Commentary Mentioned in the previous verses were hypocrites who came up with false excuses at the time Jihad forces were getting ready to march out and succeeded in being allowed to stay behind. The present verses mention those who visited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) after his return from Jihad and offered false excuses for their absence from it. These verses had been revealed befor... e his return to Madinah and had told him beforehand about the forthcoming event, that is, the hypocrites will come to him as soon as he reaches Madinah and will of¬fer their excuses. And so it happened. Three instructions about them have been given to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم in the verses cited above. These are as follows: 1. When they come to make excuses, they should be told that they do not have to make false excuses for they were not going to be believed in their word. Allah Ta` ala had already told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the condition of their thinking and doing including the details of their wicked plans and secret intentions. This was enough to prove that they were liars, therefore, offering excuses makes no sense. After that, it was said: وَسَيَرَى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ (And Allah will see what you do...). Here, respite has been given to them so that they could still make their Taubah (repentance), renounce Nifaq (hypocrisy) and become true Mus¬lims - because, the wording of the text stipulates that Allah and His Messenger shall see what they do and how they do it. In other words, action shall be taken in consonance with their behavior pattern. If they repented sincerely and became true Muslims, their sins shall stand forgiven. Otherwise, these false excuses were not going to do them any good. Show more
خلاصہ تفسیر یہ لوگ تمہارے ( سب کے) سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے، ( سو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ( سب کی طرف سے صاف) کہہ دیجئے کہ ( بس رہنے دو ) یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے ( کیونکہ) اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری ( واقعی حالت کی) خبر دے چکے ہیں ( کہ ت... م کو کوئی عذر صحیح نہ تھا) اور ( خیر) آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے ( معلوم ہوجائے گا کہ حسب زعم خود کتنے مطیع اور مخلص ہو) پھر ایسے کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے ( جس سے تمہارا کوئی اعتقاد کوئی عمل مخفی نہیں) پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے ( اور اس کا بدلہ دے گا) ہاں وہ اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاویں گے ( کہ ہم معذور تھے) جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ( اور ملامت وغیرہ کرو) سو تم ( ان کا مطلب پورا کردو اور) ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ( اس غرض فانی کے حاصل ہونے سے ان کا کچھ بھلا نہ ہوگا، کیونکہ) وہ لوگ بالکل گندے ہیں اور ( اخیر میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کاموں کے بدلہ میں جو کچھ وہ ( نفاق و خلاف وغیرہ) کیا کرتے تھے ( نیز اس کا بھی مقتضا ہے کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے، کیونکہ تعرض سے مقصود اصلاح اور اس کی ان کے خبث سے امید نہیں اور نیز) یہ اس لئے قسمیں کھاویں گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ سو ( اول تو تم دشمنان خدا سے راضی ہی کیوں ہونے لگے لیکن بالفرض) اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو ( انکو کیا نفع کیونکہ) اللہ تعالیٰ تو ایسے شریر لوگوں سے راضی نہیں ہوتا ( اور بدون رضائے خالق کے رضائے خلق محض بےسود ہے ) ۔ معارف و مسائل پہلی آیات میں ان منافقین کا ذکر تھا جنہوں نے غزوہ تبوک میں نکلنے سے پہلے جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد میں جانے سے عذر کردیا تھا، مذکور الصدر آیات میں ان کا ذکر ہے، جنہوں نے جہاد سے واپسی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی جہاد سے غیر حاضری کے جھوٹے عذر پیش کئے، یہ آیات مدینہ طیبہ واپس آنے سے پہلے نازل ہوچکی تھی جن میں اس آئندہ پیش آنے والے واقعہ کی خبر تھی کہ جب آپ مدینہ واپس پہونچیں گے تو منافقین عذر کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں گے، چناچہ اسی طرح واقعہ پیش آیا۔ آیات مذکورہ میں ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین حکم دیئے گئے۔ اول یہ کہ جب یہ عذر کرنے کے لئے آئیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ فضول جھوٹے عذر نہ کرو، ہم تمہاری بات کی تصدیق نہ کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ہمیں تمہارے سب حالات اور خیالات اور تمہاری شرارت اور دلوں میں چھپے ہوئے خفیہ ارادے سب بتلا دیئے ہیں، جس سے تمہارا جھوٹا ہونا ہم پر واضح ہوگیا، اس لئے عذر بیان کرنا فضول ہے، اس کے بعد فرمایا (آیت) وَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ ، اس میں ان کو مہلت دی گئی کہ اب بھی توبہ کریں نفاق چھوڑ کر سچے مسلمان ہوجائیں، کیونکہ اس میں یہ فرمایا کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہارا عمل دیکھیں گے کہ وہ کیا اور کیسا رہتا ہے اس کے مطابق عمل ہوگا، اگر تم توبہ کر کے سچے مسلمان ہوگئے، تو تمہارے گناہ معاف ہوجاویں گے ورنہ یہ جھوٹے حیلے بہانے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیں گے۔ Show more