Surat ul Alaq
Surah: 96
Verse: 8
سورة العلق
اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾
Indeed, to your Lord is the return.
یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے ۔
اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾
Indeed, to your Lord is the return.
یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے ۔
Surely, unto your Lord is the return. meaning, `unto Allah is the final destination and return, and He will hold you accountable for your wealth, as to where you obtained it from and how did you spend it.' Scolding of Abu Jahl and the Threat of seizing Him Then Allah says, أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى
[٨] رُجْعٰی بمعنی لوٹ کر واپس جانے کا مقام، یعنی انسان دنیا میں خواہ کتنی ہی سرکشی اختیار کرلے۔ بالآخر اسے اپنے پروردگار کے پاس جانا پڑے گا۔ اس وقت اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی اس متکبرانہ روش کا انجام کیسا ہوتا ہے ؟
Verse [ 8] إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ (Surely to your Lord is the Return.) The word rufa, like bushra, is the verbal noun of infinitive - meaning all will be returning to their Lord. The apparent meaning is &returning to the Lord after death and giving account of good and bad deeds and seeing with their own eyes the evil consequences of arrogance.& The profounder meaning of the verse is that though man has been endowed with great natural powers and has been created in the best make, he errs grievously if he thinks that he can ignore Allah&s help and guidance. He constantly stands in need of Divine assistance, because his capacities and capabilities - either as an individual or in his collective capacity - are at best limited. The proud and arrogant man is thus not self-sufficient. If he thinks deeply, he will find that he needs Allah for every movement and pause. If He has apparently not made any member of the human species in need of another, he is at least in need of Allah for all his needs. Thinking that human beings are not in need of one another is also a fallacy. Allah has made man a social being, and as such he cannot satisfy all his needs by himself. Allah has made the social system or network such that all human beings need one another to satisfy their needs some time or the other. Let us consider an example: A fresh morsel of food that goes into our mouth and we swallow it unreflecting, is the result of thousands of human beings and animals who worked hard for a long period of time. It is not possible for anyone to engage so many thousands of human beings in his service. The same applies to clothes and other needs which require the services of thousands of millions of humans and animals to prepare the needful things. None of them is his servant. Even if he hires them at a rate of wages to work for him, it would not be possible for him to pay them their wages or salary. This secret or mystery dawns upon man when he realizes that the system of preparing all his needs is set into motion by the consummate wisdom of the Creator of the universe. He inspired someone to become a farmer, He cast into another&s mind to become a woodcutter or a carpenter, He kindled in someone else&s mind to become a blacksmith, He stimulated others to be content with labouring or working for somebody else, He ignited in others the burning desire to be involved in commerce or business, trade or industry. In this way, Allah has set up a bazaar of human needs which no government, nor its legal system or an individual could ever set up. A careful thinking along this line must lead us to the natural corollary that إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ (Surely to your Lord is the Return.|", that is, we witness that ultimately all things are under Divine power and wisdom.
