Surat Younus

Surah: 10

Verse: 61

سورة يونس

وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۱﴾

And, [O Muhammad], you are not [engaged] in any matter or recite any of the Qur'an and you [people] do not do any deed except that We are witness over you when you are involved in it. And not absent from your Lord is any [part] of an atom's weight within the earth or within the heaven or [anything] smaller than that or greater but that it is in a clear register.

اور آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everything Small or Large is within the Knowledge of Allah Allah tells; وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْانٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الاَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ Neither you do any deed nor recite any portion of the Qur'an, nor you do any deed, but We are Witness thereof when you are doing it. And nothing is hidden from your Lord (so much as) the weight of a speck of dust on the earth or in the heaven. Not what is less than that or what is greater than that but is (written) in a Clear Record. Allah informed His Prophet that He knows and is well acquainted with all of the affairs and conditions of him and his Ummah and all of creation and its creatures at all times -- during every hour and second. Nothing slips or escapes from His knowledge and observation, not even anything the weight of a speck of dust within the heavens or earth, or anything that is smaller or larger than that. Everything is in a manifest Book, as Allah said: وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَأ إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ And with Him are the keys of the Ghayb (all that is hidden and unseen), none knows them but He. And He knows whatever there is in the land and in the sea; not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) He stated that He is Well-Aware of the movement of the trees and other inanimate objects. He is also Well-Aware of all grazing beasts. He said: وَمَا مِن دَابَّةٍ فِى الاٌّرْضِ وَلاَ طَايِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَـلُكُمْ There is not a moving creature on earth, nor a bird that flies with its two wings, but are communities like you. (6:38) He also said: وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا And no moving creature is there on earth but its provision is due from Allah. (11:6) If this is His knowledge of the movement of these things, then what about His knowledge of the movement of the creatures that are commanded to worship Him Allah said: وَتَوكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ الَّذِى يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِى السَّـجِدِينَ And put your trust in the Almighty, the Most Merciful, Who sees you when you stand up, and your movements among those who fall prostrate. (26:217-219) That is why Allah said: وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْانٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ... Neither you do any deed nor recite any portion of the Qur'an, nor you do any deed, but We are Witness thereof when you are doing it. meaning, `We are watching and hearing you when you engage in that thing.' When Jibril asked the Prophet about Ihsan, he said: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاك It is that you worship Allah as if you are seeing Him. But since you do not see Him, be certain that He is watching you.

اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امت کے تمام احوال ہر وقت اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کے کل کام اس کے علم میں ہیں ۔ اس کے علم سے اور اس کی نگاہ سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ۔ سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ وہ خشکی و تری کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ہر پتے کے جھڑنے کی اسے خبر ہے ۔ زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہو ، جو تر و خشک چیز ہو ، سب کتاب مبین میں موجود ہے ۔ الغرض درختوں کا ہلنا ۔ جمادات کا ادھر ادھر ہونا ، جانداروں کا حرکت کرنا ، کوئی چیز روئے زمین کی اور تمام آسمانوں کی ایسی نہیں ، جس سے علیم و خبیر اللہ بےخبر ہو ۔ فرمان ہے ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) ایک اور آیت میں ہے کہ زمین کے ہر جاندار کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے ۔ جب کہ درختوں ، ذروں جانوروں اور تمام تر و خشک چیزوں کے حال سے اللہ عزوجل واقف ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بندوں کے اعمال سے وہ بےخبر ہو ۔ جنہیں عبادت رب کی بجا آوری کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے اس ذی عزت بڑے رحم وکرم والے اللہ پر تو بھروسہ رکھ جو تیرے قیام کی حالت میں تجھے دیکھتا رہتا ہے سجدہ کرنے والوں میں تیرا آنا جانا بھی دیکھ رہا ہے ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ تم سب ہماری آنکھوں اور کانوں کے سامنے ہو ۔ حضرت جبرائیل نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احسان کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے یقیناً دیکھ ہی رہا ہے

