Surat ul Balad
Surah: 90
Verse: 11
سورة البلد
فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۱۱﴾۫ ۖ
But he has not broken through the difficult pass.
سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔
فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۱۱﴾۫ ۖ
But he has not broken through the difficult pass.
سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔
The Encouragement to traverse upon the Path of Goodness Allah said, فَلَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ But he has not attempted to pass on the path that is steep. Ibn Zayd said, "This means, will he not traverse upon the path which contains salvation and good. Then He explains this path by His saying, وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ
صدقات اور اعمال صالحہ جہنم سے نجات کے ضامن ہیں: حضرت ابن عمر فرماتے ہیں عقبہ جہنم کے ایک پھسلنے پہاڑ کا نام ہے حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس کے جہنم میں ستر درجے ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ یہ داخلے کی سخت گھاٹی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے داخل ہو جاؤ پھر اسکا داخلہ بتایا یہ کہہ کر کہ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ تو فرمایا غلام آزاد کرنا اور اللہ کے نام کھانا دینا ابن زید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ نجات اور خیر کی راہوں میں کیوں نہ چلا ؟ پھر ہمیں تنبیہ کی اور فرمایا تم کیا جانو عقبہ کیا ہے؟ آزادگی گردن یا صدقہ طعام فک رقبتہ جو اضافت کے ساتھ ہے اسے فک رقبتہ بھی پڑھا گیا یعنی فلع فاعل دونوں قرأتوں کا مطلب قریبا ایک ہی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی مسلمانکی گردن چھڑوائے اللہ تعالیٰ اس کاہر ایک عضو اس کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ حضرت علی بن حسین یعنی امام زید العابدین نے جب یہ حدیث سنی تو سعید بن مرجانہ راوی حدیث سے پوچھا کہ کیا تم نے خود حضرت ابو ہریرہ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تو آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ مطرف کو بلا لو جب وہ سامنے آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اللہ کے نام پر آزاد ہو بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ یہ غلام دس ہزار درہم کا خریدا ہوا تھا اور حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کی ایک ایک ہڈی کے بدلے اس کی ایک ایک ہڈی جہنم سے آزاد ہو جاتی ہے ( ابن جریر ) مسند میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور جو مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اسے قیامت کے دن نور ملے گا ۔ اور روایت میں یہ بھی ہے کہجو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے خواہ وہ لگے یا نہ لگے اسے اولاد اسمٰعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور حدیث میں ہے جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے مر جائیں اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کریگا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑے دے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا جس سے چاہے چلا جائے ان تمام احادیث کی سندیں نہایت عمدہ ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے حضرت واثلہ بن اسقع سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے تم میں سے کوئی پڑھے اور اس کا قرآن شریف اس کے گھر میں ہو تو کیا وہ کمی زیادتی کرتا ہے؟ ہم نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث ہمیں سناؤ ، آپ نے فرمایا ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کے بارے میں حاضر ہوئے جس نے قتل کی وجہ سے اپنے اوپر جہنم واجب کر لی تھی تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے غلام آزاد کرو ، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا ، یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ، اور حدیث میں ہے جو شخص کسی کی گردن آزاد کرائے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے ۔ ایسی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا کام بتادیجئے جس سے میں جنت میں جا سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھوڑے سے الفاظ میں بہت ساری باتیں تو پوچھ بیٹھا ۔ نسمہ آزاد کر ، رقبتہ چھڑا ، اس نے کہا حضرت کیا یہ دونوں ایک چیز نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادی کے معنی تو ہیں اکیلا ایک غلام آزاد کرے اور فک رقبۃٍکے معنی ہیں کہ تھوڑی بہت مدد کرے دودھ والا جانور دودھ پینے کے لیے کسی مسکین کو دینا ، ظالم رشتہ دار سے نیک سلوک کرنا ، یہ جنت کے کام ہیں ، اگر اس کی تجھے طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلا ، پیاسے کو پلا ، نیکیوں کا حکم کر ، برائیوں سے روک ، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سوائے بھلائی کے اور نیک بات کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکال ۔ ذی مسغبۃٍ کے معنی ہیں بھوک والا ، جبکہ کھانے کی اشتہا ہو ، غرض بھوک کے وقت کا کھلانا اور وہ بھی اسے جو نادان بچہ ہے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اس کا رشتہ دار بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مسکین کو صدقہ دینا اکہرا ثواب رکھتا ہے ، اور رشتے ادر کو دینا دوہرا اجر دلواتا ہے ، ( مسند احمد ) یا ایسے مسکین کو دینا جو خاک آلود ہو ، راستے میں پڑا ہوا ہو گھر ورنہ ہو ، بربستر نہ ہو ، بھوک کی وجہ سے پیٹھ زمین دوز ہو رہی ہو ، اپنے گھر سے دور ہو ، مسافرت میں ہو ، فقیر ، مسکین ، محتاج ، مقروض ، مفلس ہو کوئی پرسان حال بھی نہ ہو ، اہل و عیال والا ہو ، یہ سب معنی قریب قریب ایک ہی ہیں ، پھر یہ شخص باوجود ان نیک کاموں کے دل میں ایمان رکھتا ہو ان نیکیوں پر اللہ سے اجر کا طالب ہو جیسے اور جگہ ہے من ارادالاٰخرۃ الخ جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ہو بھی بایمان تو ان کی کوشش اللہ کے ہاں مشکورہے اور جگہ ہے ۔ من عمل صالحا من ذکر اوانثی الخ ، ایمان والوں میں سے جو مرد عورت مطابق سنت عمل کرے یہ جنت میں جائیں گے اور وہاں بےحساب روزیاں پائیں گے پھر ان کا وصف بیان ہو رہا ہے کہ لوگوں کے صدمات سہنے اور ان پر رحم و کرم کرنے کی یہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا اور حدیث میں ہے جو رحم نہ کرے اس پر رحم نہیں کیا جاتا ، ابو داؤد میں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ، پھر فرمایا کہ یہ لوگ وہ ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا اور ہماری آیتوں کے جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا ، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے ، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام ، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے مزید بیان اس کا سورہ ویل لکل الخ ، میں آئے گا انشاء اللہ ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہو گی نہ سوراخ ہو گا نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا ، حضرت ابو عمران جوئی فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو ، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے ۔ لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا ، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کر دی جائے گی ۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں ( ابن ابی حاتم ) سورہ بلد کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔
11۔ 1 عقبہ گھاٹی کو کہتے ہیں یعنی وہ راستہ جو پہاڑ میں ہو یہ عام طور پر نہایت دشوار گزار ہوتا ہے۔ یہ جملہ یہاں استفہام بمعنی انکار کے مفہوم میں ہے یعنی (فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ 11ڮ) 90 ۔ البلد :11) کیا وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا ؟ مطلب ہے نہیں ہوا۔ یہ ایک مثال ہے اس محنت و مشقت کی وضاحت کے لئے جو نیکی کے کاموں کے لئے ایک انسان کو شیطان کے وسوسوں اور تقاضوں کے خلاف کرنی پڑتی ہے، جیسے گھاٹی پر چڑھنے کے لئے سخت جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے (فتح القدیر)
