Surat us Sharah
Surah: 94
Verse: 4
سورة الشرح
وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾
And raised high for you your repute.
اورہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا ۔
وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾
And raised high for you your repute.
اورہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا ۔
And have We not raised high your fame? Mujahid said, "It means whenever I (Allah) am remembered, you will also be remembered." Qatadah said, "Allah elevated the remembrance of the Prophet Muhammad both in this world as well as in the hereafter." Then All�h says, فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
4۔ 1 یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ کا نام بھی آتا ہے، مثلا اذان، نماز، دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے۔ فرشتوں میں آپ کا ذکر خیر ہے آپ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا۔
[٣] آپ کا ذکر بلند ہونے کے مختلف ذرائع & پہلا ذریعہ خود کفار مکہ تھے :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کی بلندی کا آغاز ابتدائے نبوت ہی سے شروع ہوگیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ ہی سے لیا۔ مثل مشہور ہے۔ عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد (یعنی بعض دفعہ دشمن بھی ایس شرارتیں کرنے لگتا ہے جس میں ہماری بھلائی ہوتی ہے) کفار مکہ نے اسلام کو زک پہنچانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سدباب کے طور پر جو ذریعے اختیار کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ حج کے موقعہ پر تمام عرب قبائل حج کی غرض سے مکہ آتے تھے تو کفار نے آپس میں یہ طے کیا کہ ان وفود کو مل کر انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے متنفر کیا جائے اور کہا جائے کہ کہیں فلاں شخص کے دام فریب میں نہ آجانا۔ اس کے پاس ایسا جادو ہے جو بھائی کو بھائی سے، باپ کو بیٹے سے اور بیوی کو شوہر سے جدا کردیتا ہے۔ چناچہ اس سلسلہ میں کافروں کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مہم چلاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدنام کرتے تھے لیکن باہر سے آنے والے لوگ بھی آخر اتنے بدھو تو نہیں ہوتے تھے جو فوراً کافروں کی بات کا یقین کرلیتے۔ لہذا ان کی اس مخالفانہ مہم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو فائدے پہنچے۔ ایک یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر عرب کے کونے کونے میں ہونے لگا۔ دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ جس شخص کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کی اصل حقیقت تو معلوم کرنی چاہیے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پیشتر عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہیں رہا تھا جس میں کوئی نہ کوئی مسلمان موجود نہ ہو اور وہاں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جاتا ہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار ضروری تھا۔ اسی طرح مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار بھی ضروری تھا۔ علاوہ ازیں مکہ میں تو آپ کے دشمن صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف گروہ ایک کے بجائے چار بن گئے۔ ایک قریش مکہ، دوسرے یہود مدینہ، تیسرے مدینہ اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور چوتھے منافقین جو مدینہ کے علاوہ دوسری بستیوں میں بھی موجود تھے۔ اور ان کی ہمدردیاں ہر دشمن اسلام گروہ سے وابستہ ہوتی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے قریش مکہ کی روش اور اس سے ملتے جلتے طریقے اختیار کیے اور یہ سب لوگ آپ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے۔ لیکن ان کے نتائج بھی ان کی توقعات کے برعکس برآمد ہوئے اور دس سال کے قلیل عرصہ میں سارا عرب مسلمان ہو کر دن میں کئی کئی بار لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللّٰہ کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ اذان میں، اقامت (تکبیر تحریمہ) میں، درود میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر لازمی تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اسلامی تحریک عرب سے باہر نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر یہ حالت ہوگئی کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اوقات اذان و نماز کی وجہ سے غالباً دن میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کا آوازہ بلند نہ کیا جارہا ہو اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ پیشینگوئی اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی تھی جب مکہ کے لوگوں کے علاوہ آپ کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ اور وہ بھی آپ کے دشمن اور آپ کی ہستی کو دنیا سے ختم کردینے پر تلے ہوئے تھے۔ قرآن کی یہ پیشینگوئی خود قرآن کی صداقت پر کھلا ہوا ثبوت ہے۔ اس وقت کون یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر اس شان کے ساتھ اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوگا۔
