Surat us Sharah

Surah: 94

Verse: 1

سورة الشرح

اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ ۙ﴿۱﴾

Did We not expand for you, [O Muhammad], your breast?

کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meaning of Opening the Breast Allah says, أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ Have We not opened your breast for you? This means, `We illuminated it, and We made it spacious, vast and wide.' This is as Allah says, فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلِسْلَـمِ And whomsoever Allah wills to guide, He opens his breast to Islam. (6:125) And just a... s Allah expanded his chest, He also made His Law vast, wide, accommodating and easy, containing no difficulty, hardship or burden. A Discussion of Allah's Favor upon His Messenger Concerning Allah's Statement, وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ   Show more

یعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کر دیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کردیا اور جگہ ہے فمن برد اللّٰہ الخ ، یعنی جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ جس طرح آپکا سینہ کشادہ کردیا گیا تھا ۔ اسی طرح آپ کی شریعت بھی کشادگی والی نرمی اور آسانی والی بنا دی ، جس میں...  نہ تو کوئی حرج ہے نہ تنگی ، نہ ترشی ، نہ تکلیف ، اور سختی ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے ۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گذرچکا ، امام ترمذی نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہو سکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنا دینا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی دلیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا ؟ آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ابو ہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آکر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لئے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چنانچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی نہ برا محسوس ہوا ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چنانچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش ، حسد و بغض سب نکال دو ، چنانچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہربڑے پر رحمت ہے ( مسند احمد ) پھر فرمان ہے کہ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا ۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کر دیا تھا ۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے اشہدان لا الہ اللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کر دیا کوئی خطیب کوئی واعظ کوئی کلمہ گو کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو پورا علم ہے فرمایا جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ کا بھی ذکر کیا جائے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تونے ہوا کو تابعدار کردیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا راہ گم کردہ پاکر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا فقیر پاکر غنی نہیں بنا دیا ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا بیشک کیا ہے ۔ ابو نعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی ، ابراہیم کو خلیل بنایا ، موسیٰ کو کلیم بنایا داؤد کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا ، سلیمان کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے ، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کر دیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں ۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جولاحول ولا قوت الا باللہ العلی العظیم ہے ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مراس اذان ہے یعنی اذان میں آپ کا ذکر ہے جس طرح حضرت حسان کے شعروں میں ہے ۔ اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللّٰہ من نور یلوح ویشھد وضم الالہ اسم النبی اسمہ اذا قال فی الخمس الموذن اشھد وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ پر ثبت فرمایا جو آپ کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت اشھد کہتا ہے آپ کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والامحمود ہے اور آپ محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء علیہم السلام سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جائے ، صرصری نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسند یدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو ۔ اور فرماتے ہیں کہ تم نہیں دبکنے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا ذکر باربار اس میں نہ آئے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی دشواری کے ساتھ سہولت ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی ۔ اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری ۔ مسند بزار حم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہا گردشواری اس پتھر میں داخل ہو جائے تو آسانی آکر اسے نکالے گی ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ، یہ حدیث عائز بن شریح حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابو حاتم راضی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود سے یہ موقوف مروی ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی ، حضرت حسن ابن جریر میں مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ہرگزایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آسکتی ۔ پھر اس آیت کی آپ نے تلاوت کی ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خوش خبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آسکتی ۔ مطلب یہ ہے کہ عسرہ کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور یسر کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہو گیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ معونتہ یعنی امداد الٰہی بقدر معونتہ یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبرمصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں صبر اجمیلا ما اقرب الفرجا من راقب اللّٰہ فی الامر نجا من صدق اللّٰہ لم ینلہ اذی ومن رجاہ یکون حیث رجا یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا ، نجات یافتہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے ۔ حضرت ابو حاتم سجستانی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار ہیں کہ جب مایوسی دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہو جاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارکردگی نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آپہنچتی ہے ۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے ۔ تنگیاں جب کہ بھر پور آپڑی ہیں پروردگار معاوسعتیں نازل فرما کر نقصن کو فائدے سے بدل دیتا ہے کسی اور شاعر نے کہا ہے : ولرب نازل یضیق بہ الفتی ذرھا وعند اللّٰہ منھا المخرج کملت فلما :ستحلت حلقا تھا فرجت وکان یظنھا لا تفرج یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہو جاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہو جاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے ، مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی ۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب تو دینوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا ، اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہوجا ۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھاناسامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ حضرت مجاہد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یعنی دعا کر ، زید بن اسلم اور ضحاک فرماتے ہیں جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا ، ثوری فرماتے ہیں اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ ۔ سورہ الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 گزشتہ سورت میں تین انعامات کا ذکر تھا، اس سورت میں مزید تین احسانات جتلائے جا رہے ہیں، سینہ کھول دینا ان میں پہلا ہے۔ اس کا مطلب ہے سینے کا منور اور فراخ ہوجانا، تاکہ حق واضح ہوجائے اور دل میں بھی سما جائے اسی مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے (فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ...  لِلْاِسْلَامِ ) 6 ۔ الانعام :125) جس کو اللہ ہدایت سے نوازنے کا ارادہ کرے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے، یعنی وہ اسلام کو دین حق کے طور پر پہچان بھی لیتا ہے اور اسے قبول بھی کرلیتا ہے اس شرح صدر میں وہ شق صدر بھی آتا ہے جو معتبر روایات کی رو سے دو مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہوا  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] شرح صدر کے دو مفہوم :۔ شرح صدر کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی بات، نظریہ، عقیدہ یا معاملہ کی انسان کو پوری طرح سمجھ آجائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ یا ابہام باقی نہ رہے اور انسان کو جو کچھ سمجھ میں آئے اس پر اسے یقین اور اطمینان حاصل ہوجائے جیسے فرمایا : (فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ ... اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٢٥۔ ) 6 ۔ الانعام :125) && یعنی جس شخص کو اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے && یعنی اسے یہ یقین واطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ اسلام کے پیش کردہ عقائد ہی درست ہیں۔ اور اس لفظ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جس کام کو انسان ایک بہت بڑا مشکل کام سمجھ رہا ہو اور اس کام کو سرانجام دینا اسے گرانبار محسوس ہو رہا ہو اس کام کے کر گزرنے اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے اس کی طبیعت آمادہ ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت دے کر حکم دیا کہ اب فرعون کے ہاں جاکر اسے میرا پیغام دو ۔ تو اس وقت آپ نے دعا فرمائی۔ ( قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ 25؀ۙ ) 20 ۔ طه :25) && یعنی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا یہ (مشکل) کام آسان بنا دے && اس آیت میں سوالیہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ جس سے اس کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا تو وہی قوم جو آپ کے گن گاتے تھکتی نہ تھی اور آپ ساری قوم کے محبوب فرد تھے، آپ کی دشمن بن گئی۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تکلیف دہ بھی تھی اور حیران کن بھی لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام اور اسلام لانے والے مسلمانوں کو اتنا عظیم حوصلہ عطا فرما دیا کہ وہ کفار مکہ کے مظالم سہنے کے باوجود ان کے آگے نہ جھکتے تھے اور نہ دبتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر حوصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا گیا کیونکہ کفار کا اصل ہدف آپ ہی کی ذات مبارکہ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، آپ کی رسالت کا، اللہ کی آیات کا اور آپ کے کلام کا مذاق و استہزاء کفار کا دلچسپ مشغلہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جسمانی ایذاؤں کی انتہا اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ مکی دور میں کافروں نے آپ پر سات مرتبہ قاتلانہ حملے کیے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة مائدہ آیت ٦٧ کا حاشیہ) علاوہ ازیں جب بھی کسی مسلمان پر ظلم و ستم ہوتا تو اس دکھ میں بھی آپ برابر کے شریک ہوتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان یاد دلایا ہے کہ کیا تمہیں ہم نے ان مصائب کو برداشت کرنے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ نہیں عطا فرما دیا ؟ مزید تفصیل کے لیے میری کتاب محمد۔۔ پیکر صبرو ثبات && ملاحظہ کیجیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الم نشرح لک صدرک : سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کے حق ہونے پر اطمینان ، دل کا نور ہدایت سے روشن ہونا اور ذکر الٰہی سے نرم ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام) (الانعام : ١٢٥)” تو جسے اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ ... “ اور فرمایا (افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ، فویل للقسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ اولئک فی ضلل مبین) (الزمر : ٢٢)” تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے، سو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو ایسا نہیں ؟ ) پس ویل ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد کی طرف سے سخت ہیں، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ “ اس کے علاوہ شرح صدر سے مراد طبیعت کا رسالت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے خوش دلی کے ساتھ آمادہ ہونا بیھ ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو انہوں نے کہا :(ویضیق صدری) (الشعرائ : ١٣)” اور میرا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے۔ “ اور دعا کی :(رب اشرح لی صدری) (طہ : ٢٥)” اے میرے رب ! میرے لئے میرا سینہ کھول دے “ شرح صدر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچپن میں اور نزول وحی کے آغاز میں اور معراج کی رات شق صدر کے بعد آپ کے سینے کو ایمان و حکمت سے بھر دینا بھی شامل ہے، جیسا کہ صحیحین اور دوسری کتاب احادیث میں آیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was mentioned at the end of the preceding Surah that twenty-two Surahs from Surah Ad-Duha to the end of the Qur&an are mainly concerned with Divine favours conferred upon the Holy Prophet & and with his greatness. Only a few Surahs are concerned with the conditions of the Hereafter or some other subject. Surah Al-Inshirah is concerned with special favours that Allah conferred...  upon the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Its style is the same as that of the preceding Surah - the interrogative style. In the preceding Surah, the style was &Did He not find you...?& [ Here the style is ]: أَلَمْ نَشْرَ‌حْ لَكَ صَدْرَ‌كَ (Did We not cause your bosom to be wide open for your benefit?...94:1). The word sharp literally denotes &to open, to cause the bosom to be widely opened&. [ In the present context ] it is to cause the bosom to be wide open to comprehend the Divine mysteries. The verse signifies that Allah illuminated his bosom with wisdom, Divine light and peace and made it spacious, vast and wide as is said in another verse: فَمَن يُرِ‌دِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَ‌حْ صَدْرَ‌هُ لِلْإِسْلَامِ &So, he whom Allah wills to give guidance, He opens his heart for Islam [ 6:125] & The Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) bosom was expanded to receive the knowledge and wisdom and the gracious morals and ethical qualities, which the greatest philosophers could not match. As a result of this expansion of heart, tawajjuh ilal-makhluq (attentiveness to the creation) did not disturb his attentiveness to and concentration on Allah. Some of the authentic Traditions report that the angels, with Allah&s permission, physically opened the blessed chest of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Some of the commentators interpret this &expansion of the chest& to refer to the same miracle, as mentioned in Ibn Kathir and others. And Allah knows best!   Show more

