Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 88

سورة التوبة

لٰکِنِ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡخَیۡرٰتُ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۸۸﴾

But the Messenger and those who believed with him fought with their wealth and their lives. Those will have [all that is] good, and it is those who are the successful.

لیکن خود رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

After Allah mentioned the sins of the hypocrites, He praised the faithful believers and described their reward in the Hereafter, لَـكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ امَنُواْ مَعَهُ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُوْلَـيِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ أَعَدَّ اللّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

منافق کی آخرت خراب منافقوں کی مذمت اور ان کی اخروی خستہ حالت بیان فرما کر اب مومنوں کی مدحت اور ان کے حصے میں بھلائیاں اور خوبیاں ہیں یہی فلاح پانے والے لوگ ہیں ۔ انہی کے لئے جنت الفردوس ہے اور انہی کے لئے بلند درجے ہیں ۔ یہی مقصد حاصل کرنے والے یہی کامیابی کو پہنچ جانے والے لوگ ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] یہاں درمیان میں حقیقی مسلمانوں، جہاد کے سلسلہ میں ان کی مخلصانہ کوششوں اور ان کے اجر کا ذکر منافقوں کے کردار کے بالکل برعکس بیان ہو رہا ہے جیسا کہ قرآن میں اکثر یہی سنت جاری ہے۔ اس کے بعد پھر رخصت لینے والوں اور منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ : لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کا حال منافقین جیسا نہیں، ان میں نہ ان کی طرح بزدلی ہے، نہ جہاد سے گریز، نہ مال و جان کی قربانی میں بخل، نہ اللہ اور اس کے رسول سے کفر، نہ نافرمانی، بلکہ وہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ جہاد یعنی اپنی آخری کوشش کرتے ہیں اور ہر حال میں اطاعت کرتے ہیں۔ انھی کے لیے تمام بھلائیاں، یعنی دنیا کی فتوحات و غنائم اور آخرت کے سب سے بلند درجے ہیں۔ دیکھیے سورة حجرات (١٥) اور صف ( ١٠ تا ١٢) انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جنت میں پہنچ جانے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو پسند کرے کہ دنیا میں واپس آئے، خواہ دنیا کی ہر چیز اسے دے دی جائے، سوائے شہید کے، وہ تمنا کرے گا کہ دنیا کی طرف واپس جائے، پھر دس مرتبہ قتل کیا جائے، اس عزت و کرامت کی وجہ سے جو وہ دیکھے گا۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب تمنی المجاہد أن یرجع إلی الدنیا : ٢٨١٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْخَيْرٰتُ۝ ٠ ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٨٨ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ خَيْراتٌ وقوله : فِيهِنَّ خَيْراتٌ حِسانٌ [ الرحمن/ 70] ، قيل : أصله خَيِّرَات، فخفّف، فالخیرات من النساء الخيّرات، يقال : رجل خَيْرٌ وامرأة خَيْرَةٌ ، وهذا خير الرجال، وهذه خيرة النساء، والمراد بذلک المختارات، أي : فيهنّ مختارات لا رذل فيهنّ. والخیر : الفاضل المختصّ بالخیر، يقال : ناقة خِيَار، وجمل خيار، واستخار اللهَ العبدُ فَخَارَ له، أي : طلب منه الخیر فأولاه، وخَايَرْتُ فلانا کذا فَخِرْتُهُ اور آیت کریمہ : ۔ فِيهِنَّ خَيْراتٌ حِسانٌ [ الرحمن/ 70] ان میں نیک سیرت ( اور ) خوبصورت ۔ ) میں بعض نے کہا ہے کہ خیرات اصل میں خیرات ہے تخفیف کے لئے ایک یائ کو حزف کردیا گیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ اور خیرات سے مراد یہ ہے کہ ان میں نیک سیرت عورتیں ہوں گی جن میں کسی قسم کی ( ذالت نہیں پائی جائے گی ۔ الخیر بہتر جو خیر کے ساتھ مختص ہو ( مذکر ومونث ) بہتر اونٹنی یا اونٹ ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨) لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خالص مسلمان ساتھی انہوں نے اطاعت خداوندی میں جہاد کیا ان ہی حضرات کیلیے دنیا میں مقبول نیکیاں ہیں یا یہ کہ آخرت میں خوبصورت حوریں ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے نجات حاصل کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط) (وَاُولٰٓءِکَ لَہُمُ الْخَیْرٰتُز وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) فلاح محض ایک لفظ ہی نہیں بلکہ قرآن کی ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ سورة المؤمنون کے آغاز میں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٨۔ ٨٩۔ اللہ پاک نے منافقوں کی مذمت بیان کر کے یہ بات بیان فرمائی کر یہ لوگ جو جہاد میں نہیں شریک ہوئے ہیں اس سے کوئی ضرر خدا کے دین کو نہیں پہنچتا ہے ان لوگوں سے جو بہتر اور اچھے لوگ ہیں رسول اور مومنین وہ لوگ سچے دل سے اور خالص نیت سے خدا کی راہ میں جان اور مال سے حاضر ہوئے اور آئے دن جہاد کرتے رہتے ہیں اور جیسا کہ حق جہاد کا ہے پورا پورا ادا کرتے ہیں پھر یہ ذکر کیا کہ یہ مومنین جو اس طرح خدا کی راہ میں سرگرمی سے لڑر ہے ہیں تو ان کی محنت رائگاں نہیں جائے گی اس کے عوض میں دنیا اور آخرت دونوں جگہ انہیں بہتری ہوگی اور بڑی فلاحیت اٹھائیں گے کیا یہ کم دنیا میں فلاحیت ہے کہ جہاد میں شریک ہونے پر مال عنیمت کے مستحق ہوتے ہیں اور عقبیٰ میں خدا تعالیٰ نے ان کے لئے جنت بنا رکھی ہے جس میں نہریں جاریں ہیں اور پھر یہ لوگ اس میں جانے کے بعد کبھی نکلیں گے نہیں ہمیشہ ہمیشہ کو وہیں رہیں گے طرح طرح کی نعمتیں ان کے واسطے جنت میں موجود ہیں یہ فوز عظیم نہیں تو کیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کے طور پر دین کی لڑائی میں شریک ہوتا ہے اس بات پر اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہوجاتا ہے کہ اگر وہ اپنے گھر کو واپس آیا تو اجر اور مال غنیمت لے کر آویگا اور اگر شہید ہوا تو جنت میں داخل ہوگا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی جنتی کو اگر ساری دنیا کے مال مل جانے کا لالچ دیا جا کر دنیا میں آنے کو کہا جاوے گا تو جنت کی نعمتوں کو چھوڑ کر کوئی جنتی دنیا میں آنے کو راضی نہ ہوگا مگر شہادت کے اجر میں شہیدوں کو جنت کے عالی مقام جو ملیں گے انہیں دیکھ کر شہید یہ تمنا کریں گے کہ وہ پھر دنیا میں آویں اور دس دفعہ اللہ کی راہ میں پھر شہید ہوں یہ حدیثیں واولئک لھم الخیرات واولئک ھم المفلحون کی گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یہ ظہور ہوا کہ ان لوگوں میں سے جو زندہ رہے انہوں نے اور ان کی اولاد نے بادشاہت پائی اور جو شہید ہوگئے ان کو وہ عالی درجے ملے کہ جن کو دیکھ کر انہیں پھر دنیا میں آنے اور شہید ہونے کی آرزو پیدا ہوئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:88) لکن الرسول۔ لکن کی دو صورتیں ہیں۔ (1) لکن (مشدد) سے مخفف بنایا ہوا ہے اس صورت میں یہ حرف ابتداء ہے اور غیر عامل ہوتا ہے اسی لئے اسم پر بھی داخل ہوتا ہے جیسے آیۃ ہذا میں لکن الرسول والذین امنوا معہ اور فعل پر بھی جیسے ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما (3:67) اس صورت میں یہ استدراک کا فائدہ دیتا ہے۔ (2) حرف عاطفہ کا کام بھی دیتا ہے جبکہ اس کے بعد کوئی مفرد آئے مثلاً لکن اللہ یشھد بما انزل الیک (4:166) لیکن یہ بھی استدراک کے لئے آیا ہے۔ (استدراک کا مطلب یہ ہے کہ ماقبل کے حکم کے خلاف مابعد کی طرف کسی حکم کی نسبت کی جائے اسی لئے ضروری ہے کہ لکن (یا اسی طور لکن) سے پہلے کوئی ایسا حکم ہو جو پیچھے آنے والے حکم کی نقیض یا ضد ہو۔ جیسے ما کان ابراہیم یہودیا ۔۔ حنیفا مسلمان (مذکورہ بالا) ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھا نہ عیسائی وہ تو تمام علائق سے کٹا ہوا ایک پکا مسلم تھا۔ الخیرات۔ بھلائیاں ۔ خیر کی جمع ۔ منافع الدارین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 دنیا میں فتح اور سرفرازی اور آخرت میں جنت اور اس کی نعمتیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے مقابلہ میں مخلص مسلمانوں کا کردار۔ منافق اپنے ایمان میں غیر مخلص ہونے کی وجہ سے جہاد اور نیکی کے کاموں میں پیچھے رہنا پسند کرتا ہے اس کے مقابلے میں حقیقی مسلمان ہر وقت اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں رہتا ہے یہاں تک کہ وقت آنے پر وہ اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں خیر ہی خیر ہے اور آخرت میں فلاح اور کامیابی پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہاں تک کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کا معاملہ، آپ نیکی کے معاملہ میں سب سے آگے اور جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ولولہ رکھتے تھے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ أَرْوَاحَہُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّۃِ تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا وَتَأْوِی إِلَی قَنَادِیلَ مِنْ ذَہَبٍ مُّعَلَّقَۃٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ فَلَمَّا وَجَدُوا طیبَ مَأْکَلِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ وَمَقِیلِہِمْ قَالُوا مَنْ یُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَاءٌ فِی الْجَنَّۃِ نُرْزَقُ لِءَلَّا یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلَا یَنْکُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ فَقَال اللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللّٰہِ إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ ] ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹوں میں رکھ دیا وہ بہشت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم بہشت میں زندہ ہیں اور کھانا کھاتے ہیں تاکہ وہ بھی بہشت کے حاصل کرنے میں بےرغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری خبر میں پہنچاؤں گا پس نازل کی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھانا کھلائے جاتے ہیں۔ “ جنت کے درخت کا طول و عرض : (عَنْ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیر الرَّاکِبُ فِی ظِلِّہَا ماءَۃَ عَامٍ لَا یَقْطَعُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سو سال تک سوار چلتا رہے تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ ٢۔ مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں نہریں جاری ہیں۔ ٣۔ جسے جنت عطا کردی گئی اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ تفسیر بالقرآن عظیم کامیابی کیا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو ہمیشگی والی جنت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ : ٨٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو باغات عطا کرنا اور اپنی رضا مندی کا سر ٹیفکیٹ عطا فرمانا۔ (التوبۃ : ٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کے ساتھ ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا فرمانا۔ (التوبۃ : ١١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانا اور اسی سے ڈرنا اور اللہ تعالیٰ کا انھیں بشارت سے نوازنا۔ (یونس : ٦٣ تا ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے برائی سے بچ جانا۔ (المؤمن : ٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنا اور ہمیشہ رہنے والے باغات اور رہائش گاہوں کا وعدہ فرمانا۔ (الصف : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بشارت منافقین کا حال بد بیان فرمانے کے بعد اہل ایمان کو خوشخبری دی اور فرمایا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے ان کے لیے خیرات یعنی خوبیاں ہیں یعنی وہ دنیوی اور اخروی منافع ہیں جو محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ دنیا میں اللہ کی طرف سے ان کے لیے نصرت ہے اور مال غنیمت ہے اور آخرت میں جنت ہے اور اس کی نعمتیں ہیں۔ بعض مفسرین نے الخیرات سے جنت کی حوریں مراد لی ہیں۔ کیونکہ سورة رحمن میں یہ کلمہ جنت کی حوروں کے لیے آیا ہے۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ (فِیْھِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ) پھر فرمایا (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) (اور یہی لوگ کامیاب ہیں) دنیا میں بھی خوب رہے اور آخرت میں بھی ابدی نعمتوں سے مالا مال ہوئے، اس میں منافقین پر تعریض ہے جو یوں سمجھتے ہیں کہ ہم جو غزوۂ تبوک میں ساتھ نہ گئے اور گرمی سے بچ گئے اس میں کامیابی ہے۔ درحقیقت یہ ان کی بےوقوفی ہے۔ کیونکہ کامیابی جہاد فی سبیل اللہ میں ہے جہاد چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جانے میں نہیں ہے۔ پھر ان حضرات کی اخروی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا (اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار فرمائے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) (یہ بڑی کامیابی ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

83:“ لٰکِنِ الرَّسُوْلُ الخ ” یہاں سے لے کر “ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ” تکحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مال و جان سے جہاد کرنے والے صحابہ کرام اور مخلص مومنین کی فضیلت اور ان کے لیے اخروی بشارت مذکور ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 مگر ہاں رسول اور اس کے وہ ساتھی جو اہل ایمان ہیں انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہر قسم کی خوبیاں ہیں اور یہی لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو مخلص مسلمان ہیں وہ گھر میں بیٹھنے کی خواہش نہیں کرتے بلکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ہیں۔