Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 80

سورة التوبة

اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۸۰﴾  16

Ask forgiveness for them, [O Muhammad], or do not ask forgiveness for them. If you should ask forgiveness for them seventy times - never will Allah forgive them. That is because they disbelieved in Allah and His Messenger, and Allah does not guide the defiantly disobedient people.

ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر ۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of asking for Forgiveness for Hypocrites Allah says, اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ Whether you (O Muhammad) ask forgiveness for them (hypocrites) or ask not forgiveness ... for them -- (and even) if you ask seventy times for their forgiveness -- Allah will not forgive them because they have disbelieved in Allah and His Messenger. And Allah guides not those people who are rebellious. Allah says to His Prophet that hypocrites are not worthy of seeking forgiveness for them and that if he asks Allah to forgive them seventy times, Allah will not forgive them. The number seventy here was mentioned to close the door on this subject, for Arabs use this number when they exaggerate, not that they actually mean seventy or more than seventy. Ash-Sha`bi said that; when Abdullah bin Ubayy was dying, his son went to the Prophet and said to him, "My father has died, I wish you could attend him and pray the funeral prayer for him." The Prophet said, مَا اسْمُك "What is you name?" He said, "Al-Hubab bin Abdullah." The Prophet said, بَلْ أَنْتَ عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِاللهِ إِنَّ الْحُبَابَ اسْمَ شَيْطَان Rather, you are Abdullah bin Abdullah, for Al-Hubab is a devil's name. The Prophet went along with him, attended his father's funeral, gave him his shirt as a shroud and prayed the funeral prayer for him. He was asked, "Would you pray on him, when he is a hypocrite" He said, إِنَّ اللهَ قَالَ Allah said, ( إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً ...(and even) if you ask seventy times for their forgiveness...), وَلاَسْتَغْفِرَنَّ لَهُمْ سَبْعِينَ وَسَبْعِينَ وَسَبْعِين Verily, I will ask Allah to forgive them seventy times and seventy more and seventy more.)" Similar narrations were collected from Urwah bin Az-Zubayr, Mujahid, Qatadah bin Di`amah and Ibn Jarir.   Show more

منافق کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ اے نبی تو ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرے ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لئے چاہے تو اللہ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو ۔ بعض نے کہا ہے ک... ہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو ان کے لئے ستر بار سے بھی زیادہ استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمادیا کہ ان کے لئے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے ۔ عبداللہ بن ابی منافق کا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس کے پاس تشریف لے چلیں ، اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھیں ۔ آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا حباب ۔ آپ نے فرمایا تیرا نام عبداللہ ہے ، حباب تو شیطان کا نام ہے ۔ اب آپ ان کے ساتھ ہوئے ان کے باپ کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کی جنازے کی نماز پڑھائی ۔ آپ سے کہا بھی گیا کہ آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے بھی نہ بخشنے کو فرمایا ہے تو میں ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 ستر کا عدد مبالغے اور تکثیر کے لئے ہے۔ یعنی تو کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفار کرلے اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے پر ان کو معافی مل جائے گی۔ 80۔ 2 یہ عدم مغفرت کی علت بیان کردی گئی ہے تاکہ لوگ کسی کی سفارش کی امید پر نہ رہیں بلک... ہ ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اگر یہ زاد آخرت کسی کے پاس نہیں ہوگا تو ایسے کافروں اور نافرمانوں کی کوئی شفاعت ہی نہیں کرے گا، اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے شفاعت کی اجازت ہی نہیں دے گا۔ 