Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 83

سورة التوبة

فَاِنۡ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنۡہُمۡ فَاسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِلۡخُرُوۡجِ فَقُلۡ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِیَ اَبَدًا وَّ لَنۡ تُقَاتِلُوۡا مَعِیَ عَدُوًّا ؕ اِنَّکُمۡ رَضِیۡتُمۡ بِالۡقُعُوۡدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقۡعُدُوۡا مَعَ الۡخٰلِفِیۡنَ ﴿۸۳﴾

If Allah should return you to a faction of them [after the expedition] and then they ask your permission to go out [to battle], say, "You will not go out with me, ever, and you will never fight with me an enemy. Indeed, you were satisfied with sitting [at home] the first time, so sit [now] with those who stay behind."

پس اگر اللہ تعالٰی آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو ۔ تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites are barred from participating in Jihad Allah commands His Messenger, peace be upon him, فَإِن رَّجَعَكَ اللّهُ ... If Allah brings you back, from this battle, ... إِلَى طَأيِفَةٍ مِّنْهُمْ ... to a party of them, in reference to the twelve (hypocrite) men, according to Qatadah, ... فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ ... and they ask your permission to go out, with you to another battle, ... فَقُل لَّن تَخْرُجُواْ مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُواْ مَعِيَ عَدُوًّا ... say: "Never shall you go out with me nor fight an enemy with me..." as an admonishment and punishment for them. Allah mentioned the reason for this decision, ... إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ... "You were pleased to sit (inactive) on the first occasion..." Allah said in a similar Ayah, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance), as they refused to believe therein for the first time. (6:110) The recompense of an evil deed includes being directed to follow it with another evil deed, while the reward of a good deed includes being directed to another good deed after it. For instance, Allah said concerning the Umrah of Hudaybiyyah, سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا Those who lagged behind will say, when you set forth to take the spoils. (48:15) Allah said next, ... فَاقْعُدُواْ مَعَ الْخَالِفِينَ "...then you sit (now) with those who lag behind." in reference to the men who lagged behind from (Tabuk) battle, according to Ibn Abbas.

مکاروں کی سزا فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہدینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو ۔ تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی؟ پس یہ آیت مثل ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١١٠ ؀ۧ ) 6- الانعام:110 ) کے ہے بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزاء بھی نیکی کے بعد ملتی ہے ۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآنی نے فرمایا تھا ( سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْــطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُم 15؀ ) 48- الفتح:15 ) یعنی جب تم غنیمتیں لینے چلو گے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں ۔ یہاں فرمایا کہ ان سے کہدینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہو ۔ جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔ 83۔ 2 یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔ 83۔ 3 یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔ 83۔ 4 یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم و غم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] منافقوں کے وعدے ناقابل اعتماد ہیں :۔ اس آیت میں منافقوں کی سیرت پر تبصرہ کیا گیا ہے یعنی جب آپ غزوہ تبوک سے واپس مدینہ پہنچیں گے تو جو منافق اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے آئندہ کسی جنگ میں آپ کا ساتھ دینے کے پرزور دعوے کریں گے تو آپ ان کے ایسے دل خوش کردینے والے اور زبانی دعوؤں کا قطعاً اعتبار نہ کیجئے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسا وقت آ بھی گیا تو یہ لوگ اس وقت بھی یہی کچھ کریں گے جو اس دفعہ کرچکے ہیں۔ یعنی پھر وہ جھوٹے بہانے تراش تراش کر آپ سے معذرت کرنے لگیں گے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ ابھی سے انہیں پکی رخصت دے دو اور کہہ دو کہ تمہارے نصیب میں بس عورتوں اور بچوں کی طرح پیچھے رہنا ہی لکھا ہے۔ لہذا تم خوش ہو لو۔ اس طرح آئندہ تمہیں نہ کوئی حیلہ بہانہ گھڑنا پڑے گا اور نہ کسی معذرت کی ضرورت پیش آئے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَاۗىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ : ” اگر اللہ تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے۔ “ ” رَجَعَ “ لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے، یعنی لوٹنا اور لوٹانا، یہاں متعدی کے معنی میں ہے۔ یعنی جو جنگ تبوک کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ گھروں میں بیٹھے رہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آئندہ انھیں اپنے ساتھ لے جانے اور اپنے ہمراہ لڑانے سے منع فرما دیا، اس لیے کہ ان کا اعتبار اٹھ گیا۔ جب وہ مشکل وقت میں ساتھ نہیں گئے تو آسان وقت میں بھی کیوں جائیں، جیسا کہ سورة فتح میں حدیبیہ کے لیے نہ جانے والے اعراب کو خیبر کی فتح میں شرکت سے منع فرما دیا۔ دیکھیے سورة فتح (١١ تا ١٥) مگر وہاں ہمیشہ کے لیے منع نہیں فرمایا، جبکہ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین کو ہمیشہ کے لیے ساتھ لے جانے سے منع فرما دیا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا کہ ” اگر پھر لے جائے تجھے اللہ کسی فرقہ کی طرف “ وہ اس واسطے کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ مدینہ میں منافق تھے اور فرقے اس واسطے فرمایا کہ بعض منافق پیچھے مرگئے اور سب بیٹھنے والے منافق نہ تھے، بعض مسلمان بھی تھے، ان کی تقصیر معاف ہوئی۔ (موضح) فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْنَ : یعنی پہلی مرتبہ کی طرح اب بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو جو بےعذر گھروں میں رہ گئے یا معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہے، جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار اور اپاہج وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The statement: لَّن تَخْرُ‌جُوا (Ian takhruju ... you shall never march) in the second verse (83) has been explained by Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) in the summary of his Tafsir Bay-an a1-Qur&an. According to him, ` even if these people intend to participate in a future Jihad, they would get out of it when they want to, under one or the other pretext; and since they do not have faith in their heart, their intention too will not be backed by sincerity. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was commanded that, even if they want to take part in a Jihad, he should tell them the truth that he does not trust their word and deed. So, they would neither go for Jihad nor fight an enemy of Islam in his company.& Most of the commentators have said that this injunction has been enforced as their punishment in the present world, that is, even if they themselves were to make a request that they be allowed to take part in Jihad, even then, they should not be allowed to do that.

دوسری آیت میں لّنْ تَخْرُجُوْا کا ارشاد ہے، اس کا مفہوم مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں تو یہ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ اگر آئندہ کسی جہاد میں شرکت کا ارادہ بھی کریں تو چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں وہ ارادہ بھی اخلاص سے نہ ہوگا جب نکلنے کا وقت آئے گا اسوقت پہلے کی طرح حیلے بہانے کرکے ٹل جائیں گے، اس لئے آپ کو حکم ہوا کہ جب وہ کسی جہاد میں شریک ہونے کو خود بھی کہیں تو آپ یہ حقیقت حال ان کو بتلا دیں کہ تمہارے کسی قول و فعل پر اعتماد نہیں، تم نہ جہاد کو نکلو گے نہ کسی دشمن اسلام سے میرے ساتھ قتال کرو گے۔ اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم ان کے لئے بطور دنیاوی سزا کے نافذ کیا گیا کہ اگر وہ سچ سچ کسی جہاد میں شرکت کو کہیں تو بھی انھیں شریک نہ کیا جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ رَّجَعَكَ اللہُ اِلٰى طَاۗىِٕفَۃٍ مِّنْہُمْ فَاسْـتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا۝ ٠ ۭ اِنَّكُمْ رَضِيْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْنَ۝ ٨٣ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیز کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ خلف پیچھے رہنا وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا [ التوبة/ 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] ، والخالِفُ : المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال : فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ : شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف . قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة/ 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اگر اللہ تعالیٰ آپ کو غزوۂ تبوک سے مدینہ منورہ ان منافقین کے کسی گروہ کے پاس واپس لائے اور وہ براہ خوشامد دوسرے جہاد پر آپ کے ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو آپ یہ فرما دیجیے کہ غزوہ تبوک کے بعد تم کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو گے۔ تم نے غزوہ تبوک سے قبل ہی بیٹھنے کو پسند کیا، لہٰذا جہاد سے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآءِفَۃٍ مِّنْہُمْ ) مضمون سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ آیت مقام تبوک پر نازل ہوئی ہے۔ سورت کے اس دوسرے حصے کے پہلے چار رکوعوں (چھٹے رکوع سے لے کر نویں رکوع تک) کے بارے میں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ غزوۂ تبوک پر روانگی سے قبل نازل ہوئے تھے۔ ان کے بعد کی آیات مختلف مواقع پر نازل ہوئیں ‘ کچھ جاتے ہوئے راستے میں ‘ کچھ تبوک میں قیام کے دوران اور کچھ واپس آتے ہوئے راستے میں۔ (فَاسْتَاْذَنُوْکَ لِلْخُرُوْجِ ) یعنی کسی مہم پر ‘ کسی اور دشمن کے خلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا چاہیں : (فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا) غزوۂ تبوک کی مہم میں تمہارا آخری امتحان ہوچکا ہے اور اس میں تم لوگ ناکام ہوچکے ہو۔ (وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّاط اِنَّکُمْ رَضِیْتُمْ بالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) جب جہاد کے لیے نفیر عام ہوئی اور سب پر نکلنا فرض قرار پایا تو تم اپنے گھروں میں بیٹھ رہنے پر راضی ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر ہی میں تھے تو اللہ پاک نے یہ حکم دیا کہ جب آپ مدینہ میں واپس ہو کر پہنچیں اور پھر کبھی دوبارہ کسی جہاد میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہ بارہ منافق جو مدینہ میں ہیں وہ اور اس تبوک کے سفر میں شریک نہ ہوئے گھروں میں بیٹھ رہے اگر یہ لوگ آئندہ کہنے لگیں کہ اس مرتبہ ہم چلیں گے تو ان سے کہہ دو کہ تم نے تو پہلی مرتبہ گھروں میں بیٹھ رہنا پسند کیا اب تم کبھی ہمارے ساتھ جہاد میں نہیں جاسکتے ہو اور نہ کسی دشمن سے لڑائی کرسکتے ہو تم تو بس انہیں معذور لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو جہاد میں شریک ہونے سے مجبور ہیں بیمار ہیں یا کوئی اور عذر رکھتے ہیں مفسروں نے الیٰ طائفۃ کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ جب آپ ان میں سے جو مدینہ میں رہ گئے ہیں ایک گروہ سے ملو اور پھر وہ لوگ جہاد میں جانے کی راضی ہوں تو ان سے کہو کہ تمہارا چلنا اب ضروری نہیں ہے یہ اس لئے فرمایا کہ جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے وہ سب کے سب منافق نہیں تھے بلکہ ان لوگوں میں سے بعضے مومن بھی تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد سے واپس آ کر بعضوں کے عذر کو قبول بھی کیا اور بعضوں کو کچھ دنوں کی مہلت ملی اور پھر خدا نے ان کی توبہ قبول کی جس کا ذکر آگے آوے گا اس لئے فرمایا کہ وہ منافق تھوڑے سے لوگ ہیں اور ایک چھوٹا ساگروہ ہے انہیں سے بات کہو کر تم اب جہاد میں نہیں شریک ہوسکتے تفسیر ابن ابی حاتم میں قتادہ کا قول ہے کہ یہ منافق صرف بارہ شخص تھے جن کے حق میں آیت نازل ہوئی ہے صحیح بخاری میں انس (رض) بن مالک اور صحیح مسلم میں جابر بن (رض) عبداللہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تبوک کے سفر سے واپسی کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ بعضے لوگوں نے گھر بیٹھے وہی ثواب پایا جو اور لوگوں نے سفر کر کے پایا صحابہ نے پوچھا کہ حضرت یہ کیونکر آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ مجبوری کے سبب سے مدینہ میں رہ گئے ورنہ وہ ضرور اس سفر میں شریک ہوتے ان حدیثوں سے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ تبوک کے سفر میں شریک نہیں ہوئے وہ سب منافق نہیں تھے اور یہی حدیثیں الیٰ طائفۃ کا لفظ فرمانے کی گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

