Surat ul Lail
Surah: 92
Verse: 14
سورة الليل
فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾
So I have warned you of a Fire which is blazing.
میں نے تو تمہیں شعلے مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے ۔
فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾
So I have warned you of a Fire which is blazing.
میں نے تو تمہیں شعلے مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے ۔
Therefore I have warned you of a Fire Talazza. Mujahid said, "Blazing." Imam Ahmad recorded from Simak bin Harb that he heard An-Nu`man bin Bashir giving a sermon, in which he said, "I heard the Messenger of Allah giving a sermon, in which he said: أَنْذَرْتُكُمُ النَّار I have warned you of the Fire. And he said it in such a voice that if a man was in the marketplace he could hear it from where I am standing now. And he said it (with such force) that the garment that was on his shoulder fell down to his feet." Imam Ahmad recorded from Abu Ishaq that he heard An-Nu`man bin Bashir giving a sermon, in which he said, "I heard the Messenger of Allah saying, إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تُوضَعُ فِي أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُه Verily, the person to be punished lightest of the people of the Fire on the Day of Judgement will be a man who will have placed on the soles of his feet two coals that will cause his brain to boil." Imam Al-Bukhari also recorded this narration. Muslim recorded that Abu Ishaq narrated from An-Nu`man bin Bashir that the Messenger of Allah said, إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَهُ نَعْلَنِ وَشِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا يَغْلِي الْمِرْجَلُ مَا يَرَى أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّ مِنْهُ عَذَابًا وَإِنَّهُ لاََهْوَنُهُمْ عَذَابًا Verily, the lightest punishment received by the people of the Hellfire will be a man who will have two sandals whose straps will be made of fire that will cause his brain to boil just as a cauldron boils. Yet he will not think that anyone is receiving a torment more severe than him, even though he will be receiving the lightest punishment of them. Allah says, لاَا يَصْلَاهَا إِلاَّ الاْاَشْقَى
(فانذر تکم نارا تلظی :” تلظی “ اصل میں ” تلظی “ ہے جو ” لظی “ سے باب تفعل کا مضارع ہے۔ شعلے ماتری ہے۔ میرا کام راستہ بتانا ہے، وہ میں نے بتادیا اور نہ ماننے والوں کو زبردست شعلے ماتری ہوئی آگ سے ڈرا دیا، اب ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے، سب کو زبردستی مسلمان بنادینا میری حکمت کے خلاف ہے۔
فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى ١٤ ۚ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ لظی اللَّظَى: اللهب الخالص، وقد لَظِيَتِ النارُ وتَلَظَّتْ. قال تعالی: ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] أي : تَتَلَظَّى، ولَظَى غير مصروفة : اسم لجهنم . قال تعالی: إِنَّها لَظى[ المعارج/ 15] . ( ل ظ ی ) لظیت النار وتلظت کے معنی آگ بھڑک اٹھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] بھڑکتی آگ سے ، اور لظیٰ آگ کے شعلہ کو کہا جاتا ہے جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہو یہ جہنم کا علم اور غیر منصرف ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّها لَظى[ المعارج/ 15] وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔
آیت ١٤{ فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی ۔ } ” دیکھو ! میں نے تمہیں خبردار کردیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے۔ “ جہنم تو بھوکے شیر کی طرح اپنے شکار کی تاک میں ہے : { نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی - تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی ۔ } (المعارج) ” وہ کلیجوں کو کھینچ لے گی ۔ وہ پکارے گی ہر اس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رخ پھیرلیا تھا۔ “
(92:14) فانذرتکم نارا تلظی : ف سببیہ ہے اللہ کا مالک دارین اور خالق کونین ہونا سبب تحویف ہے۔ نارا متعلق انذرتکم ہے اور موصوف ہے۔ تلظی اس کی صفت ہے۔ صیغہ واحد مؤنث غائب۔ وہ بھڑکتی ہے۔ وہ شعلہ مارتی ہے۔ تلظی (تفعل) مصدر سے۔ جس کے معنی آگ کے لپیٹیں مارنے، شعلے بلند کرنے اور بھڑکنے کے ہیں۔ یہ اصل میں تتلظی تھا۔ تخفیفاً ایک تاء کو حذف کردیا گیا۔ ترجمہ :۔ پس میں تم کو بھڑکتی آگ سے ڈراتا ہوں۔
