Surat us Sharah

Surah: 94

Verse: 8

سورة الشرح

وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارۡغَبۡ ٪﴿۸﴾  19

And to your Lord direct [your] longing.

اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So when you have finished, devote yourself to Allah's worship. And to your Lord turn intentions and hopes. Meaning, When you are free from difficulties and blessed with relief, then turn towards your Lord for His worship and turn to Him for all hopes. This is the end of the Tafsir of Surah Ash-Sharh and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی اسی سے جنت کی امید رکھ، اسی سے اپنی حاجتیں طلب کر اور تمام معاملات میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ رکھ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی جب آپ کو تبلیغ کے کاموں سے گھریلو مشاغل سے اور اسلام لانے والوں کی تعلیم و تربیت سے فراغت حاصل ہو تو اپنے پروردگار سے لو لگایئے۔ اور یکسو ہو کر اس سلسلہ میں ریاضت کیجئے۔ کیونکہ مشکلات کے دوران اللہ کی عبادت اس کا ذکر اور اس پر توکل ہی انسان کو ایسا حوصلہ عطا کرتا ہے جس سے مصائب کو برداشت کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ۝ ٨ ۧ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رغب أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع «3» ، وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن ( ر غ ب ) الرغبتہ اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 When you are free,": When you are free from other occupations, whether occupations in connection with the preaching of Divine message, or teaching and training of the new converts, or domestic occupations of mundane nature." The commandment means: "When you are no more occupied, you should spend your time in the labour and toil of Allah's worship and turn all your attention exclusively to your Lord."

سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :5 فارغ ہونے سے مراد اپنے مشاغل سے فارغ ہونا ہے ، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے مشاغل ہوں یا اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کے مشاغل ، یا اپنے گھر بار اور دنیوی کاموں کے مشاغل ۔ حکم کا منشا یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت و مشقت میں صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(94:8) والی ربک فارغب : یہ فانصب پر عطف تفسیری ہے۔ یعنی اللہ سے مانگنے کی رغبت کرو دوسرے سے مت مانگو۔ الی ربک فعل محذوف سے متعلق ہے ای فارغب الی ربک فارغب پس اپنے رب کی عبادت کی طرف اچھی طرح لگ جا۔ ارغب امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ رغبۃ (باب سمع) مصدر سے جس کے معنی دل لگانے اور متوجہ ہونے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۃ یعنی اسی سے اپنی حاجت مانگئے اور ہر معاملہ میں اسی پر بھروسا کیجیے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (رح) ٠٠٨﴾ (اور اپنے رب کی طرف رغبت کیجئے) ۔ یعنی نماز، دعا، مناجات، ذكر، تضرع، زاری میں مشغول ہوجائیں۔ فَانْصَبْ کا ترجمہ ” محنت کیا کیجئے “ کیا گیا ہے کیونکہ یہ نصب بمعنی مشقت سے مشتق ہے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادات میں اس قدر لگنا چاہیے کہ نفس تھکن محسوس کرنے لگے، نفس کو آسانی پر نہ چھوڑیئے اگر نفس کا آرام اور رضا مندی دیکھی جائے تو وہ فرض بھی ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے دے گا۔ وھذا آخر تفسیر سورة الانشراح والحمد للہ العلیم العلی الفتاح، والصلوٰة علی سید رسلہ صاحب الانشراح ومروح الارواح وعلی الٰہ وصحبہ اصحاب النجاح والفلاح وعلی من قام بعدھم بالصلاح والاصلاح

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” والی ربک “ اور اپنے تمام احوال میں صرف اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس کے سوا کسی کی طرف توجہ نہ کرو۔ اجعل رغبتک الی اللہ تعالیٰ فی جمیع احوالک لا الی احد سواہ “ (خازن) ۔ سورة الانشراح ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور اپنے پروردگار کی ہی جانب توجہ رکھیئے مطلب یہ ہے کہ جب تبلیغ سے فارغ ہوجائیں اور دوسری خدمات سے فرصت پائیں تو بلاواسطہ خلق عبادت کیجئے اور خلوت میں بیٹھ ریاضت کیجئے اگرچہ مخلوق کی خدمت کرنا بھی عبادت ہے لیکن اس سے فارغ ہوکر بلاواسطہ بھی ریاضت کیا کیجئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا فرض نماز سے فارغ ہوکر دعا کیا کیجئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا نماز مکتوبہ سے فارغ ہوکر تہجد پڑھا کیجئے اور اپنے پروردگار کی جانب توجہ رکھیئے یعنی اسی کی جانت عاجزی اور گریہ وزاری کیا کیجئے یا یہ مطلب ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہر حال میں رغبت رکھیئے اس کے سوا کسی دوسری کی جانب نہیں۔ بہرحال ! یہ طریقہ انعامات سابقہ کا شکر بھی ہے اور سختی کے دور ہونے کا بھی حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی خلق کے سمجھانے سے فراغت پائے تو خلوت کی عبادت میں لگ۔ تم تفسیر سورة الانشراح