Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 95

سورة التوبة

سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۹۵﴾

They will swear by Allah to you when you return to them that you would leave them alone. So leave them alone; indeed they are evil; and their refuge is Hell as recompense for what they had been earning.

ہاں وہ اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ۔ سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ۔ وہ لوگ بالکل گندے ہیں اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے جنہیں وہ کیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

سَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُواْ عَنْهُمْ فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ... They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them, that you may turn away from them. So turn away from them. Surely, they are Rijs (impure), and Hell is their dwelling place -- Allah said that the hypocrites will swea... r to the believers in apology, so that the believers turn away from them without admonishing them. Therefore, Allah ordered disgracing them by turning away from them, for they are, رِجْسٌ (Rijs) meaning, impure inwardly and in their creed. Their destination in the end will be Jahannam, ... جَزَاء بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ a recompense for that which they used to earn. of sins and evil deeds.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] قسمیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں مسلمان ہی سمجھا جائے :۔ یعنی جب وہ آ کر اپنے عذر پیش کر کے اپنے بیان پر قسمیں کھانے لگے تو ان سے مختلف سوالات کر کے ان کے بیانات کی تحقیق نہ شروع کردینا۔ وہ اپنے عذر اس لیے پیش نہیں کر رہے کہ آپ ان سے سوالات شروع کردیں بلکہ اس لیے کہ آپ ان سے درگزر کریں اور ... کچھ تعرض نہ کریں۔ سو آپ ان سے پوری طرح اعراض کیجئے۔ کیونکہ یہ نجس اور بد باطن لوگ ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے میل ملاپ بھی نہ رکھنا چاہیے تاکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا کچھ احساس ہوجائے۔ ان کے قسمیں کھانے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ آپ ان سے راضی رہیں۔ اور ان سے مسلمانوں کے تعلقات ویسے ہی برقرار رہیں جیسے پہلے تھے لیکن نفاق پوری طرح کھل جانے کے بعد کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ ان سے دوستی یا محبت کے تعلقات برقرار رکھے۔ کیونکہ اللہ ایسے منافقوں سے کبھی راضی نہ ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَيَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ : اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھانے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ تم ان سے اعراض کرو، سو واقعی تم ان سے اعراض کرو۔ پہلے اعراض کا مطلب ہے کہ تم ان سے درگزر اور چشم پوشی کرو اور دوسرے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ تم ان سے درگزر اور ... چشم پوشی کے ساتھ قطع تعلق بھی کرو۔ پھر ان سے قطع تعلق کا سبب بیان فرمایا کہ یہ رجس ہیں، جس کا معنی ” گندگی “ ہے، یعنی عقائد و اعمال کے لحاظ سے وہ اتنے گندے ہیں کہ سمجھو سراسر گندگی ہیں، گندگی کی پوٹ ہیں۔ گندگی سے تعلق کا نتیجہ آلودگی ہی ہے، اس لیے ان سے بچ جاؤ، تاکہ کہیں ان سے متاثر نہ ہوجاؤ۔ ” صحبت طالح ترا طالح کند “ پھر ان کا انجام بیان فرمایا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے چشم پوشی اور درگزر ہی سے کام لیا۔ چناچہ کعب بن مالک (رض) (ان تین مخلص مسلمانوں میں سے ایک جو بلاعذر پیچھے رہ گئے تھے) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپس آتے تو مسجد سے ابتدا کرتے، چناچہ آپ لوگوں کے لیے بیٹھ گئے تو پیچھے رہ جانے والے آئے اور عذر پیش کرنے لگے اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، یہ اسی (٨٠) سے کچھ زیادہ لوگ تھے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ظاہر کو قبول فرمایا، ان سے بیعت لی، ان کے لیے استغفار کیا اور ان کے پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد کردیے۔ [ بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک۔ ۔۔ : ٤٤١٨ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

2. The second instruction to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) appears in the second verse (95) where it has been said that these people will come to him after his return to Madinah, impress him with their feigned oaths and try to satisfy him. What they would wish to achieve from this initiative is: لِتُعْرِ‌ضُوا عَنْهُمْ (so that you may ignore their misdeed), that is, ignore their abse... nce from Jihad and spare the reproach due on it.& Thereupon, it was said that he might as well grant their wish. The text says: فَأَعْرِ‌ضُوا عَنْهُمْ :` you ignore them.& Thus, the instruction carries the sense: ` neither reproach and admonish, nor deal with pleasantly& - because, reproach usually brings no good. When they have no faith in their heart - and they do not want to have it either - what would come out of reproach? So, why waste good time!   Show more

