مسنداحمد

Musnad Ahmad

توبہ کی کتاب

توبہ کے حکم اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اپنے مؤمن بندے سے خوش ہونے کا بیان

۔ (۱۰۱۴۹)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ الْاَغَرَّ رَجُلًا مِنْ جُھَیْنَۃَیُحَدِّثُ ابْنَ عُمَرَ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((یَا اَیُّھَا النَّاسُ! تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْہِ فِیْ الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۸۰۰۴)

۔ جھینہ قبیلے کا ایک آدمی اغز سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو بیان کرتا تھا کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: لوگو! اپنے ربّ سے توبہ کیا کرو، پس بیشک میں ایک ایک دن میں سو سو بار اللہ کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

۔ (۱۰۱۵۰)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاَسْتَغْـفِرُ اللّٰہُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِیْ الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔)) (مسند احمد: ۸۴۷۴)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم ہے، بیشک میں ایک دن میں ستر سے زیادہ دفعہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

۔ (۱۰۱۵۱)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا اَیُّھَا النَّاسُ! تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ، فَاِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ وَاَسْتَغْفِرُہُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ۔))، فقلت لہ: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْکَ اِثْنَتَانِ اَمْ وَاحِدَۃٌ فَقَالَ: ھُوَ ذَاکَ اَوْ نَحْوُ ھٰذَا۔ (مسند احمد: ۱۸۴۸۲)

۔ سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو اور اس سے بخشش طلب کرو، پس بیشک میں ایک ایک دن میں سو سو بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں اور اس سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ راوی نے کہا: اس دعا کو دو بار شمار کیا جائے گا یا ایک بار: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْکَ (اے اللہ! بیش میںتجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں، بیشک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں)؟ انھوں نے کہا: یہ تو ایک بار ہی لگتا ہے۔

۔ (۱۰۱۵۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ،فَاِنْتَابَوَنَزَعَوَاسْتَغْفَرَصُقِلَقَبْلُہُ،وَاِنْزَادَزَادَتْ حَتّٰییَعْلُوَ قَلْبَہَ ذَاکَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ: {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ}۔)) (مسند احمد: ۷۹۳۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مؤمن گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے ، اگر وہ توبہ کر لے اور بخشش طلب کرے تو دل میں چمک اور جلا پیدا ہو جاتی ہے، اور اگر مزید گناہ کرتا ہے تو نکتے بڑھتے چلے جاتے ہیں،یہاں تک کہ اس کے دل پر وہ زنگ چڑھ جاتا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا: ہر گز نہیں، بلکہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا۔

۔ (۱۰۱۵۴)۔ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) حَدِیْثَیْنِ اَحَدَھُمَا عَنْ نَفْسِہِ وَالْآخَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: اِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوْبَہَ کَاَنَّہُ فِیْ اَصْلِ جَبَلٍ یَخَافُ اَنْ یَقَعَ عَلَیْہِ، وَاِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوْبَہُ کَذُبَابٍ وَقَعَ عَلٰی اَنْفِہِ، فَقَالَ لَہُ: ھٰکَذَا فَطَارَ، قَالَ: وقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰہُ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ اَحَدِکُمْ مِنْ رَجُلٍ خَرَجَ بِاَرْضٍ دَوِّیَّۃٍ مَھْلَکَۃٍ، مَعَہُ رَاحِلَتُہُ عَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَزَادُہُ وَمَا یُصْلِحُہُ، فَاَضَلَّھَا فَخَرَجَ فِیْ طَلْبِھَا حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الُمَوْتُ فَلَمْ یَجِدْھَا قَالَ: اَرْجِعُ اِلٰی مَکَانِی الَّذِیْ اَضْلَلْتُھَا فِیْہِ فَاَمُوْتُ فِیْہِ، قَالَ: فَاَتٰی مَکَانَہُ فَغَلَبَتْہُ عَیْنُہُ فَاسْتَیْقَظَ فَاِذَا رَاحِلَتُہُ عِنْدَ رَاْسِہِ عَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَزَادُہُ وَمَا یُصْلِحُہُ۔)) (مسند احمد: ۳۶۲۷)

