Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 94

سورة التوبة

یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ؕ وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۴﴾

They will make excuses to you when you have returned to them. Say, "Make no excuse - never will we believe you. Allah has already informed us of your news. And Allah will observe your deeds, and [so will] His Messenger; then you will be taken back to the Knower of the unseen and the witnessed, and He will inform you of what you used to do."

یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے اللہ تعالٰی ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے پھر ایسے کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے پھر وہ تم کو بتا دے گا جو کچھ تم کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Exposing the Deceitful Ways of Hypocrites Allah tells; يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ... They (the hypocrites) will present their excuses to you (Muslims), when you return to them. Allah said that when the believers go back to Al-Madinah, the hypocrites will begin apologizing to them. ... قُل لاَّ تَعْتَذِرُواْ لَن نُّوْمِنَ لَكُمْ ... Say "P... resent no excuses, we shall not believe you." we shall not believe what you say, ... قَدْ نَبَّأَنَا اللّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ... Allah has already informed us of the news concerning you. Allah has exposed your news to us, ... وَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ... Allah and His Messenger will observe your deeds. your actions will be made public to people in this life, ... ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ In the end you will be brought back to the All-Knower of the unseen and the seen, then He (Allah) will inform you of what you used to do. Allah will inform you of your deeds, whether they were good or evil, and will recompense you for them. Then Allah says;   Show more

فاسق اور چوہے کی مماثلت اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میدان جہاد سے واپس مدینے پہنچو گے تو سبھی منافق عذر و معذرت کرنے لگیں گے ۔ تم ان سے صاف کہہ دینا کہ ہم تمہاری ان باتوں میں نہیں آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری نیتوں سے ہمیں خبردار کر دیا ہے ۔ دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت س... ب لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا ۔ پھر آخرت میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہی ہے وہ ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ۔ تمہارے ایک ایک کام کا بدلہ دے گا خیر و شر کی جزا ، سزا سب بھگتنی پڑے گی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تم کو راضی کرنے کے لے اپنی معذوری اور مجبوری کو سچ ثابت کرنے کے لئے قسمیں تک کھائیں گے ۔ تم انہیں منہ بھی نہ لگانا ۔ ان کے اعتقاد نجس ہیں ان کا باطن باطل ہے ۔ آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے ۔ سن ان کی خواہش صرف تمہیں رضامند کرنا ہے اور بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ ۔ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے کبھی راضی نہیں ہو گا ۔ یہ اللہ و رسول کی اطاعت سے باہر ہیں ۔ شریعت سے خارج ہے ۔ چوہا چونکہ بل سے بگاڑ کرنے کے لئے نکلتا ہے اس لئے عرب اسے فویسقہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح خوشے سے جب تری ظاہر ہوتی ہے تو کہتے ہیں فسقت الرطبۃ پس یہ چونکہ اللہ و رسول کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں اس لئے انہیں فاسق کہتے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] عذر اور توبہ کے سچا ہونے کا معیار آئندہ کا عمل ہے :۔ کچھ منافق تو ایسے تھے جنہوں نے غزوہ تبوک پر روانگی سے پہلے ہی حیلے بہانے بنا کر آپ سے رخصت طلب کرلی تھی۔ اور بہت سے ایسے تھے جو رخصت کے بغیر ہی مدینہ میں رہ گئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ آپ واپس آئیں تو معذرت کرلی جائے۔ چناچہ جب آپ واپس ... آئے تو منافقین آنے لگے اور اپنے اپنے بہانے پیش کرنے لگے۔ آپ نے انہیں اللہ کی ہدایت کے مطابق کہہ دیا کہ پہلے جو کچھ تم نے کیا ہے وہ ہمیں معلوم ہوچکا ہے۔ اب آئندہ کے طرز عمل کی فکر کرو۔ تمہارا آئندہ کا طرز عمل ہی اس چیز کی وضاحت کرے گا کہ تم ان بہانوں میں کہاں تک سچے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ : جیسا کہ پہلے گزرا کہ یہ سلسلۂ آیات تبوک سے واپسی پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے ہی ان کے جھوٹے بہانوں کی اطلاع دے دی اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ان سے کہہ دو کہ بہانے مت تراشو، ہم کسی صورت تمہارا اعتبار نہیں کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ... نے ہمیں تمہاری کچھ خبریں بتادی ہیں۔ اب دیکھا جائے گا کہ تمہارا آئندہ رویہ کیا رہتا ہے، آیا تم موجودہ روش سے باز آتے ہو یا اسی پر جمے رہتے ہو۔ وَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ : یہ عبارت یوں بھی ہوسکتی تھی کہ ” وَ سَیَرَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ عَمَلَکُمْ “ کہ عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھیں گے، مگر مفعول ” عَمَلَكُمْ “ کو ” وَرَسُوْلُهٗ “ سے پہلے لانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اصل دیکھنے والا اور نگرانی کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہ ظاہر و باطن سے واقف ہے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول بھی تمہارا عمل جو سامنے ہوگا دیکھیں گے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر ظاہری عمل سے مطمئن کر بھی لو اور تمہاری دلی کیفیت درست نہیں تو پھر تمہیں غائب و حاضر کو جاننے والے کے سامنے بھی حاضر ہونا ہے اور وہ تمہیں تمہاری اصل حقیقت سے آگاہ کرے گا۔ بعض شرک کے بیماروں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات سے واقف ہے اور اس کا رسول بھی، کیونکہ اس آیت کے مطابق وہ دونوں سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ آیت کا مطلب تو اوپر بیان ہوچکا ہے مگر یہ حضرات اسی سورت کی آیت (١٠٥) کا کیا کریں گے کہ جس میں ہے : ” اور کہہ دے تم عمل کرو پس عنقریب اللہ تمہارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے بھی۔ “ تو کیا اللہ کے سوا رسول اور مومنین بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ہر بات سے واقف ہیں ؟ مومن ہونے کا خیال تو ان حضرات کا اپنے بارے میں بھی ہوگا، ذرا اپنی حیثیت اور علم کی رسائی پر غور فرما لیں تو بہت جلد بات سمجھ میں آجائے گی۔ سورة نمل کی آیت (٦٥) اور اعراف کی آیت (١٨٨) پر بھی ایک نظر ڈال لیں اور اسی سورة توبہ کی آیت (١٠١) (لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ) پر بھی غور فرما لیں۔ ان آیات میں منافقین کو اخلاص کی طرف پلٹنے کی دعوت بھی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ منافقین کو بھی اسی طرح بار بار بلاتا ہے کہ ہاں عمل کرو ہم تمہاری نگرانی کر رہے ہیں، اگر پلٹ آؤ گے تو ہم معاف کردیں گے اور فی الواقع کئی منافقین اخلاص کی دولت سے سرفراز بھی ہوئے۔ دیکھیے سورة توبہ (٦٦) اور نساء (٤٤، ٤٥) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verses were hypocrites who came up with false excuses at the time Jihad forces were getting ready to march out and succeeded in being allowed to stay behind. The present verses mention those who visited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) after his return from Jihad and offered false excuses for their absence from it. These verses had been revealed befor... e his return to Madinah and had told him beforehand about the forthcoming event, that is, the hypocrites will come to him as soon as he reaches Madinah and will of¬fer their excuses. And so it happened. Three instructions about them have been given to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم in the verses cited above. These are as follows: 1. When they come to make excuses, they should be told that they do not have to make false excuses for they were not going to be believed in their word. Allah Ta` ala had already told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the condition of their thinking and doing including the details of their wicked plans and secret intentions. This was enough to prove that they were liars, therefore, offering excuses makes no sense. After that, it was said: وَسَيَرَ‌ى اللَّـهُ عَمَلَكُمْ (And Allah will see what you do...). Here, respite has been given to them so that they could still make their Taubah (repentance), renounce Nifaq (hypocrisy) and become true Mus¬lims - because, the wording of the text stipulates that Allah and His Messenger shall see what they do and how they do it. In other words, action shall be taken in consonance with their behavior pattern. If they repented sincerely and became true Muslims, their sins shall stand forgiven. Otherwise, these false excuses were not going to do them any good.  Show more

