Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 26

سورة بنی اسراءیل

وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا ﴿۲۶﴾

And give the relative his right, and [also] the poor and the traveler, and do not spend wastefully.

اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to maintain the Ties of Kinship and the Prohibition of Extravagance Allah says وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ... And give to the kinsman his due, and to the Miskin (poor), and to the wayfarer. When Allah mentions honoring one's parents, He follows this with the command to treat one's relatives well and to maintain the ties of kinship. According to the Hadith: أُمَّكَ وَأَبَاكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاك ثُمَّ الاَْقْرَبَ فَالاَْقْرَب Your mother and your father, then your closest relatives and the next closest. According to another Hadith: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَجَلِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه Whoever would like to see his provision expanded and his life extended, let him maintain his ties of kinship. ... وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا But spend not wastefully (your wealth) in the manner of a spendthrift. When Allah commands spending, He forbids extravagance. Spending should be moderate, as stated in another Ayah: وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُواْ لَمْ يُسْرِفُواْ وَلَمْ يَقْتُرُواْ And those who, when they spend, are neither extravagant nor stingy. (25:67) Then He says, to discourage extravagance:

ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید ماں باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو ، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں نہ تھا ۔ ٧ ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا ۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورہ برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے ۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چأہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا 67؀ ) 25- الفرقان:67 ) یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں ۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو ۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر ، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا ۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بےجا خرچ نہ کر ۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہو گیا ۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے ۔ یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں ۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں ، مسکینوں ، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل کے لیے سورة نساء کی پہلی آیت کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٣٠] فقراء اور مساکین کا ہر صاحب مال کے مال میں حق ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان فرمائیں تو دوسرے نمبر پر فقراء و مساکین کا ذکر فرمایا۔ ہر صاحب مال پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے فقراء و مساکین پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی خرچ کرے۔ [٣١] مسافروں کے حقوق کے لیے دیکھئے سورة نساء کی آیت نمبر ٣٦ (حاشیہ نمبر ٦٧) [٣٢] اسراف اور تبذیر میں فرق :۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اسراف ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر ایسے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں جن کا ضرورت زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر، ریا نمود و نمائش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا۔ شیطان نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تھی۔ ایسے شخص نے بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت مال کو غلط راستوں میں خرچ کرکے اللہ کی ناشکری کی۔ ایک دفعہ ایک ہال میں کچھ علماء بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے میر مجلس سے سوال کیا کہ اسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے ؟ میر مجلس نے اس سوال کو عام فہم اور حسب حال یوں جواب دیا کہ && اس وقت ہم جس ہال میں بیٹھے ہیں اس میں چھ پنکھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ہم صرف دو پنکھوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اسراف ہے اور اگر ہم یہ سارے پنکھے چلتے چھوڑ کر باہر نکل جائیں تو یہ تبذیر ہے && میر مجلس کی اس سادہ اور عام فہم مثال سے اسراف اور تبذیر کا فرق پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ۔۔ : قرابت والے سے مراد قریبی رشتے دار ہیں، ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے، محرم ہوں یا غیر محرم۔ ان کو پہلے اس لیے رکھا کہ ان کو دینے میں دو اجر ہیں، ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا صدقے کا۔ ان کا حق یہ ہے کہ ہر صورت ان سے میل جول اور تعلق قائم رکھا جائے، انھیں دین کی دعوت جاری رکھی جائے، ان کی خوشی اور غم میں شرکت کی جائے۔ جب بھی انھیں مدد کی ضرورت ہو مال و جان سے ان کی مدد کی جائے۔ مسکین اور ابن السبیل (مسافر) کی تفسیر سورة توبہ (٦٠) میں دیکھیں۔ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا : ” تَبْذِيْرًا “ ” بَذْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی بیج ہے، یعنی بیج کی طرح بکھیرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت دار، مسکین اور ابن السبیل کو اس کا حق دینے کے ساتھ ہی بےجا خرچ کرنے سے منع فرمایا۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جائز خرچ کرنے میں بھی میانہ روی کی تاکید فرمائی، خواہ گھر میں خرچ کرے یا صدقہ وغیرہ میں دے۔ آگے آیت (٢٩) میں اس کی تفصیل آرہی ہے۔ بےجا خرچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں خرچ کیا جائے (چاہے ایک پیسہ ہی ہو) ، یا جائز کاموں میں بغیر سوچے سمجھے اتنا خرچ کیا جائے جو حق داروں کے حقوق ضائع کرنے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary On fulfilling the rights of relatives vigilantly Previous verses were devoted to teachings about the rights of parents and how they should be duly respected. In the present verses, the rights of common relatives have been taken up with the guideline that a rela¬tive should be given his or her right. The least degree in which this could be done is to share with them the graces of good social living and treat them well. And if they are needy, helping them financially - in accor¬dance with one&s personal capacity - is also included therein. From this verse, at least this much stands proved that everyone has also been obli¬gated with the fulfillment of the right of one&s common relatives. at is it? How much is it? Those details have not been mentioned here. But, a broad based mercy and generosity for relatives and a good social interac¬tion with them are certainly included there. According to Imam Abu Hanifah (رح) ، financial help can be extended to two kinds of relatives under this very injunction: (1) A relative, in the category of near blood kinship (Dhu rahim), and in the degree of sanguinity precluding marriage (mahram). A woman or child who neither has the wherewithal to eke out an existence nor has the ability to earn for it. (2) Similar is the case of a re¬lative, in the category of near blood kinship, and in the degree of san¬guinity precluding marriage. If handicapped or blind, not having enough money and property in his or her possession to eke out an existence, their relatives who have the necessary means should help them both. Taking care of the essential expenses is a duty enjoined on all of them. If there are several relatives in the same degree of extended means, the ex¬penses will be divided over all of them and the subsistence allowance of the needy will be given in this manner. This rule also has its sanction from the verse of Surah al-Baqarah which says: وَعَلَى الْوَارِ‌ثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ (and on the heir it falls likewise - 2:233) (Tafsir Mazhari) In this verse, it has been said that the necessary financial assistance provided to the needy and the wayfarer, and the mercy and generosity practiced in the case of kinsfolk, was their right. The purpose is to point out that the giver has no reason or occasion to harp on the favor done before or behind them because their right is his duty. The giver is simply doing his duty and not showering favours on anyone.

