Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 20

سورة يوسف

وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ ﴿۲۰﴾٪  12

And they sold him for a reduced price - a few dirhams - and they were, concerning him, of those content with little.

اورانہوں نے اسے بہت ہی ہلکی قیمت پر گنتی کے چند درہموں پر بیچ ڈالا ، وہ تو یوسف کے بارے میں بہت ہی بے رغبت تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ ... And they sold him for a Bakhs price, - for a few Dirhams in reference to Yusuf's brothers selling him for a little price, according to Mujahid and Ikrimah. Bakhs' means decreased, just as Allah the Exalted said in another Ayah, فَلَ يَخَافُ بَخْساً وَلاَ رَهَقاً shall have no fear, either of a Bakhs (a decrease in the reward of his good deeds) or a Rahaq (an increase in the punishment for his sins). (72:13) meaning that Yusuf's brothers exchanged him for a miserably low price. Yet, he was so insignificant to them that had the caravan people wanted him for free, they would have given him for free to them! Ibn Abbas, Mujahid and Ad-Dahhak said that, وَشَرَوْهُ (And they sold him), is in reference to Yusuf's brothers. They sold Yusuf for the lowest price, as indicated by Allah's statement next, دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ (for a few Dirhams), twenty Dirhams, according to Abdullah bin Mas`ud. Similar was said by Ibn Abbas, Nawf Al-Bikali, As-Suddi, Qatadah and Atiyah Al-Awfi, who added that they divided the Dirhams among themselves, each getting two Dirhams. ... وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ And they were of those who regarded him insignificant. Ad-Dahhak commented on Allah's statement, "Because they had no knowledge of his Prophethood and glorious rank with Allah, the Exalted and Most Honored."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 بھائیوں یا دوسری تفسیر کی رو سے اہل قافلہ نے بیچا۔ 20۔ 2 کیونکہ گری پڑی چیز انسان کو یوں ہی کسی محنت کے بغیر مل جاتی ہے، اس لئے چاہے وہ کتنی بھی قیمتی ہو، اس کی صحیح قدر و قیمت انسان پر واضح نہیں ہوتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یوسف کو بیچنے والے کون تھے ؟ برادران یوسف یا قافلے والے :۔ بائیبل کی روایت کے مطابق تو قرآن کے لفظ (وَشَرَوْہُ ) کی ضمیر کا مرجع برادران یوسف ہیں۔ یعنی برادران یوسف نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو معمولی سی قیمت کے عوض قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیونکہ وہ یوسف کی خبرگیری رکھتے تھے اور بروقت جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ لڑکا ہمارا غلام ہے جو گھر سے بھاگ آیا تھا اور ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر انہوں نے ان قافلہ والوں سے معمولی سی قیمت کے عوض اس کی سودا بازی کرلی۔ کیونکہ یہ جو رقم انھیں مل رہی تھی مفت میں مل رہی تھی۔ لہذا انہوں نے اتنی قیمت کو بھی غنیمت سمجھا۔ ان کی اصل غرض تو یہی تھی کہ یوسف یہاں سے دور کسی ملک میں پہنچ جائے اور یہ مقصد پورا ہو رہا تھا اور یہی قصہ عوام میں زبان زد عام ہے۔ لیکن قرآن کا سیاق وسباق اس مفہوم کی تائید نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے مصر میں جاکر اس لڑکے (یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کر ڈالا اور اسے معمولی قیمت میں اس لیے بیچ ڈالا کہ انھیں بھی یہ مال مفت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہذا زیادہ قیمت لگانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ ۔۔ :” بَخْسٍ “ کا معنی اصل قیمت سے کم قیمت ہے، جیسے فرمایا : ( وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ) [ الأعراف : ٨٥ ] ” اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ۔ “ یعنی قافلے والوں نے اسے تھوڑی قیمت، چند گنے ہوئے درہموں میں بیچ دیا، کیونکہ زیادہ درہم ہوتے تو وہ گننے کے بجائے تول لیے جاتے تھے۔ ” اور وہ اس میں رغبت نہ رکھنے والوں میں سے تھے “ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قانونی طور پر حقیقی غلام کو نہیں بیچ رہے تھے، اس لیے جو کچھ مل گیا اسے انھوں نے غنیمت سمجھا۔ بےرغبت ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ جلد اس سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا شخص نہ آجائے جو انھیں اس جرم میں پکڑ لے کہ وہ اس کے آزاد بیٹے کو غلام بنا کر پکڑ لائے ہیں، تو ہر وقت چھپا کر رکھنا اور یوسف (علیہ السلام) کو کسی سے اپنی حقیقت بیان کرنے کا موقع ہی نہ دینا ان کے لیے مصیبت تھا۔ اس سے ان لوگوں کی داستان گوئی کی حقیقت بھی معلوم ہوگئی جو یوسف (علیہ السلام) کے خریداروں کے ہجوم کا اور سوت کی اٹی لانے والی عورت کا اور آخر کار سونے میں تول کر فروخت کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ ویسے بھی ” شَرَی یَشْرِیْ “ بیچنے اور ” اِشْتَرَی یَشْتَرِیْ “ خریدنے کے معنوں میں آتا ہے، الا یہ کہ کوئی خاص قرینہ اس کے خلاف ہو، کیونکہ اصل یہی ہے کہ ” فَعَلَ “ کسی حدث (کام) کے لیے آتا ہے اور ” اِفْتَعَلَ “ اس کی مطاوعت (اس کام کا اثر قبول کرنے) کے لیے ہوتا ہے، جیسے ” بَاعَ “ اس نے بیچا اور ” اِبْتَاعَ “ اس نے خریدا۔ ” رَھَنَ “ اس نے گروی دیا اور ” اِرْتَھَنَ “ اس نے گروی لیا۔ ” کَرِیَ “ اس نے کرایہ پر دیا اور ” اِکْتَرَی “ اس نے کرایہ پر لیا۔ اس کے خلاف اول تو آتا ہی نہیں، آئے تو کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے۔ جو لوگ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا آ کر قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت کرنا ذکر کرتے ہیں ان کی بات کا قرآن کی کسی آیت میں ذکر چھوڑ کر اشارہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی اسرائیلی روایت ہے تو اس کا اعتبار نہیں اور وہ قرآن کے بیان کے بھی خلاف ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 20 begins with the words: وَشَرَ‌وْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَ‌اهِمَ مَعْدُودَةٍ (And they sold him for a paltry price, for a few silver-coins, and they were disinterested in him). In Arabic, the word: شِرَا (shira& ) is used for buying and sell¬ing both. The probability of both meanings exists here. If the pronoun is reverted back to the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، it will mean sell¬ing - and if applied to the people of the caravan, it would mean buying. Thus, the sense would be: ` the brothers of Yusuf sold him - or, the people of the caravan bought him - for a paltry price, that is, for a counted few dirhams in return.& Al-Qurtubi says: The Arab traders used to transact deals involving big amounts by weight while, for amounts not more than forty, they would go by count. Therefore, the word: مَعْدُودَةٍ (ma` dudah: few) used with: دِرَاھُم (darahim: plural of dirham: silver-coins) tells us that the count of dirhams was less than forty. Ibn Kathir, citing the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) ، has written that the deal was closed at twenty dirhams which the ten brothers had divided among themselves at the rate of two dirhams per person. As for the exact amount of dirhams, reported there are other narrations as well which put them as twenty two and forty. (Ibn Kathir) In the last sentence of the verse: وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ (and they were dis¬interested in him), the word: الزَّاهِدِينَ (az-zahidin) is the plural of zahid which is a derivation from zuhd. Literally, zuhd means indifference, dis¬interestedness. In usage, the lack of interest in and the avoidance of wealth and property in worldly life is referred to as zuhd. The meaning of the verse is that the brothers of Yusuf (علیہ السلام) were really not interested in any financial gain for themselves in this matter. Their real purpose was to separate Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from their father. Therefore, they struck a deal for a very few dirhams.

وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ لفظ شراء عربی زبان میں خریدنے اور فروخت کرنے دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں بھی دونوں معنی کا احتمال ہے ضمیر اگر بردران یوسف کی طرف عائد کی جائے تو فروخت کرنے کے معنی ہوں گے اور قافلہ والوں کی طرف عائد کی جائے تو خریدنے کے معنی ہوں گے مطلب یہ ہے کہ بیچ ڈالا برادران یوسف نے یا خرید لیا قافلہ والوں نے یوسف (علیہ السلام) کو بہت تھوڑی قیمت یعنی گنتی کے چند دراہم کے معاوضہ میں قرطبی نے فرمایا کہ عرب تجار کی عادت یہ تھی کہ بڑی رقموں کے معاملات وزن سے کیا کرتے تھے اور چھوٹی رقمیں جو چالیس سے زیادہ نہ ہوں ان کے معاملات گنتی سے کیا کرتے تھے اس لئے دراہم کے ساتھ معدودہ کے لفظ نے یہ بتلادیا کہ دراہم کی مقدار چالیس درہم کی بھی مختلف روایتیں منقول ہیں (ابن کثیر) (آیت) وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ زاہدین، زاہد کی جمع ہے جو زہد سے مشتق ہے زہد کے لفظی معنی بےرغبتی اور بےتوجہی کے آتے ہیں محاورات میں دنیا کی مال و دولت سے بےرغبتی اور اعراض کو کہا جاتا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ برداران یوسف اس معاملہ میں دراصل مال کے خواہش مند نہ تھے ان کا اصل مقصد تو یوسف (علیہ السلام) کو باپ سے جدا کرنا تھا اس لئے تھوڑے سے دراہم میں معاملہ کرلیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍؚبَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ۝ ٠ۚ وَكَانُوْا فِيْہِ مِنَ الزَّاہِدِيْنَ۝ ٢٠ۧ شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ ثمن قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران/ 77] ( ث م ن ) الثمن اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ بخس البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا . ( ب خ س ) البخس ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔ درهم قال تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَراهِمَ مَعْدُودَةٍ [يوسف/ 20] ، الدّرهم : الفضّة المطبوعة المتعامل بها . ( درھ م ) الدرھم ۔ چاندی کے ایک سکہ کا نام اسکی جمع دراھم ہے ۔ قرآن میں ہے : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَراهِمَ مَعْدُودَةٍ [يوسف/ 20] اور اسکو تھوڑی سی قیمت ( یعنی معدودے چند درہموں پر بیج دالا ۔ زهد الزَّهِيدُ : الشیء القلیل، والزَّاهِدُ في الشیء : الرّاغب عنه والرّاضي منه بالزّهيد، أي : القلیل . قال تعالی: وَكانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ [يوسف/ 20] . ( ز ھ د ) الزھد کے معنی حقیر چیز کے ہیں اور کسی چیز سے بےرغبتی کرنے والے یا حقیر سے چیز پر راضی ہوجانے والے کو زاھد فی الشئی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ [يوسف/ 20]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دراہم کی تشریح قول باری ہے وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ آخر کار انہوں نے اسکو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا۔ فراء کا قول ہے کہ ثمن ان درہم و دینار کو کہتے ہیں جو خرید و فروخت اور لین دین کی صورت میں بدل کے طور پر کسی کے ذمے لازم ہوجاتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر کلام اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ثمن کو درہم کے نام سے موسم کیا اور فرمایا وشروہ بمثن فراء کا قول لغت کے دائرے میں قابل قبو ل ہے۔ جب اس نے یہ بتایا کہ ثمن اس چیز کا نام ہے جو انسان کے ذمہ خرید و فروخت میں بدل کے طور پر لازم ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے درہم کو مثن کا نام دیا تو یہ بات اس امر کی مقتضی ہوگئی کہ جب خرید و فروخت اور لین دین میں درہم کو بدل قرار دیا جائے تو خریدار کے ذمہ ان کا ثبوت بھی ہوجائے خواہ اس نے ان کا تعین کیا ہو یا تعین نہ کیا ہو بلکہ مطلق رہنے دیا ہو ۔ اس لیے کہ اگر اس کی تعیین کی بنا پر یہ متعین ہوجاتے تو یہ ثمن بننے کے دائرے سے خارج ہوجاتے اس لیے کہ اعیان حقیقت میں ثمن نہیں بن سکتے ہاں انسان انہیں بدل کے طور پر استعمال کر کے انہیں معنوں میں انہیں ثمن کا نام دیتا ہے۔ دراصل اس میں ثمن کے ساتھ تشبیہ کا پہلو ہوتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اب ضروری ہوگیا کہ درہم و دینارکا تعین نہہو اس لیے کہ اگر ان کا تعین کردی جائے تو اس صورت میں ان سے وہ صفت سلب ہوجائے گی جس کے ساتھ اللہ نے انہیں موصوف کیا یعنی انہیں ثمن قرار دیا ہے۔ عدم تعیین کی وجہ یہ ہے کہ اعیان ، ثمن نہیں بن سکتے۔ قول باری دراہم معدود ۃ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ بیس درہم تھے ، مجاہد سے بائیں درہم منقول ہے۔ ایک قول کے مطابق درہم کی قلت کی بنا پر لفظ معدودۃ استعمال کیا گیا ۔ ایک قول ہے کہ انہوں نے ان درہم کو وزن نہیں کیا تھا بلکہ ان کی گنتی کی تھی اس بنا پر درج بالا لفظ استعمال ہوا ۔ ایک قول کے مطابق درہم جب تک ایک اوقیہ کے برابر نہ ہوجائے اس وقت تک اور انہیں وزن نہ کرتے اور ایک اوقیہ میں چالیس درہم آتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہم السلام) کے بھائی اس موقعہ پر موجود تھے انہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے، چناچہ قافلہ والوں نے ان سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا ۔ قتادہ کا قول ہے کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف کو فروخت کیا تھا۔ قوبل باری وکانو فیہ من الزاھدین کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی ان کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہیں تھے۔ ان کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ کسی طرح یوسف ان کے والد کی نظروں سے غائب کردیئے جائیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ ۚ وَكَانُوْا فِيْهِ مِنَ الزَّاهِدِيْنَ ) اگرچہ انہوں نے حضرت یوسف کو مال تجارت سمجھ کر چھپایا تھا ‘ مگر مصر پہنچ کر بالکل ہی معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔ اس زمانے میں درہم ایک دینار کا چوتھا حصہ ہوتا تھا۔ گویا انہوں نے چندّ چونیوں کے عوض آپ ( علیہ السلام) کو بیچ دیا۔ اس لیے کہ آپ ( علیہ السلام) کے بارے میں اس وقت تک انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں ‘ ایک تو آپ ( علیہ السلام) ان کے لیے مفت کا مال تھے جس پر ان لوگوں کا کوئی سرمایہ وغیرہ نہیں لگا تھا ‘ لہٰذا جو مل گیا انہوں نے اسے غنیمت جانا۔ دوسرے ان لوگوں کو آپ ( علیہ السلام) کی طرف سے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ لڑکے کے وارث آکر کہیں اسے پہچان نہ لیں اور ان پر چوری کا الزام نہ لگ جائے۔ لہٰذا وہ جلد از جلد آپ ( علیہ السلام) کے معاملے سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. Though the matter of the disposal of Prophet Joseph by his brothers was simple, the Bible has made this very complicated. It is obvious that the brothers threw Joseph into the well and went away. Afterwards a caravan came there and pulled him out and carried him to Egypt where they sold him. But the Bible says that the brothers cast him into a pit: then a company of Ishmaelites came there and they agreed to sell him to them. But in the meantime the Midianite merchantmen had drawn and lifted up Joseph and sold him to the Ishmaelites who brought him into Egypt. (Gen. 37: 25-28). But the authors of the Bible forget this sale transaction and further on in v. 36 say that Prophet Joseph was sold in Egypt by the Midianites and not by the Ishmaelites as stated in v. 28. But the Talmudic version of the matter is a little different from this. It says that the Midianites drew Joseph up from the pit and carried him along with them. As they passed by, the sons of Jacob saw Joseph with them and accused them of stealing their slave. At this a furious quarrel arose and they were ready to enter upon a bloody fray. But a bargain was concluded and the sons of Jacob sold their brother to the Midianites for twenty pieces of silver, who afterwards sold him to the Ishmaelites for the same amount. Then the Ishmaelites took him into Egypt and sold him there. Incidentally, it is this Talmudic version that has given rise to the tradition among some Muslims that the brothers of Joseph had sold him. But it should be noted that the Quran does not confirm this tradition.