Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 62

سورة بنی اسراءیل

قَالَ اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا الَّذِیۡ کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۶۲﴾

[Iblees] said, "Do You see this one whom You have honored above me? If You delay me until the Day of Resurrection, I will surely destroy his descendants, except for a few."

اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے ، اپنے بس میں کرلوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He said: "See this one whom You have honored above me..." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "He is saying, `I am going to dominate his offspring, all but a few."' Mujahid said (it means), "I am going to surround them." Ibn Zayd said (it means), "I am going to lead them astray." All of them are close in meaning, and the meaning of the Ayah is, "Do You see this one whom You have honored and made greater than me If You give me time, I will lead his descendants astray, all but a few of them." ... لَيِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلً if You give me respite to the Day of Resurrection, I will surely, seize and mislead his offspring, all but a few!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم (علیہ السلام) و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورة بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورة کہف طٰہٰ اور سورة ص میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قصہ آدم و ابلیس پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ تا ٣٩، سورة انعام آیت نمبر ١١ تا ٢٥، سورة الحجر آیت نمبر ٢٦ تا ٤٢ میں گذر چکا ہے۔ ان آیات کے حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔ [٧٩] ابلیس کا آدم پر قابو پانے کا دعوی :۔ احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ میں رسی یا لگام دینا اور المحنک اس آدمی کو کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنادیا ہو (منجد) گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل اور تجربہ سے قابو پانا ہے اور شیطان کا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اچھی طرح میرا دیکھا بھالا ہے اور میں اس پر اور اس کی اولاد پر پوری طرح قابو پاسکتا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚقَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۔۔ : ” اَرَءَيْتَكَ “ اصل ” أَرَأَیْتَ “ ہی ہے، کاف حرف خطاب ہے، جو مخاطب کے مطابق بدلتا رہتا ہے، مثلاً مخاطب واحد مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکَ “ ، تثنیہ مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکُمَا “ اور جمع مذکر ہو تو ” أَرَأَیْتَکُمْ “ ، معنی سب کا یہی ہے کہ ” کیا تو نے دیکھا “ مگر مراد ہوتی ہے ” أَخْبِرْنِیْ “ یعنی ” مجھے بتا۔ “ ” لَاَحْتَنِكَنَّ “ یہ اصل میں ” حَنَکٌ“ سے مشتق ہے جس کا معنی جبڑا ہے۔ عرب کہتے ہیں ” حَنَکْتُ الْفَرَسَ أَحْنُکُہُ “ (باب ضرب و نصر) ” وَاحْتَنَکْتُہُ “ میں نے گھوڑے کے (نچلے) جبڑے میں رسی باندھی اور اسے اپنے پیچھے چلایا۔ مراد یہ ہے کہ میں اس کی اولاد کو لگام کی طرح جبڑے میں رسی باندھ کر اپنے پیچھے چلاؤں گا۔ مگر یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے : ” لَأَسْتَوْلِیَنَّ “ ” میں ضرور ان پر غالب ہوں گا “ اور ” لَأَسْتَأْصِلَنَّ “ جو ” اِسْتَأْصَلَتِ السَّنَۃُ أَمْوَالَھُمْ “ سے اخذ کیا گیا ہے، یعنی قحط نے ان کے اموال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، ہلاک کردیا۔ 3 یعنی نہایت جرأت و تکبر سے اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے بتا کہ یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت بخشی، یعنی جب بہتر میں ہوں تو تو نے اسے مجھ پر عزت کیوں بخشی ؟ ! اس میں آدم (علیہ السلام) پر حسد کا اظہار بھی ہے، اللہ کے فرمان کے مقابلے میں اپنے عقلی ڈھکوسلے قیاس سے تعمیل حکم کا انکار بھی اور تکبر و سرکشی کا اظہار بھی اور ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں۔ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : اس کی تفصیل سورة اعراف کی آیات (١٤ تا ١٧) میں دیکھیں۔ ” اِلَّا قَلِيْلًا “ سے مراد اللہ کے مخلص بندے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: لَأَحْتَنِكَنَّ (subdue) in verse 62 is from: اِحتِنَاک (ihtinak) which means to exterminate or uproot something, or to subdue and overpower it completely. (Qurtubi) The word: وَاسْتَفْزِزْ (and entice) in verse 64 is from اِستِفزَاز (istifzaz) which basically means to cut off or to tear away from and at this place it means to tear away from the path of truth. This is fol¬lowed by صَوتک (with your voice). Sawt صَوت the Arabic word for voice is well known. What is the voice of Shaitan? Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says: The voices of songs, musical instruments and the hullabaloo of fun and games are the voices of Shaitan that he employs to tear people away from the path of truth. (Qurtubi) This tells us that (singing or listening to) music and (playing or listening to) musical instruments are prohibited. (Qurtubi) While refusing to prostrate before Sayyidna &Adam (علیہ السلام) ، Iblis (the Shaitan) had said two things: (1) That &Adam was created from mud and he was from fire and that there was no reason why mud was given precedence over fire. This ques¬tion was an effort to find out the wisdom of the order given to him before he could comply with the Divine command - something the one so com¬manded has no right to ask. That Allah, the Exalted, would let the com¬manded one have the right to demand the wisdom of His command is far out specially when we see in our everyday life that human beings themselves would not give their servant the right to say no to them. Think of a master asking his servants to do something and the servant demand¬ing the master that he should first explain the wisdom of that assignment. Therefore, this question was considered unworthy of an answer and no answer was given. In addition to that, the answer is already obvi¬ous. Giving precedence to something over the other is the prerogative of the Being that created and nurtured everyone. Whenever and whatever He declares to be superior becomes exactly so.

معارف و مسائل : لَاَحْتَنِكَنَّ احتناک کے معنی ہیں کسی چیز کا استیصال اور فنا کردینا یا پوری طرح اس پر غالب آنا (قرطبی) وَاسْتَفْزِزْ استفزاز کے اصلی معنی قطع کرنے کے ہیں مراد اس جگہ حق سے قطع کردینا ہے بِصَوْتِكَ صوت بمعنے آواز معروف ہے اور شیطان کی آواز کیا ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ گانے اور مزا میرا اور لہو و لعب کی آوازیں یہی شیطان کی آواز ہے جس سے وہ لوگوں کو حق سے قطع کرتا ہے (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مزامیر موسیقی اور گانا بجانا حرام ہے (قرطبی) ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کے وقت دو باتیں کہی تھیں اول یہ کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے اور میں آگ کی مخلوق ہوں آپ نے مٹی کو آگ پر کیوں فوقیت اور فضیلت دے دییہ سوال امر الہی کے مقابلہ میں حکم کی حکمت معلوم کرنے سے متعلق تھا جس کا کسی مامور کو حق نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کو تو طلب حکمت کا حق کیا ہوتا دنیا میں خود انسان اپنے نوکر کو اس کا حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کام کو کہے تو خادم وہ کام کرنے کے بجے آقا سے پوچھے کہ اس کام میں کیا حکمت ہے اس لئے اس کا یہ سوال ناقابل جواب قرار دے کر یہاں اس کا جواب نہیں دیا گیا اس کے علاوہ جواب ظاہر یہی ہے کہ کسی چیز کو کسی دوسری چیز پر فوقیت دینے کا حق اسی ذات کو ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور پالا ہے وہ جس وقت جس چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیدے وہی افضل ہوجاوے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا 62؀ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معیز یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر حنك الحَنَكُ : حنک الإنسان والدّابّة، وقیل لمنقار الغراب : حَنَكٌ ، لکونه کالحنک من الإنسان، وقیل : أسود مثل حنک الغراب، وحللک الغراب، فحنکه : منقاره، وحلکه : سوادّ ريشه، وقوله تعالی: لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا [ الإسراء/ 62] ، يجوز أن يكون من قولهم : حَنَكْتُ الدّابّة : أصبت حنكها باللّجام والرّسن، فيكون نحو قولک : لألجمنّ فلانا ولأرسننّه «1» ، ويجوز أن يكون من قولهم احتنک الجراد الأرض، أي : استولی بحنکه عليها، فأكلها واستأصلها، فيكون معناه : لأستولینّ عليهم استیلاء ه علی ذلك، وفلان حَنَّكَه الدّهر واحتنکه، کقولهم : نجّذه، وقرع سنّه، وافترّه «2» ، ونحو ذلک من الاستعارات في التّجربة «3» . ( ح ن ک ) الحنک کے معنی انسان یا جو پائے کے تالو کے ہیں اور کوے کی چونچ کو حنک کہاجاتا ہے کیونکہ یہ اسکے لئے بمنزلہ انسان کے تالو کے ہوتی ہے چناچہ کہاجاتا ہے ؛ اسود مثل حنک الغراب اوحلک الغراب ( وہ کوے کی چونچ یا س کے پروں کی طرح سیاہ ہے ) یہاں حنک کے معنی منقار اور حلک کے معنی پروں کی سیا ہی کے ہیں اور آیت کریمہ : لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا[ الإسراء/ 62] تو میں تھوڑے شخصوں کے سوا اس کی ( تمام ) اولاد کی جڑ کاٹنا رہوں گا (17 ۔ 62) میں یہ حنکت الدابۃ سے بھی مشتق ہوسکتا ہے جس کے معنی اس کے منہ میں لگادینے یا رسی باندھنے کے ہیں ۔ پس یہ لالجمن فلانا ولا رسننۃ کی طرح ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ احتنک الجراد الارض سے مشتق ہو جس کے معنی ٹڈی کے زمین کی روئیدگی کو صاف چٹ کردیتے کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میں انہیں اس طرح تباہ وبرباد کرونگا جیسے ٹڈی زمین پر سے نبات صفاچٹ کردیتی ہے ۔ حنکۃ الدھر زمانہ نے اسے تجربہ کا بر بنا دیا ۔ جیسا کہ نجرہ قرع سنہ وافترہ وغیرہ استعارات تجربہ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) کہنے لگا کہ ان کو جو مجھ پر سجدہ کرا کے فضیلت دی ہے تو اگر آپ نے میری درخواست کے مطابق مجھے مہلت دی ہے تو میں سوائے ان تھوڑے آدمیوں کے جو مجھ سے محفوظ ہیں، سب کو راہ حق سے پھسلاؤں گا اور گمراہ کروں گا اور اپنے قبضہ میں کرلوں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. That is, I will uproot them from the high position of divine vicegerency which demands steadfastness in obedience. Their removal from that high position is just like the tearing of a tree from its roots.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :75 ”بیخ کنی کر ڈالوں“ ، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں ۔ ”احتناک“ کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں ۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافت الہی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے ، اس لیے اس مقام سے اس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جانا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: یعنی انہیں اس طرح اپنے قابو میں کرلوں گا جیسے گھوڑے وغیرہ کو جبڑوں میں لگام دے کر قابو میں کیا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:62) قال۔ ای قال ابلیس۔ ارء یتک۔ الاتقان میں ہے جب ہمزہ استفہام رأیت پر داخل ہوتا ہے تو اس وقت رؤیت کا آنکھوں یا دل سے دیکھنے کے معنی میں آنا ممنوع ہوتا ہے اور اس کے معنی اخبرنی (مجھ کو بتا۔ مجھ کو خبر دے) کے ہوتے ہیں۔ ارء یتک تو مجھے بتا۔ الذی کر مت علی۔ جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ آیت میں حذف ہے تقدیر کلام یوں ہے ۔ ارء یت ھذا الذی کر مت علی لم کرمتہ۔ مجھے بتا تو یہ آدم جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ اخرتن۔ تاخیر (تفعیل) سے ماضی واحد مذکر حاضر۔ نون وقایہ یضمیر واحد متکلم بوجہ عمل ان ساقط ہوگئی۔ لئن اخرتن اگر تو مجھے مہلت دے۔ لاحتنکن۔ لام تاکید کے لئے ہے احتنکن مضارع واحد متکلم بانون ثقیلہ احتناک افتعال۔ مصدر جس کے معنی ٹڈی کے زمین کی روئیدگی صفا چٹ کردینے کے ہیں۔ چناچہ جب مکڑی کسی کھیت کو کھا کر چٹ کر جائے تو عرب کہتے ہیں احتنک الجراد الزرع یہاں بھی یہ لفظ اسی معنی و مفہوم کو ادا کرتا ہے۔ یعنی اگر تو مجھے مہلت دے تو میں ذریت ِ آدم کو راہ ِ راست سے اکھاڑ پھینکوں گا اور ان کے ایمان کا صفایا کر دوں گا۔ باب افتعال سے بمعنی قابو میں کرنا۔ لگام دینا کے، بھی مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کہ وہ میرے مکر و فریب میں آنے سے بچ جائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال ارائیتک ھذا الذی کر مت علی (٧١ : ٢٦) ” ذرا دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی “۔ اس پر نظر تو ڈالو ! کیا اس کو تو نے مجھ سے برتر قرار دیا ، اور لقد کرمنا بنی ادم کہا۔ لئن اخرتن الی یوم القیمۃ لا حتنکن ذریتہ الا قلیلا (٧١ : ٢٦) ” اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے “۔ میں ان پر حاوی ہوجائوں گا اور ان کو اپنی گرفت میں لے لوں گا ، ان کی لگام میرے ہاتھ میں ہوگی ، بلکہ یہ میری مٹھی میں ہوں گے اور جس طرح چاہوں گا ان کے معاملات میں تصرف کردوں گا۔ شیطان کے دہن میں چیلنج دیتے وقت یہ حقیقت نہ تھی کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جس طرح گمراہی کی استعداد رکھی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہدایت اور قبولیت خیر کی استعداد بھی رکھی ہے۔ جب انسان ایسے حالات میں ہو کہ اس کا تعلق باللہ قائم ہو تو وہ بلند ہوگا اور اعلیٰ مدارج کی طرف اٹھنے والا ہوگا اور ایسے حالات میں وہ شر اور گمراہی سے بچ جائے گا ، شیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ بلا ارادہ چلنے والے حیوانات کی طرح نہیں ہے بلکہ انسان کو قوت ارادی دی گئی ہے جو اسے دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ ارادہ اور پختہ ارادہ ہی اس مخلوق کی بڑی امتیازی خصوصیت ہے اور اس کے اندر اس مخلوق کا راز پنہاں ہے۔ اللہ کا یہ ارادہ ہوگیا کہ شرو گمراہی کے اس پیغامبر کو کھلا میدان دے دیا جائے اور جس طرح چاہے انسان کو گمراہ کرنے کی سعی کرے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 ابلیس نے کہا یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اور جس کو تو نے مجھ پر بڑھایا ہے بھلا یہ تو بتا کہ اس میں کونسی فضیلت کی وجہ ہے اچھا اگر تو نے مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دی اور زندہ رہنے کا موقعہ دیا تو میں اس کی تمام اولاد کو اپنے بس میں کرلوں گا اور ڈھانٹی ڈال دوں گا مگر ہاں تھوڑے سے آدمی میرے قابو میں نہیں آئیں گے۔ یعنی قیامت تک مجھ کو زندہ رکھا تو تمام اولاد آدم کو گمراہ کر دوں گا اور اپنے کہنے پر چلا لوں گا۔ مگر ہاں تھوڑے سے آدمی جو مخلصین ہوں گے وہ بیشک میرے بس میں نہ آئیں گے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اپنا مسخر کرلوں گا جیسے گھوڑے کو لگام دیا ۔ 12 دھانٹی دہلی میں گھوڑے کے منہ پر رسی ڈال کر بل دینے کو کہتے ہیں اس سے گھوڑا بےبس ہوجاتا ہے۔