Surat Hood

Surah: 11

Verse: 81

سورة هود

قَالُوۡا یٰلُوۡطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنۡ یَّصِلُوۡۤا اِلَیۡکَ فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ اِلَّا امۡرَاَتَکَ ؕ اِنَّہٗ مُصِیۡبُہَا مَاۤ اَصَابَہُمۡ ؕ اِنَّ مَوۡعِدَہُمُ الصُّبۡحُ ؕ اَلَـیۡسَ الصُّبۡحُ بِقَرِیۡبٍ ﴿۸۱﴾

The angels said, "O Lot, indeed we are messengers of your Lord; [therefore], they will never reach you. So set out with your family during a portion of the night and let not any among you look back - except your wife; indeed, she will be struck by that which strikes them. Indeed, their appointment is [for] the morning. Is not the morning near?"

اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو ۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیئے بجز تیری بیوی کے اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا ، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے ، کیا صبح بالکل قریب نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ ... They (messengers said): "O Lut! Verily, we are the messengers from your Lord! They shall not reach you! ... فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ .. So travel with your family in a part of the night, They commanded him to travel with his family during the last part of night and that he should follow them from behind. In this way it would be as though he were driving his family (as a cattle herder). ... وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ ... and let not any of you look back; This means, "If you hear the sound of what (torment) befalls them (the people of the village), do not rush towards that disturbing noise. Rather, continue leaving." ... إِلاَّ امْرَأَتَكَ ... but your wife, Most of the scholars said that; this means that she would not travel at night and she did not go with Lut. Rather, she stayed in her house and was destroyed. Others said that; it means that she looked back (during the travel). This later group says that; she left with them and when she heard the inevitable destruction, she turned and looked back. When she looked she said, "O my people!" Thus, a stone came down from the sky and killed her. Then they (the angels) brought close to him the destruction of his people as good news for him, because he said to them, "Destroy them in this very hour." ... إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ... verily, the punishment which will afflict them, will afflict her. They replied, ... إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ Indeed, morning is their appointed time. Is not the morning near! They were saying this while Luts people were standing at his door. They tried to rush his door from all sides and Lut was standing at the door repelling them, deterring them and trying to prevent them from what they were doing. Yet, they would not listen to him. Instead, they threatened him and sought to intimidate him. At this point, Jibril came out to them and struck them in their faces with his wing. This blow blinded their eyes and they retreated, unable to see their way. This is as Allah said, وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَأ أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُواْ عَذَابِى وَنُذُرِ And they indeed sought to shame his guest (asking to commit sodomy with them). So We blinded their eyes (saying), "Then taste you My torment and My warnings." (54:37)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 جب فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ کرلیا تو بولے، اے لوط ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تک تو کیا، اب یہ تجھ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب رات کے ایک حصے میں، سوائے بیوی کے، اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جا ! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہلاک کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] مشٹنڈوں کا اندھا ہونا :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی زبان سے ایسے بےبسی کے الفاظ سن کر فرشتے چپ نہ رہ سکے اور کہنے لگے کہ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ آپ کے پروردگار کے فرستادہ فرشتے ہیں اور فکر نہ کرو یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمہارا بھی کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد سیدنا جبریل نے لوط کو ایک علیحدہ جگہ بٹھلا دیا اور صرف اپنا بازو تھوڑا سا ان ملعونوں کی طرف بڑھایا تو سب کے سب اندھے ہوگئے انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بھاگو یہاں سے۔ یہ لوط کے مہمان تو بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں اور جب وہ بھاگنے لگے تو ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ [ ٩٢] سیدنا لوط اور مومنوں کو نکلنے کی ہدایت اور بیوی کا پیچھے رہنا :۔ جب یہ لوگ سیدنا لوط کے گھر سے دفع ہوگئے تو فرشتوں نے لوط کو اللہ تعالیٰ کے پروگرام سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ صبح کے وقت ان پر عذاب آنے والا ہے اور صبح ہونے میں تھوڑا ہی وقت باقی رہ گیا ہے لہذا جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرو اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی کیونکہ وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا مبادا کسی کو یہ خیال آجائے کہ دیکھیں تو سہی ان پر کیسے عذاب آتا ہے اور وہ بھی کہیں عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ ۔۔ : قوم کے بدمعاش جب باز نہ آئے بلکہ دیواریں پھلانگ کر یا دروازہ توڑ کر اندر آگئے تو فرشتے نے پر مارا، جس سے سب اندھے ہو کر بھاگ اٹھے۔ سورة قمر میں اس کی طرف اشارہ ہے، فرمایا : (وَلَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ فَطَمَسْـنَآ اَعْيُنَهُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَنُذُرِ ) [ القمر : ٣٧ ] ” اور بلاشبہ یقیناً انھوں نے اسے اس کے مہمانوں سے بہکانے کی کوشش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں مٹا دیں، پس چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ “ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب فرشتوں نے دیکھا کہ لوط (علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو نہ روک سکنے کی وجہ سے سخت رنجیدہ ہیں تو انھوں نے ظاہر کردیا کہ ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ وہ تھا جو انھوں نے ان بدکاروں کی آنکھیں مٹا کر کیا، مزید تسلی یہ دی کہ یہ لوگ کبھی آپ کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے۔ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ ۔۔ : یعنی رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ صرف گھر والوں کو لے کر نکلنے کا حکم اس لیے دیا کہ کوئی اور شخص ان کے سوا مسلمان ہی نہیں ہوا تھا۔ دیکھیے سورة ذاریات ( ٣٥، ٣٦) ۔ اِلَّا امْرَاَتَكَ : اس کی دو تفسیریں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ” فَاَسْرِ بِاَھْلِک “ سے استثنا ہے، یعنی اپنی بیوی کے سوا دوسرے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ۔ دوسری یہ کہ تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے، مگر تمہاری بیوی مڑ کر دیکھے گی اور اپنے کفر اور قوم کی ہمدردی کی وجہ سے ان پر عذاب دیکھ کر آہ و پکار کرے گی تو اسے بھی وہی عذاب آپہنچے گا جو ان کو پہنچا۔ پہلا معنی زیادہ قریب ہے۔ (واللہ اعلم) قدرتی بات ہے کہ انسان کو اپنے دشمن کی جلد از جلد بربادی کی خواہش ہوتی ہے، فرشتوں نے بتایا کہ ان پر عذاب صبح کے وقت آئے گا۔ لوط (علیہ السلام) کے مزید جلدی کے مطالبے پر انھوں نے کہا : (اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ) ” کیا صبح واقعی قریب نہیں ہے ؟ “ صبح کا وقت شاید اس لیے مقرر کیا گیا ہو کہ وہ آرام کا وقت ہوتا ہے اور لوگ کچھ کچھ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ آرام کے وقت عذاب زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں عذاب دیکھنے والوں کے لیے باعث عبرت بھی ہوتا ہے۔ (آلوسی) ” اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ “ پر شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At that time, the angels under Divine command said to Sayyidna Lut (علیہ السلام) : فَأَسْرِ‌ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ (So, move with your family in a part of night). And asked him to instruct everyone in his family not to turn and look back with the exception of his wife because she was going to be hit by the same punishment that was to fall on his people. This could also mean that he was not to take his wife along with him. And it could also mean that, being his wife, she was to go along as part of his family, but she would not obey the instruction of not looking back he would give to his family. According to some reports, this is what happened. This wife started off with others, but when she heard the big bang of the punishment given to her people, she looked back and felt sorry at their destruction. At that moment there came a splintered rock and finished her off like others. (Qurtubi, Mazhari) The angels had also told Sayyidna Lut (علیہ السلام) that: إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ (The deadline [ of the punishment ] is the morning). He said that he wished the punishment would come sooner. Thereupon, the angels said: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِ‌يبٍ (Is it not that the morning is near?) After that, the Qur&an portrays the occurrence of the punishment by saying: So, when Our command came, We turned whatever there was in their habitat upside down raining such stones over it as had the names of everyone there marked on it. Reports say that these habitations were composed of four major towns where those people lived. These very habitations have been named as &al-mu&tafikat& (the towns overturned) elsewhere in the Holy Qur&an (9:70, 69:9). When the Divine command came, the archangel Ji¬bra&il al-Amin dissected the base of the land mass holding all those towns on top of it with his wing, raised all of it upwards in a way that everything stayed where it was, even water in a water vessel. It was in the backdrop of human, animal and canine voices coming from the sky that he heaved all these habitations straight up towards the sky and, then, threw the whole thing back upside down - as appropri¬ate to and as called for by the evil they indulged in.

