Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 85

سورة التوبة

وَ لَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۸۵﴾

And let not their wealth and their children impress you. Allah only intends to punish them through them in this world and that their souls should depart [at death] while they are disbelievers.

آپ کو ان کے مال و اولاد کچھ بھی بھلے نہ لگیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ انہیں ان چیزوں سے دنیاوی سزا دے اور یہ اپنی جانیں نکلنے تک کافر ہی رہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَلاَ تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلاَدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ And let not their wealth or their children amaze you. Allah only wants to punish them with these things in this world, and that their souls shall depart (die) while they are disbelievers. We mentioned before the explanation of a similar Ayah (see Ayah 55), all the thanks and praises are due to Allah.

اسی مضمون کی آیت کریمہ گذر چکی ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ لکھ دی گئی ہے جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] اس آیت کا پورا مضمون اسی سورة کی آیت نمبر ٥٥ میں گزر چکا ہے لہذا اس کی تشریح کے لیے آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ نمبر ٥٩ دیکھ لیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَاَوْلَادُهُمْ : اس سے پہلے آیت (٥٥) میں بھی چند الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ آیت گزری ہے، یہاں دوبارہ لانے کا مقصد یہ ہے کہ نفاق انھی چیزوں کی محبت اور حرص سے پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ سورة منافقون میں ان کے اعمال بد کے تذکرے کے بعد آخر میں یہی تلقین فرمائی : (لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ) [ المنافقون : ٩ ] ” دیکھنا کہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ “ یہاں بھی گزشتہ آیت کو دوبارہ لانے سے مقصود دنیا کی فراوانی پر رشک سے بچنے کی تاکید اور منافقین کے لیے اموال واولاد کی فراوانی کے ان کے لیے نقصان دہ ہونے کا بیان ہے۔ مزید اسی سورت کی آیت (٥٥) کے حواشی دیکھیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Once again, the present verses carry the description of hypocrites who had avoided participating in the battle of Tabuk under one or the other pretext. Among such hypocrites, there were some rich people as well. Their affluent life could have made Muslims ask, ` when these people are so unacceptable with Allah, why did they have to get all those blessings in this world?& In response, it was said that a little thinking would unfold the real¬ity behind what they possess in the form of wealth and children. These are no mercy and blessing for them. Instead, these are their trial and punishment in this world - not to say much about the additional pun¬ishment due in the Hereafter. It is not difficult to understand the rea¬son. They love wealth, guard it and keep worrying as to how they can go on increasing it. They are never at peace. They collect things of comfort around them but genuine peace and comfort never knock at their doors, for they are things of the heart. And since this engross¬ment in the pursuit of wealth makes them heedless towards the con¬cerns of the Hereafter, they indulge in acts of disobedience to their Creator that in turn becomes the cause of their punishment. So, whether a cause or its effect, it remains a punishment. This is the rea¬son why the Qur&an has used the words: لِيُعَذِّبَهُم بِهَا (to punish them with these) in the sense that Allah Ta` ala wants to punish them by and through these very possessions.

