Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 87

سورة التوبة

رَضُوۡا بِاَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۸۷﴾

They were satisfied to be with those who stay behind, and their hearts were sealed over, so they do not understand.

یہ تو خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وہ کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ الْخَوَالِفِ ... They are content to be with those who sit behind. ... وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ ... Their hearts are sealed up, because of their staying away from Jihad and from accompanying the Messenger in Allah's cause, ... فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ so they understand not. they neither understand what benefits them so that they perform it nor what hurts them so that they avoid it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے، اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] مال و دولت، خوشحالی اور آسودگی اگرچہ اللہ کی نعمت ہے مگر جب یہی چیزیں اللہ کے احکام کی تعمیل میں رکاوٹ بن جائیں تو یہی انسان کے لیے فتنہ اور عذاب کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک تو ان میں نفاق کا مرض پہلے ہی موجود تھا دوسرے عیش و آرام کی زندگی بھی میسر ہو تو منافقوں کو جہاد میں مال و دولت کا خرچ کرنا اور سفر کی صعوبتیں کیسے گوارا ہوسکتی تھیں۔ چناچہ ایسے موقعوں پر حیلہ بازیاں اور معذرتیں کرنا ان کی ایک عادت ثانیہ سی بن چکی تھی۔ ان کی اسی عادت کو اللہ تعالیٰ نے مہر لگانے سے تعبیر کیا ہے۔ لہذا اگر انہیں جہاد کی ترغیب دی جائے تو اب ان کے دلوں پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوتا۔ مزید برآں اپنی اس بزدلی اور بےغیرتی پر شرمانے کی بجائے پیچھے رہنے پر خوش ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَضُوْا بِاَنْ يَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَـوَالِفِ وَطُبِـــعَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَفْقَہُوْنَ۝ ٨٧ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، خلف پیچھے رہنا وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا [ التوبة/ 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] ، والخالِفُ : المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال : فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ : شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف . قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة/ 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے ) طبع الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] ، ( ط ب ع ) الطبع ( ف ) کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) یہ لوگ خانہ نشین عورتوں اور بچوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے اور ان کے دلوں پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے حکم خداوندی کی تصدیق ہی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ ) اس انداز بیان میں ان پر گہرا طنز ہے۔ یعنی جنگ کرنا مردوں کا کام ہے جبکہ خواتین اور بچے ایسے مواقع پر پیچھے گھروں میں رہ جاتے ہیں۔ چناچہ اب جب تمام مردوں پر لازم ہے کہ وہ غزوۂ تبوک کے لیے نکلیں ‘ تو یہ منافقین طرح طرح کے بہانوں سے رخصت چاہتے ہیں۔ گویا انہوں نے پیچھے گھروں میں رہ جانے والی عورتوں کا کردار اپنے لیے پسند کرلیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. “They do not understand” for they deliberately and intentionally chose the shameful way of staying at home with women, when they were required to go forth for Jihad, though they were healthy, physically fit and well-to-do, and professed Islam. Therefore, according to the divine law of nature, a seal was set upon their hearts and they were bereft of those noble feelings which make one feel ashamed of adopting such a disgraceful conduct.

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :89 یعنی اگرچہ یہ بری شرم کے قابل بات ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے ، تندرست ، صاحب مقدرت لوگ ، ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کام کا وقت آنے پر میدان میں نکلنے کے بجائے گھروں میں گھس بیٹھیں اور عورتوں میں جا شامل ہوں ، لیکن چونکہ ان لوگوں نے خود جان بوجھ کر اپنے لیے یہی رویہ پسند کیا تھا اس لیے قانون فطرت کے مطابق ان سے وہ پاکیزہ احساسات چھین لیے گئے جن کی بدولت آدمی ایسے ذلیل اطوار اختیار کرنے میں شرم محسوس کیا کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:87) لا یفقھون ۔ مضارع منفی ۔ جمع مذکر غائب۔ فقہ سے وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ان پر نہ اللہ تعالیٰ و رسول کی بات کا ثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحیت کا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رضو بان یکوانوا ۔۔۔۔ الفوز العظیم ۔۔۔ اگر یہ سمجھتے تو اس حقیقت کو پا لیتے کہ جہاد میں قوت ، عزت اور باعزت زندگی کا راز ہے اور جہاد سے پیچھے رہنے میں کمزوری ذلت اور ذلت کی موت ہے۔ یاد رہے کہ ذلت کے لیے بھی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے اور عزت و شرف کے لیے بھی انسان کو قیمت دینا ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات انسان شرف کے مقابلے میں ذلت کے لیے بڑی قیمت ادا کرتا ہے۔ بعض کمزور مزاج کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عزت کے لیے بہت بڑی قیمت دینا پڑتی ہے اور ہم اس قدر قیمت کی ادائیگی نہیں کرسکتے۔ اس لیے یہ لوگ ذلت کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں اور مشکلات اور تکالیف دیکھ کر بھاگ نکلتے ہیں۔ ایسے لوگ نہایت ہی ذلیلانہ اور حقیرانہ اور خوفناک زندگی بسر کرتے ہیں۔ خود اپنے سائے سے ڈرتے رہتے ہیں۔ خود اپنی آواز سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ہر آوازے کو یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر ہے۔ ان لوگوں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ زندگی انہیں بہت محبوب ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ عز و شرف کے مقابلے میں اس ذلت کی زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ پوری پوری قیمت جان کی قیمت ، عزت و آبرو کی قیمت ، شہرت کی قیمت ، اطمینان کی قیمت اور خوف اور دولت کی قیمت۔ لیکن ان بدبختوں کو اس کا شعور نہیں ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں وہ لوگ شامل تھے جو مدینہ میں عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہے ، ان کے دلوں پر مہر لگ گئی اور ان کی فہم و ادراک نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن رسول اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے تھے وہ دوسرے طرز کے لوگ تھے۔ جاھدوا باموالھم وانفسھم (انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا) انہوں نے ایمان کے تقاضے پورے کیے اور نظریات کی قیمت ادا کی اور وہ عزت کمائی جو بیٹھنے والے نہ کما سکے۔ یہی لوگ ہیں جو اس زمین کا کریم ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کے سامنے سب خزانے کھلے ہیں اور ان کا نام اور ان کی شہرت دور دراز تک ہے۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ دنیا میں بھی جبکہ وہ باعزت زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور آخرت میں بھی جن کے لیے اللہ نے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی فوز عظیم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 انہوں نے پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ہمراہ رہ جانے کو پسند کیا اور خانہ نشین عورتوں کے ہمراہ رہ جانے پر راضی ہوگئے اور ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی جس سے یہ جہاد کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں۔ یعنی اتنے بےحمیت ہیں کہ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھنے کو پسند کرتے ہیں۔