Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 23

سورة يوسف

وَ رَاوَدَتۡہُ الَّتِیۡ ہُوَ فِیۡ بَیۡتِہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَ قَالَتۡ ہَیۡتَ لَکَ ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۳﴾

And she, in whose house he was, sought to seduce him. She closed the doors and said, "Come, you." He said, "[I seek] the refuge of Allah . Indeed, he is my master, who has made good my residence. Indeed, wrongdoers will not succeed."

اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب ہے مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے ۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Wife of the `Aziz loves Yusuf and plots against Him Allah tells: وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الاَبْوَابَ ... And she, in whose house he was, sought to seduce him (to do an evil act), and she closed the doors, Allah states that the wife of the Aziz of Egypt, in whose house Yusuf resided and whose husband recommended that she takes care of him and be generous to him, tried to seduce Yusuf! She called him to do an evil act with her, because she loved him very much. Yusuf was very handsome, filled with manhood and beauty. She beautified herself for him, closed the doors and called him, ... وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ... and (she) said: "Come on, O you." But he categorically refused her call, ... قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ... He said: "I seek refuge in Allah! Truly, he is my Rabb! He made my living in a great comfort!" as they used to call the chief and master a `Rabb', Yusuf said to her, `your husband is my master who provided me with comfortable living and was kind to me, so I will never betray him by committing immoral sins with his wife,' ... إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ Verily, the wrongdoers will never be successful. This was said by Mujahid, As-Suddi, Muhammad bin Ishaq and several others. The scholars differ in their recitation of, هَيْتَ لَكَ (Hayta Laka), whereby Ibn Abbas, Mujahid and several other scholars said that it means that; she was calling him to herself. Al-Bukhari said; "Ikrimah said that, هَيْتَ لَكَ (Hayta Laka') means, `come on, O you', in the Aramaic language." Al-Bukhari collected this statement from Ikrimah without a chain of narration. Other scholars read it with the meaning, `I am ready for you'. Ibn Abbas, Abu Abdur-Rahman As-Sulami, Abu Wa'il, Ikrimah and Qatadah were reported to have read this part of the Ayah this way and explained it in the manner we mentioned, as `I am ready for you'.

زلیخا کی بد نیتی سے الزام تک عزیز مصر جس نے آپ کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو ۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آ جاتی ہے ۔ جمال یوسف پر فریفتہ ہو جاتی ہے ۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف کو بلاتی ہے لیکن حضرت یوسف بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کر دیتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے ۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا ۔ آپ فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں ۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ( آیت ھیت لک ) کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں ۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آگیا ہے ۔ اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے ۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے ۔ اس کے دوسری قرأت ھئت بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے ، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں ۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے ۔ یہ قرأت غریب ہے ۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے ۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قاریوں کی قرأت یں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو ۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ ۔ پھر آپ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا ۔ یعنی ھَیتَ نہ کہ ھِیتُ یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے ۔ جیسے ( آیت ھیت لک ھیت لکم ھیت لکماا ھیتا لکن ھیت لھن ) ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نیا امتحان شروع ہوا عزیز مصر کی بیوی، جس کو اس کے خاوند نے تاکید کی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) کو اکرام و احترام کے ساتھ رکھے، وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور انھیں دعوت گناہ دینے لگی، جسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ٹھکرا دیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] سیدنا یوسف کے لئے دور ابتلاء :۔ عزیز مصر کے گھر میں قیام کے دوران جہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوئے وہاں یہی دور قیام آپ کے لیے ابتلاء و آزمائش کا دور بھی ثابت ہوا۔ آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ غیر شادی شدہ تھے اور نوخیز نوجوانی تھی۔ دوسری طرف عزیز مصر کی بیوی جوان تھی اور بےاولاد تھی اور اپنے جاذب لباس اور پوری رعنائیوں سے اپنا آپ پیش کر رہی تھی۔ زلیخا کا یوسف کو بدکاری کے لئے ورغلانا :۔ تیسری طرف معاشرہ متمدن قسم کا تھا جیسے آج کا مغربی معاشرہ ہے جس میں اختلاط مرد و زن کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، پردہ کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے اور اگر فریقین باہمی رضا مندی سے بدکاری کرلیں تو اسے بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا ان حالات میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا میں شہوانی جذبات انگڑائیاں لینے لگے جو بالآخر عشق کی حدود کو چھونے لگے۔ لیکن سیدنا یوسف اس قسم کے جذبات سے بالکل پاک صاف تھے۔ جب زلیخا نے سیدنا یوسف کی طرف سے اس قدر بےاعتنائی اور اس میں اپنی توہین کا پہلو دیکھا تو اپنے مالکانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے راست اقدام پر اتر آئی۔ ایک دن جب کہ اس کا خاوند گھر پر موجود نہ تھا۔ اس نے گھر کے تمام دروازے بند کرتے ہوئے یوسف کو واشگاف الفاظ میں اور تحکمانہ انداز میں اپنی طرف بلایا تاکہ اس کے شہوانی جذبات کی تسکین ہوسکے۔ [٢٣] سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے اس کے پاس جانے کی بجائے اسے جواب دیا کہ میرے پروردگار نے تو مجھ پر اس قدر انعام و اکرام فرمائے ہیں اور میں اس کی معصیت میں ایسی بدکاری کا ارتکاب کروں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا اور صاف طور پر انکار کردیا۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر رب کے معنی آقا اور مالک لیا ہے جو لغوی اعتبار سے درست ہے اور قرآن کریم نے خود بھی رب کے لفظ کو آقا اور مالک کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جب عزیز مصر مجھ پر اس قدر مہربان ہے تو میں اس کے گھر میں رہ کر اس کے گھر میں ہی ایسی خیانت کروں یہ نمک حرامی مجھ سے نہیں ہوسکتی اور ہم نے پہلے معنی کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ ایک نبی یا بعد میں ہونے والا نبی ایک عام دنیا دار رئیس کو اپنا رب کہے یہ عقل و نقل سے بعید ہے اور قرآن میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں اور دوسرے اس لیے کہ جب پہلے معنی کے لحاظ سے اخذ شدہ مطلب زیادہ وقیع اور جامع ہے تو پھر دوسرے معنی لینے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا : ” رَاوَدَ “ باب مفاعلہ سے ہے، نرمی اور ملائمت سے بار بار مطالبہ کرنا، پھسلانا، فریب سے غلط کام پر آمادہ کرنا۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بار بار اور ہر طریقے سے پھسلایا۔ کیونکہ ایک ہی گھر میں رہ کر خدمت کرنے والے غلام سے ہزار انداز سے اور بار بار اپنے شوق کا اظہار ہوسکتا ہے، مثلاً غلام کھانا لایا ہے تو حکم ہو، دور کیوں بیٹھے ہو ؟ ادھر میرے ساتھ آ کر بیٹھو وغیرہ۔” بَیْتٌ“ ” بَاتَ یَبِیْتُ “ (رات گزارنا) سے ہے، اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں آدمی رات رہتا ہو، پھر گھر کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اب بھی اس کا اصل استعمال اینٹ پتھر کے مکان یا اون، پشم اور کپڑے وغیرہ کے خیمے پر ہوتا ہے۔ صحن سمیت پورے گھر کو عموماً ” دَارٌ“ کہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) جب تک بچے تھے، عزیز کی بیوی کی نظر بچے پر شفقت و محبت والی تھی، اب جب جوانی آئی تو وہ نگاہ نہ رہی۔ یہی اصل بیٹے اور متبنّیٰ کا فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بےمثال حسن سے نوازا تھا۔ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ( وَ إِذَا ھُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ ) [ مسلم، الإیمان، باب الإسراء ۔۔ : ١٦٢] ” انھیں حسن کا شطر عطا کیا گیا تھا۔ “ شطر کا معنی نصف بھی ہے اور ایک حصہ بھی۔ (قاموس) یعنی یوسف (علیہ السلام) کو حسن کا خاصا بڑا حصہ عطا ہوا تھا۔ عزیز کی بیوی کے غلط راستے پر چل نکلنے کا ایک باعث ترمذی (٢١٦٥) میں موجود اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی بھی تھی کہ کوئی عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ اکیلی نہ ہو، ورنہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا (جو دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں خوبصورت بنا کر دکھائے گا) ۔ یہاں یوسف (علیہ السلام) تو ویسے ہی شیطان سے محفوظ تھے، اگرچہ غلام ہونے کی وجہ سے پردہ لازم نہ تھا، مگر ایک ہی گھر اور کمرے میں سال ہا سال کی خلوت عزیز مصر کی بیوی کو لے ڈوبی۔ افسوس ! مسلمان اب بھی اس کی پروا نہیں کرتے، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاوند کے بھائی کے ساتھ خلوت سے بھی منع کیا، فرمایا : ( اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل۔۔ : ٥٢٣٢ ] ” خاوند کا بھائی تو موت ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کا نام نہیں لیا جس کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) تھے۔ حق یہی ہے کہ ہم بھی نہ لیں، خصوصاً جب ہمیں اس کا نام کسی صحیح ذریعے سے معلوم ہی نہ ہو اور نام لینے میں کسی گناہ گار خصوصاً عورت کی پردہ دری ہو رہی ہو۔ اس لیے بار بار زلیخا کہنے والے قرآن سے سبق سیکھیں اور اپنے اس رویے کو ترک کریں۔ عَنْ نَّفْسِهٖ : قرآن مجید کے بیان کی پاکیزگی ملاحظہ فرمایئے، پوری بات سمجھ میں آرہی ہے اور کوئی ناشائستہ لفظ بھی استعمال نہیں ہوا۔ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ ۔۔ : ” غَلَّقَ “ باب تفعیل میں سے ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” دروازے اچھی طرح بند کرلیے “ کیا ہے۔ ” هَيْتَ لَكَ “ اسم فعل ہے جس کا معنی ہے ” آ، جلدی کر۔ “ ” لَکَ “ خطاب کی صراحت کے لیے ہے، جیسے کہتے ہیں : ” شُکْرًا لَکَ ، سَقْیًا لَکَ “ اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہوسکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بےمثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف ؟ قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ : یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جب بچنے کی کوئی راہ نہ رہی تو انھوں نے اس ذات پاک کی پناہ مانگی جس کی پناہ ملنے کے بعد کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ” مَعَاذَ “ مصدر میمی ہے، معنی ہے : ” أَعُوْذُ باللّٰہِ مَعَاذًا مِمَّا تُرِیْدِیْنَ “ یعنی تم جو چاہتی ہو میں اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر اس سے بچا لے۔ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور مفسرین میں سے ہر ایک نے اپنے ذوق کے مطابق کسی ایک معنی کو ترجیح دی ہے۔ ایک تو یہ کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، بیشک وہ اللہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا، اس کی نافرمانی کرکے میں ظالموں میں شامل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا معنی ہے کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، تم اس عزیز مصر کی بیوی ہو جو میرا مالک ہے، میں اس کا غلام ہوں، اس نے میرے لیے رہنے کا ایسا اچھا انتظام کیا ہے، میں اپنے مالک کی خیانت کیسے کرسکتا ہوں، یہ تو سراسر ظلم ہے۔ پہلے معنی میں عزیز کی بیوی کو اللہ سے ڈرایا اور اس کے احسان یاد دلائے ہیں، دوسرے معنی میں اسے خاوند کی شرم دلائی ہے، شاید اس طرح ہی وہ باز آجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں معنی درست ہیں، دونوں بیک وقت مراد بھی ہوسکتے ہیں، مگر دوسرا معنی زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی تقدیر پر شاکر ہو کر اپنے آپ کو عزیز مصر کا غلام سمجھتے تھے اور ہر طرح اس کی خدمت اور اطاعت کرتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے مالک اور مربی کے احسان کا بدلہ اس پر ظلم کے ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھے اور لفظ ” رب “ غلام کے مالک کے لیے یوسف (علیہ السلام) کی زبانی اسی سورت میں کئی جگہ آیا ہے، فرمایا : (قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْهُ ) [ یوسف : ٥٠ ] اور فرمایا : (اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا) [ یوسف : ٤١ ] اور فرمایا : (فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّه) [ یوسف : ٤٢ ] اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ : یعنی زنا ظلم ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ زنا اپنے آپ پر ظلم ہے، اس عورت پر ظلم ہے، اس کے خاوند پر ظلم ہے، اپنے خاندان اور اس کے خاوند کے خاندان دونوں پر ظلم ہے کہ کسی خاندان کا بچہ دوسرے خاندان کا بچہ شمار ہوگا، نسب برباد ہوگا۔ زنا پوری انسانیت پر ظلم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] ” اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “ یعنی زنا بےحیائی ہونے کے ساتھ ایک برا راستہ ہے جو آج تمہیں دوسرے کی عزت برباد کرنے کے لیے لے گیا ہے تو کل کسی کو تمہارے گھر بھی لے آئے گا، مثلاً شریعت نے جب آپ کو چوری سے روکا ہے تو اس نے صرف آپ کو نہیں روکا بلکہ کروڑوں، اربوں کو آپ کی چوری کرنے سے روکا ہے۔ اگر آپ باز نہ آئے تو دوسرے کیوں باز آئیں گے ؟ مسلمانوں کے نسب کے محفوظ رہنے اور ان کے معاشرے کی پاکیزگی پر کفار کو بیحد حسد ہے۔ وہ اس شرف سے محروم ہوجانے کے بعد اب ہم میں بھی بےحیائی پھیلا کر ہمیں اس شرف سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کا طرز عمل اس معاملے میں ہمارے لیے بہترین چراغ راہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Moving to verse 23, the words of the text are: وَرَ‌اوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ And she, in whose house he was, seduced him away from his (resisting) self and bolted the doors, and said, &come on!