(١) ورفعنا لک ذکرک : یعنی دنیا اور آخرت میں اپ کا نام بلند کیا، زمین کے مشرق و مغرب تک آپ کی امت کی حکومت پھیلا دی، کلمہ شہادت، اذان، اقامت اور خطبہ و تشہد وغیرہ میں اللہ کے نا م کے ساتھ آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت فرض ہے، کوئی وقت ایسا نہیں جس میں کہیں نہ کہیں آپ کا ذکر خیر نہ ہو رہا ہے۔ قیامت کو اولاد آدم کی سیادت ، کوثر، لواء الحمد، مقام محمود اور شفاعت کبریٰ کے ساتھ آپ کا ذکر بلند ہوگا۔ (٢) یہاں تین نعمتوں کا ذکر ہے، شرح صدر، وضع وزر اور رفع ذکر، تینوں کو بیان کرتے ہوئے ” لک “ یا ” عنک “ فرمایا، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت افزائی کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ سب کچھ آپ کی خاطر کیا گیا ہے۔
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (and We raised high for you your name....94:4). The meaning of raising the name of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is that his blessed name is remembered together with the name of Allah in all the symbols of Islam, like the kalimah, the adhan, the iqamah, and in sermons from the minarets and pulpits [ throughout the world ]: اَشھَدُ اَنَّ لا إله إلا اللہ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُولُ اَلله (I bear witness that there is no God worthy of worship except Allah; I bear witness that Muhammad is the Messenger of Allah.& No sensible person utters the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) name without respect and honour even though he may not be a Muslim. Note Carefully Here three verses mention three favours that are bestowed on the Holy Prophet t: [ 1] opening of the bosom widely; [ 2] removal of the burden; and [ 3] raising of the name high. Each of the sentence is composed of a verb, an object and between them is a prepositional phrase thus: شرح صدر for your benefit? [ 1] & وضع وزر &from you your burden [ 2] & رفع ذکر &for you your name. [ 4] & This indicates the essential characteristic and special greatness of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، in that all this is done for the sake of him.
ورفعنا لک ذکر ک، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع ذکر یہ ہے کہ تمام اسلامی شعائر میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک لیا جاتا ہے جو ساری دنیا میں مناروں اور منبروں پر اشھد ان لا الہ الہ اللہ کے ساتھ اشھد ان محمداً رسول اللہ پکارا جاتا ہے اور دنیا میں کوئی سمجھدار انسان آپ کا نام بغیر تعظیم کے نہی لیتا اگرچہ وہ مسلمان بھی نہ ہو۔ فائدہ :۔ یہاں تین نعمتوں کا ذکر ہے شرح صدر، وضع وزر، رفع ذکر، ان تینوں کو تین جملوں میں ذکر فرمایا ہے اور سب میں فعل اور مفعول کے درمیان ایک حرف لک یا عنک لایا گیا ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اور خاص عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب کام آپ کی خاطرکئے گئے ہیں۔
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ٤ ۭ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔
3 This was said at a time when o one could even conceive how the renown of the one unique individual who had only a few followers confined only to the city of Makkah, would be exalted throughout the world, and what high fame he would achieve. But Allah Almighty gave His Messenger (upon whom be peace) this good news under those very conditions and then fulfilled it in a strange way. In the first place, he took from his enemies themselves the task of exalting his renown. One of the methods that the disbelievers of Makkah adopted to defeat his mission was that in the Hajj season when the pilgrims from every corner of Arabia were attracted to their city, they would visit them at their halting places and would warn them to beware of a dangerous man called Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) , who they alleged, worked such magic on the people that father was separated from son, brother from brother, and husband from wife; therefore, they should keep away from him, The same thing they said to all other people, who visited Makkah on other than Hajj days in connection with pilgrimage or on other business. In this way although they were trying to defame the Holy Prophet, yet the result was that his name reached every nook and comer of Arabia and the enemies themselves. took him out of his seclusion in Makkah and introduced him among all the tribes of the country. After this, it was but natural that .'the people should become curious to know as to who was this man, what he preached, what was his character like and who were the people influenced by his magic and what sort of effect his "magic" had on them. As the propaganda of the Makkan disbelievers spread the people's curiosity also grew. When as a result of this curiosity the people came to know of the Holy Prophet's morals, his character and conduct, when they heard the Qur'an and found what teachings it presented and when the people saw how different the lives of those who had been influenced by what was being described as .magic had become from the lives of the common Arabs, the bad name started being changed into good