اس وقت فرشتوں نے بحکم ربانی حضرت لوط (علیہ السلام) کو کہا (آیت) فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ ، یعنی آپ رات کے آخری حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر یہاں سے نکل جائے۔ اور یہ ہدایت کردیجئے کہ ان میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، بجز آپ کی بیوی کے کیونکہ اس پر تو وہی عذاب پڑنے والا ہے جو قوم پر پڑے گا۔ اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بیوی کو ساتھ نہ لیں، اور یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ بیوی ہونے کی حیثیت سے وہ آپ کے اہل میں داخل ہو کر ساتھ چلے گی مگر وہ آپ کے اس حکم پر عمل نہ کرے گی جو آپ اپنے اہل عیال کو دیں گے کہ کوئی مڑ کر نہ دیکھے، بعض روایات میں ہے کہ یونہی ہوا کہ یہ بیوی بھی ساتھ چلی مگر جب قوم پر عذاب آنے کا دھماکہ سنا تو پیچھے مڑ کر دیکھا اور قوم کی تباہی پر اظہا افسوس کرنے لگی، اسی وقت ایک پتھر آیا جس نے اس کا بھی خاتمہ کردیا۔ (قرطبی و مظہری) ۔ فرشتوں نے یہ بھی بتلا دیا کہ (آیت) اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ، یعنی ان پر صبح ہوتے ہی عذاب آجائے گا حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اور بھی جلد عذاب آجائے، اس پر فرشتوں نے کہا (آیت) اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ، یعنی صبح تو کچھ دور نہیں ہوا چاہتی ہے۔ پھر اس عذاب کا واقعہ قرآن نے اس طرح بیان فرمایا کہ جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے ان بستیوں کے اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر ایسے پتھر برسائے جن پر ہر ایک کے نام کی علامت لگی ہوئی تھی۔ روایات میں ہے کہ یہ چار بڑے بڑے شہر تھے جن میں یہ لوگ بستے تھے، انہیں بستیوں کو قرآن کریم میں دوسری جگہ، مؤ تفکات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو جبرئل امین نے اپنا پَر ان سب شہروں کی زمین کے نیچے پہنچا کر سب کو اس طرح اوپر اٹھا لیا کہ ہر چیز اپنی جگہ رہی، پانی کے برتن سے پانی بھی نہیں گرا، آسمان کی طرف سے کتوں اور جانوروں اور انسانوں کی آوازیں آرہی تھیں ان سب بستیوں کو آسمان کی طرف سیدھا اٹھانے کے بعد اوندھا کرکے پلٹ دیا، جو ان کے عمل خبیث کے مناسب حال تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ فَاَسْرِ بِاَہْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ مُصِيْبُہَا مَآ اَصَابَہُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ۝ ٠ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ۝ ٨١ وصل الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني . يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] ( و ص ل ) الا تصال کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] 232- بسرو حمیر أبوال البغال به «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم/ 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف/ 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة . ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم/ 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ لفت يقال : لَفَتَهُ عن کذا : صرفه عنه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] أي : تصرفنا، ( ل ف ت ) لفتہ عن کذا ۔ کسی چیز سے پھیر دینا ۔ قرآن میں ہے : قالُوا أَجِئْتَنا لِتَلْفِتَنا[يونس/ 87] کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ( جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) تو کہنے لگے اے لوط ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہم تو کیا آپ تک انکی رسائی نہیں ہوسکتی کہ آپ کو کچھ تکلیف پہنچائیں۔ ہم ہی ان کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں۔ تو آپ رات کے کسی حصہ میں یعنی سحر کے وقت اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے کسی اور مقام پر چلے جائیے اور آپ میں سے کوئی پیچھے نہ رہے مگر ہاں آپ کی بیوی واعلہ مسلمان نہ ہونے کے باعث نہ جائے گی اس پر بھی وہ عذاب نازل ہوگا جو اوروں پر ہوگا انکی ہلاکت کا وقت صبح کا وقت ہے۔ تب لوط (علیہ السلام) نے فرمایا جبریل (علیہ السلام) ابھی ہوجائے، جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کیا صبح کا وقت قریب نہیں کیوں کہ جبریل امین (علیہ السلام) تو اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور لوط (علیہ السلام) کے سامنے ابھی تک یہ منظر نہیں آیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (قَالُوْا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ ) فرشتوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے آپ کو تسلی دی کہ آپ اطمینان رکھیں یہ لوگ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ ہلایا تو وہ سب نابکار اندھے ہوگئے۔ (فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ) یعنی یہاں سے جاتے ہوئے آپ لوگوں کو پیچھے رہ جانے والوں کی طرف کسی قسم کی کوئی توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (اِلَّا امْرَاَتَكَ ۭ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَآ اَصَابَهُمْ ) یعنی جب آپ اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکلیں گے تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہیں جائیں گے۔ آپ ( علیہ السلام) کی اس بیوی کا ذکر سورة التحریم میں حضرت نوح کی مشرک بیوی کے ساتھ اس طرح ہوا ہے : (ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ 10) ” اللہ کافروں کے لیے مثال بیان کرتا ہے نوح کی بیوی اور لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی۔ وہ دونوں عورتیں ہمارے دو برگزیدہ بندوں کے تحت تھیں لیکن انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی چناچہ ان کے شوہر انہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکے۔ اور (ان دونوں عورتوں سے) کہہ دیا گیا کہ تم بھی (جہنم میں) داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ “ (اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ) فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا کہ اب آپ لوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ آپ فوری طور پر اپنی بچیوں کو لے کر یہاں سے نکل جائیں صبح ہوتے ہی ان بستیوں پر عذاب آجائے گا۔ اور صبح ہونے میں اب دیر ہی کتنی ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. The warning implied in directing Lot (peace be on him) and his household to depart at their earliest was loud and clear. They were told not to tarry behind in the region which had been marked for total destruction. 90. This is the third instructive event related in this surah. The purpose of relating it is to underscore the fact that family connections with, and the intercession of, people of high spiritual standing can be of no avail in rescuing a people from the punishment they invite upon themselves by their evil deeds.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :89 جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں ، یہ دعا حضرت موسیٰ نے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی اور اس وقت کی تھی جب پے دَر پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بد دعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کر نے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :90 جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ مین حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں ، اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ، پھر وہ نادان لوگ آخر کار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامتِ حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عمومًا لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨١۔ اس سورت میں اور سورت شعراء میں سورت نمل اور سورة والصافات چند سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ ذکر فرمایا ہے حاصل اس قصہ کا یہی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت فرمائی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں۔ ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو فلسطین کے نواح میں رہتے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سدوم بستی کے لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی ہوئے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے مدت تک ان لوگوں کو ہدایت کی مگر وہ راہ راست پر نہ آئے جب اس قوم کی ہلاکت کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل اور میکائیل اور اسرافیل زمین پر آئے اور پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی اور پھر حضرت لوط (علیہ السلام) کی امت کی بستی میں خوبصورت لڑکوں کی صورت میں آئے اور مہمان بن کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں اترے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بی بی نے قوم کے لوگوں کو ان مہمانوں کی خبر کردی قوم کے لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر حملہ کر کے چڑھ آئے حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کے لوگوں کے حملہ سے بہت پریشان ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی دور ہونے کی غرض سے ان فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو جتلایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں اور پتھروں کا مینہ برسا کر اور بستی الٹ کر اس قوم کو ہلاک اور بستی کو نیست و نابود کردیا اب اس بستی کی جگہ بودار پانی کا ایک چشمہ ہے جو پانی کسی کام میں نہیں آسکتا۔ صحیح بخاری نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب قوم کے لوگوں کے ہاتھ سے اللہ کے رسول بہت پریشان ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ غیب سے اپنے رسولوں کی مدد فرماتا ١ ؎ ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوط (علیہ السلام) جب قوم کے لوگوں کے ہاتھ سے بہت پریشان ہوئے تو ایک مدد تو غیب سے یہ ہوئی کہ وہ لوگ اندھے ہوگئے دوسری مدد یہ ہوئی کہ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کی دلجمعی کردی کہ صبح کو اس قوم پر عذاب آئے گا۔ بعضے سلف کا قول ہے کہ لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کی سرکشی سے یہاں تک تنگ آگئے تھے کہ انہوں نے رات کو ہی عذاب کے آجانے کی تمنا ظاہر کی اس کا جواب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ عذاب کے آنے کا مقررہ وقت صبح ہے اور صبح بھی نزدیک ہے کچھ دور نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:81) لن یصلوا الیک یہ (لوگ) تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ای لن یصلوا الیک بضرر ولا مکروہ۔ یعنی وہ تمہیں کوئی گزند یا تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔ اسر۔ تو رات کو لے کر چل۔ اسراء سے جس کے معنی رات کو لے کر چلنے کے اور رات کو سفر کرنے کے ہیں۔ امر ۔ واحد مذکر حاضر۔ قرآن مجید میں ہے سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا (17:1) پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندہ کو راتوں رات۔ بقطع من اللیل۔ القطع فی اخر الیل۔ رات کے پچھلے حصہ میں وقیل من اول الیل۔ رات کے پہلے حصہ میں۔ لا یلتفت۔ نہی واحد مذکر غائب۔ التفات (افتعال) مصدر۔ لفت مادہ مڑ کر نہ دیکھے ۔ الا امرأتک۔ الا۔ حرف استثناء امرأتک مضاف مضاف الیہ مل کر مستثنیٰ ۔ اہلک۔ مستثنیٰ منہ۔ یعنی رات کو اپنے گھر والوں کو لے کر چل پڑو ماسوائے اپنی بیوی کے (یعنی اس کو نہ لے جانا) ۔ مصیبھا۔ اسم فعل واحد مذکر۔ مضاف۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مضاف الیہ۔ اس کو پالینے والا۔ اس پر پہنچ جانے والا۔ اصاب یصیب سے۔ موعدہم۔ موعد اسم ظرف زمان ۔ مضاف ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ ان کے وعدہ کا وقت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی جب فرشتوں نے دیکھا کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) بالکل عاجز آگئے ہیں اور اپنی قوم کے بدکاروں کو رونہ نہ سکنے کی وہج سے سخت رنجیدہ ہیں تو انہوں نے ظاہر کردیا کہ ہم فرشتے ہیں۔ 6 ۔ پیچھے سے عذاب کی بنا پر شور اور دھماکوں کی آواز بھی آئے تب بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھو بلکہ اس علاقے جلد از جلد نکل جانے کی فکر کرو۔ 7 ۔ اسے ساتھ نہ لے جائو کیونکہ وہ کافر ہے یا وہ پیچھے مڑ کر دیکھے گی۔ (وحیدی) ۔ 8 ۔ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ جب حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے چل دئیے تو ان کی بیوی بھی ساتھ تھی لیکن جب عذاب نازل ہونے کی آوازیں آنے لگیں تو وہ پیچھے مڑ کر اپنی قوم کی تباہی پر افسوس کرنے لگی۔ ایک پتھر اس پر بھی آکر گرا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ یہ ملطب اس صورت میں ہوسکتا ہے جب ” الامریک کا استثنا “ لا یلتفت سے ہو مگر اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ ساتھ ہی نہیں گئی اور اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوگئی۔ اس صورت میں یہ استثناء ” فاسر باھلک “ سے ہوگا۔ (ابن کثیر) ۔ 9 ۔ ہمارے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت، شاید وہی اشارہ ہو۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط پر نازل ہونے والے عذاب کی کیفیت بیان کی جارہی ہے۔ قوم لوط نے نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مرتکب چکے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ (أَءِنَّکُمْ لَتَأْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَأْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلَّا أَنْ قَالُوْا اءْتِنَا بِعَذَاب اللَّہِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ )[ العنکبوت : ٢٩] ” کیا تم لوگ مردوں کے پاس جاتے ہو، راہزنی کرتے اور اپنی مجالس میں برے کام کرتے ہو۔ اس کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہنے لگے اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔ “ سورۃ الشعراء کی آیت ١٦٠ تا ١٦٦ میں یوں ارشاد ہوتا ہے کہ : قوم لوط نے بھی پیغمبر کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمہارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ جو تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے بڑھنے والے ہو۔ قوم لوط پر جس علاقے میں عذاب نازل ہوا اسے بحرمردار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ جو پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحیرہ روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصر کے محقق شیخ عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے پانی کی خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کے علاقے کو الٹا دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی۔ ٣۔ ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ ٤۔ حضرت لوط کی بیوی بھی اپنی قوم کے ساتھ تباہ ہوئی۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط پر عذاب کی کیفیت : ١۔ جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسا دی۔ (ھود : ٨٢) ٢۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ٣۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) ٤۔ ہم نے قوم لوط پر پتھر برسائے۔ (القمر : ٣٤) ٥۔ قوم لوط پر کنکر کے پتھر برسائے گئے۔ (الذاریات : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چناچہ انہوں نے اپنے مشن کی بابت بتادیا اور حکم دیا کہ وہ اپنے پاکیزہ خاندان کے ساتھ نکل جائیں۔ ہاں تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں ہے۔ یہ فاسقین کی جماعت میں شامل ہے۔ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍِ (٨١ : ١١) “ کیا صبح کا وقت قریب نہیں ہے۔ ” یہ فقرہ اس لیے آیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی روح خوش ہوجائے کیونکہ انہوں نے گزشتہ محفل بڑی اذیت کے ساتھ گزاری تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کا انجام بہت ہی قریب ہے۔ صبح ہوتے ہی یہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ اب وہ خواہش اللہ پوری فرمائیں گے جو خواہش حضرت لوط اپنی کم قوت کی بناء پر پوری نہ کرسکتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ جب فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کا کرب و اضطراب دیکھا تو بول اٹھے اے لوط ! ان کو آنے دو ہم تو اللہ کے فرشتے ہیں اور انہیں عذاب الٰہی سے ہلاک کرنے آئے ہیں۔ آپ راتوں رات اپنے اہل و عیال کو لے کر بستی سے باہر چلے جائیں اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اِلَّا امْرَاَتَکَ یہ اَسْرِ بِاَھْلَکَ سے استثناء ہے یعنی اپنی بیوی کو ساتھ مت لے جانا کیونکہ وہ بھی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک کی جائے گی اور ہلاکت کے لیے صبح کا وقت مقرر ہوچکا ہے۔ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ یہ گویا سوال مقدرہ کا جواب ہے۔ ایبقون الی الصبح کیا وہ صبح تک زندہ رہیں گے یعنی ابھی ہلاک کیوں نہیں کیے جاتے ؟ فرمایا کیا صبح قریب نہیں ؟ یعنی صبح بھی دور نہیں بےفکر رہو وہ صبح کو ضرور ہلاک ہوجائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

81 وہ فرشتے جو مہمان تھے لوط سے کہنے لگے اے لوط (علیہ السلام) ہم آدمی نہیں ہیں آپ اس قدر کیوں گھبراتے ہیں ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ آپ تک ہرگز نہیں پہونچ سکیں گے اب آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیے اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے مگر ہاں آپ کی بیوی چونکہ وہ مسلمان نہیں ہے اس لئے وہ نہیں جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کی بیوی پر وہی عذاب اور آفت آنے والی ہے جو آفت قوم کے لوگوں پر آنے والی ہے ان لوگوں کے عذاب کے وعدے کا وقت صبح کا وقت ہے کیا صبح کا وقت قریب نہیں ہے جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی زیادتی یہاں تک پہونچ چکی تو ان فرشتوں نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہم تو عذاب ہی لیکر آئے ہیں آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر باہر چلے جائیے اور جانے والوں میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کا استثنیٰ کرو یا کر وہ کافروں ہی کے ساتھ رہے گی اور جس عذاب میں قوم گرفتار ہوگئی اسی میں وہ بھی مبتلا ہوگی فرشتوں نے عذاب کا وقت بھی بتادیا کہ صبح ہوتے ہی عذاب شروع ہوجائیگا اور صبح کون سی دور ہے آیا ہی چاہتی ہے۔ موعدھم الصبح میں کئی قول ہیں اس لئے رات کے کسی حصہ سے ترجمہ کیا ہے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہمارے حضرت کو مکہ فتح ہوا صبح کے وقت شاید وہی اشارہ ہو 12