Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 86

سورة التوبة

وَ اِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ جَاہِدُوۡا مَعَ رَسُوۡلِہِ اسۡتَاۡذَنَکَ اُولُوا الطَّوۡلِ مِنۡہُمۡ وَ قَالُوۡا ذَرۡنَا نَکُنۡ مَّعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ﴿۸۶﴾

And when a surah was revealed [enjoining them] to believe in Allah and to fight with His Messenger, those of wealth among them asked your permission [to stay back] and said, "Leave us to be with them who sit [at home]."

جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتا ہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Admonishing Those Who did not join the Jihad Allah says; وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ امِنُواْ بِاللّهِ وَجَاهِدُواْ مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُوْلُواْ الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُواْ ... And when a Surah is revealed, enjoining them to believe in Allah and to strive hard and fight along with His Messenger, the wealthy among them ask your leave to exempt them and say, Allah chastises and admonishes those who stayed away from Jihad and refrained from performing it, even though they had the supplies, means and ability to join it. They asked the Messenger for permission to stay behind, saying, ... ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ "Leave us (behind), we would be with those who sit (at home)." thus accepting for themselves the shame of lagging behind with women, after the army had left. If war starts, such people are the most cowardice, but when it is safe, they are the most boastful among men. Allah described them in another Ayah, فَإِذَا جَأءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِى يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ Then when fear comes, you will see them looking to you, their eyes revolving like (those of) one over whom hovers death; but when the fear departs, they will smite you with sharp tongues. (33:19) their tongues direct their harsh words against you, when it is safe to do so. In battle, however, they are the most cowardice among men. Allah said in other Ayah, وَيَقُولُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلاَ نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِىِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الاٌّمْرُ فَلَوْ صَدَقُواْ اللَّهَ لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ Those who believe say: "Why is not a Surah sent down (for us)! But when a decisive Surah (explaining and ordering things) is sent down, and fighting is mentioned therein, you will see those in whose hearts is a disease looking at you with a look of one fainting to death. But it was better for them. Obedience (to Allah) and good words (were better for them). And when the matter is resolved on, then if they had been true to Allah, it would have been better for them. (47:20-21) Allah said next,

ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت طاقت قوت ہونے کے باوجود جہاد کے لئے نہیں نکلتے جی چراجاتے ہیں اور حکم ربانی سن کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ ان کی بےحمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہوگئے ہیں لشکر چلے گئے ، یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے ۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے ، بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ۔ یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں ۔ چنانچہ اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جہاں وہ موقع گذر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے ، باتیں بنانے ۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں ، بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے تیئں چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ایمان دار تو سورت اترنے اور اللہ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے منافق جہاں سورت اتری اور جہاد کا حکم سنا آنکھیں بند کرلیں دیدے پھیر لئے ان پر افسوس ہے اور ان کے لئے تباہی خیز مصیبت ہے ۔ اگر یہ اطاعت گذار ہوتے تو ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خالِفَۃ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ : ” سُوْرَةٌ“ آیات کا ایک حصہ، ٹکڑا۔ ” الطَّوْلِ “ کا معنی ” اَلْفَضْلُ وَالْقُدْرَۃُ وَالْغِنَی وَالسَّعَۃُ “ ہے۔ (قاموس) یعنی وسعت و طاقت اور مال و دولت۔ ” الْخَوَالِفِ “ یہ ” خَالِفَۃٌ“ کی جمع ہے ” پیچھے رہنے والی عورتیں۔ “ ” فَاعِلَۃٌ“ کی جمع ” فَوَاعِلُ “ آتی ہے، جیسے ” قَاطِعَۃٌ“ کی جمع ” قَوَاطِعُ “ اور ” ضَارِبَۃٌ“ کی جمع ” ضَوَارِبُ “ اور ” قَافِلَۃٌ“ کی جمع ” قَوَافِلُ “ یعنی جہاد کے حکم والی آیات کا کوئی حصہ اترنے پر وہ لوگ عذر کریں جن کے پاس کچھ نہیں اور جو ضروریات جہاد حاصل نہ ہوسکنے کی وجہ سے ساتھ نہیں جاسکتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر ان منافقین میں سے وسعت و طاقت والے بھی جہاد میں نہ جانے اور پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب بیان فرمائے کہ بزدلی کی وجہ سے ان میں ایسی کمینگی پیدا ہوچکی ہے کہ انھیں عورتوں کے ساتھ پیچھے رہ جانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس پر خوش ہیں اور ان کے اعمال بد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ جہاد کی برکات کو اور بزدلی اور ترک جہاد کی نحوست اور نقصانات کو نہیں سمجھتے۔ نہ ان پر اللہ اور اس کے رسول کی بات کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The expression: اُولُوا الطَّولِ (ulu &at-caul: translated as ` the capable ones& ) (86) is not for particularization. Instead, it serves a purpose. It tells that there were others too, the ones not so capable. And the inca¬pable ones had, at least, some obvious excuse to stay behind.

