Surat ul Bayyina

Surah: 98

Verse: 7

سورة البينة

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۷﴾

Indeed, they who have believed and done righteous deeds - those are the best of creatures.

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یہ لوگ بہترین خلائق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... Verily, those who believe and do righteous good deeds, He says that they are the best of creation. ... أُوْلَيِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ they are the best of creatures. Abu Hurayrah and a group of the scholars have used this Ayah as a proof that the believers have a status among the creatures that is better than the angels. This is because Allah says, أُوْلَـيِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (They are the best of creatures). Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی جو دل کے ساتھ ایمان لائے اور جنہوں نے اعضا کے ساتھ عمل کئے، وہ تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل ہیں۔ جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مومن بندے ملائکہ سے شرف فضل میں بہترین ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے۔ البریۃ، یرأ (خلق) سے ہے۔ اسی سے اللہ کی صفت الباری ہے۔ اس لیے بریّہ اصل میں بریئۃ ہے، ہمزہ کو یا سے بدل کر یا کا یا میں ادغام کردیا گیا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] بریۃ کا لغوی مفہوم :۔ بریۃ : برء سے مشتق ہے یعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، لہذا ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے۔ بریہ میں شامل ہے۔ یعنی پوری مخلوق۔ ساری کائنات، زمین و آسمان اور دیگر سیارے سب اس میں شامل ہیں۔ ان دو آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کافر تمام مخلوق سے بدتر مخلوق ہیں کیونکہ انہوں نے عقل وتمیز ہونے کے باوجود اپنے خالق ومالک کے حق کو نہیں پہچانا۔ اور مومن جو نیک اعمال بجالاتے رہے تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بہتر ہیں۔ اس لیے کہ فرشتوں کو خیر وشر کا اختیار ہی نہیں دیا گیا۔ ان کی اطاعت الٰہی اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ جبکہ مومنوں کی اطاعت اختیاری ہوتی ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ عام مومن عام فرشتوں سے اور مقرب مومن مقرب فرشتوں سے افضل ہیں اور افضل الخلائق ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مخلوق سے، جن میں سب فرشتے بھی شامل ہیں، افضل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان الذین امنوا و عملوا اصلحت…:ْو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں اور تمام کاتبوں پر ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کئے ان کے لئے تین بڑی بڑی بشارتیں ہیں، پہلی یہ کہ وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں، کیونکہ اپنے اختیار سے گناہ چھوڑ کر ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کا درجہ یقیناً ان لوگوں سے بلند ہے جن میں نافرمانی کی استعداد ہی نہیں، دوسری یہ کہ ان کے لئے ہمیشہ رہنے کے لئے باغات ہیں، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور تیسری یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی جو آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے، فرمایا :(ورضوان من اللہ اکبر) (التوبۃ : ٨٢)” اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی چیز ہے۔ “” اور وہ اللہ سے رضای ہوں گے “ یعنی بیشمار نعمتوں کے بعد بھی اگر ان کا دل ہی خوش نہ ہوا تو کیا فائدہ ؟ یہ نعمتیں اس کیلئے ہیں جو اپنے رب سے ڈر گیا۔ خالی بےروح کلمہ پڑھنے، بلاخشیت نماز اور بوجھل دل کے ساتھ زکوۃ ادا کرنے اور بطور رسم عبادات ادا کرنے سے یہ مرتبہ نہیں ملتا ، بلکہ اس کا مدار اللہ کے ڈر پر ہے، جیسا کہ فرمایا :(ولمن خاف مقام ربہ جنتن) (الرحمٰن : ٣٦) ” اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو باغ ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّۃِ۝ ٧ ۭ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ بَرِيَّة : الخلق، قيل : أصله الهمز فترک وقیل : بل ذلک من قولهم : بریت العود، وسمّيت بريّة لکونها مبريّة من البری أي : التراب، بدلالة قوله تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ غافر/ 67] ، وقوله تعالی: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ [ البینة/ 7] ، وقال : شَرُّ الْبَرِيَّةِ [ البینة/ 6] . البریۃ کے معنی مخلوق کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مہموز ہے لیکن ہمزہ کو ترک ( یا ادغام ) کردیا گیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ برت القوس سے مشتق ہے اور مخلوق کو بریۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ البریٰ یعنی مٹی سے پیدا کی گئی ہے ۔ جیسا کہ آیت ؛۔ { خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ } ( سورة فاطر 11) سے معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ } ( سورة البینة 7) یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(7 ۔ 8) ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے حضرات جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت ابوبکر صدیق یہ لوگ بہترین مخلوق ہیں ان کا ثواب ان کے پروردگار کے نزدیک انبیاء کرام اور مقربین کے رہنے کی بہشت میں ہے جن کے نیچے بہتی ہوں گی جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اعمال سے خوش رہے گے اور یہ اللہ کے عطا کردہ ثواب اور فضل سے خوش رہیں گے یہ جنت اور خوشنودیا اس کے لیے ہیں جو اپنے پروردگار کی وحدانیت کا قائل ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور دوسرے صحابہ کرام۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا } ” (اس کے برعکس) وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے “ { اُولٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُالْبَرِیَّۃِ ۔ } ” یہی بہترین خلائق ہیں۔ “ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 That is, they are superior to all creatures of God, even to the angels, for the angels do not have the power to disobey, and these people adopt Allah's obedience in spite of having the power to disobey Him.

