Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 7

سورة العلق

اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾

Because he sees himself self-sufficient.

اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بے پرواہ ( یا تونگر ) سمجھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay! Verily, man does transgress. Because he considers himself self-sufficient. The Threat against Man's Transgression for the sake of Wealth Allah informs that man is very pleased, most evil, scornful and transgressive when he considers himself self-sufficient and having an abundance of wealth. Then Allah threatens, warns and admonishes him in His saying, إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] آیت نمبر ٦ اور آیت نمبر ٧ میں انسانوں کی اکثریت یا خدا فراموش انسان کی ایک عام خصلت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی کو سیر ہو کر کھانے کو ملنے لگتا ہے اور اس پر خوش حالی کا دور آتا ہے تو وہ اپنے جیسے انسانوں کو درکنارا اپنے خالق ومالک کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى۝ ٧ ۭ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی ۔ } ” اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔ “ وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے ۔ چناچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیاکا نظام محض طبعی قوانین و ضوابط (physical laws) کے مطابق چل رہا ہے اور یہ کہ یہاں اخلاقی قوانین (moral laws) کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی روز مرہ زندگی کا تجربہ بھی اسے یہی بتاتا ہے کہ زہر کھانے سے تو آدمی ہلاک ہوجاتا ہے لیکن حرام کھانے سے اسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چناچہ جب معاشرے کے عام آدمی کو نیکی ‘ انصاف ‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بےمعنی اور بےوقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور َمن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے ۔ اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے ۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے کہ :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 That is, when the man has attained wealth, honour and rank and whatever else he desired to attain in the world, he becomes rebellious instead of being grateful and transgresses the boundaries of servitude to Allah.

سورة العلق حاشیہ نمبر : 8 یعنی یہ دیکھ کر کہ مال ، دولت ، عزت و جاہ اور جو کچھ بھی دنیا میں وہ چاہتا تھا وہ اسے حاصل ہوگیا ہے ، شکر گزار ہونے کے بجائے وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اور حد بندگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی اپنے مال و دولت اور سرداری کی وجہ سے اپنے آپ کو بے نیاز اور بے پروا سمجھتا ہے کہ کوئی مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب کو آخر کار اﷲ تعالیٰ کے پاس لوٹنا ہے، وہاں یہ ساری بے نیازی اور بے پروائی دھری رہ جائے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:7) ان راہ استغنی : ان اصل میں لان تھا۔ لام تعلیل کا اور ان مصدریہ ہے لام کو حذف کردیا گیا ہے۔ لان (یہ) اس لئے کہ۔ اس بناء پر کہ۔ اس وجہ سے کہ۔ ضمیر فاعل ابوجہل کی طرف راجع ہے یا الانسان کی طرف راجع ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب بھی ابوجہل کے لئے یا الانسان کے لئے ہے۔ رای ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب جس کا معنی دیکھنا ہے لیکن یہاں رؤیۃ بمعنی علم آیا ہے۔ یا دل کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے۔ آنکھوں سے دیکھنا مراد نہیں ورنہ مرفوع اور منصوب دونوں ضمیروں کا مرجع ایک ہوگا اور ناممکن ہے۔ استغنی ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب استغناء (استفعال) مصدر سے بمعنی مستغنی ہونا، بےنیاز ہونا، یہ رای کا مفعول ثانی ہے اب آیات 67 کا ترجمہ ہوگا :۔ انسان (یا ابوجہل) اللہ کے مقابل غرور اور سرکشی کر رہا ہے اس لئے کہ اپنے آپ کو بےپرواہ جان رہا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اپنی پیدائش کی حقیقت کو بھول جاتا ہے اور ذرا دولت ملے تو سرکشی پر اتر آتا ہے … بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ابوجہل کی سرکشی کی طرف اشارہ ہے اور آخر سورة تک اسی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیات اوپر کی پانچ آیتوں کے بعد نازل ہوئیں۔ (فتح قدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اس سبب سے کہ وہ اپنے کو توانگر اور بےنیاز دیکھتا ہے ۔ یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی ہے جب اس نے اپنے آپ کو مالدار اور مال میں بڑھا ہوا دیکھا تو لگاتکبر کرنے اور یہ سمجھا کہ میں اب اللہ تعالیٰ سے بھی بےنیاز ہوں حالانکہ کوئی کتنا ہی دولت مند ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا کہ میں اس کو کئی بار منع کرچکا ہوں لیکن یہ باز نہیں آتا اب کے اگر نماز پڑھتے دیکھا تو میں اس کی گردن پر پائوں رکھ کر کھڑا ہوجائوں گا میرے ساتھی اور میرے حمایتی بہت ہیں اس پر حق تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