Surat Younus

Surah: 10

Verse: 26

سورة يونس

لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی وَ زِیَادَۃٌ ؕ وَ لَا یَرۡہَقُ وُجُوۡہَہُمۡ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۶﴾

For them who have done good is the best [reward] and extra. No darkness will cover their faces, nor humiliation. Those are companions of Paradise; they will abide therein eternally

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت ، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Good-Doers Allah says; لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى ... For those who have done good is the best, Allah states that those who do good in this world -- by having faith and performing righteous deeds -- will be rewarded with a good reward in the Hereafter. Allah said: هَلْ جَزَاءُ الاِحْسَـنِ إِلاَّ الاِحْسَـنُ Is there any reward for good other than good. (55:60) Then Allah said: ... وَزِيَادَةٌ ... and even more. the reward on the good deeds multiplied ten times to seven hundred times and even more on top of that. This reward includes what Allah will give them in Paradise, such as the palaces, Al-Hur (virgins of Paradise), and His pleasure upon them. He will give them what He has hidden for them of the delight of the eye. He will grant them on top of all of that and even better, the honor of looking at His Noble Face. This is the increase that is greater than anything that had been given. They will not deserve that because of their deeds, but rather, they will receive it by the grace of Allah and His mercy. The explanation that this refers to looking at Allah's Noble Face was narrated from Abu Bakr, Hudhayfah bin Al-Yaman, Abdullah bin Abbas, Sa`id bin Al-Musayyib, Abdur-Rahman bin Abu Layla, Abdur-Rahman bin Sabit, Mujahid, Ikrimah, Amir bin Sa`ad, Ata', Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi, Muhammad bin Ishaq, and others from the earlier and later scholars. There are many Hadiths that contain the same interpretation. Among these Hadiths is what Imam Ahmad recorded from Suhayb that Allah's Messenger recited this Ayah, لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ... For those who have done good is the best and even more. And then he said: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ نَادَى مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللهِ مَوْعِدًا يُريدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ فَيَقُولُونَ وَمَا هُوَ أَلَمْ يُثَقِّلْ مَوَازِينَنَا أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوهَنَا وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّــةَ وَيُجِرْنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَيَكْشِفُ لَهُمُ الْحِجَابَ فَيَنْظُرُونَ إِلَيهِ فَوَاللهِ مَا أَعْطَاهُمْ اللهُ شَيْيًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ وَلاَا أَقَرَّ لاِاَعْيُنِهِم When the people of Paradise enter Paradise, a caller will say: `O people of Paradise, Allah has promised you something that He wishes to fulfill.' They will reply: `What is it? Has He not made our Scale heavy? Has He not made our faces white and delivered us from Fire?' Allah will then remove the veil and they will see Him. By Allah, they have not been given anything dearer to them and more delightful than looking at Him. Muslim and a group of Imams also related this Hadith. Allah then said: ... وَلاَ يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ ... Neither darkness nor dust shall cover their faces... meaning, no blackness or darkness will be on their faces during the different events of the Day of Judgment. But the faces of the rebellious disbelievers will be stained with dust and darkness. ... وَلاَ ذِلَّةٌ ... nor any humiliating disgrace, meaning, they will be covered with degradation and disgrace. The believers, however will not be humiliated internally or externally, on the contrary, they will be protected and honored. For as Allah has said: فَوَقَـهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَومِ وَلَقَّـهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً So Allah saved them from the evil of that Day, and gave them Nadrah (brightness) and joy. (76:11) meaning, light in their faces and delight in their hearts. May Allah make us among those by His grace and mercy. ... أُوْلَـيِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ They are the dwellers of Paradise, they will abide therein forever.