دوسرا حکم دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ یہ لوگ آپ کی واپسی کے بعد جھوٹی قسمیں کھا کر آپ کو مطمئن کرنا چاہیں گے، اور مقصد اس سے یہ ہوگا کہ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ ، یعنی آپ کی اس غیر حاضری جہاد کو نظر انداز کردیں، اس پر ملامت نہ کریں، اس پر یہ ارشاد ہوا کہ ان کی یہ خواہش آپ پوری کردیں فَاَعْرِضُوْا عَ... نْھُمْ ، یعنی آپ ان سے اعراض کریں نہ تو ان پر ملامت و سرزنش کریں اور نہ شگفتہ تعلقات ان سے رکھیں، کیونکہ ملامت سے تو کوئی فائدہ نہیں، جب ان کے دل میں ایمان ہی نہیں اور اس کی طلب بھی نہیں تو ملامت کرنے سے کیا ہوگا، فضول اپنا وقت ضائع کیوں کیا جائے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ۝ ٠ ۭ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّھُمْ رِجْسٌ۝ ٠ ۡوَّمَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ٩٥ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة... ، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف : إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ رجس الرِّجْسُ : الشیء القذر، ، والرِّجْسُ يكون علی أربعة أوجه : إمّا من حيث الطّبع، وإمّا من جهة العقل، وإمّا من جهة الشرع، وإمّا من کلّ ذلک کالمیتة، فإنّ المیتة تعاف طبعا وعقلا وشرعا، والرِّجْسُ من جهة الشّرع : الخمر والمیسر، وقیل : إنّ ذلک رجس من جهة العقل، وعلی ذلک نبّه بقوله تعالی: وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] ، لأنّ كلّ ما يوفي إثمه علی نفعه فالعقل يقتضي تجنّبه، وجعل الکافرین رجسا من حيث إنّ الشّرک بالعقل أقبح الأشياء، قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] ، قيل : الرِّجْسُ : النّتن، وقیل : العذاب ( ر ج س ) الرجس پلید ناپاک جمع ارجاس کہا جاتا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ رجس چار قسم پر ہے ( 1 ) صرف طبیعت کے لحاظ سے ( 2 ) صرف عقل کی جہت سے ( 3 ) صرف شریعت کی رد سے ( 4 ) ہر سہ کی رد سے جیسے میتہ ( مردار سے انسان کو طبعی نفرت بھی ہے اور عقل و شریعت کی در سے بھی ناپاک ہے رجس جیسے جوا اور شراب ہے کہ شریعت نے انہیں رجس قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ چیزیں عقل کی رو سے بھی رجس ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219]( مگر ) فائدہ سے ان کا گناہ ( اور نقصان ) بڑھ کر ۔ میں اسی معنی پر تنبیہ کی ہے کیونکہ جس چیز کا نقصان اس کے نفع پر غالب ہو ضروری ہے کہ عقل سلیم اس سے مجتنب رہنے کا حکم دے اسی طرح کفار کو جس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کرتے ہیں اور شرک عند العقل قبیح ترین چیز ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جس کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے تو اس ( سورت ) نے ان کی ( پہلی ) خباثت پر ایک اور خباثت پڑھادی ۔ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ [يونس/ 100] اور خدا ( شرک وکفر کی ) نجاست انہیں لوگون پر ڈالتا ہے جو ( دالائل وحدانیت ) میں عقل کو کام میں نہیں لاتے ۔ بعض نے رجس سے نتن ( بدبو وار ) اور بعض بت عذاب مراد لیا ہے أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مشرکین سے کنارہ کشی لازم ہے قول باری ہے فاعرضوا عنھم انھم رجس بیشک تم ان سے صرف نظر ہی کرلو کیونکہ یہ ایک گندگی ہیں ۔ یہ اس قول باری کی طرح ہے انما المشرکون نجس ۔ مشرکین تو ناپاک ہیں ۔ اس لیے کہ جس کے لفظ سے نجس کی تعبیر کی جاتی ہے اور تابع کے طور پر رجس نجس کہا جاتا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے ... کہ کافروں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ، ان سے ترک موالات یعنی دوستی نہ گانٹھنا ، ان کے ساتھ گھل مل نہ جانا ، ان سے مانوس نہ ہونا اور ان کی تقویت کا باعث نہ بننا واجب ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) جب آپ کی غزوہ تبوک سے مدینہ منورہ واپسی ہوگی تو عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی آکر قسمیں کھائیں گے کہ ہم مجبور تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :94 پہلے فقرے میں صرف نظر سے مراد درگزر ہے اور دوسرے فقرے میں قطع تعلق ۔ یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ان سے تعرض نہ کرو ، مگر بہتر یہ ہے کہ تم ان سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو اور سمجھ لو کہ تم ان سے کٹ گئے اور وہ تم سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

