Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 25

سورة يوسف

وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۲۵﴾

And they both raced to the door, and she tore his shirt from the back, and they found her husband at the door. She said, "What is the recompense of one who intended evil for your wife but that he be imprisoned or a painful punishment?"

دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا ، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا اور کوئی دردناک سزادی جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ... So they raced with one another to the door, and she tore his shirt from the back. They both found her master (i.e. her husband) at the door. Allah says that Yusuf and the wife of the Aziz raced to the door, Yusuf running away from her and her running after him to bring him back to the room. She caught up with him and held on to his shirt from the back, tearing it so terribly that it fell off Yusuf's back. Yusuf continued running from her, with her in pursuit. However, they found her master, her husband, at the front door. This is when she responded by deceit and evil plots, trying to exonerate herself and implicate him, ... قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءًا ... She said: "What is the recompense (punishment) for him who intended an evil design against your wife..., in reference to illegal sexual intercourse, ... إِلاَّ أَن يُسْجَنَ ... except that he be put in prison, ... أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ or a painful torment. tormented severely with painful beating. Yusuf did not stand idle, but he declared the truth and exonerated himself from the betrayal she accused him of,

الزام کی مدافعت اور بچے کی گواہی حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے دروازے کی طرف دوڑے اور یہ عورت آپ کو پکڑنے کے ارادے سے آپ کے پیچھے بھاگی ۔ پیچھے سے کرتا اس کے ہاتھ میں آگیا ۔ زور سے اپنی طرف گھسیٹا ۔ جس سے حضرت یوسف پیچھے کی طرف گر جانے کی قریب ہوگئے لیکن آپ نے آگے کو زور لگا کر دوڑ جاری رکھی اس میں کرتا پیچھے سے بالکل بےطرح پھٹ گیا اور دونوں دروازے پر پہنچ گئے دیکھتے ہیں کہ عورت کا خاوند موجود ہے ۔ اسے دیکھتے ہی اس نے چال چلی اور فوراً ہی سارا الزام یوسف کے سر تھوپ دیا اور اپنی پاک دامنی بلکہ عصمت اور مظلومیت جتانے لگی ۔ سوکھا سامنہ بنا کر اپنے خاوند سے اپنی بپتا اور پھر پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے فرمائیے حضور آپ کی بیوی سے جو بدکاری کا ارادہ رکھے اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ قید سخت یا بری مار سے کم تو ہرگز کوئی سزا اس جرم کی نہیں ہو سکتی ۔ اب جب کہ حضرت یوسف نے اپنی آبرو کو خطرے میں دیکھا اور خیانت کی بدترین تہمت لگتی دیکھی تو اپنے اوپر سے الزام ہٹانے اور صاف اور سچی حقیقت کے ظاہر کر دینے کے لیے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی میرے پیچھے پڑی تھیں ، میرے بھاگنے پر مجھے پکڑ رہی تھی ، یہاں تک کہ میرا کرتا بھی پھاڑ دیا ۔ اس عورت کے قبیلے سے ایک گواہ نے گواہی دی ۔ اور مع ثبوت و دلیل ان سے کہا کہ پھٹے ہوئے پیرہن کو دکھ لو اگر وہ سامنے کے رخ سے پھٹا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا ہے اس نے اسے اپنی طرف لانا چاہا اس نے اسے دھکے دیئے ۔ روکا منع کیا ہٹایا اس میں سامنے سے کرتا پھٹ گیا تو واقع قصور وار مرد ہے اور عورت جو اپنی بےگناہی بیان کرتی ہے وہ سچی ہے فی الواقع اس صورت میں وہ سچی ہے ۔ اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا پاؤ تو عورت کے جھوٹ اور مرد کے سچ ہو نے میں شبہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ عورت اس پر مائل تھی یہ اس سے بھاگا وہ دوڑی ، پکڑا ، کرتا ہاتھ میں آگیا اس نے اپنی طرف گھسیٹا اس نے اپنی جانب کھینچا وہ پیچھے کی طرف سے پھٹ گیا ۔ کہتے ہیں یہ گواہ بڑا آدمی تھا جس کے منہ پر داڑھی تھی یہ عزیز مصر کا خاص آدمی تھا اور پوری عمر کا مرد تھا ۔ اور زلیخا کے چچا کا لڑکا تھا زلیخا بادشاہ وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی پس ایک قول تو اس گواہ کے متعلق یہ ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا دودھ پیتا گہوارے میں جھولتا بچہ تھا ۔ ابن جریر میں ہے کہ چار چھوٹے بچوں چھٹپن میں ہی کلام کیا ہے اس پوری حدیث میں ہے اس بچے کا بھی ذکر ہے اس نے حضرت یوسف صدیق کی پاک دامنی کی شہادت دی تھی ۔ ابن عباس فرماتے ہیں چار بچوں نے کلام کیا ہے ۔ فرعون کی لڑکی کی مشاطہ کے لڑکے نے ۔ حضرت یوسف کے گواہ نے ۔ جریج کے صاحب نے اور حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام نے ۔ مجاہد نے تو ایک بالکل ہی غریب بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ کا حکم تھا کوئی انسان تھا ہی نہیں ۔ اسی تجویز کے مطابق جب زلیخا کے شوہر نے دیکھا تو حضرت یوسف کے پیراہن کو پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا دیکھا ۔ اس کے نزدیک ثابت ہو گیا کہ یوسف سچا ہے اور اس کی بیوی جھوٹی ہے وہ یوسف صدیق پر تہمت لگا رہی ہے تو بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو تم عورتوں کا فریب ہے ۔ اس نوجوان پر تم تہمت باندھ رہی ہو اور جھوٹا الزام رکھ رہی ہو ۔ تمہارے چلتر تو ہیں ہی چکر میں ڈال دینے والے ۔ پھر حضرت یوسف سے کہتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو بھول جائیے ، جانے دیجئے ۔ اس نامراد واقعہ کا پھر سے ذکر ہی نہ کیجئے ۔ پھر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو نرم آدمی تھا نرم اخلاق تھے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جان رہا تھا کہ عورت معذور سمجھے جانے کے لائق ہے اس نے وہ دیکھا جس پر صبر کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے اسے ہدایت کر دی کہ اپنے برے ارادے سے توبہ کر ۔ سراسر تو ہی خطا وار ہے ۔ کیا خود اور الزام دوسروں کے سر رکھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے، تو وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے، یوسف (علیہ السلام) کے پیچھے انھیں پکڑنے کے لئے عورت بھی دوڑی۔ یوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔ 25۔ 2 یعنی خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر یوسف (علیہ السلام) کو قرار دے کر ان کے لئے سزا بھی تجویز کردی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی، مجرم خود تھی جب کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بالکل بےگناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] جب زلیخا نے چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ سیدنا یوسف کے جذبات کو برانگیختہ کرنا چاہا تو آپ دروازے کی طرف بڑھے تاکہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور زلیخا ان کے پیچھے دوڑی اور آپ کو پیچھے سے اپنے پاس کھینچنا چاہا۔ اس کشمکش میں زلیخا نے پیچھے سے سیدنا یوسف کی قمیص کو پکڑ کر کھینچا تو قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔ تاہم یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور جب دروازہ کھلا تو دفعتاً عزیز مصر دروازے پر کھڑا موجود تھا۔ جس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ دونوں ایک بند کمرے سے باہر آرہے ہیں۔ آگے یوسف ہیں اور پیچھے زلیخا، اور یہ کچھ بدکاری کے امکان کے لیے کافی ثبوت تھا یا کم از کم ایسا شبہ ضرور پڑ سکتا تھا۔ [٢٦] زلیخا کا چلتر :۔ جب زلیخا نے اپنے خاوند کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو یک لخت اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے اس کارروائی کا تمام تر الزام سیدنا یوسف کے سر تھوپ دیا۔ پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر آپ کو سزا دلوانے کی بھی کوشش کی کہ اسی نے مجھ سے برائی کا ارارہ کیا تھا۔ اس طرح کے چلتر سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ ایک تو اپنے آپ کو پاکدامن ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ خود ہی برائی کی اصل جڑ تھی اور دوسرے جو سیدنا یوسف نے اس کی خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور اس نے اسے اپنی توہین سمجھا تھا۔ اس کے عوض آپ کو اپنے خاوند سے سزا دلوانا چاہی اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو بےقصور ثابت کرنے کے لیے یوسف کے لیے شدید سزا یا قید کا مطالبہ کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ ۔۔ : علماء نے لکھا ہے کہ اس جملے کا تعلق ” وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۔۔ “ کے ساتھ ہے اور ” كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ ۔۔ “ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو یوسف (علیہ السلام) کی پاک بازی کو ثابت کرنے کے لیے لایا گیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت نے زنا کا عزم کیا، مگر یوسف (علیہ السلام) نے انکار کیا، چناچہ اسی کشمکش میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے، آگے یوسف (علیہ السلام) اور پیچھے عزیز کی بیوی۔ یوسف (علیہ السلام) اس لیے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیز کی بیوی دوڑی کہ پہلے پہنچ کر انھیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ دروازے جو عزیز کی بیوی نے بہت اچھی طرح بند کیے جب یوسف (علیہ السلام) گناہ سے بچنے کے لیے بند دروازوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگے تو اللہ تعالیٰ نے کھولنے میں بھی مدد فرما دی۔ اسی مقصد کے لیے اس نے پیچھے سے قمیص پکڑی کہ روک لے مگر قمیص پھاڑ کر بھی روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ یوسف دروازے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، ساتھ ہی وہ بھی نکلی تو اچانک دونوں نے اس کے خاوند کو سامنے پایا۔ اب وہ سارا ” عشق حقیقی “ جس کی داستان ہمارے قصہ گو مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور اسے ایک رسول خدا کا عشق صادق ہونے کی وجہ سے معرفتِ الٰہی کی ایک منزل قرار دیتے ہیں، ایک لمحہ میں بہتان کے سانچے میں ڈھل گیا۔ کہنے لگی، اس شخص کی کیا جزا ہے جس نے تیری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، سوائے اس کے کہ قید کیا جائے یا دردناک سزا ہو ؟ سبحان اللہ ! خاوند کو بھڑکانے کے لیے، جو غلام کو ورغلانے والی تھی وہ خاوند کی عفت مآب گھر والی بن گئی، دعویٰ کرنے والی بھی خود ہی بن گئی اور دعویٰ یہ نہیں کہ اس نے کوئی چھیڑ چھاڑ کی یا دست درازی کی ہے، بلکہ صرف یہ کہ برائی کا ارادہ کیا ہے، اب کسی کے سینے کے اندر جا کر کون تحقیق کرے کہ ارادہ تھا بھی یا نہیں اور تھا تو کیا تھا ؟ پھر اس الزام کے ثبوت کے لیے کوئی گواہ یا قرینہ پیش نہیں کیا، اس کے باوجود خود ہی سزا سنانے والی جج بن گئی کہ اس کے لیے ان دو سزاؤں میں سے ایک کے سوا ہو ہی کیا سکتی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Described in the previous verses was the time when the wife of the Aziz of Misr was busy enticing Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) into sin, and he, on his part, was trying to stay away from it. But, there was the natural struggle with that non-voluntary thought too. So, to help his honourable prophet, Allah Ta ala showed a miracle, made something appear before him which drove even that thought out from his heart - whether that ` thing& be the face of his father, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، or some verse out of the Divine revelation. Told in the present verse (25) is that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، once he saw this ` proof from his Lord,& ran away from that. private enclave and dashed for the door to get out from there. The wife of the ` Aziz of Misr ran after him to hold him back and, by grabbing his shirt, she tried to stop him from getting out. But, when he did not stop - being determined not to - the shirt was torn from behind him. However, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did come out of the door, and so did Zulaikha behind him. Historical accounts mention that the door was locked from the inside. When Sayyid¬na Yusuf (علیہ السلام) ran and reached the door, this lock opened up by itself and dropped down. When they both came out of the door, they saw the ` Aziz of Misr standing face to face. His wife was unnerved. In order to wriggle out of the awkward situation, and to put the blame on Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، she said: at can be the punishment of the one who intended evil with your wife except that he be imprisoned, or (given) a painful chastisement? Injunctions and Rulings The following rules and guiding principles have been deduced from the verses cited above: 1. From verse 25 beginning with the words: وَاسْتَبَقَا الْبَابَ (And they raced towards the door ... ), we learn that a place where there is a danger of getting involved in sin must be abandoned outright - as was practically demonstrated by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) by running away from there. 2. In matters requiring obedience to Divine injunctions, one should not, to the best of one&s ability, let his efforts in that direction taper off - even if a tangible result from them does not seem to be coming out. Re¬sults rest in the hands of Allah Ta` ala. One&s job is to channel and devote his or her effort and ability in the way of Allah - and proving one&s iden-tity as a servant of Allah is the purpose. This is what was done by Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) . All doors were closed, even locked, as reported in histor¬ical narrations. Yet, he spent out his maximum strength in running towards the door. In a situation like that, help and support from Allah jalla thana&uh is witnessed frequently when a servant of Allah has done his best, it transpires that He would also arrange the causes for His ser¬vant to succeed. However, should the situation be otherwise and one fails to achieve formal success as we know it, then, for a devoted servant of Allah, even this failure is no less than success (for this is the prefer¬ence of his Lord). It is said about a righteous elder confined to prison that he would, on every Friday take his bath, wash his clothes, get ready for Jumu&ah pray¬er, walk upto the door of the prison, and once there, he would say: ` Ya Al¬lah, this much was what was within my power. at is beyond that is in Your control.& Who knows, given the limitless mercy of Allah Ta ala, his spiritual yearning would have caused the prison gate to open with the command of Allah and he would have been enabled to perform the Salah of Jumu&ah. But, Allah, in His wisdom, bestowed upon this righteous dev¬otee such high spiritual station as would pale out a thousand workings of the supernatural (karamah). The gate of the prison did not open be-cause of his continuous effort to offer his Salah of Jumu&ah. But, he did not lose heart. He kept doing the same thing every Jumu&ah. This is spir¬itual fortitude called by Sufi masters as superior to Karamah. 3. It stands proved (from verse 26) that, should a person be accused falsely by someone, speaking out in defence is the way of the prophets (the Sunnah of the Anbiya& ). Remaining silent at that time, and letting oneself be declared to be a criminal, is no act of piety or trust in Allah (tawakkul). 4. The fourth problem concerns the word:..~a (shahid) (in verse 26). When this word is used in common juristic matters and cases, it denotes a person who relates an event as seen by him in a disputed case. In this verse, the person who has been referred to by the word, ` shahid,& has not related any event, or any personal observation about it - instead of that, what has been hinted at is a sort of device to arrive at a decision. Techni-cally, that could not be called a ` shahid& or witness. But, it is obvious that all these terms have been employed by later scholars and jurists for the convenience of understanding and teaching. They are neither the terms of the Holy Qur’ an, nor is it bound by them. The Holy Qur’ an has called this person a ` shahid& (witness) in the sense that the way the statement of a ` witness makes it easy for a judge to ar¬rive at a decision, and proves that one of the parties in the case is in the right, the same benefit became available through the statement of this child. Initially, his miraculous speech itself was sufficient proof to ab¬solve Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from the blame. Then, there were the signs given by him. In the ultimate analysis, they too are nothing but the proof of the absolvement of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from the blame. There-fore, saying that he appeared as a witness in favour of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) will be correct - though, he did not declare Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) to be true, rather, had mentioned both probabilities. And, in addition to that, he had even supposedly taken Zulaikha to be true in a situation in which the likelihood of her being true was not certain - in fact, there ex¬isted the other probability too, because the possibility of the shirt being torn from the front existed in both situations. And then, he had admitted the truthfulness of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) only in a situation wherein there could have been no other probability other than this. But, finally, the outcome of this strategy was but to prove the innocence of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . 5. In arriving at judgments of disputed cases, circumstantial evi¬dence can be taken into consideration - as was demonstrated here when this ` shahid& declared that the shirt torn from the backside was an evi¬dence that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was running and Zulaikha was trying to stop him. In this matter, there is an agreement of all jurists that signs and indicators should definitely be used to determine the truth, as was done here. But, besides that, only signs and indicators cannot be given the status of sufficient proof. In this event relating to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) too, that which really proves the innocence of Sayyidna is the miraculous speech of the child. As for the signs and indicators which have been mentioned there, they serve to confirm the matter.