name. So much so that by the time the Hijrah took place there was perhaps no tribe left anywhere in Arabia from which one or another person, one or another clan had not accepted Islam and in which at least some people had not developed sympathy and interest in the Holy Prophet and his message. This was the first stage of the exaltation of his renown. Then from the Hijrah started the second stage in which on the one hand the hypocrites, the Jews and the prominent polytheists of Arabia were actively engaged in defaming him and on the other the Islamic State of Madinah was presenting such a practical model of God-worship, God consciousness, piety and devotion, purity of morals and community life, justice and equity, equality of man and man, generosity of the rich, care of the poor, fulfilment of pledges and promises and righteousness in dealings, which was conquering the hearts, The enemies tried by resort to war to impede the growing influence of the Holy Prophet, but the party of the believers, trained and developed under his own leadership, proved its superiority by their discipline, their bravery, their fearlessness of death, and their adherence to restrictions of morality even in the state of war; so convincingly that entire Arabia had to recognize it as a power to be reckoned with. Within ten years the Holy Prophet's renown become so exalted that the same land in which the opponents had exerted their utmost to defame him, reverberated with the slogan of Ash hadu anna Muhammad ar-Rasul Allah from one end to the other. Then the third stage commenced with the establishment of the righteous Caliphate when his holy name started eing mentioned and praised everywhere in the world. This process continues till today, nd will continue till Resurrection if Allah so wills. Wherever in the world there exists a settlement of the Muslims, the apostleship of Muhammad (Upon whom be Allah's peace) is being proclaimed aloud in the call to the Prayer five times a day, blessings of Allah are being invoked on him in the Prayers, and his sacred remembrance is being made in the Friday Sermons. There is no moment in the 12 months of the year and in the 24 hours of the day when at one or another place in the world, the oly Prophet's holy name is not being mentioned. This is a clear proof of the truth of the Qur'an that when in the initial stage of the Prophet hood Allah proclaimed wa rafa `na Iaka dhikrak, no one could estimate and imagine with what esteem and to what great extent the Holy Prophet's renown would be exalted. In a Hadith Hadrat Abu Sa`id Khudri has reported that the Holy Prophet (upon whom be peace) said: "Gabriel came to me and said: My Lord and your Lord asks: In what ways have I exalted your renown? I submitted: Allah alone has the best. knowledge. He said: Allah says: Whenever mention 1S made of Me, yon too will be mentioned along with Me." (Ibn Jarir, lbn Abi Hatim, Musnad Abu Ya`la, Ibn al-Mundhir, Ibn Hibban Ibn Marduyah, Abu Nu`aim) . The whole later history stands witness that this prediction has proved literally true.
سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :3 یہ بات اس زمانہ میں فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فرد فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں اور وہ بھی صرف شہر مکہ تک محدود ہیں اس کا آوازہ دنیا بھر میں کیسے بلند ہو گا اور کیسی ناموری اس کو حاصل ہو گی ۔ لیکن اللہ تعالی نے ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا ۔ سب سے پہلے آپ کے رفع ذکر کا کام اس نے خود آپ کے دشمنوں سے لیا ۔ کفار مکہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھچ کھچ کر ان کے شہر میں آتے تھے ، اس زمانہ میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نامی ہے جو لوگوں پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ جاتی ہے ، اس لیے ذرا اس سے بچ کر رہنا ۔ یہی باتیں وہ ان سب لوگوں سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں میں زیادرت ، یا کسی کاروبار کے سلسلے میں مکہ آتے تھے ۔ اس طرح اگرچہ وہ حضور کو بدنام کر رہے تھے ، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا اور مکہ کے گوشہ گمنامی سے نکال کر خود دشمنوں نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا ۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے؟ کیسا آدمی ہے؟ اس کے جادو سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں اور ان پر اس کے جادو کا آخر کیا اثر پڑا ہے؟ کفار مکہ کا پروپیگنڈا جتنا جتنا بڑھتا چلا گیا لوگوں میں یہ جستجو بڑھتی چلی گئی ۔ پھر جب اس جستجو کے نتیجے میں لوگوں کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا ، جب لوگوں نے قرآن سنا اور انہیں پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں جو آپ پیش فرما رہے ہیں ، اور جب دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے متاثر ہونے والوں کی زندگیاں عرب کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں ، تو وہی بد نامی نیک نامی سے بدلتی شروع ہو گئی ۔ حتی کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں شاید ہی کوئی قبلیہ ایسا رہ گیا ہو جس میں کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو ، اور جس میں کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی و دلچسپی رکھنے والے پیدا نہ ہو گئے ہوں ۔ یہ حضور کے رفع ذکر کا پہلا مرحلہ تھا ۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف منافقین یہود اور تمام عرب کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے میں سرگرم تھے ، اور دوسری طرف مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست خدا پرستی و خدا ترسی ، زہد و تقوی ، طہارت اخلاق ، حسن معاشرت ، عدل و انصاف ، انسانی مساوات ، مالداروں کی فیاضی ، غریبوں کی خبر گیری ، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا تھا ۔ دشمنوں نے جنگ کے ذریعہ سے حضور کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی مگر آپ کی قیادت میں اہل ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی اس نے ا پنے نظم و ضبط ، اپنی شجاعت ، اپنی موت سے بے خوفی ، اور حالت جنگ تک میں اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سا رے عرب نے ان کا لوہا مان لیا ۔ 10 سال کے اندر حضور کا رفع ذکر اس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اپنا سارا زور لگایا تھا اس کا گوشہ گوشہ اشھد ان محمداً رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھا ۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح خلافت راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نام مبارک تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا ۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتاجا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا ۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں بآواز بلند محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو ، نمازوں میں حضور پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو ، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا رہا ہو ، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے 24 گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو ۔ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ و رفعنا لک ذکرک اس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفع ذکر اس شان سے اور اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا ۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جبریل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح تمہارا رفع ذکر کیا ؟ میں نے عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جا ئے گا ۔ ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، مسند ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن حبان ، ابن مردویہ ، ابو نعیم ۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی ۔
2: اﷲ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک نام کو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ دُنیا کے ہر خطے میں پانچ وقت آپ کا مبارک نام اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مسجدوں سے بلند ہوتا ہے۔ نیز آپ کے مبارک تذکرے دُنیا بھر میں انتہائی عقیدت کے ساتھ ہوتے ہیں، اور اُنہیں ایک عظیم عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ۔
(94:4) ورفعنا لک ذکر ک : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور کیا ہم نے آپ کے ذکر کا آوازہ بلند نہیں کیا۔ یعنی ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کردیا۔ کیسے بلند کیا ؟ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ اتانی جبریل (علیہ السلام) وقال ان ربک یقول قتدری کیف رفعت ذکر ک قلت اللہ تعالیٰ اعلم بہ ۔ قال اذا ذکرت ذکرت معی۔ میرے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ آپ کا رب پوچھتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر کو کیسے بلند کیا میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جبریل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ اور صورت رفع ذکر کی یہ ہے حضرت حسان بن ثابت کا شعر ہے :۔ وضم الالہ اسم الببی الی اسمہ اذا قال فی الخمس المؤذن اشھد وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذوا العرش محمود وھذا محمد اللہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا دیا ہے۔ جب کہ پانچوں وقت مؤذن اشھد کہتا ہے۔ اور ان کی عزت افزائی کے لئے اپنے ہی نام سے ان کا نام نکالا ہوا ہے۔ پس مالک عرش تو محمود ہے اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں :۔ ترجمہ :۔ اور اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملا دیا۔ حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ ملائکہ کے ساتھ آپ پر درود بھیجا۔ اور مؤمنوں کو درود پاک پڑھنے کا حکم دیا۔ اور جب بھی خطاب کیا معزر القاب سے مخاطف کیا۔ جیسے یایھا المدثر۔ یایھا المزمل پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکر فرمایا۔ تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ علی ھذا القیاس رفع ذکر کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں۔
