Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 1

سورة العلق

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾

Recite in the name of your Lord who created -

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Says; اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الاِْنسَانَ مِنْ عَلَقٍ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گذاراکرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آیہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں ، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچایہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی ، پھر چھوڑ دیا اور اقرا باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلمتک پڑھا ۔ آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خود ہے ، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کر لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہوگئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھیبہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے ، ورقہ نے پوچھا بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا ، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتاجبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں ۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی اور اس کے رکنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آجاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ۔ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آجاتے ( مسند احمد ) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے اس کی سند میں اس کے متن میں اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کر دیا ہے ۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے والحمد اللہ ۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی ، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھامعلوم کرادیا ۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو ، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] آغاز وحی میں ہی تین اہم سوالوں کا جواب :۔ ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل نے غارحرا میں جو وحی آپ پر پیش کی۔ وہ مکتوب شکل میں تھی۔ ورنہ آپ کو جواب میں ما انا بقاری (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر کوئی استاد کسی بچہ کو یا شاگرد کو زبانی پڑھائے تو اسے ایسا فقرہ جواب میں کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وحی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کیا گیا۔ کائنات کی تخلیق کس نے کی ؟ کیسے ہوئی ؟ انسان کا اس کائنات میں کیا مقام ہے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ابتدائے نوع انسانی سے ہی صاحب فکر انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ اسی سوال کا جواب سب سے پہلے دیا گیا اور بتایا گیا کہ کائنات از خود ہی مادہ سے پیدا نہیں ہوگئی۔ نہ یہ حسن اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے نام سے یعنی بسم اللہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ وحی پڑھنا شروع کیجیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اقرا باسم ربک الذی خلق : پہلی وحی میں پڑھنے کا حکم دینے سے پڑھنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دیتے وقت اپنے رب ہونے اور پیدا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا، کیونکہ سب سے پہلی اور بڑی نعمت پیدا کرنا ہے، باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں، خلق ہی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ دوسری نعمت رب ہونا، یعنی پرورش کرنا ہے۔ یعنی ان نعمتوں والی ہستی کے نام کی برکت سے پڑھ، اس کی برکت سے تو قاری بھی بن جائے گا۔ (٣) ” الذی خلق “ (جس نے پیدا کیا) کا مفعول حذف کردیا گیا ہے کہ کسے پیدا کیا ؟ یعنی جب پیدا کرنا اس کا کام ہے، تو پھر یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کسے پیدا کیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Beginning of The Qur’ anic Revelation It is universally agreed that the first five verses of Surah Al-` Alaq or Iqra& mark the very beginning of Qur’ anic revelation. [ Baghawi ]. Bukhari, Muslim, other authentic sources and overwhelming consensus of scholars, ancient and modern, all concur on this point. However, some scholars state that Surah Al-Muddaththir was the first Surah to be revealed, and yet others say that Surah Al-Fatihah [ The Opening ] was revealed first. It is possible to reconcile between these different views as follows: After the revelation of Surah Al-` Alaq or Iqra&, there was a temporary break in the revelation during which the Holy Prophet used to be very sad, but after some time, the Angel Jibra&il (علیہ السلام) appeared to him once again, and he faced the same situation as he faced when the first verses of Surah Iqra& were revealed to him. On this occasion, the opening verses of Surah Al-Muddaththir were conveyed to him by the angel. From this point of view, it may be said that the first Surah to be revealed after the temporary break was Surah Al-Muddaththir. Some of the Companions held the view that Surah Al-Fatihah was the first Surah to be revealed. They probably meant to say that this was the first Surah to be revealed in a complete form. Undoubtedly, some verses (of Surahs Al-` Alaq or Iqra&, Al-Muzzammil and Al-Muddaththir) were revealed earlier, but the rest of the verses of those Surahs were revealed at later dates. Al-Fatihah is the first Surah that was revealed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in its entirety, all seven verses at once. [ Mazhari ] The Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) First Experience of Revelation In a lengthy narration, as recorded in the Sahihs of Bukhari and Muslim, the Mother of the Faithful, Sayyidah ` A&ishah (رض) says that revelation to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was started by true dreams. Whatever he saw in a dream would happen in reality as clearly as the light of dawn. Then solitude became dear to him, and he used to seclude himself for worship in the cave Ha&, (a cave in the mount known today as &Jabal-un-Nur, which is clearly visible in front of Jannat-ul-Ma` la, the famous graveyard of Makkah) and therein he devoted himself to Divine worship for several nights before he came back to his family and took provisions for his retirement; then he would return to the Mother of the Faithful, Sayyidah Khadijah (رض) and take more provisions for a similar period. (The period of his stay in the cave is mentioned differently by different reports, but the report of sahihain maintains that it was a month, the whole month of Ramadan. Authentic traditions are silent about the mode of worship he adopted during this period. Some scholars have opined that he used to worship according to the Shari` ah of Nuh, Ibrahim and ` Isa (علیہم السلام) but neither any authentic report supports it, nor is it likely, because he was an &ummiyy (unlettered). It is, therefore, more likely that his worship was concentration and reflection on Allah Almighty and His omnipotence until the Truth, that is, the revelation came to him while he was in the cave of Hira&; so the angel came to him and said, اِقرَا &Read&. The Holy Prophet replied, ما انا بقاری &I am not the one who can read&. (The Holy Prophet was under the impression that he was directing him to read a written document. Since the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) could not read or write, he replied accordingly.) Then the angel embraced him and pressed him so hard that he felt extreme pain, then he released him and said, اِقرَا &Read&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied, &I am not the one who can read&. Then he embraced him and pressed him a second time so hard that he felt extreme pain, then he released him again and said, اِقرَا &Read&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied ما انا بقاری ، &I am not the one who can read&. Then he embraced the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and pressed him a third time, then he released him and said, اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ &Read with the Name of your Lord Who created [ everything ], He created man from a clot of blood. Read, and your Lord is the most gracious, who imparted knowledge by means of the Pen. He taught man what he did not know.& The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) returned with this message [ of five verses ] while his heart trembled and he came to Sayyidah Khadijah (رض) saying زمّلونی زمّلونی &wrap me up, wrap me up&, and she wrapped him up, until the awe left him. (It should be noted that the fear felt by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was due to the great responsibility delegated to him, and due to the unusual event of seeing an angel in his original form.) Then he said to Sayyidah Khadijah (رض) عنہا while he related to her what had happened: |"I feared for myself.|" Sayyidah Khadijah (رض) said: &Nay, by Allah, Allah will never expose you to disgrace, because you unite the ties of kinship, and bear the burden of the weak, and earn for the destitute, and offer hospitality to the guests, and help (people) in real distress.& Then Sayyidah Khadijah (رض) took him to her cousin, Waraqah Ibn Naufal. He was a man who had adopted Christianity (which was a true religion at that time) during the days of Ignorance, and he used to write the Hebrew script, and translate it into Arabic. He was a very old man who had turned blind. Sayyidah Khadijah (رض) said to him, 0 Uncle&s son! Listen to your brother&s son. Waraqah asked him, My brother&s son! What have you seen? So the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) related to him what he had seen. Waraqah said to him, This is the very same confidant [ angel Jibra&il (علیہ السلام) ] whom Allah sent to Holy Prophet Musa (علیہ السلام) ; would that I were a young man at this time - would that I were alive when your people would expel you! The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked in surprise, Will they expel me?|" He replied. Yes; never has a man appeared with the like of that which you have brought, but he has been held in enmity; and if your time finds me alive, I shall help you with the fullest support. After that, not much time had passed before Waraqah died, and the revelation broke off temporarily. [ Bukhari and Muslim ] The temporary break of revelation, according to Suhaili, lasted for about a year and half. Other reports say that it lasted to about three years. [ Mazhari ] Verse [ 1] اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ (Read with the Name of your Lord, Who created [ everything ]) In the prepositional phrase bismi rabbika [ with the name of your Lord ], the addition of the word ismi is significant in two ways [ 1] that whenever the Qur&an is being recited, the reader should begin by reciting the formula , بسم اللہ الرحمٰن الرحیم |"With the name of Allah, the All-Merciful, the Very-Merciful|". When Jibra&il Amin (علیہ السلام) suddenly appeared to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said &iqra& (read) , he tendered apology that he is unable to read or recite, because he is unlettered. The phrase b-ismi rabbika points to the fact that under present circumstances you, 0 Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، may be &ummiyy& or unlettered, but Allah has the power to grant you the highest level of knowledge, the most elegant style of oration and eloquence, so that you would surpass and subdue the most educated or literate people, as it became manifest later on. [ Mazhari ]. [ 2] Allah has many Beautiful Names, but the blessed name rabb is particularly chosen in the verse here probably because it supports and emphasizes the theme that Allah cherishes and sustains the Holy Prophet through all the different stages of his development, until he is fully consummated. He can make him read and recite, despite being unlettered. In the relative clause al-ladhi khalaqa [ Who created ], particularly contains the Divine attribute of takhliq [ creating ] presumably because the first Divine favor is wujud or &existence& as a result of His drawing out beings from the realm of non-existence into the realm of existence. Many other favors of His follow. The verb khalaqa [ created ] is transitive and it requires an object that is absent here. This indicates the verb is used absolutely, and it signifies that the Creator has created the entire universe and every existent thing it contains.

