Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 15

سورة العلق

کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾

No! If he does not desist, We will surely drag him by the forelock -

یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ لَيِن لَّمْ يَنتَه ... Nay! If he ceases not, meaning, if he does not recant from his discord and obstinacy, ... لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ We will scorch his forehead. meaning, `indeed We will make it extremely black on the Day of Judgement.' Then He says, نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِيَةٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور دشمنی سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے، اس سے باز نہ آیا تو میں اس کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا۔ (یعنی اسے روندوں گا اور یوں ذلیل کرونگا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے پکڑ لیتے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١٨(١) کلا لئن لم ینتہ ، لنسفعاً …:” لم ینتہ “ (وہ باز نہ آیا)” انتھی ینتھی انتھائ “ (افتعال) سے حجد معکم ہے۔ ” ینتہ “ اصل میں ” ینتھی “ تھا، حرف جزم ” لم “ کی وجہ سے یاء گرگئی۔ ” لنسفعاً “ اصل میں ” لنسفعن “ ہے، جو ” سفع یسفع “ (ف) (زور سے کھینچ کر گھسیٹنا) سے جمع متکلم مضارع معلوم بانون تاکید خفیہ ہے۔ چونکہ وقف کی حالت میں نون تاکید خفیفہ (الف) کے ساتھ بدل جاتا ہے، جیسا کہ نون تنوین (الف) کے ساتھ بدل جاتا ہے، اس لئے نون تنوین ” خبیراً “ اور ” بصیرات “ کی طرح اسے بھی ” لنستفعن “ کے بجائے ” لنسفعاً “ کی صورت میں لکھا گیا ہے اور اس میں مصحف عثمانی کی پیروی کی گئی ہے۔ ” ولیکونا من الصغرین “ بھی ایسے ہی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة یوسف کی آیت (٣٢) کی تفسیر۔ ” الناصیۃ “ سر کے اگلے حصے کے بالوں کو ” ناصیہ “ کہا جاتا ہے۔” الزبانیۃ “ ” زبنیۃ “ کی جمع ہے۔ عرب پولیس کے سپاہی کو ” زبنیۃ “ کہتے ہیں۔ یہ ” زبن یزبن زبنا “ (ض) سے مشتق ہے جس کا معنی ” ہٹانا ، دھکا دینا “ ہے۔ چونکہ افسر جس سے ناراض ہو سپاہی اسے دھکے مار کر نکال دیں گے، بلکہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرز دیں گے۔ (٢) ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا :” کیا محمد (ﷺ) تمہارے ہوتے ہوئے اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہے ؟ “ کہا گیا :” ہاں ! “ ابوجہل نے کہا :” لات اور عزیٰ کی قسم ! اگر میں نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا، یا اس کے چہرے کو مٹی سے لت پت کر دوں گا۔ “ چناچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ اس وقت نمازپ ڑھ رہے تھے۔ اس کا ارادہ آپ کی گردن کو روندنے کا تھا، اچانک لوگوں نے دیکھنا کہ وہ ایڑیوں پر واپس پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں کے ساتھ کسی چیز سے بچ رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا :” تجھے کیا ہ وا ؟ “ اس نے کہا :” میرے اور اس کے دریمان آگ کی ایک خندق، بڑا ہولناک منظر اور پر ہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لو دنا منی لاختطفتہ الملائکۃ عضوا عضواً ) (مسلم صفات المنافقین باب قولہ :(ان الانسان لطعی …): ٢٨٩٨)” اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اسے ایک ایک عضو کر کے اچک لیتے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 15 - concluding part ] لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (...We will certainly drag [ him ] by forelock.) The nasfa&an is derived from the infinitive safuun which means &to seize and drag& and the word nasiyah means &forelock&, that is, the front part of a person&s hair that falls forward over the forehead. When a person&s forelock is seized, he becomes helpless in the hands of the seizer.