ف 11 یعنی انبیاء اور فرشتوں میں آپ کا نام بلند کیا اور دنیا و آخرت میں آپ کے نام کا چرچا کیا۔ چناچہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا مگر اس کے ساتھ آپ کا نام ضرور لیتا ہے۔ کلمہ شہادت، اذان اقامت، خطبہ اور تشہد وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد آپ کا نام لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جہاں بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔
7۔ یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیا گیا جیسے تشہد میں نماز میں اذان میں اقامت میں اور اللہ کے نام کی رفعت اور شہرت ظاہر ہے، پس جو اس کے قرین ہوگا رفعت و شہرت میں وہ بھی تابع رہے گا۔
فہم القرآن ربط کلام : نبوت کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ رب کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور کام کو بھی بلند وبالا فرمادیا۔ نبوت کی ذمہ داریوں میں سب سے مشکل کام لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچانا ہے۔ جو لوگ نبوت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صادق اور امین کہتے تھے، دعوت توحید کی وجہ سے وہ اس قدر مخالف ہوگئے کہ انہوں نے اس بات پر تن من دھن کی بازی لگادی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو کسی صورت آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور آپ کو محمد کہنے کی بجائے مذمّم کہنے لگے۔ خاکم بدھن جس کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ اس صورت حال میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف کفار کے ایک ایک الزام کی تردید فرمائی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر موقع پر عظیم تسلی اور اطمینان سے سرفراز فرمایا۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ کے نام اور کام کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے آپ کے نام اور کام کو ہمیشہ ہمیش کے لیے سربلند فرمادیا ہے۔ یقیناً ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بالیقین ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہوا کرتی ہے۔ ان الفاظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص بھی حق کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ پہلی آسانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ داعی کے لیے دعوت کے کام میں انشراح صدر پیدا فرما دیتا ہے۔ دوسری آسانی یہ ہے کہ دعوت کی راہ میں آنے والی مشکلات کو الدّاعی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اس راہ میں پہنچنے والی اذّیت کو اپنے لیے باعث اجر سمجھتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نعمتیں بدرجہ اتم عطا کردی گئیں جس وجہ سے آپ نے مشکل ترین حالات میں انتہائی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آپ کی جان کے دشمن آپ کے جانثار بن گئے اور آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعوت کا پرچم دس لاکھ مربع میل پر لہرانے لگا اور آپ کی زندگی میں اس انقلاب کے اثرات دور دور تک محسوس ہونے لگے۔ یہاں تک کہ اس وقت کے سب سے بڑی مملکت کے فرماروا کو آپ کی کامیابی کا اعتراف کرنا پڑا۔ مکی وفد کی قیادت ابو سفیان کر رہے تھے ان کے سامنے ایک سوال کے جواب میں ہرقل نے کہا۔ (فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَیَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّہُ خَارِجٌ لَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّہُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّی أَعْلَمُ أَنِّی أَخْلُصُ إِلَیْہِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَ ہُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَہُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِہِ ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) ” جو تو کہہ رہا ہے اگر سچ ہے تو عنقریب وہ میرے قدموں کی جگہ پر قابض ہوجائے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اگر میں اس کے پاس پہنچنے کی طاقت رکھتا تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ “ گویا کہ رب کریم نے مشکل ترین کام اور انقلاب آپ کے لیے آسان کردیا۔ آپ کو دعوت کے حوالے سے وہ کامیابی حاصل ہوئی جو آج تک کسی کے مقدر میں نہیں آئی اور نہ ہی قیامت تک کوئی شخص ایسی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ افرادی قوت کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کامیاب ہوئے کہ لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (سورۃ نصر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر گرامی : جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر مبارک کا معاملہ ہے۔ آدمی کے کلمہ پڑھنے سے لے کر قبر تک کوئی ایسا اہم مرحلہ نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ” لا الٰہ الا اللہ “ کے ساتھ محمد رسول اللہ کو شامل نہیں کیا۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقیدت مندوں نے ان اوقات اور مقامات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمۂ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملادیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کیساتھ آپ پر درودبھیجا اور مومنوں کو درود پڑھنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا تو معزز القاب سے مخاطب فرمایا جیسے ” یٰاَیُّھَا الْمُدَثِّرْ ، یٰاَیُّھَا الْمُزَمِّلْ ۔ “ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکرخیر فرمایا۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روز وشب میں پانچ بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ (ضیاء القرآن ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام، مرتبہ اور مقام کو بلند فرمادیا۔ ٢۔ بلاشبہ تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (علیہ السلام) کا مقام و مرتبہ : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے رؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤)
