Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 91

سورة التوبة

لَیۡسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الۡمَرۡضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ مَا یُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ مَا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ مِنۡ سَبِیۡلٍ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ۙ۹۱﴾

There is not upon the weak or upon the ill or upon those who do not find anything to spend any discomfort when they are sincere to Allah and His Messenger. There is not upon the doers of good any cause [for blame]. And Allah is Forgiving and Merciful.

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں ، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ، اللہ تعالٰی بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Legitimate Excuses for staying away from Jihad Allah says; لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَى الْمَرْضَى وَلاَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلّهِ وَرَسُولِهِ ... There is no blame on those who are weak or ill or who find no resources to spend, if they are sincere and true (in duty) to Allah and His Messenger. Allah mentions here the valid excuses that permit one to stay away from fighting. He first mentions the excuses that remain with a person, the weakness in the body that disallows one from Jihad, such as blindness, limping, and so forth. He then mentions the excuses that are not permanent, such as an illness that would prevent one from fighting in the cause of Allah, or poverty that prevents preparing for Jihad. There is no sin in these cases if they remain behind, providing that when they remain behind, they do not spread malice or try to discourage Muslims from fighting, but all the while observing good behavior in this state, just as Allah said, ... مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ No means (of complaint) can there be against the doers of good. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. Al-Awza`i said, "The people went out for the Istisqa' (rain) prayer. Bilal bin Sa`d stood up, praised Allah and thanked Him then said, `O those who are present! Do you concur that wrong has been done!' They said, `Yes, by Allah!' He said, `O Allah! We hear your statement, مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ (No means (of complaint) can there be against the doers of good). O Allah! We admit our errors, so forgive us and give us mercy and rain.' He then raised his hands and the people also raised their hands, and rain was sent down on them."

عدم جہاد کے شرعی عذر اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں ۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی ناطاقت ہو ۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے ، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے ۔ مسلمانوں کے ، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں ۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں ۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں ۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے ۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟ سب نے اقرار کیا ۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں ۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا سورہ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں ۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں ۔ یہ ناامید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گذارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی ۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے ۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف ، بنی واقف کے حرمی بن عمرو ، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب ، بنی معلی کے فضل اللہ ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید ۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے ۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول ، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے ۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں ۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے ۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں ، زمین پکڑ لیتے ہیں ۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے ۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً 1۔ ضعیف و ناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، 2۔ بیمار، 3۔ جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الا مکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] تین طرح کے معذور اور عذر قبول ہونے کی شرط خیرخواہی اور اموال غنیمت میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں تین طرح کے لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہ جو بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ جہاد پر جانے کے قابل ہی نہ رہے ہوں۔ دوسرے مریض جو اس وقت جہاد پر جا ہی نہ سکتے ہوں اور اس شق میں ایسے تیماردار بھی شامل ہیں جن کا بیمار کے پاس رہنا لازمی ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو جیسے غزوہ بدر میں سیدنا عثمان (رض) صرف اس وجہ سے شامل نہ ہو سکے تھے کہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ سخت بیمار تھیں اور جب مجاہدین واپس آئے تو ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اور تیسرے وہ لوگ جن کے پاس جہاد کے لیے خرچ نہ ہو۔ کیونکہ اس دور میں ہر مجاہد کو اپنی سواری، اسلحہ اور زاد راہ کا خود انتظام کرنا ہوتا تھا اور اس کے عوض انہیں مال غنیمت سے مقررہ حصہ ملتا تھا۔ پھر ان تینوں قسم کے معذورین کے ساتھ یہ لازمی شرط بھی عائد کردی کہ && وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں۔ && بالفاظ دیگر جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ نہ ہوں ان کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگ صرف منافق ہی ہوسکتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص بیمار ہے اور اس بیماری کی حالت میں جہاد کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص منافق ہے تو اس کے احساسات یہ ہوں گے کہ کیا اچھا ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں اور جہاد سے بچنے کا یہ کیسا معقول بہانہ میسر آگیا ہے۔ اس کے برعکس ایک مومن کے احساسات یہ ہوں گے کہ کاش میں اس وقت بیمار نہ ہوتا اور اس اجر سے محروم نہ رہتا جو جہاد کرنے والوں کو ملے گا، یا وہ یہ آرزو کرے گا کہ اللہ اسے جلد از جلد صحت عطا کرے تاکہ وہ بھی جہاد میں شامل ہو سکے یا وہ اپنے تیمارداروں سے کہے گا کہ میرا اللہ مالک ہے تم وقت ضائع نہ کرو اور جہاد پر چلے جاؤ۔ غرض ایک ایک بات سے انسان کی نیت اور احساسات کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مریض ہونے کے لحاظ سے تو یہ دونوں یکساں ہیں مگر ان کے احساسات بالکل متضاد ہیں کہ یہ احساسات ہی انہیں منافق اور مومن کی قسموں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جن لوگوں کے احساسات میں اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی ہے انہی کا عذر شرعی لحاظ سے قابل قبول ہے اور ایسے لوگوں کو جہاد میں شامل ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی عبور کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ && صحابہ کرام (رض) نے پوچھا : اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں آپ نے فرمایا اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں انہیں عذر نے روکا ہے۔ && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب نزول النبی الحجر۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر ) بلکہ ایسے معذور لوگوں کا رسول اللہ نے ان اموال غنیمت سے حصہ بھی نکالا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جنگ خیبر کی فتح کے فوراً بعد جو مہاجر حبشہ سے ہجرت کر کے پہنچے تھے۔ رسول اللہ نے انہیں اموال غنائم میں شریک کرلیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ ۔۔ : اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر واضح تھا۔ ان میں سب سے پہلے ” الضُّعَفَاۗءِ “ ہیں، ان سے مراد لنگڑے، لولے، اندھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے ہیں۔ دوسرے ” اَلْمَرْضیٰ “ (مریض کی جمع) جو بیماری کی وجہ سے نہیں جاسکتے، دوسری جگہ فرمایا : (لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ۭ ) [ الفتح : ١٧ ] ” نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ مریض پر کوئی تنگی۔ “ اور تیسرے وہ تندرست طاقت رکھنے والے جو مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ جہاد کے سفر اور اس کے سازو سامان مثلاً سواری اور ہتھیار وغیرہ کی تیاری کرسکیں۔ چناچہ فرمایا : (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) [ البقرۃ : ٢٨٦ ]” اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔ “ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ : یعنی وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے اللہ کے دین، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مومنوں کو کوئی نقصان اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ) ” دین خیر خواہی (خلوص) ہی کا نام ہے۔ “ ہم نے کہا : ” کس کے لیے ؟ “ فرمایا : ” اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکام کے لیے اور ان کے تمام لوگوں کے لیے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ : ٥٥، عن تمیم۔ ] عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدین جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں رہیں، ان کے گھروں کی، کاروبار کی اور بال بچوں کی خبر گیری رکھیں، ان کی عزت و آبرو کی ہر طرح سے حفاظت کریں، مجاہدین کی ضروریات بھیجتے رہیں، جھوٹی خبریں یا افواہیں نہ پھیلائیں، کسی قسم کا فساد برپا نہ کریں اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے والوں کا منہ بند کریں۔ مَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ : یعنی یہ لوگ معذور ہیں، اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس آئے، مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : ” بیشک مدینہ میں کئی لوگ ہیں، تم کسی راستے پر نہیں چلے اور نہ تم نے کوئی وادی طے کی ہے، مگر وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یارسول اللہ ! اور وہ مدینہ ہی میں تھے ؟ “ فرمایا : ”(ہاں) وہ مدینہ ہی میں تھے، انھیں عذر نے روک رکھا تھا۔ “ [ بخاری، المغازی، باب : ٤٤٢٣ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Previous verses mentioned people who were not really excusable from participation in Jihad but sat it out because of laziness. Then, there were hypocrites who had taken permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) under false pretexts because of their disbelief and hy¬pocrisy. And then there were the arrogant ones who did not bother about excuses and permissions and just sat back. They were told there that they were not excusable and that there was a painful punishment waiting for those of them who practiced disbelief and hypocrisy. The present verses mention sincere Muslims who were deprived of participation in Jihad because they were genuinely incapable of doing so. Some of them were blind, or sick, or handicapped. Their excuse was all too evident. Then, there were some of those who were ready to take part in Jihad, in fact, were ` dying& to go into the Jihad, but they could not make the trip because they did not have an animal to ride on. The journey was long and the weather was very hot. They told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) how eager they were to participate in the Jihad but how unfortunate that they had nothing to ride on. They requested him to see if they could have some mounts. There are many events of this nature recorded in books of Exegesis and History. So, different things happened. To some of them who came initially, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had no choice but to say that they had no arrangements to provide mounts to warriors. But, these people returned from him weeping and when they kept weeping in de¬spair, Allah Ta` ala took care of them in His own way. Six camels arrived before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) right at that time. He let them have these. (Mazhari) Then, Sayyidna ` Uthman (رض) arranged mounts for three of them, although he had already made similar ar-rangements for many more of them earlier.

