Surat ul Balad

Surah: 90

Verse: 1

سورة البلد

لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾

I swear by this city, Makkah -

میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Swearing by the Sanctity of Makkah and Other Things that Man was created in Hardship Allah says, لاَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ Nay! I swear by this city; Here Allah has sworn by Makkah, the Mother of the Towns, addressing its resident (during the non-sacred months,) free in this city in order to draw his attention to the significance of its sanctity when its people...  are in the state of sanctity. Khusayf reported from Mujahid; لااَ أُقْسِمُ بِهَـذَا الْبَلَدِ Nay! I swear by this city; "The word "La" (Nay) refers to the refutation against them (Quraish). I swear by this city." Shabib bin Bishr narrated from Ikrimah, from Ibn Abbas that he said, لااَ أُقْسِمُ بِهَـذَا الْبَلَدِ Nay! I swear by this city; "This means Makkah." Concerning the Ayah: وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ   Show more

مکہ مکرمہ کی قسم: اللہ تبارک وتعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہے درآں حالیکہ وہ آباد ہے اس میں لوگ بستے ہیں اور وہ بھی امن چین میں ہیں لا سے ان پر رد کیا پھر قسم کھائی اور فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے ، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہ ہو گا اور اس...  میں جو ملے وہ حلال ہو گا صرف اسی وقت کے لیے یہ حکم ہے صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس بابرکت شہر مکہ کو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے اور قیامت تک اس کی یہ حرمت و عزت باقی رہنے والی ہے اس کا درخت نہکاٹا جائے اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں میرے لیے بھی صرفایک دن ہی کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسے کل تھی ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے ایک روایت میں ہے کہ اگر یہاں کے جنگ و جدال کے جواز کی دلیل میں کوئی میری لڑائی پیش کرے تو کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمہیں نہیں دی پھر قسم کھاتا ہے باپ کی اور اولاد کی بعض نے تو کہا ہے کہ ماولد میں مانافیہ ہے یعنی قسم ہے اس کی جو اولاد والا ہے اور قسم ہے اس کی جو بے اولاد ہے یعنی عیادلدار اور بانجھ ما کو موصولہ مانا جائے تو معنی یہ ہوئے کہ باپ کی اور اولاد کی قسم ، باپ سے مراد حضرت آدم اور اولاد سے مراد کل انسان ، زیادہ قوی اور بہتر بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے قسم ہے مکہ کی جو تمام زمین اور کل بستیوں کی ماں ہے تو اس کے بعد اس کے رہنے والوں کی قسم کھائی اور رہنے والوں یعنی انسان کے اصل اور اس کی جڑ یعنی حضرت آدم کی پھر ان کی اولاد کی قسم کھائی ابو عمران فرماتے ہیں مراد حضرت ابراہیم اور آپ کی اولاد ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں عام ہے یعنی ہر باپ اور ہر اولاد پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بالکل درست قامت جچے تلے اعضاء والاٹھیک ٹھاک پیدا کیا ہے اس کی ماں کے پیٹ میں ہی اسے یہ پاکیزہ ترتیب اور عمدہ ترکیب دے دی جاتی ہے جیسے فرمایا الذی خلقک فسوک الخ یعنی اس اللہ نے تجھے پیدا کیا درست کیا ٹھیک ٹھاک بنایا اور پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دی اور جگہ ہے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ہم نے انسان کو بہترین صورت پر بنایا ہے ابن عباس سے مروی ہے کہ قوت طاقت والا پیدا کیا ہے خود اسے دیکھو اس کی پیدائش کی طرف غور کرو اس کے دانتوں کا نکلنا دیکھو وغیرہ حضرت مجاد فرماتے ہیں پہلے نطفہ پھر خون بستہ پھر گوشت کا لوتھڑا غرض اپنی پیدائش میں خوب مشقتیں برداشت کی بلکہ دودھ پلانے میں بھی مشقت اور معیشت میں بھی تکلیف حضرت قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں سختی اور طلب کسب میں پیدا کیا گیا ہے عکرمہ فرماتے ہیں شدت اور طول میں پیدا ہوا ہے قتادہ فرماتے ہیں مشقت میں یہ بھی مروی ہے اعتدال اور قیام میں دنیا اور آخرت میں سختیاں سہنی پڑتی ہیں حضرت آدم چونکہ آسمان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ کہا گیا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال کے لینے پر کوئی قادر نہیں اس پر کسی کا بس نہیں کیا وہ نہ پوچھا جائے گا کہ کہاں سے مال لایا اور کہاں خرچ کیا ؟ یقینا اس پر اللہ کا بس ہے اور وہ پوری طرح اس پر قادر ہے پھر فرماتا ہے کہ میں نے بڑے وارے نیارے کیے ہزاروں لاکھوں خرد کر ڈالے کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ؟ یعنی اللہ کی نظروں سے وہ اپنے آپ کو غائب سمجھتا ہے کیا ہم نے اس انسان کو دیکھنے والی آنکھیں نہیں دیں؟ اور دل کی باتوں کے اظہار کے لیے زبان عطا نہیں فرمائی؟ اور دو ہونٹ نہیں دئیے؟ جن سے کلام کرنے میں مدد ملے کھانا کھانے میں مدد ملے اور چہرے کی خوبصورتی بھی ہو اور منہ کی بھی ابن عساکر میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میں نے بڑی بڑی بیحد نعمتیں تجھ پر انعام کیں جنہیں تو گن بھی نہیں سکتا نہ اس کے شکر کی تجھ میں طاقت ہے میری ہی یہ نعمت بھی ہے کہ میں نے تجھے دیکھنے کو دو آنکھیں دیں پھر میں نے ان پر پلکوں کا غلاف بنا دیا ہے پس ان آنکھوں سے میری حلال کردہ چیزیں دیکھ اگر حرام چیزیں تیرے سامنے آئیں تو ان دونوں کو بند کر لے میں نے تجھے زبان دی ہے اور اس کا غلاف بھی عنایت فرمایا ہے میری مرضی کی باتیں زبان سے نکال اور میری منع کی ہوئی باتوں سے زبان بند کر لے میں نے تجھے شرمگاہ دی ہے اور اس کا پردہ بھی عطا فرمایا ہے حلال جگہ تو بیشک استعمال کر لیکن حرام جگہ پردہ ڈال لے ایے ابن آدم تو میری ناراضگی نہیں اٹھا سکتا اور میرے عذاب کے سہنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر فرمایا کہ ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی کا اور برائی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں دو راستے ہیں پھر تمہیں برائی کا راستہ بھلائی کے راستے سے زیادہ اچھا کیوں لگتا ہے؟ یہ حدیث بہت ضعیف ہے یہ حدیث مرسل طریقے سے بھی مروی ہے ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے دونوں دودھ ہیں اور مفسرین نے بھی یہی کہا ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ الخ یعنی ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے سنتا دیکھتا کیا ہم نے اس کی رہبری کی اور راستہ دکھا دیا پس یا تو شکر گذار ہے یا ناشکرا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] مسلمانوں کے علاوہ کفار مکہ کے ہاں بھی مکہ کی اہمیت و عظمت مسلّم تھی۔ بلکہ کفار مکہ تو اس شہر کی برکت کی وجہ سے کئی طرح کے دنیوی، تجارتی اور سیاسی مفادات بھی حاصل کر رہے تھے۔ عرب بھر میں ان کی عزت و وقار اور دولت و شہرت کا سبب یہی شہر اور اس میں کعبہ کی موجودگی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(لا اقسم بھذا البلد…:) قسم سے پہلے ” لا “ (نہیں) فرما کر ان لوگوں کی بات کی نفی کی گئی ہے جو قسم کے بعد آنے والی بات کا اناکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند قسموں کے بعد فرمایا : یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے، اگر وہ سمجھے کہ میں دنیا میں عیش و آرام کے لئے آیا ہوں تو اس کا خیال غلط ہے۔ اس ... حقیقت کا یقین دلانے کیلئے پہلی قسم شہر مکہ کی کھائی، جو اس دعوے کی دلیل بھی ہے، کیونکہ اس شہر کی آبادی کی ابتدائ، اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی زندگی، ان کے بعد کی تاریح، خصوصاً اس شہر میں رہتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی، آپ کی یتیمی اور بےسروسامانی، نبوت کی ذمہ داری کے بعد اپنی ہی قوم کا جان لینے کے در پے ہوجانا، یہ سب چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ انسان یقیناً مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جننے والے ماں باپ اور ان کے جنم دیے ہوئے بچے۔ کی قسم ہے۔ ماں باپ کو اولاد کے حصول کی جستجو سے لے کر ان کی پرورش تک جن مصائب سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کے جنم دیئے ہوئے بچے پر نطفہ ہونے سے لے کر ولادت تک، پھر ولادت سے بچپن ، جوانی اور بڑھاپے تک جو کچھ گزرتا ہے، وہ سب کچھ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ اس تمام عرصے میں وہ شروع سے آخر تک سختیاں اور مصیبتیں ہی جھیلتا رہتا ہے، کبھی بیماری میں گرفتار ہے، کبھی رنج میں، کبھی فقر و فاقہ میں، کبھی کسی اور فکر میں۔ اگر کبھی کسی خوشی یا راحت کا کوئی لمحہ آتا بھی ہے تو اس کیساتھ کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور ہوتی ہے، کوئی اور نہ ہو تو اس کے زوال کی فکر ہی اسے مکدر کرنے کے لئے کافی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ (I swear by this city...90:1). The particle la (&no& ) in the beginning of this sentence has no meaning here. Such particles in Arabic language are commonplace. However, the more appropriate view is that when a Surah begins with a la (no) followed by an oath, it was revealed in refutation to a false assumption of the opponents. In other words, Al... lah is saying, &No, what you [ the unbelievers ] are saying or thinking is not correct, but the truth is what We are swearing about...&. The word al-balad &the City& refers to the Holy City of Makkah, as in Surah At-Tin [ 95:3] where Allah swears an oath &by this peaceful City [ of Makkah ] وھٰذا البَلَدِ الاَمِین . The adjective attached to the &City& is &peaceful&. This shows the superiority and honour of Makkah over other cities. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Adiyy (رض) reports that when the Holy Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was migrating from Makkah to Madinah, he addressed the city of Makkah and said: |"By Allah, you are dearer to Allah than the entire earth. If I was not forced out of this place, I would never have abandoned you.|" [ Transmitted by Tirmidhi and Ibn Majah vide Mazhari ].  Show more

خلاصہ تفسیر میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکہ) کی اور (جواب قسم سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں ایک بشارت دی گئی کہ) آپ کو اس شہر میں لڑائی حلال ہونے والی ہے ( چناچہ فتح مکہ کے روز آپ کے لئے قتال جائز کردیا گیا تھا۔ احکام حرم باقی نہیں رہے تھے) اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی (ساری ا... ولاد کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں پس آدم اور بنی آدم سب کی قسم ہوئی آگے جواب قسم ہے) کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے (چنانچہ عمر بھر کہیں مرض میں کہیں رنج میں کہیں فکر میں اکثر اوقات مبتلا رہتا ہے اور اس کا مقتضاد یہ تھا کہ اس میں عجز ودرماندگی پیدا ہوتی اور اپنے کو بستہ حکم تقدیر سمجھ کر مطیع امر وتابع رضا ہوتا لیکن انسان کافر کی یہ حالت ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے تو) کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہ چلے گا (یعنی کیا اللہ کی قدرت سے اپنے کو خارج سمجھتا ہے جو اسقدر بھول میں پڑا ہے اور) کہتا ہے کہ میں نے اتنا وافر مال خرچ کرڈالا (یعنی ایک تو شیخی بھگارتا ہے پھر عداوت رسول و مخالفت اسلامی و معاصی میں خرچ کرنے کو ہنر سمجھتا ہے پھر جھوٹ بھی بولتا ہے کہ اس کو مثال کثیر بتلاتا ہے) کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے تو دیکھا ہے اور وہ جانتا ہے کہ معصیت میں خرچ کیا ہے پس اس پر سزا دے گا نیز مقدار بھی دیکھی ہے کہ اسقدر نہیں ہے جس قدر لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہے یہ حال مطلق کافر کا ہے کہ اس وقت آپ کے مخالفین کے یہی اقوال و احوال تھے، غرض یہ شخص نہ تو محن یعنی تکلیف ونجم سے متاثر ہوا اور نہ منن یعنی انعامات و احسانات سے جسکا آگے بیان ہے کہ) کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں رستے (خیروشر) کے بتلا دیئے (تاکہ طریق مضر سے بچے اور نافع پر چلے سو اس کا بھی مقتضا یہ تھا کہ احکام الٰہی کا تابع ہوتا مگر) سو وہ شخص (دین کی) گھاٹی میں سے ہو کر نہ نکلا (دین کے کاموں کو اس لئے گھاٹی کہا کہ نفس پر شاق ہے) اور آپ کو معلوم ہے کہ گھاٹی (سے) کیا (مراد) ہے وہ کسی (کی) گردن کا (غلامی سے) چھڑا دینا ہی یا کھانا کھلانا فاقہ کے دن میں کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی خاک نشین محتاج کو (یعنی ان احکام الہیہ کو بجالانا چاہئے تھا) پھر (سب سے بڑھ کر یہ کہ) ان لوگوں میں سے نہ ہوا جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو (ایمان کی) پابندی کی فہمائش کی اور ایک دوسرے کو ترحم (علی الخلق) کی (یعنی ترک ظلم) کی فہمائش کی (ایمان تو سب سے مقدم ہے پھر امر بالثبات علی الایمان اوروں سے افضل ہے، پھر لوگوں کی ایذاء سے بچنا بقیہ سے اہم ہے پھر ان اعمال کا رتبہ ہے جو فک رقبة سے متربة تک مذکور ہیں پس یہ ثم تفیخم رتبہ کے لئے ہے، مطلب یہ کہ جمیع اصول و فروع میں اطاعت کرنا چاہئے تھا، آگے الذین امنو کی جزا کا بیان ہے یعنی) یہی لوگ دہانے والے ہیں (جن کی تفصیل جزا سورة واقعہ میں ہے اور یہاں اس میں مطلق اہل ایمان خواص وعوام سب داخل ہیں) اور (آگے انکے مقابلین کا بیان ہے کہ) جو لوگ ہماری آیتوں کے منکر ہیں (خود اصول ہی میں مخالف ہیں فروع کا تو کہنا کیا) وہ لوگ بائیں والے ہیں، ان پر آگ محیط ہوگی جس کو بند کردیا جاوے گا (یعنی دوزخیوں کو دوزخ میں بھر کر آگے سے دروازہ بند کردیں گے کیونکہ اس وجہ سے نکلنا تو ملے گا ہی نہیں) معارف ومسائل لا اقسم بھذا البلد، حرف لا اس جگہ زائد ہے اور قسموں میں یہ حرف زائد لانا عرب کے محاورہ میں معروف ہے اور زیادہ صح یہ ہے کہ یہ حرف لامخاطب کے باطل خیال کی تردید کے لئے شروع قسم میں لایا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تم نے خیال باندھ رکھا ہے وہ نہیں بلکہ ہم قسم کیساتھ کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں۔ اور البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ سورة والتین میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے اور اسکے ساتھ اس کی صفت امین بھی بیان فرمائی۔ وھذا البلد الامین، شہر مکہ کی قسم کھانا اس شہر کی بہ نسبت دوسرے شہروں کے شرافت وافضلیت کو بتلانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے وقت شہر مکہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ (خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ تو ساری زمین میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کردیا جاتا تو میں تیری زمین سے نہ نکلتا (رواہ الترمذی وابن ماجہ، مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ۝ ١ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون ق... لّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(2-1) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر مکہ کی آپ کے لیے اس شہر میں لڑائی حلال ہونے والی ہے جو کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھی، اور نہ آپ کے بعد ہوگی، یا یہ کہ آپ اس شہر میں نزول فرمانے والے ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ آپ اس شہر میں جو کریں وہ آپ کے لیے حلال ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۔ } ” نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ “ اس آیت میں بھی لَآ اُقْسِمُکا مفہوم بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورة القیامہ کی پہلی اور دوسری آیات یا سورة الانشقاق کی آیت ١٦ میں پڑھ چکے ہیں۔ یعنی ان آیات میں لَا نافیہ نہیں ہے بلکہ مخاطبین کے خیالاتِ باطلہ کے اب... طال کے لیے ہے۔ چناچہ سورة القیامہ کی پہلی آیت { لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۔ } کا اگر ہم انگریزی ترجمہ کریں تو ہم کہیں گے : Nay , - swear by the Day of Judgement ! دراصل انگریزی میں تو Nay کے بعد کو ما ( , ) آجانے سے مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے ‘ لیکن عربی میں چونکہ ” کو ما “ وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا اس لیے سننے یا پڑھنے والا لَآ اُقْسِمُ کا مفہوم یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ ” میں قسم نہیں کھاتا “۔ بہرحال اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ درست نہیں ‘ بلکہ میں اس شہر یعنی مکہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تمہارے خیالات و نظریات باطل ہیں۔ آگے چل کر واضح ہوجائے گا کہ یہاں مکہ مکرمہ کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 As we have explained in E.N.1 of Surah AI-Qiyamah above, to begin a discourse with a "Nay" and resume it with an oath means that the people were asserting a wrong thing to refute which it was said: "Nay, the truth is not that which you seem to assert, but 1 swear by such and such a thing that the truth is this and this" As for the question what it was to refute which this discourse was sent down... , it is indicated by the theme that follows. The disbelievers of Makkah said that there was nothing wrong with the way of life that they were following, as if to say: "Eat, drink and be merry for tomorrow we die in the natural process of time. Muhammad (upon whom be Allah's peace) , without any reason, is finding fault with this way of life and warning us that we would at some time in the future be called to account for it and rewarded and punished accordingly." 2 "This City": the city of Makkah. There was no need here to explain why an oath was being sworn by this City. The people of Makkah were well aware of the background and importance of their city and knew how in the midst of desolate mountains, in an un-cultivated, barren valley, the Prophet Abraham had brought his wife and suckling child and left them there without any support; how he had built a House there and proclaimed to the people to visit it as pilgrims when there was no soul for miles around to hear the proclamation, and then how this city had eventually become the commercial and religious centre of Arabia and was blessed with such sacredness that there was no other place of security beside it in that lawless land for centuries.  Show more

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :1 اس سے پہلے ہم سورہ قیامہ میں حاشیہ نمبر 1 میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز نہیں سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں ، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ... ہو ، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا ، تو اس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے ۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرز زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو ، مزے اڑاؤ ، اور جب وقت آئے تو مر جاؤ ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خواہ مخواہ ہمارے اس طرز زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اس پر کبھی ہم سے باز پرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا ۔ سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :2 یعنی شہر مکہ کی ۔ اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے ۔ اہل مکہ اپنے شہر کا پس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بے آب و گیاہ وادی میں سنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بے سہارا چھوڑا ، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی اس منادی کا سننے والا نہ تھا ، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صدہا برس تک عرب کی سرزمین بے آئین میں اس کے سوا امن کا کوئی مقام نہ تھا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٠۔ شروع سورة میں جس بات پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے وہ یہی بات ہے جو ان آیتوں میں آگے فرمائی۔ تجھ کو قید نہ رہے گی کا مطلب یہ ہے کہ مکہ میں جو قید ہے کہ وہاں لڑائی منع ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اے نبی اللہ کے تم کو تھوڑی دیر کے لئے وہاں لڑائی حلال ہوجائے گی ہجرت سے پہلے اس مکی سورة میں اللہ ک... ا یہ ایک وعدہ تھا جس کو فتح مکہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے پورا کیا۔ چناچہ صحیح ٣ ؎ بخاری و مسلم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی دیر کے لئے کو مجھ کو مکہ میں لڑنا حلال کردیا تھا اس کے بعد مکہ میں بدستور لڑائی کی ممانعت ہے اب جس بات کو قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ یہ ہے کہ انسان ایک محنت اور مشقت کی حالت میں ہمیشہ ہے علماء نے لکھا ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ماں کے پیٹ سے لے کر مرتے دم تک کوئی وقت انسان کا محنت اور سختی سے خالی نہیں ہے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کے سونے اور لیٹنے کے وقت ایک فرشتہ اس بچہ کا سر اونچا کردیتا ہے تاکہ ماں کے لیٹنے کے وقت ماں کے سارے جسم میں جو خون دوڑتا ہے وہ خون بچہ کی ناک اور منہ میں بھر کر بچہ مر نہ جائے پھر پیدا ہونے کے وقت جو سختی ماں اور بچہ پر گزرتی ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح پیدا ہونے کے بعد بچپنے میں جوانی میں بڑھاپے میں دکھ درد ‘ طرح طرح کا رنج و غم ہر ایک کے پیچھے لگا ہوا ہے تفسیر کلبی میں لکھا ١ ؎ ہے کہ مشرکین مکہ میں ایک شخص ابو الاسد بڑا شہ زور تھا اونٹ کی کھال پر کھڑا ہوجاتا تھا دس دس آدمی اس کھال کو کھینچتے تھے کھال پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے اڑ جاتی تھی مگر اس کا قدم تک کھال پر سے نہ ڈگتا تھا جب سورة مدتر کی یہ آیت اتری کہ دوزخ کے خازن انیس فرشتے ہیں تو اسی شخص نے کہا تھا کہ ان فرشتوں کو تو میں اکیلا کافی ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ شخص بڑی عداوت رکھتا تھا اسی شخص کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اس کو اور اس کی طرح اور جو لوگ اپنی جسمانی قوت یا مالی ثروت پر اتراتے ہیں ان کو نصیحت فرمائی ہے کہ انسان کے حالت اترانے کی نہیں ہے بلکہ جو بلائیں انسان کے پیچھے لگی ہوئی ہیں ان کو اگر ہر انسان دیکھے تو انسان کی حالت پچھتانے کی ہے اور جس اللہ تعالیٰ نے انسان کے خلاف مرضی انسان کے پیچھے اس قدر بلائیں لگا کر انسان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ منکرین حشر کی خلاف مرضی ان کے مرجانے کے بعد ان منکروں کو پھر پیدا کرے اور ان سے ذرہ ذرہ حساب لے دو گھاٹیوں کی تفسیر وہی ہے جو صحیح ٢ ؎ مسلم میں ابومالک اشعری کی حدیث میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر روز صبح اٹھ کر لوگ دو طرح کے کام کرتے ہیں کوئی ایسا کام کرتا ہے جو عقبیٰ میں نجات کا سبب ہے اور کوئی اس کے برخلاف کام کرتا ہے زمانہ جاہلیت میں لوگ دنیا کے نام کے لئے ہزارہا روپے خرچ کرکے اس پر بڑا فخر کرتے تھے اس کو فرمایا کہ کوئی یہ نہ جانے اللہ لوگوں کے ایسے بیجا اخراجات سے غافل ہے نہیں نہیں۔ ایک دن ان سب اخراجات کا حساب ہوگا۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب صلوٰۃ اللیل وعد رکعات النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالیل الخ ص ٢٥٨ ج ١) (٢ ؎ صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ واجراج الموحدین من النار ص ١١٠ ر ١١١ ج ١۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٥٠ ج ٦۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥١١ ج ٤۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب بعد باب منزل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الفتح ص ٦١٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٤ ج ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل الوضوء ص ١١٨ ج ١۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(90:1) لا اقسم بھذ البلد : لا زائدہ؛ اقسم ، مضارع واحد متکلم میں قسم کھاتا ہوں۔ ھذا اسم اشارہ واحد مذکر، البلد : مشار الیہ مراد شہر مکہ ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یہ ترجمہ ” لا اقسم “ میں ” لا “ کو زائد مانتے ہوئے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة البلد۔ آیات ١ تا ٢٠۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے اس شہر عظیم کی یعنی اس شہر کا تقدس جو بنائے کعبہ کے باعث تھا اور کفار ومشرکین بھی اس کی عظمت کے قائل تھے جو آپ کے یہاں تشریف فرما ہونے سے دو بالا ہوگیا اس کی ساری عظمت بھی تو اللہ کی عظمت پہ گواہ ہے مفسرین نے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ حرمت والاشہر ... عنقریب آپ کے لیے کفار کے ساتھ جنگ کرنے کو حلال کردیاجائے گا گویا فتح مکہ کی خوش خبری بھی ہے اور خود آدم (علیہ السلام) اور ان کی ساری اولاد ، تمام انسانوں کی پیدائش سے موت تک کی زندگی ، اس بات پر گواہ ہے کہ انسان تخلیقی طور پر محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہے اس کی زندگی کا کوئی لمحہ مشقت سے خالی نہیں شاہ وگدا سب جسمانی وذہنی ہر طرح کی مشقت کا شکار رہتے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی حیثیت پہچان کر اور لمحہ بہ لمحہ محتاجی کو دیکھ کر اللہ کی اطاعت اختیار کرتا لیکن کفار نے بغاوت کا راستہ اپنا یا جیسے ان کا خیال ہو کہ اب ان پر کسی کا بس نہ چلے گا اور اپنی طاغوتی کوششوں میں بہت خرچ کرکے گویا اپنی حفاظت کا سامان کیے بیٹھے ہیں یا حرام مال سے اپنی شہرت کے لیے خرچ کرکے سمجھتے ہیں کہ آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوگئے۔ مال حرام سے تحفظ حاصل کرنے کا خیال۔ جیسے آج کل بدنصیب مسلمان امرائ ، اور حکمران لوگوں کے حقوق غضب کرکے اور ملکی خزانہ لوٹ کر پھر حج اور عمرے کرتے ہیں اور اپنی رائے میں لوگو پہ خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بخشش کا سبب ہوگیا کیا ان سب کا یہ خیال ہے کہ ان کے کام اور کردار کی اصلیت سے کوئی واقف نہی یا اللہ حقیقت حال کو دیکھ نہیں رہے ذرایہ سوچیں کیا ہم نے ان کو دیکھنے کی صلاحیت اور دو آنکھیں نہیں عطا کردیں جو خالق حقیقی مخلوق کو نظر بانٹنا ہے وہ خود ہر شے اپنی شان کے مطابق ہر آن دیکھ رہا ہے پھر انہیں زبان عطا کردی اور ہونٹ بخشے کہ آن واحد میں دل میں خیال آیا ذہن نے ترتیب دیا زبان نے آواز نکالی اور ہونٹوں نے اپنی حرکات سے اسے الفاظ میں ڈھال دیا ان کا حال دن بیان کرنے کو انہیں اتناخوبصورت نظام جس مالک نے بخشا ہے وہ اس پورے نظام کی ہر بات سے ہر وقت آگاہ بھی ہے کہ اسی کے چلانے سے تو یہ عظیم مشینری چل رہی ہے پھر وہ اس سے کس طرح وقف نہ ہوگا اور پھر انہیں نیک وبد کا شعور دیا اور نبی بھیج کر دونوں راستے الگ الگ واضح کردیے کہ بھلا کیا ہے اور برائی کا راستہ کون سا ہے مگر انہوں نے دنیا کے لیے ہر مشقت برداشت کرلی مگر دین کے لیے انہیں پر مشقت راستہ قبول نہیں کہ عقبہ گھاٹی کو کہتے ہیں مشکل پہاڑوں سے گزرنے کا تنگ راستہ ، شریعت مطہرہ بھی خواہشات کے پہاڑوں سے گزرنے کا محفوظ راستہ ہے مگر گزرنے کی مشقت توسہناپڑتی ہے جو انہوں نے برداشت نہ کی اور یہ گھاٹی ہے کیا حقوق وفرائض کی وہ خوبصورت تقسیم جو اسلام نے عطا کی مثلا کسی کی گردن غلامی کے بوجھ سے آزاد کرانا۔ آزادی دلاناسب سے اعلی نیکی ہے۔ جیسے آج کل اللہ کے ایماندار بندے کافرانہ نظام کی قید میں اس باطل نطام سے چھٹکارا دلاناعظیم نیکی ہے اسی طرح بھوکے نڈھال اور مجبور لوگوں کو ان کا حق دلانا ان کے روزی کے وسائل ان تک پہنچانے کا اہتمام کرنا اور یتیم وبے کس عزیز و اقارب کی نگہداشت کے ساتھ اللہ کی ساری کمزوری اور بےبس مخلوق کے حقوق ان تک پہنچانے کا کام کرنا گوپہلا کام باطل نظام سے لوگوں کی رہائی کہ اس کے بغیر آپ ان کے حقوق دلانے کا کام نہیں کرسکتے اور دوسرا کام ہر مستحق کا حق اس تک بلاروک ٹوک پہنچانا خواہ وہ غریب ، یتیم ، بےکس اور بےبس ہی کیوں نہ ہوں یہی دو کام سارا اسلام ہیں اور ایسے ہی لوگ ایماندار شمار ہوتے ہیں یہی مومن ہیں جو تقاضائے ایمان پورا کرنے میں مشقت برداشت کرتے ہیں اور عبادت الٰہی پہ استقامت کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بھی محبت کی تلقین کرتے ہیں اور خلق خدا پر بھی محبت و شفقت کی تلقین کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو دائیں طرف والے ہیں کہ انہیں اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا اور کامیاب ہوں گے اور جن لوگوں نے انکار کا راستہ اختیار کیا اور میری آیات کو جھٹلایا ، یعنی قرآن کا انکار کیا براہ راست یا قرآن نظام کا عملا انکار بھی تو اسی کا حصہ ہے۔ یہ لوگ بہت بڑے بدبخت ہیں کہ انہیں آگ میں چن دیاجائے گا کہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے کی شکل ایسی ہے جیسے کسی کو دیوار میں چن دیا گیا ہو۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ ھذا البلد۔ یہ شہر۔ (مکہ مکرمہ) ۔ حل۔ حلال ہے۔ کبد۔ مشقت۔ مصیبت۔ اھلکت۔ میں نے خرچ کیا ہے۔ مالا لبدا۔ ڈھیروں مال۔ عینین۔ دو آنکھیں۔ شفتین۔ دو ہونت۔ النجدین۔ دو راستے۔ اقتحم۔ وہ داخل ہوگیا۔ العقبۃ۔ گھاٹی۔ فک رقبۃ۔ گردن چھڑانا۔ (غلاموں کو آزاد کرنا) ۔ ذی مسغبۃ۔ بھوکا۔ بھوک والا۔ ذا مقربۃ۔...  رشتہ دار۔ ذامتربۃ۔ جو خاک میں مل جانے والا ہے۔ نارموصدۃ۔ آگ جو اوپر سے بند کی گئی ہے۔ تشریح : سورت بلند کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہے۔ اس سورت میں اللہ نے ” بلد “ یعنی مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو اس شہر میں قتال کرنا حلال ہونیوالا ہے۔ باپ اور اولاد یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی تماما اولاد کی قسم ہم نے انسان کو عیش و عشرت کے لئے نہیں بلکہ نہایت مشقت و محنت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اسے اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر کسی کو اختیار نہیں ہے اور کوئی اس کی نگرانی نہیں کر رہا ہے۔ لوگوں پر رعب جمانے کے لئے کہتا ہے کہ میں نے بہت مال خرچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا ہم نے اسے دیکھنے کیلئے دو آنکھیں، اطہار بیان کے لئے زبان اور کنٹرول میں رکھنے کے لئے دو ہونٹ عطا نہیں کئے۔ اور کیا ہم نے اس کو خیر وشر کے دونوں راستے نہیں دکھائے ؟ ان نعمتوں کا تقاجا تو یہ تھا کہ وہ اس دشوار گزار گھاٹی کے پار اتر کر کسی کے گردن چھڑا دیتا، جو فقر و فاقہ سے بےحال ہے اس کو کھانا کھلا دیتا، کسی رشتہ دار یتیم ( بےباپ کے) بچے کو یا کسی ایسے مسکین و محتاج آدمی کو کھانا کھلا دیتا جس آدمی کو حالات نے مٹی میں ملا دیا ہے۔ وہ ان میں سے ہوجاتا جو ایک دوسرے کو ایمان پر پابندی اور اللہ کی مخلوق پر رحم و کرم کرنے کی ہدایت و رہنمائی کی تلقین کرتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں میں سے ہوجاتا جن کے داہنے ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا لیکن یہ تو ان لوگوں میں سے ہوگیا جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور ان لوگوں میں سے ہوگیا جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور اس جہنم میں ڈالا جائے گا جس کو اوپر سے بند کردیا جائے گا۔ اس سورت کے چند الفاظ کی وضاحت یہ ہے۔ { ھذا البلد۔ یہ شہر } اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اسی کو سورة التین میں ھذا البلد الامین فرمایا ہے۔ یعنی وہ شہرجو امن و سلامتی کا گہوارہ ہے۔ عرب کی تاریخ گواہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ جانوروں، درخت اور پودوں تک کے لئے امن وسلامتی کی ضمانت رہی ہے۔ عرب میں دین اسلام کی روشنی پھیلنے سے پہلے جب سارا عرب جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا تھا کفروشرک اور بت پرستی عام تھی اس وقت بھی مسجد الحرام میں کسی جانور کو ستانا، اس کے قریب حرم میں شکار کھیلنا اور بلا ضرورت درختوں کا کاٹنا حرام اور برا سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بنو قریش جو حرم کے رکھوالے کہلاتے تھے اس زمانہ میں جب ہر طرف لوٹ مار ، قتل و غارت گری اور بد امنی عام تھی ان کو کوئی قبیلہ اس لئے ہیں ستاتا تھا کہ وہ ” حرم والے ہیں “ لیکن یہ بھی تاریخی ستم ظریفی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اور آہستہ آہستہ بہت سے سعادت مندوں نے آپ کا دامن تھام لیا اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے تو وہی لوگ جو سزمین حرم کو امن و سلامتی کا گھر کہتے تھے انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) پر وہ ظلم کئے کہ ان کے ذکر سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں اور آپ کو قتل کرنے کی نہ صرف سازش کی گئی بلکہ اس کے لئے عملی قدم بھی اٹھا لیا گیا تب اللہ کے حکم سے صحابہ کرام (رض) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ کی مقدس و محترم سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس محترم شہر کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سرزمین کعبہ نہایت محترم ہے اور امن و سلامتی کی سزمین ہے اس میں قتال کرنا جائز نہیں ہے لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب ایک دن کے لئے آپ کو قتال کرنے کی اجازت ہوگی تاکہ دین کی سچائیوں کو قائم کرنے اور ظالموں کو ان کے کیفرکردار تک پہنچانے کی جدوجہد کی جاسکے۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اے لوگو ! بیشک اللہ نے جس دن سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اسی دن سے مکہ مکرمہ کو محترم بنایا ہے۔ قیامت تک وہ حرام اور محترم رہے گا۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ میں خون بہائے، نہ کسی کے لئے درخت کاٹنا جائز ہے۔ مکہ نہ تو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہو اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ اور میرے لئے صرف اس ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا تاکہ مکہ والوں کی نافرمانی پر انکی سزا دینی جاسکے۔ خوب غور سے سن لو کہ اس کی حرمت پھر وہی ہوگئی ہے جیسی کہ پہلے تھی۔ تم میں سے جو موجود ہے وہ میرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں قتال کیا تو تم اس سے کہہ دینا کہ بیشک اللہ نے صرف اپنے رسول کے لئے مکہ کو کچھ وقت کے لئے حلال کردیا تھا لیکن تمہارے لئے حلال نہیں ہے “۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ شہر بہت محبوب تھا چناچہ آپ نے فتح مکہ کے دن مکہ شہر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” اللہ کی قسم تو ساری زمین میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور محبوب ہے۔ اگر مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کردیا گیا ہوتا تو میں اس سرزمین سے کبھی نہ نکلتا “ ۔ (ترمذی) ۔ { والد وما ولد۔ باپ اور بیٹا } علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ والد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو ہم سب کے باپ ہیں اور ولد سے ان کی ساری اولاد مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور ابتدائے کائنات سے قیامت تک جتنے لوگ آچکے ہیں یا آئیں گے تمام بنی نوع انسان کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ انسان مشکلات اور پریشانیوں میں گھر اہو اور محنت و مشقت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ { لقد خلقنا الانسان فی کبدی۔ یقینا ہم نے انسان کو ” کبد “ میں پیدا کیا ہے } کبد کے معنی محنت، مشقت، مشکلات اور پریشانیوں کی آتے ہیں یعنی انسان کو اللہ نے صرف عیش و آرام اور مزے اڑانے کے لئے نہیں بھیجا بلکہ محنت، مشقت اور بہتر کام کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ ” کبد “ کے معنی ” الجھنوں میں پھنسا ہوا “ کے بھی آتے ہیں یعنی انسان ساری زندگی کسی نہ کسی الجھن اور مشکل میں گھر ارہتا ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : قید حیات بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں جب تک قید حیات ہے یعنی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے اس وقت تک ” بند غم “ یعنی غموں کا سلسلہ بھی جاری ہے ؟ انسان پوری زندگی جس سکون کی تلاش میں رہتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں خوشی ملتی ہے تو دوسرے لمحے کوئی نہ کوئی فکر الجھن یا غم اس کو آگھیرلیتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا کی خوشی اور غم دونوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اصل خوشی تو آخرت میں ہی نصیب ہوگی۔ وہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں جو اس دنیا میں بھی پوری زندگی بےچین و بےقرار ہے اور آخرت میں بھی انہیں سکون نصیب نہ ہوگا۔ درحقیقت ایمان اور عمل صالح ہی سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جو انسان کو ابدی زندگی کا سکون دلائے گا۔ { ایحسب ان لن یقدر علیہ احد “۔ کیا وہ (انسان) یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کا بھی اختیار نہیں ہے } انسان کی سب سے بڑ غلط فہمی یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ بھی عیاریاں اور مکاریاں کر رہا ہوں اس پر گرفت کرنے کا کسی کو بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ وہ ذات ہے جو جب چاہے آدمی کی ساری بازی کو الٹ کر پھینک دے اور اس کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ { یقول اھلکت مالا لبدا۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لٹایا ہے } یعنی دنیا میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ یہ کتنا بڑا آدمی ہے جو اس طرح مال و دولت لٹا رہا ہے۔ اسی طرح وہ سستی شہرت حاصل کرنے اور اپنے نفس کو دھوکا دینے کے لئے مال خرچ کرتا ہے جس کا مقصد محض دکھاوا اور ریاکاری ہے جس کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اصل مال تو وہ ہے جو انسان اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرتا ہے۔ { الم نجعل لہ ، عینین ولسانا وشفقین۔ کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے } اللہ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو جو بیشمار نعمتیں دی ہیں ان میں دیکھنے بھالنے کے لئے دو آنکھیں، اظہار بیان کے لئے زبان اور زبان کو قابو میں رکھنے کیلئے دو ہونٹ بنائے ہیں تاکہ انسان سچائی کو دیکھ کر اس پر ایمان لائے۔ زبان سے سچائی کا اقرار کرے اور ہونٹوں سے بھی ادا کرے۔ { ھدینہ، النجدین۔ ہم نے اس کو (خیر اور شر) دونوں راستوں کی رہنمائی عطا کی } یعنی ہم نے ہر انسان کو اس قرآن کریم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہر خیر و فلاح اور شر و فساد کے درمیان فرق پیدا کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحتیں عطا کی ہیں تا کہ سوچ سمجھ کر اپنے لئے وہ بہتر راستہ منتخب کرسکے جو اس کو دنیا اور آخرت میں کامیاب کرنے والا اور اس کو اخلاق کی بلندیوں تک پہنچانے والا ہے۔ لیکن اخلاق کی عظمتوں اور بلندیوں پر پہنچنے کا ہر راستہ ایک گھاٹی یعنی دشوار گزار راستے سے نصیب ہوتا ہے۔ چونکہ انسان سہل پسند ہے اس لئے وہ مشکل راستہ کی طرف نہیں جاتا۔ { فلا اقتحم العقبۃ۔ پھر وہ دشوار گزار راستے کی طرف بڑھنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا } فرمایا کہ انسان کی یہ کم ہمتی کی دلیل ہے کہ وہ دشوار راستے کو پسند نہیں کرتا حالانکہ وہی راستہ تو ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں اعلیٰ ترین مقام دلواتا ہے۔ ایک آدمی سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے خوب اپنا مال لٹاتا ہے تاکہ ہر شخص پر اس کا رعب بیٹھ جائے اور اس کا ہر طرف ڈنکا بجنے لگے لیکن اس کے برخلاف دوسرا وہ شخص ہے جو خاموشی سے دوسروں کی مدد کرتا ہے اس کا مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی ہوتا ہے۔ پہلا راستہ آسان ہے لیکن دوسرا راستہ کسی پہاڑ پر چڑھنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی گھاٹی کو پار کر رہا ہے۔ اس راستے میں نفس اور شہرت پسندی کے جذبے کی قربانی دینی پڑتی ہے کیونکہ یہاں نفس کی مخالفت اور شیطان کے وسوسوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس نے اللہ کی رضا کے لئے اس گھاٹی کو پارکر لیا وہ آخرت کی تمام گھاٹیوں کو نہایت آسانی سے طے کرلے گا۔ وہ چند چیزیں یہ ہیں۔ 1۔ کسی غلام کو آزاد کردیا جائے، کسی قیدی کو رہائی دلوا دی جائے، کوئی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس سے اس کی گردن چھڑا دی جائے۔ 2۔ جب لوگ بھوک سے بےتاب ہوں تو ان بھوکوں کیلئے کھانے پینے کا معقول بندوبست کردیا جائے۔ 3۔ بےباپ کے یتیم بچے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر اس کی ضروریات کو پورا کیا جائے اگر وہ رشتہ دار بھی ہو تو دوگنا اجر حاصل کیا جائے۔ 4۔ کسی ایسے غریب، مسکین، ضرورت مند، پریشان حال آدمی کی پریشانی دور کی جائے جس کو حالات نے پچھاڑ کر بےبس کردیا ہو اور اس کی عزت خاک میں مل گئی ہو۔ 5۔ اسی طرح جب حق و صداقت کے راستے پر چلنے والے انتہائی پریشان ہوجائیں تو اس وقت ایک دوسرے کی ڈھارس بندھانے کے لئے صبر کی تلقین کی جائے اور صبر دلایاجائے۔ 6۔ اور آپس میں ایک دوسرے پر مہربانی اور رحم و کرم کی تقلین کی جائے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق ہے۔ یہ وہ گھاتی ہے جس کو پارکرجانے والے ہی اخلاق کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔ دین اسلام وہ ہے جس نے غلاموں کو آزادی کی نعمت دلا کر ان کو انسانی حقوق دلائے ہیں اور غلام آزاد کرنے کی عبادت کا درجہ دیا ہے۔ اسی لئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو دنیا سے غلامی کبھی ختم نہ ہوتی اور دنیا میں ہزاروں سال گززنے کے باوجود غلامی اسی طرح رائج رہتی۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کرنے کے بہت سے فضیلتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا۔ اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے نجات دلائیں گے۔ ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں، اور شرم گاہ کے بدلے شرم گاہ۔ (بخاری مسلم۔ ترمذی۔ نسائی) اسی طرح فرمایا مسکینوں ، محتاجوں، ضرورت مندوں، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کے لئے جدوجہد کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں بھاگ دوڑ کرنے والا۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ شخص ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہتا ہے اور آرام نہیں کرتا اور جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور کبھی روزہ نہیں چھوڑتا۔ (بخاری و مسلم) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے فرمایا کہ قیامت کے دن ان کے داہنے ہاتھ میں ان کے اعمال نامے دئیے جائیں گے یعنی جنت میں داخل کئے جائیں گے لیکن جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہ ایسے بدنصیب ہوں گے جن کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دئیے جائیں گے اور ان کو ایسی جہنم میں داخل کیا جائے گا جس کو اوپر سے بند کردیا جائے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الفجر کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ “ ظالموں کو ایسی سزا دے گا کہ اس طرح کی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو اپنی رضا سے سرفراز فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ سورة البلد کے آغاز میں دو قسمیں اٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ باغی ا... نسان سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھنے والا اور اس پر کوئی قابو پانے والا نہیں حالانکہ ” اللہ تعالیٰ “ ہر وقت انسان کی نگرانی کر رہا ہے اور اسی نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں، بولنے کے لیے زبان اور کھانے پینے کے لیے دو ہونٹ دئیے ہیں۔ یہ سورت بھی سورة القیامہ کی طرح ” لَآ اُقْسِمُ “ کے الفاظ سے شروع ہوئی ہے اس کا معنٰی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ ” لا “ کا لفظ اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل مکہ دعوت توحید کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ اس پر انہیں وارننگ دی گئی ہے کہ تم جتنا زور لگانا چاہتے ہو لگا لو مگر یاد رکھو کہ تم اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اس شہر کی قسم کہ وقت آنے والا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر کامیاب ہوں گے کہ آپ کے سامنے کوئی چیز بھی حائل نہیں سکے گی۔ آپ اس شہر میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ آپ کے لیے اس شہر کی حرمت حلال کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ جب سے ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر فرمایا ہے اس وقت سے لے کر مکہ معظمہ میں ہر قسم کا جنگ وجدال حرام ہے اور یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی۔ تاہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فتح مکہ کے موقع پر مکہ کی حرمت کو چند گھڑیاں موقوف کیا گیا تاکہ اسے کفرو شرک سے پاک کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے موقع پر ایسا رعب اور کامیابی عطا فرمائی کہ کوئی شخص آپ کے سامنے دم نہیں مار سکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار آدمیوں کے قتل کا حکم دینے کے سوا باقی سب کو معاف کردیا۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ نِ الْعَدَوِیِّ اَنَّہُ قَالَ لِعَمْرٍو ابْنِ سَعِیْدٍ (رض) وَھُوَ یَبْعَثُ الْبُعْوثَ اِلٰی مَکَّۃَ اِءْذَنْ لِیْ اَیُّھَا الْاَمِیْرُ اُحَدِّ ثُکَ قَوْلاً قَامَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَ وَعَاہُ قَلْبِیْ وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لِا مْرِ ءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِاَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَلَا یَعْضُدَ بِھَا شَجَرَۃً فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِیْ فِیْھَا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ وَقَدْعَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ فَقِیْلَ لِاَبِیْ شُرَیْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ اَنَا اَعْلَمُ بِذَالِکَ مِنْکَ یَا اَبَا شُرَیْحٍ اِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیْذُعَاصِیاً وَلَا فَآراًّ بِدَمٍ وَلَا فَآرًّا بِخَرْبَۃٍ ۔ ) (رواہ البخاری : باب لِیُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ ) ” حضرت ابوشریح عدوی (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے عمرو بن سعید (رض) کو فرمایا : جو مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، اے امیر ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سناؤں۔ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی جسے میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یادرکھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب فرما رہے تھے تو میری دونوں آنکھیں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت بخشی ہے کسی شخص نے اسے حرمت نہیں دی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور حرم میں کسی درخت کو کاٹے اگر کوئی شخص مکہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتال کو مثال بنا کر اس میں لڑائی جائز سمجھے تو اسے بتاؤ۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو اجازت عطا فرمائی لیکن تجھے اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے بھی بس دن کے بالکل تھوڑے وقت کے لیے اجازت دی گئی اور اب اس کی حرمت ہمیشہ کی طرح ہے، یہ بات غیر موجود لوگوں تک پہنچا دو ۔ اس پر ابوشریح سے پوچھا گیا کہ پھر آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا ؟ ابوشریح نے بتایا، اس نے جواب دیا ‘ ابوشریح مجھے تم سے زیادہ اس بات کا علم ہے کہ حرم نہ کسی گنہگار کو اور نہ ہی مفرور قاتل کو اور نہ خیانت کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ “ تفسیر بالقرآن بیت اللہ اور مکہ معظمہ کی فضیلت اور حرمت : ١۔ دنیا میں پہلا گھر بیت اللہ تعمیر ہوا۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد : ١) ٣۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٤۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین : ٣) ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ اس شہر کو امن والا بنادے۔ (البقرۃ : ١٢٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لا اقسم .................................... فی کبد شہر سے مراد مکہ ہے ، جہاں بیت الحرام واقع ہے ، یہ پہلا وہ گھر ہے ، جو صرف اللہ کی عبادت کے لئے اس زمین پر بنایا گیا ہے ، تاکہ یہاں لوگ آزادی سے آجاسکیں اور امن سے رہ سکیں۔ جہاں آکر ، یہ اسلحہ پھینک دیں ، اپنے ذاتی جھگڑے ایک طرف رکھ دیں ، عداوتوں ... کو بھلادیں اور اس میں نہایت امن سے ملیں۔ جہاں کسی کا کسی پر اسلحہ اٹھانا حرام ہو ، انسان میں نہیں بلکہ یہاں کے پرندوں اور درختوں کو چھیڑنا اور نقصان پہنچانا بھی حرام ہو۔ پھر یہ شہر ابراہیم (علیہ السلام) کا گھر ہے ، جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے والد محترم ہیں اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عربوں کے والد اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔ اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں عزت افزائی فرماتا ہے کہ سا شہر کی قسم اس حال میں اٹھاتا ہے کہ آپ اس میں مقیم ہیں ، مطلب یہ کہ آپ کی یہاں موجودگی کی وجہ سے گویا اس شہر کی عزت واحترام میں اور شرف مقام میں اور عظمت واحتشام میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ اشارہ اس مقام پر گہرے اثرات کا حامل ہے ، انحالات میں کہ مشرکین اس گھر کی حرمت کو ان دنوں پامال کررہے تھے ، اس شہر میں جہاں نباتات وحیوانات بھی پرامن تھے مسلمانوں کو اذیت دی جاتی تھی۔ حالانکہ یہ گھر محترم تھا اور نبی کریم کی موجودگی کی وجہ سے اور محترم ہوگیا تھا اور جب اللہ نے اس شہر اور اس میں مقیم شخصیت کی وجہ سے قسم اٹھائی تو اس کی حرمت ، عظمت اور مرتبہ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس لئے مشرکین مکہ کا یہ موقف کہ وہ اس گھر کے خدمت گار ہیں ، اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں ، بالکل غلط ، متضاد اور جھوٹا موقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی قسم ۔ ووالد وما ولد (3:90) ” اور قسم ہے باپ کی اولاد کی “۔ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی طرف خاص اشارہ ہے اور مکہ کی قسم ، اس میں مقیم نبی آخر الزمان کی قسم اور پھر مکہ کے بانیوں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قسم ایک مناسبت رکھتی ہیں ، لیکن اس اشارے اور مناسبت کے باوجود والد اور ولد سے مراد مطلق والد اور مولود بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اس آیت میں قسم انسانی پیدائش اور انسان کی نشوونما پر کھالی گئی ہے۔ اس طرح یہ قسم تمہید ہوگی۔ سورت کے اصل موضوع کے لئے جو انسان کی حقیقت ہے۔ استاد محمد عبدہ نے اس مقام پر ایک خاص تفسیر کی ہے اور ایک لطیف نکتہ بیان کی ہے جو ظلال القرآن کی روح سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ وہ فرماتے ہیں : اس کے بعد اللہ نے والد اور مولود کی قسم اٹھائی کہ اس کائنات کے مظاہر میں سے انسانیت کی پیدائش اور نشوونما کا مظہر بہت ہی اہم ہے یعنی نظام تولید اور اس کے اندر جو گہری حکمت پنہاں ہے اور انسان نے حضرت انسان کو کس قدر خوبصورت بنایا۔ پھر یہ کہ والد اور مولود دونوں پیدا ہونے والے کی تکمیل میں کس قدر مشقت اٹھاتے ہیں اور کتنی مشقتوں اور محنتوں سے یہ مولود اپنے مقررہ کمال تک پہنچتا ہے “۔ ” یہی صورت ایک بیج کے اگنے اور نشوونما کے ساتھ تمام ادوار سے گزرنے میں بھی پیش آتی ہے۔ اس بیج اور پودے کو فضا کے عوامل کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور یہ پودا مشقت کے ساتھ اپنے ماحول سے اپنے لیے مختلف عناصر اخذ کرتا ہے ، یہاں تک کہ وہ آخر کار ایک درخت بن جاتا ہے۔ جس کا ایک تنا اور ٹہنیاں ہوتی ہیں۔ اور پھر یہ درخت اور مکمل پودا مزید بیج پیدا کرتا ہے اور یہ بیج آگے اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، اس طرح یہ زمین ان نباتات کی وجہ سے خوبصورت بنتی ہے۔ اگر تم ان سب امور کو ذہن میں رکھو اور پھر اس سے ذرا اوپر حیوانات پر غور کرو ، تو تمہیں معلوم ہوگا کہ والد اور مولود کی حیاتیات میں جو عجوبے ہیں وہ بہت بڑے ہیں ، اور والد اور مولود دونوں اس نشوونما کے عمل میں جن مشقتوں سے گزرتے ہیں اور جس طرح اس ذریعہ سے بقائے نوع کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے جس طرح اس کائنات کے حسن کو دوبالا کیا جاتا ہے ۔ تو اس عمل میں نہایت بلند اور اہم مظاہر قدرت ہیں “۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہ نے شہر مکہ مکرمہ کی اور انسان کے والد یعنی آدم (علیہ السلام) کی اور ان کی ذریت کی قسم کھا کر یہ فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے، درمیان میں بطور جملہ معترضہ ﴿ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ٠٠٢ ﴾ بھی فرمایا جس وقت یہ سورت نازل ہوئی رسول اللہ (صلی الل... ہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں ہی تھے، وہاں مشرکین سے تکلیفیں پہنچتی رہتی تھیں۔ مکہ معظمہ حرم ہے اس میں قتل و قتال ممنوع ہے مشرکین مکہ بھی اس بات کو جانتے اور مانتے تھے، لیکن اللہ جل شانہ نے اول تو اس کی قسم کھا کر اس کی عزت کو بیان فرما دیا اور ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پیشگی خبر دے دی کہ ایک دن آنے والا ہے جب آپ اس میں فاتحانہ داخل ہوں گے اور اس دن آپ کے لیے اس شہر میں قتال حلال کردیا جائے گا چناچہ ہجرت کے بعد ٨ ہجری میں آپ اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ مدینہ منورہ سے تشریف لائے اور مکہ میں اخل ہوئے اور بہت سے لوگوں کے بارے میں امان کا اعلان کردیا جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن تھے اور بعض لوگوں کے قتل کا حکم دے دیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ پاک نے جس دن آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا مکہ معظمہ (میں قتل و قتال) کو حرام قرار دے دیا تھا اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٢، از مسلم) اور میرے لیے صرف دن کے تھوڑے سے حصے میں حلال کیا گیا ہے، لہٰذا وہ قیامت کے دن تک اللہ کے حرام قرار دینے سے حرام ہے یعنی اب قیامت تک اس میں قتل و قتال حلال نہیں ہوگا۔ ﴿ وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَۙ٠٠٣ ﴾والد سے حضرت آدم (علیہ السلام) اور وَمَا وَلَدَ سے ان کی ذریت مراد ہے اس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور تمام بنی آدم کی قسم ہوگئی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” لا اقسم “ لا زائدہ ہے برائے تاکید قسم۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ” البلد “ سے مکہ مکرمہ مراد ہے۔ ” انت حل “ کے معنی ہیں کہ تو مکہ میں داخل ہونے والا ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ تو صاحب حلت ہوگا یعنی آپ کیلئے مکہ مکرمہ میں قتل و قتال حلال ہوگا۔ وی ومن المکابدۃ ان مثلک عظیم حرمتک یستحل بھذا البلد یعنی مکۃ کم... ا یستحل الصید فی غیر الحرم (مدارک) ۔ یہ مشقت اس پر شاہد ہے کہ مشقت میں ڈالنا ہمارے اختیار میں ہے۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ پر غلبہ دینے کی طرف اشارہ ہے۔ ” ووالد و ما ولد “ ماں جب بچے کو جنم دیتی ہے تو اس کو جو تکلیف اور مشقت اٹھانا پڑتی ہے یہ بھی شاہد ہے کہ مشقت میں ڈالنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی یعنی مکہ معظمہ کی۔