Surat Hood

Surah: 11

Verse: 101

سورة هود

وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَمَاۤ اَغۡنَتۡ عَنۡہُمۡ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیۡ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ وَ مَا زَادُوۡہُمۡ غَیۡرَ تَتۡبِیۡبٍ ﴿۱۰۱﴾

And We did not wrong them, but they wronged themselves. And they were not availed at all by their gods which they invoked other than Allah when there came the command of your Lord. And they did not increase them in other than ruin.

ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا اور انہیں ان کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے ، جب کہ تیرے پروردگار کا حکم آپہنچا ، بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑھادیا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ ... We wronged them not, This means, "When We destroyed them." ... وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ... but they wronged themselves. their rejecting their Messengers and disbelieving in them. ... فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ الِهَتُهُمُ ... So their gods, profited them (not)... This is referring to their idols that they used to worship and invoke. ... الَّتِي يَدْعُونَ .. whom they call upon, ... مِن دُونِ اللّهِ مِن شَيْءٍ ... other than Allah naught, the idols did not benefit them, nor did they save them when Allah's command came for their destruction. ... لِّمَّا جَاء أَمْرُ رَبِّكَ ... when there came the command of your Lord, ... وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ nor did they add aught to them but destruction. Mujahid, Qatadah and others said, "This means loss. Because the reason for their destruction and their ruin was that they followed those false gods. Therefore, they were losers in this life and the Hereafter."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 ان کو عذاب اور ہلاکت سے دو چار کر کے۔ 101۔ 2 کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے۔ 101۔ 3 جب کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انھیں نقصان سے بچائیں گے اور فائدہ پہنچائیں گے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو واضح ہوگیا کہ ان کا یہ عقیدہ فاسد تھا، اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] یعنی جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو عابد اور معبودان باطل میں کچھ امتیاز نہیں کرتا۔ معبود جب اپنے آپ کو بھی اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتے تو وہ اپنے پیرکاروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر جو قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ انہی معبودوں کی وجہ سے ہی تو پیروکاروں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ پھر ان معبودوں کے ضررر ساں اور تباہ کار ہونے میں شبہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ ۔۔ : یعنی ہم نے جو ان پر عذاب بھیجے اس میں ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ انھوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اپنی جانوں پر ان کا سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ شرک اور پھر رسولوں کو جھٹلانا تھا، جس کی انھیں سزا ملی۔ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِيْ ۔۔ : پھر اللہ کا عذاب آنے پر ان کے معبود، حاجت روا، مشکل کشا، گنج بخش اور دستگیر ان کے کسی کام نہ آسکے، بلکہ وہ ان کے لیے ہلاک کیے جانے میں اور عذاب میں اضافے ہی کا سبب بنے، کیونکہ انھی کی وجہ سے ان پر تباہی اور بربادی آئی۔ ” تَتْبِيْبٍ “ فعل ” تَبَّ “ (وہ ہلاک ہوا) سے باب تفعیل ہے، ہلاک کرنا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰكِنْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِيْ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ شَيْءٍ لَّمَّا جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۝ ٠ۭ وَمَا زَادُوْہُمْ غَيْرَ تَتْبِيْبٍ۝ ١٠١ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ تبَ التَبُّ والتَّبَابُ : الاستمرار في الخسران، يقال : تَبّاً له وتَبٌّ له، وتَبَبْتُهُ : إذا قلت له ذلك، ولتضمن الاستمرار قيل : اسْتَتَبَّ لفلان کذا، أي : استمرّ ، وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ، أي : استمرت في خسرانه، نحو : ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ، أي : تخسیر، وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] . ( ت ب ب ) التب والتبات ( ض ) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں کہا جاتا ہے تبالہ ( اللہ اسے خائب و خاسر کرے ( وتبیتہ کسی سے تبالک کہنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے یہی مفہوم ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] میں پایا جاتا ہے ۔ وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود/ 101] ان نقصان میں ڈالتے ( یعنی تباہ کرنے ) کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے ۔ وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر/ 37] اور فرعون کی تدبیر تو بیکار تھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) اور ہم نے ان کو ہلاک کرکے ان پر ظلم نہیں کیا مگر خود انہوں نے کفر وشرک اور بتوں کی پوجا کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، چناچہ جب ان لوگوں پر آپ کے رب کا عذاب آیا تو ان کے وہ معبود جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، عذاب الہی سے کچھ حفاظت نہ کرسکے اور ان بتوں کی پرستش نے اور الٹا ان کو نقصان پہنچایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَمَا زَادُوْهُمْ غَيْرَ تَتْبِيْبٍ ) جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب استیصال کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ان کی ہلاکت و بربادی کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

فما اغنت عنھم ۔۔ من شیٔ ان کے کسی کان نہ آئے۔ یعنی اللہ کے عذاب سے کچھ بچت بھی کہ کرسکے۔ لما۔ جب۔ تتبیب۔ خسارہ میں رہنا۔ گھاٹا میں رہنا۔ تباہ و برباد کرنا۔ ہلاک کرنا۔ خسارہ۔ تباہی و بربادی ۔ ہلاکت۔ التب والتباب (ضرب) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں۔ قرآن مجدی میں ہے تبت یدا ابی لہب (111:1) ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں۔ (یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ انہوں نے ہمارے رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا اور کفر کی روش اختیار کی۔ اس کی انہیں سز املی۔ (ابن کثیر) ۔ 6 ۔ اس لئے کہ انہی کی پیروی کی بدولت ان پر تباہی و بربادی آئی۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی سبب نقصان کے ہوئے کہ ان کی پرستش کی بدلوت سزا یاب ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:۔ ان قوموں کو ہلاک کر کے ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے شرک کر کے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا اور پھر جب ہمارا عذاب آپہنچا تو جنہیں وہ اپنا کارساز سمجھ کر پکارا کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا۔ وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّّکَ الخ یہ تخویف دنیوی ہے۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً الخ اقوام گذشتہ کی تباہی میں آخرت سے ڈرنے والوں کے لیے عبرت ہے اس دن سب لوگ حساب کتاب کے لیے جمع ہوں گے اور سب موجود ہوں گے کوئی بھی غیر حاضر نہیں ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

101 اور ہم نے ان کو سزا دینے میں ان بستیوں کے لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خو د ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا پھر جب آپ کے رب کا حکم عذاب آ پہونچا تو جن معبود ان باطلہ کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پرستش کیا کرتے تھے اور ان کو پکارا کرتے تھے وہ ان کے معبود ان کے کچھ کام نہ آئے اور یہ معبود ان باطلہ ان کو بچاتے تو کیا الٹے ان لوگوں کی تباہی میں اضافہ کا موجب ہوئے۔ یعنی ان کے کام تو کیا آتے الٹا ان کو نقصان پہونچایا کیونکہ یہی تو ان کی تباہی اور بربادی کا سبب بنے۔