اُولُوا الطَّوْلِ کا لفظ تخصیص کے لئے نہیں بلکہ اس سے غیر اولی الطول یعنی غیر مستطیع لوگوں کا حال بدرجہ اولی معلوم ہوگیا کہ ان کے پاس تو ایک ظاہری عذر بھی تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللہِ وَجَاہِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْـتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْہُمْ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِيْنَ۝ ٨٦ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کریم کا اس مضمون کے بارے میں نازل کیا جاتا ہے اور اس میں حکم دیا جاتا ہے کہ خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ جہاد کرو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس، اور معتب بن قشیر میں سے مقدوروالے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اجازت دیجیے ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٦۔ ٨٧۔ اللہ پاک نے ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان فرمائی جنہیں جہاد میں شریک ہونے کی ہر طرح کی قدرت حاصل ہے قرآن کی اکثر سورتوں میں یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ خالص دل سے احکام الٰہی پر ایمان لاؤ اور جہاد میں شریک ہو کر لڑو مگر وہ اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں کہ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ رہیں انہیں اس بات کی مطلق پر وا نہیں کہ گھروں میں بیٹھنا عورتوں کا کام ہے اور مردوں کا شیوہ دشمن کے مقابلہ میں جوانمردی کے ہنر کے دکھلانے کا ہے سورة احزاب میں انہیں لوگوں کے حق میں یوں فرمایا ہے کہ جب لڑائی کا موقع آتا ہے تو سب سے پہلے یہ لوگ نامرد بن جاتے ہیں اور جب لڑائی کا خوف جاتا رہتا ہے تو ان کی زبان خوب چلنے لگتی ہے اور سب سے زیادہ باتیں بنانے لگتے ہیں پھر فرمایا کہ ایسی ہی باتوں سے ان کے دلوں پر زنگ کی مہر لگادی گئی ہے اس لئے یہ دین کے کاموں سے جی چراتے ہیں ان کو اپنے نفع و نقصان کا کچھ خیال نہیں ہے بالکل ناسمجھ ہیں گویا عقل ہی نہیں رکھتے ہیں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عمر (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایتیں ہیں جن میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند باتوں کے سوال کئے ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں کے جواب دئے ہیں ان روایتوں کے موافق قیامت کے دن کی جزا وسزا پر خالص دل سے ایمان لانا ایمان داری کی نشانی ہے مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے ابوامامہ (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت نے ایماندار شخص کی یہ نشانی بتلائی ہے کہ نیک کام سے اس کا دل خوش ہوتا ہے اور برے کام سے اس کو ایک طرح کا رنج ہوتا ہے ترمذی نسائی مستدرک حاکم وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر توبہ کے برے کاموں میں لگے رہنے سے آدمی کے دل پر زنگ لگ کر اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے ترمذی اور بیہقی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن نیک عمل کرنے والے تو اس بات پر پچھتاویں گے کہ انہوں نے نیک عمل اور زیادہ کیوں نہیں لئے اور برے عمل کرنے والے اس بات پر پچھتاویں گے کہ وہ برے عملوں سے باز کیوں نہیں آئے اس حدیث کی سند میں ایک راوی یحییٰ بن عبداللہ بن موہب ہے جس کو بعضے علماء نے ضیعف قرار دیا ہے لیکن ابوالحسن یحییٰ بن عبداللہ کو ثقہ کہا ہے یہ یحییٰ بن القطان مصر کے مشہور علماء میں ہیں اور راویوں کے ثقہ و ضعیف قرار دینے میں ان کے قول کا بڑا اعتبار ہے ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں داخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کی اکثر آیتوں میں ان لوگوں کو عقبی کی جزا اور سزا پر خالص دل سے ایمان اور یقین لانے کا حکم دیا گیا لیکن یہ اب تک اپنے اس منافق پنے سے باز نہیں آئے کہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ اس لئے بغیر سزا وجزا کے یقین لانے کے نہ ان کے دل میں نیک کام کا شوق ہے نہ برے کام کا خوف اس واسطے بےدھڑک برے کام کرنے سے ان کے دلوں پر زنگ کی مہر لگ گئی ہے جس کے سبب سے قرآن کی نصیحت ان کے دلوں پر کچھ اثر نہیں کرتی اور عقبیٰ کا بھلا برا ان کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن اپنی اس حالت پر یہ لوگ ایسے وقت پر پچھتاویں گے جس وقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آویگا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:86) اولوا الطول۔ صاحب دولت و ثروت۔ طول۔ مال ۔ تونگری۔ دولت ۔ انعام ۔ وسعت۔ مقدرت۔ قدرت۔ طال یطول (باب نصر) کا مصدر۔ ذرنا۔ ذر۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ (باب سمع، فتح) سے وذر مصدر اس سے ماضی نہیں آتی۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ تو ہمیں چھوڑ دے۔ نکن۔ مضرع جمع متکلم فعل ناقص۔ اصل میں نکون تھا۔ القعدین۔ جہاد میں شریک نہ ہونے والے۔ اور گھروں پر رہ جانے والے۔ بیمار۔ عورتیں اور بچے۔ ایسے پیچھے رہ جانے والے جن کے پاس فی الواقع کوئی معقول اور حقیقی عذر موجود تھا۔ بیماری وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اولو الطول کے ذکر سے تخصیص مقصود نہیں بلکہ غیر اولی الطول کا حال بدرجہ اولی معلوم ہوگیا کہ جب اہل مقدور کا یہ حال ہے تو بےمقدوروں کا تو ضروری ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ منافقین کا رویہ۔ منافقین کی حالت یہ تھی کہ جب بھی کوئی آیت یا سورة نازل ہوتی جس میں اللہ تعالیٰ پر مخلصانہ ایمان لانے کی دعوت اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا جاتا تو یہ لوگ اس کے ساتھ سراسر انحراف کرتے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مختلف بہانے بنا کر کہتے کہ ہمیں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھ رہنے کی اجازت دیجیے حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے پاس کوئی نام نہاد عذر بھی نہیں تھا کیونکہ وہ صحت مند اور وسائل رکھنے والے تھے۔ دراصل یہ اس بات پر خوش تھے کہ انھیں جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے ساتھ چھوڑ دیا جائے گویا کہ وہ ہر حال میں جہاد سے پیچھے رہنا پسند کرتے تھے۔ ان کی اس روش اور منافقت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی جس کی وجہ سے ایمان خالص اور جہاد کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر ہوئے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فِی قَلْبِہٖ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہٗ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِکَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَہُ اللّٰہُ فِی کِتَابِہٖ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے اگر وہ توبہ کرتا ہے اس گناہ کو چھوڑ کر بخشش طلب کرتا ہے اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اگر وہ گناہ زیادہ کرتا ہے وہ نکتہ بھی بڑھا دیا جاتا ہے یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ خبر دار وہ زنگ ہے جو ان کے دلوں پر ہے اس وجہ سے جو وہ اعمال کرتے تھے۔ “ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ )[ المطففین : ١٤] ” ہرگز یہ بات نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر انکے برے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے۔ “ مسائل ١۔ منافق بلا عذر جہاد سے پیچھے رہتا ہے۔ ٢۔ منافق کے دل پر گمراہی کی مہر لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کن کے دلوں پر مہریں ثبت ہوتی ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٧) ٢۔ جھوٹوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے گا۔ (الشوریٰ : ٢٤) ٣۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ (الجاثیۃ : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں دو مزاجوں کا ذکر ہے۔ ایک ہے مزاج نفاق ، کمزوری اور ذلت کا اور دوسرا مزاج ہے ایمان ، قوت آزمائش کا۔ ایک مزاج کی منصوبہ بندی چالاکی ، پیچھے رہ جانے اور ذلت قبول کرنے کے خطوط پر ہوتی ہے اور دوسرے مزاج کی منصوبہ بندی استقامت ، خرچ اور عزت و شرف کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا حکم ہوتا ہے تو بعض لوگ جو استطاعت رکھتے ہیں جن کے پاس جہاد کے اخراجات کے لیے مناسب وسائل ہوتے ہیں ، وہ اپنی پوزیشن کے مطابق آگے نہیں بڑھتے۔ اس طرح اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ ذلت ، شرمندگی کی روش اختیار کرتے ہیں ، یہ لوگ عورتوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی عزت اور اپنے مقام کی مدافعت نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں ہوتا ، نہ وہ یہ احساس کرتے ہیں کہ ان کی اس روش کی وجہ سے وہ کس قدر ذلیل و خوار سمجھتے جاتے ہیں۔ پس وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہر قیمت پر زندہ رہیں۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ ہر قیمت پر زندہ رہنا ذلیلوں کا کام ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