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور لحاظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورة انعام، آیت 59 میں گزر چکا ہے ' اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہ جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے ' وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات و اعمال سے کیوں کر بیخبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] آپ کی اور مشرکوں کی سرگرمیوں کا تقابل :۔ اس آیت میں بیک وقت رسول اللہ کو بھی مخاطب بنایا گیا ہے اور مشرکین مکہ کو بھی۔ اور ان دونوں کی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے یعنی ایک طرف تو آپ کی ذات مبارک ہے جنہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کردیا تھا اور اسی مقصد کے لیے اپنی جان تک کھپا رہے ہیں لوگوں کو جا جا کر قرآن سنا رہے ہیں اور اس کے ذریعہ جہاد کر رہے ہیں اور جب لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو انتہائی صدمہ ہوتا ہے دوسری طرف آپ کے مخالفین ہیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دکھ دینے اور تکلیفیں پہنچانے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کی ہر راہ کو روکنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی گویا اس آیت میں کافروں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جو کرتوتیں بھی تم کرتے ہو یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں پہلے سے ہی موجود ہے پھر وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو دیکھ بھی رہا ہے اور وہ ریکارڈ بھی ہوتی جارہی ہے لہذا اپنی ان سرگرمیوں کے انجام کی ابھی سے فکر کرلو اور نبی کو یہی بات کہہ کر تسلی دی جارہی ہے اور صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ ۔۔ : اس آیت کے شرو ع میں دو صیغے ” تَكُوْنُ “ اور ” تَتْلُوْا “ واحد مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ” تو “ ہے اور دو صیغے ” تَعْمَلُوْنَ “ اور ” تُفِيْضُوْنَ “ جمع مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ” تم “ ہے۔ مفسرین نے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ پہلے دونوں الفاظ کے مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور بعد والے دونوں الفاظ کے مخاطب تمام لوگ ہیں۔ متن میں آیت کا ترجمہ لفظوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے دونوں الفاظ میں خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر اس میں بھی تمام لوگ شامل ہیں، اس لیے بعد والے صیغے جمع لائے گئے ہیں، مراد ہر مخاطب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ) [ الطلاق : ١ ] ” اے نبی ! جب تم (لوگ) عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ۔ “ اس میں ابتدا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے تمام امت کو شامل کرلیا ہے۔ یعنی لوگوں میں سے کوئی بھی کسی حال میں ہو، قرآن پڑھ رہا ہو یا کوئی اور عمل کر رہا ہو اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہوتا ہے۔ یہ تفسیر بھی صحیح ہے۔ ” شَاْنٍ “ کا معنی حال ہے، مگر ایسا حال جو اہمیت رکھتا ہو، جیسے فرمایا : (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ یہ لفظ معمولی اور حقیر کام پر نہیں بولا جاتا۔ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ : ” مِنْهُ “ کی ضمیر کے متعلق مفسرین نے بہت سے احتمال ذکر فرمائے ہیں کہ یہ کس کی طرف لوٹتی ہے، وہ سب درست ہیں، مگر میری دانست میں ان میں سب سے آسان اور واضح وہ ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہو رہا ہے، یعنی یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے، کیونکہ قرآن اسی کی طرف سے آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف ضمیر لوٹانے کے لیے اس کا پہلے ذکر ہونا ضروری نہیں، کیونکہ وہ ہر وقت ہر ذہن میں موجود ہے۔ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ ۔۔ : اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے تسلی کا پیغام ہے کہ آپ کی بندگی کی ہر ہر ادا اور عمل ہمارے سامنے ہے اور مخالفین کے لیے وعید ہے کہ تم جو عمل کرتے ہو، تمہارے اس کام میں مشغول ہوتے ہی ہم بھی گواہ ہوتے ہیں، نہ ہم اس سے بیخبر ہیں، نہ تم اس کی سزا سے بچ سکو گے۔ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ ۔۔ : یہ بعض جاہل فلسفیوں کی اس بات کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ کلیات کو جانتا ہے جزئیات کو نہیں جانتا، بڑی بڑی باتیں اس کے علم میں آتی ہیں، چھوٹی باتیں نہیں۔ ” ذَرَّةٍ “ سب سے چھوٹی چیونٹی کو بھی کہتے ہیں اور روشن دان وغیرہ سے آنے والی روشنی کے اندر بکھرے ہوئے باریک ذروں کو بھی۔ فرمایا کہ زمین ہو یا آسمان اس میں نہ ایک ذرہ برابر چیز اس سے غائب ہے، نہ اس سے بھی چھوٹی یا بڑی کوئی چیز، بلکہ وہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ کتاب مبین کا معنی لوح محفوظ بھی کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم بھی۔ اسی آیت کی ہم معنی سورة انعام کی آیات (٥٩، ٦٠) ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fifth verse (61), mention has been made of the all-encompassing knowledge of the most exalted Allah and its unmatched multi-dimensional extensions. The address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He is being told that nothing he does by way of his work or recital of the Qur&an remains hidden from Allah. Similarly, whatever all human beings do remains before Him. And not even a single parti¬cle in the heavens and the earth is concealed from Him. Rather, everything is written in the clear Book, that is, the Preserved Tablet (al¬ lawh al-mahfuz). At this place, as it seems, the wisdom of describing the all-encompassing nature of Divine knowledge is aimed at consoling the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that his enemies cannot harm him in any way for he was under the protection of Allah Ta` ala.

