Surat us Sharah
Surah: 94
Verse: 3
سورة الشرح
الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ ۙ﴿۳﴾
Which had weighed upon your back
جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی ۔
الَّذِیۡۤ اَنۡقَضَ ظَہۡرَکَ ۙ﴿۳﴾
Which had weighed upon your back
جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی ۔
Which weighed down your back. Al-Inqad means the sound. And more than one of the Salaf has said concerning Allah's saying, الَّذِى أَنقَضَ ظَهْرَكَ meaning, `its burden weighed heavy upon you.' Then All�h says, وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
[٢] وزر کے دو مفہوم :۔ وِزْرَ کا لفظ بھاری بوجھ کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع اوزار ہے لیکن اس کا اکثر استعمال معنوی بوجھ کے لیے ہوتا ہے بالخصوص بار گناہ اور کسی طرح کے بھی ذہنی بوجھ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں وزر سے مراد وہ ذہنی بوجھ ہے جو نبوت سے پہلے ہی آپ کو لاحق تھا۔ جب آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی گمراہیوں اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں میں مبتلا دیکھتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے معاشرے کی اس حالت پر سخت دل گرفتہ رہتے تھے کہ کس طرح اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ مگر اس کی کوئی صورت، کوئی طریقہ اور کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی۔ بالآخر آپ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھیک طرح سے معلوم ہوگیا کہ اس سارے بگاڑ کا علاج توحید، عقیدہ آخرت اور رسالت پر ایمان میں مضمر ہے۔ چناچہ آپ کا سارا ذہنی بار ہلکا ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین حاصل ہوگیا کہ اس طرح نہ صرف اپنی قوم بلکہ ساری دنیا کو ان خرابیوں اور برائیوں سے نکالا جاسکتا ہے جن میں اس وقت عرب کے علاوہ باقی ساری دنیا بھی مبتلا تھی۔ علاوہ ازیں وزر کا دوسرا مفہوم رسالت کی ذمہ داریاں بھی ہوسکتا ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ( اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا ) 73 ۔ المزمل :5) یہ بوجھ بھی ابتدائ ً نہایت گرانبار تھا جبکہ آغاز دعوت پر مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہاڑ جیسا حوصلہ عطا کرکے اس کمر توڑ بوجھ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن سے اتار دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذمہ داریاں نباہنے کے لیے دل و جان سے مستعد ہوگئے۔
الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَكَ ٣ ۙ نقض النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال/ 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] ، ( ن ق ض ) النقض یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة/ 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل/ 91] ظهر الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ( ظ ھ ر ) الظھر کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا
2 Some of the commentators have interpreted this to mean that before Prophethood, in the days of ignorance, the Holy Prophet (upon whom be peace) had happened to commit certain errors because of which he was feeling disturbed, and Allah by sending down this verse consoled and satisfied him, saying that He had forgiven him those errors. But jn our opinion it is a grave mistake to interpret this verse thus. In the first place, the word vizr dces not necessarily mean a sin, but it is also used for a heavy burden. Therefore, there is no reason why it should in every case be taken in the bad sense. Secondly, the Holy Prophet's life before Prophethood also was so clean and pure that it had been presented in the Qur'an as a challenge before the opponents.. So much so that the Holy Prophet (upon whom be peace) was made to point out to the disbelievers: "1 have already lived a lifetime among you before the revelation of this Qur'an." (Yunus 16) . and he was also not the type of a person who would commit a sift secretly. God forbid, had he been such a man, Allah would not have been unaware of it, and would not have made him proclaim the thing before the people openly, which He made him proclaim in the above-mentioned verse of Sarah Yunus, if his person carried the blot of a sin committed secretly. Thus, in fact, in this verse vizr means a heavy burden and it implies the burden of distress, anguish and anxiety that was, telling on his sensitive nature when he saw- his nation deeply sunk in ignorance and barbarism. Idols were being worshipped, the community was engrossed in idolatry and polytheistic customs and practices, filth of immorality and indecency prevailed all around, wickedness and corrupt practices were rampant in society, the powerful were suppressing the powerless; girls were being-buried alive, tribes were subjecting, one another to surprise attacks, and sometimes the wars of vengeance continued for a hundred years at a stretch. No one's Iife, property and honour was safe unless he had a strong band at his back. This grieved the Holy Prophet (upon whom be peace) but he could find no way to cure the malady. This same anxiety was weighing down his back. Allah by showing him the way to Guidance removed its burden from him. Then as soon as he was appointed to the office of Prophethood, . he came to know that belief in the doctrine of Tauhid, the Hereafter and Prophethood was the master-key by which each corruption in human life could be eradicated and the way to reform opened in every aspect of life. This guidance front Allah relieved him of his burden and he felt re-assured that by means of it he would not only be able to cure the maladies of Arabia but also of all mankind outside Arabia as well.
سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :2 مفسرین میں سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوت سے پہلے ایام جاہلیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ قصور ایسے ہو گئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالی نے آپ کو مطمئن کردیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے ۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معنی لینا سخت غلطی ہے ۔ اول تو لفظ وزر کے معنی لازماً گناہ ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو خواہ مخواہ برے معنی میں لیا جائے ۔ دوسرے حضور کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں مخالفین کے سامنے اس کو ایک چلینج کے طور پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ میں اس قرآن کو پیش کرنے سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ( یونس آیت 16 ) اور حضور اس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں سے چھپ کر آپ نے کوئی گناہ کیا ہو ۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی تو اس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اس سے خلق خدا کے سامنے برملا وہ بات کہلواتا جو سورہ یونس کی مذکورہ بالا آیت میں اس نے کہلوائی ہے ۔ پس درحقیقت اس آیت میں وزر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا آپ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے ۔ شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا ۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا ۔ زور داروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے تھے ۔ لڑکیاں زندہ دفن کی جا رہی تھیں ۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور بعض اوقات سو سو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔ کسی کی جان ، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتھا نہ ہو ۔ یہ حالت دیکھ کر آپ کڑھتے تھے مگر اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی ۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا اور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی کی اس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکال سکتے ہیں جن میں اس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی ۔
1: جب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوّت کی عظیم ذمہ داریاں سونپی گئیں تو شروع میں آپ نے اُن کا زبردست بوجھ محسوس فرمایا، اس بوجھ کی وجہ سے شروع میں آپ بے چین رہتے تھے، لیکن پھر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ حوصلہ عطا فرمایا جس کے نتیجے میں آپ نے مشکل سے مشکل کام انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دیئے، اس سورت میں اﷲ تعالیٰ کے اِسی انعام کا تذکرہ ہے۔
(94:3) الذی انقض ظھرک۔ یہ جملہ وزر کی صفت ہے۔ الذی اسم موصول انقص صلہ۔ ظھرک مضاف مضاف الیہ مل کر متعلق انقض۔ انقض ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب انقاض (افعال) مصدر سے۔ اس نے توڑ دی۔ اس نے جھکادی۔ ترجمہ ہوگا :۔ جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی۔
ف 10 یعنی آپ کے تمام گناہ معاف کردیئے یا منصب رسالت جیسی کٹھن ذمہ داری کو آپ پر آسان کردیا۔
6۔ وزر سے مراد وہ مباح امور ہیں جو آپ سے احیانا بر بنا تصور کسی حکمت کے صادر ہوجاتے تھے اور بعد میں ان کا خلاف حکمت اور خلاف اولی ثابت ہوتا تھا اور آپ بوجہ علو شان وغایت قرب کے اس سے ایسے ہی مغموم ہوتے تھے جس طرح کوئی گناہ سے مغموم ہوتا ہے اس میں ان پر مواخذہ نہ ہونے کی بشارت ہے۔
(3) جس نے آپ کی پیٹھ کو گراں بار کررکھا تھا یعنی منصب رسالت کی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے جو طبیعت پر گرانی تھی اس کو ہمنے شرح صدر کی برکت سے آپ پر ہلکا کردیا، ہوسکتا ہے کہ وحی کی گرانی کی طرف اشارہ ہو جو شروع شروع میں گراں معلوم ہوتی تھی یا زمانہ جاہلیت کی بعض نامناسب باتیں جواب شریعت کی روشنی میں نامناسب معلوم ہوئیں اس سے طبیعت مبارک پر گرانی ہوتی ہو کہ ان باتوں کا اب کیا ہوگا ان کی بشارت دی گئی ہو کہ وہ سب درگزر کردی گئیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی خلقی استعداد اور آپ کی علو ہمتی جن کمالات اور مقامات کے حصول کا تقاضا کرتی ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا حاصل کرنا دشوار معلوم ہوتا ہو اور ان کے عدم حصول سے طبیعت پر گرانی ہو۔ شرح صدر کی برکت سے وہ مقامات اور کمالات حاصل ہوگئے ہوں ان کی طرف اشارہ ہو کہ ہم نے تمہاری گراں باری کو دور کردیا۔ کماقالہ الشاہ عبدالعزیز الدہلوی فی تفسیر اعنی فتح العزیز آگے تیسری نعمت کا ذکر ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں وحی کا اترنا اول مشکل تھا پھر آسان ہوگیا۔