Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 43

سورة يوسف

وَ قَالَ الۡمَلِکُ اِنِّیۡۤ اَرٰی سَبۡعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ ؕ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡ رُءۡیَایَ اِنۡ کُنۡتُمۡ لِلرُّءۡیَا تَعۡبُرُوۡنَ ﴿۴۳﴾

And [subsequently] the king said, "Indeed, I have seen [in a dream] seven fat cows being eaten by seven [that were] lean, and seven green spikes [of grain] and others [that were] dry. O eminent ones, explain to me my vision, if you should interpret visions."

بادشاہ نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے سات موٹی تازی فربہ گا ئیں ہیں جن کو سات لاغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک ۔ اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Dream of the King of Egypt Allah tells: وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَا أَيُّهَا الْمَلُ أَفْتُونِي فِي رُوْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّوْيَا تَعْبُرُونَ And the king (of Egypt) said: "Verily, I saw (in a dream) seven fat cows, whom seven lean ones were devouring, and seven green ears of corn, and (seven) others dry. O notables! Explain to me my dream, if it be that you can interpret dreams." The King of Egypt had a dream that Allah the Exalted made a reason for Yusuf's release from prison, with his honor and reputation preserved. When the king had this dream, he was astonished and fearful and sought its interpretation. He gathered the priests, the chiefs of his state and the princes and told them what he had seen in a dream, asking them to interpret it for him. They did not know its interpretation and as an excuse, they said,

شاہ مصر کا خواب اور تلاش تعبیر میں یوسف علیہ السلام تک رسائی قدرت الٰہی نے یہ مقرر رکھا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے سے بعزت و اکرام پاکیزگی برات اور عصمت کے ساتھ نکلیں ۔ اس کے لیے قدرت نے یہ سبب بنایا کہ شاہ مصر نے ایک خواب دیکھا جس سے بھونچکا سا ہو گیا ۔ دربار منعقد کیا اور تمام امراء ، رؤسا ، کاہن ، منجم اور علماء کو خواب کی تعبیر بیان کرنے والوں کو جمع کیا ۔ اور اپنا خواب بیان کر کے ان سب سے تعبیر دریافت کی ۔ لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔ اور سب نے لاچار ہو کر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ کوئی باقاعدہ لائق تعبیر سچا خواب نہیں جس کی تعبیر ہو سکے ۔ یہ تو یونہی پریشان خواب مخلوط خیالات اور فضول توہمات کا خاکہ ہے ۔ اس کی تعبیر ہم نہیں جانتے ۔ اس وقت شاہی ساقی کو حضرت یوسف علیہ السلام یاد آگئے کہ وہ تعبیر خواب کے پورے ماہر ہیں ۔ اس علم میں ان کو کافی مہارت ہے ۔ یہ وہی شخص ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل خانہ بھگت رہا تھا یہ بھی اور اس کا ایک اور ساتھی بھی ۔ اسی سے حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا ۔ لیکن اسے شیطان نے بھلا دیا تھا ۔ آج مدت مدید کے بعد اسے یاد آگیا اور اس نے سب کے سامنے کہا کہ اگر آپ کو اس کی تعبیر سننے کا شوق ہے اور وہ بھی صحیح تعبیر تو مجھے اجازت دو ۔ یوسف صدیق علیہ السلام جو قید خانے میں ہیں ان کے پاس جاؤں اور ان سے دریافت کر آؤں ۔ آپ نے اسے منظور کیا اور اسے اللہ کے محترم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ۔ امتہ کی دوسری قرأت امتہ بھی ہے ۔ اس کے معنی بھول کے ہیں ۔ یعنی بھول جانے کے بعد اسے حضرت یوسف علیہ السلام کا فرمان یاد آیا ۔ دربار سے اجازت لے کر یہ چلا ۔ قید خانے پہنچ کر اللہ کے نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی علیہ السلام سے کہا کہ اے نرے سچے یوسف علیہ السلام بادشاہ نے اس طرح کا ایک خواب دیکھا ہے ۔ اسے تعبیر کا اشتیاق ہے ۔ تمام دربار بھرا ہوا ہے ۔ سب کی نگاہیں لگیں ہوئی ہیں ۔ آپ مجھے تعبیر بتلا دیں تو میں جا کر انہیں سناؤں اور سب معلوم کرلیں ۔ آپ نے نہ تو اسے کوئی ملامت کی کہ تو اب تک مجھے بھولے رہا ۔ باوجود میرے کہنے کے تونے آج تک بادشاہ سے میرا ذکر بھی نہ کیا ۔ نہ اس امر کی درخواست کی کہ مجھے جیل خانے سے آزاد کیا جائے بلکہ بغیر کسی تمنا کے اظہار کے بغیر کسی الزام دینے کے خواب کی پوری تعبیر سنا دی اور ساتھ ہی تدبیر بھی بتا دی ۔ فرمایا کہ سات فربہ گایوں سے مراد یہ ہے کہ سات سال تک برابر حاجت کے مطابق بارش برستی رہے گی ۔ خوب ترسالی ہوگی ۔ غلہ کھیت باغات خوب پھلیں گے ۔ یہی مراد سات ہری بالیوں سے ہے ۔ گائیں بیل ہی ہلوں میں جتتے ہیں ان سے زمین پر کھیتی کی جاتی ہے ۔ اب ترکیب بھی بتلا دی کہ ان سات برسوں میں جو اناج غلہ نکلے ۔ اسے بطور ذخیرے کے جمع کر لینا اور رکھنا بھی بالوں اور خوشوں سمیت تاکہ سڑے گلے نہیں خراب نہ ہو ۔ ہاں اپنی کھانے کی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لینا ۔ لیکن خیال رہے کہ ذرا سا بھی زیادہ نہ لیا جائے صرف حاجت کے مطابق ہی نکالا جائے ۔ ان سات برسوں کے گزرتے ہی اب جو قحط سالیاں شروع ہوں گی وہ برابر سات سال تک متواتر رہیں گی ۔ نہ بارش برسے گی نہ پیداوار ہوگی ۔ یہی مراد ہے سات دبلی گایوں اور سات خشک خوشوں سے ہے کہ ان سات برسوں میں وہ جمع شدہ ذخیرہ تم کھاتے پیتے رہو گے ۔ یاد رکھنا ان میں کوئی غلہ کھیتی نہ ہوگی ۔ وہ جمع کردہ ذخیرہ ہی کام آئے گا ۔ تم دانے بوؤ گے لیکن پیداوار کچھ بھی نہ ہوگی ۔ آپ نے خواب کی پوری تعبیر دے کر ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ ان سات خشک سالیوں کے بعد جو سال آئے گا وہ بڑی برکتوں والا ہوگا ۔ خوب بارشیں برسیں گی خوب غلے اور کھیتیاں ہوں گی ۔ ریل پیل ہو جائے گی اور تنگی دور ہو جائے گی اور لوگ حسب عادت زیتون وغیرہ کا تیل نکالیں گے اور حسب عادت انگور کا شیرہ نچوڑیں گے ۔ اور جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہو جائیں گے کہ خوب دودھ نکالیں پئیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] شاہ مصر کا خواب :۔ طویل مدت کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس رہا ہونے والے ساقی کو سیدنا یوسف کا پیغام یاد دلایا۔ واقعہ یہ ہوا کہ شاہ مصر کو ایک عجیب اور ڈراؤنا سا خواب آیا۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ سات دبلی گائیں ہیں جو اپنے سے بہت بھاری سات موٹی تازی گائیوں کا گوشت کھا رہی ہیں اور گوشت کھا کر انھیں ختم ہی کردیا ہے اور یہ سارا گوشت چٹ کر جانے کے بعد بھی وہ دبلی کی دبلی ہی ہیں۔ جیسے پہلے تھیں اور دوسرا منظر یہ دیکھا ہے کہ سات سوکھی بالیاں ہیں جو سات ہری بھری اور سرسبز بالیوں کے اوپر لپٹ گئی ہیں اور انھیں بھی سوکھا بنادیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ ۔۔ : مصر کے بادشاہ کا یہ خواب اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں یوسف (علیہ السلام) کی قید سے عزت و تکریم کے ساتھ رہائی کا سبب تھا، اس خواب نے شاہ مصر کو نہایت خوف زدہ اور پریشان کردیا، چناچہ اس نے اپنے علم تعبیر کے تمام ماہروں اور سب سرداروں کو جمع کرکے خواب سنایا اور تعبیر کی فرمائش کی۔ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر بھی فتویٰ کا حکم رکھتی ہے، جس طرح فتویٰ علم کے بغیر جائز نہیں، خواب کی تعبیر کا بھی اگر فی الواقع علم ہو تو بتانی چاہیے، ورنہ علم کے بغیر تعبیر کرنے والے اس حدیث کے مصداق ہوں گے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَرِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقَ عَالِمَا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوْسًا جُھَّالاً ، فَسُءِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَ أَضَلُّوْا ([ بخاری، العلم، باب کیف یقبض العلم : ١٠٠ ] ” اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح قبض نہیں کرے گا کہ اسے علماء کے سینے سے نکال لے، بلکہ علم کو علماء کے فوت کرلینے کے ساتھ قبض کرے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہل سردار بنالیں گے، پھر ان سے سوال کیے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے، سو خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ “ اس حدیث سے تک بندی اور اٹکل پچو سے تعبیر بتانے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اپنے درباریوں سے امید نہ تھی کہ وہ اس خواب کی تعبیر کرسکیں گے، اسی لیے کہا : ” اگر تم خواب کی تعبیر کیا کرتے ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور بادشاہ مصر نے (بھی ایک خواب دیکھا اور ارکان دولت کو جمع کر کے ان سے) کہا کہ میں (خواب میں کیا) دیکھتا ہوں کہ سات گائیں فربہ ہیں جن کو سات لاغر گائیں کھا گئیں اور سات بالیں سبز ہیں اور ان کے علاوہ سات اور ہیں جو کہ خشک ہیں (اور خشک بالوں نے اسی طرح ان سات سبز پر لپٹ کر ان کو خشک کردیا) اے دربار والو اگر تم (خواب کی) تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کے بارے میں مجھ کو جواب دو وہ لوگ کہنے لگے کہ (اول تو یہ کوئی خواب ہی نہیں جس سے آپ فکر میں پڑیں) یونہی پریشان خیالات ہیں اور (دوسرے) ہم لوگ (کہ امور سلطنت میں ماہر ہیں) خوابوں کی تعبیر کا علم بھی نہیں رکھتے (دو جواب اس لئے دیئے کہ اول جواب سے بادشاہ کے قلب سے پریشانی اور وسو اس دور کرنا ہے اور دوسرے جواب سے اپنا عذر ظاہر کرنا ہے خلاصہ یہ کہ اول تو ایسی خواب قابل تعبیر نہیں دوسرے ہم اس فن سے واقف نہیں) اور ان (مذکورہ) دو قیدیوں میں سے جو رہا ہوگیا تھا (وہ مجلس میں حاضر تھا) اس نے کہا اور مدت کے بعد اس کو (یوسف (علیہ السلام) کی وصیت کا) خیال آیا میں اس کی تعبیر کی خبر لائے دیتا ہوں، آپ لوگ مجھ کو ذرا جانے کی اجازت دیجئے (چنانچہ دربار سے اجازت ہوئی اور وہ قیدخانہ میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور جا کر کہا) اے یوسف اے صدق مجسم آپ ہم لوگوں کو اس (خواب) جواب (یعنی تعبیر) دیجئے کہ سات گائیں موٹی ہیں ان کو سات دبلی گائیں کھاگئیں اور سات بالیں ہری ہیں اور اس کے علاوہ (سات) خشک بھی ہیں (کہ ان خشک کے لپٹنے سے وہ ہری بھی خشک ہوگئیں آپ تعبیر بتلائیے) تاکہ میں (جنہوں نے مجھ کو بھیجا ہے) ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤں (اور بیان کروں) تاکہ (اس کی تعبیر اور اس سے آپ کا حال) ان کو بھی معلوم ہوجائے (تعبیر کے موافق عملدرآمد کریں اور آپ کی خلاصی کی کوئی صورت نکلے) آپ نے فرمایا کہ (ان سات فربہ گایوں اور سات سبز بالوں سے مراد پیداوار اور بارش کے سال ہیں پس) تم سات سال متواتر (خوب) غلہ بونا پھر جو فصل کاٹو اس کو بالوں ہی میں رہنے دینا (تاکہ گھن نہ لگ جاوے) ہاں مگر تھوڑا سا جو تمہارے کھانے میں آوے (وہ بالوں میں سے نکالا ہی جاوے گا) پھر اس (سات برس) کے بعد سات برس ایسے سخت (اور قحط کے) آویں گے جو کہ اس (تمام تر) ذخیرہ کو کھا جاویں گے جس کو تم نے ان برسوں واسطے جمع کر کے رکھا ہوگا ہاں مگر تھوڑا سا جو (بیج کے واسطے) رکھ چھوڑو گے (وہ البتہ بچ جاوے گا اور ان خشک بالوں اور دبلی گایوں سے اشارہ ان سات سال کی طرف ہے) پھر اس (سات برس) کے بعد ایک برس ایسا آوے گا جس میں لوگوں کے لئے خوب بارش ہوگی اور اس میں (بوجہ اس کے کہ انگور کثرت سے پھلیں گے) شیرہ بھی نچوڑیں گے (اور شرابیں پئیں گے غرض وہ شخص تعبیر لے کر دربار میں پہنچا) اور (جا کر بیان کیا) بادشاہ نے (جو سنا تو آپ کے علم وفضل کا معتقدہوا اور) حکم دیا کہ ان کو میرے پاس لاؤ (چنانچہ یہاں سے قاصد چلا) پھر جب ان کے پاس قاصد پہنچا (اور پیغام دیا تو) آپ نے فرمایا کہ (جب تک میرا اس تہمت سے بری ہونا ثابت نہ ہوجائے گا میں نہ آؤں گا) تو اپنی سرکار کے پاس لوٹ جا پھر اس سے دریافت کر کہ (کچھ تم کو خبر ہے) ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے (مطلب یہ تھا کہ ان کو بلا کر اس واقعہ کی جس میں مجھ کو قید کی گئی تفتیش و تحقیق کی جاوے اور عورتوں کے حال سے مراد ان کا واقف یا ناواقف ہونا ہے حال یوسف (علیہ السلام) سے اور ان عورتوں کی تخصیص شاید اس لئے کی ہو کہ ان کے سامنے زلیخا نے اقرار کیا تھا وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ میرا رب ان عورتوں کے فرقہ کے فریب کو خوب جانتا ہے (یعنی اللہ کو تو معلوم ہی ہے کہ زلیخا کا مجھ پر تہمت لگانا کید تھا مگر عند الناس بھی اس کی تنقیح ہوجانا مناسب ہے چناچہ بادشاہ نے ان عورتوں کو حاضر کیا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۝ ٠ۭ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ۝ ٤٣ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ بقر البَقَر واحدته بَقَرَة . قال اللہ تعالی: إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة/ 70] ويقال في جمعه : بَاقِر ( ب ق ر ) البقر ۔ ( اسم جنس ) کے معنی ( بیل یا ) گائے کے ہیں اس کا واحد بقرۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة/ 70] کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ۔ عجف قال تعالی: سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف/ 43] ، جمعُ أَعْجَفَ ، وعَجْفَاءَ ، أي : الدّقيق من الهُزال، ( ع ج ف ) عجف ( صفت ) کے معنی انتہائی لاغر اور دبلا کے ہیں اس کی مؤنث عجفاء ہے اور جمع عجاف قرآن میں ہے : ۔ سَبْعٌ عِجافٌ [يوسف/ 43] سات دبلی سُّنْبُلَةُ والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔ خضر قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر : قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة : المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر . ( خ ض ر ) قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں يبس يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین . ( ی ب س ) یبس ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ فَتْوَى والفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] ، أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل/ 32] . اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔ استفتاہ کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء/ 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات/ 11] تو ان سے پوچھو ۔۔۔ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي [ النمل/ 32] . میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ تَّعْبِيرُ : مختصّ بِتَعْبِيرِ الرّؤيا، وهو العَابِرُ من ظاهرها إلى باطنها، نحو : إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيا تَعْبُرُونَ [يوسف/ 43] ، وهو أخصّ من التّأوي اور تعبیر کے معنی ہیں خواب کا انجام بتانا گویا تاویل بتانے والا اس کے ظاہر سے باطن تک پہنچ جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيا تَعْبُرُونَ [يوسف/ 43] اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو ۔ اور تعبیر کا لفظ تاویل سے خاص ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) بادشاہ مصر نے بھی ایک خواب دیکھا اور وزراء وامراء کو جمع کرکے ان سے کہا کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سات تنومند گائیں نہر سے نکلیں اور ان کے بعد سات لاغر اور کمزور گائیں آئیں اور ان تنومند کو کھاگئیں اور ان پر کسی چیز کا ظہور نہیں ہوا اور اسی طرح سات بالیں سبز ہیں اور دوسری سات خشک ہیں جو ان کو کھاگئیں اور اس کا کچھ ظہور نہ ہوا جادوگرو اور نجومیو اور کاہنو میرے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم اس کی تعبیر جانتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ ( اب یہاں سے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اس وقت مصر پر فراعنہ کی حکومت نہیں تھی ‘ بلکہ وہاں چرواہے بادشاہ (Hyksos Kings) حکمران تھے۔ تاریخ میں اکثر ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کچھ صحرائی قبیلوں نے قوت حاصل کر کے متمدن علاقوں پر چڑھائی کی پھر یا تو وہ لوٹ مار کر کے واپس چلے گئے یا ان علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کے چرواہے بادشاہوں کی ہے جو صحرائی قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کسی زمانے میں مصر پر حملہ کیا اور مقامی لوگوں (قبطی قوم) کو غلام بنا کر وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہاں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ اسی خاندان سے تھا۔ اس بادشاہ کے کردار اور رویے کی جو جھلک اس قصے میں دکھائی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ توحید و رسالت سے نا بلد تھا مگر ایک نیک سرشت انسان تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. Leaving the account of the events of the intervening years of imprisonment, the story has been resumed from the time when Prophet Joseph began to rise in worldly rank. 37. According to the Bible and the Talmud, the king was greatly disturbed, troubled and confused because of these dreams. So he proclaimed throughout the entire land of Egypt, and called upon all the wise men, and the soothsayers, and magicians of the land to interpret his dreams.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :36 بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف علیہ السلام کے دنیوی عروج شروع ہوا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :37 بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہو گیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں ، کاہنوں ، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٣۔ دنیا عالم اسباب ہے ہر مقصد کے پورا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی سبب دنیا میں پیدا کیا ہے مگر یہ بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس سبب سے کون سا مقصد پورا ہوگا۔ ساقی اور نان بائی کے خواب کی تعبیر جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بتلائی تھی تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ شاید ساقی کا قید سے چھوٹنا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بھی رہائی کا سبب قرار پاوے گا اس لئے ساقی سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ جب تو قید خانہ سے چھوٹ کر بادشاہ کے پاس جاوے تو میرا ذکر بھی بادشاہ سے کی جو لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں ساقی کا قید سے چھوٹنا اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا پورا سبب قرار نہیں پایا تھا بلکہ سات برس کے بعد مصر کے بادشاہ کا خواب اور اس ساقی کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حال بادشاہ سے بیان کرنا یہ سب باتیں مل کر علم الٰہی میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا سبب قرار پائی تھیں جب علم الٰہی کے موافق جو سبب تھا اس کا وقت آگیا تو ریان بن ولید بادشاہ مصر نے یہ خواب دیکھا جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور اس خواب سے وہ ڈر گیا اور اپنے شہر کے جادوگروں اور کاہنوں اور عقلمندوں سب سے اس خواب کی تعبیر پوچھی اور وہ سب اس خواب کی تعبیر بتلانے سے عاجز آگئے اسی چرچے سے سات برس کی بھولی ہوئی بات ساقی کو یاد آئی اور اس نے بادشاہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر کیا اور جیل خانہ میں آن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بادشاہ کا خواب بیان کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس خواب کی تعبیر ایسی بتلائی کہ بادشاہ اور سب اہل مصر دنگ ہوگئے غرض اس مسبب الاسباب کو جب کوئی کام منظور ہوتا ہے تو اسی طرح غیب سے سبب کھڑے ہوجاتے ہیں نہیں تو بنتے ہوئے سبب بگڑ جاتے ہیں۔ بادشاہ کے خواب کی تاریخ سے سات برس کے بعد سات برس کا قحط پڑنے کو تھا اس لئے سات موٹی گائیں اور ہری بالیں خواب کے بعد کی اچھی پیداوار کے سات سال میں اور دبلی گائیں اور سوکھی بالیں قحط کے سات سال ہیں اور خواب کا حاصل یہ ہے کہ قحط کے سات برس میں کوئی چیز پیدا نہ ہوگی بلکہ اچھی پیداوار کے سات برس میں جو کچھ پیدا ہوا تھا وہ سب سات برس کے قحط میں صرف ہوجاوے گا۔ انی اری کا مطلب یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کڑے ڈال دئیے گئے تھے جس کی تاویل آپ نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کذاب کی فرمائی۔ ١ ؎ مرد کو سونے کے کڑوں کا استعمال جس طرح بےمحل ہے اسی طرح جھوٹے شخص کی باتیں بھی بےمحل ہوتی ہیں اس مناسبت کے سبب سے دو جھوٹے شخصوں کی مثال خواب میں سونے کے دو کڑوں سے سمجھائی گئی اسی طرح کی مناسبت بادشاہ مصر کے اس خواب میں ہے کہ مو ٹی گائیں اور ہری بالیں اچھی پیداوار کے زمانہ کی مثال ہے اور دبلی گائیں اور سوکھی بالیں قحط کے زمانے کی مثال ہے۔ خواب کی تعبیر کے وقت اس مناسبت کو سمجھنا ضروری ہے اس لئے ناسمجھ آدمی کے روبرو خواب کا بیان کرنا منع ہے چناچہ ترمذی میں ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خواب سمجھ دار اور خیر خواہ شخص سے بیان کیا جاوے سوائے ایسے شخص کے اور کسی سے نہ بیان کیا جاوے۔ ٢ ؎ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٩٥ کتاب الرؤیا ٢ ؎ جامع ترمذی ص ٥٢ ج ٢ باب ماجاء فی تفسیر الرؤیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:43) سمان۔ موٹی۔ سمین کی جمع جو بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہو۔ السمن کے معنی موٹاپا کے ہیں۔ اور یہ ھزال کی ضد ہے۔ قرآن مجید میں ہے لایسمن ولا یغنی من جوع (88:7) جو نہ فربہی لائے اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے۔ عجاف۔ لاغر۔ دبلی۔ اعجف کے معنی انتہائی لاغر اور دبلا کے ہیں۔ اس کی مؤنث عجفاء ہے اور جمع عجاف یہ جمع خلاف قیاس ہے کیونکہ افعل فعلاء فعل کے وزن پر اس کی جمع عجف چاہیے تھی۔ دراصل یہ نصل اعجب سے مشتق ہے جس کے معنی پتلے اور باریک تیر کے ہیں اعجف الرجل اس کے مویشی دبلے ہوگئے۔ سنبلت۔ بالیں۔ خوشے۔ سنبلۃ کی جمع۔ خضر۔ سبز۔ ہرے۔ اخضر خضراء خضر کے وزن پر جمع کا صیغہ ہے۔ یبست۔ اسم فاعل جمع مؤنث یابسۃ کی جمع یبس مصدر (باب سمع) سوکھی ہوئی ۔ جو سبز اور تروتازہ نہ ہو۔ افتونی۔ مجھے جواب دو ۔ مجھ کو بتاؤ۔ افتوا۔ اسفتاء سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم۔ (ملاحظہ ہو 12:41 تعبرون۔ اگر تم تعبیر بیان کرتے ہو۔ عبارۃ سے جس کے معنی تعبیر بیان کرنے کے ہیں۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ (باب نصر)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ اور سوکھی بالیوں نے ہری بالیوں پر لپٹ کر انہیں اپنے اندر چھپالیا۔ یہ خواب بادشاہ نے کئی برس کے بعد دیکھا اور یہی حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی رہائی کا سبب بنا (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٣ تا ٤٩ اسرار و معارف اللہ کریم کا اپنا نظام ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کوشش فرمائی تو ساقی کو شیطن نے بات ہی بھلادی مگر جب رہائی کا وقت آیا تو اللہ کریم کی طرف سے غیبی سامان ہونے لگا کہ شاہ مصرنے ایک عجیب خواب دیکھا اور صبح دم بہت گھبرایا ہوا اٹھا درباری علماء یا بخومی وکاہن جمع کئے اور کہنے لگا کہ میں نے خواب میں سات موٹے بیل دیکھے جنہیں دوسرے سات کمزور اور دبلے پتلے بیل کھا رہے تھے اور سات سرسبز بالیں دیکھی ہیں جن کے ساتھ دوسری سات خشک تھیں اس کی تعبیر بتائی جائے۔ وہ سب بھی حیران ہوگئے بات کسی کے پلے نہ پڑی اور کہہ دیا کہ حضور ! یہ محض پریشان خیالی ہے آپ اسے بھول جائیے ۔ یہ ایسی بات نہیں جس کی کوئی بھی تعبیر ہو محض خیالات کی آمیزش ہے۔ مگر بات بادشاہ کے دل سے اترنہ رہی تھی ۔ اسی مجلس میں وہ شاہی ساقی بھی تھا جسے ایک مدت بعد فورا یاد آیا کہ میں نے جن سے تعبیرلی تھی یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) وہ کس قدر سچے اور معاملہ فہم تھے اور جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا ویسا ہی بعد میں ظہور پذیر ہوا۔ فورا پکار اٹھا حضور ! مجھے اجازت دیجئے جیل میں ایک جوان رعنا ہے جو بلاقصور قید میں پڑا ہے بہت ہی حسین صورت اور بہت ہی خوبصورت سیرت کا مالک ہے ، بات کا کھرا اور علم کا خزانہ ہے آپ کے خواب کی تعبیر میں ان سے پوچھ کے آتا ہوں ۔ چناچہ بادشاہ نے اہتمام کردیا اور وہی آدمی ایک مدت کے بعد پھر آپ کے سامنے تھا۔ کہنے لگا اے صدق مجسم ! مجھ سے قصورہوا۔ آپ کی بات یادنہ رکھ سکا لیکن آپ کا ارشاد لفظ بلفظ سچ تھا ۔ اب پھر تعبیر کی ضرورت پیش آگئی ہے کہ بادشاہ نے خواب دیکھا ہے اور وہ تعبیر جاننے کا خواہشمند ہے مگر کسی کو اس کی سمجھ ہی نہیں آرہی مفسرین کے مطابق خواب میں بعض اوقات حالات وواقعات کی مثالی صورتیں نظرآتی ہیں جیسے میدان حشر میں ہر کردار کی ایک صورت ہوگی ۔ ویسے ہی عالم مثال میں ایک صورت مثالی ہوتی ہے ۔ تعبیر میں ذات کے اعتبار سے فرق اور تعبیردینے کے لئے اس کا جاننا بھی شرط ہے۔ پھر افراد اور ذوات کے اعتبار سے بھی تعبیر میں فرق کا آجانا بڑی بات نہیں جیسے علامہ ابن سیرین (رح) جو فن تعبیر کے امام تھے نے ایک آدمی کو اس کے خواب کی تعبیر یہ دی کہ تم بہت شہرت پاؤ گے اور تمہیں عہدہ بھی ملے گا اس کا خواب یہ تھا کہ وہ خواب میں اذان کہہ رہا ہے کسی دوسرے آدمی نے یہی خواب بیان کیا تو فرمایا تمہاری رسوائی کا وقت آپہنچا بدنامی بھی ہوگی اور سزا بھی پاؤگے تو اہل مجلس میں سے کسی نے الگ سے پوچھا کہ حضرت ! پہلے شخص کا خواب یہی تھا آپ نے دوسری تعبیر دی اور اسے کچھ اور طرح کی بات بتائی ہے ۔ فرمانے لگے یہ فرق ان کی ذوات کے باعث ہے ورنہ اذان کی تعبیر تو یہ ہے کہ جو کچھ اس کے اندر ہے وہ ظاہر ہوگا تو پہلا صاحب علم اور صاحب کردار ہے جب اس کے کمالات ظاہر ہوں گے تو یقینا عہدہ بھی پائے گا اور ناموری بی یہ دوسراڈاکو ہے جب اس کا بھید کھلے گا تو انجام ظاہر ہے ۔ تعبیر تو صرف یہ ہے کہ اس کا بھید ظاہر ہوگا ، نتائج اس کے اپنے کردار کے مطابق ہوں گے۔ لہٰذاعام آدمی کا خواب اور بادشاہ کا خواب خواہ ایک سا بھی ہوتعبیر تو اپنی اپنی ہوگی ۔ اہل کا کام ہے کہ لوگوں کو انکی بھلائی کی تجویز بھی دیں چنانچہ خواب سن کر آپ نے نہ صرف تعبیر دی بلکہ ایک بہت خوبصورت تجویز بھی ارشاد فرمائی کہ سات فربہ بیلوں سے مراد سات ایسے سال ہیں جن میں خوب غلبہ آئے گا اور یہی سات سرسبز بالیں بھی ظاہر کرتی ہیں کہ بیل اور غلہ کا تعلق ظاہر ہے پھر سات دبلے پتلے بیل قحط کے سات سالوں کی دلیل ہیں اور یہی خشک خوشوں سے مراد ہے ان کا ان موٹے بیلوں کا کھانا ظاہر کرتا ہے کہ جس قدرغلہ وغیرہ ان پہلے سالوں میں ہوگا وہ ان قحط کے برسوں میں کھایا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے ایک عجیب نکتہ ارشاد فرمایا کہ بادشاہ سے کہو پہلے سات برسوں میں خوب محنت کروائے اور غلے کا ذخیرہ کرے مگر یوں تو غلے کو کیڑہ لگ جائے گا ہاں ! غلہ خوشوں ہی میں جمع کرو اور ضرورت کے مطابق صاف کرلیا کرو تو اس طرح خراب ہونے سے بچ جائے گا۔ قحط اس قدر شدید ہوگا کہ سب کچھ ختم ہونے لگے گا مگر یادرکھو ! تمہیں کچھ نہ کچھ بیج وغیرہ ضروربچاکررکھنا ہے کہ قحط سالی کے بعد پھر سے بہت بارش برسے گی اور کھیتیاں غلہ اگلنے کے قابل ہوں گی اور بہت پھل ہوں گے کہ لوگ پھل کھانے کی بجائے ان کا رس نچوڑ کر استعماکریں گے مفسرین کے مطابق یہ آخری باتیں آپ کے علوم نبوت کا خاصہ تھیں کہ انتظامی امور کے لئے بہترین تجویز بھی دی غلے کی حفاظت کا نکتہ بھی بتایا اور ایک بہترین سال کی آمد کی پیشگوئی بھی فرمائی ۔ جسے سن کر بادشاہ بہت متاثرہوا اور بات اس کی سمجھ میں بھی آنے لگی کہ کس قدردرست تعبیر ہے اور کتنا قیمتی اور صاحب علم انسان ہے کہ سلطنت کے سارے فاضل مل کر جو بات نہ سمجھ سکے اس نے فورا بیان کردی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 49 الملک بادشاہ سبع سات بقرات (بقرۃ) ، گائیں سمان موٹی تازی، فربہ عجاف دبلی پتلی سنبلت (سنبلۃ) گیہوں کی بالیں جس میں دانہ ہوتا ہے خضرت ہرا بھرا یبست خشک افتونی مجھے بتاؤ رویائی میرا خواب تعبرون تم تعبیر دیتے ہو اضغاث پریشان خیالات ، فضول خیالات احلم (حلم) ۔ خیالات اداکر یاد کیا بعدامۃ مدت کے بعد ارسلون مجھے بھیج دے ارجع میں لوٹوں گا تزرعون تم کھیتی باڑی کرو گے داب لگاتار مسلسل حسدتم تم نے کھیتی کاٹی ذروہ اس کو چھوڑ دو سبع شداد سخت سات (سال) قدمتم تم نے آگے بھیجا تحصنون تم بچاؤ گے عام سال یاغث بارش برسائی جائے گی یعصرون وہ نچوڑیں گے تشریح : آیت نمبر 43 تا 49 کائنات میں ہونے والے ہر عمل اور اس کے نتائج کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کسی کی عزت و ذلت، سربلندی اور پستی کے اسباب پیدا کردیتا ہے جس کی طرف انسان کا دھیان بھی نہیں جاتا۔ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ حضرت یوسف کو باع زت رہائی مل جائے اور علم نبوت کے ساتھ ساتھ دنیاوی عزت و سربلندی بھی حاصل ہوجائے تو اس کا سبب یہ پیدا فرمایا کہ مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ سات موٹی تازہ گائے ہیں جن کو سات دبلی پتلی گائیں کھا گئیں اور سات بالیں ہیں جو ہری بالوں پر لپٹ کر ان کو خشک کر رہی ہیں۔ اگلے دن اس نے تمام دربار کے معتبر اور کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق تعبیر بتائی اور بعضوں نے کہا کہ یہ پریشان خیالات ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں۔ بادشاہ کو سب کے کہنے کے باوجود ایک بےچینی سی محسوس ہوتی رہی اور وہ اس خواب کی تعبیر کے لئے سخت بےقرار رہنے لگا۔ اب ساقی کو جو حضرت یوسف کے ساتھ قید تھا اس کو یاد آیا کہ اس خواب کی تعبیر تو صرف حضرت یوسف ہی بتا سکتے ہیں۔ اس نے بادشاہ سے دخواست کی کہ اگر مجھے قید خانے میں جانے کی اجازت دی جائے تو میں ایک ایسے نیک اور پارسا شخص سے اس خواب کی تعبیر معلوم کرسکتا ہوں جس کو اللہ نے خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا ہے۔ اس ساقی نے قید خانہ میں جا کر بادشاہ کا خواب سنایا اور اس کی تعبیر پوچھی۔ حضرت یوسف نے کہا کہ سات موٹی گائیں اور ہری بالیں سات سال ہیں جن میں خوب خوش حالی رہے گی یعنی خوب پیداوار ہوگی لیکن اس کے بعد مسلسل سات سال تک قحط پڑے گا۔ خواب کی تعبیر کے ساتھ آپ نے ایک تدبیر بھی بتا دی کہ جب خوش حالی کا زمانہ ہو تو جتنا کھانا ہو وہ کھالیا جائے لیکن ساتھ ساتھ بچت بھی کی جائے تاکہ قحط سالی کے زمانہ میں یہ کام آئے۔ پھر فرمایا کہ سات سال کی مسلسل قحط سالی کے بعد خوش حالی کا زمانہ آئے گا۔ اس میں خوب بارشیں ہوں گی، کھیتی باڑی پھل اور میوے بڑی کثرت سے ہوں گے، جانوروں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے اور خوب انگور نچوڑنے کے قابل چیزوں سے خوب نچوڑیں گے۔ بادشاہ کے اس خواب کی تعبیر جب اس کو بتائی گئی تو وہ بہت خوش ہوا اس کی تفصیلات اگلی آیات میں آرہی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے حاکم وقت کے خواب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا ذریعہ بنا دیا ایک رات حاکم مصر ” جس کا نام “ الریان بن ولید “ بتلایا جاتا ہے۔ جو عربی النسل اور عمالقہ خاندان کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ “ اس نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھائے جا رہی ہیں۔ اور گندم کی سات بالیاں ہری اور سات سوکھی ہوئی ہیں۔ صبح اٹھتے ہی اس نے اپنا خواب بڑے بڑے لوگوں کو بتلا کر پوچھا اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو تو میرے خواب کے بارے میں بتلاؤ۔ وہ بڑی سوچ و بچار اور کئی دن کے غورو خوض کے بعد کہنے لگے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ پریشان خیالات ہیں۔ لہٰذا ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔ لیکن بادشاہ اس خواب کے قلق اور اس کے مندرجات سے اپنے ملک کا مستقبل بھیانک دیکھ رہا تھا۔ اس لیے اسے کسی طرح چین نہیں آرہا تھا۔ جس کے لیے اس نے ملک بھر کے دانشوروں، خواب کی تاویل جاننے والوں اور بڑے بڑے اہل علم کو بلا کر پوچھا کہ اس خواب نے میرے دل کا سکون چھین لیا ہے۔ مجھے کسی طرح بھی چین نہیں آرہا۔ یہ کوئی پراگندہ خیالی نہیں بلکہ میں اسے خوفناک حقیقت کے روپ میں دیکھ رہا ہوں اہل فکر کا ایک کے بعد دوسرا اجلاس بلایا جاتا ہے۔ مگر سب نے خواب کی تعبیر بتانے سے معذرت کردی۔ بالآخر رہائی پانے والے قیدی نے بادشاہ سے عرض کی کہ اگر مجھے جیل میں داخل ہونے کی اجازت ہو تو میں آپ کو یوسف نامی قیدی سے اس کی تعبیر پوچھ کر بتلاتا ہوں۔ بادشاہ وقت خواب کی تعبیر جاننے کے لیے بےقرار اور بےتاب تھا۔ جس وجہ سے اس نے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اسے حکم دیا کہ وہ فوری طور پر جیل جاکر اس خواب کی تعبیر پوچھ کر آئے۔ ” الاحلام “ کا معنی :۔ احلام حلم کی جمع ہے جس کا معنی ہے جھوٹے اور بےاصل خواب۔ مسائل ١۔ بادشاہ نے خواب میں دیکھا سات موٹی گایوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ ٢۔ بادشاہ نے خواب میں سات سبز اور سات خشک ڈالیاں دیکھیں۔ ٣۔ ملک بھر کے دانشور بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتانے سے قاصر رہے۔ تفسیر بالقرآن تاویل کا مفہوم : ١۔ میں ابھی اس کی تدبیربتلا دیتا ہوں مجھے جانے دیجیے۔ (یوسف : ٤٥) ٢۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی خوب تر ہے۔ (النساء : ٥٩) ٣۔ گمراہ علماء اس کا غلط مطلب تلاش کرتے حالانکہ اس کا صحیح مطلب اللہ ہی جانتا ہے۔ (آل عمران : ٧) ٤۔ کیا وہ قیامت کا انتظار کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٥٣) ٥۔ یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر تجھ سے صبر نہ ہوا۔ (الکہف : ٨٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

منظر پھر منتقل ہوجاتا ہے۔ اب ہم بادشاہ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ بادشاہ نے ایک اہم خواب دیکھا ہے۔ وہ اپنے حاشیہ نشینوں اور کاہنوں اور مذہبی لیڈروں سے اس کی حقیقی تاویل دریافت کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس خواب کی تعبیر چاہی اور اس کے ارد گرد بیٹھنے والے حاشیہ نشین اور درباری مذہبی لیڈر ان خوابوں کی تعبیر نہ بتا سکے۔ یا انہوں نے محسوس تو کرلیا تھا کہ ملک کو کچھ مشکلات در پیش آنے والی ہیں لیکن وہ بادشاہ کے سامنے کسی بدشگونی کے اظہار کی جرات نہ کرسکے۔ شاہی درباریوں کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ بات کو ٹال دیتے ہیں اور یا جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے ان اہم خوابوں پر ایسا ہی تبصرہ کیا کہ یہ خواب ہائے پریشان ہیں اور ان کو ان تاویل کی کوئی سمجھ نہیں آرہی ہے۔ کیونکہ ان خوابوں میں کوئی واضح اشارہ نہیں ہے۔ یہاں تک تین خوابوں کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑچکا ہے۔ حضرت یوسف کا خواب ، یوسف کے دو قیدی ساتھیوں کے خواب ، اور با بادشاہ وقت کا خواب۔ ان خوابوں کی تعبیر اور اور ان خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مصر اور مصر سے باہر اردگرد کی دنیا میں تعبیر خواب کا فن بہت ہی زوروں پر تھا اور اللہ نے حضرت یوسف کو اپنی جانب سے جو صلاحیت دی ، کہ وہ خوابوں کی تعبیر تک پہنچ جاتے تھے ، وہ ایک ایسا کامل تھا جو روح عصر تھا۔ اور تمام انبیاء کو جو بھی معجزات دیے جاتے ہیں وہ ان کے عصری ماحول کی مناسبت سے ہوتے ہیں۔ تو کیا خوابوں کی تعبیر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے ایک معجزہ تھا۔ یہاں فی ظلال القرآن می ہم یایس بحثیں نہیں چھیڑتے۔ بہرحال بادشاہ نے خواب دیکھا ہے اور اس کی تعبیر کی تلاش ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مصر کے بادشاہ کا خواب دیکھنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تعبیر دینا اللہ تعالیٰ کی قضاء اور قدر کے مطابق جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے جیل سے رہا ہونے کا وقت آگیا تو اس کا یہ بہانہ بنا کہ مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا یہ ایک عجیب خواب تھا اور وہ یہ کہ سات موٹی موٹی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں کھائے جا رہی ہیں نیز سات ہری بالیں ہیں اور ان کے علاوہ ایسی بالیں ہیں جو خشک ہیں۔ یہ خشک بالیں ہری بالوں پر لپٹ رہی ہیں ان کے لپٹنے سے وہ ہری بالیں بھی خشک ہوگئیں ‘ بادشاہ نے اپنا خواب اپنے درباریوں سے بیان کیا اور ان سے کہا کہ میرے خواب کی تعبیر دو اگر تم تعبیر دینا جانتے ہو ‘ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہمارے خیال میں تو یہ خواب تعبیر کے لائق ہی نہیں ہے ادھر ادھر کے خیالات ہیں جن کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے اور ہم تعبیر دینا جانتے بھی نہیں ہیں آپ کے خیالات پریشانی کی وجہ سے ہیں کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے کان میں پڑگئیں جو جیل سے رہا ہو کر دوبارہ بادشاہ کی خدمت میں لگا لیا گیا تھا وہ کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسا شخص معلوم ہے جو اس خواب کی صحیح تعبیر دے دے گا آپ لوگ مجھے بھیج دیں میں اس خواب کی تعبیر لے کر آتا ہوں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل میں جو خواب کی تعبیر دی تھی اس نے سمجھ لیا کہ اس خواب کی تعبیر وہی صاحب دے سکتے ہیں جنہوں نے ہمارے خواب کی تعبیر دی تھی اس شخص کو لوگوں نے روانہ کردیا جیل میں جا کر اس کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر دے دی وہ شخص واپس آیا اور درباریوں کو خواب کی تعبیر بتائی جس سے وہ بادشاہ بہت متاثر ہوا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو طلب فرما لیا جس کا آئندہ آیات میں ذکر آ رہا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو تعبیر دی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سات سال متواتر ایسے آئیں گے جن میں خوب پیداوار ہوگی اور پھر سات سال ایسے آئیں گے جن میں قحط ہوگا یہ قحط کے سات سال گزشتہ سالوں کی جمع شدہ پیداوار کو کھا جائیں گے سات موٹی گایوں اور سات ہری بالوں سے وہ سات سال مراد ہیں جو خوب ہرے بھرے ہوں گے اور خوب پیداوار کا زمانہ ہوگا اور سات دبلی گایوں سے اور سوکھی ہوئی سات بالوں سے قحط کے سات سال مراد ہیں ان سات سالوں میں گزشتہ سات سالوں کا جمع کیا ہوا ذخیرہ سب ختم ہوجائے گا تھوڑا سا جو اگلی پیداوار کی تخم ریزی کے لیے چھوڑے رکھو گے وہی بچ جائے گا ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے نہ صرف تعبیر دی بلکہ قحط کے سات سالوں کی معیشت پر قابو پانے کا طریقہ بھی بتادیا اور فرمایا کہ پہلے سات سالوں میں جو لگ کر محنت اور کوشش کے ساتھ کھیتی کرو گے جب اس کھیتی کو کاٹو تو بس کھانے کی ضرورت بقدر ہی بالیوں میں سے دانے نکالنا باقی دانے بالوں میں ہی رہنے دینا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بالوں کے اندر جو غلہ رہتا ہے اسے گھن نہیں لگتا ‘ کیڑا نہیں کھاتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ قحط کے سات سال گزر جانے کے بعد ایک سال ایسا آئے جس میں خوب بارش ہوگی اور اس کی وجہ سے کھیتیاں بھی خوب ہوں گی اور باغوں میں بھی خوب پھل آئیں گے ان پھلوں میں انگور بھی ہوں گے جنہیں لوگ نچوڑ کر شراب بنائیں گے ‘ بعض حضرات نے لفظ یَعْصِرُوْنَ کا معنی عام لیا ہے اور مطلب یہ بتایا ہے کہ انگور ہی کو نہیں نچوڑیں گے بلکہ دوسری چیزوں کو بھی نچوڑیں گے مثلاً زیتون کا تیل اور تل تیل نکالیں گے وغیرہ ذالک ‘ مطلب یہ ہے کہ پیداوار خوب ہوگی با فراغت زندگی گزاریں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ یہ آٹھواں حال ہے۔ شاہ مصر نے خواب میں دیکھا کہ سات دبلی پتلی گائیں دوسری سات موٹی گائیوں کو کھا گئی ہیں اسی طرح اس نے سات تروتازہ خوشے دیکھے جو دوسرے سات خشک خوشوں پر لپٹ گئے ہیں۔ شاہ مصر اس خواب سے گھبرایا اور صبح شہر کے علماء کاہنوں اور نجومیوں کو بلا کر ان کے سامنے اپنا خواب بیان کیا اور ان سے کہا کہ اس کی تعبیر بیان کرو۔ ” قَالُوْا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ “ ان میں سے کسی کی سمجھ میں اس کی تعبیر نہ آئی اس لیے اسے خواب پریشاں کہہ کر ٹال دیا اور کہا کہ خیال پریشان ہے یہ خواب ہے ہی نہیں اس لیے اس کی کوئی تعبیر نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 ۔ اور بادشاہ مصر نے ایک خواب دیکھا اور خواب کی تعبیر دریافت کرنے کی غرض سے اہل دربار کو جمع کر کے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات گائیں ہیں خوب موٹی اور فربہ جن کو دوسری سات دبلی اور لاغر گائیں کھا رہی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ سات بالیں ہیں ہری اور سبز اور دوسری سات بالیں ہیں خشک وہ سات خشک بالیں بھی ان سبز بالوں کو خشک کر رہی ہیں۔ اے اہل دربار اگر تم خواب کی تعبیر بتاسکتے ہو تو میرے اس خواب کے بارے میں مجھ کو جواب دو ۔ یعنی جتنی مدت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قید میں رہنا تھا خواہ وہ سات سال ہوں یا دس ہوں یا بارہ ہوں یا چودہ ہوں بہر حال جب وہ مدت پوری ہوئی تو حضرت حق تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کے اسباب پید ا کردیئے۔ مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ موٹی گایوں کی دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور ہر ی بالوں کو خشک بالیں لپٹی ہوئی ان کی سبزی کو فنا کر رہی ہیں یہ خواب دیکھا اور اپنے درباریوں سے تعبیر پوچھی۔