80۔ 3 اس ہدایت سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کو مطلوب (ایمان) تک پہنچا دیتی ہے ورنہ ہدایت بمعنی رہنمائی یعنی راستے کی نشان دہی۔ اس کا اہتمام تو دنیا میں ہر مومن و کافر کے لیے کردیا گیا ہے (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) 76 ۔ الدہر :3) (وھدینہ النجدین) (البلد) اور ہم نے اس کو (خیروشر کے) کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] آپ کا عبداللہ بن ابی منافق کا جنازہ پڑھانے کی وجوہ :۔ غزوہ تبوک سے واپسی کے تھوڑی ہی مدت بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے سچے مسلمان صحابی تھے اور اپنے باپ کی کرتوتوں سے خوب واقف تھے۔ جب غزوہ بنی مصطلق کے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی...  نے کہا تھا کہ مدینہ جا کر عزت والا (یعنی خود) ذلت والے کو مدینہ سے نکال کر باہر کرے گا۔ تو یہ اپنے باپ کی راہ روک کر کھڑے ہوگئے جس کا مطلب یہ تھا کہ میری بھی نظروں میں چونکہ تم ہی ذلیل ہو لہذا تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پھر اس نے رسول اللہ سے معافی مانگی تب عبداللہ (رض) نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے دیا تھا۔ مگر باپ کی وفات پر خون نے جوش مارا اور طبیعت میں رحم، ہمدردی اور پدرانہ شفقت کے جذبات ابھر آئے۔ نبی سے کرتہ مانگا تاکہ اس میں باپ کو دفن کریں تاکہ شاید کچھ عذاب میں کمی واقع ہو۔ آپ نے تین وجوہ کی بنا پر اسے کرتہ دے دیا ایک یہ کہ آپ کی اپنی طبیعت میں رحم اور عفو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا دوسرے یہ کہ اساریٰ بدر کے فیصلہ کے وقت آپ کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے۔ وہ طویل القامت تھے۔ لہذا آپ نے عبداللہ بن ابی سے قمیص مانگی جو سیدنا عباس کے قد کے موافق تھی۔ وہ اس نے دے دی۔ آپ چاہتے تھے کہ اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔ اور تیسرے یہ کہ اس حالت میں عبداللہ صحابی کا دل شکستہ نہ ہو۔ پھر آپ اس کی درخواست پر اس منافق کا جنازہ پڑھانے کے لیے اس کے ساتھ ہوئے نیز اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن بھی لگایا۔ مزید تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرگیا تو اس کے بیٹے عبداللہ صآپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چناچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر (رض) نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا && اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔ && سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مرجائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤) (بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر) نیز اسی سورة کی آیت نمبر ٨٤ کا حاشیہ نمبر ٩٩ بھی اسی سے متعلق ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ : یعنی آپ کا ان کے لیے استغفار کرنا یا نہ کرنا برابر ہے، یہاں یہ بات امر کے صیغے کے ساتھ آئی ہے، مگر مراد خبر دینا ہی ہے، جیسا کہ دوسری جگہ صاف خبر کے الفاظ میں فرمایا : (سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭ لَنْ ي... َّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ ) [ المنافقون : ٦ ] ” ان پر برابر ہے کہ تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرے یا ان کے لیے بخشش کی دعا نہ کرے، اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ “ اس آیت کی تفسیر کا کچھ حصہ آیت (٨٤) کی تفسیر میں آ رہا ہے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ : یعنی آپ ان کے حق میں کتنا ہی استغفار کریں اللہ تعالیٰ انھیں ہرگز نہیں بخشے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کی وجہ سے وہ بخشے جانے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہاں سے فرق نکلتا ہے بےاعتقاد اور گناہ گار کا۔ گناہ ایسا کون سا ہے جو کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بخشانے سے نہ بخشا جائے اور بےاعتقاد کو پیغمبر کا ستر دفعہ استغفار فائدہ نہ کرے۔ اب بےاعتقاد لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت پر کس دلیل سے بھروسا کرسکتے ہیں ؟ آدمی سے برائی ہوجائے یا عمل میں کوتاہی ہو اور وہ شرمندہ ہے تو وہ گناہ گار ہے اور جو بد کام کو عیب نہ جانے اور اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرض کے کرنے اور نہ کرنے کو برابر سمجھے اور کرنے والوں پر طعن کرے، وہ بےاعتقاد ہے۔ ایسے شخص کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ (موضح)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّۃً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٨٠ ۧ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ :...  طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