لنسفعام بالنارصیتہ سفع مصدر سے مشتق ہے جس کے معنے سختی کے ساتھ کھینچنے کے ہیں اور ناصیتہ سر کے اگلے بالوں کو کہا جاتا ہے جو پیشانی کے اوپر ہوتے ہیں جس شخص کے پیشانی کے بال کسی کے ہاتھ میں آجائیں وہ اس کے ہاتھ میں مجبور و مقہور ہو کر رہ جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَہِ۝ ٠ۥۙ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَۃِ۝ ١٥ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ سفع السَّفْعُ : الأخذ بِسُفْعَةِ الفرس، أي : سواد ناصیته، قال اللہ تعالی: لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ [ العلق/ 15] ، وباعتبار السّواد قيل للأثافي : سُفْعٌ ، وبه سُفْعَةُ غضب، اعتبارا بما يعلو من اللّون الدّخانيّ وجه من اشتدّ به الغضب، وقیل للصّقر : أَسْفَعُ ، لما به من لمع السّواد، وامرأة سَفْعَاءُ اللّون . ( س ف ع ) السفع کے معنی گھوڑے کو سوار ناصیۃ یعنی پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ [ العلق/ 15] تو ہم ( اس کی ) پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۔ اور سیاہی کے معنی کے اعتبار سے چولھے کے پتھروں ( اثافی ) کو بھی سفع کہا جاتا ہے ۔ اس کے چہرہ پر غصے کا اثر ہے کیونکہ سخت غصہ کے وقت چہرہ کا رنگ دخانی سا ہوجاتا ہے ۔ اور شکرے کو اسفع کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پروں میں سیاہ چمک سی پائی جاتی ہے ۔ اور امرءۃ سفعاء اللون سیاہ رنگ عورت کو کہتے ہیں ۔ نصي النَّاصِيَةُ : قُصَاصُ الشَّعْر، ونَصَوْتُ فُلاناً وانْتَصَيْتُهُ ، ونَاصَيْتُهُ : أخذْتُ بِنَاصِيَتِهِ ، وقوله تعالی: ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود/ 56] . أي : متمکِّنٌ منها . قال تعالی: لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق/ 15- 16] . وحدیثُ عائشة رضي اللہ عنها ( ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) . أي : تَمُدُّونَ ناصیته . وفلان نَاصِيَةُ قومه . کقولهم : رأسُهُمْ وعَيْنُهُمْ ، وانْتَصَى الشَّعْرُ : طَالَ ، والنَّصْيُ : مَرْعًى مِنْ أفضل المَرَاعِي . وفلانٌ نَصْيَةُ قومٍ. أي : خِيارُهُمْ تشبيهاً بذلک المَرْعَى. ( ن ص ی ) الناصیۃ کے معنی پیشانی کے بالوں کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ نصرت فلانا وانتصیتہ وناصیۃ میں نے ا سے پیشانی کے بالوں سے پکڑا اور آیت کریمہ : ۔ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها[هود/ 56] جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے ۔ میں اخذ ناصیۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چلنے پھرنے والی چیز پر پوری قدر ت حاصل ہے لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ ناصِيَةٍ [ العلق/ 15- 16] تو ہم اس کے پیشانی کے بال پکڑے کو گھسیٹیں گے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ۔ ما لکم تَنْصُونَ ميِّتكم ؟ ) تم میت کی ناصیۃ کیوں باندھتے ہو اور فلان راسھم وعینھم کی طرح فلان ناصیۃ قومہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سردار کے ہیں ۔ انتصی الشعر بالوں کا بڑھ جانا النصی ایک قسم کا عمدہ چارہ ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ کے طور کہا جاتا ہے : ۔ فلان نصیبۃ القوم کہ فلاں ان میں بہتر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, the person who threatens that he would trample the neck of Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) down when he performed the Prayer, would never be able to do so.

