Surat Hood

Surah: 11

Verse: 116

سورة هود

فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ وَ اتَّبَعَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِیۡہِ وَ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۱۶﴾

So why were there not among the generations before you those of enduring discrimination forbidding corruption on earth - except a few of those We saved from among them? But those who wronged pursued what luxury they were given therein, and they were criminals.

پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے ، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There must be a Group of People Who forbid Lewdness Allah says, فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الاَرْضِ إِلاَّ قَلِيلً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ... If only there had been among the generations before you persons having wisdom, prohibiting (others) from Fasad (corruption) in the earth, except a few of those whom We saved from among them! Allah, the Exalted, says that there should have been a group of wise people present among the past generations who called to good and forbade the evil and corruption that took place among them in the land. His statement, إِلاَّ قَلِيلً (except a few), This means that there were only a small number of people present among them who were of this caliber. They were those whom Allah saved at the sudden striking of His vengeance, when His anger was let lose. For this reason Allah commanded this noble Ummah (followers of Muhammad) to always have among them those who command the good and forbid the evil. This is as Allah says, وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ Let there arise out of you a group of people inviting to all that is good, enjoining righteousness and forbidding evil. And it is they who are the successful. (3:104) It is related in a Hadith that the Prophet said, إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغَيِّرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَاب Verily, whenever a group of people see an evil and they do not change it, it is likely that Allah will cover them with (His) punishment. Thus, Allah says, فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الاَرْضِ إِلاَّ قَلِيلً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ... If only there had been among the generations before you persons having wisdom, prohibiting (others) from the Fasad in the earth, - except a few of those whom We saved from among them! Concerning the statement, ... وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ ... Those who did wrong pursued the enjoyment of good things of (this worldly) life, This means that they continued in their ways of disobedience and evils and they did not heed the protesting of those righteous people, until the torment suddenly seized them. ... وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ and were criminals. Then, Allah وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ

نیکی کی دعوت دینے والے چند لوگ یعنی سوائے چند لوگوں کے ہم گذشتہ زمانے کے لوگوں میں ایسے کیوں نہیں پاتے جو شریروں اور منکروں کو برائیوں سے روکتے رہیں ۔ یہی وہ ہیں جنہیں ہم اپنے عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت میں ایسی جماعت کی موجودگی کا قطعی اور فرضی حکم دیا ۔ فرمایا ( وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ١٠٤؁ ) 3-آل عمران:104 ) بھلائی اور نیکی کی دعوت دینے والی ایک جماعت تم میں ہر وقت موجود رہنی چاہیے ۔ الخ ، ظالموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ اپنی بدعادتوں سے باز نہیں آتے ۔ نیک علماء کے فرمان کی طرف توجہ بھی نہیں کریتے یہاں تک کہ اللہ کے عذاب ان کی بےخبری میں ان پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ بھلی بستیوں پر اللہ کی طرف سے از راہ ظلم عذاب کبھی آتے ہی نہیں ۔ ہم ظلم سے پاک ہیں لیکن خود ہی وہ اپنی جانوں پر مظالم کرنے لگتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

