Surat us Shams
Surah: 91
Verse: 11
سورة الشمس
کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰىہَاۤ ﴿۪ۙ۱۱﴾
Thamud denied [their prophet] by reason of their transgression,
۔ ( قوم ) ثمود نے اپنی سرکشی کی باعث جھٹلایا ۔
کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰىہَاۤ ﴿۪ۙ۱۱﴾
Thamud denied [their prophet] by reason of their transgression,
۔ ( قوم ) ثمود نے اپنی سرکشی کی باعث جھٹلایا ۔
The Rejection of Thamud and Allah's Destruction of Them Allah informs: كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا Thamud denied through their transgression. Allah informs that Thamud rejected their Messenger because of the injustice and transgression they practiced. This was said by Mujahid, Qatadah and others. Therefore, this resulted in a rejection in their hearts for the guidance and conviction their Messenger came to them with. إِذِ انبَعَثَ أَشْقَـهَا
آل ثمود کی تباہی کے اسباب: اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی ، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھاکا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے ، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے ، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہوگئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقرثمودیوں کی آوازپر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا ، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا ، امام بخاری بھیاسے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تربتر ہو جائے گی ، اللہ کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو ، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کرکے اسے پانی سے نہ روکو تمھاری اور اس کی باری مقرر ہے ۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کر لیے تیار ہوگئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی ۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہاس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخافبھی پڑھا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کہیں یہ بگڑنہ بیٹھیں ، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار ، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا ، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورہ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی ۔
11۔ 1 طغیان، وہ سرکشی جو حد سے تجاوز کر جائے اسی طغیان نے انہیں تکذیب پر آمادہ کیا۔
[١٠] اسی حقیقت کو ایک تاریخی نظیر سے سمجھایا گیا ہے اور اس نظیر کے لیے قوم ثمود کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کا مسکن مکہ کے قریب تھا اور اہل مکہ میں ان کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ یعنی قوم ثمود نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کی پروا نہ کی اور اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی۔
” کذبت ثمود بطغوھآ :” طغویٰ “ (سرکشی)” طغا یطغو “ (ن) کا مصدر ہے، جیسا کہ ”’ عا یدعو “ کا مصدر ”’ عویٰ “ ہے۔ بطور مثال تاریخ میں سے ایک قوم کا ذکر فرمایا، جس نے سرکشی کی وجہ سے اپنے آپ کو مٹی میں دبا دیا۔ ثمود صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی، ان کے معجزہ طلب کرنے پر انہیں ایک اونٹنی دی گئی اور انہیں کہا گیا کہ ایک دن اس کے پینے کی باری ہوگی اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کی۔ دیکھیے سورة شعراء (١٥٥)
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىہَآ ١١ ۠ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(11 ۔ 13) قوم ثمود نے اپنی شرارتوں کی وجہ سے حضرت صالح کو جھٹلایا جب کہ اس قوم کے سب سے بڑے بدبخت یعنی قدار بن سالف اور مسدع بن مصر نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ کونچیں کاٹنے سے پہلے حضرت صالح نے فرمایا کہ اللہ کی اس اونٹنی کو اسی طرح رہنے دو اور اس کے پانی پینے میں خلل اندازی مت کرو چناچہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور پھر اس اونٹنی کو مار ڈالا۔
آیت ١ ١{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰٹہَآ ۔ } ” قومِ ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اپنی سرکشی کے باعث۔ “ یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔
