ridicule them - Allah will ridicule them, and they will have a painful punishment.

جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسرہی نہیں ، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites defame Believers Who give the Little Charity They can afford Allah warns; الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ ... Those who defame such of the believers who give charity voluntarily, and such who could not find to give charity except what is available to them -- Among the traits of the hypocrites is that they will not leave anyone without defaming and ridiculing him in all circumstances even those who give away charity. If, for instance, someone gives away a large amount, the hypocrites say that he is showing off. If someone gives away a small amount they say that Allah stands not in need of this man's charity. Al-Bukhari recorded that Ubaydullah bin Sa`id said that Abu An-Nu`man Al-Basri said that Shu`bah narrated that Sulayman said that Abu Wa'il said that Abu Mas`ud said, "When the verses of charity were revealed, we used to work as porters. A man came and distributed objects of charity in abundance and they (hypocrites) said, `He is showing off.' Another man came and gave a Sa` (a small measure of food grains); they said, `Allah is not in need of this small amount of charity.' Then the Ayah was revealed; الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ (Those who defame the volunteers...)." Muslim collected this Hadith in the Sahih. Al-Awfi narrated that Ibn Abbas said, "One day, the Messenger of Allah went out to the people and called them to bring forth their charity, and they started bringing their charity. Among the last to come forth was a man who brought a Sa` of dates, saying, `O Allah's Messenger! This is a Sa` of dates. I spent the night bringing water and earned two Sa` of dates for my work. I kept one Sa` and brought you the other Sa`.' The Messenger of Allah ordered him to add it to the charity. Some men mocked that man, saying, `Allah and His Messenger are not in need of this charity. What benefit would this Sa` of yours bring' Abdur-Rahman bin Awf asked Allah's Messenger, `Are there any more people who give charity?' The Messenger of Allah said, لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ غَيْرُك None besides you! Abdur-Rahman bin Awf said, `I will give a hundred Uqiyah of gold as a charity.' Umar bin Al-Khattab said to him, `Are you crazy?' Abdur-Rahman said, `I am not crazy.' Umar said, `Have you given what you said would give!' Abdur-Rahman said, `Yes. I have eight thousand (Dirhams), four thousand I give as a loan to my Lord and four thousand I keep for myself.' The Messenger of Allah said, بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيمَا أَمْسَكْتَ وَفِيمَا أَعْطَيْت May Allah bless you for what you kept and what you gave away. However, the hypocrites defamed him, `By Allah! Abdur-Rahman gave what he gave just to show off.' They lied, for Abdur-Rahman willingly gave that money, and Allah revealed about his innocence and the innocence of the fellow who was poor and brought only a Sa` of dates. Allah said in His Book, الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ ... Those who defame such of the believers who give charity voluntarily."' A similar story was narrated from Mujahid and several others. Ibn Ishaq said, "Among the believers who gave away charity were Abdur-Rahman bin Awf who gave four thousand Dirhams and Asim bin Adi from Bani Ajlan. This occurred after the Messenger of Allah encouraged and called for paying charity. Abdur-Rahman bin Awf stood and gave away four thousand Dirhams. Asim bin Adi also stood and gave a hundred Wasaq of dates, but some people defamed them, saying, `They are showing off.' As for the person who gave the little that he could afford, he was Abu Aqil, from Bani Anif Al-Arashi, who was an ally of Bani Amr bin Awf. He brought a Sa` of dates and added it to the charity. They laughed at him, saying, `Allah does not need the Sa` of Abu Aqil."' Allah said, ... فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ ... so they mock at them (believers); Allah will throw back their mockery on them, rebuking them for their evil actions and defaming the believers. Truly, the reward, or punishment, is equitable to the action. Allah treated them the way mocked people are treated, to aid the believers in this life. Allah has prepared a painful torment in the Hereafter for the hypocrites, for the recompense is similar to the deed. ... وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ and they shall have a painful torment.

منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل ۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا ۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے صدقات لئے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ایک مرتبہ آپ نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی کہنے لگے یا رسول اللہ یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا اس نے کہا لیجئے سنبھالیجئے اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے ۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس ، تین مرتبہ یہی فرمایا پھر فرمایا مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا ۔ یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے ۔ پھر فرمایا انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف چالیس اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے منافقوں نے ایک کو ریاکار بتایا دوسرے کے صدقے کو حقیر کہہ دیا ایک مرتبہ آپ کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا ۔ ایک صاحب ایک صائع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے روک لیا اور ایک لے آیا آپ نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بےنیاز ہے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے میں یہ سب صدقہ کرتا ہوں حضرت عمر نے فرمایا ہوش میں بھی ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں فرمایا پھر کیا کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا سنو میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لئے رکھ لیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے ۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ لوگوں کو اپنے سخاوت دکھانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے دی ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کردیا ۔ بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی ۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا ۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابو عقیل تھے ۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لئے کیا تھا ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن نے دو ہزار رکھے تھے ۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں ۔ یہ حضرت ابو عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے ۔ ان کا نام حباب تھا ۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا ۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے ہی ان سے یہی بدلہ لیا ۔ ان منافقوں کے لئے آخرت میں المناک عذاب ہیں ۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 مطّوعین کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،" جہد " کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالیٰ تیرے اس صدقے سے بےنیاز ہے (صحیح بخاری) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے۔ 79۔ 2 یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] غزوہ تبوک کے لئے چندہ دینے والے :۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر قحط سالی بھی تھی۔ ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں۔ سفر بھی دور دراز کا تھا۔ مقابلہ بھی رومیوں سے تھا اور اسلحہ اور سواری کی بھی خاصی قلت تھی۔ لہذا آپ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجہ میں سیدنا عثمان (رض) اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ خوش ہوگئے۔ سیدنا عمر اپنے گھر کا آدھا اثاثہ بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سارا ہی اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے اور ہر مسلمان نے اس فنڈ میں حسب توفیق حصہ لیا۔ نادار لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اغنیاء نے اپنی حیثیت اور رغبت کے مطابق۔ ایک صحابی ابو عقیل نے رات بھر مزدوری کی جس کی اجرت ایک صاع کھجور تھی۔ ان میں سے آدھا صاع گھر لے گیا اور آدھا صاع لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة توبہ زیر آیت ہذا) آپ کو اس آدھے صاع سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ نے وہ کھجوریں ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں۔ یہ دراصل آدھا صاع کھجور کی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس نیت، شوق اور رغبت کی تھی جس کی بنا پر اس نے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر آدھا صاع حاضر کردیا تھا۔ خ چندہ دینے والوں کو منافقوں کی طعنہ زنی :۔ اس موقعہ پر منافقوں کو پھبتیاں کسنے کا خوب موقع ملا۔ اگر کسی نے جی کھول کر چندہ دیا ہوتا تو کہتے کہ یہ سب کچھ دکھلاوا اور ریاکاری ہے۔ اور اگر کوئی تھوڑا دیتا تو کہتے کہ اتنے مال سے کونسی جنگی ضرورت پوری ہوسکتی ہے یہ لوگ تو لہو لگا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کو اس کی کیا پروا تھی۔ غرض ان کی طعن و ملامت سے کوئی بھی نہ بچتا تھا۔ یہی پس منظر اس آیت کا شان نزول ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ابو مسعود انصاری کہتے ہیں۔ جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (اسی مزدوری سے) آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے : ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی۔ ایک اور آدمی (عبدالرحمن بن عوف) بہت سا مال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے ریا (ناموری) کے لیے اتنا مال خیرات کیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ ) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ باب الحمل باجرۃ یتصدق بھا )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ : ” الْمُطَّوِّعِيْنَ “ باب تفعل سے اسم فاعل ہے جو اصل میں ” مُتَطَوِّعِیْنَ “ تھا۔ جو لوگ فرض زکوٰۃ کے علاوہ مزید مال خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔ جہد کا معنی محنت و مشقت ہے، یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں مگر محنت مشقت کرکے کمایا ہوا تھوڑا مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے، لیکن مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ چندہ لاتا تو یہ اسے ریا کار کہتے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے ؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے۔ یہ وہ موقع تھا جب عمر (رض) اپنا نصف مال لے آئے اس خیال سے کہ اگر بڑھ سکا تو آج ابوبکر (رض) سے بڑھ جاؤں گا، جب ابوبکر (رض) آئے تو گھر کا سارا مال لے آئے تھے۔ [ ترمذی، المناقب، باب رجاؤہ أن یکون أبوبکر۔۔ : ٣٦٧٥، وقال حسن صحیح وحسنہ الألبانی ] عبد الرحمن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کی تیاری کے وقت عثمان (رض) نے ایک ہزار دینار لا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جھولی میں رکھ دیے۔ عبد الرحمن (رض) فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دیناروں کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا : ” آج کے (اس عمل کے) بعد عثمان جو بھی عمل کریں وہ انھیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ “ [ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا۔۔ : ٣٧٠١ ] ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب صدقے کی آیت اتری تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے، یعنی اس طرح اجرت حاصل کرتے تو ایک آدمی آیا اس نے بہت زیادہ چیز کا صدقہ کیا تو (منافق) کہنے لگے، یہ دکھاوا چاہتا ہے اور ایک آدمی آیا اور اس نے ایک صاع (دو کلو غلہ) صدقہ کیا تو انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے بےنیاز ہے (اسے اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ) تو یہ آیت اتری۔ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ ۔۔ : ١٤١٥ ] ابومسعود انصاری (رض) کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے اور ایک اور صاحب زیادہ مال لائے، تو منافق کہنے لگے، اس (نصف صاع) کی اللہ کو کیا ضرورت تھی اور اس دوسرے نے تو محض دکھاوے کے لیے دیا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری : (ۚاَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( الذین یلمزون المطوعین۔۔ ) : ٤٦٦٩ ] سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the first verse (79) are taunts thrown at Muslims who gave away in charity on a voluntary basis (Nafli Sadaqat). It appears (رض) in the Sahih of Muslim that Sayyidna Abu Masud (رض) said: ` we had orders from Allah Ta` ala that we must give Sadaqah and, believe it, we used to do manual labor for that (that is, we had no money or thing with us. We used to take out that Sadaqah too from whatever we earned through this very manual labor). Thus, Abu &Aqil offered Sada¬qah to the measure of 0.5 Sa` (approximately 1.75 kilos). Then, someone came and gave a little more than that. The hypocrites mocked at them for having brought something so insignificant in the name of Sadaqah. Allah never needs things like that. And whoever gave a little more in Sadaqah, they accused him that he had done it to show off before peo¬ple. Thereupon, this verse was revealed. Please note that, in the sentence: سَخِرَ‌ اللَّـهُ مِنْهُمْ (mocked they are by Al¬lah - 79), the word &mocked& stands for &punished for their mockery&. In the second verse (80), there is a statement about the hypocrites. It has been addressed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He has been told whether or not he seeks forgiveness for them makes no difference - and no matter how many times he seeks forgiveness for them, they shall not be forgiven. A detailed explanation of this appears under the comments on verse 84: لَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم (and never offer a prayer on anyone of them who dies) appearing a little later.