7۔ اس میں نہایت ہی مبالغہ ہے اخلاص میں کیونکہ کسی کے احسان کا بدلہ اتارنا بھی فی نفسہ انفاق مندوب و مطلوب ہے، مگر فضیلت میں احساب ابتدائی کی برابر نہیں، پس جب اس شخص کا انفاق اس سے بھی مبرا ہے تو ریا وغیرہ معاصی کی آمیزش سے تو بدرجہ اولی بری ہوگا اور یہ کمال اخلاص ہے۔
فانذرتکم نارا تلظی (14:92) ” پس میں نے تم کو خبردار کردیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے “۔ اور یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہر کسی کے لئے نہیں ہے ، بلکہ یہ تو بھڑکائی گئی ہے۔
گزشتہ آیات میں ایمان اور کفر اور اعمال صالحہ اور اعمال سیہٴ کے نتائج کا فرق بیان فرمایا جس میں یہ بھی تھا کہ کفر عذاب میں مبتلا کرنے والی چیز ہے چونکہ یہ جلنے کا عذاب ہوگا کافر دوزخ میں داخل ہوں گے ان پر آگ مسلط ہوگی اس لیے دوزخ کے عذاب کی حقیقت بتادی اور فرما دیا کہ میں تمہیں ایسی آگ سے ڈراتا ہوں جو خوب اچھی طرح جلتی ہوگی۔ مزید فرمایا کہ اس میں صرف وہی داخل ہوگا جو سب سے بڑا بدبخت تھا جس نے جھٹلایا اور روگردانی کی، آیت کے الفاظ سے جو حصر معلوم ہوتا ہے اس سے بظاہر فاسق مسلمانوں کے دوزخ میں داخلے کی نفی ہوتی ہے، صاحب روح المعانی نے یہ اشکال کیا ہے پھر یوں جواب دیا ہے کہ سخت ترین عذاب سب سے بڑے بدبخت یعنی کافر ہی کو ہوگا اور فاسق مسلم کا عذاب کافر کے عذاب سے بہت کم ہوگا۔ قولہ : ﴿تَلَظّٰى﴾ اصلہ تتلظی بالتائین حذفت احداھما کما فی تنزل الملئكة اس کے بعد فرمایا ﴿ وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ٠٠١٧﴾ (اور عنقریب بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا شخص اس آگ سے بچا لیا جائے گا) الاتقیٰ مبالغہ کا صیغہ ہے جو کفر سے اور دوسرے معاصی سے بچنے پر دلالت کرتا ہے دوزخ سے بچائے جانے والے متقی کی صفت بتاتے ہوئے ﴿ الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۚ٠٠١٨﴾ فرمایا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اللہ کے نزدیک وہ پاک بندوں میں شمار ہوجائے۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب یتزکی مال خرچ کرنے والے سے متصل ہو اور اگر مال سے متعلق ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ اپنے بارے میں اللہ سے امید رکھتا ہے کہ اجر وثواب بڑھتا چڑھتا رہے اور خوب زیادہ ہو کر ملے جبکہ مال صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔ دکھاوا اور شہرت مقصود نہ ہو، اس وقت رضائے الٰہی مطلوب ہوتی ہے۔ مزید فرمایا ﴿ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ٠٠١٩﴾ (اللہ کے لیے مال خرچ کرنے والے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں کسی کا ان پر کچھ چاہنا نہیں ہے جس کا بدلہ اتار رہے ہیں ﴿ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى ۚ٠٠٢٠﴾ ان لوگوں کا خرچ کرنا صرف اللہ تعالیٰ رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ وھو منصوب علی الاستثناء المنقطع من نعمة لان الا بتغاء لا یدرج فیھا فالمعنی لکنہ فعل ذلک لا بتغاء وجہ ربہ سبحانہ وطلب رضاء ہ عزوجل لا لمکافئة نعمة ﴿ وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى (رح) ٠٠٢١﴾ (اور یہ مال خرچ کرنے والا عنقریب راضی ہوگا) یعنی موت کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے گا اور اس کو وہ وہ نعمتیں ملیں گی جن سے خوش ہوگا۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آخری آیات ﴿ وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ٠٠١٧﴾ سے لے کر آخیر تک حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئیں، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت ساتھ دیا جان سے بھی اور مال سے بھی ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی۔ حضرت بلال (رض) کو ایمان قبول کرنے کے بعد مشرکین کی طرف سے بہت زیادہ تکلیف دی جاتی تھی ان کی اذیت اور مار پیٹ انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ حضرت بلال (رض) ایک مشرک امیہ بن خلف کے غلام تھے اور حبشہ کے رہنے والے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشارہ پا کر حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ مشرکوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو کہنے لگے کہ ابوبکر نے بلال کو خرید کر اس لیے آزاد کیا ہے کہ بلال کا ابوبکر پر کوئی احسان تھا اس کی تردید کی اور فرمایا ﴿ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ٠٠١٩﴾ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت بلال (رض) کو خرید لیا تو حضرت بلال (رض) نے کہا کہ آپ نے مجھے اپنے کاموں میں مشغول رکھنے کے لیے خریدا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مشغول رہنے کے لیے خریدا ہے، حضرت بلال (رض) نے کہا بس تو مجھے اللہ کے اعمال کے لیے چھوڑ دیجئے، حضرت ابوبکر (رض) نے انہیں آزاد چھوڑ دیا اور وہ پورے اہتمام کے ساتھ دین کے کاموں میں لگے رہے پھر ہجرت کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موذن بن گئے اور آپ کی حیات طیبہ کے آخر عمر تک یہ عہدہ ان کے سپرد رہا چونکہ مکہ معظمہ کی زندگی میں اسلام کے بارے میں مارے پیٹے جاتے تھے اللہ تعالیٰ شانہ نے انہیں دنیا میں یہ سعادت نصیب فرمائی کہ امن وامان کے زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موذن رہے اور اذان و اقامت کا کام ان کے سپرد رہا اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بڑے بڑے فضائل ہیں جن میں سے مال خرچ کرنے میں مسابقت کرنا بھی ہے، عموماً اللہ کی راہ میں تو مال خرچ کرتے ہی رہتے تھے ایک مرتبہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی تو سارا ہی مال لے کر آگئے اور خدمت عالی میں پیش کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال فرمایا کہ اے ابوبکر ! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ؟ عرض کیا ان کے لیے اللہ اور رسول ہی کافی ہے۔ حضرت عمر (رض) خیال کر رہے تھے کہ اس مرتبہ میں ابوبکر (رض) سے آگے بڑھ جاؤں گا وہ اپنا آدھا مال لے کر آگئے جب یہ دیکھا کہ ابوبکر اپنا پورا ہی مال لے آئے ہیں تو کہنے لگے کہ میں ان سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے جو بھی کوئی احسان ہمارے ساتھ کیا ہے ہم نے ان سب کا بدلہ دے دیا، سوائے ابوبکر (رض) کے ان کے جو احسانات ہیں اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن ان کا بدلہ دے گا اور مجھے کسی کے مال سے کبھی اتنا نفع نہیں ہوا جتنا ابوبکر (رض) کے مال نے مجھے نفع دیا اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل (یعنی ایسا دوست) بناتا (جس میں کسی کی ذرا بھی شرکت نہ ہو) تو ابوبکر کو خلیل بنا لیتا خوب سمجھ لو کہ میں اللہ کا خلیل ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال نے نفع دیا، یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور میرا مال آپ ہی کے لیے ہے۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ ١٠) فائدہ : سورة واللیل کے آخر میں حضرت ابوبکر (رض) کے بارے میں ﴿ وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى (رح) ٠٠٢١﴾ فرمایا اور اس کے بعد والی سورت یعنی سورة الضحیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ فرمایا : ﴿وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ٠٠٥﴾ دیکھو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے دوست اور معاون خاص یعنی ابو بکرصدیق (رض) سے اللہ تعالیٰ راضی ہے لیکن روافض (شیعہ) نہ اللہ تعالیٰ سے راضی جس نے یہ مرتبہ دیا نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے راضی جنہوں نے ابوبکر صدیق (رض) کو صدیق خاص اور رفیق غار بنایا اور نہ ابوبکر (رض) سے راضی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں سارا مال پیش کردیا اور ہر طرح سے سفر و حضر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا۔ فائدہ : جو کوئی شخص کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا دھیان رکھنا چاہیے جب کبھی موقع ہو اس کی مکافات کر دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (من صنع الیکم معروفا فکا فؤہ فان لم تجدوا ما تکافؤہ فادعولہ حتی تروا انکم قد کا فا تم وہ ) ۔ (جو شخص تمہارے ساتھ کوئی حسن سلوک کر دے تو تم اس کا بدلہ دے دو اور اگر بدلہ دینے کو کچھ نہ ملے تو اس کے لیے اتنی دعا کرو کہ تمہارا دل گواہی دے دے کہ اس کا بدلہ اتر گیا) ۔ یاد رہے کہ احسن طریق سے اس کا بدلہ اتار دو اس سے یوں نہ کہے کہ یہ تمہارے فلان احسان کا بدلہ ہے اس سے دل رنجیدہ ہوگا اور شریف سخی آدمی بدلہ کے نام سے قبول بھی نہیں کرے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کے احسان کی مکافات کرنا بھی اچھی بات بلکہ مامور بہ ہے لیکن اپنی طرف سے احسان کرنا جو احسان کے بدلہ میں نہ ہو اس کی فضیلت زیادہ ہے۔
ٖف 6:۔ ” فانذرتکم “ یہ تخویف اخروی ہے۔ میں نے تمہیں بھڑکتی اور شعلے مارتی آگ سے ڈرایا ہے اس سے بچو اور حق کو قبول کرو۔ اس میں صرف وہ داخل ہوگا جو نہایت بدبخت ہوگا جس نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا اور دین حق سے اعراض کیا۔