116۔ 1 یعنی گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر، منکرات اور فساد سے روکتے ؟ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی، لیکن بہت تھوڑے۔ جنہیں ہم نے اس وقت نجات دے دی، جب دوسروں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ 116۔ 2 یعنی یہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشیوں میں مست رہے حتٰی کہ عذاب نے انھیں آلیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] عذاب کے متعلق اللہ کا قانون :۔ ان دو آیات میں قوموں کے عروج وزوال یا کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ضابطہ بیان فرمایا گیا ہے، ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی نبی مبعوث ہوتا اور لوگوں کو ایمان لانے اور بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے تو معرکہ حق و باطل شروع ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ مجرموں کو ہلاک کردیتا ہے اور اہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ پھر ان بچے ہوئے اہل ایمان کی اولاد میں پھر سے برائی جنم لینے لگتی ہے اگر اس برائی کا پوری قوت سے سرتوڑ دیا جائے تو معاشرہ عذاب سے بچا رہتا ہے لیکن اگر غفلت کی جائے تو برائی عام ہوجاتی ہے اور اہل اصلاح و خیر تھوڑے ہی لوگ رہ جاتے ہیں۔ پھر اگر یہ اہل خیر نہی عن المنکر کا فریضہ اپنی حسب توفیق سرانجام دیتے ہیں تو بھی ان نیک لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ لیکن اگر یہ اہل خیر اتنے کمزور ثابت ہوں کہ نہی عن المنکر سے غفلت برتنے لگیں یا اتنے تھوڑے رہ جائیں کہ ان کی آواز غیر موثر ہو کر رہ جائے اور برائی عام ہوجائے اور خوشحال لوگ اپنی عیش کوشیوں میں ہی پڑے رہیں تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے جو غفلت شعار اہل خیر کو بھی نہیں چھوڑتا اور اس طرح گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے اور اگر اہل خیر اپنی مقدور بھر برائی کے استیصال میں کوشاں رہے ہوں تو پھر یا تو عذاب آتا ہی نہیں یا پھر اللہ انھیں بچانے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ ۔۔ : ” لَوْ لَا “ کے دو معانی ہیں، پہلا یہ کہ ” اگر یہ نہ ہوتا “ مثلاً ” لَوْ لَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ “ ” اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتے۔ “ دوسرا معنی ” ھَلاَّ “ یعنی ” ایسا کیوں نہ ہوا “ یہ ترغیب کے لیے ہوتا ہے، یعنی ایسا ہونا چاہیے تھا، یہاں یہی معنی مراد ہے۔ ” قَرْنٌ“ ایک نسل کے لوگ۔ یہ لفظ عموماً ایک صدی پر بولا جاتا ہے۔ ” اُولُوْا بَقِيَّةٍ “ اچھی عادات و خصائل اور عقل والے لوگ۔ اصل میں ” بَقِيَّةٍ “ ان نفیس اور منتخب چیزوں کو کہا جاتا ہے جنھیں انسان اپنے فائدے کے لیے بچا بچا کر باقی رکھتا ہے، جیسے کہتے ہیں : ” بَقِیَّۃُ السَّلَفِ “ یعنی پہلے لوگوں میں سے بہترین آدمی۔ پہلی تمام قوموں کے واقعات کے بعد اب خلاصہ بیان ہو رہا ہے کہ تم سے پہلے ان لوگوں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل فساد کو فساد فی الارض سے روکتے، یعنی ایسے لوگوں کی موجودگی نہایت ضروری تھی۔ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی مگر نہایت تھوڑے، جن کی کچھ پیش نہ چلی، چناچہ جب دوسروں پر عذاب آیا تو ان قلیل لوگوں کو ہم نے عذاب سے بچا لیا۔ اس میں مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ جب تک ان میں ایسے اصحاب خیر موجود رہیں گے جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور ایسے اصحاب خیر بالکل تھوڑے اور بےاثر نہیں ہوں گے تو اس وقت تک عذاب نہیں آئے گا۔ پھر پہلوں کی ہلاکت کا سبب بیان فرمایا کہ وہ ان نعمتوں اور خوش حالیوں میں پڑ کر اپنی خسیس خواہشات کے پیچھے ایسے لگے کہ وہ عذاب کے قابل مجرم بن گئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Given in the third and the fourth verse (116, 117) is the reason why Divine punishment came upon past peoples as well as the instruction as to how they could have stayed safe from it. It was said: How sad that among them there could have been at least some good and wise people who would have stopped their erring fellowmen from spreading disorder. The exception was that of a counted few who followed the no¬ble prophets and they were the ones who stayed safe from the punish¬ment. As for the rest of them, they went for the luxuries of the materi¬al world and turned into compulsive sinners. In this verse, people of discernment, balance and foresight have been identified through the expression: أُولُو بَقِيَّةٍ ` remnants [ of wisdom ].& The word: بَقِيَّةٍ (bagiyyah) means that which remains. It is human habit that one lets what is most dear to him remain with him under all con¬ditions, preserved and retrievable. When some need would arise, he would give away everything but not that. Therefore, reason and in-sight are called &baqiyyah& or remnants, because that is the dearest one has.