خلاصہ تفسیر : ( اور جب اس عورت نے پھر وہی اصرار کیا تو یوسف (علیہ السلام) وہاں سے جان بچا کر بھاگے اور وہ ان کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے چلی) اور وہ دونوں آگے پیچھے دروازہ کی طرف دوڑے اور (دوڑنے میں جو ان کو پکڑنا چاہا تو) اس عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ ڈالا (یعنی اس نے کرتہ پکڑ کر کھینچنا چاہا اور یوسف (علیہ السلام) آگے کی طرف دوڑے تو کرتہ پھٹ گیا مگر یوسف (علیہ السلام) دروازے سے باہر نکل گئے) اور (عورت بھی ساتھ تھی تو) دونوں نے (اتفاقا) اس عورت کے شوہر کو دروازے کے پاس (کھڑا) پایا عورت (خاوند کو دیکھ کر سٹ پٹائی اور فورا بات بنا کر) بولی کہ جو شخص تیری بی بی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اس کی سزا بجز اس کے اور کیا (ہو سکتی) ہے کہ وہ جیل خانے بھیجا جائے یا اور کوئی دردناک سزا ہو (جیسے ضرب جسمانی) یوسف (علیہ السلام) نے کہا (کہ یہ جو میری طرف الزام کا اشارہ کرتی ہے بالکل جھوٹی ہے بلکہ معاملہ برعکس ہے) یہی مجھ سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے مجھ کو پھسلاتی تھی اور (اس موقع پر) اس عورت کے خاندان میں سے ایک گواہ نے (جو کہ شیرخواربچہ تھا اور یوسف (علیہ السلام) کے معجزے سے بول پڑا اور آپ کی براءت پر) شہادت دی (اس بچہ کا بولنا ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ایک معجزہ تھا اس پر دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ اس شیر خوار بچہ نے ایک معقول علامت بتا کر عاقلانہ فیصلہ بھی کیا اور کہا) کہ ان کا کرتہ (دیکھو کہاں سے پھٹا ہے) اگر آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹے اور اگر وہ کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں سو جب (عزیز نے) ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (عورت سے) کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے بیشک تمہاری چالاکیاں بھی غضب کی ہوتی ہیں (پھر یوسف (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا) اے یوسف اس بات کو جانے دو (یعنی اس کا چرچا یا خیال مت کرو) اور (عورت سے کہا کہ) اے عورت تو (یوسف سے) اپنے قصور کی معافی مانگ بیشک سرا سر تو ہی قصور وار ہے، معارف و مسائل : پچھلی آیات میں یہ بیان آیا ہے کہ جس وقت عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مشغول تھی اور یوسف (علیہ السلام) اس سے بچ رہے تھے مگر فطری اور غیر اختیاری خیال کی کشمکش میں مشغول بھی تھی تو حق تعالیٰ نے اپنے برگذیدہ پیغمبر کی اعانت کیلئے بطور معجزہ کے کوئی ایسی چیز سامنے کردی جس نے دل سے وہ غیراختیاری خیال بھی نکال ڈالا خواہ وہ چیز اپنے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت ہو یا وحی الہی کی کوئی آیت، آیت مذکورہ میں یہ بتلایا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اس خلوت گاہ میں اس برہان ربی کا مشاہدہ کرتے ہی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور باہر نکلنے کے لئے دروازہ کی طرف دوڑے عزیز کی بیوی ان کو پکڑنے کے لئے پیچھے دوڑی اور یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ پکڑ کر ان کو باہر جانے سے روکنا چاہا وہ عزم کے مطابق نہ رکے تو پیچھے سے پھٹ گیا مگر یوسف (علیہ السلام) دروازہ سے باہر نکل آئے اور ان کے پیچھے زلیخا بھی تاریخی روایتوں میں مذکور ہے کہ دروازہ پر قفل لگا دیا تھا جب یوسف (علیہ السلام) دوڑ کر دروازہ پر پہنچنے تو خود بخود یہ قفل کھل کر گرگیا ، جب یہ دونوں دروازے سے باہر آئے تو دیکھا کہ عزیز مصر سامنے کھڑے ہیں ان کی بیوی سہم گئی اور بات یوں بنائی کہ الزام اور تہمت یوسف (علیہ السلام) پر ڈالنے کے لئے کہا کہ جو شخص آپ کی بیوی کے ساتھ برے کام کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ان کو قید میں ڈالا جائے یا کوئی دوسری جسمانی سخت سزا دی جائے۔ احکام و مسائل : آیات مذکورہ سے چند اہم مسائل اور احکام نکلتے ہیں۔ اول : آیت واسْتَبَقَا الْبَابَ سے یہ معلوم ہوا کہ جس جگہ گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس جگہ ہی کو چھوڑ دینا چاہئے جیسا یوسف (علیہ السلام) نے وہاں سے بھاگ کر اس کا ثبوت دیا، دوسرامسئلہ : یہ کہ احکام الہیہ کی اطاعت میں انسان پر لازم ہے کہ اپنی مقدور بھر کوشش میں کمی نہ کرے خواہ اس کا نتیجہ بظاہر کچھ برآمد ہوتا نظر نہ آئے نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں انسان کا کام اپنی محنت اور مقدور کو اللہ کی راہ میں صرف کر کے اپنی بندگی کا ثبوت دینا ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دروازے سب بند ہونے اور تاریخی روایات کے مطابق مقفل ہونے کے باوجود دروازہ کی طرف دوڑنے میں اپنی پوری قوت خرچ فرما دی ایسی صورت میں اللہ جل شانہ کی طرف سے امداد واعانت کا بھی اکثر مشاہدہ ہوتا ہے کہ بندہ جب اپنی کوشش پوری کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کے اسباب بھی مہیا فرما دیتے ہیں مولانارومی (رح) نے اسی مضمون پر ارشاد فرمایا ہے گرچہ رخنہ نیست عالم را پدید۔ خیرہ یوسف وارمی بایدد دید ایسی صورت میں اگر ظاہری کامیابی بھی حاصل نہ ہو تو بندہ کے لئے یہ ناکامی بھی کامیابی سے کم نہیں گر مرادت را مذاق شکرست۔ نامرادی نے مراد دلبرست ایک بزرگ عالم جیل میں تھے جمعہ کے روز اپنی قدرت کے مطابق غسل کرتے اور اپنے کپڑے دھو لیتے اور پھر جمعہ کے لئے تیار ہو کر جیل خانہ کے دروازے تک جاتے وہاں پہنچ کر عرض کرتے کہ یا اللہ میری قدرت میں اتنا ہی تھا آگے آپ کے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ سے کچھ بعید نہ تھا کہ ان کی کرامت سے جیل کا دروازہ کھل جاتا اور یہ نماز جمعہ ادا کرلیتے لیکن اس نے اپنی حکمت سے اس بزرگ کو وہ مقام عالی عطا فرمایا جس سے ہزاروں کرامتیں قربان ہیں کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے جیل کا دروازہ نہ کھلا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام میں ہمت نہیں ہاری ہر جمعہ کو مسلسل یہی عمل جاری رکھا یہی وہ استقامت ہے جس کو اکابر صوفیاء نے کرامت سے بالاتر فرمایا ہے، تیسرامسئلہ : اس سے یہ ثابت ہوا کہ کسی شخص پر کوئی غلط تہمت باندھی تو اپنی صفائی پیش کرنا سنت انبیاء (علیہم السلام) ہے یہ کوئی توکل یا بزرگی نہیں کہ اس وقت خاموش رہ کر اپنے آپ کو مجرم قرار دیدے، چوتھامسئلہ : اس میں شاہد کا ہے یہ لفظ جب عام فقہی معاملات اور مقدمات میں بولا جاتا ہے تو اس سے وہ شخص مراد ہوتا ہے جو زیر نزاع معاملہ کے متعلق اپنا چشم دید کوئی واقعہ بیان کرے اس آیت میں جس کو شاہد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس نے کوئی واقعہ یا اس کے متعلق اپنا کوئی مشاہدہ بیان نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے کی ایک صورت کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو اصطلاحی طور پر شاہد نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ اصطلاحات سب بعد کے علماء وفقہاء نے افہام و تفہیم کے لئے اختیار کرلی ہیں قرآن حکیم کی نہ یہ اصطلاحیں ہیں نہ وہ ان کو پابند ہے قرآن کریم نے یہاں اس شخص کو شاہد اس معنی کے اعتبار سے فرمایا ہے کہ جس طرح شاہد کے بیان سے معاملہ کا تصفیہ آسان ہوجاتا ہے اور کسی ایک فریق کا حق پر ہونا ثابت ہوجاتا ہے اس بچہ کے بیان سے بھی یہی فائدہ حاصل ہوگیا کہ اصل تو اس کی معجزانہ گویائی ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی براءت کے لئے شاہد تھی اور پھر اس نے جو علامات بتلائیں ان کا حاصل بھی انجام کار یوسف (علیہ السلام) ہی کی براءت کا ثبوت ہے اس لئے یہ کہناصحیح ہوگیا کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کے حق میں گواہی دی حالانکہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو سچا نہیں کہا بلکہ دونوں احتمالوں کا ذکر کردیا تھا، اور ذلیخا کے سچے ہونے کا ایک ایسی صورت میں بھی فرضی طور پر تسلیم کرلیا تھا جس میں ان کا سچا ہونا یقینی نہ تھا بلکہ دوسرا بھی احتمال موجود تھا کیونکہ کرتے کا سامنے سے پھٹنا دونوں صورتوں میں ممکن ہے اور یوسف (علیہ السلام) کے سچے ہونے کو صرف ایسی صورت میں تسلیم کیا تھا جس میں اس کے سوا کوئی دوسرا احتمال ہی نہیں ہوسکتا لیکن انجام کار نتیجہ اس حکمت عملی کا یہی تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کا بری ہونا ثابت ہو، پانچواں مسئلہ : اس میں یہ ہے کہ مقدمات اور خصومات کے فیصلوں میں قرائن اور علامات سے کام لیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس شاہد نے کرتے کے پیچھے سے پھٹنے کو اس کی علامت قرار دیا کہ یوسف (علیہ السلام) بھاگ رہے تھے زلیخا پکڑ رہی تھی اس معاملہ میں اتنی بات پر تو سب فقہاء کا اتفاق ہے کہ معاملات کی حقیقت پہچاننے میں علامات اور قرائن سے ضرور کام لیا جائے جیسا کہ یہاں کیا گیا لیکن محض علامات و قرائن کو کافی ثبوت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا واقعہ یوسف (علیہ السلام) میں بھی در حقیقت براءت کا ثبوت تو اس بچہ کی معجزانہ انداز سے گویائی ہے علامات وقرائن جن کا ذکر کیا گیا ہے ان سے اس معاملہ کی تائید ہوگی، بہرحال یہاں تک یہ ثابت ہوا کہ جب زلیخا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تہمت و الزام لگایا تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچہ کو خلاف عادت گویائی دے کر اس کی زبان سے یہ حکیمانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کے کرتے کو دیکھو اگر وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ اس کی صاف علامت ہے کہ وہ بھاگ رہے تھے اور زلیخا پکڑ رہی تھی یوسف (علیہ السلام) بےقصور ہیں،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝ ٠ۭ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٢٥ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ قدد القَدُّ : قطع الشیء طولا . قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف/ 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف/ 27] . والْقِدُّ : الْمَقْدُودُ ، ومنه قيل لقامة الإنسان : قَدٌّ ، کقولک : تقطیعه وقَدَّدْتُ اللّحم فهو قَدِيدٌ ، والقِدَدُ : الطّرائق . قال : طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، الواحدة : قِدَّةٌ ، والْقِدَّةُ : الفِرقة من الناس، والْقِدَّةُ کالقطعة، واقْتَدَّ الأمر : دبّره، کقولک : فصله وصرمه . ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( ق د د ) القد ( ق د د ) القد کے معنی کسی چیز کو طول میں قطع کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف/ 26] اگر ان کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف/ 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ القد بمعنی مقدود ہے اور اسی سے انسان کے قدوقامت کو قد کہاجاتا ہے جیسا کہ ۔ تقطیع الانسان ( انسان کا قدوقامت ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ قددت اللحم کے معنی گوشت کے پارچے بنانے کے ہیں اور کٹے ہوئے گوشت کو قدید کہاجاتا ہے ۔ القدد اس کا واحد قدۃ ہے اور اس کے معنی مختلف طرق اور مذاہب کے ہیں جیسے فرمایا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ہمارے کئی طرح کے مذاہب ہیں ۔ اور قدہ کے معنی لوگوں کی ٹولی اور گروہ کے بھی آتے ہیں جیسے قطعۃ اقتدالامر کسی کا م کی تدبیر کرنا جیسا کہ : فصل وحرم الامر کا محاورہ ہے ۔ ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ قمیص الْقَمِيصُ معروف، وجمعه قُمُصٌ وأَقْمِصَةٌ وقُمْصَانٌ. قال تعالی: إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف/ 26] ، وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف/ 27] وتَقَمَّصَهُ : لبسه، وقَمَصَ البعیر يَقْمُصُ ويَقْمِصُ : إذا نزا، والقُمْاصُ : داء يأخذه فلا يستقرّ به موضعه ومنه ( القَامِصَةُ ) في الحدیث . ( ق م ص ) القمیص قمیص ۔ کرتہ ۔ جمع قمص واقمصتہ وقمصان قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ [يوسف/ 26] اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو ۔ وَإِنْ كانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ [يوسف/ 27] اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو ۔ تقمصتہ قمیص پہنا ۔ قمص ( ن ۔ ض ) البعیر اونٹ کا جست کرنا ۔ القماص اونٹ کا ایک مرض جو اسے چین سے کھڑا ہونے نہیں دیتا اور اسی سے لفظ قامصتہ ہے جس کو ذکر حدیث میں آیا ہے ( 85 ) دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ لفی أَلْفَيْتُ : وجدت . قال اللہ : قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا [ البقرة/ 170] ، وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل ف ی) الفیت کے معنی وجدت یعنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا[ البقرة/ 170] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا ۔ سَّيِّدُ : المتولّي للسّواد، أي : الجماعة الكثيرة، وينسب إلى ذلک فيقال : سيّد القوم، ولا يقال : سيّد الثّوب، وسيّد الفرس، ويقال : سَادَ القومَ يَسُودُهُمْ ، ولمّا کان من شرط المتولّي للجماعة أن يكون مهذّب النّفس قيل لكلّ من کان فاضلا في نفسه : سَيِّدٌ. وعلی ذلک قوله : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران/ 39] ، وقوله : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف/ 25] ، فسمّي الزّوج سَيِّداً لسیاسة زوجته، وقوله : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا [ الأحزاب/ 67] ، أي : ولاتنا وسَائِسِينَا . اور سید کے معنی بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چناچہ اضافت کے وقت سیدالقوم تو کہا جاتا ہے ۔ مگر سید الثوب یا سیدالفرس نہیں بالو جاتا اور اسی سے سادا القوم یسودھم کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار ہر فاضل النفس آدمی سید کہا جاتا چناچہ آیت وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران/ 39] اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں بھی سید کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف/ 25] اور دونوں کو عورت کا خاوند مل گیا ۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے اور آیت : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا[ الأحزاب/ 67] اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا ۔ میں سادتنا سے دلاۃ اور حکام مراد ہیں ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ سجن السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] ( س ج ن ) السجن ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) غرض کہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے، اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) وہاں سے جان بچا کر نکلنے کے لیے بھاگے اور وہ دروازہ بند کرنے کے لیے دوڑی اور دوڑنے میں اس عورت نے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے دروازہ بند کرنے کے لیے سبقت کرنا چاہی تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پیچھے کی طرف پھاڑ ڈالی مگر یوسف (علیہ السلام) باہر نکل گئے تو دونوں نے اتفاقا اس عورت کے شوہر کو جو کہ اس کا چچا زاد بھائی تھا دروازہ پر کھڑا پایا تو وہ عورت فورا بات بنا کر اپنے خاوند سے کہنے لگی کہ جو شخص تیری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے، اس کی سزا سوائے اس کے کیا ہوسکتی ہے۔ کہ وہ جیل بھیج دیا جائے یا اسے اور کوئی درد ناک جسمانی سزا دی جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَاسْتَبَقَا الْبَابَ ) یعنی حضرت یوسف نے جب دیکھا کہ اس عورت کی نیت خراب ہے اور اس پر شیطنت کا بھوت سوار ہے تو آپ اس سے بچنے کے لیے دروازے کی طرف لپکے اور آپ کے پیچھے وہ بھی بھاگی تاکہ آپ کو قابو کرسکے۔ (وَقَدَّتْ قَمِيْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ ) آپ کو دوڑتے ہوئے دیکھ کر اس عورت نے آپ کی طرف تیزی سے لپک کر پیچھے سے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ کی قمیص اس کے ہاتھ میں آکر پھٹ گئی۔ (وَّاَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ ) اس عورت نے لازماً ایسے وقت کا انتخاب کیا ہوگا جب اس کا خاوند گھر سے باہر تھا اور اس کے جلد گھر آنے کا امکان نہیں تھا ‘ مگر جونہی وہ دونوں آگے پیچھے دروازے سے باہر نکلے تو غیر متوقع طور پر اس کا خاوند عین دروازے پر کھڑا تھا۔ (قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) اپنے خاوند کو دیکھتے ہی اس عورت نے فوراً پینترا بدلا اور اس کی غیرت کو للکارتے ہوئے بولی کہ اس لڑکے نے مجھ پر دست درازی کی ہے اور میں نے بڑی مشکل سے خود کو بچایا ہے۔ اب اس سے آپ ہی سمجھیں اور اسے کوئی عبرت ناک سزا دیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: حضرت یوسف (علیہ السلام) اس عورت سے رخ موڑ کر دروازے کی طرف بھاگ رہے تھے، عورت نے پیچھے سے انہیں کھینچنا چالا، اس سے قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ زلیخا کی جب کچھ پیش نہ چلی اور ہزاروں آرزوں اور منتوں پر بھی یوسف (علیہ السلام) اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور اس کی ساری کوششیں بیکار گئیں اکیلے گھر میں جس کے ساتوں دروازے بند پڑے تھے یوسف (علیہ السلام) کو اور تو کچھ سوجھی نہیں دروازے کی طرف بھاگ چلے تاکہ مکان سے باہر نکل جائیں کہ وہاں اس عورت سے چھٹکارا ملے گا اور اس کے شر سے بچیں گے یوسف (علیہ السلام) کو بھاگتا ہوا دیکھ کر زلیخا بھی ان کے پیچھے بھاگی کہ ان کو پکڑ لیں باہر نہ جانے دیں اسی دوادوش میں یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ اس کے ہاتھ میں آگیا یوسف (علیہ السلام) کو اس کی پرواہ تو تھی نہیں کہ میرا کپڑا چھٹے گا وہ تو یہ چاہ رہے تھے کہ کسی طرح سے اس عورت سے رہائی ہو وہ بھاگے چلے گئے پیچھے کا دامن جو زلیخا کے ہاتھ میں آگیا تھا وہ پھٹ گیا اور پھٹا تو ایسا پھٹا کہ گردن کے پاس سے بالکل نیچے تک کا حصہ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ جب یوسف (علیہ السلام) دروازے کے پاس آئے اور ان کے پیچھے زلیخا بھی آگئی تھی کہ اتنے میں اس کا شوہر بھی وہاں پہنچ گیا اس نے بہت ہی جلد ایک فریب بنا لیا اور شوہر سے کہنے لگی کہ ایسے آدمی کی یہی سزا ہے جو تیری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے کہ اس کو قید میں رکھنا چاہیے۔ یوسف (علیہ السلام) پر زلیخا دل و جان سے عاشق ہوگئی تھی۔ اس لئے سزا بھی تجویز کی تو ایسی جس میں ان کو زیادہ تکلیف نہ ہو اور پھر یہ آنکھوں سے اوجھل بھی نہ رہیں گے مگر فوراً اس کہنے کے بعد اس کے دل میں خیال آگیا کہ اس بات سے میری برأت پوری نہیں ہوگی عزیز مصر دل میں تاڑ جائے گا کہ یہ شرارت اسی عورت کی طرف سے ہے۔ یہی یوسف (علیہ السلام) پر فریقتہ ہے اس لئے جلدی سے یہ بھی کہہ دیا کہ یا اس کو سخت عذاب و تکلیف دینی چاہیے گو اس کا دل تو نہیں چاہتا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کا ایک بال بھی بیکا ہو مگر پردہ داری کے خیال سے اس کو کہنا ہی پڑا کہ ان کو درے وغیرہ کی سخت سزا ملنی ضرور ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ عورت نے آپ اصرار کیا اور میں کسی طرح راضی نہ ہوا اور شہر کے سامنے الٹا مجھے بدنام کیا اور میرے لئے سزا کی بھی تجویز بتلائی تو آپ نے اپنی برأت کے لئے فقط ایک فقرہ جو بالکل صحیح تھا بیان کیا کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اس نے خود خواہش ظاہر کی اور اس بات کی طالب ہوئی اور میرے بھاگنے پر یہ بھی میرے پیچھے لگی ہوئی چلی آئی میرا کرتہ اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے پھاڑ لیا۔ اپنی بےقصوری جتلانے اور زلیخا کے الزام سے بچنے کو زلیخا کی خواہش کا سچا حال یوسف (علیہ السلام) نے جو ظاہر کیا یہ غنیمت میں داخل نہیں ہے کیونکہ کسی شخص کے ضرر سے بچنے کے لئے اس کا اصل حال بیان کیا جاوے تو اس کو غیبت نہیں کہتے۔ چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شریر شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ملنے آیا تو آپ نے لوگوں کے سامنے اس کی شرارت کا حال اس لئے بیان فرمادیا کہ لوگ اس کو شریر جان کر اس کی شرارت سے بچیں۔ ١ ؎ اسی طرح فاسق کے فسق ظاہر کے ظلم اور بدعتی کی بدعت سے بچنے کے لئے ایسے لوگوں کا حال انجان شخص پر ظاہر کردینا داخل غیبت نہیں ہے۔ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو فرشتے پکار کر یہ کہا کرتے ہیں کہ مرد عورتوں کے حق میں اور عورتیں مردوں کے حق میں ایک وبال ہیں۔ ٢ ؎ یہ حدیث آیت کے ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ زلیخا یوسف (علیہ السلام) کے حق میں ایک وبال ہوگئی حاکم نے اس حدیث کو صحیح ٣ ؎ کہا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٨٩٤ ج ٢ باب مایجوز سن اغتیاب اہل القساد و الریب۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٣٨ ج ٢ کتاب النکاح۔ ٣ ؎ ایضا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:25) واستبقا۔ استبق یستبق استباق (افتعال) سبق مادہ سے ماضی ۔ تثنیہ مذکر غائب۔ وہ دونوں دوڑے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر سبقت کی۔ استباق کے معنی ایک کا دوسرے پر سبقت لیجانا۔ قدت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ اس عورت نے پھاڑ دیا۔ قمیصہ۔ اس مرد کی قمیض کو۔ یعنی زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کی قمیض پھاڑ دی۔ قدد مادہ ۔ من دبر۔ پیچھے سے۔ دبر پیٹھ ۔ پشت۔ الفیا۔ ماضی ۔ تثنیہ مذکر غائب۔ انہوں نے پایا۔ الفاء (افعال) سے۔ لفی مادہ۔ القیت وجدت۔ کسی چیز کو پالینا۔ بل نتبع ما الفینا علیہ اباء نا (2:170) ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داد کو پایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ علما نے لکھا ہے کہ اس جملہ کا تعلق لقد ھمت الخ کے ساتھ ہے اور ” کذلک ‘ درمیان میں جملہ معترضہ ہے جو حضرت یوسف کی نزاہت کو ثابت کرنے کیلئے لایا گیا ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت نے زنا کا عزم کیا مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے انکار کیا چناچہ اسی کشمکش میں وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے۔ آگے حضرت یوسف ( علیہ السلام) اور پیچھے عزیز کی بیوی، حضرت یوسف ( علیہ السلام) اس لئے کہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیز کی بیوی دوڑی کہ انہیں دروازہ کھول کر بھاگنے نہ دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بےحیائی سے بچتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی عفت و عصمت بچاتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے۔ ان کو پکڑنے کے لیے عزیز مصر کی بیوی پیچھے بھاگتی ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) دوڑتے ہوئے دروازے تک پہنچ گئے۔ پیچھے سے عزیز مصر کی بیوی نے ان کیقمیص کھینچی۔ اس حالت میں حضرت یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوئے جونہی دروازہ کھلا۔ دونوں نے عزیز مصر کو دروازے کے سامنے پایا۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر عورت نے اپنی کرتوت کو یوسف (علیہ السلام) کے ذمہ لگاتے ہوئے اپنے خاوند سے مطالبہ کیا کہ اس مجرم کی کیا سزا ہونی چاہیے ؟ جس نے آپ کی اہلیہ کے ساتھ برا ارادہ کیا ہو۔ ہاں اس کی سزا تو جیل بھیجنا یا اس سے بھی سخت ترین سزا ہونی چاہیے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) فوراً فرماتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ اس عورت نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ عورت کے خاندان میں ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے۔ تو عورت سچی اور یوسف جھوٹا ہے۔ اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی اور یوسف سچ کہتا ہے۔ جب یوسف (علیہ السلام) کی قمیص دیکھی گئی تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔ جس پر عزیز مصر نے کہا یہ عورتوں کی ایک چال اور مکرو فریب ہے۔ بلاشبہ تمہارا مکرو فریب بڑا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بڑی عاجزی سے کہا جو ہونا تھا ہوگیا۔ اس بات کو آگے بڑھانے کے بجائے جانے دیجیے پھر اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تجھے اپنے گناہ کی معافی مانگنی چاہیے۔ یقیناً تو ہی خطاکار ہے۔ اس موقعہ پر عزیز مصر نے انتہائی دانش مندی اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی۔ تاکہ مزیدبدنامی سے بچا جاسکے۔ مگر معاملہ تین کے بجائے چوتھے آدمی تک پہنچ چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کے محلات میں کئی نوکر اور خادمائیں ہوا کرتی ہیں۔ ان حالات میں بات کا پھیلنا یقینی ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قاضی سلیمان منصور پوری سیشن جج آف ریاست پٹیالہ لکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار شخص تھا، اور اس نے جو طریق استدلال اختیار کیا۔ وہ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص بالکل عورت کی حمایت میں تھا۔ اگر ہم عورت کے اس بیان کو مروجہ قانون کے تحت لائیں تو یہ ایک استغاثہ اقدام زنا بالجبر کا تھا۔ استغاثہ کی صداقت خود مستغیثہ کے بیان اور حالت سے ہونی چاہیے تھی۔ جس میں عورت کے لباس اور جسم کو دیکھا جاتا۔ تشدد کے نشانات تلاش کیے جاتے ہیں۔ لیکن رائے دہندہ چونکہ عورت کے گھرانے کا تھا۔ اس لیے اس نے تحقیقات کا یہ حقیقی پہلو اختیار ہی نہیں کیا۔ بلکہ عورت کے خالی خولی بیان کو مان کر حضرت یوسف (علیہ السلام) پر صفائی کا بار ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کی عفت و عصمت کو واضح کرنا تھا۔ ورنہ طریقہ تحقیقات خالی از تعصب ہرگز نہ تھا۔ اب قانون کی دوسری بات سمجھو کہ اس شاہد نے دریافت اصلیت کے لیے ایک قرینہ کو اختیار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہی امر سکھلانے کے لیے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ جب شہادت واقعہ موجود نہ ہو تب قرائن کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور فقدان شہادت اصلیہ کے وقت قرائن صحیحہ اور قیاسات قریبہ بھی شہادات کا کام دے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے عمر فاروق اور علی مرتضیٰ (رض) کے فیصلہ جات کو پڑھا ہے۔ جن لوگوں کی نظر قاضی کعب بن سرازدی اور قاضی شریح بن الحارث کندی اور قاضی ایاس بن معاویہ مزنی اور فقیہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے فیصلہ جات تک پہنچی ہے وہ جانتے ہیں کہ آئمۂ اسلام نے کس عمدگی سے اس اصول کا استعمال کیا ہے اور وہ فراست صادقہ کی شمولیت سے حقیقت اصلیہ کا انکشاف عمدگی سے کیا کرتے تھے۔ (سیرت رحمت اللعلمین) مسائل ١۔ برائی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مکر کا مفہوم : ١۔ بیشک یہ تیری تدبیر ہے عورتوں کا مکر بہت بڑا ہوتا ہے۔ (یوسف : ٢٨) ٢۔ بیشک یہ مکر ہے جو تم نے شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لیے کیا ہے۔ (الاعراف : ١٢٣) ٣۔ اللہ نے اسے ان کی خفیہ تدبیروں سے محفوظ رکھا۔ (المومن : ٤٥) ٤۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی تدبیر کی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال : ٣٠) ٥۔ ان کے مکر کا انجام دیکھو ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ : " آخر کار یوسف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے " حضرت یوسف نے اپنے آپ کو اس کے چنگل سے آزاد کرنے کے لیے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور یہ عورت بھی ان کے پیچھے بھاگی تاکہ ان کو پکڑے کیونکہ یہ ابھی تک جنسی ہیجان میں تھی۔ وَقَدَّتْ قَمِيْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ : " اور اس نے پیچھے سے یوسف کی قمیص پھاڑ دی " اس کے کھینچنے کی وجہ سے قمیص پھٹ گئی کیونکہ اس کی کوشش یہ تھی کہ دروازے سے اسے واپس لے جائے۔ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الْبَابِ : " دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا " یہاں یہ عورت اب مکمل طور پر بالغ نظری کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ صورت حالات ایسی ہے کہ اس میں کسی بھی فریق پر شک کیا جاسکتا ہے ، اس عورت کا جواب حاضر ہے ، یہ کہ وہ فوراً نوجوان پر الزام لگا دیتی ہے۔ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْۗءًا : عورت کہنے لگی : " کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے ؟۔ لیکن اس کو چونکہ حضرت یوسف سے محبت بھی تھی اور اسے ڈر تھا کہ کہیں اسے قتل ہی نہ کردیا جائے اس لیے خود ہی ہلکی سی سزا تجویز کردیتی ہے۔ اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے۔۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) فورا اس الزم کی تردید کرتے ہیں کہ خود اس عورت نے انہیں ورغلانے کی کوشش کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ ) ۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے برے مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہا تو وہ دروازے کی طرف دوڑ پڑے پیچھے سے عورت بھی دوڑی۔ بالآخر اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کرتہ کا پچھلا دامن پکڑ لیا چونکہ بھاگتے ہوئے آدمی کا دامن پکڑا تھا اس لئے کرتہ پھٹ گیا۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ قد یقد اکثر لمباؤ میں پھاڑ دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی لئے ہم نے چیر نے کا ترجمہ کیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) دروازے کی طرف بڑھے تو دروازہ بند پایا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوئی ‘ دروازے کھلتے چلے گئے اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص گناہ میں مبتلا کرنے کے لیے مجبور کیا جائے تو جہاں تک ممکن ہو اپنی کوشش و طاقت کے بقدر اس سے بچے جب سچ مچ اس سے بچنے کا عزم کرے گا اور اپنی ہمت اور قدرت کے بقدر کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انشاء اللہ ضرور مدد کی جائے گی۔ بعض مفسرین نے ایسا ہی لکھا ہے اور بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ دروازے مختلف جہات میں تھے اس عورت نے بند تو سبھی کو کردیا تھا لیکن کسی ایک دروازے میں کوئی ایسی کھڑکی تھی جس کے بارے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دھیان ہوا کہ میں اس سے نکل سکتا ہوں بہر حال انہوں نے گناہ سے بچنے کی انتہائی کوشش کی اور اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی دی۔ آگے پیچھے دوڑتے ہوئے جب دروازے پر پہنچے تو ادھر سے مذکورہ عورت کا شوہر آ رہا تھا اس سے مڈ بھیڑ ہوگئی عورتوں کی چالیں تو مشہور ہی ہیں ظاہری خفت مٹانے کے لیے اور اپنے کو بےقصور ثابت کرنے کے لیے عورت بول پڑی کہ اس نے مجھ پر بد نیتی سے مجرمانہ حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے اس کو سزا دی جانی ضروری ہے سزا بھی اس نے خود ہی تجویز کردی کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے یا اس کو سخت سزا دی جائے ‘ سیدنا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی اپنی صفائی پیش کرنا ضروری سمجھا اور فرمایا (ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَفْسِیْْ ) کہ اس نے مجھے پھسلایا اور غلط کام کرنے کا ارادہ کیا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص تہمت لگائے تو اس کا دفاع کرنا شان بزرگی کے خلاف نہیں ہے بلکہ دفاع کرنا ضروری ہے کیونکہ مجرم بن کر رہنا مومن کی شان نہیں ہے اپنا دفاع کرتے ہوئے صحیح صورت بیان کرنے میں اگر تہمت لگانے والے کی طرف تہمت کا انتساب کرنا پڑے تو یہ بھی جائز ہے) ۔ صورت حال دیکھ کر عزیز مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو مجرم قرار نہیں دیا وہ ان کی نیک نفسی اور صالحیت سے واقف تھا وہ برسوں سے اس کے گھر میں رہتے تھے اس کے پیش نظر جو ان کے احوال دیکھے تھے ان کو سامنے رکھتے ہوئے کسی طرح بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ان کو مجرم سمجھے اور اپنی بیوی کی تصدیق کرے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے جو یہ فرمایا کہ اس عورت نے ہی مجھ سے اپنی خواہش ظاہر کی اس کے پیش نظر عورت ہی کو اول وہلہ میں مجرم سمجھنا چاہئے تھا اور ممکن ہے کہ اس نے مجرم سمجھ بھی لیا ہو لیکن وہ خاموشی اختیار کر گیا ‘ البتہ غیب سے ایک گواہ نکل آیا اور وہ اسی عورت کے خاندان میں سے تھا یہ گواہ ایک بچہ تھا وہ بچہ بول پڑا اور اس نے یوں کہا کہ یوسف کے کرتہ کو دیکھو آگے سے پھاڑا گیا ہے یا پیچھے سے ؟ اگر پیچھے سے پھاڑا گیا ہے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ عورت اپنے اس دعوے میں جھوٹی ہے کہ یوسف نے مجھ پر حملہ کیا ہے اور یوسف سچے ہیں ‘ اور اگر ان کا کرتہ آگے سے پھاڑا گیا ہے تو سمجھ لیا جائے کہ عورت سچی ہے اور یہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے ‘ عزیز مصر کو تو اصل صورت حال سمجھنے کی ضرورت ہی تھی اس نے فوراً حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کرتے پر نظر ڈالی دیکھا تو کرتہ پیچھے سے پھاڑا گیا ہے بس اس کی سمجھ میں آگیا اور فوراً اس کے منہ سے یہ بات نکلی کہ یہ عورتوں والی مکاری ہے۔ کریں خود اور نام رکھیں دوسرے کا ‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی عورت کو جھٹلا دیا اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی تصدیق کردی ‘ گواہی دینے والے نے جو یوں کہا تھا کہ کرتہ دیکھا جائے اس کا مطلب یہ تھا کہ جب عورت نے اپنی خواہش ظاہر کی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی جان گناہ سے بچانے کی کوشش کی اور راہ فرار اختیار فرمائی اور عورت نے ان کے کرتہ کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا تبھی تو کرتہ پھٹا اس کے پھٹنے کا ظاہری سبب اور کوئی نہ تھا ‘ یہ جو سوال ذہن میں آتا ہے کہ وہاں تو ایک ہی عورت تھی جمع کی ضمیر کیوں لائی گئی اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں عورتوں کا مزاج اور طبیعت اور خاصیت کی طرف اشارہ ہے اکیلی یہی عورت مکر اور فریب والی نہیں عموماً عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں اسی لئے آخیر میں یوں کہا (اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ) (بلاشبہ تمہارا مکر بڑا ہے) اردو کے محاورہ میں اس مکر کو عورتوں کے چھل اور چالوں سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کے بڑے بڑے چھل ہوتے ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ رسول اللہ ( علیہ السلام) نے ایک مرتبہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ما رایت اذھب للب الرجل الحازم من احدا کن (ہوشمند آدمی کی عقل کو ختم کرنے میں میں نے تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا) (رواہ البخاری ص ١٩٧ ج ١) اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ما ترکت بعدی فتنۃ ھی اضر علی الرجال من النساء کہ میں نے اپنے بعد عورتوں سے بڑھ کر کوئی ایسا فتنہ نہیں چھوڑا جو ضرر دینے میں عورتوں سے بڑھ کر ہو (رواہ البخاری و مسلم کما فی المشکوٰۃ ص ٢٦٧) اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فاتقوا الدنیا واتقوا النساء فان اول فتنۃ بنی اسرائیل کانت فی النساء کہ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو (یعنی ان دونوں کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ان کے فریب میں نہ آجانا) کیونکہ بنی اسرائیل کا جو سب سے پہلا فتنہ تھا اس کی ابتداء عورتوں ہی سے تھی۔ (رواہ مسلم ص ٣٥٣ ج ٢) اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا النساء حبائل الشیطان ( کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٤) شیطان ان کے ذریعے بہکاتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اور گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔ جس گواہ نے گواہی دی اس نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ عورت نے یوں کیا بلکہ اس نے ایک ایسی بات کہہ دی جو عورت کے مجرم ہونے پر دلالت کرتی تھی یعنی کرتے کا پھٹا ہونا اس کو گواہی سے تعبیر فرمایا قال صاحب الروح وسمی شاھدا لانہ ادی تادیتہ فی ان ثبت بکلامہ قول یوسف وبطل قولھا وقیل سمی بذلک من حیث دل علی الشاھد وھو تخریق القمیص۔ یہ گواہی دینے والا کون تھا اس کے بارے میں مستدرک حاکم میں ایک حدیث ہے پہلے تو صاحب مستدرک نے ایک قصہ بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ جس رات کو مجھے معراج کرائی گئی تو مجھے ایک خوشبو محسوس ہوئی میں نے دریافت کیا کہ یہ کیسی خوشبو ہے بتانے والوں نے (یعنی فرشتوں) نے بتایا کہ جو عورت فرعون کی بیٹی اور اس کی اولاد کی کنگھی کیا کرتی تھی یہ اس کی خوشبو ہے ‘ ایک دن کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کنگھی گرگئی اس پر اس نے بسم اللہ کہا فرعون کی بیٹی نے کہا یہ تو نے کس کا نام لیا ‘ کیا تو نے میرے باپ کا نام نہیں لیا اس نے کہا میں نے اس کا نام لیا ہے جو میرا بھی رب ہے اور تیرا بھی رب ہے اور تیرے باپ کا بھی رب ہے کہنے لگی کہ میں یہ بات اپنے باپ کو بتادوں گی اس عورت نے کہا ہاں بتادینا فرعون کی بیٹی نے اپنے باپ کو یہ بات بتادی ‘ اس پر فرعون نے اس عورت کو اور اس کے بچوں کو بلایا تاکہ انہیں قتل کر دے ‘ اس عورت نے فرعون سے کہا کہ میری ایک حاجت ہے وہ پوری کردینا ‘ فرعون نے کہا وہ کیا حاجت ہے ؟ اس عورت نے کہا کہ میری اور میرے بچوں کی ہڈیوں کو دفن کردینا فرعون نے اس کا اقرار کرلیا پھر اس کے بچوں کو لایا گیا اور ایک ایک کر کے قتل کر کے گڑھے یا آگ میں ڈالا جاتا رہا، یہاں تک کہ جب آخری بچہ رہ گیا جو چھوٹا دودھ پیتا بچہ تھا تو اس نے کہا کہ اے میری ماں صبر کیجئے کیونکہ آپ حق پر ہیں اس کے بعد اس عورت کو اس چھوٹے بچے کے ساتھ ڈال دیا گیا ‘ یہ بیان فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار چھوٹے بچے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے چھوٹے ہونے کے زمانہ میں بات کی ہے ‘ ان میں سے ایک تو یہی بچہ تھا یعنی کنگھی کرنے والی کا بچہ ‘ دوسرا یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں گواہی دینے والا، تیسرے جریج (راہب کی براءت ظاہر کرنے) والا چوتھے عیسیٰ ابن مریم (قال الحاکم ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ و وافقہ الذھبی مستدرک حاکم ص ٤٩٦۔ ج ٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حق میں گواہی دی تھی وہ ایک چھوٹا بچہ تھا جو بولنے کی عمر کو نہیں پہنچا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بولنے کی قوت دی اور اس نے گواہی دے دی جو آیت شریفہ میں مذکور ہے اس گواہی دینے والے کے بارے میں من اھلھا بھی فرمایا ہے کہ یہ گواہ اس عورت کے خاندان سے تھا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ‘ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اس عورت کی خالہ کا بیٹا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے چچا کا بیٹا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 جب ذلیخا اپنے اصرار سے باز نہ آئی حضرت یوسف (علیہ السلام) دروازے کی طرف بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے بھاگی اور اس عورت نے یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ کھینچے میں پیچھے سے پھاڑ ڈالا اور دونوں نے دروازے کے پاس اس عورت کے خاوند کو پایا عورت نے خاوند کو دیکھتے ہی کہا جو تیری بیوی سے بدکاری کا ارادہ کرے اس کی سزا سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ قید کیا جائے اور جیل خانہ بھیجا جائے یا اس کو اور کوئی درد ناک سزا دی جائے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) گناہ سے بچنے کو بھاگے اور ذلیخا ان کو پکڑنے کو بھاگی بھاگتے میں پیچھے سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے کھینچا اور کھینچتے ہوئے کرتہ کو چیر ڈالا اور پھاڑ دیا۔ غرض ! آخری دروازے تک دونوں پہونچ گئے اور اتفاقاً دونوں کو دروازے پر عزیر مصر مل گیا عورت نے عزیر کو دیکھتے ہی فوراً یہ بات گھڑ دی اور جرم کو یوسف (علیہ السلام) پر ڈال دیا اور اپنا الزام ان کے گلے منڈھ دیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف دوڑے نکل جانے کو اور وہ دوڑی پکڑنے کو