خلاصہ تفسیر اقراء سے مالم یعلم تک سب سے پہلے وحی ہے جس کے نزول سے نبوت کی ابتدا ہوئی جس کا قصہ حدیث شیخین میں یہ کہ عطاء نبوت کے قریب زمانے میں آپ کو از خود خلوت پسند ہوگئی، آپ غار حرا میں تشریف لیجا کر کئی کئی شب رہتے، ایک روز دفعتہً جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے کہا کہ اقراء یعنی پڑھئے، آپ نے فرمایا ماانا بقاری، یعنی میں کچھ پڑھا ہوا نہیں، انہوں نے خوب آپ کو زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور پھر کہا اقرائ، آپ نے پھر وہی جواب دیا، اسی طرح تین بار کیا پھر آخر میں دبانے کے بعد چھوڑ کر کہا اقراء الی مالم یعلم اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (پر جو) قرآن (نازل ہوا کرے گا جس میں اس وقت کی نازل ہونے والی کیجئے جیسا کہ اس آیت میں اذا قرات القرآن فاستعذ باللہ بخ میں قرآن کے ساتھ اعوذ باللہ پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور ان دونوں امر سے جو اصل مقصود ہے یعنی توکل و استعانت وہ تو واجب ہے اور زبان سے کہہ لینا مسنون و مندوب ہے اور گو اصل مقصود ہے یعنی توکل وستعانت وہ تو واجب ہے اور زبان سے کہہ لینا مسنون و مندوب ہے اور گو اصل مقصود کے اعتبار سے اس آیت کے نزول کے وقت بسم اللہ کا آپ کو معلوم ہونا ضروری نہیں لیکن بعض روایات میں اس سورت کے ساتھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا نازل ہونا بھی آیا ہے۔ اخرجہ الواجدی عن عکرمتہ والحسن انھما قالا اول مانزل بسم اللہ الرحمٓن الرحیم و اول سورة اقراء اخرجہ ابن جزیرہ وغیرہ عن ابن عباس انہ قال اول مانزل جبرئیل (علیہ السلام) علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال یا محمد استعذثم قل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کذا فی روح المعانی اور ان آیتوں میں جو قراة کو اسم الٰہی کے ساتھ افتاحت کرنے کا حکم ہوا ہے اس حکم میں خود ان آیتوں کا داخل ہونا ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ اسمع ما اقول لک یعنی میں جو کچھ تجھ سے کہوں تو اس کو سن، تو خود اس جملہ کے سننے کا حکم کرنا بھی اس کو مقصود ہے پس حاصل یہ ہوگا کہ خواہ ان آیتوں کو پڑھو یا جو آیات بعد میں نازل ہوں گی ان کو پڑھو سب کی قرات اسم الٰہی سے ہونا چاہئے اور آپ کو بعلم ضروری معلوم ہوگیا کہ یہ قرآن اور وحی ہے اور حدیثوں میں جو آپ کا ڈر جانا اور ورقہ ابن نوفل سے بیان کرنا آیا ہے وہ بوجہ شبہ کے نہ تھا بلکہ خوف وہیبت وحی سے اضطراری تھا اور ورقہ سے بیان کرنا مزید اطمینان و زیارت ایقان کے لئے تھا نہ عدم ایقان کے سبب، اور معلم متعلم سے ابجد شروع کرانے کے وقت کہتا ہے کہ ہاں پڑھ، پس اس سے تکلیف مالا یطاق لازم نہیں آتی اور آپ کا عذر فرمایا تو اس وجہ سے ہے کہ آپ کو اس جملے کے معنے متعین نہ ہوئے ہوں کہ مجھ سے کیا پڑھوانا چاہتے ہیں اور یہ امر کوئی خلاف شان نہیں ہے یا باوجود تعیین مراد کے اس سبب سے ہے کہ قرات کا استعمال اکثر لکھی ہوئی چیز کو پڑھنے کے معنے میں آتا ہے تو آپ نے بوجہ صرف شناس نہ ہونے کے یہ عذر فرمایا ہو اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا دبانا بظن غالب واللہ اعلم بحقیقتہ الحال اس لئے ہوگا کہ آپ کے اندر بار وحی کے تحمل کی استعداد پیدا کردیں اور لفظ رب سے اشارہ اس طرف ہے کہ ہم آپ کی مکمل تربیت کریں گے اور نبوت کے درجات اعلیٰ پر پہنچا دیں گے آگے رب کی صفت ہے یعنی وہ ایسا رب ہے) جس نے (مخلوقات کو) پیدا کیا (اس وصف کی تخصیص میں یہ نکتہ ہے کہ حق تعالیٰ کی نعمتوں میں اول ظہور اس نعمت کا ہوتا ہے تو تذکیر میں اس کا مقدم ہونا مناسب ہے اور نیز خلق دلیل ہے خالق پر اور سب سے اہم اور اقدم معرفت خالق ہے آگے بطور تخصیص بعد تعمیم کے ارشاد ہے کہ) جس نے (سب مخلوقات میں سے بالخصوص) انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (اس تخصیص بعد تعمیم میں اشارہ ہی کہ نعمت خلق میں بھی عام مخلوقات سے زیادہ انسان پر انعام ہے کہ اس کو کس درجہ تک ترقی دی کہ صورت کیسی بنائی، عقل و علم سے مشرف بنایا، پس انسان کو زیادہ شکر اور ذکر کرنا چاہئے اور تخصیص علق کی شاید اس لئے ہے کہ یہ ایک برزخی حالت ہے کہ اس کے قبل نطفہ اور غذا و عنصر ہے اور اس کے بعد مضغہ اور ترکیب عظام و نفخ روح ہی پس گویا وہ جمعی احوال متقدمہ ومتاخرہ کے درمیان ہے آگے قرارت کو مقصود اہم قرار دینے کے لئے ارشاد ہے کہ آپ قرآن پڑھا کیجئے (حاصل یہ کہ پہلے امر یعنی اقراباسم ربک سے یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ یہاں اصل مقصود ذکر اسم اللہ ہے بلکہ قرات خود بھی فی نفسہا مقصود ہے کیونکہ تبلیغ کا ذریعہ یہی قرات ہے اور تبلیغ ہی اصل کام صاحب وحی کا ہے پس اس تکرار میں آپ کی نبوت اور مامور بالتبلیغ ہونے کا اظہار بھی ہوگیا) اور (آگے اس عذر کو رفع کردینے کی طرف اشارہ ہے جو آپ نے اول جبرئیل (علیہ السلام) سے پیش کیا تھا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس کے لئے ارشاد فرمایا کہ) آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور وہ ایسا ہے) جس نے (لکھے پڑھوں کو نہشتہ) قلم سے تعلیم دی (اور عموماً و مطلقاً ) انسان کو (دوسرے ذرائع سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا (مطلب یہ کہ اول تو تعلیم کچھ کتابت میں منحصر نہیں کیونکہ دوسرے طریقوں سے بھی تعلیم کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، ثانیاً اسباب مؤ ثر بالذات نہیں، مسبب حقیقی اور علم دینے والے ہم ہیں، پس گو آپ لکھنا نہیں جانتے مگر ہم نے جب آپ کو قرات کا امر کیا ہے تو ہم دوسرے ذریعہ سے آپ کو قرات اور حفظ علوم وحی پر قدرت دیدیں گے چنانچہا یسا ہی ہوا، پس ان آیات میں آپ کی نبوت اور اس کے مقدمات و متمات کا پورا بیان ہوگیا اور چونکہ صاحب نبوت کی مخالفت غایت درجہ کا گناہ اور شنیع امر ہے اس لئے آئندہ آیات میں جن کا نزول آیات اولیٰ سے ایک مدت کے بعد ہوا ہے آپ کے ایک خاص مخالف یعنی ابوجہل کی مذمت عام الفاظ سے ہے جس میں دوسرے مخالفین بھی شامل ہو اویں، جس کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک بار ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھا کہنے لگا کہ میں آپ کو اس سے بار ہا منع کرچکا ہوں، آپ نے اس کو جھڑک دیا تو کہنے لگا کہ مکہ میں سب سے بڑا مجمع میرے ساتھ ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر اب کی بار نماز پڑھتے دیکھوں گا تو نعوذ باللہ آپ کی گردن پر پاؤں رکھدوں گا چناچہ ایک بار اس قصد سے چلا مگر قریب جا کر رک گیا اور پیچھے ہٹنے لگا، لوگوں نے وجہ پوچھی کہنے لگا مجھ کو ایک خندق آگ کی حائل معلوم ہوئی اور اس میں پر دار چیزیں نظر آئیں آپ نے فرمایا وہ فرشتے تھے اگر اور آگ کی حائل معلوم ہوئی اور اس میں پر دار چیزیں نظر آئیں آپ نے فرمایا وہ فرشتے تھے اگر اور آگے آتا تو فرشتے اس کو بوٹی بوٹی کر کے نوچ ڈالتے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کذافی الدارالمنشور عبن الصحاح وغیرہامن کتب الحدیث ارشاد ہے کہ) سچ مچ بیشک (کافر) آدمی حد (آدمیت) سے نکل جاتا ہے اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو (ابنائے جنس سے) مستغنی دیکھتا ہے (کقولہ تعالیٰ ولوبسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا الخ حالانکہ اس استغناء پر سرکشی حماقت ہے کیونکہ کسی کو گو مخلوق سے من وجہ استغنا ہو بھی جاوے لیکن حق تعالیٰ سے استغفاء تو کسی حال میں نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ آخر میں) اے مخاطب (عام) تیرے رب ہی کیطرف سب کا لوٹنا ہوگا (اور اس وقت بھی مثل حالت حیات کے اس کی قدرت کے احاطہ میں گھرا ہوگا اور اس حالت میں جو اس کو طغیان کی سزا ہوگی اس سے بھی کہیں نہ بھاگ سکے گا پس ایسا عاجز ایسے قادر سے کب مستغنی ہوسکتا ہے تو اپنے کو مستغنی سمجھنا اور اس کی بنا پر سرکشی کرنا بڑی بیوقوفی ہے، آگے بصورت استفہام تعجب ہے اس کی سرکشی پر یعنی) اے مخاطب (عام) بھلا اس شخص کا حال تو بتلا جو (٢ مارے) ایک (خاص) بندے کو منع کرتا ہے جب وہ (بندہ) نماز پڑھتا ہے (مطلب یہ کہ اس شخص کا حال دیکھ کر تو بتلا کہ اس سے زادہ عجیب بات بھی کوئی ہے حاصل یہ کہ نمازی کو نماز سے روکنا نہایت ہی بری اور عجیب بات ہے، آگے اسی تعجب کی تاکید وتقویت کے لئے مکرر فرماتے ہیں کہ) اے مخاطب (عام) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ بندہ (جس کو نماز سے روکا گیا ہے) ہدایت پر ہو (کہ جو کمال لازمی ہے) وہ (دوسروں کو بھی) تقویٰ کی تعلیم دیتا ہو (جو کمال متعدی یعنی دوسروں کی نفع رسانی ہے اور شاید کلمہ تردید لانے سے اشارہ اس طرف ہو کہ اگر ان میں سے ایک صفت بھی ہوتی تب بھی منع کرنے والے کی مذمت کے لئے کافی تھی چہ جائیکہ دونوں ہوں اور) اے مخاطب (عام) بھلا یہ تو بتلا کہ اگر وہ شخص (منع کرنے والا دین حق کو) جھٹلاتا ہو اور (دین حق سے) روگردانی کرتا ہو (یعنی نہ عقیدہ رکھتا ہو اور نہ عمل، یعنی اول تو یہ دیکھو کہ نماز سے منع کرنا کتنا برا ہی پھر بالخصوص یہ دیکھو کہ جب منع کرنے والا ایک گمراہ اور جس کو منع کر رہا ہے وہ ہدایت کا اعلیٰ نمونہ ہے تو یہ کتنی عجیب بات ہے۔ آگے اس منع کرنے پر اس کو وعید ہے یعنی) کیا اس شخص کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ (اس کی سرکشی اور اس سے پیدا ہونے والے اعمال کو) دیکھ رہا ہے (اور اس پر سزا دے گا، آگے اس پر زجر ہے یعنی اسکو) ہرگز (ایسا) نہیں (کرنا چاہئے اور) اگر یہ شخص (اپنی اس حرکت سے) باز نہ آوے گا تو ہم (اس کو) پٹھے پکڑ کر جو کہ دروغ اور خطا میں آلودہ پٹھے ہیں (جہنم کی طرف) گھسیٹیں گے (ناصیہ سر کے اگلے بالوں کو کہا جاتا ہے جن کو اردو میں پٹھے بولتے ہیں اس کی صفت میں کا ذبہ خاطہ مجازاً فرمایا اور اس کو جو اپنے مجمع پر گھمنڈ ہے اور ہمارے پیغمبر کو دھمکاتا ہے) سو یہ اپنی مجلس والوں کو بلا لے (اگر اس نے ایسا کیا تو) ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلا لیں گے (چونکہ اس نے نہیں بلایا اس لئے اللہ نے ان فرشتوں کو بھی نہیں بلایا کماروی الطبری عن قتادہ مرسلاً قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوفعل ابوجہلم لاخذتہ الملئکتہ الزبانیہ عیاناً آگے پھر زیارت زجر کے لئے اس کو تنبیہ ہے کہ اس کو) ہرگز (ایسا نہیں (کرنا چاہئے مگر) آپ (اس نالائق کی ان حرکتوں کی کچھ پرواہ کیجئے اور) اس کا کہنا نہ مانیئے (جیسا اب تک بھی نہیں مانا) اور (بدستور) نماز پڑھتے رہئے اور (خدا کا) قرب حاصل کرتے رہئے (اس میں ایک لطیف وعدہ ہے کہ حق تعالیٰ آپ کو ان لوگوں کے ضرر سے محفوظ رکھے گا کیونکہ نماز سے قرب ہوتا ہے اور قرب موجب عظمت ہے الالحکمتہ خاصہ پس ایسے امور کی طرف ذرا التفات نہ کیجئے اپنے کام میں لگے رہئے۔ ) معارف ومسائل وحی نبوت کی ابتداء اور سب سے پہلے وحی :۔ صحیحین اور دوسری معتبر روایات سے ثابت اور جمہور سلف و خلف کا اس پر اتفاق ہے کہ وحی کی ابتدا سورة علق یعنی اقراء سے ہوتی ہے اور اس سورة کی ابتدائی پانچ آتیں مالم یعلم تک سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ بعض حضرات نے سورة مدثر کو سب سے پہلی سورت قرار دیا ہے اور بعض نے سورة فاتحہ کو۔ امام بغوی نے فرمایا کہ جمہور سلف وخلف کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ سب سے پہلے سورة اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں (کذاروی فرمایا کہ جمہور سلف و خلف کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ سب سے پہلے سورة اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہوئیں (کذاروی عن ابن عباس و الزہری و عمرو بن دینار، در منشور) اور جن حضرات نے سورة مدثر کو پہلی سورت فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اقراء کی پانچ آیتیں نازل ہونے کے بعد نزول قرآن میں ایک مدت تک توقف رہا جس کو زمانہ فترت کا کہا جاتا ہے اور وحی کی تاخیر و توقف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت رنج و غم پیش آیا اس کے بعد اچانک پھر حضرت جبرئیل امین سامنے آئے اور سورة مدثر کی آیتیں نازل ہوئیں اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی اور ملاقات جبرئیل سے وہ ہی کیفیت طاری ہوئی جو سورة اقراء کے نزول کے وقت پیش آئی تھی جس کا بیان آگے آ رہا ہے جس طرح فترت کے بعد سب سے پہلے سورة مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اس لحاظ سے اس کو بھی پہلی سورت کہہ سکتے ہیں اور سورة فاتحہ کو جن حضرات نے پہلی سورت فرمایا ہے اس کی بھی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ مکمل سورت سب سے پہلے سورة فاتحہ ہی نازل ہوئی اس سے پہلے چند سورتوں کی متفرق آیات ہی کا نزول ہوا تھا (مظہری) صحیحین کی ایک طویل حدیث میں نبوت اور وحی کی ابتدا کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے فرمایا کہ سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلسلہ وحی رویائے صالحہ یعنی سچے خوابوں سے شروع ہوا جس کی کیفیت یہ تھی کہ جو کچھ آپ خواب میں دیکھتے بالکل اس کے مطابق واقعہ پیش آتا اور اس میں کسی تعبیر کی بھی ضرورت نہ تھی، صبح کی روشنی کی طرح واضح طور پر خواب میں دیکھا ہوا واقعہ سامنے آجاتا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخلوق سے یکسوئی اور خلوت میں عبادت کرنے کا داعیہ قوی پیش آیا جس کے لئے آپ نے غار حرا کو منتخب فرمایا (یہ غار مکہ مکرمہ کے قبرستان جنتہ المعلیٰ سے کچھ آگے ایک پہاڑ پر ہے جس کو جبل النور کہا جاتا ہے اس کی چوٹی دور سے نظر آتی ہے) حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ آپ اس غار میں جا کر راتوں کو رہتے اور عبادت کرتے تھے جب تک اہل و عیال کی خبر گیری کی ضرورت پیش نہ آتی وہیں مقیم رہتے تھے اور اس وقت کے لئے آپ ضروری توشہ لیجاتے تھے اور پھر توشہ ختم ہونے کے بعد حضرت خدیجہ ام المومنین کے پاس تشریف لاتے اور مزید کچھ دنوں کے لئے توشہ لیجاتے یہاں تک کہ آپ اسی غار حرا میں تھے کہا اچانک آپ کے پاس حق یعنی وحی پہنچی۔ (غار حراء میں خلوت گزینی کی مدت میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ آپ نے ایک ماہ یعنی پورے ماہ رمضان اس میں قیام فرمایا۔ ابن اسحٰق نے سیرت میں اور زرقانی نے شرح مواہب میں فرمایا کہ اس سے زیادہ مدت کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اور یہ عبادت جو آپ غار حراء میں نزول وحی سے پہلے کرتے تھے اس وقت نماز وغیرہ کی تعلیم تو ہوئی نہ تھی، بعض حضرات نے فرمایا کہ نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ (علیہم السلام) کی شرائع کے مطابق عبادت کرتے تھے مگر نہ کسی روایت سے اس کا ثبوت ہے اور نہ آپ کے امی ہونے کی وجہ سے یہ احتمال صحیح ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ اس وقت آپ کی عبادت محض مخلوق سے انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ خاص اور تفکر کی تھی (مظہری) حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ وحی آنے کی صورت میں ہوئی کہ فرشتہ یعنی جبرئیل امین آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا اقراء یعنی پڑھئے، آپ نے فرمایا ما انا بقاری یعنی میں پڑھنے والا نہیں ہوں (کیونکہ آپ امی تھے، اور جبرئیل امین کے قول اقراء کی مراد آپ پر اس وقت واضح نہ تھی کہ کیا اور کس طرح پڑھوانا چاہتے ہیں کیا کوئی لکھی ہوئی تحریر دیں گے جس کو پڑھنا ہوگا اس لئے اپنے امی ہونے کا عذر کردیا) حضرت صدیقہ کی روایت میں ہی کہ آپ نے فرمایا کہ میرے اس جواب پر جبرئیل امین نے مجھے آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا اور پھر وہی بات کہی اقراء میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں تو پھر جبرئیل امین نے دوبارہ آغوش میں لے کر اتنا دبایا کہ مجھے اس کی تکلیف محسوس ہونے لگی پھر چھوڑ دیا اور تیسری مرتبہ پھر کہا اقراء میں نے پھر وہی جواب دیا مانا بقادی تو تیسری مرتبہ پھر آغوش میں دبایا پھر چھوڑ کر کہا، اقراء باسم اربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراو ربک الاکرم، الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم قرآن کی یہ (سب سے پہلی پانچ) آیتیں لے کر آپ گھر واپس تشریف لائے آپ کا دل کانپ رہا تھا حضرت خدیجہ کے پاس آ کر فرمایا زملونی زملونی مجھخ ڈھانپو مجھے ڈھانپو (حضرت خدیجہ نے آپ پر کپڑے ڈالے) یہاں تک کہ یہ ہیبت کی کیفیت رفع ہوئی (یہ کییت اور کپکپی جبرئیل (علیہ السلام) کے خوف سے نہیں تھی کیونکہ آپ کی شان اس سے بہت بلند وبالا ہے بلکہ اس وحی کے ذریعہ جو نبوت و رسالت کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی اس کا بارگراں محسوس فرمانے اور ایک فرشتہ کو اس کی اصلی ہئیت میں دیکھنے سے طبعی طور پر یہ ہیبت کی کیفیت پیدا ہوئی) حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ افاقہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ کو غار حرا کا پورا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ اس سے مجھ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہوگیا۔ حضرت خدیجہ ام المومنین نے عرض کیا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ناکام نہ ہونے دیں گے کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ بوجھ میں دبے ہوئے لوگوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں۔ بیروزگار آدمی کو کسب پر لگا دیتے ہیں مہمانوں کی مہمانداری کرتے ہیں اور مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں (حضرت خدیجہ لکھی پڑھی اتون تھیں ان کو شاید کتب سابقہ توریت و انجیل سے یا اس کے علماء سے یہ بات معلوم ہوئی ہوگی کہ جس شخص کے اخلاق و عادات ایسے کریمانہ ہوں وہ محروم و ناکام نہیں ہوا کرتا اس لئے اس طریقے سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی) اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں یہ زمانہ جاہلیت ہی میں بت پرستی سے تائب ہو کر نصراین ہوگئے تھے (کیونکہ اس وقت کا دین حق یہی تھا) ورقہ ابن نوفل (لکھے پڑھے آدمی تھے عبرانی زبان بھی جانتے تھے اور عربی تو ان کی مادری زبان تھی) وہ عبرانی زبان میں بھی لکھتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور اس وقت وہ بہت بوڑھے تھے، بڑھاپے کی وجہ سے بینائی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ میرے چچا زاد بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو۔ ورقہ ابن نوفل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حال دریافت کیا تو آپ نے غار حرا میں جو کچھ دیھا تھا بیان کردیا۔ ورقہ بن نوفل نے سنتے ہی کہا کہ یہ وہ ہی ناموس یعنی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اتارا تھا کا سش میں آپ کی نبوت کے زمانے میں قوی ہوتا، اور کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کی قوم آپ کو (وطن سے) نکالے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (تعجب سے پوچھا) کیا میری قوم مجھے نکال دے گی، ورقہ نے کہا کہ بلا شبہ نکالے گی کیونکہ جب بھی کوئی آدمی وہ پیغام حق اور دین حق لے کر آتا ہے جو آپ لائے ہیں تو اس کی قوم نے اس کو ستایا ہے اور اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا مگر ورقہ اس کے چند ہی روز کے بعد انتقال کرگئے اور اس واقعہ کے بعد وحی قرآن کا سلسلہ رک گیا (بخاری ومسلم) فترت وحی کی مدت کے متعلق سہیلی کی روایت ہے کہ ڈھائی سال تک رہی اور بعض روایات میں تین سال کی مدت بیان کی گئی ہے (مظہری) اقرا باسم ربک الذی خلق، باسم ربک میں لفظ اسم بڑھانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن جب بھی پڑھیں اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحم پڑھ کر شروع کریں جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے، دوسرا اشارہ اس میں اس عذر کے جواب کا ہے جو آپ نے پیش کیا تھا کہ میں قاری نہیں، باسم ربک کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا کہ اگرچہ آپ اپنی موجودہ حالت کے اعتبار سے امی ہیں لکھے پڑھے نہیں، مگر آپ کے رب کو سب قدرت ہے وہ امی شخص کو اعلیٰ علوم اور خطابت کا سلیقہ اور فصاحت و بلاغت کا وہ درجہ دے سکتا ہے کہ جس کے سامنے بڑے بڑے لکھے پڑھے عاجز ہوجائیں جیسا کہ بعد میں اس کا ظہور (مظہری) اور اس جگہ اللہ تعالیٰ کے اسما حسنیٰ میں سے لفظ رب کو خصوصیت سے اختیار کرنے میں اس مضمون کی مزید تائید و تاکید ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کا پروردگار ہے ہر طرح کی تربیت کرتا ہے وہ امی ہونے کے باوجود آپ سے پڑھوا بھی سکتا ہے الذی خلق صفات الہیہ میں سے اس جگہ صفت تخلیق کو خصوصیت سے ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہو کہ مخلوقات پر جیسے انعامات و احسانات حق تعالیٰ کے ہیں ان میں سب سے پہلا انعام اس کو وجود عطا کرنا ہغے جو تخلیق ربانی کے ذریعہ عطا ہوتا ہے، اور اس جگہ خلق کا مفعول یعنی جس چیز کو پیدا کیا وہ ذکر نہیں کی گئی اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ ساری ہی کائنات اس کی مخلوق ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝ ١ ۚ قرأ والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 4) سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ سورت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر آپ قرآن کریم اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، اور اولاد آدم کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا آپ نے جبریل امین سے فرمایا : کیا پڑھوں تو جبریل امین نے اس سورت کی پہلی چار آیات کو پڑھیں اور فرمایا کہ آپ قرآن پاک پڑھا کیجئے آپ کا رب بڑا کریم و حلیم ہے جس نے نوشتہ قلم سے تعلیم دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 As we have explained in the Introduction, when the Angel said to the Holy Prophet, "Read", the latter replied, "I cannot read!"" This indicates that the Angel had presented these words of the Revelation before him in the written form and had asked him to read them. For if the Angel had meant that he should repeat what he recited, he should not have replied, saying "I cannot read!" 2 "Read in the name of your Lord": Bismillah and read. This shows that the Holy Prophet (upon whom be peace) even before the coming down of this Revelation regarded and acknowledged Allah alone as his Lord. That is why there was no need to ask who his Lord was, but it was said: "Read in the name of your Lord." 3 Only the word khalaqa (created) 'has been used absolutely, and the object of creation has not been mentioned, This automatically gives the meaning: "Read in the name of the Lord, Who is the Creator, Who created the whole universe and everything in it."