خلاصہ تفسیر کم طاقت لوگوں پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ ان لوگوں پر جن کو ( سامان جہاد کی تیاری میں) خرچ کرنے کو میسر نہیں جبکہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے ساتھ ( اور احکام میں) خلوص رکھیں ( اور دل سے اطاعت کرتے رہیں تو) ان نکوکاروں پر کسی قسم کا الزام ( عائد) نہیں ( کیونکہ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ( کہ اگر یہ لوگ اپنے علم میں معذور ہوں اور اپنی طرف سے خلوص و اطاعت میں کوشش کریں اور واقع میں کچھ کمی رہ جائے تو معاف کردیں گے) اور نہ ان لوگوں پر ( کوئی گناہ اور الزام ہے) کہ جس وقت وہ آپ کے پاس اس واسطے آتے ہیں کہ آپ ان کو کوئی سواری دیدیں اور آپ ( ان سے) کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں تم کو سوار کردوں تو وہ ( ناکام) اس حالت سے وا پس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں اس غم میں کہ ( افسوس) انکو ( سامان جہاد کی تیاری میں) خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں ( نہ خود ہی اور نہ دوسری جگہ سے ملا، غرض ان معذورین مذکورین پر کوئی مواخذہ نہیں) بس الزام ( اور مواخذہ) تو صرف ان لوگوں پر ہے جو باوجود اہل سامان ( قوت) ہونے کے ( گھر یر رہنے کی) اجازت چاہتے ہیں وہ لوگ ( غایت بےحمیتی سے) خانہ نشیں عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور اللہ نے انکے دلوں پر مہر کردی جس سے وہ ( گناہ وثواب کو) جانتے ہی نہیں۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں ایسے لوگوں کے حالات کا بیان تھا جو درحقیقت جہاد میں شرکت سے معذور نہ تھے مگر سستی کے سبب عذر کرکے بیٹھ رہے، یا ایسے منافق جنہوں نے اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے حیلے بہانے تراش کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے لی تھی، اور کچھ وہ سرکش بھی تھے جنہوں نے عذر کرنے اور اجازت لینے کی بھی ضرورت نہ سمجھی، ویسے ہی بیٹھ رہے، ان کا غیر معذور ہونا اور ان میں جو کفر ونفاق کے مرتکب تھے ان کیلئے عذاب الیم کا ہونا سابقہ آیات میں بیان ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں ان مخلص مسلمانوں کا ذکر ہے جو حقیقتہ معذور ہونے کے سبب شرکت جہاد سے قاصر رہے، ان میں کچھ تو نابینا یا بیمار معذور تھے جن کا عذر کھلا ہوا تھا، اور کچھ وہ لوگ بھی تھے جو جہاد میں شرکت کے لئے تیار تھے، بلکہ جہاد میں جانے کے لئے بےقرار تھے، مگر ان کے پاس سفر کے لئے سواری کا جانور نہ تھا، سفر طویل اور موسم گرمی کا تھا، انہوں نے اپنے جذبہ جہاد اور سواری نہ ہونے کی مجبوری کا ذکر کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمارے لئے سواری کا کوئی انتظام ہوجائے۔ کتب تفسیر و تاریخ میں اس قسم کے متعدد واقعات لکھے ہیں، بعض کا معاملہ تو یہ ہوا کہ شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے عذر کردیا کہ ہمارے پاس سواری کا کوئی انتظام کردیا کہ چھ اونٹ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اسی وقت آگئے، آپ نے یہ ان کو دے دیے ( مظہری) اور ان میں سے تین آدمیوں کے لئے سواری کا انتظام حضرت عثمان غنی نے کردیا حالانکہ وہ اس سے پہلے بہت بڑی تعداد کا انتظام اپنے خرچ سے کرچکے تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ۝ ٠ ۭ مَا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٩١ ۙ ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ حرج أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی: يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی: خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب . ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔ نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود/ 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب، ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حقیقی معذورین کا عذر جہاد قابل قبول ہے قول باری ہے لیس علی الصضعفاء ولا علی المرضی ولا علی الذین لا یجدون ما ینفقونحرج اذا نصحوا للہ ورسولہ ۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لیے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفا دار ہوں ۔ یہ آیت ما قبل پر عطف ہے جس میں جہاد کا ذکر ہوا ہے، چناچہ ارشاد ہے۔ لکن الرسول والذین امنوا معہ جاھد وابامالھم وانفسھم پھر اس پر اس قول کو عطف کیا ۔ وجاء المعذرون من الاعراب لیوذن لھم بدوی عربوں میں سیب ہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تا کہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کرنے پر ان کی مذمت کی پھر مسلمان معذورین کا ذکر فرمایا اس سلسلے میں ضعفاء کا ذکر کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپاہج یا نابینا ہونے کی بنا پر یا کبرسنی یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں خود شریک نہیں ہوسکتے ، پھر مریضوں کا ذکر کیا جو اپنی بیماریوں کی وجہ سے جہاد کے لیے نکلنے سے معذور ہیں ، پھر ان تنگدست لوگوں کے عذر کا ذکر کیا جن کے پاس شرکت جہاد کے لیے زاد راہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شرط کے ساتھ ان کا عذر قبول کیا تھا اور ان کی تعریف کی تھی کہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور وہ دل سے اللہ اور اس کے رسول کے وفادار نہیں تھے بلکہ پیچھے رہ کر مدینہ منورہ میں موجود لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے اور ان کے دلوں میں فساد پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہونے تھے ۔ وہ قابل مذمت اور عذاب کے سزا وار قرار پائے تھے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری یہ تھی کہ مسلمانوں کو جہاد کے لیے ابھارا جاتا ، انہیں جہاد کی ترغیب دی جاتی ، ان کے پاس کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی یا اسی قسم کی اور خدمات سر انجام دی جاتی جن سے مجموعی طور پر مسلمانوں کو نفع پہنچتا ، اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے اعمال میں بھی بایں معنی مخلص ہوتے کہ ریا کاری اور دکھلاوے کے کھوٹ سے اپنے اعمال کو پاک رکھتے ۔ اللہ اور اس کے رسول سے وفاداری اور خیر خواہی کے یہی معنی ہیں ۔ اس سے التوبۃ النصوع سچی توبہ کا لفظ نکلا ہے۔ قول باری ہے ماعلی المحسنین من سبیل محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آیت کے مفہوم میں ہر اس شخص کے لیے عموم ہے جو کسی بھی جہت سے صفت احسان سے متصف ہو ۔ ایسے شخص پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آیت میں چند مختلف فیہ مسائل میں استدلال کیا جاتا ہے مثلاً کسی شخص نے نماز پڑھنے کے لیے کوئی کپڑا عاریت کے طور ر لیا یا حج پر جانے کے لیے کسی سے سواری مانگ لی اور پھر وہ کپڑا ضائع ہوگیا یا وہ سواری ہلاک ہوگئی تو اب اس سے اس کا تاوان لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص محسن تھا یعنی نیکی کے ایک عمل میں مصروف تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر گرفت کرنے اور اس پر اعتراض کرنے کی عام نفی کردی ہے۔ اس کے نظائر مسائل کی ہ صورتیں ہیں جن میں تاوان کے وجوب کے بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا صفت احسان حاصل ہوجانے کے بعد تاوان واجب ہوگا ؟ جو لوگ تاوان کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی کی نفی کرتے ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص حملہ آور اونٹ سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے قتل کرڈالے تو اس کے تاوان کے اسقاط میں ہمارے مخالفین کا یہ استدلال ہے کہ اس نے ایسے اونٹ کو قتل کر کے ایک نیک کام کیا ہے، وہ محسن یعنی نیکو کار ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ما علی المحسنین من سبیل نیکو کاروں پر کوئی گرفت اور اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) بوڑھوں محتاجوں اور نوجوان لوگوں میں سے بیماروں پر اور ان لوگوں پر جن کو سامان جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے کو میسر نہیں، عدم شرکت جہاد پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ یہ لوگ دین الہی اور سنت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں خلوص رکھیں، ان حضرات پر جو قول وعمل میں نیکوکار ہیں کوئی الزام نہیں جو شخص توبہ کرے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمانے والے ہیں اور جو توبہ پر مرے اللہ تعالیٰ اس پر بڑی رحمت فرمانے والے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” لیس علی الضعفآء ولا “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لکھا کرتا تھا، چناچہ میں برأت کی آیتیں لکھتا تھا اور میں نے اپنے کان پر قلم رکھ رکھا تھا، کہ ہمیں قتال کا حکم دے دیا گیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو آپ پر نازل ہوا تھا اسے دیکھنے لگے، اتنے میں ایک نابینا حاضر خدمت ہوگئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نابینا ہوں میرا کیا ہوگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی کم طاقت لوگوں پر کوئی گناہ نہیں، نیز عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ آپ کے ساتھ جہاد پر جانے کے لیے تیار ہوجائیں، صحابہ کرام میں سے ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی جن میں عبداللہ بن معقل مزنی بھی تھے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سواری دیجیے، آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کراؤں یہ سن کر وہ اس حالت میں واپس ہوئے کہ عدم شرکت جہاد کی بنا پر وہ رو رہے تھے کیوں کہ نہ ان کے پاس نفقہ تھا اور نہ سواری، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “۔ (الخ) نازل فرمائی یعنی نہ ان لوگوں پر کہ جس وقت وہ آپ کے پاس اس واسطے آتے ہیں (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَلاَ عَلَی الْمَرْضٰی وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ) آخر اتنا طویل سفر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آدمی تندرست و توانا ہو ‘ اس کے پاس سواری کا انتظام ہو ‘ راستے میں کھانے پینے اور دوسری ضروریات کے لیے سامان مہیا ہو ‘ لیکن اگر کوئی شخص ضعیف ہے ‘ بیمار ہے ‘ یا اس قدر نادار ہے کہ سفر کے اخراجات کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تو اللہ کی نظر میں وہ واقعتا مجبور و معذور ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہیں۔ ان کو اس بات کا کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ (اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ط) (مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) یعنی مندرجہ بالا وجوہات میں سے کسی وجہ سے کوئی شخص واقعی معذور ہے مگر سچا اور پکا مومن ہے ‘ خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسول کا وفادار ہے ‘ اس کا دین درجۂ احسان تک پہنچا ہوا ہے ‘ تو ایسے صاحب ایمان اور محسن لوگوں پر کوئی ملامت نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :92 ”اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں ۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا ۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں ، اس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے ۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا ، اور اس کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا ، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی ۔ ایک شخص ہے کہ جب اس نے فرض کی پکار سنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ”بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی“ ۔ دوسرے شخص نے یہی پکار سُنی تو تلملا اُٹھا کہ”ہائے ، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا ، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے“ ۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی ۔ دوسرا اگرچہ خود بستر علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں ، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ” میرا اللہ مالک ہے ، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا ، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے“ ۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانہ جنگ بد دلی پھیلانے ، بری خبریں اڑانے ، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا ۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے ، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ ( Home Front ) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے ۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں ۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے ۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے ۔ رہا پہلا شخص تو ہو اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩١۔ تفسیر ابن ابی حاتم اور مغازی محمد بن اسحاق میں زید بن ثابت (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کہ قوی تندرست مال دار لوگ جو غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے جب اوپر کی آیتوں میں ایسے لوگوں پر اللہ کی خفگی کی آیتیں نازل ہوئیں تو ناتواں بوڑھے اور بیمار اور ایسے مفلس صحابہ جن کے پاس اتنا خرچ نہیں تھا کہ سوار اور خرچ راہ کا بندوبست کر کے آنحضرت کے ساتھ جاتے وہ بہت ہراساں ہوئے کہ شاید ہم لوگ بھی اسی خفگی میں داخل ہیں ان کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ ایسے صاحب عذر جو لڑائی پر نہیں گئے تو ان پر سرزنش اس سبب سے نہیں ہے کہ عذر نے ایسے لوگوں کو معذور کر رکھا ہے اور اس معذوری کے سبب سے ان پر لڑائی میں جانا فرض نہیں ہے اصل سرزنش تو ان لوگوں پر ہے جنہوں نے بغیر کسی معذوری کے جھوٹے عذروں کے سبب سے بنی وقت کا ساتھ چھوڑ دیا صحیح بخاری کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر (رض) بن عبداللہ کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت سے ہمارے ساتھی مدینہ میں ایسے ہیں کہ ہر کام میں گویا ہمارے ساتھ ہیں جو رشتہ ہم نے طے کیا وہ گویا انہوں نے بھی طے کیا کیونکہ عذر کے سبب سے ہمارے ساتھ نہیں آسکے ایسے دین کے عام کام میں عذر کے سبب سے جو شخص شریک نہ ہو سکے اس سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر حاضری کی سرزنش اٹھالی ہے مگر ساتھ ہی اس کے ایک شرط بھی لگادی ہے اس طرح کا معذور آدمی گھر بیٹھے کوئی بات فساد کی ایسی نہ نکالے جس سے معلوم ہوا کہ وہ دین کا خیر خواہ نہیں ہے مثلا جو مسلمان سفر میں گئے ہوئے ہیں ان کے حق میں کوئی بدخبرا ڑا کر ان کے رشتہ داروں کو پریشان کردینا یا مخالفین دین سے کسی سازش کا کرنا۔ محسنین وہ لوگ ہیں جو ہر طرح کی بدنی اور مالی عبادت اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر ادا کرتے ہیں چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی حدیث جو ایک جگہ گزر چکی ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کے معنے اسی طرح کی حسن عبادت کے بتلائے ہیں یہ وہی حدیث ہے جس میں جبرئیل (علیہ السلام) نے سائل بن کر چند مسئلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھے ہیں اور آپ نے ان مسئلوں کے جواب دئے ہیں ان لوگوں کو محسنین جو فرمایا اس لئے معلوم ہوا کہ لشکر اسلام کی غیر حاضری اور سفر تبوک کے زمانہ میں ان لوگوں نے آیت کی شرط کے برخلاف کوئی بات نہیں کی اسی واسطے یہ لوگ گھر بیٹھے اجر کے مستحق ہوئے جس کا ذکر اوپر کی حدیثوں میں گزرا اوپر گزر چکا ہے کہ یوں تو جہاد فرض کفایہ ہے۔ فرض کفایہ اس فرض کو کہتے ہیں کہ قوم کے تھوڑے سے لوگ بھی اس کو ادا کر لیویں تو سب قوم سے اس کا بوجھ ٹل جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے یہ بھی گزر چکا کہ جن لوگوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی لڑائی پر جانے کا حکم دیا تو نماز روزہ کی طرح ان پر فرض عین تھا کہ وہ لوگ ضرور آپ کے حکم کی تعمیل کریں یہ بات اس سبب سے تھی کہ اس زمانہ کے سب مسلمان بیعت کے ذریعہ سے یہ معاہدہ کرچکے تھے کہ وہ ہر حال میں اسلام کی مدد کریں گے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ اللہ بن عمر (رض) کی یہ حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ عہد شکنی منافق کی نشانی ہے اسی واسطے بلا عذر قوی کے جو لوگ گھر بیٹھ رہے اس سورت کی آیتوں میں ان پر خفگی نازل ہوئی کیونکہ صحیح بخاری میں کعب بن (رض) مالک کے صفہ کی جو حدیث ہے اس میں یہ ذکر صاف ہے کہ سوا سچے صاحب عذر لوگوں کے اور سب مسلمانوں کو اس سفر میں ساتھ چلنے کا حکم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا جس سے نماز روزہ کہ طرح ان پر اس لڑائی میں جانا فرض عین تھا حاصل کلام یہ ہے کہ اس مقام پر بعضے مفسروں کو یہ شبہ جو پیدا ہوا ہے کہ جہاد جب فرض کفایہ ہے تو صرف بعضے لوگوں کے تبوک کے سفر میں شریک نہ ہونے سے ان لوگوں پر اس قدر عتاب الہی کیوں ہوا اوپر جو آیت کی تفسیر بیان کی گئی اس کے بعد اب وہ شبہ باقی نہیں دیتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:91) اذا نصحوا۔ ماضی جمع مذکر غائب نصح مصدر۔ (باب فتح) جب وہ خلوص رکھیں جب وہ مخلص ہوں۔ ظاہری اور باطنی طور پر مطیع و فرمانبردار ہوں۔ ما علی المحسنین من سبیل (ایسے) نیکوکاروں پر کائی درجہ الزام نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی معذور ہیں جیسے لنگڑے، لولے، اپاہج۔ اندھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے۔7 جس سے جہاد کی تیاری کرسکیں اور ہتھیار سواری وغیرہ فراہم کرسکین۔8 وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے انہیں نقصان ق اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا الدین النعیحتہ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کس کے لیے فرمایا : للہ ولکتابہ وارسولہ ولائمتہ المسمین وعامتھم۔ یعنی اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مسلمانوں کے امام کے لیے اور مسلم عوام کے لیے ( شوکانی) عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدیں جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں بیٹھے رہیں۔ نہ جھوٹی خبریں پھیلائیں نہ فساد وبر پاکریں مجاہدین کی خدمت کریں اور ان کے بال بچوں کی خبر گیری کریں۔ ( از وحیدی)9 یعنی یہ لوگ معذور ہیں۔ اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناد نہیں ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے سفر میں صحابہ کرام سے فرمایا تم اپنے پیچھے مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہو ہو کہ تم نے جو مسافت طے کی جو مال خرچ کیا ہے اور جس وادی کو پار کیا ہے۔ ان سب اعمال میں وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ ہمارے ساتھ کیسے ساتھ کیسے ہو نگے حالانکہ وہ تو مدینہ میں رہ گئے ہیں ؟ فرمایا انہیں صف عذر نے تمہارے آنے سے روک دیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ مگر وہ اجر میں تمہارے ساتھ شریک ہیں ( ابن کثیر بحوالہ صحیحین)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اگر یہ لوگ اپنے علم میں معذور ہوں اور اپنی طرف سے خلوص و اطاعت میں کوشش کریں اور واقع میں کچھ کمی رہ جائے تو معاف کردیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جھوٹے عذر پیش کرنے والوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہے اور حقیقی عذر رکھنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ بعض حالات میں ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے تبوک کا جہاد بھی فرض عین ہوچکا تھا۔ جہاد فرض عین ہونے کے باوجود چار قسم کے لوگوں کو جہا د سے رخصت دی گئی ہے۔ ١۔ ایسا کمزور جو بڑھا پا، صغر سنی یا کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں شرکت کرنے سے قاصر ہو۔ ٢۔ وہ شخص جو دائمی مرض یا وقتی بیماری کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو سکے۔ ٣۔ جہاد مال اور جان کے ساتھ کرنا فرض ہے اگر کوئی غربت کی وجہ سے دفاعی فنڈ میں حصہ نہیں لے سکتا تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ ٤۔ جو شخص سواری نہ ہونے کی وجہ سے میدان کار زار میں نہیں پہنچ سکتا، باوجود اس کے کہ اس کے پاس کوئی اور عذر نہیں اسے مجبور سمجھ کر معاف کردیا گیا ہے کیونکہ محاذ جنگ دور ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر کچھ مخلص مسلمان ایسے بھی تھے جن کے پاس ٣٠٠ میل طویل سفر کرنے کے لیے سواری نہیں تھی وہ آپ کی خدمت میں آکر عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ہماری جان حاضر ہے مگر محاذ پر پہنچنے کے لیے ہم سواری نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرمائیں آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس مزید سواریوں کا انتظام نہیں ہے جواب سن کر یہ لوگ زار و قطار روتے ہوئے واپس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا اخلاص اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیا تک ان کے اخلاص کو خراج تحسین عطا فرمایا اور ایسے لوگوں کی ڈھارس بند ھاتے ہوئے فرمایا کہ جو شرعی عذر کی بنا پر جہاد میں شرکت نہ کرسکیں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ایک دفعہ پھر ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مال دار اور وسائل رکھنے کے باوجود جہاد سے جی چراتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر راضی ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے بہانوں اور منافقت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنے کے شعور سے محروم ہوچکے ہیں۔ معذور مخلصین کا مقام : (عَنْ جَابِرٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی غَزَاۃٍ فَقَالَ إِنَّ بالْمَدِینَۃِ لَرِجَالًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوا مَعَکُمْ حَبَسَہُمْ الْمَرَضُ )[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ باب ثواب من جسہ عن النفر مرض اور عذر ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم ایک غزوۂ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا بلاشبہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں وہ تمہارے ساتھ تھے جہاں تم لوگوں نے قیام کیا یا کسی وادی کو عبور کیا وہ مدینے میں اپنی بیماری کی وجہ سے ٹھہرے رہے۔ “ اس فرمان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں شریک تصور کیا ہے جو بیماری یا سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے اس غزوہ میں عملاً ا شریک نہیں ہوسکے تھے بیشک وہ شریک سفر نہ تھے لیکن ان کے جذبات اور دعائیں ہمہ وقت مسلمانوں کی کامیابی کے لیے وقف تھیں۔ اس لیے آپ نے انہیں شریک ثواب گردانا ہے۔ غزوہ تبوک میں سواریوں کی قلت کا یہ عالم تھا کہ ایک اونٹ پر کئی کئی صحابہ سوار ہوتے اس کے باوجود انہوں نے باریاں مقرر کر رکھی تھیں جس بنا پر کچھ لوگ اپنی باری پر پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) قَالَ أَرْسَلَنِی أَصْحَابِی إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سْأَلُہُ الْحُمْلاَنَ لَہُمْ ، إِذْ ہُمْ مَعَہُ فِی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ وَہْیَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ ، إِنَّ أَصْحَابِی أَرْسَلُونِی إِلَیْکَ لِتَحْمِلَہُمْ فَقَالَ وَاللَّہِ لاَ أَحْمِلُکُمْ عَلَی شَیْءٍ وَوَافَقْتُہُ ، وَہْوَ غَضْبَانُ وَلاَ أَشْعُرُ ، وَرَجَعْتُ حَزِینًا مِنْ مَنْعِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمِنْ مَخَافَۃِ أَنْ یَکُون النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَجَدَ فِی نَفْسِہِ عَلَیَّ ، فَرَجَعْتُ إِلَی أَصْحَابِی فَأَخْبَرْتُہُمُ الَّذِی قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ أَلْبَثْ إِلاَّ سُوَیْعَۃً إِذْ سَمِعْتُ بلاَلاً یُنَادِی أَیْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ قَیْسٍ فَأَجَبْتُہُ ، فَقَالَ أَجِبْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعوکَ ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُ ، قَالَ خُذْ ہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ وَہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ لِسِتَّۃِ أَبْعِرَۃٍ ابْتَاعَہُنَّ حینَءِذٍ مِنْ سَعْدٍ فَانْطَلِقْ بِہِنَّ إِلَی أَصْحَابِکَ فَقُلْ إِنَّ اللَّہَ أَوْ قَالَ إِنَّ رَسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَحْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ فَارْکَبُوہُنَّ فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہِمْ بِہِنَّ ، فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ وَلَکِنِّی وَاللَّہِ لاَ أَدَعُکُمْ حَتَّی یَنْطَلِقَ مَعِی بَعْضُکُمْ إِلَی مَنْ سَمِعَ مَقَالَۃَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ تَظُنُّوا أَنِّی حَدَّثْتُکُمْ شَیْءًا لَمْ یَقُلْہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقالُوا لِی إِنَّکَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَی بِنَفَرٍ مِنْہُمْ حَتَّی أَتَوُا الَّذِینَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْعَہُ إِیَّاہُمْ ، ثُمَّ إِعْطَاءَ ہُمْ بَعْدُ )[ رواہ البخاری : باب غَزْوَۃُ تَبُوکَ ، وَہْیَ غَزْوَۃُ الْعُسْرَۃِ ] ” حضرت ابی موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا تاکہ میں آپ سے سواریوں کا مطالبہکروں تاکہ وہ آپ کے ساتھ جنگ تبوک میں شریک ہو سکیں۔ میں نے عرض کی اللہ کے نبی مجھے میرے ساتھیوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکے آپ ہمارے لیے سواریوں کا انتظام فرمایں۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دونگا میں نے آپ کو غصے کے عالم میں پایا۔ میں آپ کی کیفیت نہ سمجھ سکا۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی اور نہ دینے کی وجہ سے پریشان لوٹا اور اپنے ساتھیوں کو صورتحال سے آگاہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ میں تھوڑی ہی دیر ٹھہراتھا کہ میں نے بلال کی آواز کو سنا وہ آوازیں دے رہا تھا اے عبداللہ بن قیس میں نے بلال کو جواب دیا اس نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام ہے کہ آپ کی بات سنیں۔ جب میں آپ کے پاس آیاتو آپ نے مجھے چھ اونٹ دیتے ہوئے فرمایا یہ سواریاں لے جا میں نے یہ ابھی ابھی سعد سے خریدی ہیں۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہو کہ اللہ کے رسول نے یہ سواریاں دی ہیں۔ میں نے وہاں موجود صحابہ سے کہا اللہ کی قسم میں تب تلک یہاں سے نہیں جاؤنگا جب تک یہاں بیٹھنے والوں میں سے کوئی جاکر نہ کہ دے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو سنا ہے تاکہ میرے ساتھی یہ تصور نہ کریں کہ میں ایسی بات کر رہا ہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی انہوں نے کہا ہم تیری بات کی تصدیق کرتے ہیں تو حضرت ابو موسیٰ ان لوگوں کو ساتھ لیکر آیا جنہوں نے آپ کی بات کو سنا تھا کہ آپ نے پہلے انکار کیا اس کے بعد سواریاں عطا کردیں۔ “ مسائل ١۔ کمزوروں، مریضوں اور سواری نہ پانے والوں پر جہاد میں عدم شرکت پر کوئی گناہ نہیں۔ ٢۔ غربت کی بنا پر جہاد میں چندہ نہ دینے والے پر کوئی گناہ نہیں۔ ٣۔ شرعی عذر کے بغیر جہاد فرض ہونے کے باوجود جو لوگ شرکت نہیں کرتے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر ثبت کردیتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اس لشکر میں خروج کا حکم اندھیرے کا سوٹا نہ تھا بلکہ اس میں معذوروں کا خیال رکھا گیا تھا۔ کیو کہ اسلام تو ایک معقول اور سہولت کا دین ہے۔ اس میں کسی سے اس کی استطاعت سے زیادہ کا مطالبہ نہیں ہوتا۔ لہذا معذوروں سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ جو لوگ ضعیف ہیں ، بوڑھے ہیں ، معذور ہیں اور بیٹھے ہیں ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ وہ بیمار جو عارضی طور پر اس مہم میں شریک نہ ہوسکتے تھے ، قابل ملامت نہیں ہیں۔ وہ لوگ بھی معذور تصور ہوں گے جو سواری اور زاد راہ نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اگر میدان معرکہ سے دور رہے تو ان کا کیا قصور ہے۔ لیکن ان کے دل اور ضمیر اور ان کے جذبات اللہ اور رسول کے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں نے کسی بات کو چھپا نہیں رکھا ، دھوکہ نہیں کرتے اور مدینہ میں رہ کر وہ حفاظت ، چوکیداری اور دار الاسلام کی دوسری خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو اسلامی ریاست کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ ایسے لوگ معذور ہونے کے ساتھ محسن بھی ہیں ان سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور نہ وہ قابل ملامت ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ارشاد ربانی ہے (لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الْمَرْضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ) کہ وہ لوگ جو ضعیف ہیں اور جو لوگ مریض ہیں اور جن کے پاس خرچ کرنے کو نہیں ہے ان پر غزوہ میں شریک نہ ہونے کا کوئی گناہ نہیں (اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ) جب کہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے سچے دل سے اور خلوص کے ساتھ حاضر ہوں، ان کا ایمان بھی سچا، اقرار بھی سچا، شرکت جہاد کے جذبات بھی سچے ہیں، مجبوری سے رہ گئے، ان کے دلوں میں پوری سچائی کے ساتھ یہ بات ہے کہ اگر ہمیں استطاعت ہوتی تو غزوہ میں ضرور شریک ہوتے۔ انہوں نے عذر بنایا نہیں تھا۔ واقعی معذور تھے۔ مزید فرمایا (مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ ) کہ جو لوگ نیکو کار ہیں ان پر کوئی الزام نہیں اور کوئی گرفت بھی نہیں (وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) اور اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے۔ مخلصین اور محسنین کی کوتاہی کو معاف فرما دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:“ لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ الخ ” یہاں ان عذروں کا بیان ہے جن کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہونے والے واقعی معذور ہیں۔ “ اَلضُّعَفَاء ” یعنی بوڑھے، بچے اور عورتیں نیز لنگڑے اور اندھے بھی اس میں شامل ہیں۔ “ وَ لَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ ” پہلے ان لوگوں کو ذکر تھا جو جسمانی طاقت کے فقدان کی وجہ سے معذور تھے یہاں مالی استطاعت نہ ہونے کا عذر بیان کیا گیا یعنی جن لوگوں کے پاس سامان جنگ اور سفر خرچ کے لیے روپیہ نہیں وہ بھی معذور ہیں۔ “ یعنی الفقراء العاجزین عن اھبه الغزو والجهاد فلا یجدون الزاد والراحلة والسلاح و مؤنة السفر ” (خازن ج 3 ص 111) “ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰه الخ ” یعی بشرطیکہ وہ شہر میں رہ کر فتنہ و فساد بپا نہ کریں اور مجاہدین کے بارے میں جھوٹی خبریں نہ اڑائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

91 کم طاقت اور ناتوانوں پر اور بیماروں پر جہاد سے رہ جانے میں کچھ گناہ نہیں اور نہ ان لوگوں پر کچھ گناہ ہے جن کے لئے سامانِ جہاد پر خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں بشرطیکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول سے خلوص و ہمدردی رکھیں اور خیرخواہی کرتے رہیں ایسے نکوکاروں پر کسی قسم کے الزام کی گنجائش نہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے یعنی جو لوگ واقعی معذور ہیں اگر یہ اسلام کی خیر خواہی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں تو ان پر بیٹھ رہنے میں کوئی حرج اور گناہ نہیں۔