رجعک اللہ۔ اللہ تجھے واپس لیجائے۔ امام رازی کے قول کے مطابق الرجع مصیر الشی الی المکان الذی کان فیہ الرجع کسی شے کا اس جگہ کی طرف لوٹتا ہے جہاں وہ پہلے تھی۔ اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر خدا تمہیں واپس مدینہ لیجائے۔ رجع متعدی ہے اور رجوع لازم ہے گردان ہر دو کی باب ضرب سے آتی ہے۔ الی طائفۃ منھم۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع وہ مخلفون ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ طائفۃ۔ گروہ۔ جماعت۔ ان مخلفون کے دو گروہ بنا دئیے۔ ایک وہ جس کا ذکر فاستاذنوک سے شروع ہونے والا ہے اور دوسرا جس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مؤخر الذکر گروہ میں وہ شامل ہیں جنہوں نے معقول و جو ہات کی بنا پر جہاد میں شرکت نہ کی لیکن پھر بھی جہاد میں اپنی عدم شمولیت پر نادم ہوئے اور توبہ کی جو بارگاہِ الٰہی میں قبول کرلی گئی۔ فان رجعک اللہ الی طائفۃ منھم۔ ای فان درک اللہ الی المدینۃ وفیہا طائفۃ من المتخلفین (بیضاوی) اللہ تعالیٰ اگر تجھے مدینہ واپس لے آئے اور وہاں تو پیچھے رہنے والوں کے ایک گروہ سے ملے۔ فاستاذنوک۔ پھر وہ اجازت طلب کریں تجھ سے۔ للخروج۔ جہاد پر نکلنے کے لئے۔ خرج یخرج (نصر) نکلنا۔ لن تخرجوا معی ابدا۔ تم میرے ساتھ (جہاد کے لئے) ہرگز نہ نکلو گے۔ خالفین۔ جمع خالف کی۔ خالف کا ایک معنی تو ہے پیچھے رہ جانے والا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ خلف بمعنی فسد ہے جس طرح کہتے ہیں خلف اللبن دودھ خراب ہوگیا۔ یا اہل عرب کہتے ہیں کہ فلان خالفۃ اہل بیتہ۔ فلاں شخص اپنے سارے کنبے سے زیادہ فسادی ہے۔ تو آیۃ کا مطلب یہ ہوگا۔ فاقعدوا مع الفاسدین۔ یعنی فساد کرنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ لیکن اکثریت نے ” پیچھے رہ جانے والے “ ہی ترجمہ کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 جو جنگ تبوک کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ گھروں میں بیٹھے رہے تھے۔2 یعنی ان لوگوں کے ساتھ جو بےعذار گھروں میں رہ گئے یا معذور کے ساتھ جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، اپاہج، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : یہ جو فرمایا کہ اگر پھر لے جاوے اللہ کسی کو فرقہ کی طرف وہ اس واسطے کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی۔ یہ لوگ مدینہ میں منافق تھے اور فرقے اس واسطے فرمایا کہ بعض پیچھے مرگئے اور سب بیٹھنے والے منا فق نہ تھے۔ بعض مسلمان بھی تھے۔ کہ ان کی تقصیر معاف ہوئی۔ ( مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 83 رجعک (تجھے لوٹائے ) استاذنوک (وہ تجھ سے اجازت مانگیں) لن تخرجوا (تم ہرگز نہ نکلو گے) معی (میرے ساتھ) ابداً (ہمیشہ) رضیتم (تم راضی ہوگئے) افعدوا (تم بیٹھے رہو) الخلفین (پیچھے رہ جانے والے) تشریح : آیت نمبر 83 غزوہ تبوک جو بہت اہم غزوہ تھا اس میں جو منافین حیلے بہانے کر کے اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ ہماری جان چھوٹ گئی ان کے متعلق مسلسل آیات میں وعیدیں آرہی ہیں تاکہ قیامت تک اب کسی کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں کسی حیلے بہانے کی جرأت نہ ہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقین سے کہہ دیجیے کہ اب جہاد و قتال کا موقع آئے گا تو تمہیں اس جہاد میں نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی اور یہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر کسی دشمن سے نہ لڑ سکیں گے۔ منافقین کیلئے یہ سب سے بڑی وعید ہے کہ اب آئندہ کوئی منافق مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے جنگ نہ کرسکے گا۔ یہ منافقین کے لئے سب سے بڑی بدنصیبی اور محرومی کا اعلان ہے۔ اللہ نے اس کی وجہ بھی بتا دی ہے کہ جب منافقین سے پہلی مرتبہ یہ کہا گیا تھا کہ وہ اللہ کیلئے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اس کی راہ میں نکلیں جب انہوں نے اس کی نافرمانی کی تو اب اللہ نے ان کو اس نعمت جہاد سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیا۔ جو ایک بہت بڑی محرومی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کا ذکر جاری ہے۔ منافقین کو چھوڑجانے کی وجہ یہ بھی تھی کیونکہ وہ خود جھوٹے بہانوں کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مبارکہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب اور بامراد مدینہ واپس لائے گا اور دوسری طرف یہ ہدایت کی گئی جب آپ مدینہ تشریف لائیں تو منافقین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں آکر یہ کہے گا آئندہ ہمیں بھی ضرور اپنے ساتھ جہاد کے لیے لے جائیے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تبوک کے محاذ سے حقیقی مجبوری کی وجہ سے ہم پیچھے رہے ہیں ورنہ ہم جہاد سے جی کترانے والے نہیں تھے۔ اس موقعہ پر آپ انھیں یہ جواب دیں کہ تم ایسے لوگ ہو کہ ہرگز ہمارے ساتھ نہیں نکل سکتے اور نہ ہی دشمن کے خلاف تم برسرپیکار ہونے کے لیے تیار ہو۔ زبانی جمع خرچ کے سوا تم کسی کام کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ابتدا ہی سے میدان کارزار سے پیچھے رہنا بچوں، عورتوں اور معذور لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہنا تمہاری خواہش اور عادت ہے۔ خالفین کا لفظ بول کر منافقین کو ایک طرح عار دلائی گئی ہے کہ تم صحت مند، مال دار اور ایمان کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود معذوروں اور عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو جو ایک غیور اور مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ اس فرمان کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اب کبھی تمہیں شریک جہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اب کوئی بڑا معرکہ درپیش نہیں ہوگا کیونکہ تبوک کی طرف آپ کی پیش قدمی نے دنیا پر رعب اور دبدبہ طاری کردیا تھا۔ اسی بناء پر آپ کا ارشاد ہے : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَّمَسْجِدًا وَّأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِی سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا)[ مسند احمد ] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ منافق جہاد سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ٢۔ منافق کو بار بار موقع دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسترد کردینا چاہیے۔ ٣۔ منافق کبھی میدان کارزار کے لیے نکلنا پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ منافق عورتوں اور معذوروں کی طرح جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنا پسند کرتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

دعوت اسلامی اور اسلامی تحریکات کو نہایت ہی مضبوط ، نہایت ہی سلیم الفطرت اور نہایت ہی راست باز لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جن کے ارادے مصمم ہوں ، جو مشکلات کو انگیز کرنے والے ہوں ، دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے والے ہوں اور ایک طویل اور پر مشقت جدوجہد کے لیے تیار ہوں۔ لیکن جب اسلامی تحریکات کی صفوں میں عیش پسند ، راحت طلب ، اور کمزور یقین کے لوگ گھس آئیں تو وہ مشکل وقت میں اس کی شکست کا باعث بنتے ہیں۔ مشکل وقت وہ اضطراب اور انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ لہذا اس قسم کے لوگ جن سے تحریک کے دوران ضعف و کمزوری کا صدور ہوجائے ان کو تحریک سے دور پھینکنا چاہیے تاکہ مشکل اوقات میں وہ کمزوری اور انتشار کا باعث بنیں اور یہ نہ ہو کہ جب خوشحالی کا دور دور ہو اور فتھ و کامرانی کا دور ہو اور تو یہ لوگ لوٹ کر مزے لوٹتے رہیں۔ صاف صاف کہہ دو اب تم میں ساتھ ہر گز نہیں چل سکتے نہ تم میری معیت میں کسی دشمن کے ساتھ لڑ سکتے ہو۔ تم نے خود پہلے بیٹھے رہنے کو پسند کیا۔ انکم رضیتم بالقعود اول مرۃ۔ تم نے جنگ تبوک کے لیے نکلنے کا شرف کھو دیا ہے۔ لشکر تبوک میں شمولیت کے اعزاز سے تم محروم ہوچکے ہو ، کیونکہ یہ شرف وہی حاصل کرسکتا تھا جو اس کے لیے اہل تھا۔ لہذا اس معاملے میں تمہارے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جاسکتی۔ اور نہ تم حسن سلوک اور معافی کے مستحق رہے ہو۔ لہذا اب تم انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو تمہارے ہم جنس اور ہم محفل اور ہم مشرب تھے۔ فاقعدوا مع الخالفین لہذا پیچھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ یہ تھی وہ راہ جو اللہ نے اپنے نبی کے لیے تجویز کی تھی اور آج بھی نبی کے نقش قدم پر جو دعوت و تحریک برپا ہوگئی ہے۔ اس کی بھی یہی راہ و روش ہوگی۔ لہذا تحریک اسلام کے داعیوں اور کارکنوں دونوں کو یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہر دور میں اور ہر جگہ۔ جس طرح حضور کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ ان لوگوں کو دوبارہ اسلامی صفوں میں شامل نہ کیا جائے ، کیونکہ انہوں نے مشکل حالات میں ساتھ چھوڑا ، اسی طرح یہ حکم بھی دیا گیا۔ آئندہ کے لیے ان کو اسلامی معاشرے میں کوئی اعزازو امتیاز نہ دیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآءِفَۃٍ مِّنْھُمْ ) (الآیۃ) یعنی اگر اللہ آپ کو غزوۂ تبوک کے سفر سے ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائیں جو آپ کے واپس پہنچنے تک مدینہ میں موجود ہوں اور پھر آپ کو کسی دوسرے موقعہ پر جہاد کے لیے جانا ہو اور یہ لوگ ہمراہ چلنے کی اجازت مانگیں تو آپ ان سے فرما دیں کہ تم کبھی بھی میرے ساتھ جہاد میں نہ چلو گے اور نہ میرے ہمراہ کسی دشمن سے لڑو گے۔ یعنی میں تمہیں ہرگز ساتھ نہ لے جاؤں گا۔ چونکہ تم نے پہلے بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا لہٰذا اب بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو پیچھے رہ جانے کے لائق ہیں (یعنی بوڑھے بچے اور عورتیں) تم انہیں میں رہو۔ وہ معذوری کی وجہ سے نہیں جاتے تو بغیر معذوری ہی کے ان کے ساتھ رہ جاؤ میں تمہیں ساتھ نہیں لیتا قال صاحب الروح ھو اخبار بمعنی النھی للمبالغۃ۔ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یہ خبر دینا ہے نہی کے معنی میں مبالغہ کی وجہ سے) بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم جو ساتھ چلنے کی اجازت لے رہے ہو یہ اجازت لینا جھوٹا ہے اور دنیا سازی کے طور پر ہے۔ جب جانے کا وقت ہوگا تو ہمراہ نہ چلو گے بلکہ بیٹھے ہی رہ جاؤ گے جیسا کہ تم پہلے بھی رہ گئے تھے۔ لہٰذا تم پیچھے رہ جانے والوں ہی میں اب بھی اپنے کو شمار کرلو جھوٹی اجازت لے کر اہل ایمان کو کیوں دھوکہ دے رہے ہو۔ فھو خبر بعمنی الخبر و ھو المتبادر من لفظ التنزیل العزیز۔ (پس وہ خبر ہے اور خبر ہی کے معنی میں ہے اور قرآن کریم کے الفاظ سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:“ فَاِنْ رَّجَعَکَ الخ ” اس میں بھی ان منافقین کا ذکر ہے جو غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ منافقین کی شرارتوں اور ان کی عداوت اور دشمنی کو واشگاف کرنے کے بعدحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ یہ لوگ اس لائق ہی نہیں ہیں کہ آپ کی صحبت میں رہیں لہذا جب آپ بخیر و عافیت مدینہ واپس پہنچ جائیں اور اس کے بعد کوئی جنگ درپیش ہو اور یہ منافقین اس میں شریک ہونے کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو آپ ان کو غزوہ میں شریک ہونے کی ہرگز اجازت نہ دیں اور صاف فرمادیں کہ اب کبھی بھی تم ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوسکتے۔ بس اب گھروں ہی میں بیٹھے رہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 بس اب اگر آپ کو اللہ تعالیٰ صحیح سالم ان کے کسی گروہ کی طرف جہاد سے واپس لائے پھر یہ لوگ اپنے پر سے الزام ہٹانے کو آپ سے کبھی جہاد میں نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ ن سے اس وقت یہ فرمادیں کہ تم میرے ساتھ کبھی بھی نہ چلوگے اور نہ تم میرے ہمراہ ہوکر کبھی کسی دشمن سے لڑوگے کیونکہ تم نے پہلی مرتبہ بھی گھر میں بیٹھ رہنے کو پسند کیا لہٰذا اب بھی تم انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو جو حقیقت میں پیچھے رہ جانے کے قابل ہیں۔ یعنی تم دنیا سازی اور گلہ مٹانے کو یہ باتیں کہہ رہے ہو ورنہ تمہارا عزم اور ارادہ جہاد کا نہیں ہے اور نہ جہاد کے لئے نکلنا چاہتے ہو لہٰذا تم بھی عورتوں، بڈھوں، بیماروں وغیرہ کے ساتھ گھروں ہی میں بیٹھے رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ اگر پھر لے جاوے اللہ کسی فرقے کی طرف اس واسطے کہ آیت نازل ہوئی سفر میں وہ منافق تھے مدینہ میں اور فرقے فرمایا اس واسطے کہ بعضے منافق پیچھے رہ گئے اور سب بیٹھنے والے منافق نہ تھے بعضے مسلمان بھی تھے کہ ان کی تقصیرمعاف ہوئی۔