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :15 اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آکر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جاکر بیچ دیا ۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے بعد میں اسماعیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں ۔ لیکن اس پہلے ہی مدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے ۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔ پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کرا چکے ہیں ۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں ( ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷ ۔ آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦ ) ۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مدین کے سوداگروں نے یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ پھر برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا ۔ آخرکار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کر کے برادران یوسف علیہ السلام کو راضی کیا ۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف علیہ السلام کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جاکر انہیں فروخت کیا ۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا تھا ۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: قرآن کریم کے الفاظ سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیچنے والے قافلے ہی کے لوگ تھے، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس رکھنے سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کو بیچ کر جو بھی قیمت ہاتھ آجائے وہ اسے غنیمت سمجھتے تھے، کیونکہ مفت حاصل ہو رہی تھی۔ اس لیے جب کوئی خریدار ملا، انہوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پر ہی بیچ دیا۔ البتہ بعض روایات میں واقعے کی یہ تفصیل آئی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال تو گئے تھے۔ لیکن بڑا بھائی یہوداہ روزانہ ان کی خبر گیری کے لیے آتا تھا اور کچھ کھانا بھی انہیں پہنچا دیتا تھا۔ تیسرے دن جب انہیں کنویں میں نہ پایا تو تلاش کرنے سے وہ قافلے والے مل گئے۔ اس موقع پر دوسرے بھائی بھی آگئے اور انہوں نے قافلے والوں سے کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ گیا تھا۔ اور اگر تم چاہو تو ہم اسے تمہارے ہاتھ فروخت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان بھائیوں کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ ان کے والد کی سرزمین سے دور چلے جائیں۔ قیمت لینا اصل مقصد نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قافلے والوں کے ہاتھ معمولی قیمت پر بیچ دیا۔ بائبل میں بھی یہ مذکور ہے کہ بیچنے والے ان کے بھائی ہی تھے اور انہوں نے قافلے ہاتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠۔ علمائے مفسرین نے پہلے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں سے جو کچھ خطائیں ہوئی ہیں ان کو گنا ہے کہ قطعی رحم نبی باپ کی نافرمانی معصوم کو غلام بنا کر بیچنا وغیرہ اور پھر اس میں بڑی بحث کی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تو نبی تھے ان سے اس طرح کی خطائیں کیوں کر ہوئیں پھر بعضے مفسروں نے یہ جواب دیا ہے کہ جس وقت یہ خطائیں ان سے ہوئیں اس وقت وہ نبی نہیں تھے اس کے بعد ان کو نبوت ہوئی ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے حق میں اسباط کا لفظ جو آیا ہے اس سے مفسرین نے ان کی نبوت نکالی ہے لیکن جس طرح عرب کی قوم کی شاخوں کو عام طور پر قبائل کہتے ہیں اسی طرح سے حضرت یعقوب کی اولاد کی شاخوں کو عام طور پر اسباط کہتے ہیں کسی خاص شاخ کو اس لفظ سے مراد لینا دلیل خاص کا محتاج ہے۔ اگرچہ شرا کا لفظ خرید اور فروخت دونوں معنوں میں آتا ہے لیکن یہ لفظ یہاں فروخت کے معنے میں اس سبب سے ہے کہ آگے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر ہے کہ وہ اپنے بھائی یوسف سے بیزار تھے تو اب شرا کے معنے فروخت کے لئے جا کر یہی مطلب صحیح قرار پاتا ہے کہ اس بیزاری کے سبب سے یوسف کے بھائیوں نے اپنے بھائی یوسف کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا حاصل کلام یہ ہے کہ جب اوپر کی آیت میں یہ گزر چکا ہے کہ قافلہ کے لوگوں نے یوسف کو پونجی سمجھ کر اپنے ساتھیوں سے چھپا لیا تھا تو ان لوگوں کے حق میں کسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) کی خریداری سے بیزار تھے اسی لئے جن مفسروں نے یہاں شرا کے معنے خرید کے لئے ہیں حافظ ابو جعفر ابن جریر نے ان پر اپنی تفسیر میں طرح طرح سے اعتراض کیا ہے مسند امام احمد ‘ ترمذی ‘ ابوداؤد ‘ ابن ماجہ ‘ صحیح ابن حبان وغیرہ میں انس بن مالک ‘ ابوہریرہ ‘ ابوسعید خدری (رض) سے جو صحیح روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر چیز کا نرخ اور قیمت قرار پایا کہ باوجود خوبصورتی کے یہاں ایک دفعہ یوسف (علیہ السلام) کی فروخت کا کم قیمت پر ہونا اور دوسری دفعہ مصر میں اچھی قیمت پر ہونا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اسی کی مصلحت کے موافق تھا اور ہر ایک وقت پر اس نے ظاہری اسباب کھڑے کر دئیے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جس شخص کے ہاتھ یوسف (علیہ السلام) کو بیچا مفسروں نے اس کا نام مالک بن ذعر لکھا ہے۔ سیر چلنے پھرنے کو کہتے ہیں قافلہ کے لوگ مسافر ہوتے ہیں اس لئے قافلہ کو سیارہ کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:20) شروہ انہوں نے اس کو بیچا۔ شراء سے (باب ضرب) جس کے معنی ہیں خریدوفروخت کرنے کے۔ ماضی جمع مذکر غائب ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب (برائے یوسف) اور اگر اس کو خریدنے کے معنی میں لیا جائے تو ضمیر جمع مذکر غائب اہل قافلہ کے لئے ہوگی۔ ثمن بخس۔ موصوف۔ صفت۔ حقیر قیمت۔ بخس ناقص۔ ظلم سے کسی شے کے گھٹانے یا کم کرنے کو بخس کہتے ہیں۔ فیہ من الزاھدین۔ فیہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب۔ حضرت یوسف کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور قیمت کے لئے بھی۔ زاھدین۔ الزھید سے ہے جس کے معنی حقیر چیز کے ہیں۔ اس لئے کسی چیز سے بےرغبتی کرنے والے۔ یا حقیر سی چیز پر راضی ہوجانے والے کو زائد فی الشیٔ کہا جاتا ہے پس وکانوا فیہ من الزاھدین وہ اس کے بارے میں بےرغبت تھ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یا قافلہ والوں نے۔ یہ بات سیاق قرآن سے معلوم ہوتی ہے گو حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اقوی قرار دیا ہے اور اسی کو ہمارے زمانے کے بعض اصحاب حواشی نے ” والظاہر الاول “ کہا ہے جس کی بنیاد حافط ابن کثیر (رح) کے قول پر ہے اور اہل کتاب کے بیان کے مطابق ہے۔ 7 ۔ وہ اس سے جلا خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا شخص نمودار نہ ہوجائے جو انہیں اس جرم میں پکڑ لے کہ وہ اس کے آزاد بیٹے کو غلام بنا کر پکڑ لائے ہیں۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 اور ان کے بھائیوں نے ان کو بہت ہی معمولی اور کم قیمت پر جو گنتی کے چند درہم تھے قافلہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا اور یوسف (علیہ السلام) سے بہت ہی دل برداشتہ اور بےرغبت ہورہے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اگلے دن بھائی گئے اور کنوئیں میں نہ پایا قافلہ پر دعویٰ کیا جب ثابت ہوا اٹھارہ درم کو بیچ ڈالا قریب ہے پائولی کے نو بھائیوں نے دو دو درہم بانٹے ایک نے حصہ نہ لیا پھر آگے قافلہ والوں نے مصر میں جاکر بیجا حق تعالیٰ نے صریحاً ایک بیچنا فرمایا پردہ پوشی کو لیکن اشارات سے معلوم ہوا کہ سستے مول تو اسی جگہ بیچا ہے 12