73: یہاں ’’ در گذر کرنے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بات سن کر انہیں نظر انداز کردیا جائے، نہ تو فوری پر انہیں کوئی سزا جائے۔ اور نہ یہ وعدہ کیا جائے کہ ان کی معذرت قبول کرلی گئی ہے۔ اور انہیں معاف کردیا گیا ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ اگلے جملے میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اپنے نفاق کی وجہ سے یہ سراپا گندگی ہیں،...  ان کی معذرت جھوٹی ہے جو انہیں اس گندگی سے پاک نہیں کرسکتی، اور آخر کار ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:95) اذا انقلبتم الیہم۔ تم ان کی طرف پھرو گے، تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ (ماضی بمعنی مضارع) لتعرضوا عنھم۔ اعرض یعرض اعراض (افعال) عن منہ موڑنا۔ منہ پھیرنا۔ اعراض کرنا۔ درگزر کرنا۔ معاف کرنا۔ یہاں بمعنی۔ تاکہ تم ان کو معاف کردو۔ ان سے درگزر کرو۔ صرف نظر کرو۔ تعرض نہ کرو ۔ اسی معنی میں ہے۔ فاعرض ع... نھم وعظھم (4:63) تم ان سے اعراض برتو (درگزر کرو) اور نصیحت کرتے رہو۔ منہ پھیرنے ۔ روگردانی کرنے ۔ کنارہ کشی کرنے کے معنی میں آیۃ ہذا میں ہی ہے۔ فاعرضوا عنھم۔ پس تم ان سے منہ پھیر لو۔ کنارہ کشی اختیار کرو۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ واعرض عن الجاہلین (7:199) اور جاہلوں سے کنارہ کشی کرو۔ نیز ملاحظہ ہو 9:76) ۔ رجس۔ ناپاک۔ پلید۔ گندہ۔ نجس۔ ماوھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ماوی۔ اسم ظرف اور مصدر۔ اوی یؤدی ایواء (افعال) اس نے جگہ دی۔ اس نے اتارا۔ اوی یاوی (ضرب) وہ بیٹھا ۔ وہ اترا۔ بصورت اسم ظرف، اس کے معنی ہیں ٹھکانہ۔ قیام کا مقام۔ پناہ گاہ۔ یہاں بطور اسم ظرف مکان استعمال ہوا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی انہوں نے جو جہاد میں حصہ نہیں لیا اور گھروں میں بیٹھے رہے اس پر انہیں معذور سمجھتے ہوئے اغماض اور چشم پوشی کرو اور کسی قسم کی ملامت نہ کرو۔ (کبیر) 4 ۔ یعنی ان سے قطع تعلق کرلو اور کسی قسم کا میل جول نہ رکھو۔ پہلے فقرے میں اعراض کے معنی درگزر اور چشم پوشی کے ہیں اور یہاں اس کے معنی قطع تعل... ق کے۔ یعنی وہ تو صرف چشم پوشی چاہتے ہیں مگر تمہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ ان سے قطع تعلق ہی کرلو۔ حضرت ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے۔ ایک حدیث میں بھی ہے جب آپ مدینہ واپس آگئے تو آپ نے فرمایا۔ لاتجالسوھم ولا تکلموھم۔ کہ ان سے ہم مجلسی اور گفتگو ختم کردو۔ ھؤلاء طلبو اعراض الصفح فاعطوا اعراض المقت۔ یہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے تقریباً اسی آدمی تھے۔ (کبیر) 5 ۔ اس میں قطع تعلق کے سبب کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خیالات اور اعمال کے اعتبار سے گندے ہیں لہذا صحبت طالح ترا طالح کند۔ کے تحت تمہیں چاہیے کہ ان سے دور رہو مبادا ان سے متاثر ہوجاؤ (از کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