۔ حارث بن سوید سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں دو احادیث بیان کیں، ایک ان کا اپنا قول تھا اور ایک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث تھی، انھوں نے خود کہا: بیشک مؤمن اپنے گناہوں کو یوں خیال کرتا ہے کہ کسی پہاڑ کی نیچے کھڑا ہے اور اس کو یہ ڈر ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر گر جائے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح خیال کرتا ہے، جو اس کے ناک پر بیٹھتی ہے اور وہ اس کو یوں کر کے اڑا دیتاہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آدمی کی توبہ کی وجہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان اور ہلاکت گاہ جنگل میں ہو، اس کے ساتھ اس کی سواری ہو، جس پر اس کا کھانا پینا، زادِ راہ اور دوسری اشیائے ضرورت لدی ہوئی ہوں، پھر وہ سواری اس سے گم ہو جائے، وہ اس کو تلاش کرے، یہاں تک کہ اس کو موت پا لے، پھر وہ کہے: اب میں اپنے اسی مقام پر واپس جاتا ہوں، جہاں اس سواری کو گم پایا تھا اور وہاں جا کر مر جاتا ہوں، پس وہ اپنے مقام کی طرف واپس لوٹے اور وہاں سو جائے، پھر جب بیدار ہو تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہو اور اس پر اس کا کھانا پینا، زادِ راہ اور دوسری اشیائے ضرورت لدی ہوئی ہوں۔

۔ (۱۰۱۵۵)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ، نَحْوُہُ وَفِیْہِ: ((فَاِذَا ھُوَ بِھَا تَجُرُّ خِطَامَھَا فَمَا ھُوَ بِاَشَدَّ بِھَا فَرَحًا مِنَ اللّٰہِ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ اِذَا تَابَ۔)) (مسند احمد: ۱۸۵۹۸)

۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی قسم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ ذرا مختلف ہیں: پس وہ سواری اس کے پاس کھڑی تھی اور اپنی لگام کھینچ رہی تھی، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے جو خوشی ہوتی ہے، یہ آدمی اس سے زیادہ خوش نہیں تھا۔

۔ (۱۰۱۵۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَیَفْرَحُ بِرَاحِلَتِہِ اِذَا ضَلَّتْ مِنْہُ ثُمَّ وَجَدَھَا؟)) قَالُوْا: نَعَمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، اللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ اِذَا تَابَ مِنْ اَحَدِکُمْ بِرَاحِلَتِہِ اِذَا وَجَدَھَا۔)) (مسند احمد: ۸۱۷۷)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی آدمی کی سواری گم ہو جائے تو کیا وہ اس کو پا لینے پر خوش ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے، جو تم میں سے کسی کو سواری پا لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

۔ (۱۰۱۵۷)۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰییـَبْسُطُیَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّھَارِ، وَیَـبْسُطُیَدَہُ بِالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا۔)) (مسند احمد: ۱۹۷۵۸)

۔ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلا دیتا ہے، تاکہ دن کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے اور پھر دن کو اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے، تاکہ رات کو برائیاں کرنے والا توبہ کر سکے، یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔

۔ (۱۰۱۵۸)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰییَقُوْلُ: یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ مُذْنِبٌ اِلَّا مَنْ عَافَیْتُ، فَاسَتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَکُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ اَنِّیْ ذُوْ قُدْرَۃٍ عَلَی الْمَغْفِرَۃِ فَاسْتَغْفَرَنِیْ بِقُدْرَتِیْ غَفَرْتُ لَہُ، وَلَا اُبَالِیْ، وَکُلُّکُمْ ضَالٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَیْتُ، فَسَلُوْنِی الْھُدٰی اَھْدِکُمْ، وَکُلُّکُمْ فَقِیْرٌ اِلَّا مَنْ اَغْنَیْتُ، فَسَلُوْنِیْ اَرْزُقْکُمُ، وَلَوْ اَنَّ حَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ، وَاُوْلَاکُمْ وَاُخْرَاکُمْ، وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ، اِجْتَمَعُوْا عَلٰی قَلْبِ اَتْقٰی عَبْدٍ مِنْ عِبَادِیْ لَمْ یَزِیْدُوْا فِیْ مُلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ، وَلَوْ اَنَّ حَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ، وَاُوْلَاکُمْ وَاُخْرَاکُمْ، وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ، اِجْتَمَعُوْا فَسَاَلَ کُلُّ سَائِلٍ مِنْھُمْ مَا بَلَغَتْ اُمْنِیَّتُہُ، وَاَعْطَیْتُ کُلَّ سَائِلٍ لَمْ یَنْقُصْنِیْ،اِلَّا کَمَا لَوْ مَرَّ اَحَدُکُمْ عَلٰی شَفَۃِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ اِبْرَۃً ثُمَّ اِنْتَزَعَھَا، وَذٰلِکَ لِاَنِّیْ جَوَّادٌ، مَاجِدٌ، وَاجِدٌ اَفْعَلُ مَا اَشَائُ، عَطَائِیْ کَلَامِیْ،وَعَذَابِیْ کَلَامِیْ، اِذَا اَرَدْتُ شَیْئًا فاِنّمَا اَقُوْلُ لَہُ: کُنْ! فَیَکُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۷۳)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندو! تم سارے کے سارے گنہگار ہو، مگر جس کو میں عافیت عطا کر دوں، پس تم مجھ سے بخشش طلب کیا کرو، میں تم کو بخش دوں گا۔ جس نے یہ جان لیا کہ میں بخشش کے معاملے میں قدرت والا ہوں اور پھر مجھ سے میری قدرت کی وجہ سے مغفرت طلب کی تو میں اس کو بخش دوں گا اور کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سارے کے سارے گمراہ تھے، مگر جس کو میں نے ہدایت دے دی، پس مجھ سے ہدایت کا سوال کیا کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، تم سارے کے سارے فقیر تھے، مگر جس کو میں غنی کر دوں، پس تم مجھ سے سوال کیا کرو، میں تم کو رزق عطا کروں گا، اگر تمہارے زندہ اور مردے، پہلے اور پچھلے اور تر اور خشک میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی آدمی کے دل پر جمع ہو جائیں تو میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں ہو گا، اسی طرح اگر تمہارے زندہ اور مردے، پہلے اور پچھلے اور تر اور خشک جمع ہو جائیں اور ہر مانگنے والا اپنی خواہش کے مطابق مانگنا شروع کر دے تو ہر سوالی کو عطا کر دینے سے میرے ہاں کوئی کمی نہیں آئے گی، مگر اس قدر کہ جیسے کسی آدمی کا سمندر کے کنارے سے گزر ہو اور وہ سوئی کو اس میں ڈبوئے اور پھر اس کو نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، غنی ہوں، جو چاہتا ہوں، کر دیتا ہوں، میرا عطا میری کلام ہے، میرا عذاب میرا کلام ہے، جب میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو اس کو اتنا کہتا ہوں کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔

۔ (۱۰۱۵۹)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ :یَا عَبْدِیْ مَا عَبَدْتَنِیْ وَرَجَوْتَنِیْ، فَاِنِّیْ غَافِرٌ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْکَ، وَیَاعَبْدِیْ! اِنْ لَقِیْتَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطِیْئَۃً مَالَمْ تُشْرِکْ بِیْ لَقِیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً۔)) اَلْحَدِیْثَ نَحْوَ مَا تَقَدَّمَ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۹۶)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندے! جب تک تو میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ پر امید قائم رکھے گا تو میں تیرے ہر گناہ کو بخش دوں گا، وہ جو بھی ہو گا، اے میرے بندے! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں ان ہی کے بقدر بخشش لے کر تجھے ملوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو، ……۔ اس کے بعد سابقہ حدیث کی طرح ہے۔

۔ (۱۰۱۶۰)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْمَایَرْوِیْ عَنْ رَبِّہِ عَزَّوَجَلَّ: ((إِنِّی حَرَّمْتُ عَلٰی نَفْسِی الظُّلْمَ وَعَلٰی عِبَادِی أَلَا فَـلَا تَظَالَمُوا کُلُّ بَنِی آدَمَ یُخْطِئُ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرُ لَہُ وَلَا أُبَالِی وَقَالَ یَا بَنِی آدَمَ کُلُّکُمْ کَانَ ضَالًّا إِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ عَارِیًا إِلَّا مَنْ کَسَوْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ جَائِعًا إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُ وَکُلُّکُمْ کَانَ ظَمْآنًا إِلَّا مَنْ سَقَیْتُ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ وَاسْتَکْسُونِی أَکْسُکُمْ وَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْکُمْ وَاسْتَسْقُونِی أَسْقِکُمْ یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَصَغِیرَکُمْ وَکَبِیرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ وَأُنْثَاکُمْ قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَیِیَّکُمْ وَبَیِّنَکُمْ عَلَی قَلْبِ أَتْقَاکُمْ رَجُلًا وَاحِدًا لَمْ تَزِیدُوا فِی مُلْکِی شَیْئًا وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَجِنَّکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَصَغِیرَکُمْ وَکَبِیرَکُمْ وَذَکَرَکُمْ وَأُنْثَاکُمْ عَلَی قَلْبِ أَکْفَرِکُمْ رَجُلًا لَمْ تَنْقُصُوْا مِنْ مُلْکِی شَیْئًا إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ رَأْسُ الْمِخْیَطِ مِنَ الْبَحْرِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۷۵۰)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک میں نے اپنے نفس پر اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے کو حرام قرار دیا ہے، پس تم ظلم نہ کیا کرو، بنو آدم کا ہر فرد دن رات خطائیں کرتا ہے، لیکن پھر جب مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے تو میں کوئی پرواہ کیے بغیر اس کو بخش دیتا ہوں،اے بنو آدم! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے، مگر جس کو میںہدایت دے دوں، تم میں سے ہر ایک ننگا ہے، مگر جس کو میں لباس عطا کر دوں، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے، مگر جس کو میںکھلا دوں اور تم میں سے ہر ایک پیاسا ہے، مگر جس کو میں پانی پلا دوں، لہٰذا مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، مجھ سے لباس کا سوال کرو، میں تم کو لباس عطا کروں گا، مجھ سے کھانا طلب کرو،میں تم کو کھلاؤں گا اور مجھ سے پانی طلب کرو، میں تم کو پانی پلاؤں گا، اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، جن اور انسان، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت اور بولنے سے عاجز اور فصیح الکلام، سارے کے سارے تم میں سے سب سے بڑے متقی کے دل کی مانند ہو جائیں تو تم میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں کرو گے، اور اگر تمہارے پہلے اور پچھلے، جن اور انسان، چھوٹے اور بڑے اور مذکر اور مؤنث، سارے کے سارے تم میں سے سب سے زیادہ کفر کرنے والے کے دل کی مانند ہو جائیں تو تم میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں کر سکو گے، مگر اتنی جتنی سوئی کا نکہ سمند کے پانی میں کمی کرتاہے۔