خلاصہ تفسیر اور ان کے اموال اور اولاد آپ کو ( اس) تعجب میں نہ ڈالیں ( کہ ایسے مبغوضین پر یہ نعمتیں کیسے ہوئیں، سو یہ واقع میں ان کے لئے نعمتیں نہیں بلکہ آلات عذاب ہیں کیونکہ) اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان ( مذکورہ) چیزوں کی وجہ سے دنیا میں ( بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کا دم حالت کفر ہی میں نکل جائے ( جس سے آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کا اس مضمون میں نازل کیا جاتا ہے کہ تم ( خلوص دل سے) اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں کے مقدور والے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور ( رخصت کا یہ مضمون ہوتا ہے کہ) کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں ( البتہ ایمان و اخلاص کے دعوے میں کچھ کرنا نہیں پڑتا اس کو کہہ دیا کہ ہم تو مخلص ہیں) وہ لوگ ( غایت بےحمیتی سے) خانہ نشین عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور انکے دلوں پر مہر لگ گئی جس سے وہ ( حمیت و بےحمیتی کو) سمجہتے ہی نہیں ہاں لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ہمراہی میں جو مسلمان ہیں انہوں نے ( البتہ اس حکم کو مانا اور) اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور انہی کے لئے ساری خوبیاں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں، ( اور وہ خوبی اور کامیابی یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ( اور) وہ ان میں ہمیشہ کو رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے حیلے بہانے کرکے رک گئے تھے، ان منافقین میں بعض مال دار خوش حال لوگ بھی تھے، ان کے حال سے مسلمانوں کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ جب یہ لوگ اللہ کے نزدیک مردود و نامقبول ہیں تو ان کو دنیا میں ایسی نعمتیں کیوں ملیں۔ اس کے جواب میں پہلی آیت میں فرمایا کہ اگر غور کرو گے تو ان کے اموال و اولاد ان کے لئے رحمت و نعمت نہیں بلکہ دنیا میں بھی عذاب ہی ہیں، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، دنیا میں عذاب ہونا اس طرح ہے کہ مال کی محبت، اس کی حفاظت کی اور پھر اس کے بڑھانے کی فکریں ان کو ایسی لگی رہتی ہیں کہ کسی وقت کسی حال چین نہیں لینے دیتیں، ساز و سامان راحت کا ان کے پاس کتنا ہی ہو مگر راحت نہیں ہوتی، جو قلب کے سکون و اطمینان کا نام ہے، اس کے علاوہ یہ دنیا کا مال و متاع چونکہ ان کو آخرت سے غافل کرکے کفر و معاصی میں انہماک کا سبب بھی بن رہا ہے اس لئے سبب عذاب ہونے کی وجہ سے بھی اس کو عذاب کہا سکتا ہے، اسی لئے الفاظ قرآن میں لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان اموال ہی کے ذریعہ ان کو سزا دینا چاہتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلَادُہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ۝ ٨٥ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ زهق زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] . ( ز ھ ق ) زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اور آپ کو ان کے اموال کی کثرت اور ان کی اولاد کی زیادتی کسی قسم کے تعجب میں نہ ڈالے کیوں کہ ان چیزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انکو دنیا میں بھی گرفتار عذاب رکھنا اور آخرت میں عذاب دینا چاہتا ہے اور یہ کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہی ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (وَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلاَدُہُمْ ط) یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مال اور اولاد کو وقعت مت دیجیے۔ یہ آیت اسی سورت میں ٥٥ نمبر پر معمولی فرق کے ساتھ پہلے بھی آچکی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