[٩] اس آیت میں دو الفاظ قابل وضاحت ہیں ایک اقتحام دوسرا عقبہ۔ قحم (فی الامر) بمعنی بلا سوچے کسی معاملہ میں داخل ہوجانا اور اِقْتَحَمَ (الامر) بمعنی اپنے آپ کو مشقت کے ساتھ کسی معاملہ میں پھنسا دینا یا کسی مشکل کام میں جاگھسنا۔ اور عقبہ بمعنی کسی پہاڑ یا گھاٹی پر چڑھنے کا دشوار گزار راستہ جو پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہو اور اس لفظ سے صرف اوپر چڑھنے کا راستہ ہی مراد لیا جاتا ہے، نیچے اترنے کا نہیں۔
فلا اقتحم العقبۃ : اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال کی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا تقاضا یہ نہ تھا کہ اسے ناحق اڑاتا، بلکہ یہ تھا کہ وہ بلندیاں جو سخت جدوجہد سے حاصل ہوتیہیں انہیں سر کرنے کے لئے مشکل گھاٹی میں بےدریغ گھس جاتا، مگر اس نے اس مشکل گھاٹی میں گھسنے کی جرأت ہی نہیں کی۔ مشکل گھاٹی اس لئے فرمایا کہ نفس کو ان کاموں کا سرانجام دینا دشوار ہوتا ہے۔” العقبۃ “ کے معنی ہیں گھاٹی، پہاڑ پر چڑھنے کا مشکل راستہ۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ (Yet he did not make his way through the steep course. And what may let you know what the steep course is? ...90:11-12] & The word &aqabah means &hill, high place or a steep road&. It also refers to a &low area of land between two hills or mountains, that is, a valley&. &Aqabah helps a man in saving himself when pursued by an enemy by ascending the summit of the mountain, or in escaping by descending into the valley. Here the word &aqabah refers to obedience and devotion. Just as it saves man from an enemy, righteous deeds save man from the punishment of the Hereafter. The righteous deeds are as follows: فَكُّ رَقَبَةٍ ([ It is ] freeing of the neck of a slave...90:13). This is a great devotional act [ and carries a great reward because ] it moulds a man&s life. أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (or giving food in a day of hunger...90:14). Although it is an act of great reward to feed any hungry person, it carries even a greater reward to feed certain people, as follows: يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ (to an orphan near of kin, or to a needy person lying in dust....90:15-16) If an orphaned family member is given food to eat, its reward is twofold, for satisfying the hunger of a hungry person and for maintaining family ties and fulfilling his rights. فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (in a day of hunger...90:14). It means that feeding him in a day when he is hungry will attract more reward. If an orphan is not a close relative or family member, but he is so poor as to be wallowing in dust, spending on him will yield a greater reward. The poorer the person is, the greater will be the reward for the spender.
فلا اقتحم العقبة۔ وما ادرک مالعقبة۔ فل رقبة، عقبہ پہاڑ کی بڑی چٹان کو بھی کہتے ہیں اور دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو یعنی گھاٹی کو بھی اور دشمن سے نجات حاصل کرنے میں عقبہ انسان کی مدد کرتا ہے کہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر دشمن سے اپنے کو بچا لے یا پھر گھاٹی میں داخل ہو کر یہاں سے نکل جائے۔ اس جگہ طاعات و عبادات کو ایک عقبہ سے تعبیر فرمایا ہے کہ جس طرح دشمن سے نجات دلانیکا سبب ہوتا ہے اعمال صالحہ آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں پھر ان اعمال صحالہ میں پہلے فک رقبة فرمایا، یعنی کسی غلام کو آزاد کرنا بکہ بہت بڑی عبادت اور ایک انسان کی زندگی کو بنادینا ہے۔ دوسری چیز اواطعم بیان فرمائی کہ بھوکے کو کھانا کھلانا بہت بڑا ثواب ہے اور کھانا کھلانا کسی کو بھی ہو ثواب سے خالی نہیں مگر بعض کو کھلانا بہت بڑا ثواب بن جاتا ہے اس لئے اس بڑے ثواب کے حاصل کرنے کے لئے فرمایا یتیما ذا مقربة۔ اومسکینا ذامتربة، یعنی خصوصاً جب کھانا کسی ایسے یتیم کو کھلایا جائے جس کے ساتھ تمہاری قرابت و رشتہ داری بھی ہے تو اس میں دوہرا ثواب ہوگیا، ایک بھوکے کا پیٹ بھرنا دوسرے رشتہ دار کا صلہ رحمی اور اس کا حق ادا کرنا، فی یوم ذی مسبغة، یعنی بالخصوص ایسے دن میں اس کو کھانا کھلانا جس میں وہ بھوکا ہو اور بھی زیادہ موجب ثواب ہے۔ اسی طرح یتیم رشتہ دار نہ ہو تو ایسا مسکین ہو جس کی مسکنت نے اس کی خاک نشین بنا رکھا ہے مراد بہت زیادہ مفلس و محتاج ہے اور جس پر خرچ کیا جائے وہ جتنا زیادہ محتاج ہوگا اتنا ہی خرچ کرنے والے کا ثواب بڑھے گا۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ انسان صرف اپنی نیکی پر اکتفا نہ کرے دوسروں کو بھی نیکی کی ہدایت کرتا رہے۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ١١ ۡۖ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قحم الِاقْتِحَامُ : توسّط شدّة مخیفة . قال تعالی: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] ، هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ [ ص/ 59] ، وقَحَّمَ الفرسُ فارسَهُ : توَغَّلَ به ما يخاف عليه، وقَحَمَ فلان نفسه في كذا من غير رويّة، والمَقَاحِيمُ : الذین يَقْتَحِمُون في الأمر، قال الشاعر : مَقَاحِيمُ في الأمر الذي يتجنّب ويروی: يتهيّب . ( ق ح م ) الاقتحام کے معنی کسی خوف ناک جگہ میں گھس جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ [ البلد/ 11] مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ۔ هذا فَوْجٌ مُقْتَحِمٌ [ ص/ 59] یہ ایک فوج ہے جو داخل ہوگی ۔ قحم الفرس فارسہ گھوڑا اپنے سوار کو لے کر خطرناک جگہ میں جا گھسا ۔ قحم فلان نفسہ فی کذا اس نے اپنے تئیں بےسوچے سمجھے خطرہ میں ڈال دیا ۔ مقاحیم ( واحد مقحام ) بےخطر کسی ( خوف ناک ) امر میں گھس جانے والے شاعر نے کہا ہے ( ) (351) مقاحیم فی الامر الذی یتجنب وہ قابل اجتناب یعنی خوفناک امور میں بےدھڑک گھسنے والے ہیں ایک روایت میں یتھیب ہے ۔ عَقَبَةُ : طریق وعر في الجبل، والجمع : عُقُب وعِقَاب، والعُقَاب سمّي لتعاقب جريه في الصّيد، وبه شبّه في الهيئة الرّاية، والحجر الذي علی حافتي البئر، والخیط الذي في القرط، والیعقوب : ذکر الحجل لما له من عقب الجري العقبۃ پہاڑ پر چڑھنے کا دشوار گذار راستہ اس کی جمع عقب و عقاب ہے اور شاہین کو بھی عقاب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شکار کا تعاقب کرتا ہے اور تشبیہ کے طور پر عقاب کا لفظ ( 1 ) جھنڈے ( کنوئیں کے پتھر جس پر پانی ملانے والا کھڑا ہوتا ہے اور ( 3 ) کان کی بالی کے تاگے پر بھی بولا جاتا ہے الیعقوب نر چکور کیونکہ اس کی عادت یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوڑنے کے بعد ٹھہر جاتا ہے اور پھر دوسری بار دوڑتا ہے ۔
(11 ۔ 16) کیا اس قوت کے دعویدار نے پل صراط کی گھاٹی کو عبور کیا ہے اور یہ گھاٹی جنت و دوزخ کے درمیان ہے اور اس گھاٹی کو کوئی عبور نہیں کرسکتا مگر وہ شخص جو کہ گردن کو غلامی سے چھڑا دے، یا فاقہ کے دن میں کسی رشتہ دار یتیم کو کھانا کھلا دے، یا کسی خاک نشین محتاج کو جس کے پاس کچھ نہ ہو کھانا کھلا دے۔
11 The words in the original are: fa-lagtaham-al- aqabah. Iqtiham means to apply oneself to a hard and toilsome task, and 'aqabah is the steep path that passes through mountains for ascending heights. Thus, the verse means: "One of the two paths that We have shown him, leads to heights but is toilsome and steep; man has to tread it against the desires of his self and the temptations of Satan. The other path is easy which descends into chasms, but does not require any toil from man; one only needs to give free reins to oneself, then one automatically goes on rolling down the abyss. Now, the tnan to whom We had shown both the paths, adopted the easy down-hill path and abandoned the toilsome path, which leads to the heights."
