Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 92

سورة التوبة

وَّ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲﴾

Nor [is there blame] upon those who, when they came to you that you might give them mounts, you said, "I can find nothing for you to ride upon." They turned back while their eyes overflowed with tears out of grief that they could not find something to spend [for the cause of Allah ].

ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ ... Nor (is there blame) on those who came to you to be provided with mounts, Mujahid said; "It was revealed about Bani Muqarrin from the tribe of Muzaynah." Ibn Abi Hatim recorded that Al-Hasan said that the Messenger of Allah said, لَقَدْ خَلَّفْتُمْ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا وَلاَ نِلْتُمْ مِنْ عَدُوَ نَيْلً إِلاَّ وَقَدْ شَرَكُوكُمْ فِي الاَْجْر Some people have remained behind you in Al-Madinah; and you never spent anything, crossed a valley, or afflicted hardship on an enemy, but they were sharing the reward with you. He then recited the Ayah, وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ... Nor (is there blame) on those who came to you to be provided with mounts, when you said: "I can find no mounts for you." This Hadith has a basis in the Two Sahihs from Anas, the Messenger of Allah said, إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا وَلاَ سِرْتُمْ سَيْرًا إِلاَّ وَهُمْ مَعَكُم Some people have remained behind in Al-Madinah and you never crossed a valley or marched forth, but they were with you. They said, "While they are still at Al-Madinah?" He said, نَعَمْ حَبَسَهُمُ الْعُذْر Yes, as they have been held back by a (legal) excuse. ... تَوَلَّواْ وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلاَّ يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَ they turned back, with their eyes overflowing with tears of grief that they could not find anything to spend. Then Allah says;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بےاختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کردیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ' تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں ' صحابہ کرام نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حَبَسَھُمْ الْعُذرُ (صحیح بخاری) ' عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے '

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] حقیقی معذوروں کی کیفیت & سواری مانگنے والے :۔ اس آیت میں ایسے حقیقی مومنوں کا ذکر ہے جن کے لیے شرعی عذر موجود تھا۔ یعنی اتنے طویل سفر کے لیے سواری کا بندوبست نہ تھا تاہم وہ جہاد پر جانے کے لیے بےچین تھے۔ وہ درخواست لے کر رسول اللہ کے پاس گئے کہ آپ سواری کا کوئی بندوبست کر دیجئے۔ اتفاق سے آپ کے پاس بھی اس وقت سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا لہذا آپ نے انہیں جواب دے دیا۔ جس سے انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ صدمہ صرف یہ تھا کہ شاید اب ہم جہاد پر نہ جاسکیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔ میں نے جا کر عرض کی && یا رسول اللہ ! میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ && آپ نے فرمایا && واللہ میں تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا۔ && آپ اس وقت غصہ میں تھے مگر میں سمجھا نہیں۔ میں غمگین ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ کے انکار کی اطلاع دی۔ مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ نے ہمیں سواری نہ دی اور دوسرا یہ کہ آپ کہیں مجھ سے خفا نہ ہوجائیں۔ مجھے واپس آئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا بلال (رض) مجھے پکار رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے && چلو ! رسول اللہ آپ کو بلا رہے ہیں۔ && میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا && یہ اونٹ کے جوڑے ہیں چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیئے ہیں انہیں کام میں لاؤ۔ && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک وہی غزوۃ العسرۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ نے تو سواری نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔ && آپ نے فرمایا && جب مجھے بہتر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں وہ کام کرلیتا ہوں اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ && (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ : یہ مخلص مسلمانوں کے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں نہیں تھیں اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سواریاں لینے کے لیے آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میرے پاس تمہیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس پر انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور ایسے روئے گویا آنکھیں پانی کے چشمے بن گئیں، جن سے آنسوؤں کی نالیاں رواں ہوں کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کہ ہم جہاد میں شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی گناہ سے بری قرار دیا کہ ان لوگوں پر اعتراض کا کوئی راستہ اور کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ محسنین ہیں۔ اس آیت پر ان لوگوں کو خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا و آخرت کے خزانوں کے مالک اور مختار کل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے اس فرمان کا ترجمہ کیا کریں گے : (لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ) ” میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کروں۔ “ ان بھائیوں کو اللہ کا خوف کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مالک الملک اور مختار کل کہہ کر اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ اللہ کے ہاں کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْہِ۝ ٠ ۠ تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ۝ ٩٢ ۭ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ فيض فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ دمع قال تعالی: تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة/ 92] . فالدّمع يكون اسما للسائل من العین، ومصدر دَمَعَتِ العینُ دَمْعاً ودَمَعَاناً. ( د م ع ) دمعت ( ف ) العین دمعا ودمعانا ۔ آنسو جاری ہونا ۔ قرآن میں ہے :َ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة/ 92] تو ہ لوٹ گئے ۔ اور اس غم سے ۔۔۔۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ الدمع اسم بھی آتا ہے جس کے معنی ہیں آنسو اور ( باب مذکور کا ) مصدر بھی ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے کہ جس وقت وہ آپ کے پاس جہاد کیلیے خرچ وسواری کے لیے آتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن معقل بن یسار اور سالم بن عمیر انصاری اور ان کے ساتھی اور آپ ان سے فرما دیتے ہیں کہ میرے پاس تو جہاد پر جانے کے لیے کوئی چیز نہیں تو آپ کے ہاں سے ناکام اس حالت میں واپس چلے جاتے ہیں کہ انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں، اس غم میں کہ ان کو سامان جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (وَّلاَ عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ) (تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ) یعنی وہ لوگ جو دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس مہم میں شریک ہوں ‘ مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے شرکت نہیں کر پا رہے تھے ‘ اپنی اس محرومی پر وہ واقعتا صدمے اور رنج و غم سے ہلکان ہو رہے تھے۔ ایک طرف ایسے مؤمنین صادقین تھے اور دوسری طرف وہ صاحب حیثیت (اُولُوا الطَّوْلِ ) لوگ جن کے پاس سب کچھ موجود تھا ‘ وسائل و ذرائع کی کمی نہیں تھی ‘ تندرست و توانا تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں نکلنے کو تیار نہیں تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :93 ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں ، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملًا خدمت نہ کرسکیں تو ان کے دل کو اتنا سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے ، ان کا شمار خدا کےہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہوگا اگرچہ انہوں نے عملا کوئی خدمت انجام نہ دی ہو ۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں ، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں ۔ یہی بات ہے جو غزوہ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم ۔ ” مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں“ ۔ صحابہ نے تعجب سے کہا” کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے؟“ فرمایا”ہاں ، مدینے ہی میں رہتے ہوئے ۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