تیسری اور چوتھی آیتوں میں پچھلی اقوام پر عذاب الہٰی نازل ہونے کی وجہ اور لوگوں کو اس سے بچنے کی ہدایت اس طرح دی گئی ہے کہ فرمایا : ان پچھلی قوموں میں افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا کہ ان میں کچھ بھی سمجھ دار نیک لوگ ہوتے جو اپنی قوم کو فساد کرنے سے بازر کھتے، بجز تھوڑے سے لوگوں کے جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کا اتباع کیا، اور وہی عذاب سے محفوظ رہے، اور باقی پوری قوم دنیا کی لذتوں میں پھنس کر جرائم پیشہ بن گئی۔ اس آیت میں اہل الرائے اور سمجھ دار لوگوں کو لفظ اولُوْا بَقِيَّةٍ سے تعبیر کیا ہے، بقیہ کا لفظ باقی ماندہ چیز کیلئے بولا جاتا ہے، اور انسان کی عادت یہ ہے کہ جو چیز سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتی ہے اس کو ہر حال میں اپنے لئے محفوظ اور باقی رکھنے کا اہتمام کرتا ہے، ضرورت پڑنے پر دوسری ساری چیزیں قربان کردیتا ہے مگر اس کو نہیں دیتا، اسی لئے عقل و بصیرت کو بقیہ کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عزیز ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِيَّۃٍ يَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْاَرْضِ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّنْ اَنْجَيْنَا مِنْہُمْ۝ ٠ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَ۝ ١١٦ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء . والباقي بالله ضربان : - باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية . - وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان . وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة/ 162] . والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص/ 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف/ 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة/ 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح . ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة/ 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص/ 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف/ 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة/ 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٦) اور گزشتہ قوموں میں ایسے مومن حضرات نہ ہوئے جو لوگوں کو کفر و شرک بتوں کی پوجا اور دیگر تمام گناہوں سے روکتے ماسوا ان چند مومنوں کے جن کو ہم نے ان میں سے بچا لیا اور مشرکین دنیاوی مال کے جس ناز و نعمت میں تھے اسی میں مشغول ہورہے ہیں اور یہ شرک کے عادی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْہُمْ ) یہ بات قرآن میں بار بار دہرائی گئی ہے کہ حق کے علمبردار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا کرنے والے لوگ جہاں بھی ہوں جس قوم سے بھی ہوں اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں اپنی رحمت خاص سے بچا لیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٦۔ ١١٧۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلی قومیں جتنی گزری ہے اور جن کا قصہ تمہیں بتلایا گیا ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو سمجھ دار تھے اور انہوں نے رسول کی پیروی اختیار کی تھی دنیا میں ظلم اور فساد سے الگ الگ رہے تھے اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی مگر یہ لوگ بہت کم تھے مفسروں نے فساد کے معنے شرک کے لکھے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے خالص خدا ہی کی عبادت کی بتوں سے کوئی غرض نہیں رکھی اور جو لوگ دنیا کے مال و دولت پر غرور کر کے شرک سے باز نہیں آئے اور انہوں نے دین حق کی پیروی نہیں کی وہی لوگ ہلاک ہوئے پھر فرمایا کہ خدا ناحق کسی پر ظلم نہیں کرتا اگر یہ لوگ ہر شخص کے حق کا خیال رکھتے اور ظلم پر کمر نہ باندھتے شرک نہ کرتے تو کبھی ہلاک نہ ہوتے یہ خود انہیں کے ظلم کا نتیجہ تھا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام ٹھہرایا ١ ؎ ہے۔ یہ حدیث وما کان ربک لیھلک القری بظلم واھلھا مصلحون کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ پچھلی قومیں اپنے شرک اور طرح طرح کے ظلم کے سبب سے ہلاک ہوئیں بےقصور ظلم کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک نہیں کیا کیوں کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ١٣٩ ج ٢ باب تحر یم الظلم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:116) فلولا۔ لولا کا استعمال دو طرح پر ہے۔ ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا۔ اس کی خبر ہمیشہ محذوف ہوتی ہے۔ اور لولا کا جواب قائمقام خبر کے ہوتا ہے جیسے لولا انتم لکنا مؤمنین (34:31) اگر تم نے ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوجاتے ۔ دوم : یہ اکثر ہلا کے معنی میں آتا ہے اور اس کے بعد متصلاً فعل کا آنا ضروری ہے مثلاً لولا ارسلت الینا رسولا (20:134) تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا ۔ نیز آیۃ ہذا میں فلولا کان من القرون من قبلکم۔ تو کیوں نہ ہوئے تمہارے سے قبل کی امتوں میں سے (ایسے زیرک۔ سمجھ دار لوگ) اولوا بقیۃ۔ اولوا (والے) جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ بحالت رفع اولوا اور بحالت نصب و جر اولی۔ بقیۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے رائے باقی رہے یا اس سے مراد ارباب فضل ہیں۔ فضل کو بقیہ اس لئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے میں سے سب سے اچھی چیز کو باقی رکھنے کا خواہشمند ہے۔ اسی لئے عربی میں فلان من بقیۃ القوم اس آدمی کے لئے بولتے ہیں جو قوم میں صاحب فضل ہو یا صاحب عقل و رائے ہو۔ سب سے عمدہ ہو۔ الا قلیلا ماسوائے چند آدمیوں کے (جن کو ہم نے نجات دی) یعنی ان قدیم امتوں میں سے چند ایک ہی ایسے تھے جو دوسروں کو فساد فی الارض سے روکتے رہے اور خود بھی بچے رہتے اور انہیں ہم نے عذاب کی گرفت سے بچا لیا۔ منھم۔ ان قدیم امتوں میں سے۔ اتبع۔ اس نے اتباع کیا۔ پیروی کی۔۔ پیچھے پڑے رہے۔ اتباع (افتعال) سے تبع مادہ۔ ما اترفوا فیہ۔ یہ جملہ اتبع کا مفعول ہے۔ یعنی وہ جس ناز و نعمت میں تھے اسی کے پیچھے پڑے رہے۔ اترفوا۔ ماضی مجہول ۔ جمع مذکر غائب وہ آرام دئیے گئے۔ وہ نازو نعمت میں پالے گئے۔ اتراف سے ترف مادہ۔ الترفۃ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اترف فلان فھو مترف۔ وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے۔ قرآن مجید میں ہے واترفنھم فی الحیوۃ الدنیا (33:23) اور دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کو آسودگی دے رکھی تھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وہ جیسے خود کفر و شرک سے تائب ہوگئے تھے اور ان کو بھی منع کرتے رہتے تھے اور ان ہی دونوں عمل کی برکت سے وہ عذاب سے بچ گئے تھے اور باقی لوگ چونکہ خود ہی کفر میں مبتلا تھے انہوں نے اوروں کو بھی منع نہ کیا۔ 3۔ خلاصہ مطلب یہ کہ نافرمانی تو ان میں عام طور پر رہی اور منع کرنے والا کوئی ہوا نہیں اس لیے سب ایک ہی عذاب میں مبتلا ہوئے ورنہ کفر کا عذاب عام ہوتا۔ اور فساد کا خاص اب بوجہ منع کرنے کے غیر مفسد بھی مفسد ہونے میں شریک قرار دیے گئے اس لیے جو عذاب مجموعہ کفر و فساد پر نازل ہوا وہ بھی عام رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب۔ اس سورة مبارکہ میں حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت لوط، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی اقوام کی تباہی اور اس کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں فرعون کا انجام بیان کرنے کے بعد سرور دوعالم کو مخاطب کرتے ہوئے آپ اور آپ کی امت کے مبلغین کو چند بنیادی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ حق کے راستے میں آنے والی ذہنی جسمانی اور مالی مشکلات پر صبر کرتے رہیے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کرنے والے کے اجرو ثواب کو ضائع نہیں کرتا۔ اس کے بعد پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بےمثال اور انتھک کوشش کے باوجود ایسے لوگ کیوں نہ تیار ہوئے جو ان کو ملک میں دنگا فساد کرنے سے روکتے۔ جنہوں نے دنیا پرست ظالموں کی پیروی کی اور مجرمانہ طرز عمل اختیار کیا۔ ان کی تباہی کا سبب ان کا اپنا کردار تھا۔ اگر یہ اپنے آپ پر ظلم نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کبھی انہیں اس انجام سے دو چار نہ کرتا کیونکہ وہ اصلاح کرنے والوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتا۔ کسی قوم کی بقا اور اس کے ارتقاء کے لیے لازم ہے کہ اس میں اصلاح احوال کے لیے ایک منظم جماعت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ افراد کی انفرادی اور ذاتی کمزوریوں سے در گزر کرلیتا ہے لیکن جب انفرادی کمزوریاں جرائم کی صورت اختیار کرتے ہوئے اجتماعی شکل اختیار کرلیں اور ان کی اصلاح کرنے والی کوئی منظم جماعت بھی پیدا نہ ہو۔ تو اس قوم کا وجود دنیا میں کینسر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے منفی اثرات ہر جاندار یہاں تک کہ بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے اور دنیا کے نظام کو متوازن اور ہموار رکھنے کے لیے ظالم قوم کو تباہی کے گھاٹ اتار کر انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ عذاب عام کے وقت نیک لوگوں کو بچانے کا وعدہ انبیاء اکرام کی ذات کے ساتھ مشروط ہوا کرتا تھا۔ جب تک نبی کسی قوم میں موجود ہو اللہ تعالیٰ اس کی موجودگی میں بد سے بد ترین قوم پر بھی عذاب نازل نہیں کرتا۔ جس کا ثبوت انبیاء کرام یکے بعد دیگرے رخصت ہوچکے۔ اب اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے وہ چاہے تو برے لوگوں کے ساتھ نیک لوگ بھی اس تباہی اور عذاب میں سپرد خاک ہوجائیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم : ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ‘ تم میں سے جو برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ “ [ رواہ مسلم : باب امر بالمعروف ] مسائل ١۔ سابقہ امم میں فساد سے روکنے والے لوگ بہت کم تھے۔ ٢۔ ظالموں کو دنیا کی عیش پرستی سے فرصت نہیں ملتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والوں کو ہلاک نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ (یونس : ٤٤) ٢۔ بیشک اللہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا۔ (المومن : ٣١) ٤۔ بیشک اللہ بندوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتا۔ (الحج : ١٠) ٥۔ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی جان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٦۔ جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ٢٧٢) ٧۔ اللہ ان پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ٧٠۔ العنکبوت : ٤٠۔ الروم : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ مختصر سا اشارہ اس پالیسی کو ظصاہر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کے بارے میں اختیار کی ہوئی ہے۔ جس قوم کے اندر بگاڑ اور فساد عام ہوجائے ، جس میں انسان انسان کا غلام ہو ، خواہ اس کی کوئی بھی صورت ہو ، لیکن اس میں ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو اصلاح احوال کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو یہ قوم بچنے والی قوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایسی قوم کو نیست و نابود نہیں فرماتا۔ لیکن ایسی اقوام جس میں ظالم ظلم کریں اور دندناتے پھریں ، فسادی فساد کرتے رہیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو یا ان میں ایسے لوگ ہوں جو ظلم و فساد کو برا سمجھتے ہوں کے وہ صورت حالات کو بدلنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ تو ان قوموں کے بارے سنت الہٰیہ اپنا کام کرتی ہے یا تو اس قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا ہے یا اس پر ایسا عذاب آتا ہے کہ یہ قوم من حیث القوم بکھر جاتی ہے۔ لہذا وہ لوگ جو اس زمین پر اللہ کی ربوبیت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں ، ایسا نظام جس میں صرف اللہ حاکم ہو اور وہ لوگ جو زمین میں اللہ کی حاکمیت اور شر یعت کی عدالت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہ چلتا ہو تو ایسے لوگ دراصل زمین کا نمک ہیں اور ان کی وجہ سے اقوام کی ہلاکت رکی ہوئی ہوتی ہے۔ لہذا وہ لوگ جو دنیا میں اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لیے سعی کرتے ہیں۔ وہ بڑی قدر و قیمت کے مالک ہوتے ہیں ، جو ظلم و فساد کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں ، نہ صرف یہ کہ لوگ اپنے رب کی طرف سے عائد شدہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں بلکہ یہ جس قوم میں کام کرتے ہیں وہ قوم کلی ہلاکت اور من حیث القوم ہلاکت کے عذاب سے بچ جاتی ہے ، ان کی وجہ سے اقوام پر اللہ کا عذاب موقوف رہتا ہے۔ آخری تبصرہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ، بعض انسان بھلائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور بعض بگاڑ کی طرف ، اس کائنات میں اللہ نے یہ سنت بھی جاری کردی ہے کہ کچھ لوگ اس طرف ہوں گے اور کچھ اس طرف