شروع کیں۔ ادھر راستہ میں ہی رب کریم نے اپنے رسول کو آگاہ فرمادیا کہ آپ جوں ہی مدینہ ورود مسعود فرمائیں گے تو منافق ٹولیوں کی صورت میں آپ کے سامنے اپنی معذرتیں پیش کریں گے۔ لیکن اب ان کی کسی معذرت کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے بلکہ منافقین کو کھلے الفاظ میں بتلایا جائے کہ میرے رب نے مجھے تمہاری سازشوں...  اور ملمع سازیوں سے پوری طرح آگاہ فرما دیا ہے لہٰذا تمہارے کسی عذر اور بہانہ کو قبول نہیں کیا جائے گا البتہ تم آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کی کوشش کرو تو اللہ اور اس کا رسول تمہارے کردار کو دیکھیں اور جانچیں گے کہ تم اپنے قول و فعل میں کتنے سچے ثابت ہوتے ہو۔ اے منافقو ! نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) سے کوئی بات چھپا سکتے ہو لیکن تم اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔ دنیا میں اللہ تمہیں مہلت دیے ہوئے ہے لیکن آخرت میں تم اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ وہ تمہاری ایک ایک حرکت اور بات سے تمہیں آگاہ کرے گا اور اسی کے مطابق تمہیں سزا دی جائے گی۔ اس انتباہ کے ساتھ منافقوں کو پھر ایک موقع دیا گیا ہے۔ کہ وہ سچی توبہ کریں اور اپنے کردار کو بہتر بنائیں۔ البتہ اس موقعہ پر ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ خواہ یہ کتنی عاجزی کے ساتھ قسمیں اٹھائیں اور یقین دہانی کروائیں۔ ان سے اعراض ہی کرنا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ دل کے برے اور کردار کے گندے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم ہے جس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ منافق کی نشانیاں : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمِنَ خَانَ ) [ رواہ مسلم : باب الکبائر و علامات النفاق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ ( مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ “ ) (١) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے (٢) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے (٣) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ “ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم کہتی رہے گی، کہ کچھ اور بھی ؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ اور جہنم کہے گی بس ! بس ! تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم ! جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ منافق جھوٹے عذر بہانے پیش کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق قسم کو بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ ٤۔ ہر قسم اٹھانے والا سچا نہیں ہوتا۔ ٥۔ منافق عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے گندہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غیب وحا ضر کو جاننے والا ہے : ١۔ اللہ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ : ٩٤) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٤۔ اللہ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٠) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے ؟ (البقرۃ : ٧٧) ٧۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں سے بھی واقف ہے ؟ (التوبۃ : ٧٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

90:“ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ الخ ” اس میں بھی ان منافقین کا ذکر ہے جو بغیر کسی عذر کے جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ یعنی جب آپ واپس لوٹ کر ان کے پاس پہنچیں تو وہ قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی اور معذوری بیان کریں گے تاکہ آپ ان سے درگذر کریں۔ “ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ ” تم ان سے منہ موڑ لینا کیونکہ وہ ن... ہایت ناپاک لوگ ہیں اور تمہاری صحبت ومجلس کے لائق نہیں ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ ان کے اپنے ہی اعمال کی سزا ہوگی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

95 جب تم غزوئہ تبوک سے پلٹو گے اور مدینے پہنچوگے تو تمہارے سامنے قسمیں بھی کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو اور ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو تو تم ان سے بالکل ہی اعراض و اجتناب کرو اور ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو یہ لوگ بالکل ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اس کمائی کے بدلے میں جو یہ کسب کیا کرت... ے تھے یعنی جب تم لوٹوگے تو یہ لوگ قسمیں بھی کھائیں گے کہ تم ان سے درگزر کرو اور ان کو جانے دو تو تم ان کی خواہش پوری کردو اور ان کو بالکل ہی چھوڑ دو یہ لوگ تو ناپاک ہیں اور ان کا آخر کار ٹھکانا دوزخ ہے لہٰذا تم ان کو منہ نہ لگائو۔  Show more