خلاصہ تفسیر کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (علم و حلم سے) کشادہ نہیں کردیا (یعنی علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ میں جو مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پش آتی ہے اس میں تحمل اور حلم بھی دیا کذا قال احلسن کما فی الدرالمنشور) اور ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ کی کمر توڑی رکھی تھی (وزر ... سے مراد وہ مباح اور جائز امور ہیں جو کبھی کبھی کسی حکمت و مصلحت کے پیش نظر آپ سے صادر ہوجاتے تھے اور بعد میں ان کا خلاف حکمت و خلاف اولیٰ ہونا ثبات ہوتا تھا اور آپ بوجہ علوشان وغایت قرب کے اس سے ایسے مغموم ہوتے تھے جس طرح گناہ سے کوئی مغموم ہوتا ہے، اس میں بشارت ہے ایسے امور پر مواذہ نہ ہونے کی کذا فی الدار المنشور عن مجاہد و شریح بن عبید الحضرمی پس اس بناء پر یہ بشارت آپ کو دوبارہ ہوئی، اول مکہ میں اس سورت کے ذریعہ، دوسری مدینہ میں سورة فتح میں اس کی تاکید و تکمیل اور تجدید و تفصیل کے لئے) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا (یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیا گیا، کذا فی الدار المنشور مرفوعاً قال اللہ تعالیٰ اذا ذکرت ذکرت معی یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں میرا ذکر ہوگا آپ کا ذکر بھی میرے ساتھ ہوگا ( رواہ ابن جریر و ابن ابی حاتم) جیسے خطبہ میں تشہد میں نماز میں اذان میں اقامت میں اور اللہ کے نام کی رفعت اور شہرت ظاہر ہے پس جو اس کے قرین ہوگا رفعت و شہرت میں وہ بھی تابع رہے گا اور چونکہ مکہ میں آپ اور مؤمنین طرح طرح کی تکالی فو شدائد میں گرفتار تھے اس لئے آگے ان کے ازالہ کا بطریق تفریع علی السابق کے وعدہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے آپ کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کردی جیسا الم نشرح الخ سے معلوم ہوا) سود اس سے دنیوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہئے چناچہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ (یعنی عنقرب ہی جو حکماً ساتھ ہونے کے معنے میں ہے) آسانی (ہونے والی) ہے (اور چونکہ ان مشکلات کے انواع و اعداد کثیر تھے اس لئے اس وعدہ کو مکرر تاکید کے لئے فرماتے ہیں کہ) بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ آسانی (ہونیوالی) ہے (چنانچہ وہ مشکلات ایک ایک کر کے سب رفع ہوگئیں جیسا روایات احادیث و سیروتواریخ اس پر متفق ہیں، آگے ان نعمتوں پر شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو ایسی ایسی نعمتیں دی ہیں) تو آپ جب (تبلغی احکام سے دوسروں کی نفع رسانی کی وجہ سے عبادت ہے) فارغ ہوجایا کریں تو (دوسری عابدات متعلقہ بذات خاص میں) محنت کیا کیجئے (مراد کثرت عبادت و ریاضت ہے کہ آپ کی شان کے یہی مناسب ہے) اور (جو کچھ مانگنا ہو اس میں) اپنے رب ہی کی طرف توجہ رکھئے (یعنی اسی سے مانگئے اور اس میں بھی ایک حیثیت سے بشارت ہے۔ زوال عسر کی کہ خود درخواست کرنے کا حکم گویا درخواست پورا کرنے کا وعدہ ہے۔ ) معارف ومسائل جیسا کہ سورة ضحیٰ کے آخر میں بیان ہوچکا ہے کہ سورة ضحیٰ سے آخر قرآن تک بائیس سورتوں میں بیشتر ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انعامات الٰیہ اور آپ کی عظمت شان سے متعلق مضامین ہیں، صرف چند سورتیں احوال قیامت یا بعض دوسرے مضامین سے متعلق آئی ہیں۔ سورة انشراح میں بھی ان خاص خاص نعمتوں کا ذکر ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق تعالیٰ نے مبذول فرمائیں اور اس کے بیان میں اسی عنوان استفہام کو اختیار فرمایا ہے جو سورة ضحیٰ میں الم یجدک الخ میں تھا فرمایا ، الم نشرح لک صدرک شرح کے لفظی معنے کھولنے کے ہیں اور سینہ کو کھولدینا اس کو علوم و معارف اور اخلاق حسنہ کے لئے وسیع کردینے کے معنے میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ لسلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک کو حق تعالیٰ نے علوم و معارف اور اخلاق کریمہ کے لئے ایسا وسیع بنادیا تھا کہ آپ کے علم و حکمت کو بڑے بڑے عقلاء بھی نہ پا سکے اور اسی شرح صدر کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مخلوق کی طرف توجہ کرنا حق تعالیٰ کی طرف توجہ میں مخل نہ ہوتا تھا اور بعض احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ فرشتوں نے بحکم الٰٓہی آپ کا سینہ مبارک ظاہری طور پر بھی چاک کر کے صاف کیا، بعض حضرات مفسرین نے شرح صدر سے اس جگہ وہ ہی شق صدر کا معجزہ مراد لیا ہے، کما فی ابن کثیر وغیرہ واللہ اعلم   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ۝ ١ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتس... وية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ شرح أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه . ( ش ر ح ) شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه/ 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس کا تعلق اوپر والی آیت وَوَجَدَکَ عَائِلًا سے ہے یعنی کیا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور آپ کی خاطر آپ کا دل کشادہ نہیں کردیا، یا یہ کہ آپ کے دل کو میثاق معرفت و فہم اور نصرت عقل ویقین کے لیے نرم نہیں کردیا، یا یہ کہ آپ کے قلب کو نبوت کے لیے فراخ نہیں کردیا۔ اس پر رسول اکرم (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ ۔ } ” کیا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے کو کھول نہیں دیا ؟ “ یعنی ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اضطراب کم کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو ایک ٹھہرائو اور سکون عطا فرما دیا ہے ۔ مولانا شبیر احم... د عثمانی (رح) اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں : ” اس میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیے اور لوازمِ نبوت اور فرائض ِ رسالت برداشت کرنے کو بڑاوسیع حوصلہ دیا۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 To begin the discourse with this question, and then the subsequent theme, shows that the Holy Messenger (upon whom be Allah's peace) at that time was very disturbed and distressed at the great hardships that he was passing through in the initial stage of his mission of calling the people to Islam. Under those conditions Allah addressed him and consoling him, said: "O Prophet, have We not blessed...  