Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 52

سورة النحل

وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا ؕ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَتَّقُوۡنَ ﴿۵۲﴾

And to Him belongs whatever is in the heavens and the earth, and to Him is [due] worship constantly. Then is it other than Allah that you fear?

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے ، کیا پھر تم اس کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو؟ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Allah said "Do not worship two gods. Indeed, He (Allah) is only One God. Then fear Me Alone.To Him belongs all that is in the heavens and the earth and the religion. Allah tells us that there is no god but He, and that no one else should be worshipped except Him, alone, without partners, for He is the Sovereign, Creator, and Lord of all things. ... وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ... His is the religion Wasiba, Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Maymun bin Mahran, As-Suddi, Qatadah and others said that; this means forever. It was also reported that Ibn Abbas said, "It means obligatory." Mujahid said: "It means purely for Him," i.e., worship is due to Him Alone, from whoever is in the heavens and on earth. As Allah says: أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ Do they seek other than the religion of Allah, while to Him submitted all creatures in the heavens and the earth, willingly or unwillingly. And to Him shall they all be returned. (3:83) This is in accordance with the opinion of Ibn Abbas and Ikrimah, which is that this Ayah is merely stating the case. According to the opinion of Mujahid, it is by way of instruction, i.e., it is saying: You had better fear associating partners in worship with Me, and be sincere in your obedience to Me. As Allah says: أَلاَ لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ Surely, the pure religion (sincere devotion) is for Allah only. (39:3) Then Allah tells

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 اسی کی عبادت و اطاعت دائمی اور لازم ہے واصب کے معنی ہمیشگی کے ہیں ' ان کے لئے عذاب ہے ہمیشہ کا ' اور اس کا وہی مطلب ہے جو دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ' پس اللہ کی عبادت کرو، اسی کے لئے بندگی کو خالص کرتے ہوئے، خبردار ! اسی کے لئے خالص بندگی ہے '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ :” الدِّيْنُ “ کا معنی یہاں فرماں برداری، مطیع ہونا اور عبادت ہے۔ ” وَاصِباً “ (ہمیشہ) ” وَصَبَ یَصِبُ (وَعَدَ یَعِدُ ) وُصُوْبًا “ جیسے فرمایا : ( دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ) [ الصافات : ٩ ] ” بھگانے کے لیے اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ “ یعنی آسمان و زمین صرف اللہ کے پیدا کردہ اور اس کی ملکیت ہیں اور اطاعت و عبادت بھی اسی کا دائمی حق ہے تو پھر ہر چیز کے مالک اللہ کے بجائے اس کے غیر سے ڈرتے ہو ؟ کس قدر نادانی اور حماقت کی بات ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا ۭ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ 52؀ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ وصب الوَصَبُ : السّقمُ اللّازم، وقد وَصِبَ فلانٌ فهو وَصِبٌ ، وأَوْصَبَهُ كذا فهو يَتَوَصَّبُ نحو : يتوجّع . قال تعالی: وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات/ 9] ، وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل/ 52] . فتوعّد لمن اتّخذ إلهين، وتنبيه أنّ جزاء من فعل ذلک عذاب لازم شدید، ويكون الدّين هاهنا الطّاعة، ومعنی الوَاصِبِ الدّائم . أي : حقّ الإنسان أن يطيعه دائما في جمیع أحواله، كما وصف به الملائكة حيث قال : لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم/ 6] ويقال : وَصَبَ وُصُوباً : دام، ووَصَبَ الدّينُ : وجب، ومفازةٌ وَاصِبَةٌ: بعیدة لا غاية لها . ( و ص ب ) الواصب کے فلاں ( س ) فھوا وصیب کے معنی دائمی مرض میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ او صبہ کذا فھوا یتو صب اسے فلاں بیماری لگ گئی چناچہ وہ بیمار پڑگیا جیسے او جعۃ فھوا یتو جع قرآن میں ہے : ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات/ 9] اور ان کے لئے عذاب دائمی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل/ 52] اور اسی کی عبادت لازم ہے ۔ میں اس شخص کے لئے وعید ہے جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرتا ہے کہ ایسے شخص کو دائمی عذاب کی سزا ملے گی ۔ اور یہاں دین بمعنی طاعت ہے اور واصب بمعنی دائم اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو ہر حالت میں ہمیشہ اسی کی عبادت کرنے چاہیئے جیسا کہ فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم/ 6] جو ارشاد خدا ن کو فرماتا ہے اس کی نافر مانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں ۔ وصب وصوبا کسی چیز کا دائم اور ثابت رہنا ۔ وصب الدین قرض کا واجب اور لازم ہوجانا مفازۃ واصبۃ دور تک پھیلا ہوا بیابان جس کی انتہا نہ ہو ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) تمام مخلوقات اور یہ عجیب چیزیں اسی کو ملک ہیں اور لازمی طور پر ہمیشہ خلوص کے ساتھ اطاعت بجالانا اسی کا حق ہے۔ کیا پھر بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی پوجا کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44. In other words it means that the entire system of the universe exists on its obedience to Him. 45. That is, when it is so, will you then make the fear of any other than God the basis of the system of your life?

