Commentary Once again, the present verses carry the description of hypocrites who had avoided participating in the battle of Tabuk under one or the other pretext. Among such hypocrites, there were some rich people as well. Their affluent life could have made Muslims ask, ` when these people are so unacceptable with Allah, why did they have to get all those blessings in this world?& In response, it was said that a little thinking would unfold the real¬ity behind what they possess in the form of wealth and children. These are no mercy and blessing for them. Instead, these are their trial and punishment in this world - not to say much about the additional pun¬ishment due in the Hereafter. It is not difficult to understand the rea¬son. They love wealth, guard it and keep worrying as to how they can go on increasing it. They are never at peace. They collect things of comfort around them but genuine peace and comfort never knock at their doors, for they are things of the heart. And since this engross¬ment in the pursuit of wealth makes them heedless towards the con¬cerns of the Hereafter, they indulge in acts of disobedience to their Creator that in turn becomes the cause of their punishment. So, whether a cause or its effect, it remains a punishment. This is the rea¬son why the Qur&an has used the words: لِيُعَذِّبَهُم بِهَا (to punish them with these) in the sense that Allah Ta` ala wants to punish them by and through these very possessions.
خلاصہ تفسیر اور ان کے اموال اور اولاد آپ کو ( اس) تعجب میں نہ ڈالیں ( کہ ایسے مبغوضین پر یہ نعمتیں کیسے ہوئیں، سو یہ واقع میں ان کے لئے نعمتیں نہیں بلکہ آلات عذاب ہیں کیونکہ) اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان ( مذکورہ) چیزوں کی وجہ سے دنیا میں ( بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کا دم حالت کفر ہی میں نکل جائے ( جس سے آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کا اس مضمون میں نازل کیا جاتا ہے کہ تم ( خلوص دل سے) اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں کے مقدور والے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور ( رخصت کا یہ مضمون ہوتا ہے کہ) کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں ( البتہ ایمان و اخلاص کے دعوے میں کچھ کرنا نہیں پڑتا اس کو کہہ دیا کہ ہم تو مخلص ہیں) وہ لوگ ( غایت بےحمیتی سے) خانہ نشین عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور انکے دلوں پر مہر لگ گئی جس سے وہ ( حمیت و بےحمیتی کو) سمجہتے ہی نہیں ہاں لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ہمراہی میں جو مسلمان ہیں انہوں نے ( البتہ اس حکم کو مانا اور) اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور انہی کے لئے ساری خوبیاں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں، ( اور وہ خوبی اور کامیابی یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ( اور) وہ ان میں ہمیشہ کو رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے حیلے بہانے کرکے رک گئے تھے، ان منافقین میں بعض مال دار خوش حال لوگ بھی تھے، ان کے حال سے مسلمانوں کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ جب یہ لوگ اللہ کے نزدیک مردود و نامقبول ہیں تو ان کو دنیا میں ایسی نعمتیں کیوں ملیں۔ اس کے جواب میں پہلی آیت میں فرمایا کہ اگر غور کرو گے تو ان کے اموال و اولاد ان کے لئے رحمت و نعمت نہیں بلکہ دنیا میں بھی عذاب ہی ہیں، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، دنیا میں عذاب ہونا اس طرح ہے کہ مال کی محبت، اس کی حفاظت کی اور پھر اس کے بڑھانے کی فکریں ان کو ایسی لگی رہتی ہیں کہ کسی وقت کسی حال چین نہیں لینے دیتیں، ساز و سامان راحت کا ان کے پاس کتنا ہی ہو مگر راحت نہیں ہوتی، جو قلب کے سکون و اطمینان کا نام ہے، اس کے علاوہ یہ دنیا کا مال و متاع چونکہ ان کو آخرت سے غافل کرکے کفر و معاصی میں انہماک کا سبب بھی بن رہا ہے اس لئے سبب عذاب ہونے کی وجہ سے بھی اس کو عذاب کہا سکتا ہے، اسی لئے الفاظ قرآن میں لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان اموال ہی کے ذریعہ ان کو سزا دینا چاہتا ہے۔