خلاصہ تفسیر یہ لوگ تمہارے ( سب کے) سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے، ( سو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ( سب کی طرف سے صاف) کہہ دیجئے کہ ( بس رہنے دو ) یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے ( کیونکہ) اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری ( واقعی حالت کی) خبر دے چکے ہیں ( کہ ت... م کو کوئی عذر صحیح نہ تھا) اور ( خیر) آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے ( معلوم ہوجائے گا کہ حسب زعم خود کتنے مطیع اور مخلص ہو) پھر ایسے کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے ( جس سے تمہارا کوئی اعتقاد کوئی عمل مخفی نہیں) پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے ( اور اس کا بدلہ دے گا) ہاں وہ اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاویں گے ( کہ ہم معذور تھے) جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ( اور ملامت وغیرہ کرو) سو تم ( ان کا مطلب پورا کردو اور) ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ( اس غرض فانی کے حاصل ہونے سے ان کا کچھ بھلا نہ ہوگا، کیونکہ) وہ لوگ بالکل گندے ہیں اور ( اخیر میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کاموں کے بدلہ میں جو کچھ وہ ( نفاق و خلاف وغیرہ) کیا کرتے تھے ( نیز اس کا بھی مقتضا ہے کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاوے، کیونکہ تعرض سے مقصود اصلاح اور اس کی ان کے خبث سے امید نہیں اور نیز) یہ اس لئے قسمیں کھاویں گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ سو ( اول تو تم دشمنان خدا سے راضی ہی کیوں ہونے لگے لیکن بالفرض) اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو ( انکو کیا نفع کیونکہ) اللہ تعالیٰ تو ایسے شریر لوگوں سے راضی نہیں ہوتا ( اور بدون رضائے خالق کے رضائے خلق محض بےسود ہے ) ۔ معارف و مسائل پہلی آیات میں ان منافقین کا ذکر تھا جنہوں نے غزوہ تبوک میں نکلنے سے پہلے جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد میں جانے سے عذر کردیا تھا، مذکور الصدر آیات میں ان کا ذکر ہے، جنہوں نے جہاد سے واپسی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی جہاد سے غیر حاضری کے جھوٹے عذر پیش کئے، یہ آیات مدینہ طیبہ واپس آنے سے پہلے نازل ہوچکی تھی جن میں اس آئندہ پیش آنے والے واقعہ کی خبر تھی کہ جب آپ مدینہ واپس پہونچیں گے تو منافقین عذر کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں گے، چناچہ اسی طرح واقعہ پیش آیا۔ آیات مذکورہ میں ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین حکم دیئے گئے۔ اول یہ کہ جب یہ عذر کرنے کے لئے آئیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ فضول جھوٹے عذر نہ کرو، ہم تمہاری بات کی تصدیق نہ کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ہمیں تمہارے سب حالات اور خیالات اور تمہاری شرارت اور دلوں میں چھپے ہوئے خفیہ ارادے سب بتلا دیئے ہیں، جس سے تمہارا جھوٹا ہونا ہم پر واضح ہوگیا، اس لئے عذر بیان کرنا فضول ہے، اس کے بعد فرمایا (آیت) وَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ ، اس میں ان کو مہلت دی گئی کہ اب بھی توبہ کریں نفاق چھوڑ کر سچے مسلمان ہوجائیں، کیونکہ اس میں یہ فرمایا کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہارا عمل دیکھیں گے کہ وہ کیا اور کیسا رہتا ہے اس کے مطابق عمل ہوگا، اگر تم توبہ کر کے سچے مسلمان ہوگئے، تو تمہارے گناہ معاف ہوجاویں گے ورنہ یہ جھوٹے حیلے بہانے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیں گے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللہُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ۝ ٠ ۭ وَسَيَرَى اللہُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٩٤ عذر ...  العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه . ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب : إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر : 313- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل : المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها . ( ع ذ ر ) العذر ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے خبر الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة « وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها . ( خ ب ر ) الخبر ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس ثمَ ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و : ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] فهو في موضع المفعول ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے شَّهَادَةُ : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف/ 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٤) غزوہ تبوک سے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ واپس تشریف لائیں گے تو یہ آپ کے سامنے عذر پیش کریں گے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں جاسکتے تھے، لہذا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو صاف بتادیں کہ بس عدم شرکت کا بہانہ نہ پیش کرو جو تم باتیں کہتے ہو ہم کبھی تمہیں سچا نہیں جانیں گے ... کہ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تمہاری اصل حالت اور تمہارے نفاق کے بارے میں اطلاع کرچکے ہیں۔ البتہ اس کے بعد بھی اگر تم توبہ کرلو گے تو تمہارے اعمال دیکھ لیں گے اور پھر آخرت میں اس کے پاس لوٹ کرجاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے اور پھر وہ تمہیں تمہاری نیکی اور بدی سب بتا دے گا، غیب جو بندوں سے چھپا ہوا یا یہ کہ جس کو بندے نہ جان سکیں یا یہ کہ جو ہوگا اور شہادہ جس کو بندے جانتے ہیں یا یہ کہ جو ہوچکا ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْہِمْ ط) یَعْتَذِرُوْنَچونکہ فعل مضارع ہے اس لیے اس کا ترجمہ حال میں بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل میں بھی۔ اگر تو یہ آیات تبوک سے واپسی کے سفر کے دوران نازل ہوئی ہیں تو ترجمہ وہ ہوگا جو اوپر کیا گیا ہے ‘ لیکن اگر ان کا نزول رسول اللہ (صلی اللہ عل... یہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ہوا ہے تو ترجمہ یوں ہوگا : بہانے بنا رہے ہیں وہ تمہارے پاس آکر جب تم لوگ ان کے پاس لوٹ کر آگئے ہو (قُلْ لاَّ تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنْ اَخْبَارِکُمْ ط) ۔ مہم پر جانے سے قبل تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبعی شرافت اور مروّت کے باعث منافقین کے جھوٹے بہانوں پر بھی سکوت فرماتے رہے تھے ‘ لیکن اب چونکہ بذریعہ وحی ان کے جھوٹ کے سارے پردے چاک کردیے گئے تھے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب آپ ڈنکے کی چوٹ ان سے کہہ دیجیے کہ اب ہم تمہاری کسی بات پر یقین نہیں کریں گے ‘ کیونکہ اب اللہ تعالیٰ نے تمہاری باطنی کیفیات سے ہمیں مطلع کردیا ہے ۔ (وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ ) یعنی آئندہ تمہارے طرزعمل اور رویے (attitude) کا جائزہ لیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:94) یعتذرون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ اعتذار (افتعال) مصدر۔ وہ معذرت کریں گے۔ وہ بہانے بنائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1: " کہ آئندہ تمہارا رویہ کیسا رہتا ہے ؟ آیا تم موجودہ روش سے باز آتے ہو یا اسی پر جمے رہتے ہو " فالمفعول الثانی محذوف۔ یہ وعید ہے اور " ورسولہ " فاعل پر مفعول کی تقدیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وعید کا مدار اللہ تعالیٰ کا علم ہے (روح) 2 ۔ پھر جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسا ہی تمہیں ان کا بدلہ م... لے گا۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٩٤ تا ٩٩ اسرار و معارف منافقین کا قاعدہ ہی یہی ہے کہ جب آپ واپس جائیں گے تو معذرت کرنے حاضر ہوجائیں گے اور مختلف بہانے کریں گے حضور ! ہم تو خادم ہیں بس فلاں مجبوری درمیان آگئی اور جب ایمان کمزور ہو یہی حال ہوتا ہے جیسے آج بھی کوئی مصروفیت یا تھوڑی بہت بیماری ہی آجائے تو لوگ سب سے پہلے نماز کو ... خیر یاد کہتے ہیں یعنی مصر وفیات کا سب سے کمزور حصہ دین ہی ہے۔ مگر لوگوں کے سامنے یہ بات قبول کرنا پسند نہیں کرتے اور حیلے بہانے تراشتے رہتے ہیں تو آپ فرمادیجئے ! کہ ہمیں تو اللہ نے تمہاری سب باتیں بتاوی ہیں ۔ یہ صورت یقنی طور پر تو صرف وحی کے سبب تھی مگر دک کی بات دل کو پہنچ ضرور جاتی ہے ۔ اگر چہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی پر اپنے قیاس سے منافق ہونے کا فتوی نہیں دیا جاسکتا ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ ہر شخص کو خود اپنے کردار سے اندازہ کرکے اپنی اصلاح کی فکر ضرور کرنا چاہیئے ۔ تو فرمادیجئے ! قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ۔ تمہارا کردار اللہ جل جلانہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہے جسے تم خود بھی جان رہے ہو اور اسی کے مطابق فیصلے صادر ہوں گے اگر تمہیں توبہ نصیب ہو اور تم اپنی اصلاح کرلوتو کوئی منع نہیں کرتا نہ کروگے تو قسمیں فائدہ نہیں دیں گی کہ اگر دنیا میں زیادہ باتیں بناکر اپنی پردہ پوشی کر بھی لی تو آخرتمھیں اس عظیم ذات کے روبرو کھڑے ہونا ہے جو ظاہر وفائب سب جانتا ہے جو تمہیں تمہاری ایک ایک بات اور ایک ایک عمل یاد دلائے گا جس کا علم اتنا مکمل ہے کہ تم خود کرکے بھول سکتے ہو مگر اس کی نگاہ سے چھپ سکتا ہے نہ اسے بھول سکتا ہے ۔ آپ کی واپسی پہ تو یہ اللہ کی قسمیں بھی کھائیں گے مگر مقصد صرف اپنی پردہ پوشی ہوگا کہ آپ ان سے درگزرفرمائیں اور یہ سر عام رسوائی سے بچ سکیں ۔ آپ بیشک ان سے درگزر فرمائیں اس لئے کہ جب یہ قسمیں اٹھا رہے ہیں تو آپ کی شان سے بعید ہے کہ انکار فرمائیں مگر ان کا بھلا نہ ہوگا کہ یہ نحبس اور ناپاک لوگ ہیں ان کے دلوں میں نجاست بھری ہے لہٰذا ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہی ان کے کردار کی پاداش ہے۔ شیخ کے ساتھ خلوص نہ ہو تو بظاہر خوش کرنے سے ترقی نصیب نہیں ہوتی یہی حال شیخ کی برکات کا ہے کہ اگر کسی طالب میں خلوص اور اطاعت مفقودہوتو بظاہر خوش رکھنے کے حیلے کرکے دھوکہ تو دے سکتا ہے مگر اسے ترقی نصیب نہیں ہوتی اگر وقتی طور پر کچھ مراقبات نصیب بھی ہوں تو شیخ سے الگ ہوتے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور انجام کار خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ کہ ظاہری باتیں حیلے اور قسمیں کھاتے ہیں کہ آپ ان سے خوش ہوجائیں ۔ اگر چرب زبانی سے اور قسمیں کھاکھا کر آپ کو راضی بھی کرلیں تو بھی ایسے بدکار لوگوں سے اللہ راضی نہ ہوگا ۔ حالانکہ رضائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت بڑا انعام ہے اور اسی پر اللہ کی رضا بھی مرتب ہوتی ہے مگر خلوص وہ بنیاد ہے جو اس ساری عمارت کو مضبوطی سے کھڑا کرتا ہے ۔ اگر خلوص نہ ہو تو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دینے والی بات بن جاتی ہے جو ایک بہت بڑا جرم ہے لہٰذا انھیں اللہ کی رضا نصیب نہ ہوگی کہ یہ اس کام کو کر کے بھی بدکار ہی ثابت ہو رہے ہیں ۔ حدود اللہ سے واقف ہونا بھی خوش بختی کی علامت ہے اور یہ حال تو اس طبقے کا ہے جو خود کو شہری یاپڑھالکھا اور مہذب سمجھتا ہے ۔ اس مزاج کے جو لوگ دیہات میں تعلیم سے محروم اور لوگوں سے دور بستے ہیں وہ کفر نفاق میں اور بھی سخت ہیں کہ پہلے طبقے نے اپنا پردہ رکھنے کو ہی سہی کسی حدتک اسلام تو سیکھ رکھا ہے کہ نماز روزہ کیسے کیا جاتا ہے وہ اس سے بھی محروم ہیں اور انھیں اللہ کی حدود یعنی حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی کتاب کتنی بڑی نعمت ہے اور اس میں کیا احکام درج ہیں ۔ وہ اسی قابل ہیں کہ علم کی دولت سے محروم ہی رہیں تو یہ بات ثابت ہوئی کہ حدود اللہ کو جاننا بھی اللہ کریم کا بہت بڑا انعام ہے اور ان سے بیخبر ہونا بدبختی علامت ہے ہر مسلمان کو کم ازکم روزمرہ کے معمولات سے باخبر ہونا ضروری ہے ۔ اللہ بہت بڑا جاننے والا ہے ہر متنفس کے ہر حال سے آگاہ ہے بس اس کی اپنی حکمت ہے کہ نظام کائنات چل رہا ہے اور لوگ ونفاق کے باوجود بھی مہلت پا رہے ہیں ۔ یہ دیہاتی تو ایسے بد نصیب ہیں کہ جو زکٰوۃ ادا کرتے ہیں اسے اپنے دل میں تو تاوان ہی سمجھ رکھا ہے اور کبھی خوشی سے نہیں دیتے ۔ ملک میں رہنا ہے لہٰذا مجبوری ہے کہ حکومت کا ٹیکس جان کر ادا کرتے ہیں ورنہ یہ مسلمانوں پہ برے وقت اور زوال کے آنے کا انتظار کرتے ہیں یعنی دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کی حکومت نہ رہے اور یہی قانون آج کے اس مدعی اسلام کا ہے جو نفاذ اسلام کی راہ روکتا ہے ۔ لیکن ان کا اپنا برا وقت تو ہے ہی یعنی اسلام قبول بھی نہیں چھوڑ بھی نہیں سکتے اور خود تو مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ آئندہ اللہ کریم سننے اور جاننے والا ہے کہ کیا ہوگا مگر یہ توفی الحال بھگت رہے ہیں ۔ دعائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت یہ بھی ضروری نہیں کہ دیہات میں رہنے والے سب ہی محروم ہوں بات تو نیت کے کھرے پن خلوص کی ہے اگر صدق دل سے تمنا کی جائے تو جنگل کے ویرانوں میں بھی رہنمائی نصیب ہوسکتی ہے لہٰذا دیہات میں بھی ایسے لوگ یقینا ہیں جو اللہ کی ذات پر اس کی صفات پر اور آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اپنا مال اپنی ساری کوشش اللہ کی راہ میں جرمانہ سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کے قریب کی تمنا میں صرف کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی تمنا رکھتے ہیں ۔ فرمایا اے مخاطب ! اچھی طرح سن لے جو لوگ صدق دل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرکے آپ کی خوشی اور دعا کے طالب ہیں اللہ کی قربت انہی کا حصہ ہے ۔ دعا ہو تو بھی اور اگر دعا نہ بھی فرمائی جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی کے حال کی خبرنہ بھی ہو تو بھی اسے مقصو د نصیب ہوکررہتا ہے چہ جائیکہ آپ اس کے لئے ہاتھ بھی اٹھائیں ۔ سبحان اللہ ! کتنی واضح بات ہے کہ خلوص نہ ہو پاس بیٹھ کر قسمیں کھاکر راضی کر بھی لوتو اللہ کی رضا نصیب نہ ہوگی الٹے دھوکہ دہی میں پکڑے جاؤ گے ۔ لیکن دوررہ کر بھی خواہ یہ دوری زمانے کی ہو یا مکان کی خلوص دل سے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے طالب ہو تو منزل تمہارا مقدر ہے ۔ ایسے لوگوں سے تو لغزش بھی ہوجائے تو اللہ کی رحمت انھیں تھام لے گی اور اس کی بخشش انھیں اپنی آغوش میں لے لیگی کہ بلاشبہ وہ بخشنے والا بھی ہے اور رحم کرنے والا بھی ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 94 تا 96 یعتذرون (وہ عذر کرتے ہیں، کریں گے) رجعتم (تم لوٹے) لن نومن (ہم ہرگز یقین نہ کریں گے) نبانا اللہ (ہمیں اللہ نے بتا دیا ہے) اخبار (حالات، خبریں) تردون (تم لوٹائے جائو گے) علم الغیب والشھادۃ (پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا) ینبی (وہ بتائے گا) انقلبتم (تم پلٹے) لتعرضوا (تاکہ...  تم درگزر کرو) اعرضوا (درگزر کرو، معاف کر دو ) یحلفون (وہ قسمیں کھائیں گے) لترضوا (تاکہ تم راضی ہو جائو) لایرضی (وہ راضی نہ ہوگا) تشریح : آیت نمبر 94 تا 96 گزشتہ آیات سے منافقین کی عادتوں کا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ غزوہ تبوک سے واپس پہنچیں گے تو وہ قسمیں کھا کر اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ آپ ان کو نہ صرف معاف کردیں بلکہ ان سے آپ راضی بھی ہوجائیں۔ فرمایا کہ اگر تم سب ان سے راضی بھی ہو جائو تو اللہ ان سے کبھی خوش نہ ہوگا کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان ہیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ منافقین کی تین حرکتیں ہوں گی۔ 1) جب آپ واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو وہ جھوٹے عذرپ یش کریں گ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمہاری معذرتوں کا کوئی فائدہ نہیں چونکہ اللہ نے وحی کے ذریعہ ہمیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ بیشک ابھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا لیکن اگر آئندہ تم ایسی حرکتیں کرتے رہے تو وہ اللہ جو کہ غیب و شھادت کا اچھی طرح علم رکھنے والا ہے وہ تم سے پورا پورا سخت حساب لے گا اور تمہیں سزا دے گا۔ 2) فرمایا کہ وہ جھوٹی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان پر گرفت نہ کرو اور ان کو نظر انداز کر دو ۔ فرمایا کہ یہ لوگ پلید اور گندے ہیں ان کا مقام جہنم ہے۔ 3) یہ آپ سے جھوٹی قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ کو فریب دے سکیں اور آپ ان سے راضی ہوجائیں لیکن اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ان سے کبھی راضی نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نافرمان ہیں ان کی سزا جہنم ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دسویں پارے کے آخر اور اس آیت سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ جن منافقوں نے غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے۔ اب وہ جہاد کی فضیلت اور دین کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ لہٰذا یہ لوگ آپ کی واپسی پر معذرت کریں تو ان کی معذرت قبول نہ کی جائے۔ منافقو... ں کا اندازہ اور ان کی تمنا یہ تھی کہ سلطنت روما کا فرماں روا مسلمانوں کی طاقت کو اس طرح کچل ڈالے گا کہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے لیکن روم کے لشکر مسلمانوں کی تاب نہ لاسکے اور انھوں نے اپنی پسپائی میں خیر سمجھی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رومیوں کا تعاقب کرنے کی بجائے کچھ دن محاذ پر قیام فرمایا اور بالآخر لشکر اسلام کو واپسی کا حکم دیا۔ منافقین کو اس صورت حال کی خبر پہنچی تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر روایتی حیلہ سازیوں سے آپ کی خدمت میں معذرتیں پیش کرنا  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تبوک سے واپسی پر عذر پیش کرنے والوں کو جواب جن لوگوں نے تبوک سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جھوٹے عذر پیش کیے تھے۔ ان کے بارے میں اللہ جل شانہٗ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ آپ کی واپسی پر یہ لوگ عذر پیش کریں گے۔ آپ ان سے فرما دیں کہ ہم تمہاری بات سچی نہیں مانیں گے تمہارے...  حالات کی اللہ نے ہمیں پہلے سے خبر دے دی ہے۔ اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کار گزاری دیکھ لے گا۔ اور تمہاری پول کھلتی رہے گی۔ یہ ذلت تو دنیا میں ہوگی پھر اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو غیب اور شہادت سب کا جاننے والا ہے جو چیزیں ظاہر ہیں وہ انہیں بھی جانتا ہے اور جو چیزیں مخلوق سے پوشیدہ ہیں وہ ان سے بھی باخبر ہے جب قیامت کے دن حاضری ہوگی تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر فرما دے گا۔ تم جو برے عمل کرتے تھے وہ سب تمہارے سامنے آجائیں گے۔ مسلمانوں سے مزید خطاب فرمایا کہ جب تم سفر سے واپس ہو کر ان کے پاس پہنچو گے تو وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض کرو اور در گزر کرنے کا معاملہ کرو۔ اعراض تو تم کرلینا لیکن رضا مندی کے طور پر نہیں بلکہ ناراضگی والا اعراض کرنا کیونکہ یہ لوگ ناپاک ہیں (ان کے عقائد اور اعمال گندے ہیں) اور انجام کار ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور یہ دوزخ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔ مزید فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے سامنے تمہیں راضی کرنے کے لیے قسمیں کھائیں گے۔ (تم ان سے راضی مت ہونا بالفرض) اگر تم ان سے راضی ہوگئے تو (اس رضا مندی سے) انہیں کچھ نفع نہ دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ فاسقوں سے راضی نہیں ہوتا۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس اور معتب بن قشیر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ اسی آدمی تھے جو اپنے نفاق کی وجہ سے تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ نہ اٹھیں بیٹھیں اور نہ ان سے بات کریں۔ (یہ حکم (اَعْرِضُوْا عَنْھُمْ ) پر عمل کرنے کے لیے تھا) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

88:“ یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ الخ ” خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے ہے یعنی جب آپ لوگ غزوہ تبوک سے واپس مدینہ پہنچیں گے تو منافقین تمہارے پاس آکر جہاد میں شریک نہ ہونے کے بارے میں بہانے پیش کریں گے “ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوْا ” یعنی واپسی پر جب وہ عذر پیش کریں تو آپ فرما دیں کہ...  بہانے مت بناؤ۔ ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کرینگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اصل حقیقت سے آگاہ فرما دیا ہے اور تمہارے دل کے پوشیدہ رازوں پر مطلع کردیا ہے۔ “ لان اللہ تعالیٰ قد انبانا بالوحی بما فی ضمائرکم من الشر و الفساد ” (روح ج 11 ص 2) ۔ 89:“ وَ سَیَرَي اللّٰهُ عَمَلَکُمْ الخ ” سے مراد وہ اعمال سے ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں منافقین کیا کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گذشتہ اعمال تو ظہر ہوچکے ہیں اور عنقریب تمہارے آئندہ اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر پر اور تمام مومنین پر ظاہر فرما دے گا اور سب کو معلوم ہوجائیگا کہ تم نے اپنا رویہ تبدیل کرلیا ہے یا نہیں۔ “ اي اتنیبون عما انتم علیه ام تثبتون علیه ” (روح) ۔ فائدہ : بعض لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر صبح و شام امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں اس طرح آپ ہر امتی کے تمام احوال سے باخبر رہتے ہیں۔ اور اس کی تائید میں وہ مسند بزار کی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ جس میں آیا ہے۔ “ تعرض علی اعمالکم حسنھا و سیئھا الخ ” لیکن یہ استدلال سراسر باطل اور غلط ہے۔ اول اس لیے کہ اس سے تمام مفسرین نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کے اعمال مراد لیے ہیں اور کسی نے بھی اس سے عرض ِ اعمال کو ثابت نہیں کیا۔ روح المعانی کا حوالہ پہلے گذر چکا ہے۔ امام بغوی اور علامہ خازن ج 3 ص 112 میں لکھتے ہیں۔ “ یعنی فی المستانف اتتوبون من نفاقکم ام تقیمون علیه ” حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں “ اي سیظهر اعمالکم فی الدنیا ” (ج 2 ص 382) ۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں خطاب صرف زمانہ نبوی کے منافقین سے ہے ساری امت مراد نہیں۔ نیز منافقین کے صرف وہی اعمال مراد ہیں جو وہ حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی موجودگی میں کرتے تھے ان کے تمام اعمال مراد نہیں اور جو حدیث پیش کی جاتی ہے حقیقت میں وہ روایت بالمعنی ہے۔ اصل حدیث وہی ہے جو صحیح مسلم ج 1 ص 207 میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ “ عرضت علی اعمال امتی حسنھا و سیئھا فوجدت فی محاسن اعمالھا الاذي یماط عن الطریق و وجدت فی مساوي اعمالھا النخاعة تکون فی المسجد ولا تدفن ” یعنی میرے سامنے میری امت کے اعمال پیش کیے گئے اور اس سے بالاتفاق عرض اجمالی مراد ہے یعنی آپ کے سامنے نیک اور برے اعمال کی فہرستیں پیش کی گئیں کہ نیکی کے اعمال کونسے ہیں اور گناہ کے کام کونسے۔ بعض لوگ “ عرضت علی وجور امتی الخ ” سے عرض اعمال پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ حدیث ابو داود ص 66 اور ترمذی ج 2 ص 115 میں حضرت انس (رض) کی روایت سے منقول ہے لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں۔ اول اس لیے کہ اس سے بھی عرض اجمالی مراد ہے۔ دوم یہ روایت منقطع ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں مطلب راوی جو حضرت انس (رض) سے روایت کرتا ہے ان سے اس کا سماع ثابت نہیں۔ “ قال محمد بن اسمعیل البخاري و لا اعرف للمطلب بن عبدالله بن خطب سماعا من احد من اصحاب النبی صلی اللہ صلی اللہ علیه وسلم الخ ”۔ علاوہ ازیں اگر مضارع مجہول کا صیغہ ہی صحیح مان لیا جائے تو بھی اس سے انکا مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ عرض مستلزم علم نہیں جیسا کہ حضرت علامہ انور شاہ صاحب نے فرمایا۔ “ الا تري الی قوله تعالیٰ ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٓئِکَةِ ، فکان عرضا و قال تعالی، وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاء کُلَّھَا، فکان ھذا تعلیما فالعرض اخر والتعلم اخر ” (فیض البار ج 4 ص 80) ۔ لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ عرض مستلزمِ علم ہے تو اس سے بہت سی آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کو رد کرنا پڑے گا۔ مثلا قیامت کے دن انبیاء و اولیاء اس بات سے لاعلمی ظاہر کرینگے کہ مشرکین ان کی وفات کے بعد ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔ “ فَکَفیٰ بِاللّٰهِ شَھِیْدًا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ ” (پ 11 سورة یونس رکوع 3) اسی طرح صحیح بخاری ج 2 ص 665 میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کہ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے امتی ہیں اس پر مجھے جواب دیا جائیگا کہ ان لوگوں نے کرتوت کیے ہیں آپ کو وہ معلوم نہیں اس وقت میں وہی کچھ کہوں گا جو عبد صالح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا “ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ الخ ” تو اگر عرض اعمال واقعی صحیح ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان امور کا علم ہونا چاہئے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ قیامت کے دن آپ ان سے انکار فرمائیں گے۔ دوم عرض اعمال کا عقیدہ شیعوں کا خانہ ساز ہے اہلسنت کے یہاں اس کی کوئی اصل نہیں چناچہ اصول کافی میں ایک مستقل باب ہے۔ جس کا عنوان ہے “ باب عرض الاعمال علی النبی والائمة علیھم السلام ” اس باب کے تحت مؤلف کتاب علامہ یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق، امام رضا اور دیگر ائمہ سے کئی روایتیں نقل کی ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ امت کے تمام ابرار وفجار اور نیکوں اور بروں کے اعمال ہر روز صبح و شام حضرت نبی کریم اور اماموں کے سامنے پیش ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ عرض اعمال شیعوں کا مذہب ہے۔ ایک ایسی حدیث جس کی صحت بھی مشکوک ہے اور جو مدعا پر نص صریح بھی نہی ہے اگر اس سے عرض اعمال کا فرضی عقیدہ ثابت کیا جائے اور اس کے مقابلہ میں آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ و صریحہ کو ترک کردیا جائے۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

94 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ کے ہمراہی مسلمان جب غزوئہ تبوک سے واپس مدینے پہنچیں گے تو یہ لوگ تم سب کے سامنے طرح طرح کے عذر پیش کریں گے آپ سب کی طرف سے فرما دیجئے گا کہ تم بہانے نہ بنائو اور یہ عذر ہمارے سامنے پیش نہ کرو ہم ہرگز تمہاری کوئی بات نہیں مانیں گے اور تم کو کبھی سچا...  نہیں سمجھیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری اور تمہارے اعمال کو دیکھے گا پھر تم اس کے پاس لوٹائے جائوگے جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے پھر وہ تم کو ان تمام اعمال کی حقیقت سے آگاہ کردے گا جو تم کرتے رہے ہو۔ یعنی عذر تو جب چلتا جب ہم کو معلوم نہ ہوتا ہم کو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعذارباردہ سے پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اس لئے ہم تمہاری بہانہ سازی کو ماننے والے نہیں آئندہ تمہارے طرز عمل کو دیکھا جائے گا پھر انجام کار تم کو اس خدا کی طرف لوٹنا ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے پھر وہ تم کو تمہارے کردار سے آگاہ کردے گا اور تمہارے اعمال کی تم کو سزا دے گا۔  Show more