70: دیکھئے آیت نمبر 55 کا حاشیہ

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٥۔ اس آیت کی تفسیر بعینہ اس سے پہلے گزر چکی ہے یہ دوبارہ تاکید کے ساتھ اللہ پاک نے حکم دیا کہ کفار کے مال واولاد کو دیکھ کر تعجب نہ کرو خدا ان لوگوں کو انہیں چیزوں کے ساتھ عذاب کرے گا ان کے مال انہیں کے واسطے وبال جان ہوجائیں گے ان کی اولاد انہیں کے لئے موجب ہلاکت ہوگی اور یہ لوگ مرتے دم تک کافر کے کافر ہی رہیں گے کبھی ایمان نہیں لائیں گے بعضے مفسروں نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیت میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ دونوں آیتیں دو قوم کے حق میں نازل ہوئیں بال کی زیادتی نے ثعلبہ بن حاطب کی دینداری میں جو کچھ فتور ڈالا اس کا ذکر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت سے اوپر گزر چکا ہے۔ اسی طرح ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے وقت کچھ صحابہ اپنے بی بی بچوں کے رونے پیٹنے کے سبب سے بہت روز تک ہجرت نہ کرسکے اور بہت سے دینی باتوں سے محردم رہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مال و اولاد جب پکے مسلمانوں کے دین میں فتور ڈالنے والی چیزیں ہیں تو کچے مسلمان منافقوں کے حق میں مال واولاد بلاشک ایک عذاب ہے اولاد کا مرجانا مال میں کسی طرح کا نقصان اٹھانا مال کی حفاظت اولاد کی پرورش بےدینی کے سبب سے یہ سب باتیں ان کے لئے ایسی عذاب ہیں جن سے مرتے دم تک ان کو فرصت نہیں آخر اسی حالت میں یہ لوگ ایک دن مرجاتے ہیں اور مال اور اولاد کے چھوڑ جانے کا غم اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اسی واسطے فرمایا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال واولاد کی زیادتی کیا دی ہے کہ گویا ان کو ایک عذاب میں پھنسا دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:85) یعذبھم بھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب اموال واولاد کے لئے ہے۔ تزھق وہ نکلے یا نکالے گئے۔ (باب فتح) زھوق سے جس کے معنی غم سے جان نکلنے اور کسی شے کے مٹ جانے کے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو 9:55 ۔ تذھق انفسہم۔ ان کے دم نکلیں۔ ان کی جانیں نکلیں۔ وہم کفرون۔ میں واؤ حالیہ ہے درآنحالیکہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نگا ہوں میں ناپسند یدہ ہوتے تو وہ انہیں اتنا خوش حال کیوں بناتا۔5 یعنی دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی فکر میں لگے رہیں اور آخری دم تک انہیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ بلکہ یہ مریں تو اپنے مال اور اپنی اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو نہ آخرت کی فکر اور نہ خدا سے کوئی غرض اگرچہ ایک مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس کے نزدیک ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں جان کا وبال نہیں ہوتیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 85 تا 89 تزھق (نکلے، نکالے) اولو الطول (طاقت والے) ذرنا (ہمیں چھوڑ دے) طبع (مہر لگا دی گئی) لایفقھون (وہ نہیں سمجھتے ہیں) المفلحون (کامیابی حاصل کرنے والے) اعد ت (تیار کر رکھا ہے) تشریح : آیت نمبر 85 تا 89 اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں ہی فرما دیا تھا کہ ان کے اموال اور اولادیں مومنوں کے لئے تو رحمت ہی رحمت ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن کفار اور منافقین کے لئے بڑی آفت ہیں چونکہ وہ ساری زندگی اسی میں پھنسے رہتے ہیں۔ جہاد تو بڑی بات ہے انہیں اسلام کی معمولی عملی خدمت کی توفیق بھی نہیں ہوتی وہ مرتے دم تک دین اسلام اور اس کے عملی پہلوؤں سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ ان کفار و منافقین کو آخرت میں جو سزا ہوگی اس کا تو اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں ہے لیکن دنیا میں ان کے لئے سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ ان کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوگی۔ غرضیکہ ان کے مال اور ان کی اولادیں دنیا اور دین دونوں میں وبال ہیں۔ اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان میں سے طاقت و قوت رکھنے والے ہٹے کٹے نوجوانوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کریں تو ان کی زبانوں پر یہی ہوتا ہے کہ ہمیں اجازت دیجیے تاکہ ہم بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہیں جو یہاں ٹھہر گئے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جو پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہنے پر راضی اور خوش ہیں یہ کسی سمجھ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اس طرح بدنصیبی کی مہریں لگا دیں کہ کوئی اچھی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن اس کے برخلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ جاں نثار جو آپ پر ایمان لے آئے ہیں ان کے نزدیک ان کے مال اور جانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ اپنے مالوں اور جانوں سے وہ جہاد کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مقدر کردی گئی ہیں ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی گئی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو دنیا کی عارضی زندگی ، وقتی آرام اور چند مفادات کے لئے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور جہاد سے جان چرا رہے ہیں ان کے لئے ابدی جہنم ہے جب کہ ان اہل ایمان کے لئے جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کی تعمیل کر رہے ہیں اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو اللہ و رسول کی رضا پر خرچ کر رو ہے ہیں ان کے لئے دین و دنیا کی تمام بھلائیاں لکھ دی گئی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج دنیا میں نہ تو وہ اہل ایمان موجود ہیں جنہوں نے اللہ و رسول کی اطاعت کی تھی اور نہ وہ کفار، مشرکین اور منافقین جنہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی تھی لیکن ان کی تاریخ اور زندگی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ان پر آج بھی فخر کیا جاتا ہے جنہوں نے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماں برداری کی۔ لیکن نافرمانوں کی طرف تو ان کی اولاد بھی نسبت کرنے میں فخر محسوس نہیں کرتی۔ یہ تو اس دنیا کا معاملہ ہے آخرت میں بھی ایسے لوگوں کا کوئی مقام نہ ہوگا اور ابدی جہنم ان کا مقدر بنا دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کی بربادی کا سامان کرلیا ہے۔ اس کے برخلاف اہل ایمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے مالوں اور جان کی پرواہ نہیں کی ان کی عزت اس دنیا میں بھی ہے، ہر دل میں ان کی عظمتیں موجود ہیں اور ان کی نسبت پر بھی فخر کیا جاتا ہے۔ ان کا آخرت میں کیا اعلیٰ مقام ہوگا شاید اس دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر غزوہ تبوک کے متعلق منافقین کے تخلف واستیذان باعذار باطلہ کا بیان تھا آگے ان کی اس عادت کا مستمر ہونا کہ ہر غزوہ میں ان کی یہی حالت ہے اور ان کے مقابلہ میں اہل ایمان کی جانبازی اور اس کی فضیلت بیان فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق کے انجام میں اس کے مال اور اولاد کا کردار۔ منافقین کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کا حکم اس سورة میں دوسری مرتبہ نازل ہوا ہے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ یہ حکم آیت ٥٥ میں گزر چکا ہے اب پھر قریب، قریب انھی الفاظ کے ساتھ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ! منافقین کے مال و اسباب اور ان کی اولاد پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی مسلسل نافرمانیوں اور دائمی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انھیں ان کے مال اور اولاد کے ساتھ دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جانیں نکل جائیں۔ یہ بات پہلے عرض ہوئی ہے کہ منافقین کے اکثر لوگ مال اور اولاد کے حوالے سے بہت سے مسلمانوں سے آگے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے مال سے آخرت کمانے کی بجائے جہنم خریدنا بہتر جانا۔ جہاں تک ان کی اولاد کا تعلق ہے چند کے سوا باقی اپنے بڑوں کی روش اختیار کیے ہوئے تھی۔ جن منافقوں کے بیٹے مخلص مسلمان تھے۔ ان کے باپ اپنے بیٹوں کے اخلاص پر نہایت پریشان رہتے اور انھیں اللہ کے رسول کی رفاقت اور جہاد فی سبیل اللہ سے روکتے۔ اس صورت حال کو وہ اپنے لیے ذلت سمجھتے تھے۔ گویا کہ دنیا اور آخرت میں ان کے مال اور اولاد عذاب کا باعث ثابت ہوئے۔ مسائل ١۔ محض دنیاوی مال ومتاع پر اکتفا کرنے کے بجائے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ ٢۔ منافقین کے لیے دنیاوی مال عذاب کا سبب ہے۔ ٣۔ کافرو منافق مال واولاد کے فتنے میں مبتلا رہتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تحریک اقامت دین کے لیے یہ ہمہ گیر ہدایت ہے کہ کسی کے مال و دولت کی وجہ سے اسے اعزاز نہ دیا جائے۔ نہ دل اور شعور میں ایسے لوگوں سے کوئی تاثر لیا جائے۔ یہ مال خود ان کے لیے وبال جان ہوں گے۔ کیونکہ اگر کوئی ان کے ظاہری مال سے متاثر ہوگا تو یہ بھی ان کے لیے اکرام ہوگا۔ دل کے اندر بھی ایسے لوگوں کی تکریم کا شعور نہ آنے پائے۔ ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ لَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَ اَوْلَا دُھُمْ ) (الآیۃ) یہ آیت تھوڑے سے لفظی اختلافات کے ساتھ چند صفحات پہلے گزر چکی ہے۔ وہاں اس کی تفسیر دیکھ لی جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:“ وَ لَا تُعْجِبُکَ الخ ” اس کی تفسیر پہلے گذر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ 54 ص 441 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 اور ان کے اموال اور اولاد آپ کے لئے موجبِ تعجب نہ ہوں اور یہ چیزیں آپ کو تعجب میں ڈالیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقصد ہی یہ ہے اور اللہ کو یہی منظور ہے کہ وہ ان چیزوں کے ذریعہ ان کافروں کو دنیا میں بھی مبتلائے عذاب رکھے اور ان کی جان کفر ہی کی حالت میں نکلے۔ اس آیت کا مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