چوتھی آیت میں اللہ جل شانہ کے علم محیط اور اس کی بےمثال وسعت کا ذکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے کیا گیا ہے کہ آپ جس کام اور جس حال میں ہمیشہ ہوتے ہیں یا قرآن پڑھتے ہیں اس کا کوئی جزء ہم سے مخفی نہیں اسی طرح تمام انسان جو کچھ عمل کرتے ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں اور آسمان و زمین میں کوئی ایک ذرہ بھی ہم سے چھپا ہوا نہیں ہے بلکہ ہر چیز کتب مبین یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوتی ہے۔ بطاہر اس جگہ علم الہٰی کی وسعت اور ہر چیز کو محیط ہونے کے بیان میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جائے کہ اگرچہ مخالف اور دشمن آپ کے بہت ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی حفاظت آپ کے ساتھ ہے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۝ ٦١ شأن الشَّأْنُ : الحال والأمر الذي يتّفق ويصلح، ولا يقال إلّا فيما يعظم من الأحوال والأمور . قال اللہ تعالی: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وشَأْنُ الرّأس جمعه : شَئُونٌ ، وهو الوصلة بين متقابلاته التي بها قوام الإنسان . ( ش ء ن ) شان کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو ۔ اسکا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے شان الراس کھوپڑی کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے اسکی جمع شؤون آتی ہے ۔ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے فيض فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة/ 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف/ 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ عزب العَازِبُ : المتباعد في طلب الکلإ عن أهله، يقال : عَزَبَ يَعْزُبُ ويَعْزِبُ «3» . قال تعالی: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس/ 61] ، ( ع ز ب ) عزب العازب وہ آدمی جو گھاس کی تلاش میں اپنے اہل عیال سے دور نکل جائے عزب یعزب ویعزب ( ض ن ) دور نکل جانا پوشیدہ ہوجا نا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔ مِثْقَال : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات . والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين : أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا . والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] . المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔ ذرة الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ، وقال : وَمِنْ ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ [ البقرة/ 128] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقالَ ذَرَّةٍ [ النساء/ 40] ، وقد قيل : أصله الهمز، وقد تذکر بعد في بابه . ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی وَمِنْ ذُرِّيَّتِنا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ [ البقرة/ 128] اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہیو ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقالَ ذَرَّةٍ [ النساء/ 40] خدا کسی کو ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا ۔ اور کہا گیا ہے کہ ذریۃ آصل میں مہموز اللام ہے اور ( ذرء ) میں اس پر بحث آرہی ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ كبير الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف/ 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ/ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة/ 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان، ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف/ 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ/ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة/ 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خواہ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن کریم کی سورت یا آیت پڑھتے ہوں اور اسی طرح اور لوگ بھی جو نیکیاں اور برائیاں کرتے ہیں۔ ہمیں تمہاری سب حالتوں اور تمہاری تلاوت اور تمہارے سب کاموں کی خبر رہتی ہے، جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور قرآن کریم کی تکذیب میں لگتے ہو اور بندوں کے اعمال میں سے آپ کے رب کے علم سے کوئی چیز بھی ذرہ برابر غائب نہیں اور نہ کوئی چیز اس مقدار مذکور سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی چیز اس سے بڑی اور بھاری ہے مگر یہ سب بوجہ احاطہ علم الہی کے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط) اس انداز تخاطب میں ایک خاص کیف ہے۔ پہلے واحد کے صیغے میں حضور اکرم سے خطاب ہے اور آپ کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ آپ جس کیفیت میں بھی ہوں ‘ قرآن پڑھ رہے ہوں یا پڑھ کر سنا رہے ہوں ‘ ہم بذات خود آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کی آواز سن رہے ہوتے ہیں۔ پھر اسی خوشخبری کو جمع کے صیغے میں تمام مسلمانوں کے لیے عام کردیا گیا ہے کہ تم لوگ جو بھی بھلائی کماتے ہو ‘ قربانیاں دیتے ہو ایثار کرتے ہو ‘ ہم خود اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم تمہارے ایک ایک عمل کے گواہ اور قدردان ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے بندوں کے بارے میں تغافل یا ناقدری نہیں ہے۔ (وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ وََلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرَ الاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) کوئی ذرہ برابر چیز یا اس سے چھوٹی یا بڑی آسمانوں اور زمین میں ایسی نہیں ہے جو کبھی رب ذوالجلال کی نظر سے پوشیدہ ہوگئی ہو اور وہ ایک روشن کتاب میں درج نہ ہو۔ یہ روشن کتاب اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. The purpose of the statement is to console the Prophet (peace be on him) and to warn his enemies. On the one hand, the Prophet (peace be on him) is being reassured that the resoluteness, diligence and perseverance which characterize his efforts in preaching the truth and attempting to reform people is well known to God. It can hardly be conceived that after entrusting to the Prophet (peace be on him) a perilous task that God would leave him alone, unassisted. God knows full well all what the Prophet (peace be on him) does, and is also well aware of how others behave towards him. At the same time what is being said also constitutes a warning to the Prophet's opponents. If they obstruct the efforts of the Messenger of the truth, of one engaged in reforming mankind out of sincerity and goodwill, there is no reason for them to assume that no one is observing their deeds, or that they will never be called to account. They ought to take heed for all their deeds are being duly recorded on the Divine Scroll.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :64 یہاں اس بات کا ذکر کرنے سے مقصود نبی کو تسکین دینا اور نبی کے مخالفین کو متنبہ کرنا ہے ۔ ایک طرف نبی سے ارشاد ہو رہا ہے کہ پیغام حق کی تبلیغ اور خلق اللہ کی اصلاح میں جس تن دہی و جاں فشانی اور جس صبر و تحمل سے تم کام کر رہے ہو وہ ہماری نظر میں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پُرخطر کام پر مامور کر کے ہم نے تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہو ۔ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں ۔ دوسری طرف نبی کے مخالفین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ایک داعی حق اور خیر خواہ خلق کی اصلاحی کوششوں میں روڑے اٹکا کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کوئی تمہاری ان حرکتوں کو دیکھنے والا نہیں ہے اور کبھی تمہارے ان کرتوتوں کی باز پرس نہ ہوگی ۔ خبردار رہو ، وہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو ، خدا کے دفتر میں ثبت ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: قیامت میں انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو مشرکین عرب اس وجہ سے ناممکن سمجھتے تھے کہ اربوں انسان جب مر کر مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوچکے ہوں گے، اس کے بعد ان سب کو اکٹھا کر کے دوبارہ زندگی کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ مٹی کا کونسا ذرہ اصل کس انسان کے جسم کا حصہ تھا۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم کو اپنے اوپر قیاس مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦١۔ اللہ پاک نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں یہ جتلایا ہے کہ آپ یا آپ کی امت کے لوگ جو کام کرتے ہیں خدا اس کو دیکھتا ہے ہر شخص کا چلنا پھرنا برے اچھے عمل قرآن مجید کی تلاوت کا کرنا سب اس پر ظاہر ہے کیوں کہ زمین و آسمان میں جتنی چھوٹی بڑی چیزیں ہیں علم الٰہی کے نتیجہ کے طور پر وہ سب ذرہ ذرہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی اس لئے جب جبرئیل (علیہ السلام) ایک آدمی کی صورت بن کر آئے اور آپ سے سوال کیا کہ احسان کیا شی ہے آپ نے فرمایا کہ خدا کی عبادت کرنے کی حالت میں یہ سمجھنا کہ ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ خیال کرنا کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے یہ حدیث (کنا علیکم شھودا) کی گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی یہ حدیث ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے اسی طرح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں علم الٰہی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں سب چیزوں کے لکھے جانے کا ذکر ہے۔ ٢ ؎ غرض یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں جو فلسفی اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم جزئیات کو شامل نہیں ہے ان کے قول کا ضعف اس آیت سے نکلتا ہے کیوں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین میں ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے۔ ١ ؎ مشکوۃ ص ١١ کتاب الایمان۔ ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٣٣٥ ج ٢ باب حجاج آدم و موسیٰ ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:61) شان (ش ء ن مادہ) کے معنی حالت اور اس اتفاقی معاملہ کے ہیں جو کسی کے مناسب حال ہو۔ اس کا اطلاق صرف اہم امور اور حالات پر ہوتا ہے۔ شان الرأس۔ چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کے ملنے کی جگہ جس سے انسان کا قوام ہے۔ اس کی جمع شؤن آتی ہے شان دھندا۔ فکر ۔ حال۔ کسی اہم معاملہ یا حال کو خواہ برا ہو یا بھلا ۔ شان کہتے ہیں۔ وما تتلوا منہ من قران۔ منہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب شان کے لئے ہے۔ ابو البقاء نے اس من کو اجلیہ کہا ہے یعنی جو اہم کام آپ کر رہے ہیں اور (اس کے ثبوت اور تقویت کے لئے) جو آیات قرآنی آپ پڑھتے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں۔ دوسرا من زائدہ ہے اور قرآن مفعول بہٖ ہے۔ وما تکون سے لے کر من قرآن تک خطاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ اور ولا تعملون من عمل میں خطاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے تمام لوگوں سے ہے یعنی انتم جمیعا تم سب۔ (مدراک التنزیل) شھودا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے۔ حاضرین ۔ شاہد کی جمع ہے بحالت نصب۔ تفیضون فیہ۔ تم گھستے ہو۔ تم لگتے ہو۔ تم مصروف ہوتے ہو۔ افاض اناء ہ کے معنی برتن کو لبالب بھر دینے کے ہیں یہاں تک کہ پانی اس سے نیچے گرنے لگے۔ اسی سے افاضوا فی الحدیث کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی باتوں میں مشغول ہونے اور چرچا کرنے کے ہیں۔ چناچہ قرآن میں ہے لمسکم فیہا افضتم فیہ (24:14) تو جس بات کو تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر ۔۔ نازل ہوتا۔ اور جگہ آیا ہے ھو اعلم بما تفیضون فیہ (46:8) وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو۔ لہٰذا اذ تفیضون فیہ۔ بمعنی جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو۔ ما یعزب مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ عزوب مصدر۔ (باب نصر) غائب نہیں ہے۔ چھپا ہوا نہیں ہے۔ عزب مرد بلا بیوی۔ یا عورت بلا شوہر۔ من مثقال ذرۃ۔ میں من زائد تاکید کے لئے آیا ہے۔ مثقال۔ اسم مفرد۔ ہموزن۔ برابر۔ ثقل۔ بوجھ۔ وزن۔ مثقال ذرۃ۔ ذرہ برابر۔ کتب مبین۔ روشن کھلی کتاب۔ لوح محفوظ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ اس آیت میں ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو ہمارا پیغام پہنچانے کے لئے آپ جو کوشش کر رہے ہیں وہ سب ہماری نظر میں ہے اور دوسری طرف مخالفین کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ حق کی مخالفت کرکے یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم تمہاری حرکتوں سے بیخبر ہیں اور تم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ (کنز فی الروح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٦١ تا ٧٠ اسرار و معارف اور آپ جس میں ہوں جس جگہ جو عمل کریں ۔ آپ قرآن میں سے تلاوت کریں یا کسی بھی دوسرے عمل میں مصروف ہوں اور صرف آپ ہی کیا سارے لوگ بھی جو کچھ کرتے ہیں ۔ سب ہمارے روبرو ہے ۔ آپ کی محنت ومشقت اور عبادت و مجاہدہ بھی اور کفار کی عداوت ودشمنی بھی بلکہ ہر نیک و بد پہ ہم ذاتی طور پر شاہد ہیں ۔ نہ صرف انسان اعمال وکرداربل کہ زمین وآسمان کا کوئی ذرہ یا اس سے بھی کوئی چھوٹی بڑی شے آپ کے رب کریم سے کسی لمحے پوشیدہ نہیں اللہ کا علم تو بہت عظیم اور اس کی شان کے مطابق ہے ۔ یہ سب کچھ تو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور کوئی ذرہ یا اس کی حرکت اس باہر نہیں لہٰذا آپ اپنا کام جاری رکھیں اور دوسروں کو ان کا اپنا کام کرنے دیں ۔ ان کی دشمنی اور ایذا کی فکر ہرگز نہ کریں ۔ نہ صرف آپ بلکہ آپ کے خدام اور اتباع کرنیوالے جو اللہ کے ولی ہیں انھیں کبھی آئندہ کا ڈرہوگا نہ گذشتہ کا افسوس بلکہ ہمیشہ اور ہر آن کی شادمانی ہی ان کا مقدر ہے مگر صرف محبت کا دعوی رکھنے والے ہی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپ کی محبت کے مدعی بھی ہوں مقدر ہے مگر صرف محبت کا دعوی رکھنے والے ہی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپ کی محبت کے مدعی بھی ہوں اور آپ کے نقش قدم پر عمر بھی قربان کردیں یعنی ان میں ایمان بھی ہو اور عملی اطاعت بھی ۔ ولایت کیا ہے ؟ یہاں اولیاء اللہ کے لئے اللہ کریم کے بہت بڑے انعام اور ایک بےمثال نعمت کا تذکرہ بھی ہے اور ایک چھوٹے سے خوبصورت جملے میں دلایت کی تعریف بھی سمودی گئی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہوں یعنی عقائددرست ہوں اور قلبی کیفیات اس درجے کی نصیب ہوں کہ وہ اطاعت کا حق ادا کردیں اور ممکن حدتک اطاعت سے قدم باہر نہ رکھیں ۔ لہٰذ بدعات میں مبتلا اور عملی زندگی سے بیگانہ لوگوں کی دلایت کا اعتبار درست نہیں ۔ رہی یہ بات کہ دنیا میں مشاہدہ تو یہ ہے کہ اہل اللہ پہ میصیبتیں زیادہ آتی ہیں اور دوسروں کی نسبت ان میں اللہ کا خوف اور اس کے عذاب سے ڈرنے کی کیفیت بھی زیادہ آتی ہے تو اس کا بڑا آسان اور صحیح جواب یہ ہے کہ اہل اللہ کے قلوب دنیاوی دکھوں سے بہت بالاترہوتے ہیں اور جس طرح دنیادار ایک ایک شے کے لئے تڑپتے ہیں اہل اللہ کو کبھی ایسا دکھ نہیں ہوتا بلکہ ہر آن اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ، مال ، جان ، اولاد قربان کرتے بھی راحت پاتے ہیں ۔ ہاں ! انھیں اگر فکر ہوتی ہے تو صرف یہ کہ رب جلیل خفانہ ہو۔ اس لئے کہ سوائے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے کوئی بھی معصوم نہیں کسی لمحے ایسا قصورہوسکتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بن جائے لہٰذا اس کی محبت میں اس سے توفیق اطاعت طلب کرتے رہتے ہیں۔ ولایت چیز کیا ہے ؟ یہ تو ایک بےکیف تعلق ہے جس کی کوئی توجہیہ ممکن نہیں مگر اس کا اثریہ ہے کہ بندے کی اپنی رائے اور پسند تک بلکہ اس کی ذات تک فناہوکر اطاعت باری کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے ۔ یوں تو اللہ کی سب مخلوق کو اس کی ذات سے ایک تعلق نصیب ہے مگر انسان کو اس کی شعوری معرفت کے باعث اس بےکیف رابطے کا جو درجہ نصیب ہوتا ہے وہ صرف اسی کا حصہ ہے ۔ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم نے اپنی مایہ ناز تفسیر میں اسی موضوع پہ ارشاد فرمایا ہے کہ معرفت کا بلند ترین مقام اور تعلق مع اللہ کا اعلی ترین درجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ ہے پھر جن خوش نصیب حضرات کو ایمان کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت عالی نصیب ہوئی تو قلب اطہر سے ان کے قلوب کو جو جلاملی وہ انھیں روئے زمین پر آنے والے انسانوں میں انبساء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد بلندتردرجے پرلے گئی یعنی تعلیمات نبوت کے ساتھ برکات نبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تابعین ان کی صحبت سے تبع تابعین نے یہ نعمت پائی ۔ مگر جوں افراد اور زمانہ بدلتا گیا ، زنگ بھی بدلتے گئے یعنی واسطے بڑھتے گئے تو قوت کم ہوتی چلی گئی اور یہ واسطہ صرف وہ لوگ ہی بن سکتے ہیں جو پہلے خود یہ نعمت حاصل بھی کریں پھر اللہ انھیں تقسیم کرنے کی استعداد بھی عطافرمائے ۔ ایسے ہی لوگ مشائخ کہلاتے ہیں ۔ لہٰذا یہ دولت جسے ولایت کہا گیا ہے مشائخ کی صحبت میں نصیب ہوتی ہے جس میں دو چیزیں حاصل ہوتی ہیں اول عقائد کی اصلاح اور دوم دل کی وہ کیفیت جو اطاعت الٰہی اور اتباع سنت پہ قائم کردے اس کے حصول کے تین اجزاء ہیں صحبت شیخ اس کی اطاعت اور کثرت ذکر اللہ نیزیہ سب امور مسنون طریقہ پر ہوں بلکہ شیخ ہو ہی وہی سکتا ہے جو سب کام سنت کے مطابق کرے اور طالب میں سنت کی پیروی کی استعداوپیدا کردے ۔ یہ مختلف قسم کے کشف و کرامات اور عجائبات کا مشاہدہ ولایت کی شرط نہیں ۔ ہاں ! اگر مذکورہ شرائط کے ساتھ ہو تو اللہ کا انعام ہے اور اگر خلاف سنت امور پر کوئی کمال حاصل ہوسکے تو وہ استداراج کہلاتا ہے ، جو شیطن کی طرف سے ہے فرمایا ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں بھی خوشی ہے کہ وہ اللہ کریم سے اپنے اس تعلق پہ شاداں وفرحاں رہتے ہیں اور دنیا کے دکھ انھیں غم کھانے پہ مجبور نہیں کرسکتے اور آخرت بھی ان کے لئے اللہ کے انعامات کے ظاہر ہونے کا مقام ہے اور اس کی خبرتو اللہ دے رہے ہیں جن کی بات کبھی بدل نہیں سکتی جو فرماتا ہے یقینا ویسا ہی ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی کا میابی ہے اور یہی سب بڑی جمعیت ہے۔ اے حبیب ! آپ ان کی باتوں کو اہمیت نہ دیں جو لوگ آپ کی مخالفت اور ایذارسانی کے منصوبے بناتے ہیں ۔ اس لئے یہ بھی تو عاجز مخلوق ہی ہیں ۔ اللہ کو مانیں یا نہ مانیں مگر ہیں تو اس کی مخلوق اور ایک حد کے اندررہناان کی مجبوری ہے جہاں تک طاقت اور غلبہ کی بات ہے تو وہ صرف اللہ کے لئے ہے نہ تو یہ اپنی پسند سے کچھ کرسکنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی حرکت یاسوچ اس ذات سے پوشیدہ ہے وہ سنت ابھی ہے اور جانتا بھی ہے ارض وسما کی ساری مخلوق کو اس ایک خالق نے پیدا فرمایا اور انھیں مختلف اوصاف عادات بخشے زمینوں اور آسمانوں میں جو کوئی بھی ہے وہ اسی کا بندہ ہے مگر ان میں یہ عقل بھی نہیں کہ اللہ کو چھوڑکر اس کی مخلوق میں سے کسی کو پکارتے ہیں اور اسے اپنے زعم باطل میں اللہ کا شریک اور برابر سمجھتے ہیں بلکہ اکثر تو ایسی ہستیوں کو پکارتے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ، محض ان لوگوں کا وہم ہے بلکہ محض خیالی باتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اگر کوئی ہستی وجودرکھتی بھی ہے تو وہ اللہ کی مخلوق ہے عاجز بےبس اور محتاج ہے بھلاذات باری کا مقابلہ تو نہیں کرسکتی اور اکثریہ جن ہستیوں کو معبودبنائے پھرتے ہیں ان کا کوئی وجود بھی نہیں محض خیالی باتوں میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تو ایساقادر ہے کہ وہ رات اور دن کا خالق ہے مگر تمہاری یہ مجبوری ہے کہ اگر وہرات نہ بناتا تمہیں آرام اور سکون کا موقع نہ ملتا تو تم خود زندہ نہ رہ سکتے اس نے رات تمہارے آرام کے لئے اور دن کام کے لئے روشن کردیا بھلا جو مخلوق اپنے وجود کی بقا کے لئے آرام کی محتاج ہے اور تھک ہار کر ڈھیر ہوجاتی ہے پھر دوسرے دن اٹھ کر کام پہ لگتی ہے وہ کب اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس سے امیدرکھی جائے کہ یہ میرے کام کردے گی ۔ سمجھدار لوگوں کے لئے تو یہ ہی بہت بڑی دلیل ہے اور شب وروز میں اتنی حکمتیں ہیں کہ عظمت باری کا احساس دلانے کے لئے بہت کافی ہیں۔ یہ تو کہتے ہیں کہ اللہ کا بیٹا بھی ہے حالانکہ اللہ ان امور سے پاک ہے اور وہ بےنیاز ہے ۔ جو کچھ کائنات میں ہے سب کی مخلوق اور مملوک ہے اور وہ مالک ہے لہٰذا کوئی بھی اس کا ہم جنس نہیں اور غیرجنس سے اولاہ نہیں ہوتی ۔ تو یہ بات دونوں طرح سے باطل ہے اس کی ایک ذات کے علاوہ جس قدر وجود ہیں وہ اپنے بننے تک سب اس کے محتاج ہیں جبکہ وہ بےنیاز ہے تو یہ کیسے ممکن ہے ؟ ہرگز نہیں ہاں ! ان سے کہیئے کہ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہے تولائیں یاوی سے بغیردلیل کے اللہ پر ایسے بہتان تراشتے ہو جن کی خودتم کو بھی خبر نہیں اور یہ کتناسخت جرم ہے تم یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے تو انھیں بتادیجئے کہ اللہ کریمپر جھوٹے ہتان باندھنے والے کبھی نہیں بچ سکتے اور کبھی بہتری کو نہیں پاسکتے کیا ہوا کہ چندروزہ زندگی میں انھیں دنیا کی دولت یا اقتدار بھی مل جائے یا نہ بھی ملے تو دنیا کی زندگی بظاہر جہنم کے باہر تو ہے اگرچہ اندرتو دوزخ کی گرمی جھلسارہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد تو اور بھی بہت ہی برا ہوگا انھیں رب جلیل کی بارگاہ میں پیش ہونا ہوگا جو انھیں بہت سخت عذاب دے گا اور یہ شدید عذاب ان کے کفر کا بدلہ ہوگا۔ کہ کفر اور شرک اپنی اصل میں اتنابڑاظلم ہے کہ اس پر بہت بڑا عذاب مرتب ہوگا اور ہمیشہ رہے گا ۔ ابدی اور دائمی زندگی جہنم کی ہولنا کیوں کی نذرہوجائے گی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 61 تا 65 ماتکون (تو نہیں ہوتا) شان (حال ، کیفیت) شھود (موجود ، گواہ ) تفیضون (تم کرتے ہو، تم مشغول ہوتے ہو) مایغرب (غائب نہیں رہتا ہے، دور نہیں ہوتا ہے) مثقال ذرۃ (ذرہ برابر، تھوڑا سا بھی) اصغر (چھوٹا، یہ لفظ اکبر کے مقابلہ میں ہے) کتاب مبین (کھلی کتاب (لوح محفوظ ؛ ) اولیاء (ولی) دوست ، حمایت کرنے والا لایحزنون (وہ رنجیدہ نہ ہوں گے) البشریٰ (خوش خبری) کلمت اللہ (اللہ کی باتیں، اللہ کے احکامات ، الفوزا العظیم (بڑی کامیابی ) العزۃ (عزت و عظمت ، غلبہ) تشریح : آیت نمبر 61 تا 65 گزشتہ آیات میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور ان کو راہ ہدایت پر چلانے کے لئے ایک ایسی عظیم کتاب (قرآن مجید) کو نازل فرمایا ہے جو نصیحت مو عظمت ، روح اور دلوں کی بیماریوں کے لئے شفاء سراسر ہدایت و رہنمائی اور اللہ کی رحمت و شفقت سے بھرپور اور قیامت تک آنے والے انسان کے لئے مشعل راہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر زمان و مکان کے لئے رحمتہ للعالمین بنا کرب یھجا ہے۔ یہ اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جن پر اللہ ایمان جتنا بھی شکر ادا کریں اور خوشیاں منائیں وہ کم ہے۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں اللہ نے نعمت کے طور پر عطا فرمائی ہیں۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد ہونا یہ چاہئے تھا کہ کفار و مشرکین آپ کی اطاعت و فرماں برداری کرتے لیکن انہوں نے آپ کا دامن تھامنے کے بجائے خود ہی من گھڑت انداز سے جس چیز کو چاہا حلال قرار دے ڈالا اور جس کو چاہا حرام کردیا اور بجائے اطاعت کرنے کے انہوں نے آپ کو ہر طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچانا اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ طرح طرح کی افواہیں پھیلانا ہر جگہ اور ہر محفل میں مذاق اڑانا اور بےعزت کرنے کے طریقے اختیار کرنا انہوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہماری آیات کی جب بھی تلاوت کرتے ہیں یا دین اسلام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کفار و مشرکین حق اور سچائی کو قبول کرنے کے بجائے الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں وہ سب کی سب اللہ کی نظروں میں ہیں اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ دیکھ بھی رہا ہے اور سن بھی رہا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام کو کسی طرح پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کائنات میں اللہ ہی کا قانون چلتا ہے جس میں تبدیلی نہیں آتی جو اہل ایمان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کائنات میں اللہ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جو لوگ بھی تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرتے ہیں اور نیکیاں کرتے اور دوسروں کی بھلائی کے لئے دن رات کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں اور خوش خبریاں عطا کرتا ہے۔ وہ اللہ کے دوست اور محبوب بندے ہیں جن پر نہ اس دنیا میں خوف اور غم کی گھٹائیں چھائیں گی اور نہ ایسے لوگوں کو آخرت کا رنج و الم اور خوف و غم ہوگا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اس سچائی کے راستے کو چھوڑ کر کفر و نافرمانی کے طریقے اختیار کرتے ہیں وہ بظاہر دنیا میں کامیاب نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ناکام ہی ہیں اور آخرت میں تو ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اور ابدی جہنم ہی ان کا مقدر ہے۔ فرمایا کہ قرآن کریم کے تمام اصول ابدی ہیں جو ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گے ان میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان کی اطاعت کرنے والوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کفار کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں اور وہ لوگ ذلیل کرنے کے جو طریقے اختیار کر رہے ہیں ان سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ عزت و ذلت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو حقیر سمجھنے والے خود ہی ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے اور فتح مکہ کے دن وہ منظر بھی عجیب تھا جب کفار مکہ آپ کے رحم و کرم کے لئے گڑ گڑا رہے تھے اور آپ نے یہ فرما کر کہ ” تم سب آزاد ہو آج کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا “ دنیا کو حیرت میں ڈال دیا اور اس آیت کی سچائی سامنے آگئی کہ ساری عزت و عظمت اس ذات کے ہاتھ میں ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین اور مشرکین کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی اور عقیدہ توحید کی وجہ سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈھارس بندھانے منکرین اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے ساتھ آپ کی محنت اور مشن کو خراج تحسین سے نوازا جارہا ہے۔ کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رات کو اٹھ اٹھ کر قرآن پڑھنا۔ دن کو اس کی تبلیغ کرنا اور اس کے رد عمل میں آپ کا غم زدہ ہونا ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ آپ کے شب وروز کا ایک ایک لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ سورۃ الشعراء میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑے دلر با انداز میں اطمینان دلایا گیا ہے (الَّذِی یَرَاک حینَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِینَ ۔ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) [ الشعراء : ٢١٨ تا ٢٢٠] ” آپ ہر حال میں ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ رات کی تاریکیوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرتے اور سر بسجود ہوتے ہیں تو اس وقت بھی آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ “ جب آپ اس کی جناب میں آہ زاریاں کرتے ہیں تو وہ سن رہا ہوتا ہے۔ اے نبی آپ کا رب آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کے دشمنوں کو بھی دیکھ رہا ہے کہ وہ اس کی توحید کی دشمنی میں آکر آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب کیا کہ اے لوگو ! تم جیسے بھی عمل کرتے ہو یاد رکھو ! ہم سے تمہارا کوئی عمل اور حرکت و سکوت پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد پھر واحد مخاطب کی ضمیر لا کر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ آپ کے رب سے زمین و آسمانوں کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں بیشک کوئی چیزذرہ سے چھوٹی ہو یا بڑی اللہ تعالیٰ کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہے اس نے ہر چیز کی ابتدا، اور انتہا واضح طور پر لوح محفوظ میں عیاں کر رکھی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی حالت پر گواہ ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ ٣۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں درج ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا اور اس پر نگران ہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ : ٣٢) ٨۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما تکون فی شان وما تتلوا منہ من قرآن ولا تعملون من عمل الا کنا علیکم شہودًا اذ تفیضون فیہ اور (اے رسول ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) آپ (خواہ) کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور (اسی طرح ‘ اے لوگو ! ) تم جو کام بھی کرتے ہو ‘ ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو۔ تَکُوْنُ کا خطاب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو ہے اور لاَ تَعْمَلُوْنَ کا خطاب سب لوگوں کو۔ شَأنٍ کا معنی ہے امر ‘ حالت۔ ایک محقق کا قول ہے کہ شان کا اطلاق عظیم حالت اور جلیل القدر امر پر ہوتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : (شان کا معنی ہے قصد) شَأَنْتُ شَانَہٗ میں نے اس کا جیسا قصد کیا۔ مِنْہُ کی ضمیر شان کی طرف راجع ہے۔ قرآن کی تلاوت رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا ایک بڑا کارنامہ تھی۔ یا مِنْ احلیت کا ہے ‘ یعنی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی شان عظیم کی وجہ سے جو تلاوت آپ کرتے ہیں۔ مِنْ قرآن میں من بیانیہ ہے ‘ یا تبعیضیہ ہے ‘ یا زائد ہے۔ جو کچھ آپ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) پڑھتے ہیں یعنی قرآن۔ یا جو حصہ قرآن کا آپ پڑھتے ہیں۔ وَلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اوّل خطاب خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو کیا کیونکہ آپ تمام انسانوں کے سرگردہ تھے ‘ اسی لئے آپ کے بڑے عظیم الشان عمل کا ذکر کیا ‘ پھر سب لوگوں کو خطاب کیا اور ان کے ہر چھوٹے بڑے عمل کا ذکر کیا۔ شھود نگراں ‘ واقف۔ اِذْ تُفِیْضُوْنَ جب تم اس عمل کو شروع کرتے ہو ‘ اس میں داخل ہوتے ہو۔ بعض نے کہا کہ افاضہ کا معنی ہے بکثرت کسی کام کو کرنا ‘ اسی لئے تُفِیْضُوْنَ کا معنی ہوگیا بکثرون۔ وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السمآہ ولا اصغر من ذلک ولا اکبر فی کتب مبین۔ اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں ‘ نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور کوئی چیز ذرہ سے بھی چھوٹی یا بڑی ‘ ایسی نہیں کہ واضح کتاب (لوح محفوظ ‘ اللہ کی علمی کتاب) میں نہ ہو۔ مَا یَعْزُبُ غائب نہیں ہے۔ مِنْ مِّثْقَالِ ‘ مِنْ زائد ہے۔ مثقال مصدر ہے بمعنی وزن۔ ذَرَّۃٍ چھوٹی چیونٹی یا خاک کا ذرہ۔ زمین و آسمان سے مراد ہے سارا جہان امکان اور عالم ہستی۔ کوتاہ نظر عوام کی نظری رسائی انہی دونوں تک ہو سکتی ہے ‘ اس لئے ان ہی دونوں کا ذکر کیا۔ اور اہل ارض کی حالت کا ذکر چونکہ پیش نظر تھا ‘ اسلئے زمین کا ذکر آسمان سے پہلے کیا۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا علم ہمہ گیر ہے ‘ سارے جہان کو گھیرے ہوئے ہے۔ لاآ اَصْغَرَ وَلاآ اَکْبَرَالخ مستقل جملہ ہے۔ کتاب سے مراد ہے لوح محفوظ یا وہ اعمال نامے جو کرام کاتبین کے پاس ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے کوئی ذرہ اور چھوٹی بڑی چیز اور مخلوق کا کوئی حال اس سے پوشیدہ نہیں ان آیات میں اللہ جل شانہ کی صفت علم کو بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ آپ جس حال میں بھی ہوں اور اسی حال میں سے یہ بھی ہے کہ آپ قرآن کے کسی حصہ کی تلاوت کر رہے ہوں اور آپ کے علاوہ دوسرے اشخاص اور افراد جو بھی کوئی عمل کرتے ہوں یہ سب حالات اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں کسی کی کوئی حالت اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں۔ اور آسمان میں اور زمین میں جو بھی ذرہ کے برابر کوئی چیز ہے اللہ تعالیٰ شانہ کو اس کا علم ہے اور اس کے علم سے غائب نہیں ہے آسمان و زمین کے علاوہ بھی مخلوق ہے اور وہ بھی اس کے علم میں ہے۔ آسمان و زمین کو چونکہ سبھی لوگ جانتے ہیں اور نظروں کے سامنے ہیں اس لئے خصوصی طور پر ان کا ذکر فرما دیا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ارض وسماء سے علوی اور سفلی دونوں جہتیں مراد لی گئی ہیں۔ مزید فرمایا کہ ذرہ سے کوئی چیز چھوٹی ہو یا کوئی چیز اس سے بڑی ہو کتاب مبین یعنی لوح محفوظ میں موجود ہے اور لوح محفوظ میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا علم اس کو محیط ہے ‘ جو چیزیں وجود میں آئیں یا بعد میں پیدا ہوں گی ان سب کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور جو چیزیں پیدا نہ ہوں گی ان کا بھی اللہ تعالیٰ کو علم ہے ‘ بلکہ اس کو ممتنعات کا بھی علم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78: یہ توحید پر آٹھویں عقلی دلیل ہے اور اس سے شرک فی العلم کی نفی مقصود ہے “ مِنْ قُرْاٰنٍ ” میں “ مِنْ ” بیانیہ ہے۔ “ قُرْاٰن ”، “ مِنْهُ ” کی ضمیر مجرور کا بیان ہے۔ “ وَ لَا تَعْلَمُوْنَ الخ ” یہ خاص سے عام کی طرف ترقی ہے۔ “ اعلم انه تعالیٰ خصص الرسول فی اول ھذه الایة بالخطاب فی امرین ثم اتبع ذلک بتعمیم الخطاب مع کل المکلفین الخ ” (کبیر ج 17 ص 121) ۔ “ اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ ” یعنی جب تم اپنے کاموں میں منہمک ہوتے ہو۔ حاصل یہ کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کوئی بھی کام کریں مثلاً قوم کو اللہ کا قرآن پڑھ کر سنا رہے ہوں، آپ کی اور آپ کی تلاوت کی کیا خصوصیت ہے تم سب لوگ جو کام بھی کرتے ہو جب تم اس میں ہمہ تن مصروف ہوتے ہو ہم تمہارے ہر فعل سے ہر ووقت اور ہر جگہ باخبر رہتے اور علم وقدرت کے اعتبار سے ہر جگہ حاضر و ناظر رہتے ہیں۔ “ وَ مَا یَعْزُبُ ” یہ تخصیص کے بعد اور تعمیم ہے یعنی صرف بندوں کے اعمال و افعال پر ہی منحصر نہیں بلکہ زمین و آسمان کا ایک ذرہ بلکہ اس سے بھی اگر کوئی قلیل اور حقیر مقدار ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے علم محیط میں موجود ہے۔ “ کِتَابٍ مُّبِیْن ” سے لوح محفوط یعنی علم الٰہی مراد ہے یعنی “ اللوح المحفوظ مع علم اللہ تعالیٰ به ” (قرطبی ج 8 ص 257) ۔ جب علم محیط اور کل اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہوگیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر تمام غیر اللہ سے علم غیب کی نفی متحقق ہوگئی لہذا اللہ تعالیٰ کے سوا کارساز اور متصرف بھی کوئی نہیں۔ کیونکہ کارساز اور متصرف وہی ہوسکتا ہے جو عالم الغیب ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61 اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے خواہ آپ کہیں سے قرآن کریم پڑہتے ہوں اور تم لوگ جو بھی کام کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے اور ہم بہرحال تم پر مطلع اور نگہبان ہوتے ہیں جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور آپ کے پروردگار کے علم سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز ذرے کی مقدار سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز مقدار میں ذرہ سے بڑی ہے مگر یہ کہ وہ سب کھلی کتاب لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے یعنی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کوئی کام بھی کریں یا آپ کے حالات کچھ بھی ہوں خواہ آپ قرآن کریم پڑتے ہوں اور یہی حالت تم سب لوگوں کی ہے کہ تم جو کام کرتے ہو تو ہم اس پر حاضر اور نگراں ہوتے ہیں اور جب سے تم اس کام کو شروع کرتے ہو تو وہ کام شروع بھی ہماری نگرانی میں کرتے ہو غرض ! کوئی چیز بھی ان کے احاطہ علمی سے باہر نہیں ہے۔