خلاصہ تفسیر : (ان دونوں آیتوں میں حقوق العباد کے متعلق دو مزید حکم مذکور ہیں اول والدین کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں اور عام مسلمانوں کے حقوق دوسرے خرچ کرنے میں فضول خرچی کی ممانعت مختصر تفسیر یہ ہے) اور قرابت دار کو اس کا حق (مالی و غیر مالی) دیتے رہنا اور محتاج و مسافر کو بھی (ان کے حقوق) دیتے رہنا اور (مال کو) بےموقع مت اڑانا بیشک بےموقع مال اڑانے والے شیطان کے بھائی بند ہیں (یعنی اس کے مشابہ ہوتے ہیں) اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے (کہ حق تعالیٰ نے اس کو دولت عقل کی دی اس نے اس دولت عقل کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا اس طرح فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت مال کی دی مگر وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرتے ہیں) معارف و مسائل : عام رشتے داروں کے حقوق کا اہتمام : پچھلی آیتوں میں والدین اور ان کے اداب و احترام کی تعلیم تھی اس آیت میں عام رشتہ داروں کے حقوق کا بیان ہے کہ ہر رشتے کا حق ادا کیا جائے جو کم سے کم ان کے ساتھ حسن معاشرت اور عمدہ سلوک ہے اور وہ اگر حاجت مند ہوں تو ان کی مالی امداد بھی اپنی وسعت کے مطابق اس میں داخل ہے اس آیت سے اتنی بات تو ثابت ہوگئی کہ ہر شخص پر اس کے عام رشتے دار عزیزوں کا بھی حق ہے وہ کیا اور کتنا ہے اس کی تفصیل مذکور نہیں مگر عام صلہ رحمی اور حسن معاشرت کا اس میں داخل ہونا واضح ہے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اسی فرمان کے تحت جو رشتہ دار ذی رحم محرم ہو اگر وہ عورت یا بچہ ہے جن کے پاس اپنے گذارہ کا سامان نہیں اور کمانے پر بھی قدرت نہیں اسی طرح جو رشتہ دار ذی رحم محرم اپاہج یا اندھا ہو اور اس کی ملک میں اتنا مال نہیں جس سے اس کا گذارہ ہو سکے تو ان کے جن رشتہ داروں میں اتنی وسعت ہے کہ وہ ان کی مدد کرسکتے ہیں ان پر ان سب کا نفقہ فرض ہے اگر ایک ہی درجہ کے کئی رشتہ دار صاحب وسعت ہوں تو ان سب پر تقسیم کر کے ان کا گذارہ نفقہ دیا جائے گا سورة بقرہ کی آیت وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ سے بھی یہ حکم ثابت ہے (تفسیر مظہری) اس آیت میں اہل قرابت اور مسکین و مسافر کو مالی مدد دینے اور صلہ رحمی کرنے کو ان کو حق فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ دینے والے کو ان پر احسان جتانے کا کوئی موقع نہیں کیونکہ ان کا حق اس کے ذمہ فرض ہے دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے کسی پر احسان نہیں کر رہا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26؀ قربی وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ثابت ہو کر رہا ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) بذر التبذیر : التفریق، وأصله إلقاء البذر وطرحه، فاستعیر لكلّ مضيّع لماله، فتبذیر البذر : تضييع في الظاهر لمن لم يعرف مآل ما يلقيه . قال اللہ تعالی: إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ [ الإسراء/ 27] ، وقال تعالی: وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً [ الإسراء/ 26] . ( ب ذ ر) التبذیر ( تفعیل ) کے معنی پر گندہ کرنے اور بکھیر دینے کے ہیں اصل میں ، ، تبذیر کے معنی زمین میں بیج ڈالنے کے ہیں اور چونکہ زمین میں بیج ڈالنا نا عاقبت اندیش لوگوں کی نظر میں بظاہر ضائع کرنا ہوتا ہے اس لئے تبذیر کا لفظ بطور استعارہ مال ضائع کردینے کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ [ الإسراء/ 27] فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں ۔ وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً [ الإسراء/ 26] . اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