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہاں جس نے نیک اعمال کئے اور بایمان رہا وہاں اسے بھلائیاں اور نیک بدلے ملیں گے ۔ احسان کا بدلہ احسان ہے ۔ ایک ایک نیکی بڑھا چڑھا کر زیادہ ملے گی ایک کے بدلے سات سات سو تک ۔ جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح کی ٹھنڈک ، دل کی لذت اور ساتھ ہی اللہ عزوجل کے چہرے کی زیارت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم ہے بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ اے جنتیو ! تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا ، اب وہ بھی پورا ہو نے کو ہے ۔ یہ کہیں گے الحمد اللہ ہمارے میزان بھاری ہوگئے ، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے ، ہم جنت بمیں پہنچ گئے ، ہم جہنم سے دور ہوئے ، اب کیا چیز باقی ہے؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے ۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہوگا جو دیدار الٰہی میں ہوگا ۔ ( مسلم وغیرہ ) اور حدیث میں کہ منادی کہے گا حسنیٰ سے مراد جنت تھی اور زیارت سے مراد دیدار الٰہی تھا ۔ ایک حدیث میں یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے ۔ میدان محشر میں ان کے چہروں پر سیاہی نہ ہوگی نہ ذلت ہوگی ۔ جیسے کہ کافروں کے چہروں پر یہ دونوں چیزیں ہوں گی ۔ غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے وہ دور ہوں گے ۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور ۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 اس زیادہ کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں لیکن حدیث میں اس کی تفسیر دیدار باری تعالیٰ سے کی گئی ہے جس سے اہل جنت کو جنت کی نعمتیں دینے کے بعد، مشرف کیا جائے گا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] دیدار الہٰی کی لذت :۔ سیدنا صہیب (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ تم سے اللہ نے ایک اور بھی وعدہ کر رکھا ہے جسے وہ پورا کرنے والا ہے۔ جنتی کہیں گے کیا ہمارے چہرے روشن نہیں ہوئے یا اس نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی اور جنت میں داخل نہیں کردیا ؟ (تو اب کون سی کمی رہ گئی ہے ؟ ) آپ نے فرمایا && تب اللہ تعالیٰ حجاب کو ہٹا دے گا اللہ کی قسم ! جنتیوں کو جو کچھ بھی ملا ہوگا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب انہیں اللہ کی طرف نظر (دیدار) کرنا ہوگا && (ترمذی، کتاب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نیکوکاروں کو صرف ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ہی نہ ملے گا بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے اس سے بہت زیادہ ملے گا اور یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی جبکہ بدکاروں کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے جتنی برائی انہوں نے کی ہوگی۔ [٣٩] یعنی قیامت کے اس طویل دن میں جس کی مدت اس دنیا کے حساب سے پچاس ہزار برس کے برابر ہے کسی وقت بھی نیک اعمال کرنے والوں کے چہروں پر ایسی سیاہی اور ذلت نہیں چھائے گی جو کفار و فجار کے چہروں پر چھائی ہوگی بلکہ ان کے چہرے تر و تازہ، بارونق اور نورانی ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ: احسان کی تفسیر حدیث جبریل میں ہے، فرمایا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٥٠ ] ” اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو یقیناً وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “ مقصد یہ کہ خلوص کے ساتھ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو جنت کے ساتھ ایک عظیم زائد چیز بھی عطا ہوگی۔ ” زِیَادَۃٌ“ میں تنکیر تعظیم کے لیے ہے۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں ” اَلْحُسْنیٰ “ جو ” أَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، اس کا معنی سب سے اچھا بدلہ ہے اور فرمایا ایک عظیم زائد چیز بھی ہے۔ ” زِیَادَۃٌ“ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، اس ” زِیَادَۃٌ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ یہی مفہوم سورة نساء (١٧٣) ، نور (٣٨) اور سورة ق (٣٥) میں بیان ہوا ہے۔ متعدد صحیح احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چناچہ صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) اور فرمایا : ” جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو اس وقت ایک منادی کرنے والا پکارے گا : ” اے جنت والو ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا، وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی پورا کردیا جائے۔ “ وہ کہیں گے : ” وہ کون سا وعدہ ہے ؟ کیا اس نے ہمارے میزان (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کردیے ؟ کیا اس نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیے، ہمیں جنت میں داخل اور آگ سے محفوظ نہیں کردیا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَیُکْشَفُ لَھُمُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ إِلَیْہِ ، قَالَ : ” فَوَاللّٰہِ ! مَا أَعْطَاھُمْ شَیْءًا أَحَبَّ إِلَیْھِمْ مِنَ النَّظْرِ إِلَیْہِ وَلاَ أَقَرَّ بِأَعْیُنِھِمْ ) [ مسند أحمد : ٤؍ ٣٣٣، ح : ١٨٩٦٥۔ مسلم، الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین۔۔ : ١٨١ ]” اس وقت ان کے لیے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور وہ اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے۔ “ پھر فرمایا : ” اللہ کی قسم ! انھیں اب تک ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی جو انھیں اس دیدار سے زیادہ محبوب ہو اور اس میں ان کی آنکھوں کے لیے اس سے زیادہ ٹھنڈک ہو۔ “ اس آیت کی تفسیر ایک دوسری آیت اور اس کی تفسیر سے بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٧٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sense is that the invitation to the Abode of Peace (Daru &s-Salam) is universal, open to all human beings and, in terms of this sense, guidance too is open to all. But, there is a kind of guidance that is special. Here, a seeker is made to stand on the straight path and given the ability to move ahead on course. This is Taufiq at its best. Only fortunate people are blessed with it. Compared in the first two verses (24, 25) were the two Abodes of the present world and the world-to-come. Mention was also made of the states in which their dwellers were. The next four verses (26-29) de-scribe the reward and punishment of both. Taken up first were the people of Paradise. About them it was said that those who opted for good, the greatest good was that of &Iman (belief and faith) supplement¬ed by staunch adherence to al-&amalu &s-Salih (good deeds). They will have the best of returns for what they do, not simply what is coming to them as due, but much more than it. The tafsir of this verse was given by the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم himself. He explained it by saying, ` at this place, اَلحُسنیٰ :al-husna: the best [ of return ] means Jannah (Paradise) and (ziyadah: something more) means the visit to the most exalted Allah with which the people of Jannah shall be honored. (Tafsir al-Qurtubi on the authority of Sayyidna Anas (رض) . As for the reality of Paradise, this much every Muslim knows that it is a place of bliss beyond human imagination now. And as for the visit to Allah Ta` ala, that is far superior to whatever blessings there are. According to a narration of Sayyidna Suhayb (رض) appearing in the Sahih of Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, ` when the people of Jannah would have entered Jannah, Allah Ta` ala will address them: |"Do you need anything? If so, tell Us. We shall fulfill it.|" The people of Jannah will submit: |"You made our faces radiant with delight. You let us be in Jannah. You delivered us from Jahannam. What else can we ask for?|" That will be the time when the hi jab obstructing the view in between will be removed. The people of Jannah, one and all, will be blessed with seeing their true Lord. They will then discover that this was a blessing far more sub-lime than all other blessings of Jannah, something they had not even thought about, something the Lord of all the worlds bestowed upon them without their having to ask for it simply out of His infinite affection and mercy!