منافق پر نماز جنازہ کی ممانعت قول باری ہے استغفرلھم اولا تستغفرلھم ان ستغفرلھم سبعین مرۃ فلن بغفر اللہ لھم ۔ اے نبی ! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کردیا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کرو گے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے ک... ہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ان کے لیے معافی کی درخواست ان کی بخشش کی موجب نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا ان ستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم ستر کا ذکر بخشش سے مایوس کردینے میں مبالغہ کے طورپر ہوا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ستر سے زائد مرتبہ انکے لیے معافی کی درخواست کروں گا ۔ اس روایت میں راوی کی طرف سے غلطی ہوگئی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ جانتے ہوئے کہ کافروں کی بخشش نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ سے انکی بخشش کی درخواست نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے متعلق درست روایت وہ ہے جس میں آپ کے الفاظ اس طرح منقول ہیں ۔ لوعلمت انی ان زدت علی السبعین غفرلھم لزدت علیھا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ستر سے زائد مرتبہ ان کے لیے معافی کی درخواست کرنے پر انہیں معافی مل جائے گی تو میں ان کے لیے متہ سے زائد مرتبہ معافی کی درخواست کرتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقوں کے ایک گروہ کے ایک ان کی طرف سے ظاہری طور پر اسلام کے دعوے کی بنا پر استغفار فرمایا تھا، ان میں سے جب کوئی مرجاتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے لیے دعا اور استغفار کی درخواست کرتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مسلمان سمجھتے ہوئے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کی خبر دی کہ یہ لوگ منافق بن کر مرے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتادیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائے مغفرت سے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے گا ۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) آپ خواہ عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس، معتب بن قشیر اور ان منافقین کے لیے جو تقریبا ستر ہیں استغفار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ ان منافقوں یعنی عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو معاف نہیں فرمائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ط) یہ آیت سورة النساء کی آیت ١٤٥ (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج) کے بعد منافقین کے حق میں سخت ترین آیت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٠۔ اس آیت میں اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی کہ ان منافق لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے اور ایسے لوگوں کی مغفرت نہ ہونے کا اللہ کا وعدہ ہے اس لئے یہ لوگ ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے واسطے استغفار کی دعا کی جاوے کیونکہ اگر ستر بار بھی ان کے واسطے آپ استغفار کریں گے ... تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا کس واسطے کہ استغفار تو گنہگار اور خطا وار کے حق میں فائدہ مند ہے نہ جو سرے سے خدا و رسول کے ساتھ کفر کر کے بغیر توبہ کے مرگئے اس لئے ان میں کے جو لوگ اس حال میں مرگئے نہ تو ان کی مغفرت ہوسکتی ہے اور نہ ان میں کے زندہ لوگوں کو توبہ پر مجبور کیا جاویگا اس لئے اللہ تعالیٰ کے علم کے موافق جیتے جی یہ لوگ اپنی اسی گمراہی میں پڑے رہیں گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے حق میں استغفار کرنے کا اور نہ کرنے کا اختیار دیا ہے تو آپ نے فرمایا میں ستر بار سے زیادہ ان کے واسطے استغفار کروں گا شاید خدا انہیں بخش دے اس پر اللہ پاک نے غصہ ہو کر فرمایا کہ تمہارا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے خاتمہ کا حال معلوم ہے اس لئے ان کی مغفرت نہ ہوگی یہ غصہ کی آیت سورة منافقون میں آویگی ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ شعبی سے یوں روایت کی ہے کہ جب عبداللہ بن ابی مرنے کے قریب ہوا تو اس کا بیٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ یارسول اللہ میرا باپ قریب المرگ ہے آپ چل کر اس کے واسطے استغفار کریں اور نماز پڑھیں آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا کیا نام ہے اس نے کہا کہ حباب بن عبدللہ آپ نے فرمایا کہ حباب نام شیطان کا ہے تیرا نام عبداللہ بن عبداللہ ہے اور پھر آپ اس کے ہمراہ ہوئے اور اپنا کرتہ اسے پہنا دیا اور آپ نے اس کے واسطے مغفرت کی دعا کی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی آپ نے سمجھا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ مغفرت کی دعا کی جاویگی تو شاید اللہ تعالیٰ استغفار قبول کر لیگا اس پر یہ حکم ہوا کہ چاہے جتنی بار استغفار کرو اللہ ایسے لوگوں کو ہرگز نہیں بخشے گا یہ عامر بن شراحیل شعبی کوفہ کے قاضی اور امام ابوحنیفہ (رح) کے استادوں میں ہیں۔ یہ بڑے ثقہ اور جلیل القدر تابعی ہیں حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں اکثر روایتیں ان کی حضرت علی (رض) حضرت عبداللہ (رض) بن عباس اور ابوہریرہ (رض) سے ہوا کرتی ہیں ان کی حضرت علی (رض) سے جو روایت ہوا کرتی ہے اس کو بعضے علماء مرسل کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے علماء نے یہ بھی فیصلہ کردیا ہے کہ شعبی کی مرسل روایتیں صحیح ہوتی ہیں بغیر ذکر صحابی کے کوئی تابعی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رعایت کرے تو اس کو مرسل کہتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ حافظ ابوجعفر ابن جریر کی یہ مرسل روایت علماء کے فیصلہ کے موافق صحیح اور حدیث نبوی ہے مجاہد نے بھی یوں ہی مرسل طور پر اس روایت کو بیان کیا ہے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) اور سھل بن سعد (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمر بھر آدمی خواہ کیسے ہی عمل کرے لیکن جس حالت پر آدمی کا خاتمہ ہوتا ہے شریعت میں وہی حالت معتبر ہے خاتمہ کا حال سوا اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں تھا اس لئے صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ خاتمہ بخیر ہونے کا آخر سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں تھا اس لئے صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ خاتمہ بخیر ہونے کے آخر نشانی کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے علم ازلی کے موافق جس شخص کا خاتمہ بخیر کرنا ہوتا ہے تو وہ ایسے شخص کو آخر عمر میں نیک کاموں کا شوق عطا فرما دیتا ہے اور اسی حالت پر وہ شخص دنیا سے اٹھ جاتا ہے جس سے اس کا خاتمہ بخیر ہوجاتا ہے خاتمہ بخیر ہونے کی نشانی کی یہ حدیث انس (رض) بن مالک کی روایت سے ترمذی میں ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شریعت میں خاتمہ کی حالت معتبر ہے اور جن منافق لوگوں کا حال آیت میں ہے علم الہی کے موافق آخر عمر میں وہ اپنے عقیدوں سے باز آنے والے اور خالص نیت کے نیک عملوں میں لگنے والے نہیں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہ شوق بھی ان کے دل میں نہیں پیدا کیا اور عمر بھر جس حالت پر یہ لوگ تھے آخر اسی حالت پر دنیا سے اٹھ گئے اب اللہ تعالیٰ کا یہ تو وعدہ ہے کہ جس طرح سوئی کے ناکے میں ہو کر اونٹ نہیں نکل سکتا اسی طرح ایسے لوگ جنت میں نہیں جاسکتے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان لوگوں کے خاتمہ کا حال بتلا کر ایسے لوگوں کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے منع فرمایا یہ سوئی کے ناکے اور اونٹ کی مثال سورة اعراف میں گزر چکی ہے دعا مغفرت کے ساتھ اس آیت میں ستر دفعہ کی قید ہے اور سورة منافقون میں دعائے مغفرت کے کرنے اور نہ کرنے کو یکساں فرمایا ہے جس سے مطلب یہ ہے کہ ستر دفعہ کی قید گنتی کی حد کے لئے نہیں ہے بلکہ فقط کثرت کے جتلاتے کے لئے ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ بےگنتی دعائے مغفرت بھی ایسے لوگوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:80) استغفرلہم اولا تستغفرلہم۔ استغفر فعل امر بمعنی خبر ہے تقدیر کلام یوں ہے استغفرت لہم یا محمد اولم تستغفرلہم فلن یغفر اللہ لہم (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان کے لئے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا۔ سبعاین مرۃ۔ ستر بار۔ ستر کا عدد مقررہ حد یا غائیت کے لئے نہیں...  