رشتہ داروں کے حق کو ادا کیا جائے قول باری ہے (وات ذالقربی حقہ اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جس حق کا ذکر ہے وہ مجمل ہے اور اسے بیان و تفصیل کی ضرور ت ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (وفی امرالھم حق للسائل والحزوم ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے) اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالا الہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم دامرالھم الابحقھا مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں اس وقت تک میں ا ن کے خلاف برسر پیکار ہوں لیکن جب وہ اس کلمہ کا اقرار کرلیں گے تو وہ میرے ہاتھوں سے اپنی جان و مال کو محفوظ کرلیں گے الایہ کہ کسی حق کی بنا پر ان کی جان یا مال پر ہاتھ ڈالا جائے ) آیت میں مذکور حق کے معنی واضح نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی شریعت کی طرف سے آمدہ بیان اور وضاحت پر موقوف ہیں۔ اگر قرابت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار مراد ہوں تو ہوسکتا ہے کہ حق سے مراد ان کا وہ حق ہے جو انہیں مال غنیمت کے خمس میں سے ملتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حق سے صلہ رحمی کا حق مراد ہو۔ آیت زیر بحث میں مذکور رشتہ داروں کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس اور حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے ہر انسا ن کے رشتہ دار مراد ہیں۔ علی بن الحسین سے مروی ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق پہلی تفسیر ہی درست ہے اس لئے کہ والدین کے ذکر کے ساتھ قربات داروں کا ذکر متصلاً ہوا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تمام لوگوں کے لئے عام ہے اسی طرح اس پر عطف ہونے والا حکم یعنی رشتہ داروں کو ان کا حق دینا بھی تمام لوگوں کے لئے عام ہوگا۔ مسکین اور مسافر کا حق قول باری ہے (والمسکین وابن السبیل اور مسکین کو اور مسافر کو) ہوسکتا ہے کہ اس سے صدقات واجبہ مراد ہوں جن کا ذکر اس قول باری میں آیا ہے (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) تا آخر آیت اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس سے مراد وہ حق ہے جس کی بوقت ضرورت ادائیگی لازمی ہوتی ہے۔ ابن حمزہ نے شعبی سے اور انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (فی المال حق سوی الزکوۃ مال میں زکوۃ نے علاوہ بھی حق ہوتا ہے) اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوادجو ھکم) تا آخر آیت، سفیان نے ابو الزہیم سے انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔” ان میں بھی ایک حق ہے۔ “ صحابہ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اطراق مخلھا و اعادۃ دلوھا دمنیحۃ سمیعنھا سانڈ کے ساتھ جفتی کی اجازت دینا۔ پانی لانے کے لئے اونٹ مع ڈول عاریت کے طور پر دینا اور پلا ہوا اونٹ سواری کے لئے عطا کرنا۔ فضول خرچی پر پابندی قول باری ہے (ولا تبذر تبذیراً اور فضول خرچی نہ کرو) حضرت عبداللہ مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نیز قتادہ سے مروی ہے کہ بےجا مال خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر بلاوجہ ایک مد (ایک پیمانے کا نام جس کی مقدار دو یا اڑھائی رطل ہوتی ہے) بھی صرف کیا جائے تو وہ تبذیر کہلائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جو لوگ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ آیت میں تبذیر کی ممانعت ہے اس لئے امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگا کر اس کے مال کو ضائع ہونے سے بچا لے اور صرف اسے اتنا ہی دے جس سے اس کا خرچ پورا ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ پابندی کے قائل نہیں ہیں اگرچہ متعلقہ شخص تبذیر کرنے والا کیوں نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایسا شخص مکلف ہوتا ہے اور اسے اپنی ذات کے بارے میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کا اقرار اور لین دین سب درست قرار دیئے جائیں گے جس طرح حد اور قصاص کے سلسلے میں اس کے اقرار کو درست قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حد اور قصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں جبکہ اقرار اور عقود، شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے اس لئے ان کا جواز بطریق اولیٰ ہوگا۔ ہم نے قول باری (فان کان الذی علیہ الحق سفیھا اوضیعفاً ) کی تفسیر کے ذیل میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) یہ آیت مبارکہ حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم فرمایا ہے اور اسی طرح محتاج کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے رہنا اور نیز مسافر کا بھی احترام کرتے رہنا اور مسافر کا حق تین دن تک ہے اور اپنے مال کو حقوق اللہ کے علاوہ اور دوسری جگہ پر مت خرچ کرنا اگرچہ ایک کوڑی ہی کیوں نہ ہو یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں قطعا مت خرچ کرنا۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ وات ذا القربی “۔ (الخ) طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو بلا کر ان کو (باغ) فدک دے دیا ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث مشکل ہے (ظاہر کے خلاف ہے) کیوں کہ حدیث سے یہ پتاچلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ یہ آیت مکی ہے اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا) تبذیر کے معنی بلاضرورت مال اڑانے کے ہیں اور یہ اسراف سے بڑا جرم ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ کسی ضرورت میں ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے۔ مثلاً کھانا کھانا ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دو روٹیوں اور تھوڑے سے سالن سے بخوبی پوری ہوجاتی ہے مگر اسی ضرورت کے لیے اگر کئی کئی کھانوں پر مشتمل دستر خوان سجا دیے جائیں تو یہ اسراف ہے۔ اسی طرح کپڑا انسان کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک دو جوڑے کافی ہیں۔ اب اگر الماریوں کی الماریاں طرح طرح کے جوڑوں سوٹوں اور پوشاکوں سے بھری پڑی رہیں تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گا۔ اسراف کے مقابلے میں تبذیر سے مراد ایسے بےتحاشا اخراجات ہیں جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو مثلاً شادی بیاہ کی رسموں پر بےحساب خرچ کرنا اور نام و نمود کے لیے طرح طرح کے مواقع پیدا کر کے ان پر مال و دولت کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: قرآن کریم نے یہاں ’’ تبذیر‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عام طور سے تبذیر اور اسراف دونوں کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جائز کام میں خرچ کیا جائے۔ لیکن ضرورت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کیا جائے تو وہ اسراف ہے اور اگر مال کو ناجائز اور گناہ کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر ہے اسی لیے یہاں ترجمہ ’’ بیہودہ کاموں میں مال اڑانے‘‘ سے کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:26) ات۔ ایتاء سے۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو دے۔ لا تبذر۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ تبذیر (تفعیل) سے تو فضول خرچی نہ کر۔ تبذیرامصدر کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 بےجا اڑانے سے مراد یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں خرچ کیا جائے (چاہے ایک پیسہ ہی ہو) یا جائز کاموں میں بےسوچے سمجھے اتنا خرچ کیا جائے جو حقداروں کے حقوق ضائع کرنے اور حرام کا ارتکاب کرنے کا سبب بنے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 30 ات دو ، ادا کرو۔ ذی القربی رشتے دار۔ لاتبذر فضول خرچی نہ کرو۔ اخوان بھائی۔ کفور ناشکرا، ناقدرا۔ تعرض نہ تو منہ پھیرے گا۔ ابتغاء تلاش کرنے کو۔ ترجوا تو امید رکھتا ہے۔ قول میسور نرم اور آسان بات۔ مغلولۃ بندھا ہوا۔ عنق گردن۔ لاتبسط نہ کھول۔ ملوم ملامت زدہ۔ محصور تھکا ہارا۔ یقدر اندازے سے دیتا ہے۔ تنگ کردیتا ہے۔ بصیر دیکھنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 30 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے چار بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں۔ 1- اپنے ضرورت مند رشتہ داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا۔ 2- فضول خرچی سے بچنا کیونکہ فضول خرچی کرنے والا شخص اس شیطان کا بھائی ہے جو اللہ کا نافرمان اور ناشکرا ہے۔ 3- اگر سائل کو دینے کی استطاعت نہ ہو اور کسی کو یہ امید ہو کہ اگر اللہ نے رحمت فرمائی تو میں اپنے بھائی کی مدد کروں گا فرمایا کہ ایسے موقع پر ان سے نرمی سے بات کہہ دی جائے۔ 4- نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھے اور نہ اس طرح کھلا چھوڑ دے کہ خود ہی دوسروں کا محتاج ہو کر رہ جائے فرمایا کہ راہ اعتدال سب سے بہتر راستہ ہے۔ 5- رزق کی تنگی اور رزق کی وسعت یہ سب کچھ اللہ کے نظام کا ایک حصہ ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حالات کو اچھی طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غریب، مسکین اور ضرورت مند رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا ہے جس کو ” صلہ رحمی “ کہا جاتا ہے اور فرمایا ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا اللہ کی ہزاروں نعمتوں کا حق دار بن جاتا ہے لہٰذا کوئی شخص مال دار ہو یا غریب دونوں کی یہ معاشرتی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی کفالت اور مدد کا خاص خیال رکھے اور اسی طرح ان لوگوں کا بھی پوری طرح خیال رکھا جائے جو کسی وجہ سے دوسروں کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں اور ان کا بھی خیال رکھے جو اپنے گھر بار اور بچوں سے دور مسافرت کی حالت میں وقت گذار رہے ہیں اور وہ آپ کی طرف سے کسی طرح کی بھی امداد اور اعانت کے محتاج ہیں۔ مثلاً ان کی مہمان داری کی جائے، اجنبی شہر میں اگر ان کو کسی معلومات کی ضرورت ہو تو ان کو معلومات بہم پہنچائی جائیں۔ اگر وہ کسی وجہ سے کسی مالی امداد کے محتاج ہوجائیں تو نہایت احسن طریقے سے ان کی مدد کی جائے۔ آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے اور ضرورت مندوں اور مسافروں کا خاص خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین اسلام ہمیں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کے ساتھ بھی پوری طرح امداد و اعانت کے دائرے کو وسیع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں صرف اپنوں کی نہیں بلکہ غیروں کی امداد کی طرف بھی متوجہ فرماتا ہے یہی درس انسانیت ہے۔ دوسرا اصول یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اعتدال کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے ساتھ ہمدردیاں بےاعتدالی کے ساتھ کرتے ہیں کہ مستقبل سے بےنیاز اپنا سب کچھ لٹا کر خلای ہاتھ رہ جاتے ہیں اور اس قابل بھی نہیں رہتے کہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ گھر والوں اور دوسروں کے سامنے شرمندگی کے علاوہ زندگی کی راہوں میں تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اللہ نے اس کو فضول خرچی سے تعبیر فرمایا ہے اور فضول خرچی کو اس قدرنا پسندیدہ قرار دیا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو اس شیطان کے بھائی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اللہ کا نافرمان اور ناشکرا ہے۔ فرمایا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی امداد و اعانت سے اپنے ہاتھ کو اس طرح کھینچ لیتے ہیں کہا گر ایک ضرورت مند اپنے حالات میں تڑپ رہا ہے اور تباہی کے کنارے تک پہنچ گیا ہے تب بھی اپنے ہاتھوں کو گردن سے باندھے رہتے ہیں اور ان کو کسی کی حالت پر رحم نہیں آتا فرمایا کہ جس طرح اللہ کے نزدیک فضول خرچ انسان ناپسندیدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اللہ کے نزدیک اچھے نہیں سمجھے جاتے جو دوسروں پر رحم و کرم نہیں کرتے اور اپنی ذات اور اپنی دولت مندی کے نشے میں مست اور مگن رہتے ہیں۔ ان آیات میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اگر حالات کی تنگی یا کسی الجھن کی وجہ سے سائل کے ماگننے کے وقت دنیے کے لئے کچھ نہیں ہے اور اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوگا۔ تو اس کی مدد کی جائے گی فرمایا کہ اسئل سے ایسے نرم لہجے اور انداز میں بات کہہ دی جائے کہ اس کو برا بھی نہ لگے اور اللہ کی کچھ نعمت ہاتھ لگنے کے بعد اس کی مدد بھی کردی جائے۔ ایسا انداز اور رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے کسی کا دل ٹوٹ جائے اور کوئی شخص گناہگار ہوجائے۔ چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے بیشک انسان کو وہی سب کچھ ملتا ہے جس کی وہ جدوجہد کرتا ہے لیکن رزق کی وسعت اور رزق کی تنگی یہ سب کچھ اللہ کے نظام کا ایک حصہ ہے وہ جس کو چاہتا ہے ڈھیروں دولت اور کامیابیاں دیدیتا ہے اور نہ چاہے تو ساری محنتوں اور مشقتوں کے باوجود اس کو کچھ نہ دے اور اس کو تنگ حال کر دے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی ہر حالت کا نگہبان اور نگران ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو کب کتنا دینا چاہئے لہٰذا ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ ہی سے مدد مانگتا رہے اور یہ اچھی طرح سمجھ لے کہ رزق کے دروازوں کو ویہ کھولتا ہے اور وہی روزی کو تنگ کردیتا ہے۔ وہ اللہ ہر کام اور ہر چیز کی مصلحت کو اچھی طرح جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : والدین کی خدمت کے بعد عزیز و اقرباء اور کمزور لوگوں کی خدمت کا حکم۔ والدین کے احترام و اکرام اور ان کی خدمت کا حکم دیتے ہوئے ان کی شان اور مرتبہ کے پیش نظر احسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس میں ہر قسم کا تعاون اور نیکی شامل ہے۔ لیکن رشتہ داروں پر خرچ کرنے کے لیے حق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس میں ایک قسم کی تاکید کے ساتھ یہ باور کروایا گیا ہے کہ رشتہ داری کے حوالے سے تمہارے مال میں ان کا حق ہے جو تمہیں ادا کرنا چاہیے۔ رشتہ داروں کے بعد مسکین اور مسافر پر خرچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ شیطان اپنے رب کا ناقدردان اور ناشکرا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تبذیر کا معنی ہے نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے وقت ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا جیسے مسجدوں کے میناروں اور ان کی زیب و زیبائش پر سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ برائی کے کاموں پر مال خرچ کرنے کو اسراف کہا جاتا ہے جس سے ہر صورت بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن سوالات : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ےَقُوْلُ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَےْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَسْقِےْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَےْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل عیادۃ المریض ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا۔ میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا ؟ کیونکہ تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا ؟ بندہ جواب دے گا ‘ اے میرے رب ! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو کھلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا ‘ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو جہانوں کو پلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ تو نہیں جانتا کہ ؟ اگر تو نے اسے کھلایا، پلایا ہوتا تو آج میرے پاس اپنے لیے کھانا پینا پاتا۔ “ (عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلَی فَرَسٍ )[ رواہ أبوداود : کتاب الزکاۃ، باب فی حق السائل ] ” فاطمہ بنت حسین حضرت حسین بن علی (رض) سے بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ “ بخل سے بچو : (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُوا واشْرَبُوا والْبَسُوا وَتَصَدَّ قُوْا، فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِیلَۃٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب اللباس ] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھاؤ اور پیو، پہنو اور صدقہ کرو لیکن فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرو۔ “ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ وَوَأُدَ الْبَنَاتِ وَمَنْعًا وَّھَاتِ وَکَرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ وَاِضَاعَۃَ الْمَالِِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الاستقراض ] ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی کرنے ‘ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے ‘ خود نہ دینے اور لوگوں سے عطیہ طلب کرنے کو حرام قراردیا ہے۔ اور بےمقصد باتوں سے اجتناب، زیادہ سوالات کرنے اور مال کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ “ مسائل ١۔ قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کریں۔ ٢۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ ٤۔ شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ تفسیر بالقرآن فضول خرچی اور اسراف کی ممانعت : ١۔ فضول خرچی نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٦) ٢۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٢٧) ٣۔ کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف : ٣١) ٤۔ فصل کی کٹائی کے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ (الانعام : ١٤١) ٥۔ اللہ کے بندے جب خرچ کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخیلی۔ (الفرقان : ٦٧) ٦۔ اسراف کرنے والوں کے پیچھے نہ چلو۔ (الشعراء : ١٥١) ٧۔ ہم اسی طرح حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے اعمال مزین کرتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ٨۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المومن : ٢٨) ٩۔ ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اللہ کی آیات پر ایمان نہ لانے والوں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ (طٰہٰ : ١٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسلام نے اقرباء ، مساکین اور مسافروں کے لئے لوگوں کے ذمہ ایک حق مقرر کیا ہے اور یہ حق ان مدات میں انفاق کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ نیز ان مدات پر خرچ محض خیرات اور مہربانی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو ہر مسلمان کی گردن پر لازم ہے۔ اور اس حق کو فریضہ قرار دینے کے بعد اسے اسلامی عقیدہ توحید اور اسلامی عبادت اور بندگی کے ساتھ منسلک کرکے اسے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایسا حق اور فریضہ ہے جس سے مکلف صرف ادائیگی کے بعد ہی بری المذمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس مد میں خرچ کرنے والا تو اپنا فریضہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب سے اس کے اور مستفید کے درمیان محبت بھی پیدا ہوگی۔ اس کے بعد قرآن کریم تبذیر کی ممانعت کرتا ہے۔ تبذیر کیا ہے ؟ ابن مسعود اور ابن عباس (رض) اس کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ایسی مد میں خرچ کرنا جس میں خرچ کرنے کا حق نہ ہو ، تبذیر ہے۔ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اگر سچائی کی راہ پر کوئی انسان اپنا پورا مال خرچ کر دے تو وہ تبذیر تر ہوگا اور اگر کوئی دو کلو بھی بغیر حق کے خرچ کرے تو وہ تبذیر ہے۔ لہذا تبذیر کا تعلق انفاق کی مقدار سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس مد سے ہے جس میں خرچ کیا جاتا ہے۔ مبذرین کو شیطان کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ باطل اور شر اور معصیت میں خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ وہرب کے انعامات کا شکر ادا نہیں کرتا۔ اور شیطان کے بھائی بھی اللہ کے انعامات کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اللہ کی نعمتوں کا حق یہ ہے کہ ان کو اپن جگہ خرچ کیا جائے۔ اگر کسی کے پاس اس قدر مال نہ ہو کہ وہ رشتہ داروں ، مساکین ، مسافروں کا حق ادا کرے اور وہ ان کا سامنا کرنے میں شرم محسوس کرتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے سوال کرے کہ اللہ اسے بھی رزق وافر دے اور ان کو بھی رزق وافر دے۔ اور ان حقداروں کے ساتھ وعدہ کرلے کہ جب حالات درست ہوں گے اور وہ کچھ کرنے کے قابل ہوا تو کرے گا وہ وعدہ کرے اور اچھی نرم بات ان کے ساتھ کرے۔ دل تنگی اور تھڑ دلی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اور خاموشی بھی اختیار نہ کرے۔ مبادا کہ وہ دل میں تنگی محسوس کریں اور اس کی خاموشی کو دوسری معنی پہنائیں۔ کیونکہ اچھی طرح بات کرنے سے اور نرمی سے سمجھانے کے نتیجے میں ان کو تسلی ہوگی۔ پچھلی آیت میں چونکہ تبذیر اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی۔ اس کی مناسبت سے یہاں خرچ میں میانہ روی کا حکم دے دیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رشتہ داروں، مسکینوں، مسافروں پر خرچ کرنے اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم، فضول خرچی کی ممانعت گزشتہ آیات میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا اس حسن سلوک میں مال خرچ کرنا بھی آتا ہے اب ان آیات میں والدین کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور مسکین اور مسافر کو دینے کا حکم فرمایا، ذوی القربیٰ یعنی رشتہ داروں کو صلہ رحمی کے طور پر تو دینا ہی چاہیے کبھی کبھی رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا واجب بھی ہوجاتا ہے جس کی تفصیلات کتب فقہ میں مذکور ہیں رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرنے کی فضیلت سورة بقرہ کی آیت کریمہ (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ) کے ذیل میں گزر چکی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ والدین کے علاوہ باقی تمام رشتہ داروں پر بھی احسان کرو۔ صلہ رحمی کرو اگر وہ محتاج ہوں تو ان کی مالی امداد کرو۔ غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ کرو، اگر کوئی مسافر بحالت سفر تمہاری اعانت کا مستحق ہو تو اس سے ہمدردی کرو اور اس کی ضرورت پوری کرو۔ ” ولا تبذر تبذیرا “ اور فضول اور بیجا خرچ نہ کرو بلکہ جائز مصارف میں خرچ کرو اس سے اجر ملے گا اور ناجائز مصارف میں خرچ کرنے سے عذاب ہوگا۔ تبذیر یہ ہے کہ مال ایسے مصرف میں خرچ کیا جائے جہاں خرچ کرنا شرعا جائز نہ ہو۔ مثلا شرک و بدعت کی اشاعت میں، رقص و سرود، شراب و کباب، عیاشی سینما بینی ایسے کاموں میں خرچ کرنا تبذیر میں داخل ہے۔ سئل عن ابن مسعود عن التبذیر فقال انفاق مال فی غیر حقہ (مظھری ج 5 ص 434) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 اور ناتے والوں کو اس کا حق دیا کرو اور مسکین اور مسافر کو بھی دیا کر اور مال کو بےموقع نہ اڑایا کر۔ یعنی قرابت دار کا حق مالی ہو یا غیر مالی جو حق بھی ہو اس کو ادا کرنا چاہئے اور مسکین اور مسافر کو بھی دیتے رہو اور بےموقعہ نہ اڑائو یعنی غیر شرعی مراسم میں اور محض شہرت کی غرض سے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی بےجگہ خرچ کر کے خراب نہ کر۔ 12