سورة العلق حاشیہ نمبر : 12 یعنی یہ شخص جو دھمکی دیتا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھیں گے تو وہ ان کی گردن کو پاؤں سے دبا دے گا ، یہ ہرگز ایسا نہ کرسکے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:15) کلا۔ ہرگز نہیں ۔ یہ شخص جو دھمکی دیتا ہے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھیں گے تو وہ ان کی گردن پاؤں سے دبا دوں گا۔ یہ ہرگز ایسا نہ کرسکے گا۔ ردع للنا ہی اللعین وزجر لہ۔ (روح المعانی) منع کرنے والے لعین کی باز داشت اور ڈانٹ کے لئے ہے۔ یہاں لعین سے مراد ابو جہل ہے لئن لم ینتہ لام موطئۃ للقسیم ہے ای واللہ : ان شرطیہ۔ لم ینتہ مضارع نفی جحد بلم کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ انتھاء (افتعال) مصدر سے وہ نہیں رکا۔ وہ باز نہیں آیا۔ ینتہ اصل میں ینتھی تھا۔ عمل لم کی وجہ سے ی ساقط ہوگئی۔ خدا کی قسم اگر وہ باز نہ آیا۔ لنسفعا۔ اصل میں لنسفعن تھا۔ مضارع بلام تاکید جواب شرط کا ہے۔ ونون تاکید کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ قرآن کے رسم الخط کا اتباع کرتے ہوئے اسے لنسفعا کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ یہ سفع (باب فتح) مصدر سے ہے جس کے معنی کسی چیز کو زور کے ساتھ کھینچ کر گھسیٹنے کے ہیں۔ الناصیۃ : اسم نکرہ ، مفرد، پیشانی، مراد پور آدمی۔ (اطلاق جزء علی کل جزء کا اطلاق کل پر) لنسفعا بالناصیۃ جملہ جواب شرط میں ہے۔ ہم (اس کو) پیشانی (کے بالوں) سے پکڑ کر ضرور گھسٹیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 مطلب یہ ہے کہ ابوجہل مردود چاہے سیدھے راستہ پر ہو (جیسا کہ وہ اپنے آپ کو سمجھتا تھا اور چاہے دین حق کا منکر دونوں صورتوں میں اسے سمجھنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور وہ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے کسی بندے کو نماز پڑھنے سے روکا جائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک واضح اور براہ راست دھمکی ہے اور ہے بھی شدید الفاظ میں۔ کلالئن ........................ بالنا صیة (15:96) “” ہرگز نہیں ! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے “۔ یوں لنسفعاکا تلفظ بھی شدید اور اس کی آواز بھی سختی اس کے مفہوم کی سختی پر دلالت کرتی ہے۔ سفع کے معنی سختی سے پکڑنے کے ہیں۔ ناصیہ کا مفہوم ہے پیشانی۔ پیشانی سرکشوں اور متکبرین کے اظہار کبر کے لئے اونچا مقام ہے۔ ایسے لوگ سر کو بلند رکھتے ہیں اور سر کی بلندی کے وقت پھر پیشانی سے بلند ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی پیشانی کو پکڑ کر گرانا ہی مناسب ہے۔ کیونکہ

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ ١ۙ۬ لَنَسْفَعًۢا بالنَّاصِيَةِۙ٠٠١٥ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍۚ٠٠١٦﴾ (خبردار اگر یہ شخص اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کو پکڑ کر گھسیٹ لیں گے جو پیشانی جھوٹی ہے خطاکار ہے) ۔ ﴿ فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗۙ٠٠١٧﴾ (سو جب وہ عذاب میں مبتلا ہو اپنی مجلس والوں کو بلا لے) ﴿ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَۙ٠٠١٨﴾ (ہم عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے) جن کے سامنے اس کا کوئی بس نہیں چل سکتا۔ معالم التنزیل میں زجاج سے نقل کیا ہے کہ زبانیۃ سے دوزخ کے فرشتے مراد ہیں جنہیں سورة التحریم میں ﴿غلاظ شداد﴾ فرمایا ہے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اگر ابو جہل اپنی مجلس والوں کو بلا لیتا تو اللہ تعالیٰ کے زبانیۃ فرشتے اسے پکڑ لیتے۔ لفظ زبانیہ زبن سے ماخوز ہے جو دفع کرنے کے معنی میں آتا ہے چونکہ دوزخ پر مقررہ فرشتے دوزخیوں کو دھکے دے دے کر دوزخ میں ڈالیں گے اس لیے ان کو زبانیہ فرمایا۔﴿كَلَّا ﴾ اس شخص کا ایسی حرکتیں کرنا اچھا نہیں ہے ان سے باز آجائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 8:۔ ” کلا لئن “ تخویف اخروی ہے۔ اگر وہ ایذا اور شر انگیزی سے نیز تکذیب و انکار سے باز نہ آیا تو ہم قیامت کے دن اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ لیں گے جو ایک جھوٹے اور مجرم کی پیشانی ہے پھر وہ اپنے تمام اہل مجلس اور تمام اعوان و انصار کو بلا لے اور ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلائیں گے جو اسے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دینگے، مگر اس کے اعوان و انصار کی وہاں ایک نہ چلے گی اور کوئی اس کو خدا کے عذاب سے بچا نہ سکے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے اچھا اگر یہ شخص باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی یعنی پیشانی کے بال پکڑ کر اس کو گھسیٹیں گے۔