&. From the first verse, we know that this woman was the wife of the ` Aziz of Misr. But, at this place, the Holy Qur&an has elected to bypass the possibility of mentioning her by a brief expression as the wife of ` Aziz. Instead, it has chosen to use the expression: الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا (in whose house he was). The hint given here is that the efforts of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) to save himself from falling into sin were further complicated by the fact that he lived in the house of this very woman, under her protection, and as such, disapproving and discarding her verbal advance was no easy task. The Strongest Defence Against Sin is the Seeking of Protection from Allah Himself How was he able to do that? There was an outward cause to this. When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) found himself surrounded from all sides, he took the ultimate recourse. So, like a prophet he was, first of all, he sought the protection of Allah. He said: قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ (May Allah save me! ). We see that he did not place his sole trust in his determination and re-solve to hold out against the invitation to sin - he sought the refuge of Allah first. And it is obvious that anyone who enjoys the protection of Allah can never be moved away from the right path by anyone. It was only after having that coverage, that he started acting as a prophet would, with wisdom and earnest good counsel. Addressing Zulaikha di¬rectly and personally, he advised her that she too should fear Allah and give up her intention. He said: إِنَّهُ رَ‌بِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ Surely, he is my master. He has given me a good lodging. Sure¬ly, the wrongdoers do not prosper. As obvious, it means: Your husband, the ` Aziz of Misr is my master who has raised and supported me and has given me a good home to live in. He is my benefactor. How can I even think of violating his honour? This is great injustice and those who commit injustice never prosper. Im¬plied therein was a lesson for Zulaikha too who was told: When I know his rights on me for having been my master and caretaker for a lesser time than you, then, being his wedded wife of years, you should certainly know his rights on you much more than I do. At this place, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) has called the ` Aziz of Misr his Rabb - though, it is not permissible to use this word for anyone other than Allah Ta’ ala. The reason is that words like this create either a sus¬picion of Shirk, or a resemblance with those who commit Shirk. Therefore, the use of such words has been prohibited in the Shari` ah of Islam. It appears in a Hadith of Sahih Muslim: ` Let no slave call his master his Rabb and let no master call his slave his عبد abd or servant.& But, this is a unique characteristic of the Islamic Shari` ah where, alongwith the prohi¬bition of Shirk, everything else in which there is the least doubt that they may become the conduits of Shirk has also been prohibited. In the religious codes of past prophets, though Shirk has been strictly blocked but there was no restriction placed on the sources and inlets of Shirk. This was the reason why depiction of images was not prohibited in past religious codes. But in the Shari` ah of Islam, being valid upto the Last Day, full attention was given to protect it from being affected by Shirk. So, the sources and mediums of Shirk, such as, image and words - which arouse suspicion of Shirk were also prohibited. However, the saying of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) :إِنَّهُ رَ‌بِّي (Surely, he is my master), was correct in its place. And it is also possible that the pronoun in: إِنَّهُ (innahu) reverts to Allah Ta` la which would mean that Sayyidni Yusuf (علیہ السلام) had called Allah his Rabb and it was He who, in the real sense, gave him good lodg¬ing, and that disobedience to Him was the greatest injustice, and that the unjust never prosper. Some commentators, Suddiyy, Ibn Ishaq and others have reported that during the course of this privacy, Zulaikha started praising his looks with the purpose of softening his resistance. She said: How beauti¬ful are your hair! Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said: After death, these hair will be the first to part away from my body. Then, she said: How beautiful are your eyes! He said: After death, they will become water and flow down my face. Once again, she said: How beautiful is your face! Thereupon, he said: All this will be eaten up by the earth below. He was look¬ing ahead. This was his concern for the &Akhirah. Allah Ta’ ala had set it upon him in the prime of his youth and that made all charms of mortal life turn into dust before him. It is true that the concern for &Akhirah is something which can keep every human being protected from every evil wherever he or she may be. May Allah bless us all with this concern.

(آیت) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۔ یعنی جس عورت کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ ان پر مفتون ہوگئی اور ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے ان کو پھسلانے لگی اور گھر کے سارے دروازے بند کر دئیے اور ان سے کہنے لگی کہ جلد آجاؤ تمہیں سے کہتی ہوں پہلی آیت میں معلوم ہوچکا ہے کہ یہ عورت عزیز مصر کی بیوی تھی مگر اس جگہ قرآن کریم نے زوجہ عزیز کا مختصر لفظ چھوڑ کر اَلَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا کے الفاظ اختیار کئے اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے گناہ سے بچنے کی مشکلات میں اس بات نے اور بھی اضافہ کردیا تھا کہ وہ اسی عورت کے گھر میں اسی کی پناہ میں رہتے تھے اس کے کہنے کو نظرانداز کرنا آسان نہ تھا گناہ سے بچنے کا قوی ذریعہ خود اللہ سے پناہ مانگنا ہے : اور اس کا ظاہری سبب یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جب اپنے آپ کو سب طرف سے گھرا ہوا پایا تو پیغمبرانہ انداز پر سب سے پہلے خدا کی پناہ مانگی قال مَعَاذ اللّٰهِ محض اپنے عزم و ارادہ پر بھروسہ نہیں کیا اور یہ ظاہر ہے کہ جس کو خدا کی پناہ مل جائے اس کو کون صحیح راستہ سے ہٹا سکتا ہے اس کے بعد پیغمبرانہ حکمت وموعظمت کے ساتھ خود زلیخا کو نصیحت کرنا شروع کیا کہ وہ بھی خدا سے ڈرئے اور اپنے ارادہ سے باز آجائے فرمایا اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ وہ میرا پالنے والا ہے اس نے مجھے آرام کی جگہ دی خوب سمجھ لو کہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں ہوتی، بظاہر مراد یہ ہے کہ تیرے شوہر عزیز مصر نے میری پرورش کی اور مجھے اچھا ٹھکانا دیا، میرا محسن ہے میں اس کے حرم پر دست اندازی کروں ؟ یہ بڑا ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے اس کے ضمن میں خود زلیخا کو بھی یہ سبق دے دیا کہ جب میں اس کی چند روزہ پرورش کا اتنا حق پہچانتا ہوں تو تجھے مجھ سے زیادہ پہچاننا چاہئے، اس جگہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عزیز مصر کو اپنا رب فرمایا حالانکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں وجہ یہ کہ ایسے الفاظ موہم شرک اور مشرکین کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اسی لئے شریعت محمدیہ میں ایسے الفاظ استعمال کرنا بھی ممنوع کردیا گیا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کو اپنا رب نہ کہے اور کوئی آقا اپنے غلام کو اپنا بندہ نہ کہے مگر یہ خصوصیت شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے جس میں شرک کی ممانعت کے ساتھ ایسی چیزوں کی بھی ممانعت کردی گئی ہے جن میں ذریعہ شرک بننے کا احتمال ہو انبیاء سابقین کی شریعتوں میں شرک سے تو سختی کے ساتھ روکا گیا ہے مگر اسباب و ذرائع پر کوئی پابندی نہ تھی اسی وجہ سے پچھلی شریعتوں میں تصویر سازی ممنوع نہ تھی مگر شریعت محمدی چونکہ قیامت تک کے لئے آئی ہے اس کو شرک سے پوری طرح محفوظ کرنے لئے ذرائع شرک تصویر اور ایسے الفاظ سے بھی روک دیا گیا جو موہم شرک ہو سکیں بہرحال یوسف (علیہ السلام) کا اِنَّهٗ رَبِّيْٓ فرمانا اپنی جگہ درست تھا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو اسی کو اپنا رب فرمایا اور اچھا ٹھکانا بھی درحقیقت اسی نے دیا اس کی نافرمانی سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں۔ بعض مفسرین سدی اور ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اس خلوت میں زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کو مائل کرنے کے لئے ان کے حسن و جمال کی تعریف شروع کی کہا کہ تمہارے بال کس قدر حسین ہیں یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ بال موت کے بعد سب سے پہلے میرے جسم سے علیحٰدہ ہوجائیں گے پھر کہا تمہاری آنکھیں کتنی حسین ہیں تو فرمایا موت کے بعد یہ سب پانی ہو کر میرے چہرے پر بہہ جائیں گی پھر کہا تمہارا چہرہ کتنا حسین ہے تو فرمایا کہ یہ سب مٹی کی غذا ہے اللہ تعالیٰ نے فکر آخرت آپ پر اس طرح مسلط کردی کہ نوجوانی کے عالم میں دنیا کی ساری لذتیں ان کے سامنے گرد ہوگئیں صحیح ہے کہ فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ہر جگہ ہر شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے، اللہم ارزقنا ایاہ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَاوَدَتْہُ الَّتِيْ ہُوَفِيْ بَيْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ۝ ٠ۭ قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٢٣ راود والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، ( ر و د ) الرود المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف/ 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ غلق الْغَلَقُ والْمِغْلَاقُ : ما يُغْلَقُ به، وقیل : ما يفتح به لکن إذا اعتبر بِالْإِغْلَاقِ وعلی هذا : وَغَلَّقَتِ الْأَبْوابَ [يوسف/ 23] . ( غ ل ق ) الغلق والمغلاق قفل وغیرہ جس کے دروازہ بند کیا جاتا ہے اور بعض نے وہ چیز مراد لے ہے جس کے ساتھ اسے کھولا جاتا ہے اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوابَ [يوسف/ 23] اور دروازے بند کر کے ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ (هيت) ، اختلف في تخریج هذا اللفظ، فبعضهم جعل التاء أصليّة، واللفظ هو اسم فعل ماض أو أمر، وبعضهم جعل التاء ضمیر الرفع دخل علی فعل هاء يهيء مثل جاء يجيء، أو هاء يهاء مثل شاء يشاء، وخفّفت الهمزة ياء ساکنة علی لغة أهل الحجاز ... إلخ . هيت هَيْتَ : قریب من هلمّ ، وقرئ : هَيْتَ لَكَ : أي : تهيّأت لك، ويقال : هَيْتَ به وتَهَيَّتْ : إذا قالت : هَيْتَ لك . قال اللہ تعالی: وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] . يقال : هَاتِ ، وهَاتِيَا، وهَاتُوا . قال تعالی: هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111] قال الفرّاء : ليس في کلامهم هاتیت، وإنما ذلک في ألسن الحیرة قال : ولا يقال لا تهات . وقال الخلیل : المُهَاتَاةُ والهتاءُ مصدر ها ( ھ ی ت ) ھیت اور ھلم کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت وقالتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] کہنے لگی ( یوسف ) چلاآؤ ۔ میں ایک قرات ھیت لک بھی ہے جس کے معنی تھیات لک کے ہیں ییعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھیت بہ وتھیت کے معنی ھیت لک کہنے کے ہیں ھات ( اسم فعل ) لاؤ تثنیہ اور جمع کے لئے ھائتا وھا تو ا ۔ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111]( اے پیغمبر ) ان سے تم کہدو کہ ۔۔۔۔۔ دلیل پیش کرو ۔ افتراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھاتیت مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی لغت ہے اور اس سے لالھات ( فعل نہیں ) استعمال نہیں ہوتا ۔ خلیل نے کہا ہے کہ المھاتاہ والھتاء ( مفاعلہ سے ) سات صیغہ امر ہے ۔ ھیھات یہ کلمہ کسی چیز کے بعید ازقیاس ہو نیکو کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھیھات ھیھات اور ھیھاتا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ هَيْهاتَ هَيْهاتَ لِما تُوعَدُونَ [ المؤمنون/ 36] جس بات کا تم وعدہ کیا جاتا ہے ( بہت ) لبیدا اور ( بہت ) بعید ہے ۔ زجاج نے ھیھات کے معنی البعد کئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو ( لما ) کے لام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بعد الامر وا الوعد لما توعدون ہے اور اس میں ایک لغت ھیھات بھی ہے ۔ الفسوی نے کہا ہے کہ ھیھات کسرہ تا کے ساتھ ھیھات ( بفتح تاء ) کی جمع ہے ۔ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے وہ ان سے اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ان کو پھسلانے لگی اپنے اور یوسف (علیہ السلام) پر گھر کے تمام دروازے بند کردیے اور یوسف (علیہ السلام) سے کہنے لگی آجاؤ میں تمہارے ہی لیے ہوں یا یہ کہ چلے آؤ اور میں تم ہی سے کہتی ہوں، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں ایسے کام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میرا محسن عزیز جو ہے اس نے کس قدر و منزلت کے ساتھ مجھے رکھا ہے تو کیا میں اسی کے ناموس میں خیانت کروں، ایسے حق فراموشوں کو عذاب الہی سے نجات حاصل نہیں ہوا کرتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ ) یعنی عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ قرآن میں اس کا نام مذکور نہیں البتہ تورات میں اس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے۔ (قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ) یہاں پر ” ربّ “ کے دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں اللہ بھی اور آقا بھی۔ چناچہ اس فقرے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور اس نے میرے لیے بہت اچھے ٹھکانے کا انتظام کیا ہے میں اس کی نافرمانی کا کیسے سوچ سکتا ہوں ! دوسرے معنی میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کا خاوند میرا آقا ہے وہ میرا محسن اور مربی بھی ہے اس نے مجھے اپنے گھر میں بہت عزت و اکرام سے رکھا ہے اور میں اس کی خیانت کر کے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ! یہ دوسرا مفہوم اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ ” رب “ کا لفظ اس سورت میں آقا اور بادشاہ کے لیے متعدد بار استعمال ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. Generally the commentators and translators are of the opinion that Prophet Joseph used Rabbi “My Lord” for the master of the house, and what he meant to imply by way of argument was this: My Lord has treated me very kindly and kept me well in the house. How can I, then, be so disloyal and ungrateful as to commit adultery with his wife? I, however, strongly differ with such a translation and commentary. Though the Arabic usage of rabb admits of such a meaning, I have two strong reasons against this here. First, it is far below the dignity of a Prophet to refrain from a sin because of the regard he had for some person other than Allah. Second, there is not a single instance in the Quran that a Prophet ever called anyone other than Allah his rabb. Prophet Joseph himself differentiates between his creed and that of the Egyptians making it plain that his rabb “Lord” was Allah, while they had made other human beings their rabb. Then this verse should be considered from another point of view: when rabbi may also mean My Lord, Prophet Joseph might have invoked Allah. Why should then one take the other meaning, my master, which most surely implies something that is against the right creed?