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :11 اصل الفاظ ہیں فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ اقتحام کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی سخت اور مشقت طلب کام میں ڈالنا ۔ اور عقبہ اس دشوار گزار راستے کو کہتے ہیں جو بلندی پر جانے کے لیے پہاڑوں میں سے گزرتا ہے ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو راستے جو ہم نے اسے دکھائے ان میں سے ایک بلندی کی طرف جاتا ہے مگر مشقت طلب اور دشوار گزار ہے ۔ اس میں آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے اور شیطان کی ترغیبات سے لڑ کر چلنا پڑتا ہے ۔ اور دوسرا آسان راستہ ہے جو کھڑوں میں اترتا ہے ، مگر اس سے پستی کی طرف جانے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ بس اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دینا کافی ہے ، پھر آدمی خود نشیب کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے ۔ اب یہ آدمی جس کو ہم نے دونوں راستے دکھا دیے تھے ، اس نے ان میں سے پستی کی جانب جانے والے راستے کو اختیار کر لیا اور اس مشقت طلب راستے کو چھوڑ دیا جو بلندی کی طرف جانے والا ہے ۔
7: گھاٹی دو پہاڑوں کے درمیانی راستے کو کہتے ہیں۔ عام طور سے جنگ کے دوران ایسے راستے کو دُشمن سے بچنے کے لئے اِختیار کیا جاتا ہے، اور یہاں گھاٹی میں داخل ہونے سے مراد ثواب کے کام کرنا ہے، جیسے کہ اگلی آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے خود تشریح فرما دی ہے۔ ان کو گھاٹی میں داخل ہونا اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اِنسان کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔
١١۔ ٢٠۔ عقبہ پہاڑ کی اس گھاٹی کو کہتے ہیں جس سے گزر مشکل ہو اوراقتحام کسی کام میں جان بوجھ کر پڑنے کو کہتے ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ نیک کام کرنا ایسا مشکل ہے جس طرح کسی دشوار گزار گھاٹی سے گزر مشکل سے ہوتا ہے ‘ اس کے بعد نیک کاموں کے غلام کے آزاد کرنے اور بھوکے کو کھانا کھلانے کو مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ صحیح ١ ؎ حدیثوں کے مطابق مطلب ہے کہ غلام کے آزاد کرنے میں غلام کے ہاتھ پائوں اسی طرح ہر ایک عضو کی آزادی کا یہ اجر ہے کہ آزاد کرنے والے شخص کے سب اعضا دوزخ کی آگ سے آزاد ہوجاتے ہیں اسی طرح بھوکے کو کھلانے کا اجر ہے۔ صحیح ٢ ؎ حدیث میں کے کہ اطعموا الطعام تدخلوا الجنۃ بسلام۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بےکھٹکے جنت میں چلے جاؤ لیکن ان نفلی کاموں کے ثواب کی توقع جب ہے کہ آدمی کے دل میں عقبیٰ کی سزا و جزا کا پورا یقین ہو اور ہر ایک نفلی عمل کے موافق اور ادائے فرائض کے بعد ہو اور اس میں دنیا کے دکھاوے کا کچھ دخل نہ ہو۔ ورنہ اس کے برخلاف نیک عملوں کا حال سورة فرقان میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن وہ ایسے اڑ جائیں گے جس طرح ہوا میں ریت اڑ جاتی ہے۔ اسی واسطے ان نفلی عملوں کے ذکر کے بعد فرمایا ثم کان من الذین امنوا وتوا صوابالصبر جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نفلی کاموں کا کرنے والا ایمانداروں میں سے ہو اس کے دل میں کسی شرک و بدعت و ریاکاری کا خیال نہ ہو کہ یہ باتیں ایمانداری سے بعید ہیں اور وہ ایسے لوگوں میں سے بھی ہو جن میں ادائے فرائض کی تکلیف پر صبر و تحمل کی قید ہو۔ کیونکہ جس کے ذمہ ترک فرائض پر مواخذہ ہے اس کی نجات فقط نفلی عملوں سے مشکل ہے پھر فرمایا وتواصوا بالمرحمہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ایسے لوگوں میں سے بھی ہو جن کی عادت خلق اللہ سے شفقت کے ساتھ برتاؤرکھنے کی ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ خلق اللہ کے ساتھ جو لوگ ظلم و زیادتی کا برتاؤ رکھتے ہیں ان کی نیکیاں قیامت کے دن ظلم و زیادتی کے بدلہ میں مظلوموں کو بٹ جائیں گی چناچہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے اس باب میں اوپر گزر چکی ہیں پھر فرمایا جو اعتقاد اور عمل میں اس کے برخلاف ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ ایصاد کے معنی بند کردینے کے ہیں اس لئے نار موصدہ کے یہ مینو ہیں کہ اس آگ سے نکل بھاگنے کا راستہ ہر طرف سے بند ہے۔ (٢ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب فی انشاء السلام ص ٦٧٣۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب فضل العتق ص ٤٩٥ ج ١۔ ) ٣ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣٢٠ ج ٢۔
(90:11) فلا اقتحم القعبۃ : اقتحم ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب اقتحام (افتعال) مصدر۔ بمعنی گھس پڑنا ۔ بغیر دیکھے بھالے اپنے آپ کو کسی شے میں جھونک دینا۔ عقبۃ پہاڑ میں چڑھائی کا جو دشوار گزار راستہ ہوتا ہے اس کو عقبۃ کہتے ہیں اس کی جمع عقب و عقاب ہے۔ العقبۃ مفعول ہے اقتحم کا۔ تفسیر مظہری میں اس آیت کی مندرجہ ذیل تشریح کی گئی ہے :۔ فلا میں لا بعض کے نزدیک اپنے اصل معنی (نفی) میں نہیں بلکہ ہلا کے معنی میں آیا ہے کیونکہ جب تک تکرار نہ ہو لا ماضی پر نہیں آتا۔ اس وقت مطلب اس طرح ہوگا :۔ کہ اللہ تعالیٰ کی طاعت میں اس نے مال خرچ کیوں نہیں کیا۔ کہ اس کے ذریعہ سے گھاٹی کو عبور کرلیتا۔ (زندگی کی یا جنت کی یا طاعت کی گھاٹی) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں صرف کرنے سے طاعت رسول میں صرف کرنا اس کے لئے بہتر ہوتا۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ لا اپنے معنی پر ہے لا کا مدخول اگرچہ لفظا مکرر نہیں مگر معنوی تعداد ضرور ہے۔ کیونکہ عقبۃ کے (مرادی) معنی میں تعدد ہے۔ (عقبۃ سے مراد ہے (1) فک رقبۃ (2) اطعام مسکین (3) مومن ہونا) اصل کلام اس طرح تھا :۔ فلافک رقبۃ ولا اطعم مسکینا ولا کان من الذین امنوا۔ نہ اس نے کسی بردہ کی گلو خلاصی کی نہ مسکین کو کھانا دیا۔ اور نہ مومنوں میں سے ہوا۔ اول الذکر تقدیر پر اس جملہ کا عطف اہلکت مالا لبدا پر ہوگا۔ اور مؤخر الذکر تفسیر پر جواب قسم پر عطف ہوگا۔ مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے انسان کو اوامرو نواہی کے دکھ میں پیدا کیا مگر وہ تعمیل احکام کی گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور نہ اس نے اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کیا۔ یا الم نجعل لہ عینین ولسانا ۔۔ الخ کے مضمون پر عطف ہوگا۔ مطلب یہ ہوگا :۔ کہ ہم نے انسان کو دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ دئیے اور دو راستے بھی اس کو بتا دئیے مگر وہ طاعت کی راہ میں داخل ہی نہیں ہوا ۔ کہ ان نعمتوں کا صرف ان کے مصرف میں ہوجاتا۔ اور منعم کے انعام کا (کچھ) شکر ہوجاتا۔ عقبۃ اصل میں پہاڑی راستہ کو کہتے ہیں۔ اقتحام۔ گھسنا یہاں مراد ہے۔ اوامرو نواہی کی پابندی کی مشقت برداشت کرنا اور اواء واجب سے عہدہ برآ ہونا۔ کیونکہ گنہگار پر گناہ کرنے کا بار اور اداء واجبات کی ذمہ داری پہاڑی گھاٹی کے مشابہ ہے اور فرائض مذکورہ کو ادا کردینا گھاٹی کو عبور کرلینے سے مشابہت رکھتا ہے۔ ابن زید نے کہا :۔ ” اللہ فرماتا ہے : پھر کیوں راہ نجات پر نہیں چلتا۔ (راہ نجات کونسی ہے) آئندہ خود ہی اس کو بیان فرما دیا “۔
ف 2 یہاں نیکی اور ثواب کے کام کو جس کا ذکر آگے آرہا ہے، گھاٹی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ اس لحاظ سے کہ اسے انجام دینا نفس پر دشوار گزرتا ہے۔
پھر اللہ نے انسان کو یہ ہدایت دی کہ وہ خیروشر کو سمجھے اور یہ سمجھے کہ جنت کا راستہ کون سا ہے اور جہنم کا راستہ ہے اور اللہ نے اگلی آیات میں اس مشکل گھاٹی کی توضیح فرمادی ہے : فلا اقتحم ................................ المیمنة یہ ہے وہ دشوار گزار کھائی جس کو عبور کرنے کی ہمت انسان نہیں کرتا ، الایہ کہ جو لوگ اپنے پختہ ایمان سے مدد لیں۔ یہ گھاٹی انسان اور جنت کے درمیان حائل ہے ، اگر انسان اسے عبور کرلے تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوجائے ۔ یہاں قرآن کریم اس کی تصویر کشی اس طرح کرتا ہے کہ انسان کے دل میں اسے عبور کرنے کا جوش پیدا ہو ، اور یہ تحریک ہو کہ وہ اسے عبور کرلے ، ایک جست لگائے اور اس پار ہو ، اس کی پوری طرح وضاحت کی گئی اور یہ یقین دلادیا گیا کہ یہی تمہارے اور جنت کے درمیان حائل ہے۔ فلا اقتحم العقبة (11:90) ” مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی “۔ لفظ اقتحام استعمال کرکے اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ آگے بڑھو ، ایک جست لگا کر اسے عبور کرو ، گھس جاﺅ۔
6:۔ ” فلا اقتحم “ لا بمعنی ھلا ہے، کیونکہ ” لا “ تکرار ماضی پر نہیں آسکتا (کبیر، مظہری) ” العقبۃ “ پہاڑی راستہ جو نہایت دشوار گذار ہو۔ اقتحام العقبۃ۔ دین حق کی خاطر تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرنے سے کنایہ ہے۔ جب ہم نے اس کو ہر نعمت عطاء کی ہے تو اس نے دین کی خاطر تکلیفیں اور مشقتیں کیوں برداشت نہیں کیں ؟ وہ مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں پر کیوں نہیں چڑھاتا کہ اسے ہلاکت سے نجات مل جاتی کیونکہ پستی کی طرف پانی جاتا ہے وہ ہلاکت کی جگہ ہے اور نجات بلندی میں ہے۔ حاصل یہ کہ اس نے مال بےجا خرچ کیا ہے جائز مصاف میں خرچ نہیں کیا۔ ” وما ادراک ما العقبۃ “ رضی نے کہا ہے اس قسم کی عبارتوں کے دو معنی ہوتے ہیں تجھ کو کیا خبر ہے عقبہ کی یا یہ کہ مجھ سے سن تیری سمجھ میں نہیں آسکتا۔