ان الی ربک الرجعی، رجعی مثل بشریٰ کے اسم مصدر ہے۔ معنے یہ ہیں کہ سب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اس کے ظاہر معنے تو یہی ہیں کہ مرنے کے بعد سب کو اللہ کے پاس جانا اور اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہی اس وقت اس طغیانی اور سرکشی کے انجام بد کو آنکھوں سے دیکھ لیگا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس جملے میں مغرور انسان کے غرور کا علاج بتلایا گیا ہو کہ اے احمق تو اپنے آپ کو سب سے بےنیاز خود مختار سمجھتا ہے اگر غور کرے گا تو اپنی ہر حالت بلکہ ہر حرکت و سکون میں تو اپنے آپ کو رب تعالیٰ کا محتاج پائیگا، اگر اس نے تجھے کسی انسان کا محاتج بظاہر نہیں بنایا تو کم از کم اس کو تو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا تو ہر چیز میں محتاج ہے اور انسانوں کی محتاجی سے بےنیاز سمجھنا بھی صرف ظاہری مغالطہ ہی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے وہ اکیلا اپنی ضروریات میں سے کسی ایک ضرورت کو بھی پورا نہیں کرسکتا، اپنے ایک لقمہ کو دیکھے تو پتہ چلے گا کہ ہزاروں انسانوں اور جانوروں کی محنت شاقہ اور مدت دراز تک کام میں لگے رہنے کا نتیجہ یہ لقمہ تر ہے جو بےفکری کے ساتھ نگل رہا ہے اور اتنے ہزاروں انسانوں کو اپنی خدمت میں لگا لینا کسی کے بس کی بات نہیں، یہی حال اس کے لباس اور تمام دوسری ضروریات کا ہے کہ ان کے مہیا کرنے میں ہزاروں لاکھوں انسانوں اور جانوروں کی محنت کا دخل ہے جو تیرے غلام نہیں اگر تو ان سب کو تنخواہیں دے کر بھی چاہتا کہ اپنے اس کام کو پورا کرے تو ہرگز تیرے بس میں نہ آتا، ان باتوں میں غور و فکر انسان پر یہ راز کھولتا ہے کہ اس کی تمام ضروریات کے مہیا کرنے کا نظام خود اس کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خالق کائنات نے اپنی حکمت بالغہ سے بنایا اور چلایا ہے کسی دل میں ڈال دیا کہ زمین میں کشات کا کام کرے، کسی کے دل میں یہ پیدا کردیا کہ وہ لکڑی اور نجاری کا کام کرے، کسی کے دل میں لوہار کے کام کی رغبت ڈال دی، کسی کو محنت مزدوری کرنے ہی میں راضی کردیا، کسی کو تجارت و صنعت کی طرف راغب کر کے انسانی ضروریات کے بازار لگا دیئے۔ نہ کوئی حکومت اس کا نظم قانون سے کرسکتی تھی نہ کوئی فرد۔ اس لئے اس غور فو کر کا لازمی نتیجہ الی ربک الرجع ہے یعنی انجام کار سب چیزوں کا حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے تابع ہونا مشاہدہ میں آجاتا ہے۔
اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى ٨ ۭ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
آیت ٨{ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی ۔ } ” یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ گویا انسان کو راہ راست پر رکھنے کا جو موثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین ۔ یعنی یہ یقین کہ ایک دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکے گی : { فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ - وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ } (الزلزال) ” جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن نیکی کمائی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اور جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا “۔ گویا یہ عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اجاگر کرتا ہے ۔ یہی یقین اور خوف اسے خلوت و جلوت میں ‘ اندھیرے اجالے میں اور ہر جگہ ‘ ہر حال میں غلط روی اور ظلم وتعدی کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ ورنہ انسان کی سرشت ایسی ہے کہ جس مفاد تک اس کا ہاتھ پہنچتا ہو اسے سمیٹنے کے لیے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود کی پروا نہیں کرتا۔ اب اگلی آیت سے اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے ۔ سورة المدثر کے ساتھ اس سورت کے مضامین کی مشابہت کا انداز ملاحظہ ہو کہ سورة المدثر کے تیسرے حصے میں ولید بن مغیرہ کے کردار کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ یہاں اس کے مقابل ابوجہل کے طرزعمل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
9 That is, "Whatever he might have attained in the world, which makes ,him behave arrogantly and rebelliously, in the end he has to return to your Lord. Then he will realize what fate awaits him in consequence of his such attitude and behaviour."