ورفعنا ................ ذکرک ( 4:94) ” اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آواز بلند کردیا “۔ آپ کا ذکر عالم بالا میں بلند ہونے لگا ، پوری زمین میں آپ کی دعوت کا غلغلہ بلندہوگیا۔ اس پوری کائنات میں آپ کا نام بلند ہوگیا اور پھر کلمہ طیبہ میں آپ کا نام اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہ جب بھی کوئی کلمہ پڑھے گا آپ کا نام بلند ہوگا ، اس کے بعد آخر اور کیا مقام و مرتبہ ہوسکتا ہے ؟ یہ تو آپ کا ایک منفرد مقام ہے اور تمام مخلوقات کے مقابلے میں آپ کے لئے مخصوص ہے۔ ہم نے آپ کا ذکر لوح محفوظ میں کردیا کہ زمانے گزر جائیں گے ، نسلیں جائیں گی اور آئیں گی اور کروڑوں ہونٹ آپ کے اسم گرامی کو ادا کرتے رہیں گے۔ صلوٰة وسلام بھیجتے رہیں گے۔ گہری محبت اور عظمت واحترام کا اظہار کرتے رہیں گے۔ آپ کا ذکر یوں بھی بلند ہوا کہ آپ کا نام اسلامی نظام زندگی اور شریعت محمدی کے ساتھ نتھی ہوگیا ۔ صرف آپ کا انتخاب ہی رفع ذکر کا باعث بنا۔ یہ وہ مقام تھا جو نہ کسی کو کبھی نصیب ہوا اور نہ ہوگا۔ لہٰذا اب مشقت کہاں ، تھکاوٹ کہاں ، یہ دین اس قدر عظیم دین ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ہر قسم کی مشقت اور تھکاوٹ کا احساس ہی جاتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ اپنے محبوب مختار کے ساتھ مزید مہربانیاں فرماتا ہے ، آپ کی کلفتیں مزید دور فرماتا ہے ، آپ کو خوش اور مطمئن فرماتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ بہت بڑی آسانیاں اور فراخیاں آپ کے انتظار میں ہیں۔
﴿وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ٠٠٤﴾ (اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا) اس کی تفصیل بہت بڑی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملا دیا اذان میں، اقامت میں، تشہد میں، خطبوں میں، کتابوں میں، وعظوں میں، تقریروں میں، تحریروں میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عالم بالا میں بلایا آسمانوں کی سیر کرائی، سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا جب کسی آسمان تک پہنچتے تھے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) دروازہ کھلواتے تھے، وہاں سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کون ہیں ؟ وہ جواب دیتے تھے کہ میں جبرائیل ہوں پھر سوال ہوتا تھا کہ آپ کے ساتھ کون ہے، وہ جواب دیتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اس طرح سے تمام آسمانوں میں آپ کی رفعت شان کا چرچا ہوا۔ علامہ قرطبی نے بعض حضرات سے اس کی تفسیر میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء کرام پر نازل ہونے والی کتابوں میں آپ کا تذکرہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ آپ کی تشریف لانے کی بشارت دیں اور آخرت میں آپ کا ذکر بلند ہوگا۔ جبکہ آپ کو مقام محمود عطا کیا جائے گا اور اس وقت اولین و آخرین رشک کریں گے۔ آپ کو کوثر عطا کردیا جائے گا۔ دنیا میں اہل ایمان تو محبت اور عقیدت سے آپ کا ذکر کرتے ہی ہیں اہل کفر میں بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جنہوں نے دنیا داری کی وجہ سے ایمان قبول نہیں کیا لیکن آپ کی رسالت و نبوت اور رفعت و عظمت کے قائل ہوئے آپ کی توصیف و تعریف میں کافروں نے مضامین بھی لکھے ہیں اور نعتیں بھی کہی ہیں اور سیرت کے جلسوں میں حاضر ہو کر آپ کی صفات اور کمالات برابر بیان کرتے رہتے ہیں۔
4:۔ ” ورفعنا ‘ یہ دوسرا انعام ہے۔ ہم نے آپ کا بول بالا کردیا۔ آپ پر قرآن نازل فرمایا۔ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے پڑھاتے رہیں گے اور آپ کو ثواب ملتا رہے گا یا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ تیرے نام کو بھی اونچا کردیا ہے مثلاً اذان و اقامت میں تشہد میں، خطبات میں عن ابن عباس قال : یقول لہ لا ذکرت الا ذکرت معی فی الاذان والاقامۃ والتشہد ویوم الجمعۃ علی المنابر ویوم الفطر ویوم الاضحی وایام التشریق و یوم عرفۃ عند الجمار وعلی الصفا والمروۃ وفی خطبۃ النکاح وفی مشارق الارض و مغاربہا (قرطبی ج 20 ص 107) ۔
(4) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کیا یعنی بہت سی جگہ اللہ کے نام کے ساتھ آپ کا نام بھی لیا جاتا ہے ایک دفعہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ میرے نام کا آواز بلند ہونے کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اذا ذکرت ذکرت معی کہ جب مجھے یاد کیا جائے گا تو آپ کو بھی یاد کیا جائے گا جیسے اذان و اقامت ، تشہد، خطبہ، کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت اطاعت کے کاموں میں جیسے اطیعواللہ واطیعوالرسول نافرمانی کی سزا میں ومن یعص اللہ ورسولہ نان لہ نار جھنم خالدین فیھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پیغمبروں میں اور فرشتوں میں آپ کا نام بلند ہے۔ آگے وعدہ ہے کہ ہم ہر مشکل میں آسانی کرنیوالے ہیں اور موجودہ دور میں جو مشکلات آپ کو پیش آرہی ہیں ان کو آسان کردیں گے بلکہ ہر مشقت اور سختی کے لئے دوسری آسانی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