سورة العلق حاشیہ نمبر : 1 جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے ، فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو ، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا ۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں ، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ سورة العلق حاشیہ نمبر : 2 یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالی کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے ۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے ، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ۔ سورة العلق حاشیہ نمبر : 3 مطلقا پیدا کیا فرمایا گیا ہے ، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے ، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: اِس سورت کی پہلی پانچ آیتیں سب سے پہلی وحی ہیں، جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئیں، آپ نبوت سے پہلے کئی کئی دن اِس غار میں عبادت کیا کرتے تھے، ایک روز اِسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اورآپ کو دبایا اور کہا کہ: ’’پڑھو‘‘ آپ نے فرمایا کہ: ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ یہ مکالمہ تین مرتبہ ہوا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ پانچ آیتیں پڑھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٥۔ اکثر مفسرین کے قول کے موافق سب سے پہلے اقراء سے مالم یعلم تک یہی پانچ آیتیں نازل ہوئی ہیں پھر سورة نون والقلم۔ مسند امام احمد صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں جو حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ نزول وحی سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچے خواب دکھانے شروع کئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہائی کا شوق ہوا۔ چناچہ غار حرا میں جا کر آپ ایک مہینہ تک تنہا رہے اور اللہ کی عبادت کیا کرتے۔ اسی تنہائی میں جبرئیل (علیہ السلام) یہ پانچ آیتیں لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا پڑھو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا میں تو کچھ پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر حضرت جبرئیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین دفعہ دبوچا اور یہ پانچوں آیتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھا دیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ جتلا دیا ہے کہ جو ذات پاک ایسی حقیر چیز خون کی پھٹکی سے انسان کے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ انسان کی ہر طرح کی تعلیم پر بھی قدرت رکھتا ہے ان پڑھوں کو پڑھنا دینا بےلکھنے والوں کو لکھنا سکھا دینا اس کے کرم سے کچھ بعید نہیں ہے یہ اللہ کا بڑا کرم ہے اس نے اپنے بندوں کی جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم کے نور سے روشن دل کیا اور پھر کتابت کی وہ قابل قدر حکمت سکھائی جس سے دنیا میں علم کے باقی رہنے کا طریقہ انسان کے ہاتھ آیا۔ اگر یہ کتابت نہ ہوتی تو نہ علم دین قائم رہ سکتا نہ علم دنیا۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الخ ص ٢ ج ١ و تفسیر سورة اقرا ص ٧٣٩ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:1) اقرأ باسم ربک الذی خلق : اقرا۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر قراء ۃ (باب فتح و نصر) مصدر سے تو پڑھ۔ اقرا کا مفعول ہے۔ ای اقرأ ما یوحی الیک۔ یعنی پڑھ جو تجھے وحی کیا جاتا ہے۔ باسم ربک متعلق بمحذوف، ب استعانت کے لئے ہے۔ حرف جار۔ اسم مجرور۔ مضاف، ربک مضاف مضاف الیہ۔ مل کر مضاف الیہ۔ اپنے رب کے نام کے ساتھ۔ الذی خلق : موصول و صفت مل کر جملہ صفت ہوا ربک کی۔ ترجمہ ہوگا :۔ پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے (سب کچھ) پیدا کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة العلق۔ آیات ١ تا ١٩۔ اسرار ومعارف۔ یہ پہلی پانچ آیات سب سے پہلی وحی ہیں جو غارحرا میں جبرائیل امین لائے تفصیل کتب میں دیکھی جاسکتی ہے مختصرا یہ کہ آپ غار حرا میں خلوت گیر ہوکرذات باری میں تفکر فرماتے اور ظہور کمال کی طلب بڑھتی کہ جبرائیل امین تشریف لائے پڑھنے کا حکم دیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں پڑھ نہیں سکتا تو انہوں نے تین بار بازوں میں لے کردبایا اور ہر بار پڑھنے کے لیے کہا اور یہ آیات نازل ہوئیں آپ پرہیبت وحی طاری ہوگئی کلام ذاتی تھا جس کے ساتھ ذاتی تجلیات بھی تھیں۔ حضرت خدیجہ پڑھی لکھی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھرتشریف لائے حضرت خدیجہ سے فرمایا مجھے کمبل اوڑھا دیجئے انہوں نے صورت حال سنی تو عرض کیا آپ جیسے عالی صفات لوگوں کو نقصان نہیں ہوتا۔ ورقہ بن نوفل کے پاس جانا۔ اپنے عزیز ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو کتب سابقہ کا عالم تھا وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شک کی وجہ سے تشریف نہ لے گئے بلکہ ہیبت وحی تھی اس نے بھی تصدیق کی اور کہا کہ کاش مجھے اتنی زندگی ملے کہ آپ کے کام آسکوں مگر چند روز بعد فوت ہوگیا۔ پڑھیے اپنے پروردگار کے نام سے جو ہر شے کا خالق ہے سب کا پیدا کرنے والا ہے اور جس نے خون کے لوتھڑے سے خوبصورت انسان پیدا کیا اور آپ پڑھیں کہ آپ کا رب بہت ہی بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا انسان کو یہ استعداد دی کہ پہلوں کے تجربات تحریر ہوکر بعد والوں تک پہنچے اور ان ٹیڑھی میڑھی لیکروں کو ایسا فن بنادیا کہ تعلیم و تعلم کا سب سے مضبوط ذریعہ بن گیا اور دوسرے ذرائع علم بھی بےحساب رکھے کچھ فطری اور تخلیقی طور پر نصیب ہوجاتے ہیں جیسے بچہ دودھ پینے لگتا ہے کہ کوئی اسے چوسنا نہیں سکھاتا پھر کچھ ایسی ہیں جن میں اکثر کا تعلق قلم سے ہے اور تحریر سے منتقل ہوتی ہیں ان سب ذرائع سے انسان کو وہ علوم وعطا فرمائے جن کی اس کو خبر نہ تھی یعنی ایک عام انسان کو جس رب کریم نے علوم کی ایسی بلندیاں عطا کردیں وہ اپنے محبوب پیغمبر کو کس قدر عظمت الٰہی تک پہنچائے گا اس کا اندازہ تک ممکن نہیں اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کا باغی ہے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے بھلا کسی کی کیا احتیاج اس کے پاس مال دولت یا اقتدار واختیار ہے مگر یہ سب کچھ تو ختم ہونے والا ہے اور ہر ایک کو لوٹ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے یعنی موت جیسی حقیقت کو بھول رہا ہے اور پھر صرف موت ہی نہیں زندہ ہو کر میدان حشر میں پیش ہونا ہے مگر اس کی سرکشی کو دیکھیں کہ لوگوں کو اللہ کی اطاعت سے روکتا ہے۔ اسلامی نظام سے روکنے والے۔ اگرچہ ابوجہل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکا تو یہ آیات نازل ہوئیں مگر مفہوم عام ہے اتباع شریعت اور اسلامی نظام عبادت ہے اور اس سے روکنے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کہ اگر یہ ہدایت پہ ہوتا تو اطاعت الٰہی کو پورے دل سے کرنے کا مشورہ دینا اس کے لیے ماحول اور اسباب فراہم کرتا ، اہتمام کرتا نہ یہ کہ رکاوٹ ڈالتا مگر اسے دیکھیں انکار بھ کرتا ہے اور روگردانی بھی بھلا اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اگر باز نہ آیا اور اسی روش پر قائم رہا تو ایک روز چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹاجائے گا جھوٹی اور بدکار چوٹی سے یعنی دنیا میں بھی ذلیل ہوگا اور آخرت میں بھی چوٹی سے گھسیٹ کر سخت عذابوں میں پھینکا جائیگا کہ ابوجہل قتل ہو کر اس کا سرگھسیٹتا ہوا لایا گیا اور آخری عزاب کا اندازہ ممکن نہیں ۔ تو ایسے لوگوں کو کہاجائے گا اب اپنے مددگاروں کو یا اپنے مجلس والوں کو بلاؤ، اگر تمہارے کام آسکیں کہ اللہ بھی دوزخ کے فرشتوں کو ان پر مسلط فرمادے گا آپ ایسے لوگوں کی بات ہرگز مت سنیے اور اسے رتی برابر اہمیت نہ دیجئے بلکہ اپنے رب کو سجدہ کیجئے سجدہ کمال عبادت کا نام ہے اور کمال اطاعت ہی ترقی درجات کا سبب بنتا ہے۔ قرب فرائض اور قرب نوافل۔ یوں توہرعمل شرعی سجدے کی حیثیت رکھتا ہے مگر اولیت ان امور کو حاصل ہے جو فرض ہیں خواہ عبات ہوں یامعاملات ان پرخلوص سے عمل کرنا ترقی کا سبب ہے اور پھر نوافل کہ جو امور فرض نہیں ہیں اللہ کی رضا اور قرب کی خاطر شریعت کے مطابق انجام دیے جائیں لہذا کوئی شخص فرض چھوڑ بیٹھے تو اس کی نفل عبادات کا کوئی بھروسہ نہیں جیسے کئی کہتے ہیں کہ نماز تو نہیں پڑھتے مگر ساری رات ذکر کرتے ہیں یہ سب گمراہی ہے۔ مسئلہ : اس آیت پر سجدہ واجب ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ اقرا۔ پڑھ۔ علق۔ جما ہو اخون۔ الاکرم۔ زیادہ محترم۔ یطغی۔ وہ سرکشی کرتا ہے۔ ینھی۔ وہ روکتا ہے۔ لم ینتہ۔ باز نہ آیا۔ نسفع۔ ہم گھسیٹیں گے۔ الناصیۃ ۔ پیشانی۔ نادیہ۔ اپنی جماعت کو۔ سندع۔ ہم بلائیں گے۔ الزبانیۃ۔ پیادے۔ اقترب۔ تو قریب ہوجا۔ تشریح : شب قدر میں قرآن کریم کی سب سے پہلی وہ آیات جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئیں سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔ اس کے بعد سورة مدثر کی ابتدائی آیتیں اور کافی عرصہ بعد سورة علق کی بقیہ چوہ آیات نازل ہوئی۔ امام بخاری (رح) نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ذریعہ سب سے پہلی وحی کی کیفیات کی تفصیلات کا علم پوری امت کو حاصل ہوا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس روایت کا خلاصہ یہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وحی سے پہلے آپو کو رویائے صادقہ یعنی سچے خوابوں کی کیفیت عطا کی گئی۔ آپ رات کو جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کو دن کی روشنی کی طرح اسی طرح واقع ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد آپ تنہائی پسند ہوگئے۔ آپ کئی کئی دن کا کھانا اور پانی لے کر مکہ کے ان پہاڑوں کی طرف نکل جاتے جن پہاڑوں نے مکہ کو گھیرا ہو ا ہے۔ ایک دن جب آپ جبل نور کے غار حرا میں گذشتہ انبیاء کے طریقے پر عبادت کر رہے تھے کہ اچانک ایک فرشتہ (جبرئیل ) نے آکر کہا ’ اقرا “ پر ھئیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتہائی سادگی سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے آگے بڑھ کر مجھے اس قدر زور سے بھینچا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا اور اس کا بھینچنا میرے لئے ناقابل برداشت ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے پھر کہا ’ اقرا “ پڑھئیے۔ آپ کا پھر وہی جواب تھا۔ اس فرشتے نے پھر مجھے بھینچا اور چھوڑ کر کہا ’ اقرا “ ۔ میں نے تیسری مرتبہ بھی وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر اس فرشتے نے کہا ”……“ اور پھر مالم یعلم تک پانچ آیات پڑھائیں۔ ان آیات کو پڑھنے کے بعد آپ وحی کی شدت سے کانپنے لگے۔ غار حراء سے گھر تشریف لائے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) سے فرمایا کہ مجھے اڑھا دو ، مجھے اڑھا دو ۔ حضرت خدیجہ (رض) نے گرم کپڑے اڑھا دئیے۔ جب آپ نے کچھ دیر آرام فرمایا تو آپ نے اپنی محبوب رفیقہ حیات ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبر (رض) سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ یہ۔ شاید اس وقت حضرت خدیجہ (رض) گھبرا گئی ہوں گی لیکن اس موقع پر حضرت خدیجہ کے الفاظ آپ کے اخلاق کریمانہ اور سیرت پاک کی بہترین تشریح ہیں۔ حضرت خدیجہ نے کہا اللہ آپ کو رسوا نہیں کرسکتا کیونکہ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی یعنی بہترین معاملہ کرتے ہیں۔ سچ بولتے اور امانتیں ادا کرتے ہیں۔ جو بےسہارا ہیں مجبور ہیں آپ ان کا سہارا بن کر ان کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ بھلے کاموں میں لوگوں کی مدد کریت ہیں۔ پھر اس کے بع دانجیل کے ایک برے عالم ورقہ ابن نوفل کے پاس آپ کو لے کر گئیں اس وقت ورنہ ابن نوفل بہت بوڑھے، کمزور اور آنکھوں سے محروم ہوچکے تھے۔ ام المومنین نے فرمایا کہ واقعہ سننے کے بعد ( کہ ایک فرشتہ آیا تھا اور اس نے مجھے چند جملے سکھائے تھے) ورقہ ابن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی ناموس (فرشتہ ) تھا جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ پر نازل ہوا تھا۔ ورقہ ابن نوفل سمجھ گئے کہ انجیل میں جس آخری نبی کے متعلق بیان کیا گیا ہے وہ آپ ہی ہیں۔ ورقہ نے کہا اے کاش میں آپ کے اعلان نبوت کے وقت قوی اور مضبوط جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو (اس شہر مکہ سے) نکال دے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (بڑی حیرت سے کہا) کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز ( حق و صداقت کی بات) لے کر آیا ہو اور اس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ ورقہ نے کہا اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی پوری مدد کروں گا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہ گزارا تھا کہ ورقہ ابن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ امام بخاری نے اپنی ” صحیح بخاری “ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے جو روایت نقل کی ہے اس کا خلاصی عرض کردیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ان پانچ آیتوں کی تشریح عرض کی جائے جو سب سے پہلی وحی تھی یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ورقہ ابن نوفل جو توریت، زبور، انجیل کو لکھتے تھے اور ان کے بڑے ماہر عالم تھے انہوں سابقہ کتابوں سے آپ کی زندگی کے متعلق پیشین گوئیوں کا علم تھا اس لئے انہوں نے اس بات کا ذکر کردیا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ کو بےاندازہ چاہنے والی قوم حق وصدات کی آواز بلند کرنے کی وجہ سے شہر مکہ سے نکال دے گی۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ کتاب مقدس ( توریت، زبور، انجیل) میں سے وہ ساری پیشین گوئیاں کہاں غائب ہوگئیں ؟ تو اس کا بہت سادہ جواب ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنی کتابوں میں اس قدر تبدیلیاں کی ہیں کہ آج ان کی اصلی شکل تک بگر کر رہ گئی ہے اور ان کتابوں میں سے ساری سچائیوں کو نکال پھینکا گیا ہے۔ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات کی تشریح اور تفصیل اقرا ……… اپنے اس رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔ اس آیت میں سب سے پہلے تو ’ اقرا “ فرمای اجس کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ نے جو اپنا کلام نازل فرمایا ہے اس کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس آیت میں صرف پیدا کرنے کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان اور پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ خلق الانسان من علق۔ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ یعنی پوری کائنت کی تخلیق بھی اسی نے کی ہے اور انسان کو بھی ایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ علق کے معنی جمے ہوئے خون کے آتے ہیں۔ جو آدمی کے اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے درمیان کیفیت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اس نے انسان کو مٹی اور نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ نطفہ علقہ بن جاتا ہے یعنی جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر وہ مضگہ بنتا ہے یعنی وہی جما ہوا خون گوشت اور ہڈیوں مین تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اور پھر وہ انسانی شکل اختیار کرکے اس دنیا میں لایا جاتا ہے۔ اقرا وربک الاکرم۔ اس رب کے نام سے پڑھئے جو مہربان، فیاض اور درگزر کرنے والا کریم ہے۔ اس جگہ پھر ایک مرتبہ ” اقرا “ فرمایا جس کا مقصد تاکید کرنا ہے کہ اسی کے نام سے پڑھو۔ اکرم کی صفت سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور کرم کرنے والا ہے۔ اس نے کائنات اور انسان کو اپنی کسی غرض یا مقصد کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں سراسر انسان ہی کے فائدے ہیں یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندے پر اس قدر مہربانی فرمائی ہے۔ اب بندے کا کام ہے یہ ہے کہ اپنے خالق ومالک اللہ کا احسان مان کر صرف اسی کی عبادت و بندگی کرے کیونکہ سب کو لوٹ کر آخر کار اسی کی طرف جانا ہے۔ جہاں وہ انسان کے ہر اچھے عمل کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ الذی علم بالقلم۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ یعنی اس نے قلم کے ذریعہ آدمی کو وہ علوم سکھائے جن کو وہ پہلے سے نہ جانتا تھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قل کو پیدا کیا۔ اللہ نے قلم کو حکم دیا کہ وہ لکھے۔ چناچہ اس نے ان تمام چیزوں کو جو قیامت تک ہونے والی تھین وہ لکھ دیں۔ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے پاس عرش پر موجود ہے۔ (قرطبی) ۔ اس میں اللہ نے اس قلم کی قسم بھی کھائی ہے جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جن سے وہ تمام ہونے والے واقعات اور لوگوں کے حالات کو لکھتے ہیں ۔ اور اس قلم کی بھی قسم کھائی ہے جس کے ذریعہ ایک آد می اپنے دلی جذبات کو نوک قل پر لاتا ہے۔ امام تفسیر حضرت مجاہد نے حضرت ابو عمرو سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات میں چار چیزوں کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے۔ ان کے علاوہ ساری مخلوق کے لئے حکم دیا ” کن “ ہوجا اور وہ موجود ہوگئیں۔ چار چیزیں جنہیں اللہ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے وہ یہ ہیں۔ 1۔ قلم۔ 2۔ عرش۔ 2۔ جنت عدن۔ 4۔ اور حضرت آدم علیہ السلام۔ (قرطبی) حضرت قتادہ نے فرمایا ہے کہ قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر قلم نہ ہوتا تو نہ کوئی دین قائم رہتا اور نہ دنیا کے کاروبار درست ہوتے۔ یہ قلم ہی کی برکت ہے کہ جس کے ذریعہ تمام آسمانی اور انسانی علوم محفوظ ہیں۔ جن حضرات نے قرٓان کریم کی تفاسیر، حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہزاروں لاکھوں کتابیں لکھی ہیں، انسانی تاریخ کو محفوظ کیا ہے یہ سب قلم ہی کی وجہ سے ہے۔ اگر قلم نہ ہوتا تو یہ علمی ذخیرہ ایک نسل سے دوسری نسل تک کیسے پہنچتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جہالت کے اندھیروں کو دین اسلام کی روشنی نے ہی دور کیا ہے۔ اگر قرآن و سنت کی روشنی میں ہمارے اکابر اور بزرگ محنت نہ کرتے تو ا اج بھی دنیا میں جہالت کے اندھیرے ہی ہوتے ۔ آج جہاں بھی علم کی روشنی ہے وہ سب کا سب فیض نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ کی امت کے مخلص علماء سے وابستہ ہے جس کا ذریعہ قلم ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور قلم کے ذریعہ ساری دنیا کے اندھیرے دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ علم الانسان ما لم یعلم۔ اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا اللہ نے تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ سے اس طرح پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو اسے کچھ بھی علم نہ تھا۔ اسے جو کچھ حاصل ہوا وہ اللہ کے دینے سے ہی حاصل ہوا ہے۔ انسان کو تعلیم دینے والا صرف اللہ ہے اور اسی نے دنیا میں علوم کے لاتعداد ذرائع پیدا کئے ہیں جن سے انسان ہر آن کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے کائنات کو اور انسان کو پیدا کیا۔ پوری کائنات میں اسی کا کرم ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا کرم یہ ہے کہ انسان کو قلم کے ذریعہ ایسے علوم سکھائے ہیں جن سے وہ قطعاً ناواقف تھا۔ کلا ان الانسان سے اقترب تک آیات کا عام مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں آدمی کی سرکشی اور نافرمانی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بےنیاز سمجھتا ہے یعنی اگر اس کو دنیا کی ذرا سی دولت یا سرداری مل جاتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اب ہر شخس میرا محتاج ہے اور میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ وہ ہر شخس کو اپنے قدموں پر جھکائے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ آدمئی دنیا میں کتنا جئے گا کب تک زندہ رہے گا آخر کار اس کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے متکبر آدمی کو کسی کی عبادت اور نیکی برداشت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کر وکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر نیک اور بھلی بات کو جھٹلاتا ہر سچائی سے منہ پھیر پھیر کر چلتا ہے اور اگر چند لوگ اس کے ساتھ ہیں تو اس گروہ پر ناز کرتے ہوئے یہ کہت ا ہے کہ و میں جب چاہوں گا اپنے لوگوں کے ذریعہ جو چاہے کر گزروں گا فرمایا کہ آدمی کا اس طرح سوچنا انتہائی غلط ہے کیونہ اگر وہ اپنے گروہ کو بلانے کی بات کرتا ہے تو اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اگر عذاب کے فرشتوں کو آواز دے دی اور اس کے فرشتے اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹے ہوئے جہنم میں لے جا کر ڈال دیں گے تو کوئی شخص یا گروہ اس کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کی بات کو نہ تو کوئی اہمیت دی جائے اور نہ مانا جائے بلکہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے جھکا جائے اسی کو سجدے کئے جائیں تو اسی میں انسان کی عظمت ہے۔ یہ تو ان ا ایات کا عام مفہوم سمجھ میں آتا ہے لیکن مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیات خاص طور پر ابو جہل جیسے متکبر آدمی کو اس کی غلطیوں پر آگاہ کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں۔ ابوجہل مکہ مکرمہ میں ایک خوش حال، تیز طرار اور مکار آدمی تھا۔ اس کی چرب زبانی اور دنیاوی اثرو رسوخ کی وجہ سے کچھ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوگئے تھے جو اس کی بات سنتے تھے۔ مال و دولت، چرب زبانی کچھ لوگوں کا گروہ بن جانے سے وہ اس گھمنڈ اور دھوکے میں مبتلا ہوگیا تھا کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ ہر شخص اس کا محتاج ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خاص طریقے پر نماز پڑھتے دیکھا تو وہ پہلے پریشان سا ہوجاتا تھا۔ پھر اس نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم نے آئندہ بیت اللہ میں نماز پر ھی اور میں نے تمہیں پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو تمہاری گردن کو اپنے پاؤں سے کچل ڈالوں گا۔ اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میرا گروہ بہت بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کی اس گستاخی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے نماز پڑھنے والے کو بھی اور نماز سے روکنے والے کو بھی۔ فرمایا کہ اگر اس شخص یعنی ابوجہل نے اپنی حرکتوں کو نہ چھوڑا تو ہم اس کو اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹ کرلے جائیں گے۔ اور اگر وہ اپنے گروہ کی دھمکی دیتا ہے تو وہ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے سب حمایتوں کو بلالے۔ ہم بھی ان فرشتوں کو بلا لیتے ہیں جن کو اللہ نے عذاب دینے کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ کیا وہ شخص اللہ اور اس کے فرشتوں کا مقابلہ کرسکے گا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ اس شخص کی باتوں پر دھیان نہ دیجئے۔ کوئی فکر نہ کیجئے۔ آپ نمازیں پڑھیے اور سجدوں کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیجئے۔ آپ کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ابوجہل جنگ بدر میں مارا گیا اور نبی کریمو کے انورات پھیلتے ہی چلے گئے اور ساری دنیا آپ کے فیض سے روشنی ہوگئی اور روشن ومنور رہے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اقراء سے مالم یعلم تک سب سے اول کی وحی ہے جس کے نزول سے نبوت کی ابتداء ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے اور اسی نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھلایا ہے۔ سورة التّین کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے، اس نے اپنا حکم قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ نبوت سے پہلے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے قریب غار حرا میں تشریف فرما تھے کہ اچانک جبریل امین آئے اور اس نے آپ کے سامنے اس سورت کی ابتدائی پانچ تلاوت کیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کی تفصیل سے یوں بیان فرمائی ہے۔ (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْوَحْیِ ۔۔ فَرَجَعَ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَرْجُفُ فُوَادُہٗ فَدَخَلَ عَلٰی خَدِیْجَۃَ فَقَالَ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْہُ حَتّٰی ذَھَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِیْجَۃَ وَاخْبَرَھَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَاءِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِہٖ خَدِیْجَۃُ اِلٰی وَرَقَۃَ بْنِِ نَوْفَلِ ابْنِ عَمِّ خَدِیْجَۃَ فَقَالَتْ لَہٗ یَاابْنَ عَمِّ اِسْمَعْ مِنِ ابْنِ اَخِیْکَ فَقَالَ لَہٗ وَرَقَۃُ یَاابْنَ اَخِیْ مَاذَا تَرٰی فَاَخْبَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَبَرَ مَا رَاٰی فَقَالَ لَہٗ وَرْقَۃُ ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوْسٰی یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًا لَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ یَاْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِءْتَ بِہٖ اِلَّا عُوْدِیَ وَاِنْ یُّدْرِکْنِیْ یَوْمُکَ اَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَۃُ اَنْ تُوُفِّیَ وَفَتَرَ الْوَحْیُ ) (رواہ البخاری : باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عائشہ (رض) وحی کے بارے اس طرح بیان کرتی ہیں کہ۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وحی کے ساتھ واپس لوٹے تو آپ کا دل گھبرا رہا تھا۔ آپ خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے فرمایا مجھے ! کمبل اوڑھا دو ۔ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک آپ سے خوف کی کیفیت دور ہوگئی۔ آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا بیان کیا اور فرمایا : مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، انہوں نے آپ کو تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں ‘ مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں اور مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد خدیجہ (رض) آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے ورقہ سے کہا، اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے آپ سے پوچھا اے میرے بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہیں ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پورا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ نے کہا، یہ تو وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش ! میں تمہارے عہد نبوت میں جوان ہوتا اور کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا، ہاں ! کیوں نہیں جب بھی کسی کو رسالت سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ جب لوگ تمہیں نکالیں گے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا، تو تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور آپ پر وحی کا سلسلہ چند روز کے لیے منقطع رہا۔ “ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی وحی میں اس سورت کی پہلی پانچ آیات نازل کی گئیں جن کی ابتدا ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پورے عالم کو پیدا کیا ہے، اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو ! آپ کا رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ اس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا، ایسا علم جو انسان اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ اس وحی میں یہ حکم ہوا ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو ! جس کا صاف معنٰی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے اپنے رب کو پہچانتے تھے، جس رب کے نام سے آپ کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی نے انسان کو ایسے خون سے پیدا کیا جو جم کر ابتدا میں رحم کی جھلی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور پھر اس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل چند سطور کے بعد آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا تھا۔ الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے بعد ابنیائے کرام (علیہ السلام) اور پھر تمام انسان ہیں۔ دنیا میں جس قدر علم عام ہوا ہے اس کی ابتدا اور بنیاد انبیائے کرام (علیہ السلام) کا علم ہے۔ اس کے بعد وہ علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے ذہنوں میں القاء کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی موجد اپنی ایجاد لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قلم کی فضیلت اور اس کی تفصیل پارہ ٢٩ سورة القلم کی ابتدائی آیات میں بیان ہوچکی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ ) (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ ۔۔ ) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے، اسی طرح یہ سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ) (المومنون : ١٢ تا ١٥) ” اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد یقیناً تم نے مرنا ہے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کی ابتدا رب کے نام کے ساتھ کی گئی جو پورے عالم کو پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ رب العزت نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ ہمار رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ ٤۔ ہمارے رب نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا جو انسان پہلے نہیں جانتا تھا۔ قلم کی عظمت جاننے کے لیے سورة ” ن “ کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اقرا باسم .................................... علم بالقلم (1:96 تا 4) ” پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔ اس وحی کو لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آئے اور حال یہ تھا کہ آپ کانپ رہے تھے۔ آپ حضرت خدیجہ (رض) کے پاس پہنچے اور ان سے کہا ” مجھے چادراوڑھاﺅ“ مجھے چادر اوڑھاﺅ“۔ تو انہوں نے آپ کو چادر اوڑھادی۔ یہاں تک کہ آپ کا خوف دور ہوا۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) سے کہا مجھے کیا ہوگیا ہے اور پھر آپ نے ان کو پوری کہانی سنائی اور کہا میں تو ڈر گیا تھا کہ میری جان ہی نہ چلی جائے۔ تو اس پر حضرت خدیجہ (رض) نے کہا : ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کو خوشخبری دیتی ہوں ، خدا کی قسم اللہ کبھی بھی آپ کو بےسہارا نہ چھوڑے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، کمزوروں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ (رض) آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبدالعزی ابن قصی کے پاس لے گئیں۔ ورقہ زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی اور عربی میں انجیل لکھتے تھے۔ جس قدر اللہ کی مشیت ہوتی۔ اس وقت وہ بہت بوڑھے اور نابینا تھے۔ حضرت خدیجہ (رض) نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کا حال سنئے۔ ورقہ نے کہا بھتیجے تمہیں کیا نظرآیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کچھ نظر آیا تھا آپ نے بیان فرمادیا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا ، کاش میں جوان ہوتا اور کاش میں اس وقت زندہ ہوتا کہ جب تمہاری قوم تمہیں وطن سے نکال دے گی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا سچ مچ وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے۔ ورقہ نے کہا جو تعلیم تم لے کر آئے ہو ، اس طرح کی تعلیم جو بھی لے کر آیا ہے لوگ اس کے دشمن ہوگئے۔ اگر میں نے تمہارا یہ دور پایا تو میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ زیادہ مدت نہ گزری کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا “۔ (بخاری اور مسلم میں یہ حدیث امام زہری سے مروی ہے) طبری نے حضرت عبداللہ ابن زبیر سے یہ روایت کی ہے ”.... حضرت جبرائیل میرے پاس دیبا کا ایک ٹکڑا لے کر آئے ۔ جب میں سو رہا تھا۔ اس میں ایک کتاب تھی ، انہوں نے مجھ سے کہا پڑھو۔ میں نے کہا میں نہیں پڑھتا تو انہوں مجھے بھینچا ، اس قدر کہ میں سمجھا میری جان نکل گئی ۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو ، تو میں نے کہا میں کیا پڑھوں ؟ یہ بات میں نے اس ڈر سے کہی کہ فرشتہ میرے ساتھ دوبارہ وہ کام نہ کرے جو اس نے کیا۔ تو اس نے کہا : اقرا باسم ............................ مالم یعلم (1:96 تا 5) فرماتے ہیں اب میں نے اسے پڑھ لیا۔ میں نے آخر تک پڑھ لیا۔ میں نے آخر تک پڑھ لیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس سے چلا گیا اور میں نیند سے بیدار ہوگیا۔ حالت یہ تھی کہ میرے دل میں ایک کتاب لکھ دی گئی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ مخلوق خدا میں سے شاعر اور مجنوں مجھے سب سے برے لگتے تھے۔ میں ان دونوں قسم کے لوگوں کی طرف دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ فرماتے ہیں میں نے سوچا کہ شاعر اور مجنوں سے تو موت ہی بہتر ہے۔ تاکہ قریش میرے بارے میں شاعر اور مجنوں کا لفظ نہ استعمال کرسکیں۔ بہتر ہے کہ میں اونچے پہاڑ پر چلاﺅں ، اپنے آپ کو اس پر سے گراﺅں اور اپنے آپ کو قتل کرکے اس صورت حالات سے نجات پاﺅں۔ چناچہ میں اس ارادے سے نکلا یہاں تک کہ میں پہاڑ کے وسط میں تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی جو یوں تھی ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اللہ کے رسول ہو اور میں جبرائیل ہوں “۔ میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ جبرائیل ایک انسان کی صورت میں آسمان کے افق پر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم تو رسول اللہ ہو اور میں جبرائیل ہوں “۔ فرماتے ہیں میں کھڑا ہوگیا اور انہیں دیکھتا رہا۔ اور اس منظر نے مجھے اس کام سے روک لیا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھ رہا تھا اور نہ پیچھے۔ میں نے کوشش کی کہ آسمان کے اطراف میں اس سے منہ پھیر لوں لیکن میں جدھر بھی دیکھتا انہیں وہاں کھڑا پاتا۔ چناچہ میں یونہی کھڑارہا ، نہ ایک قدم آگے بڑھرہا تھا اور نہ ایک قدم پیچھے مڑ رہا تھا۔ یہاں تک کہ خدیجہ (رض) نے اپنے آدمی میری تلاش میں بھیجے۔ یہ لوگ مجھے دیکھ کر مکہ پہنچ گئے اور خدیجہ (رض) کی طرف لوٹ گئے۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے اور میں بھی اپنے اہل و عیال کی طرف مکہ آگیا “۔ ابن اسحاق نے اس روایت کو طویل عبارت میں وھب ابن کیسان سے بھی روایت کیا ہے۔ اس واقعہ پر میں نے بہت غور کیا ، اس پہلے واقعہ کو سیرت کی کتابوں میں تو ہم نے بارہا پڑھا تھا ، کتب تفاسیر میں بھی دیکھا تھا ، لیکن ہم پڑھ کر آگے بڑھ گئے تھے یا قدرے غور کرکے آگے بڑھ گئے تھے۔ لیکن اب غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ تو ایک عظیم واقعہ تھا ، اور نہایت ہی عظیم واقعہ تھا۔ ہم اس واقعہ کی عظمت کا جو تصور بھی کریں لیکن اس کے کچھ پہلو پھر بھی ہمارے تصور سے خارج رہیں گے۔ بہرحال یہ واقعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی عظیم ہے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی عظیم ہے۔ انسانوں کی زندگی پر اس کے جو آثار مرتب ہوئے اس کے اعتبار سے بھی عظیم ہے اور وہ لمحات جن میں یہ واقعہ پیش آیا وہ اس زمین کے عظیم اور قیمتی لمحات تھے۔ آغاز نظام کائنات سے لے کر اس کے انجام تک۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کیا تھا اور ان لمحات میں وہ کیا کچھ ہوگیا ؟ اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جو بہت ہی عظیم ، جبار وقہار اور متکبر ہے ، اور مالک الملک ہے ، اس اللہ نے اپنی بلندیوں سے اس حقیقت پر نظر کرم فرمائی جسے عرف عام میں ” السان “ کہتے ہیں ، جو اللہ کی اس عظیم کائنات کے ایک گمنام گوشے میں پڑا ہوا تھا ، جسے عرف عام میں ” زمین “ کہتے ہیں۔ اللہ نے اپنی اس مخلوق انسان کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ الٰہی تجلیات کا مہبط بنے ، اللہ کی حکمت کا امین بنے ، اللہ کے کلام کا منزل بنے اور یوں اللہ کی تقدیر اور تدابیر اس مخلوق کو جس مقام و مرتبہ تک لے جانا چاہتی تھی اس کی مثال بنے۔ یہ ایک عظیم بات ہے ، اس قدر عظیم جس کی عظمتیں لا انتہا ہیں اور اس کی عظمتیں مزید واضح ہوتی ہیں۔ جب انسان اپنی قوتوں کی تنگ دامنی پر نظر ڈالے کہ ایک طرف حقیقت الوہیت ہے جو بےقید ہے ، ازلی اور ابدی ہے جبکہ انسان کی جانب ایک حقیقت ہے جو بندگی کی حقیقت ہے ، محدود ہے ، بدلنے والی اور فنا ہونے والی حقیقت ہے۔ تب انسان کو صحیح شعور ہوتا ہے کہ اس مخلوق پر اللہ کی کس قدر عظیم عنایت تھی۔ تب پھر انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کس قدر عظیم اور خوشگوار حقیقت ہے اور پھر انسان نہایت عاجزی ، خشوع و خضوع اور شکر اور خوشدلی کے ساتھ اسے لیتا ہے۔ پھر وہ اس کائنات کی لاانتہا اطراف میں اللہ کے کلمات کو گونجتا ہوا پاتا ہے کہ یہ کلمات اس ناچیز انسان پر ، اس ناچیز مکان میں نازل ہوتے ہیں ، یہ انسان ایک چیز ذرہ ہے اور یہ زمین ایک حقیر ذرہ ہے۔ پھر اس عظیم واقعہ کے معانی کس قدر دورس ہیں ؟ اللہ کی جانب سے دیکھاجائے تو یہ اس کی جانب سے ایک وسیع فضل وکرم ہے۔ وہ فضل وکرم کرنے والا ہے ، اس کی رحمت میں یہ انسان سرشار ہے ، وہ بہت بڑا کریم ہے ، محبت کرنے والا ہے ، احسان کرنے والا ہے ، وہ جس پر فضل وکرم کرتا ہے تو بغیر سبب وعلت کے کرتا ہے۔ یہ فضل وکرم تو اس کی ذاتی صفات کا پہلو ہے۔ اور اگر انسان کے زاویہ سے دیکھا جائے تو اللہ نے انسان پر اس قدر فضل وکرم کیا ہے جس کا وہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا اور اب وہ اس کا شکرادا نہیں کرسکتا۔ صرف اس ایک کرم کا اگر تمام انسان شکر ادا کرنے لگ جائیں تو اگر وہ رات دن رکوع و سجود میں رہیں پھر بھی اس ایک کرم کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کرم کہ اللہ بندے کو یاد کرے ، اس کی طرف نظر کرم کرے ، اس کے ساتھ رابطہ قائم کرے ، اور انسانوں ہی میں سے ایک ذات گرامی کو رسول بنا کر بھیج دے۔ زمین اللہ کے کلمات کا مہیط بن جائے۔ اس رسول کا مقام رہائش بن جائے اور اس زمین کے اطراف واکناف میں ان کلمات کی گونج بلند ہورہی ہو۔ پوری انسانیت کی زندگی میں اس واقعہ کے نتیجے میں کیا تغیر رونما ہوا ، تو بات یہ ہے کہ پہلے لمحے ہی سے انسانیت پر اس کے اثرات شروع ہوئے ، تاریخ کا دھارا بدل گیا ، انسانی ضمیر کے خطوط بدل گئے ، وہ قبلہ متعین ہوگیا جس کی طر انسان نے رخ کرنا تھا اور جس سے انسانوں نے اقدار کے تصورات اور پیمانے اخذ کرنے تھے۔ یہ پیمانے زمینی اور مادی نہ تھے بلکہ یہ آسمانی اور وحی الٰہی کے پیمانے تھے۔ اس وقت سے آج تک وہ لوگ جن کی روح میں یہ بات بیٹھ گئی تھی وہ اللہ کے رحم وکرم میں داخل ہوگئے ، ان پر براہ راست اللہ کا رحم ہونے لگا۔ ان لوگوں کا رویہ ہوگیا کہ وہ ہر معاملے میں براہ راست اللہ کی طرف نظریں اٹھائے رکھتے تھے ، خواہ کوئی چھوٹا سا معاملہ ہو یا بڑا۔ یہ لوگ اللہ کی نظروں کے نیچے حرکت کرتے تھے ، وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ اللہ ان کی دستگیری کرے گا ، اور ان کو اپنی منزل تک قدم بقدم چلائے گا۔ ان کو غلط راہ سے روکے گا اور سیدھی راہ کی طرف موڑے دے گا۔ اور وہ ہر وقت اس بات کی توقع رکھتے تھے کہ ابھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے اور ان کے دلی رازوں کو کھول دیتی ہے۔ ابھی اللہ کا حکم آتا ہے اور ان کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں کہ یہ بات کرو اور اس سے رک جاﺅ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عجیب زمانہ تھا ، یہ 23 سالہ زمانہ تھا ، ان زمانوں میں انسانوں اور بندوں کے درمیان براہ راست تعلق قائم رہا۔ یہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ اس کی حقیقت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے ، جو اس میں رہتے تھے۔ جنہوں نے اس زمانے کو محسوس کیا ، جنہوں نے اس کا آغاز اور انجام دیکھا ، جنہوں نے اس براہ راست رابطے کی شیرینی کو دیکھا ، اور انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ دست قدرت قدم قدم پر ان کی دستگیری کررہی ہے ، اور انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے ، یہ ایک ایسی مسافت تھی ، ایسا انقلابی سفر تھا جس کی طوالت کو اس دنیا کے کسی معیار سے نہیں ناپا جاسکتا تھا یہ انسانی ضمیر کا سفر تھا ، جسے کائنات کے فاصلوں کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ دواجرام فلکی کے درمیان کا سفر بھی نہ تھا بلکہ یہ ایک مکمل تبدیلی انقلاب تھا ، اب مادی اور زمینی پیمانوں کے مقابلہ میں آسمانی پیمانے آگئے تھے ، خواہشات سے مدد طلب کرنے کی بجائے اب وحی سے مدد لی جارہی تھی۔ لوگ جاہلیت سے سفر کرکے اسلام میں داخل ہوگئے تھے ، شرک سے چل کر لوگ ربانیت میں داخل ہوگئے تھے۔ یہ طویل سفر تھا ، زمین اور آسمانوں کے درمیان کے فاصلے سے بھی طویل اور بعید۔ یہ لوگ ذوق معرفت رکھتے تھے ، اور اس کی شیرینی اور مٹھاس کو پاتے تھے ، اس کی قدروقیمت کا انہیں شعور تھا ، اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے تو انہوں نے اس کمی کو محسوس کیا۔ انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہ ایک دور تھا جو بیت گیا ، اگر یہ دور عملاً گزرا نہ ہوتا تو عقل اس کا تصور بھی نہ کرسکتی۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا چلو ام ایمن کے پاس چلیں ، ہم ان سے اسی طرح ملاقات کریں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ ملاقات کے لئے جاتے تھے۔ جب وہ اس کے قریب گئے تو وہ رونے لگیں ، انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ اللہ کے ہاں رسول اللہ کا جو مقام ہے جو آپ کے لئے بہتر ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں جانتی ہوں کہ اللہ کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جو کچھ ہے وہ بہت بہتر ہے ، لیکن میں اس لئے رورہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا رک گیا ہے ، ان کی بات نے ان دونوں کو رلا دیا اور وہ بھی رونے لگے۔ (مسلم) یہ ایک مبارک گھڑی تھی اور اس کے اثرات اس وقت سے آج تک انسانی زندگی کو متاثر کررہے ہیں اور یہ اثرات اس وقت تک اپنا کام کرتے رہیں گے جب تک اللہ زمین کا وارث نہیں ہوجاتا اور قیامت برپا نہیں ہوجاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس گھڑی کے واقعہ نے انسان کو از سر نو زندگی عطا کی۔ اس طرح کہ اس نے اپنی قدریں زمین سے لینے کی بجائے آسمان سے لینا شروع کردیں اور اپنی زندگی کا نظام وحی سے اخذ کرنے لگے ، خواہشات نفسانیہ سے اخذ نہیں کرتے تھے۔ اس لمحہ میں جو کچھ ہوا اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس سے قبل تاریخ میں کوئی ایسا انقلاب واقع نہ ہوا تھا اور نہ آپ کے بعد اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ دراصل تاریخ کا دوراہا تھا۔ اس نے تاریخ کا رخ پھیر دیا اور پھر تاریخ میں ایسے نشانات راہ قائم کردیئے گئے جنہیں آج تک مٹایا نہیں جاسکا۔ نہ بعد کے واقعات نے ان نشانات کا رنگ ہلکا کیا۔ انسانی عقائد ونظریات میں اس کائنات ، اس زندگی ، اور اس کی اعلیٰ قدروں کا ایک تصور بٹھادیا گیا۔ ان کو اس رطح واضح کردیا گیا کہ اس سے قبل تاریخ میں ان اعلیٰ قدروں کو اس طرح نہ نکھارا گیا تھا۔ اعلیٰ قدروں کی یہ ایک ایسی تصویر کشی تھی جو جامع تھی ، جو صاف تھی ، جو نہایت ہی مجرد تھی اور دنیا کے رنگوں سے خالی اور پاک تھی ، جبکہ اس کے رنگ واقعی تھے اور انسانی زندگی کے ساتھ اچھی طرح ہم آہنگ تھے ۔ چناچہ اسلامی نظام زندگی کے اصول وقواعد رکھ دیئے گئے ، اور اسلامی نظام کے نشانات اور خطوط وضع کردیئے گئے۔ لیھلک ............................ بینة ” تاکہ جو نیست ونابود ہوتا ہے ، وہ دلیل سے نیست ونابود ہو اور جو زندہ رہتا ہے وہ دلیل سے زندہ رہے “۔ ان خطوط میں کوئی اجمال اور ابہام نہ چھوڑا گیا۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو پھر وہ جانتے پوچھتے نہ مانے گا ، اب اگر کوئی راہ راست سے بھٹکتا ہے تو وہ ارادة ایسا کرے گا اور اگر کوئی کجی اختیار کرتا ہے ، کو وہ قصداً ایسا کرے گا۔ اس منظر ولمحے میں یہ ایک ممتاز واقعہ تھا ، یہ ایسا کائناتی حادثہ تھا جس نے ایک عہد کو ختم کردیا جو دنیا سے نابود ہوگیا اور ایک عہد کا آغاز کردیا جو ابدالا باد تک رہے گا۔ یہ حادثہ انسانی تاریخ میں ایک فرقان بن گیا۔ یہ انسانی زندی میں فرقان بن گیا۔ صرف کسی امت یا قوم کی زندگی میں نہیں۔ اس حادثہ کی گونج پوری کائنات میں ریکارڈ ہوگئی اور پوری کائنات اس کے ساتھ چلنے لگی۔ یہ حادثہ انسانی ضمیر میں ریکارڈ ہوگیا۔ یہ انسانی ضمیر آج بھی اسے یاد کررہا ہے اس کی یادیں مٹاتا ہے اور کبھی اسے بھولتا نہیں اور انسانی ضمیر اس بات کو پاتا ہے کہ یا واقع ، یا حادثہ دراصل انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھا اور انسانی قدروں میں یہ انقلاب تاریخ میں ایک ہی بار واقعہ ہوا ، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ یہ تھی بات اس سورت کے پہلے پیراگراف کی ۔ رہیں بعد کی آیات اور پیرے تو ظاہر ہے کہ وہ بعد میں نازل ہوئے۔ بعد کی آیات سیرت النبی کے ان واقعات کی طرف اشارہ کررہی ہیں جو بہت ہی بعد کے زمانوں میں پیش آئے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ علانیہ تبلیغ کریں ، اور اس دور میں پھر آپ کی مخالفت شروع ہوگئی تھی جیسا کہ آتا ہے۔ ارءیت ........................ صلی ” کیا تونے اس شخص کو دیکھا ہے جو اللہ کے بندے کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے “۔ لیکن بعد میں نازل ہونے کے باوجود سورت کے اجزاء میں ایک ربط ہے اور مطلع کے بعد جو حقائق لائے گئے ہیں ان میں مکمل ترتیب ہے۔ چناچہ پوری سورت ایک کامل وحدت اور ایک مکمل مضمون بن جاتی ہے جس کے اجزاء باہم پیوست اور منظم ہیں۔ اقرا باسم ............................ لم یعلم (1:96 تا 5) ” پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا “۔ یہ قرآن کی پہلی سورت ہے ، رسول خدا کو پہلا حکم کیا دیا جاتا ہے ؟ پہلی ہدایت کیا دی جاتی ہے ؟ ان لمحات میں جب پہلے پہل ان کا عالم بالا کے ساتھ رابطہ قائم ہوا ، جب سب سے پہلے انہیں دعوت اسلامی کی ذمہ داری سپرد کی گئی ، حکم یہ ہوا کہ ” پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدام کیا “۔ اللہ کی صفات میں سے تخلیق کی صفت کو لیا گیا جس کے ذریعہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لایا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں سے سورة العلق شروع ہو رہی ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا ہے کہ آپ اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے جس نے سب کچھ پیدا فرمایا ہے تعمیم کے لیے مفعول محذوف فرما دیا، نیز رعایت فاصلہ بھی مطلوب ہے اس کی وجہ سے بھی مفعول حذف کیا گیا۔ حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ فرشتے کی آمد سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں تنہا وقت گزارا کرتے تھے یہ تنہائی آپ کو محبوب تھی متعدد راتیں وہاں گزار کر اپنے گھر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس تشریف لاتے تھے وہ مزید چند دن کے لیے کھانے پینے کا سامان تیار کردیتی تھیں یہ سامان لے کر آپ غار حرا میں واپس چلے جاتے تھے ایک دن آپ غار حرا میں تشریف فرما تھے کہ اچانک فرشتہ آگیا۔ فرشتہ نے کہا ﴿اِقْرَائ﴾ (پڑھیے) آپ نے فرمایا : ما انا بقاری (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) فرشتے نے آپ کو پکڑ کر خوب اچھی طرح بھینچ دیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے، آپ نے پھر وہی فرمایا کہ میں پڑھا ہو انہیں ہوں، فرشتے نے دوبارہ اسی زور دار طریقے پر بھینچ دیا پھر چھوڑ دیا اور وہی بات کہی کہ پڑھیے، آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے تیسری بار پھر آپ کو بھینچ دیا، پھر چھوڑ دیا اور اس مرتبہ اس نے یہ پورا پڑھا دیا : ﴿ اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ٠٠١ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ٠٠٢ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ٠٠٣ الَّذِيْ عَلَّمَ بالْقَلَمِۙ٠٠٤ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْؕ٠٠٥﴾ آپ نے ان الفاظ کو دہرایا اور غار حرا سے گھبرائے ہوئے واپس تشریف لائے اور حضرت خدیجہ (رض) کے پاس پہنچے ان سے فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ، انہوں نے کپڑا اوڑھا دیا۔ یہاں تک کہ جب خوف و پریشانی کی کیفیت دور ہوگئی تو حضرت خدیجہ (رض) کو پوری بات بتائی۔ (حدیث طویل ہے جو صحیح بخاری صفحہ ٣، ٤ ج ١ اور صحیح مسلم صفحہ ٨٨: ج ١ پر مذکور ہے) اس سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں آیت مذکورہ بالا ہی تھیں۔ قال النووی فی شرح صحیح المسلم ھذا ھو الصواب الذی علیہ الجماھیر من السلف والخلف اس کے کچھ عرصے کے بعد آیات ﴿يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ٠٠١ قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ٠٠٢ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ۪ۙ٠٠٣ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۪ۙ٠٠٤ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ۪ۙ٠٠٥﴾ نازل ہوئیں اور برابر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ (صحیح بخاری صفحہ ٣: ج ١) آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت ﴿بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ سے شروع کرنا چاہیے اور سورة ٴ اعراف کی آیت ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ٠٠٩٨﴾ سے معلوم ہوا کہ پہلے اعوذ باللہ پڑھا جائے، پہلے استعاذہ پھر بسم اللہ دونوں پر امت کا عمل ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور صحابہ (رض) اور تابعین کا یہی معمول رہا ہے۔ سورت کے شروع میں اولاً مخلوق کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا کیونکہ ساری مخلوق اللہ جل شان کی ربوبیت کا مظہر ہے پھر خصوصی طور پر انسان کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا لہٰذا انسان کو اپنے رب کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونا چاہیے اپنے خالق اور پروردگار کے ذکر میں اور اس کی نعمتوں کے شکر میں لگا رہے گو دوسرے حیوانات بھی نطفہ منی سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں وہ عقل اور شعور و ادراک نہیں ہے جو کہ انسان کو عطا فرمایا گیا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” اقرا “ ، باء استعانت کے لیے ہے اپنے اس پروردگار کی مدد سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔ جو لوگ ایسے کافی و شافی بیان کے بعد بھی نہیں مانتے ان کو چھوڑئیے ان کی ایذاء و شر انگیزی کی پرواہ مت کیجئے بس اللہ کے نام سے قرآن کی تلاوت و تبلیغ میں لگے رہئے۔ قرآن کی تلاوت حق پر استقامت کا ذریعہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے پیغمبر ! آپ اپنے اس پروردگار کے نام کی برکت سے اور اس کا نام لے کر قرآن کو پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔ یعنی قرآن شروع کرنے سے قبل بسم اللہ الرحمن الرحیم بشرطیکہ بسم اللہ بھی اس وقت نازل ہوگی ہو پڑھ لیا کرو۔ یا یہ کہ اللہ کے نام کی مدد حاصل کرنے کی حالت میں قرآن پڑھا کرو۔ ہوسکتا ہے کہ بازائدہ ہو اور یہ مطلب ہو کہ اپنے پروردگار کا نام پڑھیے جس نے سب کو بنایا، وہی تمام کائنات کا خالق ہے اور سب خوبیوں اور بھلائیوں کا پیدا کرنے والا ہے جس میں قرات کی صفت بھی آگئی یعنی وہی آپ میں قراءت کی صفت بھی پیدا کردے گا آگے اسی خالقیت کی اور وضاحت فرمائی۔