۔ (۱۰۱۶۱)۔ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ، عَنِ الْاَغَرِّ قَالَ: اَشْھَدُ عَلٰی اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، وَاَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، اَنَّھُمَا شَھِدَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یُمْھِلُ حَتّٰییَذْھَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ ثُمَّ یَنْزِلُ فَیَقُوْلُ: ھَلْ مِنْ سَائِلٍ؟ ھَلْ مِنْ تَائِبٍ؟ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟ ھَلْ مِنْ مُذْنِبٍ؟)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ: حَتّٰییَطْلُعَ الْفَجْرُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۱۱۳۱۵)

۔ اغرّ کہتے ہیں: میں سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر شہادت دی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ (آسمان دنیا کی طرف) اترتا ہے اور کہتا ہے: کیا کوئی سوال کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے؟ کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے؟ کیا کوئی گنہگار ہے؟ ایک بندے نے کہا: طلوع فجر تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔

۔ (۱۰۱۶۲)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّائٌ فَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ، وَلَوْ اَنَّ لِاِبْنِ آدَمَ وَادِیَـیْنِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغٰی لَھُمْا ثَالِثًا، وَلَا یَمْلَاُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۸۰)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ابن آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں، اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کو تلاش کرے گا، بس مٹی ہی ہے، جو ابن آدم کے پیٹ کو بھرتی ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتاہے۔

۔ (۱۰۱۶۳)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنْفِیَّۃَ، عَنْ اَبِیْہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ الْمُفَتَّنَ التَّوَّابَ۔)) (مسند احمد: ۶۰۵)

۔ محمد بن حنفیہؒ اپنے باپ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اس مؤمن بندے سے محبت کرتا ہے، جس کو فتنے میں ڈالا جاتا ہو اور پھر وہ توبہ کرنے والا ہو۔

۔ (۱۰۱۶۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ کُلَّ یَوْمٍ مِائْۃَ مَرَّۃٍ۔)) (مسند احمد: ۹۸۰۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو بار بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

۔ (۱۰۱۶۵)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَ فِیْ لِسَانِیْ ذَرَبٌ عَلٰی اَھْلِیْ لَمْ اَعْدُہُ اِلٰی غَیْرِھِمْ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَکَانَ ذٰلِکَ لَا یَعْدُوھُمْ اِلٰی غَیْرِھِمْ) فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَیْنَ اَنْتَ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ؟ یَا حُذَیْفَۃُ! اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کُلَّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ، وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔)) قَالَ: فَذَکَرْتُہُ لِاَبِیْ بُرْدَۃَ بْنِ اَبِیْ مُوْسٰی(یَعْنِیْ الْاَشْعَرِیَّ) فَحَدَّثَنِیْ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ، وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۷۲۹)

۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری زبان میں تیزی اور فساد تھا، لیکن اس کا تعلق صرف میرے گھر والوں سے تھا، ان سے آگے تجاوز نہیں کرتا تھا، جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تو استغفار سے دور کیوں ہے؟ میں تو ہر روزاللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ جب میں نے یہ بات ابو بردہ بن ابی موسی سے بیان کی تو انھوں نے مجھے سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ہر شب وروز میں سو بار اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