Surat ul Humaza

Surah: 104

Verse: 9

سورة الهمزة

فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ٪﴿۹﴾  29

In extended columns.

بڑے بڑے ستونوں میں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آگ ہی لمبے لمبے ستونوں کی طرح بلند ہوگی۔ جس میں یہ بند کیے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ آگ کے لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ جکڑ کر اوپر سے منہ بند کردیا جائے گا اور تیسرا یہ کہ دوزخ کا منہ بند کرنے کے بعد اس کے اوپر لمبے لمبے ستون کھڑے کردیئے جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ۝ ٩ ۧ عمد العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة/ 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال : بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب . ( ع م د ) العمد کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة/ 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 Fi amad-im-mumaddahah can have several meanings (1) That the gates of Hell will be closed and tall columns will be erected on them; (2) that the culprits will be tied to the tall columns; (3) according to Ibn `Abbas, the flames of the fire shall be rising high like tall columns.

سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 9 فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جہنم کے دروازوں کو بند کر کے ان پر اونچے اونچے ستون گاڑ دیے جائیں گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مجرم اونچے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے ۔ تیسرا مطلب ابن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ اس آگ کے شعلے لمبے ستونوں کی شکل میں اٹھ رہے ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اللہ بچائے، دوزخ میں آگ کے شعلے لمبے چوڑے ستونوں کی شکل میں ہوں گے، اور وہ چاروں طرف سے دوزخیوں کو اِس طرح گھیر لیں گے کہ باہر نکلنے کا راستہ بند ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(104:9) فی عمد ممددۃ : لمبے ستونوں کے اندر۔ اس کا تعلق مؤصدۃ سے ہے۔ عمد : عمود کی جمع ہے بمعنی ستون۔ یعنی اس آگ کے شعلے لمبے لمبے ستونوں کی صورت میں بلند ہوں گے نہ وہ بجھیں گے اور نہ ان دوزخیوں کے دردو الم میں تخفیف ہوگی۔ ممددۃ اسم مفعول واحد مؤنث تمدید (تفعیل) مصدر لانبے کئے گئے۔ لانبے لانبے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یا یہ مطلب ہے کہ ” آگ کے شعلے لمبے لمبے ستونوں کی طرح بلند ہوں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی آگ کے اتنے بڑے بڑے شعلے ہوں گے اور وہ لوگ اس آگ میں مقید ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ ان لوگوں کو ستونوں کے اندر داخل کردیا جائے گا یعنی ستونوں کے ذریعہ دوزخ کے دروازے بند کردیئے جائیں گے اور تفسیر قرطبی میں حضرت ابن عباس (رض) سے یوں نقل کیا ہے کہ ﴿عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ (رح) ٠٠٩﴾ سے مراد وہ طوق ہیں جو دوزخیوں کے گلے میں ڈال دیئے جائیں گے اور بعض اکابر نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ دوزخی آگ کے بڑے بڑے شعلوں میں ہوں گے جو ستونوں کی طرح ہوں گے اور وہ لوگ اس میں مقید ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) ان کی حالت یہ ہوگی کہ وہ بڑے بڑے ستونوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ یعنی یا تو آگ کے شعلے اس قدر بلند ہوں گے جیسے لمبے لمبے ستون ان ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے یا یہ مطلب ہے کہ دوزخ پر سر پوش رکھ کر اس پر آگے کے لمبے لمبے ستون ڈال دیئے جائیں گے تاکہ سر پوشی نہ کھل سکے یا یہ مطلب ہے کہ آگ کے ستونوں سے باندھے جائیں گے اور جکڑدیئے جائیں گے تاکہ کوئی حرکت نہ کرسکیں اور ہلنے جلنے میں جو تخفیف حاصل ہوتی ہے وہ نہ ہو یا یہ معنی ہوں کہ دوزخ کے دروازے بند کر کیا ن میں لمبے لمبے ستون اڑا دیئے جائیں گے تاکہ کوڑا نہ کھل سکیں۔ بہرحال عذاب کی غلظت شدت اور دوام ہے۔ اعاذنا اللہ منھا ومن شرھا من حرھا۔ تم تفسیر سورة الھمزۃ