وسعت ہوتے ہوئے منافقین کا اجازت طلب کرنا کہ غزوہ میں نہ جائیں منافقین کا حال بتاتے ہوئے فرمایا کہ جب قرآن کی کوئی سورت نازل ہوتی ہے جس میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا حکم ہوتا ہے تو اس میں سے پیسے والے اور مالی وسعت والے اجازت لینے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے گھروں میں بیٹھے رہ جانے والوں میں ہمیں بھی شمار فرما لیجیے۔ اس میں ان کی بےغیرتی کی طرف اشارہ ہے۔ بہادر مردوں میں شمار ہونے کو تیار نہیں۔ ضعیفوں اور عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھ رہنے کو تیار ہیں۔ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی (جنہیں اپنے نفع و نقصان کی بھی سمجھ نہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:“ وَ اِذَا اُنْزِلَتْ الخ ” یہ منافقین کی منافقت کی واضح علامت ہے کہ جب جہاد کا حکم نازل ہوتا ہے تو وہ مالی طاقت اور جسمانی قدرت کے باجود جہاد سے جی چراتے اور آپ کے پاس آ کر اجازت مانگتے ہیں کہ انہیں جہاد کی شمولیت سے مستثنی کردیا جائے اور گھروں میں رہنے دیا جائے وہ جہاد میں شریک ہو کر جرات و شجاعت کے جوہر دکھانے کے بجائے بزدلوں کی طرح مدینہ میں عوتوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اور یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان کے دل ایمان سے خالی اور اللہ اور رسول کی محبت سے تہی ہیں۔ ان کے دلوں پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے مہر جباریت لگ چکی ہے اور وہ جہاد کے دینی اور دنیوی منافع سمجھنے سے قاصر ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 اور جب کبھی کوئی سورت اور قرآن کریم کا کوئی ٹکڑا اس مضمون کا نازل کیا جاتا ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول کے ساتھ ہوکر جہادکرو تو ان میں سے جو لوگ صاحب مقدرت اور ذی مقدور ہیں وہی آپ سے اجازت طلب کرنے لگتے ہیں اور رخصت مانگنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو چھوڑ دیجئے کہ ہم بھی بیٹھ رہنے والوں کے ہمراہ رہ جائیں۔ یعنی اصحابِ مقدرت ہی معذرت کرنے لگتے ہیں تو غیر مقدرت والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