& Then, the text describes the state of the same people of Jannah by saying that their faces will remain free of any effects of distaste, pain or sorrow, nor will they have to be worried about any disgrace. These are conditions everyone faces in the mortal world one or the other time - and those who go to Jahannam will face it in the Hereafter. In contrast, the state of the people of Jahannam has been described by saying that those who came with evil deeds in their record will have an equal return for each evil without any increase in it. They will have disgrace all over them. There will be no one to save them from the punishment of Allah. Dark will be their faces, so dark as if layers upon layers of a night have covered them up.

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دارالسلام کی دعوت تو سارے انسانوں کے لئے عام ہے اور اسی معنی کے اعتبار سے سب کے لئے ہدایت بھی عام ہے لیکن ہدایت کی خاص قسم کہ سیدھے راستہ پر کھڑا کردیا جائے اور چلنے کی توفیق دی جائے یہ خاص خاص ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ مذکورہ دو آیتوں میں دار دنیا اور دار آخرت کا تقابل اور اہل دنیا اور اہل آخرت کے احوال کا ذکر تھا۔ اگلی چار آیتوں میں دونوں فریق کی جزاء و سزا کا بیان ہے، پہلے اہل جنت کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے نیکی اختیار کی یعنی سب سے بڑی نیکی ایمان اور پھر عمل صالح پر قائم رہے ان کو ان کے عمل کا عمدہ اور بہتر بدلہ ملے گا، اور صرف بدلہ ہی نہیں بلکہ بدلہ سے کچھ زیادہ بھی۔ اس آیت کی تفسیر جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود فرمائی وہ یہ ہے کہ اس جگہ اچھے بدلہ سے مراد جنت ہے، اور زیادہ سے مراد حق تعالیٰ سبحانہ کی زیارت ہے جو اہل جنت کو حاصل ہوگی، ( تفسیر قرطبی بروایت انس ) ۔ جنت کی اتنی حقیقت سے تو ہر مسلمان واقف ہے کہ وہ ایسی راحتوں اور نعمتوں کا مرکز ہے جن کو انسان اس وقت تصور میں نہیں لا سکتا، اور حق تعالیٰ کی زیارت ان سب نعمتوں پر فائق ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب کی روایت سے منقول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہوچکیں گے تو حق تعالیٰ ان سے خطاب فرمائیں گے کہ کیا تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے ؟ اگر ہو تو بتلاؤ ہم اس کو پورا کریں گے، اہل جنت جواب دیں گے کہ آپ نے ہمارے چہرے روشن کئے، ہمیں جنت میں داخل فرمایا، جہنم سے نجات دی، اس سے زیادہ اور کیا چیز طلب کریں، اس وقت درمیان سے حجاب اٹھا دیا جائے گا اور سب اہل جنت حق تعالیٰ کی زیارت کریں گے تو معلوم ہوگا کہ جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت تھی جس کی طرف ان کا دھیان بھی نہ گیا تھا، جو رب العالمین نے محض اپنے کرم سے بےمانگے عطا فرمائی، بقول مولانا رومی : مانبو دیم وتقاضہ مانبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود اور پھر انہیں اہل جنت کا یہ حال بیان فرمایا کہ نہ ان کے چہروں پر کبھی کدورت یا تکلیف و غم کا اثر چھائے گا اور نہ ذلت کا اثر ہوگا جو دنیا میں ہر شخص کو کبھی نہ کبھی پیش آیا کرتا ہے اور آخرت میں اہل جہنم کو پیش آئے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَۃٌ۝ ٠ ۭ وَلَا يَرْہَقُ وُجُوْہَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۝ ٠ ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٢٦ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ رهق رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/ 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری. ( ر ھ ق ) رھقہ ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ قتر القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع . ( ق ت ر ) ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) جو لوگ توحید کے قائل ہونے ان کے لیے جنت ہے اور مزید برآں اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی یا یہ کہ ثواب میں زیادتی ہے اور ان کے چہروں پر نہ کدورت اور سیاہی چھائے گی اور نہ غم ذات، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) انہیں نیکی کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور مزید برآں انہیں انعامات سے بھی نوازاجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33. Apart from rewarding human beings in proportion to the good deeds that they have done, God also confers upon them, out of His sheer grace and bounty, a reward which is far in excess of their good deeds.