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :21 عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“ کا لفظ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے ، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں ۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے ۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے ، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے ۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا ۔ آگے چل کر آیات ٤١ ، ٤۲ ، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ ان کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنا رکھا ہے ۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نےربی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو ، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحا قباحت کا پہلو نکلتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یہ وہی عزیز مصر کی بیوی زلیخا تھی جس کا ذکر پچھلے حاشیہ میں گذرا ہے وہ حجرت یوسف (علیہ السلام) کے غیر معمولی مردانہ حسن پر اتنی فریفتہ ہوئی کہ انہیں گناہ کی دعوت دے بیٹیھی۔ قرآن کریم نے اس کا نام لینے کے بجائے یہ فرمایا ہے کہ جس کے گھر میں وہ رہتے تھے اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے اس کی فرمائش سے انکار اور بھی زیادہ مشکل تھا، کیونکہ وہ اسی کے گھر میں قیام پذیر تھے، اور وہ ان پر ایک سے حاکمہ کا درجہ رکھتی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:23) راودتہ۔ اس عورت نے اس کو پھسلایا۔ اس سے خواہش کی گفت و شنید کی الرود کے اصل معنی نرمی کے ساتھ بار بار کسی چیز کی طلب میں آمدورفت کے ہیں۔ راود یراود مراودۃ (مفاعلۃ) عن نفسہ وعلی نفسہ۔ کسی کو گناہ کی رغبت دلانا۔ اراد یرید ارادۃ۔ چاہنا ۔ خواہش کرنا۔ رغبت کرنا۔ ارود یرود (افعال) ارواد وروید نرمی کرنا ۔۔ فی السیر نرم رفتار سے چلنا۔ راودتہ عن نفسہ۔ وہ عورت اس کو گناہ کی رغبت دلانے لگی۔ التی ھو فی بیتھا وہ عورت جس کے گھر میں وہ تھا۔ غلقت۔ اس عورت نے بند کیا (درواہ) غلقت الابواب اس عورت نے دروازے بند کر دئیے۔ ہیت لک۔ ادھر آؤ۔ چلے آؤ۔ ہیت لک۔ لکما۔ لکم۔ لکن۔ چلے آؤ۔ تو ایک۔ تم دونو۔ تم سب وغیرہ۔ ہیت۔ اقبل۔ اسرع۔ اسم فعل بمعنی امر۔ آؤ ۔ جلدی کرو۔ معاذ اللہ۔ معاذ۔ مصدر میمی اور اسم ہے۔ مضاف۔ اللہ مضاف الیہ۔ اللہ کی پناہ (یعنی یہ گناہ کا کام ہے میں اس کے کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں) ۔ عوذ اور معاذ۔ کسی کی پناہ پکڑنی اور کسی سے وابستہ ہوجانا۔ جیسے اعوذ باللہ میں (ہر گناہ) سے اللہ کی پناہ چاہتا انہ ربی میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع عزیز مصر بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی۔ لہٰذا پہلی صورت میں ربی (میرا رب) سے مراد (میرا آقا) عزیز مصر ہوگا۔ اور دوسری صورت میں میرا رب یعنی میرا خدا ہوگا۔ انہ ربی وہ میرا مربی ہے۔ احسن۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے اچھا کیا۔ اس نے اچھا بنایا۔ مثوای۔ میرا ٹھکانہ۔ میری قیام گاہ۔ میری مہمانی۔ مضاف مضاف الیہ۔ احسن مثوای۔ اس نے مجھے بہترین ٹھکانہ دیا ہے۔ اس نے میرے قیام کا نہایت اچھے طریق پر بندوبست کیا ہے انہ لا یفلح الظالمون۔ بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی اس کے ناموس میں کیونکر داخل کروں ؟ (موضح) اکثر مترجمین اور اصحاب تفسیر (رض) نے یہی مفہوم مراد لیا ہے کہ ” ربی “ سے مراد عزیز مصر ہے۔ سدی (رح) اور مجاہد (رح) سے بھی مضی منقول ہے لیکن بعض نے ” ربی “ سے اللہ تعالیٰ مراد لیا ہے۔ (فتح البیان) اور یہ دوسری رائے صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ بات کسی نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہے۔ (کذافی البحر) اس مفہوم کے حق میں ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ھو ربی میں ھو کا مرجع قریب تر ” معاذ اللہ “ میں الہ کا لفط ہونا چاہیے نہ کہ عزیز۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 29 راودت (اس نے بہکایا۔ پھسلایا) عن نفسہ (اپنے نفس سے۔ اپنی طرف ) غلقت (بند کردیئے ) ابواب (دروازے) ھیت لک (آ۔ اپنا کام ر) معاذ اللہ (اللہ کی پناہ) احسن (زیادہ بہتر) مثوا (ٹھکانا۔ مقام لایفلح (فلاح نہیں پاتا۔ کامیاب نہیں ہوتا) ھمت (ارادہ کیا (مونث) ھم (ارادہ کیا) لولات (اگر نہ ہوتا (حرف شرط ہے) ان را (یہ کہ دیکھا) برھان (دلیل ۔ نشانی) لنصرف (تاکہ ہم دور کردیں۔ پھیر دیں ) السوء (برائی ) الفحشاء (فحش ) بےحیائی کے کام المخلصین (خالص کرنے والے) استبقا (وہ دونوں آگے پیچھے دوڑے) فدت (پھاڑ دیا) (دبر) پیچھے۔ (پشت کے حصے کو دبر کہتے ہیں) الفیا (الفا (ماضی کا صیغہ) دونوں نے پایا سید (سردار۔ (یہاں شوہر مراد ہے) لدالباب (دروازے کے پاس) ماجزاء (کیا بدلہ ہے ؟ کیا سزا ہے ؟ ) اراد (ارادہ کیا) باھلک (لیری بیوی کے ساتھ) ان یسجن (یہ کہ اس کو قید کیا جائے) راودتنی (اس نے مجھے قابو کرنا چاہا شھد (گواہی دی اس نے (قد) پھٹا ہوا صدقت (اس عورت نے سچ کہا) قبل (آگے کا حصہ کذبت (اس نے جھوٹا کہا) کیدکن (مت عورتوں کا مکر و فریب ) اعرض (منہ پھیر لے۔ نظر انداز کر دے) استغفری (اے عورت تو) استغفار کر لذنبک (اپنے گناہ کے لئے) انک کنت (بےشک تو ہی ہے الخطئین (خطا کرنے والے) تشریح آیت نمبر 23 تا 29 دنیا میں طرح طرح کے حالات پیش آتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی نیکی کے بھی اور برائی کے بھی۔ عزم و ہمت والے لوگ وہی ہوتے ہیں جو اچھے اور برے حالات میں نیکی پرہیز گاری اور حق و صداقت پر قائم رہتے ہیں کسی لالچ اور خوف سے نیکی اور سچائی کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ایسے لوگوں کی غیب سے بھرپور مدد کی جاتی ہے اور اللہ ان کو بڑے سے بڑے حالات سے صاف نکال دیتا ہے۔ عزیز مصر نہایت محبت اور احترام سے حضرت یوسف کو اپنے گھر لے آیا اور ان سے غلاموں جیسا معاملہ کرنے کے بجائے گھر کے ایک فرد کی طرح ہر ایک آرام کا خیال رکھنے لگا۔ جب حضرت حضرت یوسف مصر کے گھر میں آئے تھے اس وقت بعض روایات کے مطابق ان کی عمر سات آٹھ سال کی تھی لیکن چند ہی سال میں وہ ایک خوبصورت ترین نوجوان بن کر ابھرنے لگے۔ اللہ نے کائنات میں جنتا بھی حسن پیدا کیا ہے اس میں سے آدھا حسن حضرت یوسف کو عطا فرمایا گیا تھا، حضرت یوسف جوان ہوتے گئے اور ان کا جمال اور خوبصورتی نکھرتی چلی گئی۔ عزیز مصر کی بیوی (بعض روایات کے مطابق) جس کا نام زلیخا آتا ہے وہ اس بھرپور اور شرم وحیات کے پیکر جوان پر مر مٹی اور اس نے نفس کے غلبہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ ایک دن اس نے اپنے خصوصی کمرے میں حضرت یوسف کو بلایا ، دروازے بند کر لئے، اپنے اس بت پر جس کو وہ اپنا معبود کہتی تھی اس پر کپڑا ڈال کر اپنی بےتابی کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی کہ اے یوسف میرے قریب آؤ۔ حضرت یوسف نے اس کی نیت کو بھانپ کر اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے کہا کہ میری مربی یعنی عزیز مصر نے مجھے عزت کا ٹھکانا دیا ہے میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ احسان فراموشی کروں۔ اب اس عورت نے ترغیبات کے جال بچھا دیئے ادھر حضرت یوسف نے اس جال سے نکلنے کیلئے تدبیریں سوچنا شروع کردیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو اپنی کوئی نشانی دکھائی تاکہ ان کو یقین ہوجائے کہ اللہ کی مدد شامل حال ہے او اس عورت کی ہر تدبیر ضائع ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تنہائی میں ان کے سامنے حضرت یعقوب کی صورت اس طرح ظاہر فرمائی کہ وہ اپنی انگلی دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں اور ان کو تنبیہ فرما رہے ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ خود عزیز مصر کی صورت ان کے سامنے لائی گئی۔ بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت یوسف نے حالات کو اچھی طرح سمجھ لیا اور اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔ اللہ نے مدد فرمائی اور دروازے کھلتے چلے گئے۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ جو بھی اس ذات پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لئے ہر طرح کی آسانیاں عطا فرما دیتا ہے۔ حضرت یوسف جب دوڑے تو اس عورت نے ان کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی اور ان کی قمیص کو تھام لیا جو پھٹ کر اس کے ہاتھ میں آگئی جیسے ہی حضرت یوسف آخری دروازے پر پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ عزیز مصر سامنے کھڑا ہوا ہے زلیخا نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے حضرت یوسف پر الزام لگادیا کہ اس نوجوان غلام نے عزیز مصر کی بیوی کی آبرو پر ہاتھ ڈالنا چاہا تھا۔ حضرت یوسف نے اپنی صفائی میں جو سچی بات تھی وہ کہنا شروع کردی کہ اس عورت کا بدی اور برائی کا ارادہ تھا۔ میں وہاں سے بھاگا اور باہر نکل آیا۔ عزیز مصر اسی کشمکش میں تھا کہ کسی سمجھ دار آدمی نے کہا اس بات کا فیصلہ ابھی ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر حضرت یوسف کا قمیص آگے سے پھٹا ہے تب تو یوسف کی خطا ہے اور اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ عورت گناہگار ہے۔ دیکھا یا تو قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ عزیز مصر اس بات کی گہرائی تک پہنچ گیا اور اس کے منہ سے نکل گیا کہ بیشک یہ اس عورت کا مکر و فریب ہے اور عورتوں کا مکر و فریب بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس نے حضرت یوسف سے کہا کہ یوسف تم اس واقعہ کو نظر انداز کر دو ۔ اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنی خطا اور گناہ سے پناہ مانگ بلاشبہ یہ سب کی سب تیری خطا ہے۔ عزیز مصر نے اگرچہ ساری بات کو سمجھ لیا تھا اور فیصلہ بھی دیدیا تھا لیکن اس بات کی جب کچھ شہرت ہوگئی اور زلیخا پر الزام لگائے جانے لگے تو عزیز مصر نے اپنے گھر کی عزت بچانے کے لئے حضرت یوسف کو جیل بھیج دیا تاہ دنیا کی نظروں میں شاہی وقار قائم رہے اور یوسف کو قصور وار سمجھا جائے۔ اس کی تفصیل اگلی آیات میں آرہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب حضرت یوسف (علیہ السلام) پر ان کی زندگی کا سخت ترین امتحان آتا ہے اور یہ ان کے لیے سخت ترین آزمائش ہے۔ یہ ابتلا اس وقت آتا ہے جب اللہ نے ان کو علم دے دیا ہے اور صحیح فیصلے کی توفیق دے دی ہے تاکہ وہ ان کے ذریعے ان کی مشکلات پر قابو پا لیں اور سرخرو ہو کر نکلیں۔ کیونکہ یہ صالح اور پاکیزہ نوجوان ہیں اور محسنین کے ساتھ اللہ کا یہی سلوک ہوتا ہے۔ اب ذرا ملاحظہ کیجیے اس خطرناک منظر کو : " آخر کار یوسف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسف کی قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دی۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی : "" کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے ؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے " یوسف نے کہا "" یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی . اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ " اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا " اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا " جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو اس نے کہا یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں ، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں " یوسف اس معاملے سے درگزر کر۔ اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی۔ ۔۔۔ یہاں قرآن مجید نے یہ نہیں بتایا کہ اس کی عمر کیا تھی اور نہ یہ بتایا ہے کہ حضرت یوسف کی عمر کیا تھی ؟ یہاں ہم محض اندازے سے دونوں کی عمر کا تعین کرسکتے ہیں۔ جب حضرت یوسف کو قافلے نے اٹھایا تو وہ لڑکے تھے۔ انہیں مصر میں فروخت کردیا گیا۔ گویا ان کی عمر چودہ سال کے لگ بھگ تھی۔ کیونکہ عربی میں غلام اسی عمر کے لڑکوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کے بعد کے لوگوں کے لیے فتی شاب کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اس کے بعد رجل کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ایسی عمر ہی میں حضرت یعقوب یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کہیں بھیڑیا کھا نہ لے جبکہ اس وقت عزیز مصر کی بیوی ایک بیوی ہے اور پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ او نتخذہ ولدا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ان کی اولاد نہ تھی۔ متبنی بنانے کا خیال ہی تب آتا ہے کہ اولاد نہ ہو ، یا یہ کہ انسان جب ماویس ہوجاتا ہے کہ اب بچے پیدا ہونے کا کوی موقعہ نہیں ہے تب وہ مبنی کے لیے سوچتا ہے۔ لہذا معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس جوڑے کی شادی کے بعد کافی وقت گزر گیا ہے اور اب غالباً یہ جوڑا اولاد سے مایوس ہوگیا ہے ، بہرحال یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مصر کا وزیر اعظم چالیس سال سے بھی کم عمر کا ہو ، نیز اس وقت اس کی بیوی بھی کسی صورت میں تیس سال سے کم نہیں ہوسکتی۔ بہرحال قرین قیاس یہ ہے کہ یوسف کی عمر 15 سال اور عزیز مصر کی بیوی کی عمر 40 سال تھی تقریباً حالات یہ بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے قریقین کی عمریں یہی تھیں۔ اس عورت کے معمر ہونے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں اس نے جو موقف اختیار کیا وہ ایک پختہ عورت اور جرات والی عورت کا موقف ہے ، جو اپنی سازش کے تانے بانے پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ اس عورت کے بارے میں مصری خواتین کے تبصرے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ معمر عورت ہے۔ امراۃ العزیز تراود فتٰھا : " کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے " اگرچہ فتی غلام کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن عبد کے لیے بھی وہ اس لیے استعمال ہوتا ہے کہ اس میں فتوت کا مفہوم ہوتا ہے اور یوسف ایسے ہی تھے۔ بہرحال شہادت احوال و کوائف ان حقائق کی تائید میں ہے۔ یہ بحث ہم اس لیے کر رہے ہٰں کہ اس سے ایک متعین نتیجہ اخذ ہو۔ یہ کہ اس عورت نے صرف ایک حادثے میں یوسف کو ورغلانے کی کوشش نہ کی تھی جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے بلکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے زمانہ مراہقت سے مسلسل اس ابتلا میں رہے کیونکہ وہ وزیر اعظم کے محل میں تھے اور اور اس وقت عورت کی عمر 30 40 سال کے درمیان تھی۔ اور اس معاشرے کے اندر جو حالات تھے وہ و اس عورت کے خاوند کے اس قول سے اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں : يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ۫وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ : یوسف اس معاملے سے درگزر کر۔ اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی۔ نیز عورتوں کی چہ میگوئیاں کہ عزیز مصر کی بیوی کیا کر رہی ہے اور اس کی جوابی تدبیر اور دعوت کا انتظام اور ان کے سامنے یوسف کا حاضر ہونا اور سب کا حیران رہ جانا اور اس کا یہ تبصرہ : وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ ۭ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْن : بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا ، اگر یہ میرا کہا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا۔ یہ سوسائٹی جس میں اس قسم کی باتیں آزادانہ ہوتی ہوں ، یہ اونچے طبقے کی سوسائٹی ہوتی ہے۔ یوسف اس میں بطور غلام پھنسے ہوئے تھے اور اسی میں پل رہے تھے۔ اور عمر کا زمانہ ایسا تھا جسے فتنے اور آزمائش کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یہ تھا یوسف کا ایک طویل اور کٹھن امتحان اور اس میں وہ ثابت قدم رہے۔ وہ اس سے سرخرو ہوکر نکلے اور اس سوسائٹی اور اس عمر کے فتنوں کے مقابلے میں کامیاب رہے۔ ان کی عمر اور عورت کی عمر کو مد نظر رکھ کر سوچا جائے کہ اس عورت کے ساتھ وہ ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں ، ان سب امور سے یہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف نے کس قدر طویل عرصے تک حالات کا مقابلہ کیا۔ اگر یہ واقعہ صرف یہی ایک ہوتا تو وہ بسہولت اس کا مقابلہ کرلیتے اور ان کے لیے مشکل پیش نہ آتی خصوصاً جبکہ مرد مطلوب ہو ، خود طالب نہ ہو ، خصوصاً جبکہ عورت کی خواہش ہو تو مرد اس سے انکار نہیں کرسکتا اور اس واقعہ میں عورت خواہشمند تھی۔ اس تمہید کے بعد اب تشریح آیات۔ وَرَاوَدَتْهُ الَّتِيْ هُوَ فِيْ بَيْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ : جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کرکے بولی " آ جا "۔ اس بار یہ عورت کھلے بندوں حضرت یوسف کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہے اور اس میں وہ واضح طور پر آخری مرحلے کے لیے دعوت دیتی ہے۔ دروازے بند کرن آخری مرحلے پر ہوتا ہے اور یہ عورت اب اس انتہا تک ہپنچ چکی ہے ، جسمانی خواہش کا یہ آخری مرحلہ ہے۔ وقالت ھیت لک۔ اور یہ آخری واضح اور علانیہ دعوت کسی عورت کی طرف سے پہلی مرتبہ نہیں ہوتی۔ یہ بڑی تمہیدات کے بعد ہوتی ہے۔ اگر عورت جسمانی خواہش کے اعتبار سے مجبور نہ ہوجائے تو ایسی دعوت وہ ہرگز نہیں دیتی۔ نوجوان چونکہ ان کے گھر میں بھی رہا تھا ، اس کی جسمانی قوت آہستہ آہستہ مکمل ہوئی تھی اور عورت کی خواہشات (ھیت لک) کہنے سے قبل کئی مراحل سے گزری ہوں گی اور اس آخری مرحلے سے پہلے اس کی کوئی اداؤں کا مقابلہ حضرت یوسف نے کیا ہوگا۔ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ : " یوسف نے کہا : " خدا کی پناہ ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں گا) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔ معاذ اللہ ، میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، میں یہ کیسے کرسکتا ہوں۔ انہ ربی احسن مثوای۔ میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ہے۔ اس نے مجھے اندھے کنویں سے نجات دے کر باعزت جگہ دی اور ایسے اونچے گھرانے میں رکھا۔ انہ لایفلح الظلمون۔ بیشک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ جو حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہیں اور تم جس بات کی دعوت دے رہی ہو یہ تو سراسر حدود اللہ سے تجاوز ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عزیز مصر کی بیوی کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے مطلب براری کے لئے پیش ہونا اور آپ کا پاک دامن رہنا سیدنا یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کے گھر میں رہتے رہے وہیں پلے پڑھے جوان ہوئے بہت زیادہ حسین تھے عزیز مصر کی بیوی ان پر فریفتہ ہوگئی اور اپنا مطلب نکالنے کے لئے ان کو پھسلانے لگی ‘ اس نے نہ صرف اشاروں سے اپنا مطلب ظاہر کیا بلکہ گھر کے سارے دروازے بند کرلیے اور کہنے لگی آجاؤ میں تمہارے لئے تیار ہوں ‘ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لیے بڑا ہی امتحان کا موقع تھا خود بھی نوجوان تھے اور عورت پھسلا بھی رہی تھی اور وہ کوئی گری پڑی عورت نہیں عزیز مصر کی بیوی ہے پھر وہ ایک طرح سے اس کے پروردہ بھی تھے وہ گھر کی بڑی تھی اور آپ چھٹ پنے سے اس کے ساتھ رہے تھے ‘ جو عورت گھر کی سردار تھی اس کا حکم رد کرنا بھی مشکل تھا۔ ان سب امور کے ہوتے ہوئے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے گناہ سے بچنے کے لئے متعدد مشکلات تھیں اس موقع پر گناہ سے بچ جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے ہوسکتا ہے اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عورت کی درخواست پر معاذ اللہ کہہ دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں وہی مجھے گناہ سے بچا سکتا ہے ‘ پھر یہ فرمایا کہ تو میرے آقا اور مربی کی بیوی ہے اس نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے مجھے آرام کی جگہ دی ہے ‘ عزت سے رکھا ہے میری شرافت اس بات کو گوارہ نہیں کرتی کہ میں اس کے اہل خانہ پر دست درازی کروں (اس میں اس عورت کو بھی نصیحت فرما دی کہ تو بھی اللہ سے پناہ مانگ اور اپنے شوہر کی خیانت نہ کر مجھے تو اس گھر میں آئے ہوئے چند سال ہی ہوئے ہیں اور تو مجھ سے بہت پہلے سے عزیز مصر کے پاس رہتی ہے۔ تجھے بھی عفت وعصمت اختیار کرنا لازمی ہے) سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ (اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) (بلاشبہ ظلم کرنے والے کامیاب نہیں ہوتے) یہ ظلم کی بات ہے کہ میں اپنے آقا کا حق شناس نہ بنوں تو مجھے جس کام کی دعوت دے رہی ہے اس میں اللہ جل شانہ کی بھی خیانت ہے یہ دونوں ظلم کی باتیں ہیں ظلم کرنے والے کامیاب نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے جس کامیابی کو چاہتے ہیں وہ گناہوں کے ذریعہ نہیں ملتی دنیا کی مطلوبہ کامیابی ہو یا آخرت کی یہ ظالموں کو نہیں مل سکتی۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اِنَّہٗ رَبِّیْ میں جو ضمیر منصوب ہے یہ عزیز مصر کی طرف راجع نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھا ٹھکانہ دیا ہے میں کیسے اس کی نافرمانی کرسکتا ہوں یہ معنی لینے سے یہ اشکال ختم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے غیر اللہ کے لیے لفظ ربی کیسے استعمال فرمایا لیکن اگر انہ کی ضمیر عزیز مصر کی طرف راجع ہو تب بھی اشکال یوں ختم ہوجاتا ہے کہ رب بمعنی مالک اور مستحق اور صاحب بھی آیا ہے۔ (کما ذکرہ صاحب القاموس) اور حدیث میں جو فرمایا ہے کہ ولا یقل العبد ربی یہ ممانعت اس اعتبار سے ہے کہ لفظ رب عام محاورات میں اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے سَدًّاللباب ممانعت فرما دی گئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال میں یگانہ روزگار اور یکتائے زمانہ تھے، عزیز مصر کی بیوی جس کے گھر میں وہ رہتے تھے ان پر فریفتہ ہوگئی اور انہیں گناہ پر اکسانے میں لگ گئی۔ ” عَنْ نَّفْسِہٖ “ ، ” رَاوَدَتْ “ کے متعلق ہے یعنی اس عورت نے یوسف (علیہ السلام) سے ان کے نفس کا مطالبہ کیا۔ مراد جماع کا مطالبہ ہے ای طلبت یوسف ان یواقعہا (مدارک ج 2 ص 166) ۔ ” غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ “ گھر کے تمام دروازے بند کرلئے۔ قرآن سے دروازوں کو تالے لگانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ” ھَیْتَ لَکَ “ یہ اسم فعل ہے بمعنی تعال و اسرع یعنی جلدی کر۔ 22:۔ مفعول مطلق ہے اور اس کا فعل محذوف ای اعوذ معاذ اللہ۔ ” رَبِّیْ “ سے عزیز مصر مراد ہے جس نے ان کو ناز و نعم سے روکھنے کا حکم دیا تھا یا رب حقیق مراد ہے جس نے یہ اسباب مہیا فرمائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس عورت کے جواب میں فرمایا میں اس فعل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو میرے آقا کی بیوی ہے جس نے مجھ پر بےپایاں احسانات کیے۔ اس لیے اس کی عزت کو ہاتھ ڈالنا بہت بڑی نمک حرامی ہے میں یہ کام ہرگز نہیں کروں گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا کہ کنویں سے نکال کر اس آرام و راحت کی جگہ پہنچایا تو اب میں کیونکر اس کی ناشکری کروں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 اور وہ عورت جس کے گھر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) مقیم تھے اور رہتے تھے وہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنی جانب مائل کرنے اور ان سے اپنا مطلب پورا کرنے کیلئے پھسلانے لگی اور تمام دروازے بند کردئیے اور بولی لو آجائو میں تم سے کہہ رہی ہوں۔ یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کی پناہ مزید برآں وہ تیرا شوہر میرا آقا ہے جس نے مجھ کو بڑی اچھی طرح سے رکھ چھوڑا ہے بلاشبہ ایسے احسان فراموش کبھی فلاح نہیں پاتے یعنی زلیخا یوسف (علیہ السلام) کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے پھسلانا شروع کیا جب ان کو اس کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے خدا کی پناہ مانگی کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے پھر یہ کہ وہ تیرا شوہر میرا محسن ہے میرا مربی ہے یہ کیسی محسن کشی ہے کہ میں اس کی ناموس میں مداخلت کروں جو لوگ ایسے احسان فراموش ہیں ان کو فلاح نصیب نہیں ہوتی وہ دنیا ہی میں یا تو رسوا اور ذلیل ہوتے ہیں اور یا پھر آخرت میں تو عذاب پیش آنے والا ہی ہے۔ بعض لوگوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اللہ کی پناہ ! وہ اللہ میرا رب ہے اس نے مجھ کو اچھی جگہ رہنے کو دی ہے یعنی عزیر مصر کا حسن سلوک بھی حق تعالیٰ ہی کے حکم سے نصیب ہوا واللہ اعلم حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس کے ناموس میں کیوں کر داخل کروں 12