خلاصہ تفسیر یہ ( منافقین) ایسے ہیں کہ نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر صدقات کے بارے میں ( تھوڑا ہونے پر) طعن کرتے ہیں اور ( بالخصوص) ان لوگوں پر ( اور زیادہ) جن کو بجز محنت مزدوری ( کی آمدنی) کے اور کچھ میسر نہیں ہوتا ( اور وہ بیچارے اسی مزدوری میں سے ہمت کر کے کچھ صدقہ نکال دیتے ہیں) یعنی ان سے تمسخر کرتے ہیں ( یعنی مطلق طعن تو سب ہی پر کرتے ہیں کہ کیا تھوڑی سی چیز صدقہ میں لائے، اور ان محنت کش غریبوں سے تمسخر بھی کرتے ہیں کہ لو یہ بھی صدقہ دینے کے قابل ہوگئے) اللہ تعالیٰ ان کو تمسخر کا ( تو خاص) بدلہ دے گا اور ( ویسے مطلق طعن کا یہ بدلہ ملے گا کہ) ان کے لئے ( آخرت میں) دردناک سزا ہوگی، آپ خواہ ان منافقین کے لئے استغفار کریں، یا ان کے لئے استغفار نہ کریں ( دونوں حال برابر ہیں کہ ان کو اس سے کوئی نفع نہیں ہوگا، انکی مغفرت نہیں کی جائے گی) اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ ( یعنی بکثرت) بھی استغفار کریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ بخشے گا، یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ تعالیٰ ایسے سرکش لوگوں کو ( جو کبھی ایمان اور حق کی طلب ہی نہ کریں) ہدایت نہیں کیا کرتا ( اس وجہ سے یہ عمر پھر کفر ہی پر قائم رہے، اسی پر مر گئے ) ۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں نفلی صدقات دینے والے مسلمانوں پر منافقین کے طعن وتشنیع کا ذکر ہے، صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو مسعود نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا، اور ہمارا حال یہ تھا کہ ہم محنت مزدوری کرتے تھے ( کوئی مال ہمارے پاس نہ تھا، اسی مزدوری سے جو کچھ ہمیں ملتا تھا اسی میں سے صدقہ بھی نکالتے تھے) چناچہ ابو عقیل نے آدھا صاع ( تقریباً پونے دو سیر) صدقہ پیش کیا، دوسرا آدمی آیا اس نے اس سے کچھ زیادہ صدقہ کیا، منافقین ان پر طعن وتشنیع کرنے لگے کہ کیا حقیر اور ذرا سی چیز صدقہ میں لائے، اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کی ضرورت نہیں، اور جس نے کچھ زیادہ صدقہ کیا اس پر یہ الزام لگایا کہ اس نے ریاءً لوگوں کو دکھلانے کے لئے صدقہ کیا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ میں جزاء تمسخر کو تمسخر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری آیت میں جو منافقین کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمایا گیا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں برابر ہے، اور کتنا ہی استغفار کریں ان کی مغفرت نہیں ہوگی، اس کا پورا بیان آگے آنے والی آیت لَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ کے تحت آئے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ۝ ٠ ۭ سَخِرَ اللہُ مِنْہُمْ۝ ٠ ۡوَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٧٩ لمز اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة/ 58] ، الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] . ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ المطوعین ۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ المطوع واحد۔ تطوع ( تفعل) مصدر۔ اصل میں المتطوعین تھا۔ تاء کو ط میں مدغم کیا۔ تطوع کا صل معنی ہے اطاعت میں بناوٹ کرنا۔ اور عرف شرع میں ایسی طاعت کو کہتے ہیں جو فرض نہ ہو بطور نفل اپنی طرف سے کی جائے لیکن تطوع اپنے اندر استطاعت کا مفہوم رکھتا ہے اس لئے المطوعین کا ترجمہ ہوا۔ خیرات کرنے والے صاحب استطاعت صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) منافقین حضرت عبدالرحمن اور ان کے ساتھیوں پر نفلی صدقات کے بارے میں طعن کیا کرتے تھے اور کہتے کہ یہ لوگ صدقات صرف دکھاوے اور ریا کے لیے دیتے ہیں اور ان لوگوں پر طعن وتشنیع کرتے تھے جن کو ماسوا محنت و مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں ہوتا تھا اور یہ حضرت ابو عقیل عبدالرحمن بن تیمان تھے ان کو کھجور کا صرف ایک ہی صاع میسر آیا تھا اور اس کم صدقہ پر تمسخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صرف دکھاوے کے لیے کر آئے ہیں ورنہ صدقہ تو اس سے زیادہ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے تمسخر کا بدلہ دے گا ان کی جلن کے لیے دوزخ میں ایک دروازہ جنت کی طرف کھولے گا اور آخرت میں ان کو بڑی درد ناک سزا ملے گی ، شان نزول : (آیت ) ” الذین یلمزون “۔ (الخ) حضرت امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے ابومسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم اپنی پشتوں پر بوجھ لاد کر آتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص زیادہ صدقہ کرتا تو یہ منافق کہتے یہ ریاکار ہے اور کوئی صرف ایک ہی صاع لے کر آتا تو یہ منافق کہتے کہ اللہ تعالیٰ اس کے صدقہ سے غنی ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طریقہ پر حضرت ابوہریرہ (رض) ابوعقیل (رض) ابوسعید خدری (رض) ابن عباس (رض) عمیرہ، بنت سہیل بن رافع سے روایات مروی ہیں یہ تمام روایات ابن مردویہ نے روایت کی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ ) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی مہم کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو مسلمانوں کی طرف سے ایثار اور اخلاص کے عجیب و غریب مظاہر دیکھنے میں آئے۔ ابو عقیل (رض) ایک انصاری صحابی تھے ‘ ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور ساری رات کنویں سے پانی نکال نکال کر اس کے باغ کو سیراب کرتے رہے۔ صبح انہیں مزدوری کے طور پر کچھ کھجوریں ملیں۔ انہوں نے ان میں سے آدھی کھجوریں تو گھر میں بچوں کے لیے چھوڑدیں اور باقی آدھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لا کر پیش کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صحابی کے خلوص و اخلاص اور حسن عمل سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ کھجوریں سب مال و اسباب پر بھاری ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے مطابق انہیں سامان کے پورے ڈھیر کے اوپر پھیلا دیا گیا۔ لیکن وہاں جو منافقین تھے انہوں نے حضرت ابو عقیل (رض) کا مذاق اڑایا اور فقرے کسے کہ جی ہاں ‘ کیا کہنے ! بہت بڑی قربانی دی ہے ! ان کھجوروں کے بغیر تو یہ مہم کامیاب ہو ہی نہیں سکتی تھی ‘ وغیرہ وغیرہ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :87 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے ۔ مگر جب مخلص اہل ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے ان پر باتیں چھانٹنی شروع کیں ۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے ، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا ، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا ، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو ، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

67: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو صدقات نکالنے کی ترغیب دی تو ہر مخلص مسلمان نے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ لا کر پیش کیا، منافقین خود تو اس کار خیر میں کیا حصہ لیتے، مسلمانوں کو طعنے دیتے رہتے تھے۔ اگر کوئی شخص زیادہ مال لے کر آتا تو کہتے کہ یہ تو دکھاوے کے لیے صدقہ کر رہا ہے اور اگر کوئی غریب مزدور اپنے گھاڑھے پسینے کی کمائی سے کچھ تھوڑا سا صدقہ لے کر آتا تو منافقین اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یہ کیا چیز اٹھا لایا ہے۔ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ صحیح بخاری اور حدیث و تفسیر کی دوسری کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ لیکن اس جگہ غالبا وہ موقع مراد ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے لیے چندہ جمع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ در منثور (ج :4 ص 226) میں ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ 68: اللہ تعالیٰ یوں تو مذاق اڑانے سے بے نیاز ہے، لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مذاق اڑانے کی سزا دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف مذاق اڑانے کی نسبت محاورۃ کی گئی ہے جسے عربی قواعد کی رو سے مشاکلت کہا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٩۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب صدقہ کا حکم آیا تو اپنے اپنے مقدور کے موافق مسلمان لوگوں آنحضرت کے پاس صدقہ تقسیم کرنے کی غرض سے لاتے تھے منافق لوگ اس صدقہ کا ٹھٹھا اڑاتے تھے جو مسلمان زیادہ صدقہ لانا اس کو کہتے یہ دکھاوے کے لئے لایا ہے اور جو کم مقدار مسلمان لاتا تو اس کو کہتے کہ اللہ کو ایسے صدقہ اور خیرات کی پروا نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی معتبر سند سے بزار میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت میں جس دن کی خیرات کا ذکر ہے اس دن عبدالرحمن بن عوف (رض) نے دو ہزار روپیہ خیرات کئے اور دوسرے کسی صحابی نے آدھ سیر کے قریب کھجوریں خیرات کیں اس پر منافقوں نے آپس میں ٹھٹھے کے طور پر یہ چرچا کیا جس کا ذکر اوپر گزرا عبداللہ (رض) بن مسعود کی حدیث کے ساتھ ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو ملایا جاوے تو اس خیرات کے قصہ کی پوری تفسیر ہوجاتی ہے آخر آیت میں دوزخ کے دکھ کا جو ذکر ہے اس کی تفسیر انس (رض) بن مالک کی وہ دونوں روایتیں ہیں کو عذابا الیاما فی الدنیا والاخرۃ کی تفسیر کے طور پر قریب میں گزریں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:79) یلمزون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ طعن کرتے ہیں۔ وہ عیب نکالتے ہیں (نیز ملاحظہ ہو 9:58) المطوعین۔ اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ المطوع واحد۔ تطوع (تفعل) مصدر۔ اصل میں المتطوعین تھا۔ تاء کو ط میں مدغم کیا۔ تطوع کا صل معنی ہے اطاعت میں بناوٹ کرنا۔ اور عرف شرع میں ایسی طاعت کو کہتے ہیں جو فرض نہ ہو بطور نفل اپنی طرف سے کی جائے لیکن تطوع اپنے اندر استطاعت کا مفہوم رکھتا ہے اس لئے المطوعین کا ترجمہ ہوا۔ خیرات کرنے والے صاحب استطاعت الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقت۔ جو لوگ مومنوں سے ان لوگوں کو جو صاحب استطاعت ہیں اور خوشی خوشی خیرات کرتے ہیں ریاکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ والذین لا یجدون الا جھدہم۔ کا عطف المطوعین پر ہے یعنی یہ لوگ ان کی بھی عیب چینی کرتے ہیں جن کے پاس سوائے اپنی محنت و مشقت کے اور کچھ بھی (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے) نہیں ہے۔ فیسخرون منہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٹھٹھہ کرتے ہیں۔ ان پر ہنستے ہیں۔ سخر یسخر (سمع) بہ ومنہ۔ ٹھٹھا کرنا۔ اسی سے ہے۔ المسخرۃ۔ وہ جس سے ٹھٹھا کیا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چندہ کی اپیل کی تو بڑے بڑے مالدار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے لیکن جب مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لاکر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے انہوں نے چاہزار درہم لاکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیئے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت عاصم (رض) نے مزدوری کر کے آٹھ سیر جو حاصل کئے۔ ان میں سے چار سیر جو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چندہ دیا۔ منافقین آپس میں کہنے لگے کہ عبد الر حمن کو ریا ونمود مطلوب ہے اور عاصم (رض) اپنے آپ کو خواہ مخواہ چندہ دینے والوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ منافقین کے اسی طعن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ ( از بن کثیر، قر طبی وغیرہ)3 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ نے ان پر ٹھٹھامارا لیکن مطلب یہی ہے کہ اللہ نے بھی ان کے ٹھٹھے کا بدلہ دیا، یعنی انہیں ذلیل و خوار کیا اور مسلمانوں کو ان پر ہنسایا۔ ( وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 80 المطوعین (نیکی کرنے والے) لایجدون (وہ نہیں پاتے ہیں) جھدھم (اپنی کوشش اور محنت) یستخرون (وہ مذاق اڑاتے ہیں، مذاق کرتے ہیں) استغفر (دعائے مغفرت کر) سبعین (ستر) مرۃ (ایک مرتبہ، مرتبہ ) لنیغفر (وہ ہرگز معاف کرے گا) تشریح : آیت نمبر 79 تا 80 صحابہ کرام جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے ان کو بھی جو میسر ہوتا وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے کم ہو یا زیادہ، منافقین جن کو صحابہ کرام کی جاں نثاری کا ہر انداز برا لگتا تھا کوئی بھی موقع ہوتا طعن و طنز سے باز نہیں آتے تھے اور ہر بات میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو نکال لیتے جس سے وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں ۔ اگر کوئی اللہ کے راستے میں زیادہ دیتا تو وہ اس کو دکھا وا اور ریا کاری کا نام دیدیتے تھے۔ کوئی حیثیت کے مطابق تھوڑا سا ایثار کرتا تو یہ منافقین ان کی تھوڑی چیز کا مذاق اڑاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو دل کی خوشی سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صدقات دیتے ہیں یہ منافقین ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور جو لوگ اپنی محنت مزدوری سے کما کر تھوڑا سا صدقہ کرتے ہیں یہ ان پر پھبتیاں کسنے میں کمی نہیں کرتے۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اہل ایمان کا کیا مذاقا ڑائیں گے اللہ ان منافقین سے خود ایک بھیانک مذاق کر رہا ہے اور یہ لوگ درد ناک عذاب کے مستحق بن چکے ہیں۔ احادیث میں صحابہ کرام کے صدقات دینے کی اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ خاتم الانبیاء نے اہل ایمان کو صدقات دینے کی طرف رغب دلائی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چار ہزار درہم پیش کردیئے۔ حضرت عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجوریں پیش کیں جو چار ہزار درہم قیمت کی تھیں۔ ایک صحابی نے جو غریب تھے اپنی محنت مزدوری سے حاصل ہونے والی کمائی میں سے ایک صاع کھجوریں پیش کیں۔ جن و صحابہ نے چار چار ہزار ہم صدقہ کئے تھے ان کے متعلق تو منافقین نے ریا کاری اور دکھاوے کا الزام لگایا اور جن صحابی نے ایک صاع کھجوریں پیش کی تھیں ان کا خوب مذاق اڑایا کہ بھلا ایک صاع کھجور بھی کوئی دینے کی چیز تھی۔ غرض یہ کہ ان منافقین کا کام یہی تھا کہ جس طرح ممکن ہو صحابہ کرام کیا یثار و قربانی کے جذبوں کو پامال کرنے کیلئے طرح طرح کی باتیں کی جائیں اور ہمت بڑھانے کے بجائے ان کی ہمتیں پست کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق بہت تفصیل سے ارشاد فرمایا اور پھر ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ منافقین اپنے نفاق اور کفر میں اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائے استغفار خواہ وہ ستر مرتبہ ہی کیوں نہ ہو کوئی فائدہ نہ دے گی اور اللہ ان کو معاف نہ کرے گا۔ اس آیت کے ضمن میں مفسرین نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی کا انتقال ہوگیا تو عبداللہ ابن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ابن عبد اللہ ابن ابی جو انتہائی مخلص صحابی رسول تھے انہوں نے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میرے والد کی نماز جنازہ پڑھا دیجیے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کیجیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا قمیص دیا کہ عبداللہ ابن ابی پر ڈال دیا جائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لئے نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تیار ہوگئے۔ حضرت عمر فاروق نے پورے ادب وا حترام کے ساتھ عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے پوری زندگی اسلام کے خلاف فلاں فلاں کام کئے۔ جب کہ اللہ نے بھی فرما دیا ہے کہ ایسے منافقین کے لئے دعائے مغفرت کی جائے یا نہ کی جائے خود دعائے مغفرت ستر مرتبہ بھی کی جائے اللہ اس کو معاف نہ کرے گا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عمر اس کو معاف کرنا یا نہ کرنا یہ تو اللہ کا کام ہے مجھے اللہ نے اختیار دیا ہے ہے کہ میں اس کے لئے دعائے استغفار کروں یا نہ کروں۔ لہٰذا میں اس کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا چناچہ آپ نے اس رئیس المنافقین کی نماز جنازہ پڑھائی دعاء مغفرت کی اور آپ قبرستان اس کی تدفین میں بھی شریک ہوئے۔ اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوگئی ولا تصل علی احد منھم یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسے لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھائے اور نہ اس کی تدفین میں میں شرکت فرمائیے۔ جب اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم آگیا تو آپ نے اس کے بعد پھر کبھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی ۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی کا فسق و فجور اور منافقت واضح ہو تو اس کی نماز جنازے سے بچنا زیادہ بہتر ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ تمسخر سے چونکہ زیادہ دل دکھتا ہے اس لیے اس کا ذکر وقوع اور جزادونوں میں خصوصیت کے ساتھ کیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین نہ صرف خود زکوٰۃ اور صدقات نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر غلط الزام لگاتے اور ان کی نیت پر شک کرتے تھے ہیں۔ اس سورة مبارکہ میں غزوۂ تبوک کے حوالے سے منافقین کی بری عادات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے بدبخت منافقوں کی حالت یہ تھی کہ نہ صرف اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے سے خود پیچھے رہتے بلکہ اپنی برادری کے مخلص صحابہ کی دل شکنی بھی کرتے تھے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے معرکہ کا ایک مہینہ پہلے سر عام اعلان فرمایا تھا۔ اور لوگوں کو چوکنا کیا کہ ہم پہلی دفعہ عرب کی سرحد سے باہر اور دنیا کی منظم ترین فوج کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہر قسم کی تیاری کے ساتھ دفاعی فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیجیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے اپنی طاقت سے بڑھ کر دامے درمے حصہ نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ ایک صحابی جن کا نام ابو عقیل (رض) تھا اس نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور صبح اس کے بدلے ملنے والی تقریباً دو کلو کھجوریں لے کر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے برکت کی دعا دی۔ یہ ماجرا دیکھ کر منافقین نے باہر جا کر آوازے کسے کہ اب تو ضرور سلطنت رومہ ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے صدقہ کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اس طرح انھوں نے صحابہ کرام (رض) کی جنگی تیاریوں کا تمسخر اڑا دیا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے غیرت میں آکر فرمایا ہے کہ یہ مسلمانوں سے مذاق نہیں کرتے درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انھیں تمسخر کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ چناچہ مسلمان جب تبوک سے کامیاب ہو کر واپس آئے تو منافقین ذلت اور شرمندگی کی وجہ سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ پورے عرب کے سامنے ذلت کا نشان بن کر رہ گئے۔ (عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ (رض) قَالَ أُمِرْنَا بالصَّدَقَۃِ قَالَ کُنَّا نُحَامِلُ قَالَ فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِیلٍ (رض) بِنِصْفِ صَاعٍ قَالَ وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَیْءٍ أَکْثَرَ مِنْہُ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ إِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَدَقَۃِ ہَذَا وَمَا فَعَلَ ہَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِیَاءً فَنَزَلَتْ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَا یَجِدُونَ إِلَّا جُہْدَہُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب الحمل باجرۃ تیصدق بھا ] ” حضرت ابو مسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری کیا کرتے اور اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (رض) اس مزدوری سے آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی عبدالرحمن بن عوف بہت سامال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے تو ریاکاری کے لیے بھاری مال خیرات کیا ہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ “ مسائل ١۔ منافق مومنوں کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن اللہ منافقوں سے مذاق کرے گا۔ ٤۔ منافقوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول کو مذاق کرنے والوں کی سزا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبۃ : ٧٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔ (الحجر : ٩٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے کی وجہ سے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا۔ (یٰسٓ: ٣١) ٤۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کو ڈھیل دیتا رہا اور پھر انھیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ (الرعد : ٣٢) ٥۔ اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو تمسخر کی سزا نے آگھیرا۔ (الانعام : ١٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف : ١٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

منافقین زکوۃ کے بارے میں کیا تصورات رکھتے تھے اور سچے اہل ایمان زکوۃ و صدقات کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ ان دونوں تصورات کی ایک جھلکی ملاحظہ ہو۔ منافقین مخلص اور غریب اہل ایمان کے انفاق کا مذاق اڑاتے تھے تھے۔ اس آیت ۔۔ الذین یلمزون المطوعین الخ کے نزول کا بھی ایک خاص قصہ ہے۔ جس سے اظہار ہوتا ہے کہ منافقین کی بگڑی ہوئی طبیعت انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں کیا سوچتی تھی ؟ ابن جریر نے بواسطہ یحییٰ ابن کثیر اور سعید ابن قتادہ اور ابن ابی حاتم ، حکم ابن ابان سے ، عکرمہ سے نقل کیا ہے (روایت کے الفاظ مختلف ہیں) کہتے ہیں کہ حضور نے تبوک کے موقعہ پر چندے کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا۔ عبدالرحمن ابن عوف نے چار ہزار دیے۔ انہوں نے کہا حضور مری کل جائیدادا آٹھ ہزار ہے اس میں سے نصٖ لایا ہوں۔ نصف چھوڑ رکھا ہے تو حضور نے فرمایا اللہ اس میں بھی برکت دے جو تونے دیا اور اس میں بھی برکت دے جو پس اندا ا کردیا ہے۔ ابوعقیل ایک صاع کھجوریں لائے اور کہا رسول خدا میں دو صاع کھجور کما کر لایا ہوں۔ ایک صاع میں اللہ کو قرض دیتا ہوں اور ایک اپنے بچوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ منافقین نے مذاق کیا۔ عبدالرحمن ابن عوف کے بارے میں کہا کہ اس نے دکھاوے کے لیے اتنا مال دیا اور ابوعقیل کے بارے میں کہا ہی اللہ اور سول کو ایک صاع کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے ابو عقیل کے بارے میں کہا کہ یہ شخص خواہ مخواہ اپنے آپ کو یاد کرانا چاہتا ہے ، حالانکہ اس جنے ساری رات مزدوری کی اور دو صاع کمائے تھے اور ایک صاع حضور کے سامنے پیش فرمایا۔ منافقین اہل ایمان کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے تھے حالانکہ وہ دل و جان سے فدا ہو رہے تھے اور بطیب خاطر خرچ کر رہے تھے اور جس کے مقدر میں جس قدر تھا وہ جہد میں حصے کے طر پر فنڈ میں دیتے تھے لیکن منافقین کی سمجھ میں مسلمانوں کا اخلاص اور ان کے پاکیزہ جذبات نہ آتے تھے۔ ان کے دل بجھے ہوئے تھے اس لیے وہ مسلمانوں کے حساس دلوں کا ادراک نہ کرسکتے تھے۔ وہ مسلمانوں کی بےتابی کو نہ پا سکتے تھے جو وہ راہ خدا میں انفاق کے لیے دکھا رہے تھے۔ وہ داعیہ ایمانی کے نتیجے میں تھوڑا یا بہت ملا کر پیش کرتے تھے اور یہ لوگ داعیہ ایمانی سے محروم تھے۔ چناچہ وہ اس کے سوا اور کہہ کیا سکتے تھے کہ اگر زیادہ دیا جائے تو ریاکار ہے اور اگر قلیل دیا جائے تو نام لکھوا رہا ہے۔ اگر کوئی زیادہ دیتا تو وہ بھی مجرم اور اگر کوئی تھوڑا دیتا تو بھی مجرم۔ لہذا ان کی اس تنقید کو صالح ذہن قبول ہی نہ کرتا تھا۔ اس لیے کہ وہ ذاتی طور پر جہاد سے پیچھے رہنے والے تھے ، پشت کی طرف سے نقب لگانے والے تے اور ایک پیشہ جہاد میں دینے کے لی تیار نہ تھے۔ وہ اگر کچھ دیتے بھی تو محض ظاہر داری کے قیام کے لیے اور بری نیت سے اور حقیر اور ذلیل اسباب کی وجہ سے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو خوب جواب دیتا ہے سخر اللہ منھم ولھم عذاب الیم اللہ ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ کس قدر ہولناک انجام ہے یہ۔ اور کس قدر ہولناک مذاق ہوگا خالق کی جانب سے۔ ایک طرف ایک چھوٹی سی جماعت ، ضعیف و ناتواں ، ذلیل اور فانی اور اس کے مقابلے میں خالق کائنات اور اس کا دردناک عذاب کس قدر خوفناک عذاب کے لیے یہ ضعیف و ناتواں انسان اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کا مخلصین کے صدقات پر طعن و تمسخر کرنا منافقین کے دلوں میں چونکہ ایمان نہیں تھا اس لیے اہل ایمان کو طرح طرح سے تکلیف دیتے تھے ان تکلیفوں میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے اعمال اور احوال کو طعن اور طنز اور مسخرہ بازی کا نشانہ بناتے تھے۔ صحیح بخاری (ص ٦٧٣ ج ٢) میں حضرت ابو مسعود انصاری (رض) کا بیان نقل کیا ہے کہ جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم ہوتا تھا تو ہم محنت مزدوری کر کے اپنی کمروں پر بوجھ اٹھا کر کچھ مال حاصل کرتے تھے (جس کو صدقہ میں پیش کردیتے تھے) ۔ اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ دینے کی ترغیب دی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے چار ہزار درہم پیش کردیئے اور عاصم بن عدی نے سو وسق کھجوریں حاضر کردیں اس پر منافقین نے طنز کیا کہنے لگے اجی کچھ نہیں، یہ تو ریا کاری ہے، ایک صحابی حضرت ابو عقیل (رض) بھی تھے وہ ایک صاع کھجور لے کر آئے اور صدقہ کے مال میں ڈال دیا۔ اس پر منافقین آپس میں ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ کو اس کے ایک صاع کی کیا ضرورت تھی ؟ (چونکہ یہ صدقہ تھوڑا سا تھا اس لیے ان لوگوں نے ان کا مذاق بنایا) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابو عقیل نے خوب زیادہ محنت کر کے دو صاع کھجوریں حاصل کیں (ایک صاع ساڑھے سیر کا ہوتا ہے) ان میں سے ایک صاع گھر والوں کو دے دیا اور ایک صاع لے کر بار گاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور پوری صورت حال عرض کردی، آپ نے فرمایا اس کو مال صدقہ میں ڈال دو ۔ منافق ان کا تمسخر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اس مسکین کے صدقہ سے اللہ بےنیاز تھا (کیا ذرا سی چیز لے کر آیا) اللہ تعالیٰ نے ان کے اس تمسخر کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس تمسخر پر سزا دے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ص ٣٧٥ ج ٢، ص ٣٧٦ ج ٢) حضرت ابو عقیل جو محنت مشقت کر کے تھوڑی سی کھجوریں کسب کر کے لائے تھے اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا (وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ ) (جو لوگ اپنی محنت مشقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں پاتے ان پر یہ لوگ طنز کرتے ہیں) اس میں صدقہ کرنے کے لیے محنت کرنے والوں کی تعریف ہے کہ وہ یہ سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھتے کہ ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں ہم کیا صدقہ کریں، محنت و مشقت سے کچھ مال حاصل کر کے اللہ کی رضا مندی کے لیے پیش کردیتے ہیں، معلوم ہوا کہ صدقہ کرنے کے لیے مالدار ہونا ضروری نہیں جس کے پاس کچھ بھی نہیں وہ بھی صدقہ کرنے کا راستہ نکال سکتا ہے اور جسے جانی و مالی عبادات کا ذوق ہو وہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ حضرات صحابہ نے بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے خیر کی کیسی کیسی نظیریں چھوڑی ہیں۔ منافقین چونکہ کافر ہیں (اگرچہ بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں) اس لیے ان کے ساتھ آخرت میں کافروں والا ہی معاملہ ہوگا۔ یعنی دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اگر اسلام قبول نہ کریں تو ان کی مغفرت کا کوئی راستہ نہیں اس کو واضح طور پر بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرمایا (اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَھُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَھُمْ ) اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں تو اللہ ہرگز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا۔ کمافی سورة المنافقین (سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ اَاسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ) یعنی آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں (یہ ان کے لیے برابر ہے) (ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ) (یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا) (وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ) (اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74:“ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الخ ” اس میں ان منافقین کا ذکر ہے جو خوشی خوشی صدقہ و خیرات کرنے والے مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے۔ “ اَلَّذِیْنَ ” موصول مع صلہ مبتدا ہے۔ اور “ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْھُمْ ” تخویف اخروی ہے یعنی اللہ ان کو تمسخر اور استہزاء کی سزا دے گا یعنی “ اَنَّه سبحانه و تعالیٰ جازاھم علی سخریتھم ثم وصف ذلک وھو قوله سبحانه وتعالیٰ ( وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) یعنی فی الاخرة ” (خازن ج 3 ص 128) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 یہ لوگ ایسے ہیں کہ صدقات کے بارے میں ان مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرنے والے ہیں اور ان مسلمانوں پر بھی طعنہ زنی کرتے ہیں جو اپنی محنت و مزدوری کے سوا اور مقدرت نہیں رکھتے اور بغیرمحنت و مشقت انہیں کچھ میسر نہیں تو یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کا تمسخر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس تمسخر کا بدلہ دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ یعنی صدقاتِ نافلہ میں کوئی زیادہ دے تو اس کو ریاکار اور نمودیا کہیں اور اگر کوئی مزدور تھوڑا لائے تو اس کو کہیں یہ بھی پانچویں سواروں میں داخل ہوگئے ان غریبوں پر طعن بھی کریں اور تمسخر بھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک بار حضرت نے تقلید کیا خیرات پر عبدالرحمن بن عوف چارہزار درہم لائے اور لوگ لانے لگے عاصم چار سیرجو لائے عبدالرحم نے کہا آٹھ ہزار میں رکھتا تھا نصف اپنے رب کو قرض دیتا ہوں اور نصف حق عیال کا، عاصم نے کہا مزدوری کر کر آٹھ سیر جو لایا ہوں نصف خیرات کرتا ہوں اور نصف قوت عیال کا منافق آپس میں کہنے لگے عبدالرحمن کو منظور ہے نمود اپنی اور عاصم اپنی زورآوری سے اپنے تئیں ملاتا ہے خیرات والوں میں۔ 12