Surat ut Teen

Surah: 95

Verse: 7

سورة التين

فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۷﴾

So what yet causes you to deny the Recompense?

پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَا يُكَذِّبُكَ ... Then what causes you to deny, meaning, `O Son of Adam!' ... بَعْدُ بِالدِّينِ after this, the Recompense, meaning, `in the recompense that will take place in the Hereafter. For indeed you know the beginning, and you know that He Who is able to begin (the creation) is also able to repeat it which is easier. So what is it that makes you deny the final return in the Hereafter after you have known this' Then Allah says, أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ انسان سے خطاب ہے کہ اللہ نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا اور وہ تجھے اور اس کے برعکس ذلت میں گرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے بعد بھی تو قیامت اور جزا کا انکار کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی یہ بات تو ہر ایک کے مشاہدہ میں آرہی ہے کہ بنی نوع انسان دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اس کی اکثریت اسفل السافلین کی پستیوں میں گری ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے احسن تقویم پر ہونے کے تقاضے پورے کیے۔ کیا یہ دونوں گروہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں یا ان کے اعمال کے نتائج ایک ہی جیسے ہوسکتے ہیں ؟ پھر کیا اس بات سے انکار کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اچھے عمل کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیا جانا چاہیے یا بدکردار لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دی جانی چاہیے ؟ اور یہی چیز نظریہ آخرت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فما یکذبک بعد بالدین : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا، پھر بعض نے تو اس ساخت کے تقاضوں کے مطاق ایمان اور عمل صالح اختیار کیا اور بعض نافرمانی کی وجہ سے ” اسفل السلافلین “ ٹھہرے۔ ان دونوں کے عمل کا لازمی نتیجہ ہے کہ ایک دن ایسا ہو جس میں ہر ایک کو نیکی اور بدی کی جزا و سزا دی جائے۔ اتنی واضح دلیل کے بعد اے انسان ! تجھے کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے کہ تو جزا کو جھٹلا دے ؟ اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے :” اے نبی ! اس کے بعد کون ہے جو تجھے جزا کے بارے میں جھٹلائے ؟ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (So, what can make you, after all this, to deny the Requital?...95:7). In the preceding verses man is made to realise that Allah created him, He bestowed on him special favours and the revolution that He brought about in his old age. Man will move from stage to stage, finally reaching the grave and the Hereafter. But he rejects the Hereafter, as a result he is warned. He has seen the scenes of Divine omnipotence and revolutions - how dare he denies and rejects the Hereafter! Is Allah not the Greatest Ruler of all the rulers? [ 8] Ruling Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that while reciting Surah At-Tin, when one reaches the end of it: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ &Is Allah not the Greatest Ruler of all the rulers? [ 8] & one should recite: بلٰی وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشّاھِدِینَ &Yes, indeed, Allah is the Ruler of the rulers, and I bear witness to it.& The jurists have ruled that it is mustahab (preferable/desirable) to recite the words. Al-hamdulillah The Commentary on Surah At-Tin Ends here

فما یکذبک بعد بالدین، پچھلی آیات میں تخلیق انسانی کے کمال اور اس پر حق تعالیٰ کے خاص انعام کا پھر بڑھاپے میں حالات کے انقلاب کا ذکر فرما کر اس آیت میں منکرین قیامت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قدرت الٰہیہ کے ایسے مناظر اور انقلاب دیکھنے کے بعد بھی کیا گنجائش ہے کہ تم آخرت اور قیامت کی تکذیب کرو، کیا اللہ تعالیٰ سب حکومت کرنے والوں پر حاکم نہیں۔ مسئلہ :۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص سورة تین پڑھے اور اس آیت پر پہنچے الیس اللہ باحکم الحکمین تو اس کو چاہئے کہ یہ کلمہ کہے بلی وانا علی ذلک من الشھدین اس لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ یہ کلمہ پڑھنا مستحب ہے۔ تمت سورة التین والحمد اللہ 30 شعبان س 1391 ھ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ۝ ٧ ۭ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ ۔ } ” تو اس کے بعد کیا چیز تجھے آمادہ کرتی ہے جزا و سزا کے انکار پر ؟ “ تو اے جزا و سزا کے منکر انسان ! جب تو خود دیکھ رہا ہے کہ دنیا میں تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں ‘ ان میں کچھ بہت اعلیٰ سیرت و کردار کے مالک ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ تو اس صورت حال میں کیا عقل اور انصاف کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اچھوں کو ان کی اچھائی اور محنت کا پھل ملے اور بروں کو ان کی برائی اور نافرمانی کی سزا دی جائے ؟ یہ ایسی سیدھی سادی بات ہے جو عام ذہنی سطح کا ایک انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ تو یہ سب کچھ دیکھنے سننے اور سمجھنے کے بعد بھی آخر وہ کون سی منطق ہے جس کے تحت تم جزا و سزا کے انکار پر جمے ہوئے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 Another translation of this verse can be: "What can after this (O man ) make you deny the judgement ?" In both cases the intention and purpose remains the same. That is when it is a common observation in human society that a section of mankind which has been created in the best of moulds and nature, is rendered lowest of the low because of moral degradation, and the other section remains secure by adopting the path of constant faith and righteousness in view of its being created in the best of moulds and nature how can judgement be denied after this ? Does common sense require that the end of both these men be the same? Dces justice demand that neither those who are reduced to the lowest of the low be punished nor those who strive to adopt a righteous life be rewarded ? The same theme has been expressed at other places in the Qur'an thus: "Shall We then treat the obedient as We treat the culprits? What has happened to you: how ill you judge?" (AI-Qalam: 35, 36) . "Do those who have committed evil think that We shall hold them and those who have believed and done righteous deeds as equal so that their Iife and their death should be alike ? IIl are the judgements they pass !" (Al-Jathiyah 21) .

سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :6 دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پس ( اے انسان ) اس کے بعد کیا چیز تجھے جزا و سزا کو جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے ۔ دونوں صورتوں میں مدعا ایک ہی رہتا ہے ۔ یعنی جب یہ بات علانیہ انسانی معاشرے میں نظر آتی ہے بہترین ساخت پر پیدا کی ہوئی نوع انسانی میں سے ایک گروہ اخلاقی پستی میں گرتے گرتے سب نیچوں سے نیچ ہو جاتا ہے ، اور دوسرا گروہ ایمان و عمل صالح اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچا رہتا ہے اور اسی حالت پر قائم رہتا ہے جو بہترین ساخت پر انسان کے پیدا کیے جانے سے مطلوب تھی ، تو اس کے بعد جزا و سزا کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ کیا عقل یہ کہتی ہے کہ دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں ہو؟ کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ نہ اسفل السافلین میں گرنے والوں کو کوئی سزا دی جائے اور نہ اس سے بچ کر پاکیزہ زندگی اختیار کرنے والوں کو کوئی جزا ؟ یہی بات دوسرے مقامات پر قرآن میں اس طرح فرمائی گئی ہے کہ أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں ۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے ، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ ( القلم 35 ۔ 36 ) ۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ کیا برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کر دیں جوایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے؟ دونوں کی زندگی اور موت یکساں ہو؟ بہت برے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں ۔ ( الجاثیہ ۔ 21 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(95:7) فما یکذبک بعد بالدین : ما استفہامیہ ہے ما بمعنی من یکذبک میں ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر ہے۔ اور یکذب میں ضمیر فاعل من کی طرف راجع ہے۔ بالدین میں باء سببیہ ہے۔ بعد (ظرف) متعلق بالفعل ہے (بعد کو اضافت لازمی ہے جب بغیر اضافت کے آئے گا تو ضمہ پر مبنی ہوگا یعنی بعد آئے گا) ۔ فراء کے نزدیک تقدیر کلام ہے :۔ فمن یکذبک (یا محمد) بعد ظھور ھذہ الدلائل بالدین ۔ قیامت یا جزاء کے متعلق ان دلائل کے بعد آپ کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ الدین : کے معنی ہیں۔ جزائ، اطاعت، شریعت، یوم الدین۔ روز قیامت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب خطاب کافر سے ہو اور اگر خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ”(اے پیغمبر) یہ سب باتیں جان کر کون ہے جو آپ کو (قیامت کے روز) بدلہ ملنے کے باب میں جھٹلائے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایمان کے بنیادی اجزا میں تیسرا بڑا جز یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر یہ یقین رکھے کہ مرنے کے بعد اسے زندہ ہونا اور اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کیا جانا ہے۔ آخرت کے عقیدے میں جس قدر تازگی اور پختگی ہوگی اسی قدر ہی انسان ایمان کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس لیے ایمان اور صالح اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے انسان ! تو کس طرح قیامت کو جھٹلاتا ہے ؟ کیا تو نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ اس کے حاکم اور عادل ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ قیامت قائم کرے تاکہ ایماندار اور صالح اعمال کرنے والوں کو بہترین جزا دے جس میں کبھی کمی نہیں ہوگی اور ان لوگوں کو پوری پوری سزا دے جنہوں نے اس کی ذات اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا صرف یہ تقاضا نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے کے قیامت قائم ہونی ہے اور مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے حکم کو اپنے لیے آخری اور قطعی حکم تصور کرے۔ اس کے بغیر انفرادی زندگی کی اصلاح اور اجتماعی زندگی کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں، ظالم اور غرور کرنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ “ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ ) (معجم الاوسط، قال البزار لیس بہ باس) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا اور محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو بڑی فکر سمجھ لیا اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا اور اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا جو انسان اللہ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پید افرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ مِنْکُمْ (وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ ) فَانْتَہَی إِلَی آخِرِہَا (أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ ) فَلْیَقُلْ بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِینَ ) (رواہ ابوداؤد : باب مِقْدَار الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ ، قال شعبۃ صدق رَجُلٌ من حَدَّثَ ، قال البانی حدیث ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو سورة التین آخر تک پڑھے اسے چاہیے کہ وہ کے (أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ ) جواب میں ” بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِین “ کہے۔ “ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے انسان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہہ سکے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی حاکم کل ہے اور اسی کا حکم ماننا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف : ٢٦) ٢۔ خبردار اسی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٣۔ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اچھی طرح سنو ! کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے اور وہی حاکم مطلق ہے۔ (الاعراف : ٥٤) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ : ٤٩) ٦۔ جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم، فاسق اور کافر ہیں۔ (المائدۃ : ٤٤، ٤٥، ٤٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