72: روایات میں ہے کہ یہ سات انصاری صحابہ تھے۔ حضرت سالم بن عمیر، حضرت علبہ بن زید، حضرت عبدالرحمن بن کعب، حضرت عمرو بن الحمام، حضرت عبداللہ مغفل، حضرت ہرمی بن عبداللہ اور حضرت عرباض بن ساریہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)۔ انہوں نے غزوۂ تبوک میں شامل ہونے کے لئے اپنے شوق کا اظہار فرمایا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست پیش کی۔ جب آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی سورای نہیں ہے تو یہ روتے ہوئے واپس گئے۔ (روح المعانی)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٢۔ صحیح بخاری میں ابوموسیٰ اشعری (رض) کی روایت سے جو اس آیت کی شان نزول اور تفسیر بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) اپنے قبیلہ کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سے لڑائی پر جانے کے لئے سواری عطا فرمانے کی خواہش پیش کی اس وقت آپ کچھ غصہ میں تھے اس غصہ کی حالت میں آپ نے قسم کھائی سواری کے نہ دینے کی پھر کچھ اونٹ مال غنیمت کے کہیں سے آگئے اور آپ نے ان لوگوں کو پھر بلایا اور چھ اونٹ ان کو دئے پہلے یہ لوگ اونٹ لے کر چلے پھر ان کے خیال آیا کہ آنحضرت کو آپ کی قسم یاد دلا دینی چاہئے ایسا نہ ہو کہ آپ نے قسم کی حالت کو بھول کر ہم کو یہ اونٹ دئے ہوں اس خیال سے یہ لوگ راستہ میں سے پلٹے اور آپ کو قسم کی حالت یاد دلائی تو آپ نے فرمایا جاؤ تمہیں اللہ نے سواری دی میں جب قسم کھاتا ہوں اور جس کام پر وہ قسم ہو اس سے بہتر کوئی کام مجھ کو نظر آتا ہے تو قسم کا کفارہ دے کر اس بہتر کام کو میں کرلیتا ہوں اس آیت کی تفسیر اور شان نزول اس حدیث کو اس سبب سے کہا گیا کہ یہ آیت تو بلا اختلاف جنگ تبوک کے واقعہ کے بیان میں ہے اور اس حدیث کو بھی امام بخاری علیہ الرحمتہ نے غزوہ تبوک میں روایت کیا ہے اور اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ ان اشعری لوگوں کا آنحضرت سے سواری مانگنے کو آنا جنگ تبوک کے وقت تھا اس لئے آیت اور حدیث کا قصہ ایک ہی قصہ ہے امام بخاری نے جنگ تبوک میں تو ابوموسیٰ اشعری (رض) کی اس حدیث کو مختصر طور پر روایتوں کے دیکھنے سے آیت کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے اسی واسطے ان سب روایتوں کا حاصل ایک جگہ کیا اور جاکر آیت کی تفسیر میں بیان کردیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:92) اتوک۔ ماضی جمع مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ وہ تیرے پاس آئے۔ لتحملہم کہ تو ان کو سواری مہیا کرے۔ حمل سے جمع مذکر حاضر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر۔ تفیض۔ وہ بہتی ہے وہ جاری ہے۔ فیض سے باب ضرب۔ اس کا استعمال اگر آنسو اور پانی کے لئے ہو تو اس کا معنی جاری ہونے اور بہنے کے آتے ہیں۔ الدمع۔ آنسو۔ اشک۔ دموع جمع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 متعدد صحیح روایات میں ہے کہ یہ انصار (رض) کے مختلف قبیلوں کے ساٹھ آدمی تھے جو جہاد میں شرکت کے شوق میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے مگر چونکہ سواریوں کی انتظام نہ تھا اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جہاد میں شرکت سے معذور قراردے دیا اس پر وہ دلوں میں حسرت لئے روتے ہوئے واپس ہوگئے جیسا کہ اس آیت میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ ( فتح القدیر وغیر ہ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس طرح جنگی قوت رکھنے والے لیکن سواری نہ رکھنے والے بھی معذور ہوں گے جو پیادہ اس دور دراز سفر پر نہیں جاسکتے تھے۔ ایسے لوگ مجبوراً رہ گئے لیکن ان کے دل پھٹے جا رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ وہ مجبوراً اس اعزاز سے محروم ہورہے ہیں۔ جہاد کی سچی چاہت کی یہ کس قدر اچھی تصویر کشی ہے۔ دلی رنج و الم کو کن خوبصورت الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔ رسول اللہ کے زمانے میں بعض عملی واقعات کی یہ اس آیت میں تصویر کھینچی گئی ہے۔ مختلف روایات میں مختلف فدایان اسلام کا ذکر ہے لیکن یہ سب اس آیت کا صحیح مصداق ہیں۔ وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ۠ تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ : " اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود اگر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتطام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے " عوفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے " یہ کہ رسول اللہ نے حکم دیا کہ لوگ آپ کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ایک جماعت آپ کے پاس آئی جن میں عبداللہ ابن مغفل ابن مقوی المازنی بھی تھا۔ تو انہوں نے مطالبہ کیا رسول خدا ہمیں سواری عنایت کیجیے ، تو حضور نے فرمایا خدا کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ میں تمہاری سواری کا بندوبست کروں۔ یہ لوگ واپس ہوئے اور ان کی آنکھوں سے انسو جاری تھے۔ ان کے لیے یہ بات بہت ہی گراں تھی کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ جائیں لیکن کوئی نفقہ اور سواری نہیں ہے۔ جب اللہ نے دیکھا کہ ان کو اللہ اور رسول اللہ سے کس قدر محبت ہے تو ان کے اعزاز میں یہ آیت نازل ہوئی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ یہ مزینہ کے بنی مقرن کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ محمد ابن کعب فرماتے ہیں کہ یہ سات آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بنی عمر ابن عوف کے سالم ابن عوف ، بنی وافق سے حری ابن عمر ، بنی مازن ابن نجار سے ، عبدالرحمن ابن کعب جس کی کنیت ابویعلی ہے ، بنی معلی سے فضل اللہ بنی سلمہ سے عمر ابن عتمہ اور عبداللہ ابن عمر المزنی۔ ابن اسحاق نے واقعات غزوہ تبوک میں کہا ہے " اس کے بعد مسلمانوں میں سے بعض لوگ رسول اللہ کے پاس آئے ، یہ لوگ انصار وغیرہ کے ساتھ آدمی تھے۔ بنی عمر ابن عوف سے سالم ابن عمیر اور علیہ ابن زید بنی حارثہ کے بھائی اور ابعیعلی عبدالرحمن ابن کعب بنی مازن کے بھائی اور عمرو بن حمام ابن جموح بنی سلمہ کے بھائی ، عبداللہ ابن مغل مزنی ، بعض نے اسے عبداللہ ابن عمر مزنی بتایا ہے۔ حرمی ابن عبداللہ ، بنی وافق کے بھائی اور عیاض ابن ساریہ الفزاری تو ان لوگوں نے رسول اللہ سے سواری کا مطالبہ کیا اور یہ لوگ فی الواقع غریب تھے تو حضور نے فرمایا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں کہ میں تمہاری سواری کا بندوبست کردوں۔ یہ لوگ واپس ہوگئے اور حال یہ تھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ سواری نہ ملنے پر یہ لوگ دکھیا تھے۔ یہ روح اور جذبہ تھا جس کی وجہ سے اسلام غالب ہوا۔ اور ان قربانیوں کی وجہ سے اسلام کا جھنڈا بلند ہوا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں کے مقابلے میں ہماری حالت کیا ہے۔ ہمیں اپنے جذبہ اسلام کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں اگر کمزوری نر آئے تو ہمیں اللہ کے سامنے دست بدعا ہونا چاہیے کہ ہماری یہ کمزوری دور کردے۔ اور ہمیں اسلامی جہاد کے جذبے سے اس طرح سرشار کردے جس طرح صحابہ کرام تھے۔ واللہ المستعان۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَّ لَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَھُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ) (اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں جو آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دے دیں ان کے جواب میں آپ نے فرما دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کرا دوں) ۔ البدایہ و النہایۃ (ص ٥ ج ٥) میں لکھا ہے کہ سات افراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سواری طلب کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک سالم بن عمیر، دوسرے علبہ بن زید، تیسرے ابو لیلی عبدالرحمن بن کعب چوتھے عمرو بن الحمام، پانچویں عبداللہ بن معلق چھٹے حرمی بن عبداللہ اور ساتویں عرباض بن ساریہ (رض) تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اپنے دل سے پوری طرف تیار ہیں آپ کے ساتھ سفر میں جانا چاہتے ہیں لیکن سواری نہ ہونے سے مجبور ہیں آپ ہمیں سواری عنایت فرما دیں (قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ) آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی سامان نہیں تاکہ تمہارے لیے سواری کا نتظام کر دوں۔ (تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ) (وہ اس حال میں واپس ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے اس وجہ سے آنسو بہ رہے تھے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے نہیں پاتے) اول تو یہ حضرات معذور تھے واقعی معذوری ہی جہاد میں شرکت نہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ اور واقعی عذر کو بھی عذر نہ سمجھا۔ اور انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جائیں اور خود پیچھے رہ جائیں۔ وہ خدمت عالی میں حاضر ہوئے کہ ہمارے لیے سواری کا انتظام فرما دیں۔ جب آپ نے فرما دیا کہ میرے پاس کوئی انتظام نہیں ہے تو اس پر بھی بس نہ کیا اور اپنے دلوں میں یوں نہ کہا کہ اب تو ہم نے اپنی آخری کوشش کرلی اب جہاد میں نہ گئے تو کیا حرج ہے ؟ وہ اپنی معذوری والی مجبوری پر رنجیدہ ہو رہے تھے۔ اور رنج بھی معمولی نہیں۔ ان کے چہروں پر آنسوؤں کی لڑی تھی اور وہ اس رنج میں گھلے جا رہے تھے کہ ہائے ہمارے پاس انتظام نہیں ہے انتظام ہوتا تو ہم ضرور ساتھ جاتے۔ اس موقعہ پر جہاں وہ لوگ موجود تھے جو جھوٹے عذر بنا بنا کر پیچھے ہٹ رہے تھے، ان میں وہ حضرات بھی تھے جو عذر ہوتے ہوئے بھی جہاد کی شرکت کے لیے تڑپ رہے تھے۔ حضرات صحابہ کرام (رض) نے امت کے لیے کیسی کیسی قابل اقتداء روایات چھوڑی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے بعض حضرات کے لیے سواری کا انتظام فرما دیا۔ اور بعض حضرات کے لیے انتظام کی صورت یہ ہوئی کہ ابو لیلیٰ عبدالرحمن بن کعب اور عبداللہ بن مفغل (رض) کی راستہ میں یامین بن عمیر نضری (رض) سے ملاقات ہوگئی۔ یہ دونوں روتے ہوئے جا رہے تھے۔ یامین نے دریافت کیا تم کیوں رو رہے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا کہ ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں تاکہ آپ کے ساتھ سفر میں جائیں۔ آپ ہمارے لیے سواری کا انتظام فرما دیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی سواری نہیں تھی جو عنایت فرما دیتے ہمارا رونا اسی وجہ سے ہے کہ شرکت جہاد سے رہے جا رہے ہیں۔ اس پر یامین نے اپنی ایک اونٹنی پیش کردی اور اپنے پاس سے بطور توشہ کھجوریں بھی دے دیں اور علبہ بن زید کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ رات کو نماز پڑھتے رہے اور روتے رہے اور یوں دعا کی کہ اے اللہ آپ نے جہاد کا حکم فرمایا اور اس میں شریک ہونے کی ترغیب دی پھر مجھے مال نہیں دیا جس سے میں جہاد کی شرکت کے لیے قوت حاصل کرلیتا اور نہ آپ نے اپنے رسول کو (اس وقت) مال عطا فرمایا تاکہ میرے لیے سواری کا انتظام فرما دیتے۔ اب میں جہاد سے محرومی کے بدلہ میں یہ کرتا ہوں کہ جس کسی مسلمان سے مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہے یا کسی کا مجھ پر کوئی مالی حق ہے میں اسے معاف کرتا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال فرمایا کہ اس رات کس نے صدقہ دیا۔ کسی نے بھی جواب نہ دیا، آپ نے فرمایا آج رات جس نے صدقہ دیا ہو وہ کھڑا ہوجائے اس پر علبہ بن زید کھڑے ہوئے اور اپنا حال بنایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم خوشخبری قبول کرو، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تمہارے لیے مقبول زکوٰۃ کا ثواب لکھا گیا۔ غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعری کے قبیلے کے چند افراد نے بھی حضرت ابو موسیٰ کے واسطہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں درخواست پیش کی تھی کہ ہمارے لیے سواری کا انتظام کیا جائے اس وقت آپ نے ان کے لیے چھ اونٹوں کا انتظام فرما دیا۔ (ایضا ص ٦ ج ٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:“ وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ الخ ” اسی طرح ان لوگوں پر بھی تخلف عن الجہاد کی وجہ سے گناہ نہیں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئ ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کا انتظام فرمائیں لیکن سواری نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر زور و قطار رونے لگے اس لیے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہوسکیں گے اور اس کے اجر سے محروم ہوجائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ اور الزام ہے جو آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے کہ آپ ان کو کوئی سواری دے دیں اور آپ نے بطور معذرت ان سے فرمایا کہ میں اپنے پاس کوئی سواری نہیں پاتا جس پر تم کو سوار کردوں تو وہ آپ کا جواب سن کر واپس گئے اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہ رہے تھے کہ ان کے پاس جہاد کی تیاری کے لئے خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں۔ یعنی ایسے فقراء پر بھی کوئی الزام نہیں کہ جو سواری تک کے لئے بھی کوئی پیسہ نہیں رکھتے اس توقع میں آئے کہ پیغمبر کے پاس سے سواری مل جائے گی لیکن یہاں بھی سواری نہ ملی تو زار و قطارروتے ہوئے اس رنج و افسوس میں واپس ہوئے کہ نہ اپنے پاس نفقہ تھا اور نہ کہیں سے ملا۔