7 The things stated in principle in the above verses, are now being explained by as historical precedent or what it is a precedent and how it relates to what has been stated above, one should consider well in .the. light of the other statements of the Qur'an the two basic truths which have been expressed in w. 7-10. Firstly, in these it has been stated that attar creating the human self on balanced and sound nature, Allah inspired it with its fujur and its tagva. The Qur'an along with stating this truth also makes explicit that this inspirational knowledge of fujur and tagva is not enough for every man that he may by himself obtain detailed guidance from it, but for this purpose Allah gave detailed guidance to the Prophets through Revelation in which it was explained what is fujur and what it applies to, which one should avoid, and what is tagva which one should attain and develop, if man does not accept and acknowledge this clear and definite guidance sent down through Revelation, he can neither avoid fujur not find the way to taqva. Secondly, in these verses it has been stated that, the rewards and punishments are the necessary results which accrue from adoption of either fujur or taqva The result of clieansing the self of fujur and developing it ,with taqva is eternal success aad the result of suppressing its good tendencies and causing it to be overwhelmed with fujur is.failure, ruin and destruction. To make man understand this truth a historical precedent is being cited and for this the tribe of Thamud has been taken as an illustration, for the various tribes destroyed in antiquity the territory of the Thamud was closest to Makkah. In northern Hijaz its historical ruins were extant. which the people of Makkah passed by during their trade journeys to Syria, auf the way this tribe has been frequently referred to in the pre-Islamic poetry shows that its destruction was a common subject of talk among the Arabs. 8 "Belied the truth": belied the Prophethood of the Prophet Salih, who was sent for their guidance. On account of their rebellious attitude they were not prepared to give up the fujur in which they were involved, and they were not inclined to accept the tagva to which the Prophet Salih was calling them. For details, see Al-A'raf: 73-76, Hud: 61-62, Ash-Shu`ara': 141-153, An-Naml: 45-49, Al-Qamar: 23-25.
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :7 اوپر آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیا گیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جا رہی ہے ۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں ان دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات 7 تا 10 میں بیان کی گئی ہیں ۔ اولاً ان میں فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالی نے اس کا فجور اور اس کا تقوی اس پر الہام کر دیا ۔ قرآن اس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقوی کا یہ الہامی علم اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود اس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے ۔ بلکہ اس غرض کے لیے اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا گیا کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقوی کس چیز کا نام ہے اور وہ کیسے حاصل ہوتا ہے ۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقوی کا راستہ پا سکتا ہے ۔ ثایناً ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقوی میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں ۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقوی سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے ، اور اس کے اچھے رجحانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نامرادی اور ہلاکت و بربادی ۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تا ریخی نظیر پیش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے ، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہل مکہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی ۔ شمالی حجاز میں اس کے تاریخی آثار موجود تھے جن سے اہل مکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں ہمیشہ گزرتے رہتے تھے ، اور جاہلیت کے اشعار میں جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا ۔ سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :8 یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس جھٹلانے کی وجہ ان کی یہ سرکشی تھی کہ وہ اس فجور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا ہو چکے تھے اور اس تقوی کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح انہیں دعوت دے رہے تھے ۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الااعراف ، آیات 73 تا 76 ۔ ہود ، آیات 61 ۔ 62 ۔ الشعراء ، آیات 141 تا 153 ۔ النمل ، آیات 45 تا 49 ۔ القمر ، آیات 23 تا 25 ۔
١١۔ ١٦۔ یہ اونٹنی کا قصہ تفصیل سے سورة اعراف میں گزر چکا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ ثمود نے حضرت صالح سے ایک دن پہاڑ میں سے ایک حاملہ اونٹنی کے پیدا ہونے کا معجزہ چاہا اور حضرت صالح کی دعاء سے حاملہ اونٹنی پیدا ہوئی اور پھر اس کے پیٹ سے بچہ بھی پیدا ہوا۔ ثمود کے شہر میں پانی کی کشش تھی اس واسطے حضرت صالح نے یہ بات ٹھہرا دی تھی کہ ایک روز وہ اونٹنی پانی پیاکرے اور ایک روز لوگوں کے جانور پیا کریں جس کنویں سے یہ اونٹنی پانی پیتی تھی ‘ اس کا نام ثمود نے اونٹنی والا کنواں رکھ دیا تھا صالح نے باری جو ٹھہراثی تھی اسی باری کے دن کسی طرح کی شرارت کرنے سے حضرت صالح نے ثمود کو ڈرایا ہے جس کا ان آیتوں میں ذکر ہے اس باری کے موافق جس دن اونٹنی اس کنویں سے پانی پیتی تھی تو کنویں کا سب پانی پی لیتی تھی اسی سبب سے اس محلہ کے لوگ اونٹنی کو بری نظروں سے دیکھنے لگے آخر نتیجہ یہ ہوا کہ نو آدمیوں نے ایکا کرکے اس اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا اس اونٹنی کی ہلاکت کے بعد اس کا بچہ پہاڑ میں جا کر غائب ہوگیا ایک شخص قدار بن سالف ان نو آدمیوں کا بڑا سرغنہ اور ثمود میں بڑا شریر آدمی تھا اور اسی نے پہلا وار اس اونٹنی پر کیا صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن زمعہ کی روایت سے یہ لفظ آئے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ ایک شریر آدمی نے اونٹنی کو ہلاک کیا۔ وہ شریر آدمی یہی قدار بن سالف تھا۔ اس اونٹنی کی ہلاکت کے تین روز بعد زمین میں زلزلہ آیا اور آسمان سے ایک سخت آواز آئی جس سے سوار حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کے اور سب مخالف غارت ہوگئے۔ ولایخاف عقبھا کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا کے بادشاہ کسی زبردست قوم پر ہاتھ ڈالنے میں پس و پیش کرتے ہیں اللہ ایسا زبردست ہے کہ ایک دم جو چاہے کر دے۔ اس کو دنیا کے بادشاہوں کی طرح کسی پس و پیش کی پرواہ نہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة و الشمس ص ٧٣٧ ج ٢ و صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨٣ ج ٢۔ )
(91:11) کذبت ثمود بطغوھا : ثمود سے مراد قوم ثمود ہے۔ اسی بناء پر کذبت صیغہ واحد مؤنث لایا گیا ہے۔ ب سببیہ ہے طغوھا مضاف مضاف الیہ۔ ان کی سرکشی ھا ضمیر واحد مؤنث غائب قوم ثمود کے لئے ہے۔ طغوی : طغیان (باب نصر) مصدر سے اسم ہے جیسے دعاء سے دعوی ہے۔ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔ کذبت کا مفعول محذوف ہے۔ (یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت اور ہدایت) یعنی قوم ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب حضرت صالح اور ان کی نبوت و ہدایت کی تکذیب کی۔
فہم القرآن ربط کلام : نفس کو خاک آلود کردینے والے لوگوں کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وہی فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمّہ داری اور دیانتداری کے ساتھ تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو، میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں، میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمہیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس فکر وعمل کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، بہتے ہوئے چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ قوم ثمود کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کرمکانات اور محلات تعمیر کر رکھے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کرو، تم اصلاح کرنے کی بجائے زمین پر فساد کرنے والے ہو، قوم نے مثبت جواب دینے کی بجائے کہا کہ اے صالح ! تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو جس طرح سحر زدہ لوگ کرتے ہیں۔ جس طرح ہم انسان ہیں تو بھی ہمارے جیسا انسان ہے اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو کوئی معجزہ ہمارے سامنے پیش کر۔ یاد رہے کہ ہمیشہ سے نافرمان لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر اور مصلح نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے مصلح پر یہی الزام لگایا اور اعتراض کیا کہ تجھے تو جادو ہوگیا ہے اس لیے دیوانوں جیسی بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ منکرین کا یہ بھی اعتراض ہوتا تھا کہ نبی مافوق الفطرت ہستی کو ہونا چاہیے یہ تو ہماری طرح انسان ہیں۔ قوم ثمود نے حضرت صالح پر یہی الزام لگایا اور ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یہ معجزہ طلب کیا کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نمودار ہو اور اس کے پیچھے اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تائید میں اور قوم کے مطالبہ کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پہاڑ سے اونٹنی اور اس کا بچہ نمودار کیا جب اونٹنی اپنے بچہ کے ساتھ قوم کے سامنے آئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور پئیں گے، خبردار ! اسے تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمہیں دبوچ لے گا۔ اس انتباہ کے باوجود انھوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کو عذاب نے پکڑلیا اور وہ ذلیل و خوار کر دئیے گئے۔ مسائل ١۔ قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بنیاد پر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ ٢۔ قوم ثمود نے معجزہ کے طور پر نمودار ہونے والی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مجرم قوم کو تباہ کرتے ہوئے کسی سے خوف نہیں کھاتا۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کا انجام : ١۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ پریشان ہونے والوں میں ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧)
کذبت ثمود ................................ عقبھا قوم ثمود اور ان کے نبی حضرت صالح علہی السلام کی کہانی قرآن مجید میں کئی مقامات پر آتی ہے۔ ہر مقام پر ہم نے اس پر بات کی ہے اور ابھی سورة الفجر میں ، اسی پارے میں یہ کہانی گزری ہے۔ تفصیلات ان مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قوم ثمود نے صرف اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے نبی کی تکذیب کی۔ اور اس سرکشی کے سوا کوئی اور جواز اس کے لئے نہ تھا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ان میں سے ایک نہایت ہی شقی القلب شخص اٹھا اور اس نے ناقتہ اللہ کو قتل کردیا۔ یہ شخص ان میں نہایت سنگدل اور سرکش تھا کہ وہ اس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے لئے تیار ہوگیا۔ حالانکہ ان کے نبی نے واضح الفاظ میں ان کو متنبہ کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس ناقہ کو کوئی گزندنہ پہنچانا ، نہ اس پانی میں مداخلت کرنا جس کو اللہ نے تمہارے اور ناقہ کے درمیان تقسیم کردیا ہے کہ ایک دن تمہارے لئے اور ایک دن اس ناقہ کے لئے ہے اور یہ تقسیم اس لئے ہوئی تھی کہ انہوں نے اللہ کے نبی سے معجزے کا مطالبہ کردیا تھا تو اللہ نے اس ناقعہ کو معجزہ قرار دیا۔ اس ناقہ کی کوئی نہ کوئی معجزانہ شان تو بہرحال ہوگی۔ یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔ اس لئے کہ خود اللہ نے اس شان اعجاز کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ کی جانب سے ڈرانے والے کی تکذیب کی اور ناقہ کو قتل کردیا۔ اور جس شخص نے عملاً یہ فعل اپنے ذمہ دیا۔ وہ ان میں سے بہت زیادہ بدبخت اور شقی تھا۔ لیکن ذمہ داری سب نے لی۔ اور سب ہی ذمہ دار اس لئے قرار پائے کہ انہوں نے اس شخص کو اس برے فعل سے نہ روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اسلام کے اصولوں میں سے یہ بنیادی اصول ہے کہ دنیا کی اجتماعی زندگی میں ذمہ داری بھی اجتماعی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی ذمہ داری کا قانون اسلام کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کے خلاف نہیں ہے۔ یعنی آخرت میں کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، کیونکہ اسلام میں یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کہ کوئی دوسروں کو نصیحت کرنا چھوڑ دے ، دوسروں کی اصلاح ، ان کی کفالت ، سے دسکش ہوجائے اور نیکی کرنے اور ظالم کا ہتھ پکڑنے پر لوگوں کو نہ ابھارے۔ جب انہوں نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کیا تو پھر دست قدرت حرکت میں آیا۔ فدمدم علیھم ............................ فسوھا (14:91) ” آخر کار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوندخاک کردیا “۔” دمدمہ “ کے معنی غضب کے ہوتے ہیں اور غضب کے نتیجے میں جو انتفام اور عذاب آتا ہے۔ لفظ ” دمدم “ کا تلفظ ہی بناتا ہے کہ وہ عذاب کس قدر سخت ہوگا ۔ اس لفظ کا تلفظ اور ترنم ہی ایک خوفناک منظر کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اللہ نے ان کی زمین کو اوپر نیچے کردیا اور برابر کردیا۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے جس سے نہایت ہی ہمہ گیر بربادی کا اظہار ہوتا ہے۔ ولا یخاف عقبھا (15:91) ” اور اسے اس کے کسی برے نتیجے کا خوف نہیں ہے “۔ وہ تو ہر کمزوری سے پاک ہے ، وہ کس سے خوف کرسکتا ہے ؟ کہاں خوف کھاسکتا ہے اور کب خائف ہوسکتا ہے ؟ “۔ دراصل اس انداز تعبیر سے ایک لازمی مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی گرفت نہایت سخت ہوتی ہے ، اس لئے کہ دنیا کا جو شخص بھی اگر کسی انجام سے نہ ڈرتا ہو تو وہ سخت ترین مظالم ڈھاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی پکڑ سخت ہوگی کیونکہ اللہ سے کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بطش .................... لشدید ” بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے “۔ اس لئے یہ کہہ کر کہ وہ اپنے کسی فعل کے برے نتیجے سے نویں ڈرتا ، یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوگی۔ یوں نفس انسانی کو اس کائنات کے عظیم حقائق کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور اس کائنات کے مشاہد اور مناظر کے ساتھ نفس انسانی کو متعلق کیا جاتا ہے۔ پھر نفس انسانی اور مشاہد کائنات دونوں کو اللہ کی اس سنت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو اس نے سرکشوں اور تکذیب کرنے والوں کی گرفت کے لئے وضع کی ہے۔ یہ سب واقعات اللہ کی تقدیر کے حدود کے اندر ہوتے ہیں۔ جس کے نظام میں اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے ۔ ہر حادثہ کا ایو وقت طے شدہ ہے۔ ہر واقعہ کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس تدقر کے نظام میں ہر ہر قدم پر حکمت ربانی کار فرما ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ نفس کا بھی رب ہے۔ اس کائنات کا بھی رب ہے اور نظام قضا وقدر کا بھی وہی منتظم ہے۔ لہٰذا یہ سب اس کی وسیع تر اسکیم مشیت کے دائرے میں ہیں۔
﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا۪ۤۙ٠٠١١﴾ (قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلایا) یعنی ان کی سرکشی نے انہیں اس پر آمادہ کردیا کہ اللہ کے رسول کی تکذیب کردی اور اللہ کی توحید اللہ کی عبادت کی طرف جو انہوں نے بلایا اس میں انہوں نے ان کو جھوٹا بتادیا، وہ لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) سے جھگڑتے رہے ان سے کہا کہ اگر تم نبی ہو تو پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھاؤ۔ جب پہاڑ سے اونٹنی برآمد ہوگئی تو اب اس کے قتل کرنے کے لیے مشورے کرنے لگے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو بتادیا تھا کہ دیکھو ایک دن تمہارے کنویں کا پانی یہ اونٹنی پیے گی اور ایک دن تمہارے جانور پئیں گے اور یہ بھی بتادیا کہ اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے، لیکن وہ باز نہ آئے اور ایک شخص اس پر آمادہ ہوگیا کہ اس اونٹنی کو کاٹ ڈالے۔ اسی کو فرمایا ﴿ اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا۪ۙ٠٠١٢﴾ (جبکہ قوم کا سب سے بڑا بدبخت آدمی اٹھ کھڑا ہوا) تاکہ اس اونٹنی کو قتل کر دے۔
6:۔ ” کذبت ثمود “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” طغوی “ سرکشی، نافرمانی میں حد سے نکل جانا۔ ای بطغیانہا وھو خروجہا عن الحد فی عصیان قالہ مجاد وقتادۃ وغیرھما (قرطبی ج 20 ص 78) اور باء سببیہ ہے (روح) ۔ قوم ثمود نے سرکشی کی وجہ سے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ اذنبعث اشقاہا جب کہ ان میں کا سب سے بڑا بدبخت اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے اٹھا۔