Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 86

سورة يوسف

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾

He said, "I only complain of my suffering and my grief to Allah , and I know from Allah that which you do not know.

انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّهِ ... He said: "I only complain of my grief and sorrow to Allah." When they said these words to him, Yaqub said, إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي `(I only complain of my grief and sorrow) for the afflictions that struck me, إِلَى اللّهِ (to Allah) alone, ... وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ and I know from Allah that which you know not. I anticipate from Allah each and every type of goodness.' Ibn Abbas commented on the meaning of, وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (and I know from Allah that which you know not), "The vision that Yusuf saw is truthful and Allah will certainly make it come true."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 اس سے مراد یا تو خواب ہے جس کی بابت انھیں یقین تھا کہ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی اور وہ یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کریں گے یا ان کا یقین تھا کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ موجود ہیں، اور اس سے زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے :۔ باپ کے منہ سے آہ سن کر بھی حاسد بیٹوں کو ان پر رحم نہ آیا بلکہ الٹا باپ کو ملامت کرنے لگے کہ اب اس کے قصہ کو چھوڑتے بھی ہو یا نہیں ؟ یا اسی کے غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے ؟ مغموم باپ نے انھیں جواب دیا کہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہتا۔ تم نے جو کچھ چاہا کرلیا۔ میں تو اپنی پریشان حالی کو اللہ کے سامنے پیش کرتا اور اسی سے صبر کی توفیق چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یوسف ابھی زندہ ہے جسے اللہ نے مجھ سے دور کردیا ہے۔ کیونکہ سیدنا یوسف کو جو خواب آیا تھا اس وجہ سے آپ کو یقین تھا کہ یقیناً یوسف زندہ ہے اور کسی نہ کسی دن ضرور اس سے ملاقات ہوگی اور وہ خواب پورا ہو کے رہے گا اور یہی وہ بات تھی جسے یعقوب تو جانتے تھے لیکن ان کے بیٹے نہیں جانتے تھے اور آپ اپنے بیٹوں کو یہ بات بتانا بھی نہیں چاہتے تھے کہ کہیں حسد کے مارے جل بھن نہ جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ ۔۔ :” بَثَّ یَبُثُّ “ کا لفظی معنی پھیلانا ہے، فرمایا : (وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ) [ النساء : ١ ] ” اور ان دونوں میں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ “ ” بَثَّ الرِّیْحُ التُّرَابَ “ ” ہوا نے مٹی اڑائی۔ “ آدمی پر جب مصائب آئیں تو ان سے پیدا ہونے والے جس غم کو وہ چھپا سکے وہ حزن کہلاتا ہے اور جو چھپا نہ سکے ” بَثٌّ“ کہلاتا ہے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی تم کیا مجھے صبر سکھاؤ گے، بےصبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی، میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے، دیکھوں کس حد کو پہنچ کر بس ہو۔ “ (موضح) حقیقت یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے غم کا جو حال اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے وہ پڑھ اور سن کر ہی دل سخت غم زدہ ہوجاتا ہے، پھر خود ان کا کیا حال ہوگا۔ عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کے روتے ہوئے دھاڑیں مارنے کی آواز سنی، حالانکہ میں صفوں کے آخر میں تھا، وہ یہ پڑھ رہے تھے : (اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ) [ بخاري، الأذان، باب إذا بکی الإمام فی الصلاۃ، قبل ح : ٧١٦ ] وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یعنی یوسف زندہ ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میرے اور تمہارے سجدہ کرنے کا خواب جو انھوں نے دیکھا تھا، سچا ہوگا، مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ میری یہ امید بر لائے گا۔ اتنی مدت گزرنے اور اتنے غم کے باوجود جس میں یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کی امید باقی رہنا بھی ممکن نظر نہیں آتا، ان کی ملاقات کی امید رکھنا یعقوب (علیہ السلام) کے کمال ایمان کا نتیجہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After hearing the concern of his sons, Sayyidna Ya&qub (علیہ السلام) said: إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ that is, ` I complain of my anguish and sorrow, not to you, or to anyone else, but to Allah jalla thana&uh Himself. Therefore, leave me alone as I am.& And, along with what he said, he also indicated that ` this remembrance of his will not go to waste for he knew from Allah Ta` ala what they did not know - that he has been promised by Him that He would bring them all together with him.&

حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے صاحبزادوں کی بات سن کر فرمایا (آیت) اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی میں تو اپنی فریاد اور رنج وغم کا اظہار تم سے یا کسی دوسرے سے نہیں کرتا بلکہ اللہ جل شانہ کی ذات سے کرتا ہوں اس لئے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور ساتھ ہی یہ بھی ظاہر فرمایا کہ میرا یہ یاد کرنا خالی نہ جائے گا میں اپنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ چیز جانتا ہوں جس کی تم کو خبر نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ وہ پھر مجھے ان سب سے ملائیں گے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 86؀ شكا الشَّكْوُ والشِّكَايَةُ والشَّكَاةُ والشَّكْوَى: إظهار البثّ ، يقال : شَكَوْتُ واشْتَكَيْتُ «3» ، قال تعالی:َّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّه[يوسف/ 86] ( ش ک و ) الشکو واشکایتہ والشاۃ والشکولی کے معنی اظہار غم کے ہیں اور شکوت فاشکیت دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ [يوسف/ 86] کہ میں تو اپنے غم اور انددہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں ۔ بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں تو اپنے رنج وغم کی صرف اللہ سے شکایت کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو بچپن میں خواب دیکھا تھا وہ سچا ہے اور ہم ان کو سجدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم اور اس کے لطف کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور میں خوب جانتا ہوں کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں کیوں کہ عزرائیل (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آئے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے دریافت کیا کہ جن لوگوں کی تم نے روحیں قبض کی ہیں کہ ان میں یوسف (علیہ السلام) کی بھی روح قبض کی ہے عزرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ) میں نے تم لوگوں سے تو کچھ نہیں کہا میں نے تمہیں تو کوئی لعن طعن نہیں کی تم سے تو میں نے کوئی باز پرس نہیں کی۔ یہی الفاظ تھے جو نبی اکرم نے طائف کے دن اپنی دعا میں استعمال فرمائے تھے : (اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ ) (١) ” اے اللہ ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کردیا ہے ؟ (وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) یعنی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے میں جانتا ہوں کہ یوسف زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٦۔ صحیحین میں حضرت انس (رض) کی روایت سے جو حدیث ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قبر کے پاس ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھ کر منع کیا اس عورت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں پہچانا اور یہ کہنے لگی کہ میری جیسی مصیبت تم پر پڑے تو تم کو میرے دل کا حال معلوم ہو جب لوگوں نے اس عورت کو جتلایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں تو اس عورت نے اپنی بیقراری کی عذر خواہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیقراری کے روکنے میں اور صبر کرنے میں اسی وقت بڑا اجر ہے جب کہ آدمی ابتداء مصیبت کے وقت صبر کر ١ ؎ ورنہ رفتہ رفتہ تو مصیبت کے بعد خود ہی آدمی کو ایک طرح کا قرار حاصل ہوجاتا ہے اس صحیح حدیث کے مضمون اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حال کو ملا کر دیکھا جاتا ہے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حال میں کوئی بات ایسی نہیں پائی جاتی جس کو اعتراض کے طور پر ذکر کیا جائے پھر اس اعتراض کا جواب دیا جاوے کیوں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھیڑئیے کے کھا جانے اور بنیامین کے مصر میں قید ہوجانے کی خبریں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچی تو ابتدائے مصیبت کے وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہی فرمایا کہ صبر بہتر اور کافی ہے پھر بعد میں جس قدر رنج حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہر کیا ہے۔ صحیحین کی حضرت انس (رض) کی حدیث اور صحیح حدیثوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس قدر رنج کرنا ثابت ہے۔ غرض حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جس قدر رنج اور قلق کا ذکر قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی بات ملت ابراہیم یا شریعت محمدی کے مخالف نہیں معلوت ہوتی اس لئے بعضے مفسروں نے یہاں کچھ کچھ اعتراض کر کے طرح طرح جوابات جو دئیے ہیں ان کو قرآن شریف کی تفسیر سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو ان سخت لفظوں میں فہمائش کی جس کا ذکر اوپر گزرا تو یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ جواب دیا کہ میں بےصبری کر کے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی شکایت کسی دوسرے سے کروں تو تم مجھ کو صبر کی فہمائش کرو میں تو اپنے غم کا حال اسی پاک پروردگار سے عرض کرتا ہوں جس نے آزمائش کے طور کی یہ مصیبت سے میرے اوپر ڈالی ہے۔ { واعلم من اللہ ما لا تعلمون } حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اس کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے بیٹو تم کو معلوم نہ ہو تو نہ ہو مگر مجھ کو تو اللہ کی کریمی کی وصیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواب یوسف (علیہ السلام) کو دکھایا ہے اس کا ظہور میری آنکھوں کے سامنے ہوگا اور میری زندگی میں یوسف (علیہ السلام) ایک دفعہ سے ضرور ملے گا۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا { انا عند ظن عبدی بی } ١ ؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً کوئی التجا بارگاہ الٰہی میں پیش کر کے اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نیک گمان دل میں رکھے گا کہ وقت مقررہ پر اس شخص کی وہ التجاضرور قبول ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کے اس نیک گمان کو ضرور پورا کرے گا۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے جس میں یہ ہے کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہیے ٢ ؎ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انبیاء کا گمان اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ نیک ہوتا ہے اس لئے یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ کی ذات سے توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیر دکھاوے گا اس وا سطے وہ اللہ تعالیٰ سے ہر وقت یہ التجا کرتے تھے کہ یا اللہ تو اس جدائی کی مصیبت کو جلدی راحت سے بدل دے۔ بث کے معنے بڑی بھاری غم کا حال بیان کرنے کے ہیں۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٦٢ ج ٢ الترغیب فی الرجاء و حسن الظن باللہ تعالی۔ ٢ ؎ الترغیب ایضاً ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 86 ) اشکوا۔ شکو سے مضارع واحد متکلم ۔ میں کھولتا ہوں۔ میں شکوہ کرتا ہوں ۔ میں اظہار غم کرتا ہوں۔ شکا۔ یشکو شکوی وشکوا و شکاوۃ وشکایۃ شکایت کرنا۔ وتشتکی الی اللہ۔ (58:1) اور خدا سے شکایت ِ (رنج وملال) کرتی ہے۔ بثی۔ مضاف مضاف الیہ بث اس انتہائی حزن وملال اور غم کو کہتے ہیں جس کو انسان ہزارکوشش کے باوجود چھپا نہ سکے۔ بثی میری زبوں حالی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی یہ کہ یوسف زندہ ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میرے اور تمہارے سجدہ کرنے کا خواب جو انہوں نے دیکھا تھا سچا ہوگا۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ میری یہ امید برلائے گا۔ (ازروح) اس آیت پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی تم کیا مجھے صبر سکھائو گے۔ بےصبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد کو پہنچ کر بس ہو۔ (از موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٦ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پیغمبر کے دل میں اللہ کی حاکمیت اور اختیار مطلق کا کس قدر گہرا شعور ہوتا ہے۔ خدا رسیدہ لوگوں کو اللہ کے انعامات کا بھی احساس ہوتا ہے اور اللہ کی جلالت شان کا گہرا شعور بھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق جو ظاہری صورت حالات تھی وہ نہایت ہی مایوس کن تھی اور ایک طویل عرصہ بھی گزر چکا تھا۔ ان کی تو زندگی کی امید ہی قطع ہوچکی تھی چہ جائیکہ یہ امید ہو کہ وہ اپنے والد کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیں گے اور اس مایوس کن صورت حال ہی کے نتیجے میں ان کے بیٹوں نے ان کے اس تازہ تجسس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ لیکن یہ تمام حالات اس اللہ کے بندے کی اس پختہ امید کو متاثر نہ کرسکے جو وہ اللہ سے رکھتے تھے ۔ کیونکہ ان کا اپنے رب سے گہرا رابطہ تھا اور وہ اپنے رب کے بارے میں وہ کچھ جانتے تھے جو وہ دوسرے لوگ نہ جانتے تھے کیونکہ وہ حقائق ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ خصوصاً اس واقعہ کے بارے میں۔ یہ ہے حقیقی ایمان کی قدرو قیمت اور اللہ کی حقیقی معرفت کی شان۔ جب اللہ کے بندوں کو معرفت حاصل ہوتی ہے تو ان پر تجلیات ہوتی ہیں۔ اور وہ عالم شہود میں ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی قدرت اور اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی نگرانی اور اس کی رحمت ان کے شامل حال ہوتی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ اپنے صالح بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ یہ الفاظ واعلم من اللہ ما لا تعلمون (١٢ : ٨٦) “ اور میں اللہ کی طرف سے جو کچھ جانتا ہوں تم نہیں جانتے ” ایسے ہیں جن سے یہ حقیقت اس قدر عیاں ہے کہ ہم اس کو کسی طرح اپنے جملے میں ادا نہیں کرسکتے۔ اس بات کو وہی شخص جان سکتا ہے جس کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح صبر کا ذوق خاص دیا گیا ہو ، ایسے ہی لوگ جان سکتے ہیں کہ ان کلمات کا مفہوم کیا ہے ؟ اور جن قلوب کے اندر اس قسم کا ذوق پیدا ہوگیا ہو ، یعنی معرفت الٰہی کا ذوق ، ان پر اگر مشکلات اور شدائد کی بارش ہوجائے تو بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، سوائے اس کے کہ ان شدائد سے ایسے قلوب کا تعلق باللہ ، ذوق معرفت اور مشاہدہ حق مزید قوی ہوجاتا ہے۔ میں اس کے سوا اور کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ، لیکن میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کا مجھ پر بہت ہی بڑا کرم ہے۔ اس کا میرے ساتھ جو تعلق ہے اسے وہ جانتا ہے یا میں۔ وہ تو علیم وخبیر ہے۔ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائیوں کی تلاش کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور لڑکوں کو کہتے ہیں کہ وہ مایوس نہ ہوں اللہ کی رحمت بہت ہی وسیع ہے ، اس بات کا امکان ہے کہ وہ سب مل جائیں۔ رحمت الٰہی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنا غم واندوہ اللہ سے بیان کرتا ہوں کیونکہ وہی غمزدہ اور اندوہ گیں لوگوں کا غمگسار اور یار و مددگار ہے اور اللہ کی طرف سے مجھے وہ علم حاصل ہے جو تمہیں حاصل نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرا بیٹا یوسف زندہ ہے کیونکہ بچپن میں اس نے جو خواب دیکھا تھا وہ برحق ہے اس لیے وہ یقیناً ہم سے ملے گا اور میں اور تم سب اس کے سامنے سجدہ بجا لائیں گے۔ معناہ واللہ اعلم ان رؤیا یوسف حق وصدق وانی اوانتم سنسجد لہ (خازن ج 3 ص 310) یا مطلب یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ انبیاء (علیہم السلام) پر امتحانات آتے رہتے ہیں لیکن آخر میں آرام و راحت کا وقت بھی آتا ہے۔ یوسف کی جدائی ایک امتحان ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ اس ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ یوسف سے میری ملاقات ضرور کرائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86 ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جواب دیا میں تو اپنے اضطراب اور اپنے رنج و غم کی صرف اللہ سے شکایت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم کیا مجھ کو صبر سکھائو گے لیکن بےصبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درددیا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حدپر پہنچ کر بس ہو۔ 12