سورة البینہ حاشیہ نمبر : 10 یعنی وہ خدا کی مخلوقات میں سب سے حتی کہ ملائکہ سے بھی افضل و اشرف ہیں ۔ کیونکہ فرشتے نافرمانی کا اختیار ہی نہیں رکھتے اور یہ اس کا اختیار رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(98:7) ان الذین امنوا وعملوا الصلحت اولئک ہم خیر البریۃ : ان حرف مشبہ بالفعل الذین امنوا وعملوا الصلحت اسم ان۔ ہم خیر البریۃ اس کی خبر۔ (نیز ملاحظہ ہو آیت (6) مذکورہ بالا) ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے وہی سب خلق سے بہتر ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور کفار کے مقابلے میں صالح کردار ایمان والوں کا مقام اور انعام۔ دین اسلام کے اوصاف حمیدہ میں جو اوصاف سب سے نمایاں اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں پہلا وصف یہ ہے کہ دین اسلام کسی مخصوص قوم اور علاقے کے لوگوں کو دعوت نہیں دیتا، اس کی دعوت رنگ و نسل، جغرافیائی حدود اور زمانے کی قیود سے بالاتر ہے۔ اس لیے قرآن مجید کھلے الفاظ میں دعوت دیتا ہے کہ جو لوگ بھی اللہ اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور صالح اعمال اختیار کریں وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے مقام پر اس بات کی یوں وضاحت کی گئی ہے۔ ” بیشک مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور بےدین لوگوں میں سے جو بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، انہیں نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ (البقرۃ : ٦٢) انبیائے کرام (علیہ السلام) کے بعد نہ صرف تمام لوگوں میں بلکہ اللہ کی مخلوق میں صحابہ کرام (رض) کی جماعت سب سے افضل ہے جن کے ایمان اور اعمال کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے معیار قرار دیا گیا ہے۔ (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) (البقرۃ : ١٣٧) ” اگر وہ تمہاری طرح ایمان لائیں تو ہدایت پائیں گے اور اگر منہ موڑیں تو وہ واضح ضد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ان کے مقابلہ میں آپ کو کافی ہوگا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔ “ ان کی جزا ان کے رب کے ہاں یہ ہے کہ ان کو ہمیشہ رہنے والی جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل کیا جائے گا، ایسی جنتیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوگیا اور صحابہ (رض) اپنے رب پر راضی ہوئے، یہ صلہ ہر وہ شخص پائے گا جو اپنے رب پر خالص ایمان لایا اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے کے مطابق صالح اعمال کرنے کے ساتھ اپنے رب سے ڈرتا رہا۔ رب تعالیٰ سے ڈرنے کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے کہ اس کے بغیر ایمان اور اعمال میں اخلاص پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ صحابہ (رض) کا مقام اور احترام : ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے ‘ جن کی گواہی ان کی قسم سے، اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔ “ (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ ) (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بکر) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میرے اصحاب (رض) کو برا مت کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ (رض) کے آدھے مد (چوتھائی کلو گرام) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ “ (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے مارے جائیں۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے ہیں وہ اللہ کی پوری مخلوق میں بہتر ہیں۔ ٢۔ بہترین لوگوں کے لیے ان کے رب نے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ بہترین لوگ ہمیشہ کی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوا اور صحابہ اپنے رب پر راضی ہوگئے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور اس کی نعمتوں کی ایک جھلک : (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) (الرعد : ٣٥) (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) (الحاقہ : ٢٣) (حم السجدہ : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے بندوں کے لیے فرمایا ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِؕ٠٠٧﴾ (بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کی یہ لوگ خیر البریہ ہیں یعنی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے تو یہ لوگ بہترین خلائق یعنی تمام مخلوق سے بہتر ہیں یعنی جو اس دین پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ کی پابندی کرتے رہے وہی لوگ بہترین خلائق ہیں آگے ان کو جزا اور ان کا صلہ بیان کرتے ہیں۔