“ اے نبی ان حقائق کے ہوتے ہوئے کیا کوئی معقول شخص عقیدہ آخرت کے بارے میں آپ کو کوئی جھٹلا سکتا ہے ، خصوصاً جب کہ انسانیت کی قدروقیمت ایمان کا بڑا مقام ہے اور یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کا انجام کس قدر گھناﺅنا ہے جو نور سے محروم ہوتے ہیں اور جن کے ہاتھوں سے اللہ کی مضبوط رسی چھوٹ چکی ہوتی ہے۔ الیس اللہ ................ الحکمین (8:95) ” کیا اللہ سب حاکموں میں سے بڑا حاکم نہیں ہے “۔ کہ وہ سب سے بڑا منصف نہیں ہے ، جبکہ وہ لوگوں کے درمیان یوں انصاف کررہا ہے۔ کیا مومنین کا انجام اور کافرین کا یہ انجام حکمت بالغہ پر مبنی نہیں ہے ؟ انصاف واضح ہے ، حکمت نہایت بلند ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوع حدیث روایت ہے کہ جب تم میں سے کسی نے سورة تین اور زیتون کو پڑھا اور وہ آخر تک پڑھ چکا اور اس نے پڑھا۔ الیس اللہ ................ الحکمین (8:95) ” تو اسے کہنا چاہئے ” ہاں اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بالدِّيْنِؕ٠٠٧﴾ (سو اے انسان اس کے بعد تجھے کیا چیز قیامت کا جھٹلانے والا بنا رہی ہے) ۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسان تجھے اپنی تخلیقی حالت معلوم ہے کہ کس طرح پیدا کیا گیا اور تجھے کیسی حسین تقویم میں وجود بخشا گیا تو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتا رہا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے اور خالق کائنات جل مجدہ کی قدرت کو سمجھتے ہوئے اس بات کا کیسے منکر ہو رہا ہے کہ مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے اور ایمان اور کفر اور اعمال کی جزا و سزا ملے گی۔ یہ سب تخلیقی احوال دیکھ کر تجھے اللہ کی قدرت کا یقین نہیں آتا جسے ان چیزوں پر قدرت ہے جو تیرے سامنے ہیں اسے دوبارہ زندہ کر کے محاسبہ اور مواخذہ پر بھی قدرت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” فما یکذبک “ یہ جواب قسم پر متفرع ہے مذکورہ بالا بیان کے بعد کونسی چیز تمہیں حشر و نشر اور جزاء وسزا کے انکار پر آمادہ اور مجبور کرتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا انسان کو احسن تقویم میں پیدا کرنا اور ایک قطرہ آب سے ایسی عظیم الشان اور خوبیوں میں ساری مخلوق سے اعلی وارفع مخلوق پیدا کرلینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ اس لیے حشر و نشر اور جزاء وسزا کا انکار نہایت ہی قابل تعجب بات ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) پھر ان واضح دلائل کے بعد اے انسان وہ کونسی چیز ہے جو قیامت کی تکذیب پر تجھ کو آمادہ کررہی ہے اور قیامت کا منکر بنارہی ہے یعنی ہماری قدرت کو دیکھنے اور قرآنی دلائل سننے کے بعد بھی وہ کون سی چیز ہے جو تجھ کو قیامت کے انکار و تکذیب پر مجبور کرتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اس دقرت کو کہ اس نے کس طرح بچہ سا پیدا کیا پھر آہستہ آہستہ کس طرح پروان چڑھایا اور آخر عمر میں کس طرح ایک ایک کرکے وہ چیزیں واپس ہوگئیں کیا اب بھی اے انسان تجھ کو تامل ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت اور بعث پر قدرت نہیں رکھتا آخر وہ کیا چیز ہے جو تجھ کو قیامت کے انکار پر ابھارتی اور مجبور کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہو جیسا کہ کہا گیا ہے یعنی آپ سے دریافت فرماتے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو ان دلائل کو سننے کے بعد بھی لوگوں کو قیامت کی تکذیب پر مجبور اور آمادہ کرتی ہے اور بعث بعدالموت پر ان کو ایمان لانے سے روکتی ہے۔