بلکہ کثرت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کیونکہ بخشے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس آیت میں ستر کا لفظ عربی محاورے کے مطابق کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں کتنا ہی استغفار کریں اللہ تعالیٰ انیں ہرگز بخشنے والا نہیں ہے۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب فرماتے ہیں یہاں سے فرق نکلتا ہے بےاعتق... اد اور گناہ گا رکا۔ گناہ ایسا کون سا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بخشانے سے بخشانہ جائے اور بےاعتقاد لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ستر استغفار فائدہ اب بےاعتقاد لوگ پیغمبر کی شفاعت پر کس دلیل سے بھر وساکر سکتے ہیں۔ آدمی سے بدی ہو یا نماز روزہ نہ ہو اور وہ شرمندہ ہے تو وہ گنہگار ہے اور جو بد کام کو عیب نہ جا نے اور خدا کے عائد کردہ فرض کے کرنے اور نہ کرنے کو برابر سمجھنے اور کرنے والوں پر طعن کرے وہ بےاعتقاد ہے ایسے شخص کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین پر مزید سختی اور ان کی محرومیاں۔ اس خطاب کے آغاز میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا تھا کہ کفار کے خلاف جہاد کرو اور منافقین پر سختی کرو۔ اب حکم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی کرلیں ان کے لیے بخشش کی دعا نہیں کرنا۔ اگر آپ ستر (٧٠) مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش ک... ی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انھیں معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں۔ ایسے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی انتہا ہوجاتی ہے جس کے لیے اللہ کا رسول یہ بد دعا کرے کہ اے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہ دے۔ جس طرح نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں عذاب کی بد دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے اللہ اب کفار کا ایک شخص بھی باقی نہیں رہنا چاہیے ان میں جو بھی پیدا ہوا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے آل فرعون کے لیے بد دعا کی۔ الٰہی ! ان کے مال تباہ اور دل سخت کر دے اور انھیں ایمان کی توفیق نہ دے یہاں تک کہ اذیت ناک عذاب آلے۔ ( یونس آیت : ٨٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے حوصلہ والے تھے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں نو سال تک منافقین کی ہرزہ سرائی اور اذیتیں برداشت کرتے رہے۔ منافق جب بھی آپ کی خدمت میں آکر کوئی بہانہ یا معذرت کرتے آپ اسے قبول فرماتے۔ لیکن اب وہ وقت آچکا تھا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے معافی کا دروازہ بند کردیا جائے۔ چناچہ آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے ایک نہیں ستر بار معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ پھر بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔ یاد رہے اس زمانے میں عربوں کے ہاں کسی بات کی اہمیت اور اس کو بڑھا کر بیان کرنے کے لیے ستر کا عدد استعمال کیا جاتا تھا۔ تاکہ سننے والے کو بات کی اہمیت یا اس کی برائی کا احساس ہوجائے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام رازی (رح) نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد منافقین جب پوری طرح بےنقاب ہوگئے تو ان کا سردار عبداللہ بن ابی نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے وقار کو بحال کرنے کے لیے نماز کے بعد کھڑا ہو کر اللہ کے رسول کی تعریف کرنے لگا۔ جس پر حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا ” بیٹھ جاؤ “ ہمیں تیری حقیقت اچھی طرح معلوم ہوچکی ہے۔ یہ بڑ بڑاتا ہوا مسجد سے باہر نکلا جس پر اس کی برادری کے مخلص مسلمانوں نے اسے سمجھایا۔ برباد کیوں ہوتے ہوجا کر اللہ کے رسول سے معافی مانگو۔ اس پر چلا کر کہنے لگا کہ مجھے معافی اور کسی کی دعا کی ضرورت نہیں۔ اس پر اس آیت کریمہ کا نزول ہوا۔ مسائل ١۔ منافقین کے لیے دعا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ ٢۔ اللہ منافقین کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ٣۔ منافق کے جرائم کی وجہ سے اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو معاف نہیں کرے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (التوبۃ : ٨٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١١٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ مرتد کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٣٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کفر اور ظلم کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٦٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون : ٦) ٧۔ اگر آپ منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ : ٨٠) ٨۔ آپ منافقوں کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرئے گا۔ ( المنافقوں : ٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ منافقین جو مخلص اور رضاکار مومنین کا مذاق اڑاتے تھے ، کہ یہ لوگ اس کا کیوں مال لٹاتے ہیں ان کا انجام یہ ہے کہ خود حضور کے جانب سے طلب مغفرت بھی ان کے لیے مفید نہ ہوگی۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی شفقت کی وجہ سے ان خطاکاروں کے لی بھی مغفرت طلب کرتے تھے شاید ... کہ اللہ معاف کردے۔ لیکن ان لوگوں کے بارے میں اللہ نے صاف صاف بتا دیا کہ ان منافقین کا انجام طے شدہ ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ان لوگوں نے صیح راہ سے انحراف کرلیا ہے ، لہذا ان کا اب اچھے انجام تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے دل اس قدر فاسد ہوچکے ہیں کہ ان کی اصلاح ممکن ہی نہیں ہے۔ لہذا حضور کو کہا جاتا ہے کہ اب اگر ستر مرتبہ بھی طلب مغفرت کریں ، کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ستر مرتبہ سے مراد کوئی متعین عدو نہیں ہے۔ اس سے مراد کثرت ہوتی ہے یعنی اب ان کی مغفرت کی کوئی امید نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ کیونکہ انسانی دل اگر فجور اور فساد کی ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو پھر اصلاح کی کوئی امید نہیں رہتی اور انسان جب گمراہی میں حد سے گزر جائے تو پھر راہ راست پر واپس آنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ اور اللہ تو دلوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:“ اِسْتَغْفِرْلَھُمْ الخ ” یہ تمام منافقین کا انجام ہے کہ ان کی ہرگز بخشش نہیں ہوگی اگرچہ اللہ کا رسول ستر بار بھی اللہ سے ان کے لیے معافی مانگے کیونکہ ان کے دلوں میں کفر ونفاق ہے اگرچہ بظاہر وہ ایمان کے دعویدار ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ منوا لینا پیغمبر (علیہ السلام) کے اختیار میں نہیں۔ “ اَسْتَغْ... فِرْ ” امر بمعنی خبر ہے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جب مرض الموت میں مبتلا ہوا تو اس کا بیٹا جو مخلص مومن تھاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کے لیے استغفار کی درخواست کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع کردیا گیا۔ صحیح مسلم میں ہے جب ابن ابی مرگیا توحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمر نے آپ کا دامن تھام کر عرض کیا یارسول اللہ ! اللہ نے تو آپ کو اس کا جنازہ پڑھنے سے منع فرمادیا ہے اور میں اس کیلئے ستر سے بھی زیادہ بار استغفار کروں گا شاید اللہ اسے معاف کردے (مدارک و قرطبی وغیرہ ) ۔ امام رازی اور علامہ خازن ابن عباس سے ناقل ہیں کہ جب منافقین کے بارے میں مذکورہ بالا آیتیں نازل ہوئیں مسلمانوں پر ان کا نفاق ظاہر ہوگیا اس وقت منافقین نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ ان کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “ قال ابن عباس (رض) عنھما ان عند نزول الایة الاولی فی المنافقین قالوا یا رسول استغفر لنا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ساستغفر لکم واشتغل بالاستغفار لھم فنزلت ھذه الایة فترک رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الاستغفار ” (کبیر ج 4 ص 705) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 اے پیغمبر آپ ان منافقوں کے لئے خواہ استغفار کریں یا استغفار نہ کریں اگر آپ ان کے لئے ستر 70 مرتبہ بھی یعنی بکثرت استغفا کریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا یہ عدم مغفرت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفر و انکار کا ارتکاب کیا ہے او... ر اللہ تعالیٰ ایسے سرکش اور نافرمانوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہاں سے فرق نکلتا ہے اعتقاد کا اور گناہ گار کا گناہ ایسا کونسا ہے کہ پیغمبر کے بخشائے سے نہ بخشا جائے اور بےاعتقادی کو پیغمبر کی ستر 70 استغفار فائدہ نہ کرے اب جو بےاعتقاد لوگ بھروسہ کریں پیغمبر کی شفاعت پر کس دلیل سے مثلاً آدمی سے بدی ہو یا نماز روزہ نہ ہو اور وہ شرمندہ ہے اور نادم ہے تو وہ گناہ گار ہے اور جو کوئی بدکام کو عیب نہ جانے اور فرض خدا کو کرنا نہ کرنا برابر سمجھے اور کرنے والوں کو طعن کرے وہ بےاعتقاد ہے۔ 12  Show more