you with such and such favour? Then, why do you feel so disturbed and distressed at these initial difficulties?" A little consideration of the context wherever the word sharh sadr (opening up of the breast) has occurred in the Qur'an, shows that it has two meanings: (1) In Surah Al-An'am: 125, it was said: "So whomever Allah wills to guide aright, He makes his breast wide open to Islam (yashrah sadrahu lil-lslam) "; and in Surah Az-Zumar; 22: "Can the person whose breast Allah has opened for Islam (sharahallabu sadrahu liI-Islam) and he is walking in the light shown by his Lord.." At both.these places sharh sadr implies to free oneself from every kind of distraction and vacillation and to be satisfied with Islam as the only right way of Iife, and to regard the beliefs, principles of morality and civilization, religious instructions and injunctions, which Islam has given to man, as right and true. (2) In Surah Ash-Shu`ara': 12-13, it has been mentioned that when Allah appointed the Prophet Moses to the great office of Prophethood and commanded him to go and confront the Pharaoh and his mighty empire, he submitted: "My Lord, I fear that they will treat me as a liar, and my breast straitens." And in Surah Ta Ha: 2526, it has been stated that on this very occasion the Prophet Moses implored Allah, saying: "Lord, open up my breast for me (Rabbisbrah-li sadri) and make my task easy for me." Here, straitening of the breast implies a person's finding it too hard for himself to shoulder the onerous responsibilities of Prophethood and going out to clash with a mighty and tyrannical power of disbelief all by himself, and sharh sadr implies that his morale be boosted so that he is ready to undertake any campaign and any task however difficult and hard, without any hesitation, and he develops the nerve and courage to shoulder the great responsibilities of Prophethood. A littie consideration will show that in this verse "opening up of the Holy Prophet's breast" contains both these meanings. According to the first meaning, it implied that before the Prophethood the Holy Prophet (upon whom be peace) looked upon the religion of the polytheistic Arabs, Christians, Jews and fireworshippers as false, and was not even satisfied with the hanifiyyat prevalent among some of the Arab monotheists, for it was an ambiguous creed which contained no detail of the right way. (This we have explained in E.N.'s of AsSajdah) . But since he himself did not know what was the right way, he was mentally confused and distracted. With the blessing of Prophethood Allah removed his mental agitation and opened up before him the way of right guidance, which brought him full peace of mind. According to the second meaning, it implies that along with the blessing of Prophethood Allah also blessed him with the courage, spirit ,of resolution and broad mindedness which were needed for shouldering the onerous responsibilities of the great office. He became bearer of the vast knowledge, which no other human mind could encompass and contain. He was blessed with the wisdom which could rectify any evil however grave and wide spread. He developed the capability to stand up without any equipmern and the apparent help and support of a worldy power as the standard-bearer of Islam in a society sunk in ignorance and barbarism, to brave any storm of hostility without the least hesitation, to endure patiently all the difficulties and hardships of the way 'so that no power might cause him to abandon his position and standpoint. Thus, The verse means to impress the point: "When Allah has blessed you, O Prophet, with this invaluable wealth of sharh sadr, why do you feel distressed and depressed at the hardships you are experiencing in the initial stage of your mission." Some commentators have taken sharh sadr to mean shaqq Sadr (splitting up of the breast) and have declared this verse to be a proof of the miracle of sharh sadr as related in the traditions of the Hadith. But the fact is that the proof of that miracle is dependent only on the traditions of the Hadith, it is not correct to prove it from the Qur'an. According to the Arabic language, sharh sadr can in no way be taken to mean shaqq sadr. `Allama Alusi in the Ruh al-Ma'ani says:"In the sight of the research scholars it is a weak thing to regard sharh sadr as shaqq sadr. "  Show more

سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :1 اس سوال سے کلام کا آغاز ، اور پھر بعد کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں ان شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں آپ کو پیش آ رہی تھیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالی نے آپ کو مخاطب کر ک... ے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی ، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں؟ پھر ان ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟ سینہ کھولنے کا لفظ قرآن مجید میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں: ( 1 ) سورۃ انعام آیت 125 میں فرمایا فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ پس جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ اور سورہ زمر آیت 22 میں فرمایا أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان دونوں مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہو کر اس بات پر پوری طرح مطمئن ہو جانا ہے کہ اسلام کا راستہ ہی برحق ہے اور وہی عقائد ، وہی اصول اخلاق و تہذیب و تمدن ، اور وہی احکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں ۔ ( 2 ) سورہ شعراء آیت 12 ۔ 13 میں ذکر آیا ہے کہ حضرت موسی کو جب اللہ تعالی نبوت کے منصب عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کی عظیم سلطنت سے جا ٹکرانے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں نے عرض کیا قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ وَيَضِيقُ صَدْرِي میرے رب ، میں ڈرتا ہو کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے ۔ اور سورہ طہ آیات 25 ۔ 26 میں بیان کیا گیا ہے کہ اسی موقع پر حضرت موسی نے اللہ تعالی سے دعا مانگی کہ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے ۔ یہاں سینے کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ نبوت جیسے کار عظیم کا بار سنبھالنے اور تن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکر لینے کی آدمی کو ہمت نہ پڑ رہی ہو ۔ اور شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے ، کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے تامل نہ ہو ، اور نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہو جائے ۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین عرب ، نصاری ، یہود ، مجوس ، سب کے مذہت کو غلط سمجھتے تھے ، اور اس حنیفیت پر بھی مطمئن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلین توحید میں پائی جاتی تھی ، کیونکہ یہ ایک مبہم عقیدہ تھا جس میں راہ راست کی کوئی تفصیل نہ ملتی تھی ( اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ 5 کر چکے ہیں ) ، لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہ راست کیا ہے ، اس لیے آپ سخت ذہنی خلجان میں مبتلا تھے ۔ نبوت عطا کر کے اللہ تعالی نے آپ کو اس خلجان سے دور کر دیا اور وہ راہ راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینان قلب حاصل ہو گیا ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو وہ حوصلہ ، وہ ہمت ، وہ اولوالعزمی اور وہ وسعت قلب عطا فرما دی جو اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی ۔ آپ اس وسیع علم کے حامل ہو گئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سما نہ سکتا تھا ۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہو گئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دور کرنے اور سنوار دینے کی اہلیت رکھتی تھی ۔ آپ اس قابل ہو گئے کہ جاہلیت میں مستغرق اور جہالت کے اعتبار سے انتہائی اکھڑ معاشرے میں کسی سرو سامان اور ظاہراً کسی پشت پناہ طاقت کی مدد کے بغیر اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائیں ، مخالفت اور دشمنی کے کسی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے سے نہ ہچکچائیں ، اس راہ میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیں ، اور کوئی طاقت آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکے ۔ یہ شرح صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کر دی ہے تو آپ ان مشکلات پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں جو آغاز کار کے اس مرحلے میں پیش آ رہی ہیں ۔ بعض مفسرین نے شرح صدر کو شق صدر کے معنی میں لیا ہے اور اس آیت کو اس معجزہ شق صدر کا ثبوت قرار دیا ہے جو احادیث کی روایات میں بیان ہوا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معجزے کے ثبوت کا مدار احادیث کی روایات ہی پر ہے قرآن سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش صحیح نہیں ہے ۔ عربی زبان کے لحاظ سے شرح صدر کو کسی طرح بھی شق صدر کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا ۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ حمل الشرح فی الایۃ علی شق الصدر ضعیف عند المحققین محققین کے نزدیک اس آیت میں شرح کو شقِ صدر پر محمول کرنا ایک کمزور بات ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٨۔ سینے کے کھول دینے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کے سینہ پر جو دل کا قلعہ کہلاتا ہے شیطان کا کسی طرح کا کچھ تسلط باقی نہیں رہا۔ چناچہ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اور شیطان کے شی... اطینوں میں سے ایک شیطان ہر شخص کے ساتھ ہر وقت رہتا ہے اللہ کے فرشتہ نیک کام کی رغبت دلانے کے لئے ہے اور شیطان برے کام کی رغبت کے لئے مگر میرے شیطان کو اللہ تعالیٰ نے میرا ایسا فرمانبردار کردیا ہے کہ وہ بجائے برے کام کی رغبت کے نیک کام کی رغبت مجھ کو دلاتا رہتا ہے اسی مطلب کی صحیح ٣ ؎ مسلم میں حضرت انس (رض) کی وہ روایت ہے۔ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ کے چاک کئے جانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے حصہ شیطانی کی ایک سیاہی کے نکال ڈالنے کا ذکر ہے غرض ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ نیک بات کے قبول کرنے میں وہ تنگ دلی جس کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے آپ کے دل سے بالکل جاتی رہی اور بجائے وسوسات شیطانی کے نور ایمانی دل میں بھر گیا جس سے احکام وحی کی پوری گنجائش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نورانی قلب میں پیدا ہوگئی چناچہ تفسیر ابن جریر ١ ؎ اور ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ بعض صحابہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سینہ کے کھل جانے کا مطلب پوچھا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی مطلب بیان فرمایا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس روایت کے چند طریقے ہیں جس کے سبب سے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے بعد اس کے ترک اولیٰ اور سہو سے جو دل پر کچھ بوجھ تھا لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر سے وہ بوجھ بھی ہلکا کردیا۔ اور قرآن کی چند آیتوں میں خطبہ اذان تکبیر التحیات میں اے نبی اللہ کے اللہ نے اپنے نام کے ساتھ تمہارے نام کا ذکر رکھا جس سے تمہارا نام مشہور ہوا۔ مکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنگ دست رہتے تھے اس لئے مشرکین مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ دستی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ اس واسطے آیت فان مع العسریسرا سے اس مکی سورة میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنگ دستی کے رفع کردینے کا وعدہ فرمایا اور ہجرت کے بعد وہ وعدہ پورا فرمایا کہ مدینہ میں آپ کو وہ تنگ دستی نہیں رہی بیہقی مستدرک ٢ ؎ حاکم تفسیر عبد الرزاق وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ٢ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہ آسکے گی عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کوئی معرفہ اسم دو دفعہ بولا جائے تو وہ دو اسم ایک سمجھے جاتے ہیں مثلاً زید زید دفعہ بولا جائے تو ایک ہی شخص زید سمجھا جائے گا اور پھر پہاڑ پہاڑ دو دفعہ بولا جائے تو وہ دو پہاڑ سمجھے جائیں گے اس آیت میں عسر کا لفظ الف لام کے آنے کے معرفہ ہے اور یسر کا لفظ نکرہ۔ تو گویا ایک سختی کے ساتھ دو آسانیاں اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمائی ہیں۔ اسی واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہ آسکے گی۔ مسند بزار ٣ ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے سختی اگر پتھر کے اندر گھس کر رہے تو آسانی اس کا پیچھا نہ چھوڑے گی۔ صحیح ٣ ؎ حدیث میں ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے سامنے اگر کھانا آجائے تو پہلے کھانا کھانا چاہئے پھر نماز پڑھنی چاہئے تاکہ نماز کی حالت میں دل کھانے کے خیال میں نہ لگا رہے یہی مطلب آیت فاذا فرغت فانصب کا ہے کہ دنیا کے ایسے ضروری مشغلوں سے فارغ ہو کر عبادت کرنی چاہئے جن مشغلوں میں آدمی کا دل پڑا ہوا ہے۔ (٢ ؎ صحیح مسلم باب تحریش الشیطان بعثہ سرایاہ الخ ص ٣٧٦ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩٢ ج ١۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٥ ج ٤۔ ) (؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٥ ج ٤۔ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الجماعۃ وفضلھا۔ فصل اول۔ ص ٩٥ و ٩٦۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(94:1) الم نشرح لک صدرک : ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے اور یہ انکار نفی (لم نشرح) کے لئے ہے۔ انکار نفی۔ اثبات کو مستلزم ہے۔ گویا الم نشرح لک صدرک کا مطلب ہوا۔ شرحنا لک صدرک ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لئے کھول دیا ہے لم نشرح مضارع منفی جحد بلم۔ جمع متکلم۔ شرح (باب فتح) مصدر سے۔ (کیا) ہم نے نہیں کھول... ا۔ یا کھول دیا۔ صدرک مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا سینہ۔ اکثر علماء نے شرح صدر کو شق صدر کے معنی میں لیا ہے حالانکہ عربی زبان کے لحاظ سے شرح صدر کو کسی طرح بھی شق صدر کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔ علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں رقمطراز ہیں :۔ حمل الشرح علی شق الصدر ضعیف عند المحققین (محققین کے نزدیک اس آیت میں شرح صدر کو شق صدر پر محمول کرنا ایک کمزور بات ہے۔ (تفہیم القرآن) انشراح صدر سے مراد یہ ہے کہ نبوت سے قبل اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہر قسم کے ملحدانہ اور مشرکانہ اعتقادات سے پاک و منزہ تھی اور آپ کا کوئی قول یا فعل شریعت کے خلاف نہ تھا لیکن دل میں اصل حقیقت کے متعلق ایک خلجان اور تردد سا رہتا تھا جو غیر اطمینانی کیفیت پیدا کئے رکھتا تھا۔ خدا نے تمام حقائق اور سربستہ راز آپ پر عیاں کر دئیے جس پر آپ کی ذہنی گھٹن ختم ہوکر دل کو اطمینان اور سکون آگیا۔ نبوت کے بعد آپ کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ۔ نامساعد حالات کے مدنظر فرائض نبوت سے عہدہ برآ ہونا دشوار معلوم دیتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان حالات کا خاطر خواہ مقابلہ کرنے طاقت بخشی کہ آپ کو مطمئن کردیا۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تھی۔ رب اشرح لی صدری ۔۔ لیکن یہ شرح صدر مانگے پر ملی اور وہ بن مانگے عطا ہوئی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اسے منور کیا۔ اس میں علوم و معارف کے خزانے بھر دیئے اور وہ اطمینان اور حصولہ دیا جس سے آپ نبوت جیسے منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوگئے۔ قرآن میں شرح صدر کا یہی مفہوم مذکور ہے۔ (زمر آیت 33) یوں روایات سے ثابت ہے کہ معراج کے موقع پر ( اور اس سے پہلے ایک مرتبہ بچپن میں) فرشتوں نے ظ... اہری طور پر بھی آنحضرت کا سینہ چاک کیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ایمان و اطمینان کا نور بھرا (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الانشراح۔ آیات ١ تا ٨۔ اسرار ومعارف۔ آپ کا سینہ مبارکہ علم وحلم کے لیے اس قدر وسیع کردیا کہ دنیا کے تمام حکماء مل کر بھی اس کی وسعتوں کا اندازہ نہیں کرسکے ، قیامت تک کی ساری انسانیت کو دنیا وآخرت کے ہرمسئلے کا حل اور ہر سوال کا جواب عطا فرمایا اور اس کی خاطر اس قدر مشکلات برداشت کیں اور صدمات ج... ھیلے کہ آپ ہی کی شان ہے اور آپ کے لیے وہ عظیم ذمہ داری کی ساری انسانیت کو اللہ کا پیغام پہنچایا اور ظلم کو روک کر حق کا نفاظ کفر کو پھاڑ کر توحید کی روشنی مہیا کرنا اتنا بڑا بوجھ تھا کہ اس نے کمردوہری کردی مگر ہم نے ـآساں کردیا اور آپ کے نام نامی کو بلند کردیا کہ اپنے نام کے ساتھ کلمے کا جز بنادیا جو اسلام میں داخلے کا راستہ ہے ہر اذان میں فضاؤں میں ہمیشہ گونجتا رہے گ اور آپ کی بعثت کے بعد جہاں کہیں انسانی کمالات یا مشاہیر عالم کا تذکرہ ہوگاسب سے اوپر آپ کا نام مبارک ہوگا کہ ہر مشکل ہی آسانی لاتی ہے اور ہر محنت کے ساتھ پھل ہوتا ہے۔ ذکرالٰہی۔ لہذا جب تبلیغ دین اور امور مملکت کے کاموں سے تھک جائیں اور چند لمحے فراغت کے درکار ہوں تو پھر اللہ کا ذکر کریں کہ آپ کی سب سے بڑی عبادت تو مخلوق کی راہنمائی اور اصلاح تھی یہ بالواسطہ عبادت ہے اس پر قناعت نہ فرمائیں بلکہ جیسے فارغ ہوں توبلاواسطہ اور خلوت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوں ذکر کریں اور دعا فرمائیں لہذا علماء اور مبلغ حضرات کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت خلوقت میں ذکر الٰہی میں بسر ہو کہ دل میں برکات نبوت کا خزانہ بھرجائے جو تقسیم کیا جاسکے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ الم نشرح۔ کیا ہم نے نہیں کھول دیا۔ صدر۔ سینہ۔ وضعنا۔ ہم نے اتارا۔ ورز۔ بوجھ۔ انقض۔ توڑ دیا تھا۔ ظھر۔ پیٹھ۔ رفعنا۔ ہم نے بلند کردیا۔ فرغت۔ تو نے فراغت حاصل کرلی۔ انصب۔ (عبادت کی) تکلیف اٹھا۔ ارغب۔ رغبت کر۔ تشریح : اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علی... ہ وآلہ وسلم) پر اپنی تین نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ 1۔ شرح صدر 2۔ وضع و زر 3۔ اور رفع ذکر 1۔ سوالیہ اندازپر ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم نے آپ کو شرح صدر عطا نہیں کیا ؟ کیا ہم نے آپ کے ہر اس بوجھ کو جو آپ کی کمر کو جھکائے دے رہا تھا آپ کے اوپر سے نہیں اتارا ؟ کیا ہم نے آپ کے ذکر کو بلند نہیں کیا ؟ نشرح کے معنی کھول دینا، صدر کے معنی سینہ اور دل کے آتے ہیں۔ یعنی کیا ہم نے آپ کے سینے اور دل کو قرآن کریم کے علوم، اس کی سچائیوں اور اخلاق حسنہ کیلئے نہیں کھول دیا ہے ؟ شرح صدر کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔ ” جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے دل کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 125) ۔ سورة زمر کی آیت نمبر 22 میں فرمایا کہ ” وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے۔ ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس بند پر مہربان ہوتا ہے اور اس کی بھلائی چاہتا ہے وہ اس کے دل میں سچائیوں ، صداقتوں اور اخلاق حسنہ کے قبول کرنے کی ایک ایسی صلاحیت پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی ذہنی کشمکش، الجھاء اور پریشانیوں کا ہر بوجھ اس کے کاندھوں سے اتار دیتا ہے اور وہ ایک ایسے نور کی روشنی میں چلتا ہے جو اس کو منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جب یہ فرمایا گیا کہ تم فرعون کے دربار میں جا کر اس کو راہ ہدایت دکھائو تو انہوں نے عرض کیا۔ ” الٰہی میرے سینے کو میرے لئے کھول دیجئے اور میرے کام کو آسان فرما دیجئے “۔ اللہ نے ان کو شرح صدر عطا فرمایا اور معجزات کے ذریعہ ان کو آسانیاں عطا کردی گئیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ایک خوبصورت بات ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے انشراح قلب کی درکواست کی جو قبول کر کے آسانیاں عطا کردی گئیں لیکن نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان محبویت تو دیکھئے کہ آپ کو اللہ نے بن مانگے اپنی رحمت خاص سے خود ہی انشراح قلب عطا فرما دیا اور آپ کے ہر بوجھ کو اتار کر آپ کو آسانیاں عطا فرما دیں۔ شرح صدر کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس مراد ” شق صدر “ بھی ہوسکتا ہے۔ شق صد ریہ ہے کہ آپ کے سینے کو چاک کرکے اس میں آپ کے دل کو نکالا گیا اور اس میں رے ہر آلائش کو نکال کر نارنجی رنگ کا نور بھرا گیا۔ روایات کے مطابق شق صدر چار مرتبہ ہوا ہے۔ شق صدر کے سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ بھی وہ نعمت ہے جو کسی اور نبی اور رسول کو عطا نہیں کی گئی۔ شق صدر کیا ہے ؟ اس کا علم تو اللہ کو ہے وہی اس کی مصلحت سے بہتر واقف ہے۔ لیکن ظاہر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ شو صدر اللہ کے حکم سے فرشتوں نے کیا ہے۔ چونکہ عقل مند آدمی کا کوئی کام بغیر مصلحت کے نہیں ہوتا تو جب تمام انسانوں کو عقل عطا کرنے والے کی طرف سے کوئی کام ہو تو وہ بغیر مصلحت کے کیسے ہوسکتا ہے ؟ یقینا اس میں کوئی بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آپ کے قلب مبارک پر نازل کیا ہے اس لئے نزول قرآن سے پہلے قلب کی زمین کو تیار کیا گیا تاکہ وہ قرآن کریم جیسے وزنی اور بھاری کلام کو برداشت کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے ’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جاتا اور پھٹ جاتا (الحشر آیت نمبر 21) ۔ قلب مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قربان جائیے کہ آپ نے امت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس قرآن کریم کے بوجھ کو اپنے قلب پر برداشت کیا۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ شرح صدر، انشراح قلب اور شق صدر یہ وہ خصوصیات ہیں جو آپ کے سوا کسی اور نبی اور رسول کو عطا نہیں کی گئیں۔ 2۔ وضع و زر۔ بوجھ کا اتارا جانا۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1 ہر وہ بوجھ جو آپ کی کمر کو جھکا رہا تھا۔ اللہ نے اپنی رحمت اور کرم سے اس کو اتار دیا ہے۔ یہ بوجھ کیا تھا اس کی تفصیل کو یہاں بیان نہیں کیا گیا البتہ قرآن کریم کا نازل ہونا اور اس بھاری کلام کو برداشت کرنا اور اس کا بوجھ اٹھانا۔ عرب کے جاہلانہ اور ظالمانہ معاشرہ میں جہاں ہر طرف جہالتوں نے ڈیرے جما رکھے تھے۔ عدل و انصاف کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ جہاں کسی کی جان، مال اور آبرو تک محفوظ نہ تھی۔ اخلاق اور عقائد کی گندگیاں عام تھیں ۔ قتل و غارت گری، جنگ وجدال، بت پرستی، زر پرستی اور رسموں سے پورا معاشرہ گندگی کا ڈھیر بن کر رہ گیا تھا یہ تمام باتیں آپ کی سلیم الفطرت طبیعت پر ایک بوجھ تھیں اور آپ تلاش حق کی جستجو میں ہر طرف دیکھ رہے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر اپنا کلام نازل کرکے رہنمائی فرمائی اور ایسا اطمینان قلب عطا فرمایا کہ جس سے اللہ کے دین کو ساری دنیا تک پہنچانے کے راستے ہم وار ہوگئے۔ جو کام دوسروں کی نظروں میں ناممکن تھے وہ سب ممکن اور آسان ہوگئے۔ 3۔ رفع ذکر۔ آپ کی ذکر پاک کو بلند کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر پاک کو ہر جگہ بلندی اور عظمتیں عطا فرمائی ہیں عرش یا یا فرش، آسمان ہو یا زمین، فرشتوں کی محفل ہو یا انسانوں کی، جنت کا دروازہ ہو یا عرس کے کنگرے اسی طرح اسلامی شعار اذان، اقامت، نماز، تکبیرات، خطبہ جمعہ، خطبہ عیدین، کلمہ شہادت اور درود شریف وغیرہ۔ غرضیکہ تمام شعائر اسلامی میں اللہ کے ساتھ آپ کا نام مبارک بھی نہایت ادب واحترام اور پوری تعظیم و تکریم سے لیا جاتا ہے۔ دنیا کو کئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ و رسول کا نام لیو اموجود نہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دن جبرئیل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے آپ کے ذکر کو کس طرح بلند کیا ؟ میں نے کہا للہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جبرئیل نے کہا اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب اور جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہیں میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم) اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بت تو یہ کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ حق و صدات کی آواز کو بلند فرمائین گے اور کفار و مشرکین کی بت پرستی اور رسموں کے خلاف اللہ کے احکامات کو بیان فرمائیں گے تو وہ لوگ جو صدیوں سے اپنے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے چلے آرہے ہیں وہ آپ پر پریشانیوں ، مشکلات اور مصائب کے پہاڑ توڑ دیں گے۔ آپ اپنی جگہ صبرو تحمل سے ڈٹ کر ان حالات کا مقابلہ کیجئے کیونکہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے جس کے بعد راحت و آرام نہ ہو۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ جب آپ اپنے دینی فرائض اور ذمہ داریوں سے فارغ ہوجائیں تو کچھ دیر کے لئے راتوں کی تنہائی میں اللہ کی عبادت و بندگی کی مشقت برداشت فرمائیں۔ کیونکہ دین و دنیا کی ساری بھلائیاں اسی مین ہیں کہ آدمی ا اپنے اللہ کو ہر لمحے اور خاص طور پر راتوں کی تنہائیوں میں یاد کرے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دن بھر اللہ کے دین کیلئے جدوجہد فرماتے تھے اور ہر طرح کی ناگواریاں برداشت کرتے تھے۔ پھر بھی آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت و بندگی کرتے تھے کہ روایات کے مطابق آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو ورم پھٹ کر رسنے لگتا تھا مگر آپ اللہ کی عبادت و بندگی کی مشقت کو برداشت فرماتے تھے۔ اس میں آپ کے امتیوں کے لئے یہ سبق موجود ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ اللہ پر مکمل اعتماد و یقین رکھیں کہ مشکل حالت کو وہی آسان فرمانے والے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور نوافل ادا کریں۔ صحابہ کرام (رض) ، بزرگان دین اسی بات پر عمل کرکے اپنی راتوں کو اللہ کے ذکر وفکر اور عبادت سے زندہ رکھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کی عبادت و بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ مخالفین کی مزاحمت سے ایذاء پیش آتی ہے اس میں تحمل اور علم بھی دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : والضحیٰ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ اپنے رب کی نعمت کو یاد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر بےانتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔ ١۔ وحی حفظ کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لیے آپ (ص... لی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا گیا۔ ٢۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بہت حد تک آسان کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لیے سربلند فرما دیا۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ ہر نیک کام کرنے سے پہلے اس کے لیے اسے انشراح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک کام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لیے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لیے محنت کی جائے تو اس کے لیے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔ انشرح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ ) (طٰہٰ : ٢٥ تا ٢٨) ” موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو قوم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین آئے اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ اس کی تفصیل سورة العلق میں بیان کی گئی ہے۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لیے جتنے رسول مبعوث فرمائے وہ ظاہری اور جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد انسان تھے۔ ان خوبیوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور سب لوگوں سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع تھے مگر قوم کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کام کو بڑا بھاری محسوس کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جونہی نبوت کی ذمّہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت فرمائی کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فکر و غم کو ہلکا کرنے کے لیے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے مبلغ بنایا ہے نگران اور کو توال نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں یہ وقت آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار ساتھی ملے کہ جس سے آپ کا کام آسان ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ “ (رواہ البخاری : کتاب العلم) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا) ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔ “ ” شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ “ (الکہف : ٦) (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) (الشعراء : ٣) ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ “ ” اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔ “ (الانعام : ١٠٧) ” اے نبی نصیحت کیے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ “ (الغاشیہ : ٢١، ٢٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح میں کوئی تنگی تھی اور آپ دعوت اسلامی کے سلسلے میں کچھ مشکلات محسوس فرماتے تھے۔ آپ پریشان تھے کیونکہ آپ کے خلاف سازشیں ہورہی تھیں اور آپ کے دل پر ان کے اثرات پڑ رہے تھے اور آپ سمجھتے تھے کہ یہ ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں اور یہ کہ آپ...  کو اللہ کی امداد نصرت اور خصوصی زادراہ کی ضرورت ہے۔ چناچہ اس موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ بیٹھا مکالمہ ہوا۔ انداز گفتگو ایسا ہے کہ بات محبتوں سے بھری ہے۔ الم نشرح .................... صدرک (1:94) ”(اے نبی) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لئے کھول نہیں دیا “۔ آپک کا سینہ دعوت اسلامی کے کام کے لئے کھل گیا ، اور آپ کے لئے اس ذمہ داری کا اٹھانا ہم نے آسان کردیا۔ یہ ذمہ داری ہم نے آپ کے لئے محبوب بنادی اور راستہ ہم نے صاف کردیا اور ہم نے آپ کو اسی راستے پر لگا دیا یہاں تک کہ آپ کو اس کا انجام نہایت خوبی سے نظر آنے لگا جو سعادتوں سے پر تھا۔ ذرا اپنے سینے کو ٹٹولیے ، کیا آپ اس میں کشادگی ، خوشی اور ایک چمک نہیں پاتے۔ کیا اللہ کے اس دین کا ذوق واضح طور پر نہیں پاتے۔ بتائیے تو سہی کیا ہر مشکل اور مشقت میں آپ یہ بات نہیں پاتے ، کیا ہر تھکاوٹ میں آپ کو خوشی نہیں ہوتی ، کیا ہر مشکل آپ کو آسان نہیں لگتی ، کیا ہر محرومی پہ آپ راضی نہیں ہیں ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ پوری سورة الم نشرح کا ترجمہ ہے (جو سورة الانشراح کے نام سے معروف ہے) اس میں بھی اللہ تعالیٰ شانہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے بڑے بڑے انعامات کا امتنان فرمایا ہے۔ ﴿ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ٠٠١﴾ (کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا) ۔ یہ استفہام تقریری ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ... اس کو جانتے اور مانتے ہیں کہ ہم نے آپ کا سینہ کھول دیا سینہ کو نور نبوت سے بھی بھر دیا اور علم و معرفت سے بھی ایمان کی دولت سے بھی، صبر و شکر سے بھی، کتاب و حکمت سے بھی، قوت برداشت سے بھی، وحی کی ذمہ داری اٹھانے سے بھی، دعوت ایمان پر اور ددعوت احکام پر استقامت سے بھی، اللہ تعالیٰ نے جو آپ پر انعام فرمائے ان میں ایک بہت بڑا انعام شرح صدر بھی ہے آپ کی برکت سے آپ کی امت کو بھی شرح صدر کی نعمت حاصل ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کریمہ فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَهٗ کی تلاوت کی پھر فرمایا بیشک جب نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو پھیل جاتا ہے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ کیا اس کی کوئی نشانی ہے فرمایا ہاں اس کی یہ نشانی ہے کہ دار الغرور (دھوکہ والا گھر یعنی دنیا) سے بچتا رہے اور دار الخلود (یعنی ہمیشہ رہنے کے گھر) کی طرف توجہ رکھے اور موت کے آنے سے پہلے اس کی تیاری رکھے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٤٤٦) بعض حضرات نے یہاں ان روایات کا بھی ذکر کیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کو چاک کر کے علم اور حکمت سے بھر دیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے یہ کام کیا۔ ایک مرتبہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اپنی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ کے یہاں بچپن میں رہتے تھے اور ایک مرتبہ معراج کی رات میں پیش آیا۔ (كما رواہ المسلم و بخاری) اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے در منثور میں صفحہ ٣٦٣ ص ج ٦ میں نقل کیا ہے اس وقت آپ کی عمر بیس سال چند ماہ تھی صاحب در منثور نے یہ واقعہ زوائد مسند احمد سے نقل کیا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” الم نشرح “ انعام اول۔ مشرکین نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کے پاس دولت نہیں ہمارے پاس دولت ہے ہم ان سے زیادہ قابل عزت ہیں اس سے طبع طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غم لگا تو اس سورت میں آپ کو تسلی دی گئی کہ اس قسم کی تنگی اور شدت بطور ابتلاء مومنوں پر آتی رہتی ہے لیکن آخر کار اللہ تع... الیٰ ان پر فراخی فرما دیتا ہے استفہام تقریری ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے ہی سے اسلام اور علوم و معارف کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا اور اسلام کے بارے میں آپ کے دل کو اطمینان اور اذعان و ایقان سے لبریز کردیا۔ تائید : ” فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام “ (انعام رکوع 15) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) کیا ہم نے آپ کے لئے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کردیا یعنی آپ کے نفع کے لئے آپ کے سینے کو کشادہ کردیا تاکہ آپ کا سینہ کشادہ ہوجائے اور آپ کا حوصلہ بڑھ جائے اور خلق کی دعوت کا کام اور امت کا غم اور ہمارے راز ونیاز کے اسرار اس میں سماجائیں اور میل و کدورت بغض و عداوت اور تمام اخلاق ذمیمہ اس سے نکل جائی... ں۔ شرح صدر کے سلسلہ میں ہم اپنی اس مختصر تفسیر میں کئی جگہ کلام کرچکے ہیں اس نعمت سے ہر مسلمان کو اپنے اپنے مرتبے کے موافق حصہ ملنا ہے۔ یہ ایک قسم کی روشنی اور نور ہوتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں پر اور خا ص لوگوں پر نیکیاں آسان ہوجاتی ہیں اور برے کاموں کی رغبت کم ہوجاتی ہے۔ انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مرتبے کے موافق یہ مرتبہ اور قوۃ عطا ہوتی ہے یہی وہ وصف ہے جس کو …حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طلب کرکے حاصل کیا تھا۔ سورہ طہٰ میں گزرچککا ہے رباشرح لی صدری ویسرلی امری جو چیز موسیٰ (علیہ السلام) نے مانگ کر حاصل کی تھی وہ جناب سیدالمرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بغیر طلب عطا فرمائی۔ الم نشرح لک صدرک اہل طریقت نے جو کچھ فرمایا ہے اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے یہاں صرف اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ ایک ایسی باطنی اور روحانی قوت کا نام شرح صدر ہے جس سے تمام کمالات اور عبادات شاقہ کا حصول آسان ہوجاتا ہے اور قوت برداشت بڑھ جاتی ہے اور شیطانی وساوس کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور باطنی اسرار اور روحانی انوار کے حصول میں آسانی ہوجاتی ہے دل سے ہر قسم کی برائیاں اور خیانت وحسد کا مادہ نکال دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے شق صدر کی جانب اشارہ ہو جو کئی مرتبہ پیش آیا کہ آپ کا سینہ کھولا گیا اور اس میں سے تمام اخلاقی خرابیوں کا مادہ نکال دیا گیا اور معرفت الٰہی کے نور سے سینے کو بھر دیا گیا اور پھر سینے کو ملادیا گیا حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے پر وہ نشان اور ایک باریک سا خط کھینچا ہوا دیکھا ہے جہاں سے آپ کا سینہ چاک کرکے شیطانی حصہ کو نکال کر پھینکا گیا تھا اور پھر آپ کے سینہ مبارک کو بند کیا گیا۔ آٹھویں پارے کے دوسرے رکوع میں شرح صدر اور اس کے مقابل ضیق صدر کی تفصیل گزر چکی ہے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حوصلہ کشادہ دیا اتنا بڑا کام اٹھانے کو، اور ظاہر میں بھی فرشتوں نے حضرت کا سینہ چاک کیا دل میں سے سیاہی نکال کردھوڈالی۔ اب آگے دوسری نعمت کا ذکر فرمایا یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ الم نشرح میں استفہام تقریری ہے یعنی ہم نے تمہارا سینہ کھول دیا۔  Show more