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

گزشتہ امتیں جو ہلاک ہوئیں ان میں اہل بصیرت نہ تھے جو زمین میں فساد کرنے سے روکتے ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ جو گزشتہ امتیں گزری ہیں ان میں ایسے سمجھدار بصیرت والے کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد کرنے سے روکتے ‘ ہاں ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو فساد سے روکنے کے کام میں لگے انہیں ہم نے نجات دے دی یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ لَوْ لَا اپنے اصلی معنی میں ہو اور بعض حضرات نے فرمایا کہ لو لا نفی کے معنی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں ایسے اہل رائے اور اہل فہم نہ تھے جو لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکتے ان میں صرف تھوڑے سے لوگ تھے جنہوں نے یہ کام کیا ادھر تو نہی عن المنکر کرنے والوں کا فقدان اور ادھر مال والوں کے پاس مال کی فراوانی ان لوگوں نے ظلم کی راہ اختیار کی یعنی کفر اختیار کیا اور اپنی مستیوں اور لذتوں میں پڑے رہے اور جرم کا ارتکاب کرتے رہے لہٰذا ان کو ہلاک کردیا گیا بس چند ہی آدمی بچے جنہیں ہم نے نجات دیدی یہ لوگ ایمان پر اور ایمان تقاضوں پر قائم تھے منکرات سے بچتے تھے اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکتے تھے۔ اس میں اس امت حاضرہ کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنی سمجھ اور بصیرت کو کام میں لائیں اور لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکیں۔ علامہ قرطبی تفسیر (ص ١١٢ ج ٩) میں لکھتے ہیں اولُوْا بَقِیَّۃٍ اَی اَصْحَاب طاعۃ ودین وعقل وبصرٍ ینھون قومھم عن الفساد فی الارض لِمَا اَعطاھم اللہ تعالیٰ من المعقول واَراھم من الایات وھذا توبیخ لکفار وقیل لو لا ھٰھُنا للنفی اَی ما کان من قبلکم۔ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یعنی فرمانبردار ‘ دیندار ‘ عقلمند ‘ بصیرت والے ‘ جو قوم کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے تھے اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھ عطا کی تھی اور انہیں نشانیاں دکھائی تھیں اور یہ کافروں کے لیے تنبیہ ہے۔ بعض نے کہا لو لا یہاں پر نفی کے لیے ہے یعنی تم سے پہلے نہیں تھے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95:۔ لَولَا بمعنی ھلا برائے تحضیض ہے یعنی تم سے پہلے قرون میں جو لوتگ عقل و رائے والے اور دین کے راہنما تھے انہوں نے دوسرے لوگوں کو شرک و کفر سے کیوں نہ روکا جو زمین میں اصل شر و فساد کی جڑ ہے۔ بقیۃ ای اصحاب طاعۃ ودین وعقل وبصر (قرطبی ج 9 ص 113) ۔ اِلّا قَلِیْلاً استثناء منقطع ہے یعنی البتہ بہت تھوڑے لوگ ایسے ضرور تھے جن کو ہم نے عذاب سے بچا لیا جبکہ باقی سرکش قوم کو ہلاک کردیا۔ 96:۔ مشرکین دنیوی مال ومتاع میں مصروف اور نفسانی لذات وشہوات میں منہمک تھے اس لیے انہوں نے ان معدودے چند مصلحین کی ایک نہ سنی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

116 سو جو امتیں تم سے پہلے ہلاک ہوچکی ہیں ان میں ایسے اہل خیر اور سمجھ دار لوگ کیوں نہیں ہوئے جو لوگوں کو ملک میں فساد پھیلانے سے منع کرتے مگر بہت تھوڑے آدمی ایسے تھے جو فساد سے روکتے تھے ان کو ہم نے ان میں سے بچا لیا اور وہ اس عذاب سے جن میں مفسدین مبتلا ہوئے بچ گئے اور جو لوگ ظالم و نافرمان تھے وہ اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جس عیش و آسودگی میں وہ تھے اور جس ناز نعمت میں وہ رہتے تھے اسی ناز ونعمت کے پیچھے پڑے رہے اور وہ جرائم کے عادی ہوچکے تھے۔ یعنی الم سابقہ کی ہلاکت کے جو قصے مذکور ہوئے ان کے ہلاک ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان میں ایسے سمجھ دار لوگ نہ ہوئے جو لوگوں کو کفر وشرک سے باز رکھتے اور ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے کچھ تھوڑے اور معدود سے چند لوگ تبلیغ کرتے رہے تو وہ عذاب سے بچا لئے گئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نیک لوگ غالب ہوتے تو وہ قوم ہلاک نہ ہوتی تھوڑے تھے سو آپ بچ گئے 12 خلاصہ ! یہ کہ نافرمانی اور کفروشرک عام رہا سمجھانے والا تبلیغ کرنے والا کوئی رہا نہیں جو دو چار تھے وہ بچا لئے گئے باقی سب ہلاک کردئیے گئے۔