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :44 دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اس پورے کارخانہ ہستی کا نظام قائم ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :44 دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اس پورے کارخانہ ہستی کا نظام قائم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:52) واصبا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب۔ دوامی ۔ ہمیشہ۔ جاودانی۔ لازوال۔ قائم رہنے والا۔ الدین ضمیر کا حال ہے۔ یہاں الدین سے مراد اطاعت ہے۔ ولہ الدین واصبا ط۔ اطاعت ہمیشہ اسی کو سزاوار ہے۔ واصبا وصوب سے مشتق ہے۔ (باب ضرب) اور اگر بذریعہ علی مصدر سمع ہو تو بیمار ہونا کے معنی ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں پہلے معنی ہی میں مستعمل ہے۔ افغیر اللہ تتقون (تو کیا اللہ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو) میں الف استفہامیہ ہے اور تعجب اور توبیخ کے لئے ہے۔ معنی یہ ہیں کہ : کیا اس ذات حق سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت کے علم کے باوجود اور اس علم کے باوجود کہ وہی حاجت روا ہے تم دوسرے معبودانِ باطل سے ڈرتے ہو ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اگر ڈرتے ہو تو یہ تمہاری سراسر حماقت اور نادانی ہو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یعنی وہی اس امر کا مستحق ہے کہ سب اس کی اطاعت بجالائیں۔۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معبود صرف ایک ہی ہے ہر نعمت اسی کی طرف سے ہے اسی سے ڈرو ان آیات میں اول تو اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا کہ دو معبود مت بناؤ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ تنہا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں، آسمان میں اور زمینوں میں جو کچھ ہے وہ اسی کی مخلوق اور مملوک ہے (مخلوق اور مملوک اپنے خالق اور مالک کے برابر نہیں ہوسکتے لہٰذا معبود بھی نہیں ہوسکتے) جب سب کچھ اسی کی ملکیت ہے تو ہمیشہ اسی کی فرمانبرداری کرنا لازم ہے لازمی طور پر ہمیشہ اسی کی عبادت کرو جب اس کی اطاعت لازم ہے تو اس کے علاوہ کسی دوسرے سے ڈرنے کا کوئی موقع نہیں اسی کو فرمایا (اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ ) اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے جو ڈر کے مارے بتوں کو پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پوجا نہ کی تو یہ ہمیں تکلیف پہنچائیں گے۔ (قولہٗ تعالیٰ وَاصِبًا فسر بثلاثہ معان (الاول) دائما (والثانی) واجبا (والثالث) تاعبا ای تجب طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ ان تعب العبد فیھا قالہ القرطبی) (واصبًا کی تفسیر تین معانی کے ساتھ کی گئی ہے (١) دائماً (ہمیشہ) (٢) واجِبًا (ضروری حق) (٣) تاعباً یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس قدر واجب ہے کہ بندہ اس میں اپنے آپ کو تھکا دے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 ۔ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی مملوک ہے اور لازمی طور پر عبادت کا وہی مستحق ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو ۔ یعنی ایسا مالک جو ہر چیز کا مالک ہے اسی کی عبادت لازم اور اسی کا انصاف دائم ہے پھر غیر سے کیوں ڈرتے ہو اور ڈر کر دوسروں کی پوجا کرتے ہو۔