سورة العلق حاشیہ نمبر : 9 یعنی خواہ کچھ بھی اس نے دنیا میں حاصل کرلیا ہو جس کے بل پر وہ تمرد اور سرکشی کر رہا ہے ۔ آخر کار اسے جانا تو تیرے رب ہی کے پاس ہے ۔ پھر اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس روش کا انجام کیا ہوتا ہے ۔
(96:8) ان الی ربک الرجعی : ان حرف مشبہ بالفعل۔ الرجعی اس کا اسم۔ الی ربک اس کی خبر۔ رجعی بروزن بشری (باب ضرب) مصدر ہے۔ الرجعی میں الف لام مضاف الیہ کے عوض میں ہے۔ ربک مضاف مضاف الیہ ک ضمیر واحد مذکر حاضر الانسان کے لئے ہے ۔ (بیضاوی، کشاف) اے طاغی انسان تیری و ایسی تیرے رب ہی کی طرف ہوگی (وہ تجھے اس طغیان کی سزا دیگا) ۔
ان الی ........................ الرجعی (8:96) ” بیشک پلٹنا تیرے رب کی طرف ہی ہے “۔ آخر یہ غافل اور سرکش بھاگے گا کہاں ، آخر آنا تو اللہ ہی کے سامنے ہے۔ لکن اس تہدید کے ساتھ ساتھ اسلامی تصور حیات کا ایک بنیادی اصول اور نظریہ بھی پیش کردیا جاتا ہے ، یہ کہ سب نے اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے ، ہر چیز میں ہر بات کے حوالے سے ، ہر نیت و ارادہ میں اور ہر فعل و حرکت میں ، کیونکہ اللہ کے سوا اور کوء یجائے پناہ اور مرجع ہے ہی نہیں۔ اگر کوئی نیک ہے یا بد ہے ، سب نے اللہ کے سامنے جانا ہے۔ اگر کوئی فرمان بردار ہے یا معصیت کیش ہے ، حق پر ہے یا باطل پر ہے ، اچھا ہے ، یا شریر ہے۔ غنی ہے یا فقیر ہے۔ سب نے اللہ ہی کے سامنے جانا ہے۔ یہ شخص جس نے اپنے آپ کو غنی سمجھ کر سرکشی کی یہ بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے باندھا ہوا پائے گا۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اللہ کے سامنے پیش ہونے کے وقت کے لئے کچھ کرے۔ کیونکہ وہی خالق ہے اور اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس طرح ان دوپیراگرافوں میں اسلامی نظریات و عقائد کے دونوں سرے لے لئے جاتے ہیں ، یعنی اسلام کا نظریہ آغاز حیات اور نشوونما ، پھر اسلام کا نظریہ تعلیم وتربیت اور تہذیب وشائستگی اور پھر اللہ کی طرف لوٹنا اور عقیدہ وحشر ونشر اور حساب و کتاب کے لئے اللہ کے سامنے جانا ہے اور وہاں سب اختیارات اللہ کے ہوں گے۔ ان الی ربک الرجعی (8:96) ” بیشک تیرے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے “۔ اب تیسرا پیراگراف آتا ہے ، سورة بہت ہی مختصر ہے ، لیکن یہاں سرکشی ایک نہیایت واضح اور گھناﺅنی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ انسانی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور ایسے واقعات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ یہ تصویر کشی قرآن کے منفرد انداز میں ہے۔
﴿ اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰىؕ٠٠٨﴾ (اے مخاطب بیشک تجھے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے) یہ سرکشی کرنے والا بھی اپنے رب کی طرف واپس ہوگا، دنیاوی مالداری کو نہ دیکھے اور اموال دنیا پر نظر کر کے اپنے رب کو نہ بھولے کیونکہ ہر حال میں مرنا ہے مر کر جہاں جائے گا وہاں مال و اولاد کوئی کسی کے کام نہ آئیں گے۔
6:۔ ” ان الی “ یہ تخویف اخروی ہے اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس دنیوی زندگی کے بعد اور کوئی زندگی نہیں مگر اس کا یہ خیال غلط ہے بلکہ مرنے کے بعد برزخ میں اور قیامت کے دن میدان حشر میں خدا کی طرف اس کی واپسی اور اس کے سامنے اس کی پیشی ہوگی وہاں اس کو اس کے عصیان طغیان کی پوری پوری سزا ملے گی اور دولت و ثروت وہاں کام نہیں آئے گی۔
(8) بے شک اے مخاطب تیرے پروردگار کی ہی حضور میں سب کو پلٹ کر جانا ہے جب اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے تو اس سے کوئی کس طرح مستغنی اور بےنیاز ہوسکتا ہے جس طرح اس زندگی میں اس کی قدرت سے خارج نہیں اسی طرح اس زندگی میں بھی اسی کے احاطہ قدرت میں گھرا ہوا ہے پھر بھلا اس سے کوئی سرکش اور متکبر کیسے بےنیاز ہوسکتا ہے۔