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :33 یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: وعدے کا یہ انتہائی لطیف پیرایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ’’ کچھ اور‘‘ کو کھول کر بیان نہیں فرمایا، بلکہ پردے میں رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں تمام بہترین نعمتوں کے علاوہ کچھ نعمتیں ایسی ہوں گی کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو بیان بھی فرما دیں تو ان کی لذت اور حلاوت کو انسان اس وقت محسوس کر ہی نہیں سکتا۔ بس انسان کے سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اضافی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہی کی شان کے مطابق ہوں گی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر یہ منقول ہے کہ جب تمام جنتی جنت کی نعمتوں سے سرشار اور ان میں مگن ہوچکے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہم نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا، اب ہم اسے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ جنت کے لوگ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں دوزخ سے بچا کر اور جنت عطا فرما کر سارے وعدے پورے کردئیے ہیں۔ اب کونسا وعدہ رہ گیا؟ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنا حجاب ہٹا کر اپنی زیارت کرائیں گے، اور اس وقت جنت والوں کو محسوس ہوگا کہ یہ نعمت ان تمام نعمتوں سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہے جو انہیں اب تک عطا ہوئی ہیں (روح المعانی بحوالہ صحیح مسلم وغیرہ)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٦۔ ٢٧۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سوائے جزائے مقررہ کے اپنی طرف سے اور زیادہ انعام بھی عنایت فرمادے گا اگرچہ بعضے مفسروں نے اس زیادہ انعام کی تفسیر کی ہے کہ نیکی کا بدلہ ایک درجہ تک تو جزا ہے دس درجہ سے سات سو درجہ تک ثواب ملنے کا ذکر جو صحیح بخاری و مسلم کی چند روایتوں میں آیا ہے وہی انعام ہے لیکن صحیح تفسیر اس انعام کی وہی ہے جس کا ذکر خاص طور پر صحیح حدیث میں آچکا ہے۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہوجاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرماوے گا کہ کیا تمہارے دل میں کچھ اور زیادہ انعام کی ہوس ہے اہل جنت عرض کریں گے یا اللہ تو نے ہم کو جنت میں داخل کیا ہے یہی ہم کو بڑا انعام ہے اللہ تعالیٰ فرماوے گا ابھی تمہارا انعام باقی ہے یہ فرما کر پھر ان کو اپنے دیدار سے مشرف فرما دے گا۔ جو سب نعمتوں کو بڑھ کر اہل جنت کو ایک نعمت نظر آوے گی۔ صحیح بخاری و مسلم میں جریر بن عبد اللہ (رض) وغیرہ سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیدار الٰہی کا ذکر تفصیل سے فرمایا ہے۔ دیدار الٰہی کے ممکن نہ ہونے پر فرقہ معتزلہ نے جو عقلی اعتراض کئے ہیں ان کا جواب اہل سنت نے تفصیل سے دیا ہے کہ جس کی صراحت حدیث کی شرح کی کتابوں اور تفسیر میں ہے ان آیتوں میں مسلمانوں کے منہ پر سیاہی نہ چھانے اور نافرماں بردار لوگوں کے چہروں پر سیاہی اور خواری چھا جانے کا جو تذکرہ ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حساب و کتاب ہوگا اور لوگوں کے سیدھے ہاتھ میں اور الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال دئیے جاویں گے۔ چناچہ معتبر سند سے ترمذی صحیح ابن حبان اور بیہقی میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حساب کے وقت ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کے روبرو بلوایا جاوے گا جس کے سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جاوے گا اس کے منہ پر رونق آجاوے گی اور جس کے الٹے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جاوے گا اس کے منہ پر سیاہی اور خواری چھاوے گی اس حدیث سے چہروں پر رونق کے آجانے اور سیاہی کے چھا جانے کا وقت اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:26) احسنوا۔ انہوں نے بھلائی کی۔ انہوں نے احسان کیا۔ احسان سے ماضی جمع مذکر غائب۔ یعنی جس کام کے کرنے کا حکم تھا اس کو بجالائے۔ اور جس سے منع کیا گیا اس سے باز رہے۔ حضور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کی تعریف یہ کی ہے : ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے جیسا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو اس طرح کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے الحسنی۔ حسن سے افعل التفضیل کا صیغہ واحد مؤنث۔ اچھی۔ عمدہ نیک جزاء ای المنزلۃ الحسنی۔ یعنی جنت۔ وزیادۃ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ یعنی دیدار الٰہی۔ لایرھق مضارع منفی واحد مذکر غائب رھق مصدر (باب سمع) نہیں چھائے گا۔ رھق چھا جانا۔ پالینا۔ ایک شے کا دوسری شے پر زبردستی چھا جانا۔ قتر۔ غبار (الفرائد الدریۃ) فتروقتار کے اصل معنی لکڑی کا اٹھتا ہوا دھواں ہے۔ کنجوس آدمی بھی مال دینے کی بجائے گویا دھواں دے کر بہلاتا ہے۔ یہاں مراد سیاہی سے ہے (المفردات) کنجوسی، بخیلی، اسراف کی ضد ہے۔ یہاں غبار ہی زیادہ موزوں ہے (رسوائی و ذلت کا ) غبار۔ (ضیاء القرآن) ولا یرھق وجوہہم قتر ولاذلۃ۔ اور ان کے چہروں پر نہ رسوائی کا غبار چھایا ہوگا اور نہ ذلت کا (اثر ہوگا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا دیا۔ (ابن کثیر) اس آیت کریمیہ میں ” الحسنی “ سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں اور ” زیادہ “ سے اللہ تعالیٰ کا یدار جیسا کہ متعدد صحیح احادیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے مثلاً حضرت صہیب (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی کرنیوالا پکارے گا۔” اے جنت والو ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا وہ اس آج پورا کرنا چاہتا ہے۔ وہ عرض کریں گے وہ کونسا وعدہ ہے کیا اس نے ہمارے معازین (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کردئیے ؟ یا اس نے ہمیں سرخرو بنا کر جنت میں داخل اور آگے سے محفوظ نہیں کردیا۔ اس وقت پردہ اٹھے گا اور اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اللہ کی قسم روایت باری تعالیٰ سے زیادہ پسندیدہ اور آنکھوں کو سرور بخشنے والی چیز ان کے لئے کوئی نہ ہوگی۔ (مسلم) اس بنا پر اکثر صحابہ (رض) ، تابعین (رض) اور بعد کے علما نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ (نیز دیکھئے سورة القیامہ آیت 32) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 30 الحسنی (بھلائی، نیکی) لا یرھق (نہ ڈھانپ لے گی) فتر (سیاہی، اندھیرا) کسبوا (انہوں نے کمایا) السیئات (سیتہ) ، برائیاں عاصم (بچانے والا) اغشیت (ڈھانپ لی گئی) قطع (ٹکڑے) مظلم (سیاہی) نحشر (ہم جمع کریں گے) مکانکم (تم اپنی جگہ رہو) زیلنا (ہم پھوٹ ڈال دیں گے) ھنالک (اسی جگہ) اسلفت (اس نے پہلے سے کیا تھا) ضل (گم ہوگیا، گم ہوجائیں گے) تشریح :- آیت نمبر 26 تا 30 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل جہنم یعنی اچھے اور برے اعمال کے نتائج اور انجام کی وضاحت فرمائی ہے ۔ فرمایا کہ وہ دن جب سارے انسان میدان حشر میں جمع ہوں گے اس وقت اہل جنت کے چہرے تو چمک رہے ہوں گے جب کہ کفار، فساق اور مشرکین کے چہروں پر سیاہی اور تاریکی چھائی ہوئی ہوگی۔ اس دن ان پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندگی بھر وہ جن بتوں اور انسانوں کو اپنا معبود سمجھ کر ان کی عبادت و بندگی کرتے رہے ہیں وہ محض ان کے اپنے خیالات، توہمات اور خود ساختہ جذبات تھے۔ پھر بھی ان کے دلوں میں ایک نامعلوم سی امید ہوگی کہ آخر وہ معبود جن کی ہم زندگی بھر عبادت و بندگی کرتے رہے ہیں ہمارے کچھ تو اکم آئیں گے، خیالات کی اسی کشمکش میں ان کے جھوٹے معبود خود ہی بول اٹھیں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ اس بات کے گواہ ہیں کہ جو لوگ ہماری عبادت و بندگی کرتے تھے انہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا وہ ان کا اپنا فعل تھا۔ ہمیں تو پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ ہمیں معبود کیوں بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے فہم و فکر کی غلطی تھی۔ اگر یہ کہیں سے پتھر اٹھا کرلے آئے اور اس میں اپنے ہاتھوں سے شکل صورت بنا کر انہوں نے سجدے کرنے شروع کردیئے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟ اس کی سرا سر ذمہ داری ان کے سروں پر ہے یہ سنتے ہی اہل جہنم کے چہرے اور بھی سیاہ پڑجائیں گے کہ وہ معبود تو ہمارے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ دوسری طرف اہل جنت ہوں گے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ زندگی گذاری ہوگی ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے۔ اس دن ان پر اللہ کا خصوصی فضل و کرم ہوگا اور ان کے چہروں پر کسی طرح کی سیاہی یا ذلت و رسوائی کا شائبہ تک نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ وہ بڑی عزت و سربلندی کے ساتھ ان جنتوں میں داخل ہوں گے اور یہ تصور ان کی خوشیوں میں اور اضافہ کر دے گا کہ یہ آخرت کا گھر یہ جنت کی راحتیں انہیں وقتی طور پر نہیں دی گئی ہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عطا کردی گئی ہیں۔ جہاں اہل جنت کے لئے یہ تصور بڑا حسین ہوگا کہ وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے وہیں اہل جہنم کی مایوسیوں کی انتہا یہ ہوگی کہ اب وہ کبھی اس آگ سے باہر نکل سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 96 ایک نظر میں للذین احسنوا الحسنٰی وزیادۃ جن لوگوں نے (دنیا میں) نیک عمل کئے ‘ ان کیلئے (آخرت میں) اچھا ثواب ہوگا اور مزید (انعام) بھی۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے احسان کی تشریح میں فرمایا : احسان (عبادت کا حسن) یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا (عبادت کے وقت) تم اس کو دیکھ رہے ہو ‘ اگر تمہارا معائنہ نہ ہو (اور یہ درجہ میسر نہ ہو تو کم سے کم اتنا یقین رکھو کہ) وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ صحیحین من حدیث عمر بن الخطاب۔ الحسنٰی سے مراد ہے اچھا ثواب ‘ یعنی جنت۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا (یعنی) لاآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ کی شہادت دی۔ الْحُسْنٰی (یعنی) جنت وَزِیَادَۃٌ (یعنی) اللہ کی طرف دیکھنا۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا ارشاد یہی نقل کیا ہے ‘ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ ایک منادی مقرر فرمائے گا جو اتنی آواز سے ندا کرے گا کہ اگلے پچھلے سب سن لیں گے : اے اہل جنت ! اللہ نے تم سے اچھے ثواب کا وعدہ کیا تھا اور زیادت کا بھی۔ اچھا ثواب جنت ہے اور مزید (انعام) رحمن کا دیدار حاصل ہونا۔ ابن جریر ‘ ابن مردویہ ‘ لالکانی اور ابن ابی حاتم نے مختلف سندوں سے حضرت ابی بن کعب کی مرفوع حدیث ایسی ہی نقل کی ہے۔ ابن مردویہ ‘ ابو الشیخ اور لالکانی نے حضرت انس کی مرفوع حدیث ‘ نیز ابو الشیخ نے حضرت ابوہریرہ کی مرفوع روایت بھی اسی مضمون کی بیان کی ہے۔ ابن جریر ‘ ابن مردویہ ‘ ابن المنذر اور ابو الشیخ نے اپنی اپنی تفسیروں میں اور لالکانی نے ‘ نیز اجری نے کتاب الرویتہ میں حضرت ابوبکر صدیق کا قول نقل کیا ہے۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابو الشیخ ‘ لالکانی اور اجری نے حضرت حذیفہ بن یمان کا قول اس آیت کے ذیل میں یہی بیان کیا ہے۔ ہناد ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابو الشیخ اور لالکانی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی نقل کیا ہے۔ ابن مردویہ نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔ ابن ابی حاتم اور لالکانی نے بطریق سدی از ابو مالک از ابو صالح حضرت ابن عباس کا قول اور عکرمہ کے حوالہ سے حضرت ابن مسعود کا قول بھی یہی لکھا ہے۔ لالکانی نے یہی تفسیری قول اپنی اسنادوں سے حضرت سعید بن مسیب ‘ حسن بصری ‘ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ‘ عامر بن سعید بجلی ‘ ابن ابی اسحاق سبیعی ‘ عبدالرحمن بن سابط ‘ عکرمہ ‘ مجاہد اور قتادہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ قرطبی نے کتاب الرویتہ میں لکھا ہے : یہ تفسیر صحابہ اور تابعین میں مستفیص اور مشہور تھی اور ایسی اجماعی تفسیر رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے سنے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ مسلم اور ابن ماجہ نے حضرت صہیب کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : جب اہل جنت ‘ جنت میں داخل ہوچکیں گے تو اللہ ان سے فرمائے گا : کیا تم اس سے زیادہ کچھ اور چاہتے ہو ؟ جنتی عرض کریں گے : کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دئیے ‘ کیا تو نے ہم کو جنت میں داخل نہیں کردیا ‘ کیا تو نے ہم کو دزخ سے نہیں بچا لیا (اس سے زیادہ ہم اور کس چیز کی خواہش کرسکتے ہیں) اللہ فوراً (اپنے چہرہ سے) پردہ اٹھا لے گا اور اہل جنت اللہ کی طرف دیکھیں گے۔ پس اس وقت تک جو کچھ ان کو دیا گیا ہوگا ‘ سب سے زیادہ محبوب ان کو اللہ کی طرف دیکھنا ہوگا (یعنی اللہ کے دیدار کے مقابلہ میں جنت کی ساری نعمتیں ہیچ ہوجائیں گی) قرطبی نے لکھا ہے : پردہ کھول دینے سے یہ مراد ہے کہ اللہ کے دیدار سے تمام رکاوٹیں دور کردی جائیں گی اور جنتی اپنی آنکھوں سے نور عظمت و جلال کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح وہ ہے۔ گویا پردہ مخلوق کیلئے پردہ ہے (مخلوق اس کو اب یہاں نہیں دیکھ سکتی ‘ اس کی آنکھوں کیلئے پردہ ہے) خالق کیلئے پردہ نہیں ہے (وہ مخفی نہیں ہے بلکہ مخلوق کی آنکھوں پر حجاب ہے) ۔ ولا یرھق وجوھھم قترو لاذلۃ اور ان کے چہروں پر نہ (غم کی) کدورت چھائے گی نہ ذلت۔ ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابن عباس و حضرت ابن مسعود کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ قتر اس غبار کو کہتے ہیں جس میں سیاہی ہو۔ ذلت کا معنی ہے : حقارت ‘ یعنی دوزخیوں کی طرح اہل جنت کے چہروں پر نہ غبار کی سیاہی چھائی ہوئی ہوگی نہ ذلت۔ اولئک اصحٰب الجنۃ ھم فیھا خٰلدون یہ ہی اہل جنت ہوں گے جس کے اندر ہمیشہ رہیں گے۔ جنت کی نعمتوں کا زوال نہ ہوگا نہ وہ کبھی فنا ہوں گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُو الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے حسنیٰ ہے اور زیادہ انعام ہے حسنیٰ فعلی کے وزن پر ہے جس کا لغوی ترجمہ ” خوبی “ سے کیا گیا ہے۔ حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ حسنی سے جنت مراد ہے اور زیادہ سے دیدار الٰہی مراد ہے۔ جنت میں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی کسی کی کمی نہ ہوگی۔ وہ خود بہت بڑی جگہ ہے لیکن اس نعمت پر مزید نعمت یہ ہوگی کہ اہل جنت اپنے رب جل مجدہ کا دیدار بھی کریں گے۔ تفسیر در منثور (ص ٣٠٥) میں حضرت صہیب ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت کعب بن عجرہ اور حضرت ابی بن کعب اور حضرت انس بن مالک (رض) سے متعدد کتب حدیث کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زِیَادَۃٌ کی تفسیر فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ زِیَادَۃٌ سے اللہ جل شانہ کا دیدار مراد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ جل شانہ ‘ کا ارشاد ہوگا کیا تم کچھ اور چاہتے ہو جو تمہیں عطا کر دوں وہ عرض کریں گے (ہمیں اور کیا چاہئے) کیا آپ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کر دئیے اور کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور کیا آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی (یہ بہت بڑا انعام ہے) اس کے بعد پردہ اٹھا دیا جائے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے ‘ انہیں کوئی بھی ایسی چیز نہ دی جائے گی جو انہیں اپنے رب کے دیدار سے بڑھ کر محبوب ہو اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) (رواہ مسلم ص ١٠٠ ج ١) پھر اہل جنت کے ایک مزید انعام کا تذکرہ فرمایا (وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَرٌوَّلَا ذِلَّۃٌ) (ان کے چہروں پر کدورت چھائی ہوئی نہ ہوگی اور نہ ذلت) یعنی ان کے چہرے بد صورت نہ ہوں گے ان پر ذلت کا کوئی اثر نہ ہوگا سورة القیامہ میں فرمایا (وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ) (اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے) سورة المطفّفین میں فرمایا (تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ ) (اے مخاطب تو ان کے چہروں میں نعمت کی ترو تازگی کو پہچانے گا) جو شخص دارالسلام میں ہو اپنے رب کا دیدار کرتا ہوں اس کا چہرہ کیوں حسین و جمیل اور پر رونق نہ ہوگا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ساری امتوں کے درمیان سے میں اپنی امت کو اس طرح پہچان لوں گا کہ ان کے چہرے روشن ہوں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں وضو کے اثر سے سفید ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٠) پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) (یہ لوگ جنت والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 جن لوگوں نے اچھے اور بھلے کام کئے ان کے لئے خوبی اور بھلی چیز ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے اور ان کے چہروں پر نہ تو غم اور پریشانی کی سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت یہی لوگ جنتی اور اہل جنت ہیں وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ بھلے کام کرنے والوں کے لئے بھلی چیز سے مراد جنت ہے یعنی جنہوں نے عبادت اچھے طور پر ادا کی ان کو اچھا بدلہ ملے گا اور فرمایا اس سے زیادہ بھی اس کے بہت سے معنی ہیں اور قول راحج یہ ہے کہ اس سے مراد دیدارِ الٰہی ہے سیاہی سے مراد وہ پھٹکار اور ذلت و رسوائی جو اہل دوزخ کے چہروں سے نمایاں ہوگی اس سے ان کے چہرے محفوظ ہوں گے بلکہ ان کے چہروں سے مسرت اور خوشی ٹپک رہی ہوگی۔