Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 47

سورة الكهف

وَ یَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ بَارِزَۃً ۙ وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿ۚ۴۷﴾

And [warn of] the Day when We will remove the mountains and you will see the earth prominent, and We will gather them and not leave behind from them anyone.

اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Major Terrors of the Hour Allah tells; وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ ... And (remember) the Day We shall cause the mountains to pass away, and you will see the earth as a leveled plain, and We shall gather them so that We will leave not one of them behind. Allah tells us of the terrors of the Day of Resurrection, and the awesome things that will come to pass, as He says elsewhere: يَوْمَ تَمُورُ السَّمَأءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْراً On the Day when the heaven will shake with a dreadful shaking, And the mountains pass moving away. (52:9-10) meaning, they will move from their places and will vanish. As Allah says: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ And you will see the mountains and think them solid, but they shall pass away as the passing away of the clouds. (27:88) وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ And the mountains will be like carded wool. (101:5) وَيَسْـَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّى نَسْفاً فَيَذَرُهَا قَاعاً صَفْصَفاً لااَّ تَرَى فِيهَا عِوَجاً وَلاا أَمْتاً And they ask you about the mountains, say: "My Lord will pulverize them scattering (their dust). To leave them as a barren plain. You will not see in it crookness or curve. (20:105-107) Allah tells us that He will cause the mountains to vanish and be leveled, and the earth will be left as a smooth plain, a level surface with nothing crooked or curved therein, no valleys or mountains. So Allah says: ... وَتَرَى الاَْرْضَ بَارِزَةً ... and you will see the earth as a leveled plain, meaning clear and open, with no features that anyone may recognize and nothing for anyone to hide behind. All creatures will be visible to their Lord, and not one of them will be hidden from Him. Mujahid and Qatadah said, وَتَرَى الاَْرْضَ بَارِزَةً (and you will see the earth as a leveled plain), "No one will be hidden or absent." Qatadah said, "There will be no buildings and no trees." ... وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا and we shall gather them, so that We will not leave one of them behind. means, `We shall gather them all, the first of them and the last of them, and We shall not leave anyone behind, young or old.' As Allah says: قُلْ إِنَّ الاٌّوَّلِينَ وَالاٌّخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَـتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ Say: "(yes) verily, those of old, and those of later times. All will surely be gathered together for an appointed meeting of a known Day. (56:49,50) ذلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ That is a Day whereon mankind will be gathered together, and that is a Day when all will be present. (11:103)

سب کے سب میدان حشر میں اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ان کا ذکر کر رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے ۔ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر ۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی ۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی ۔ کوئی درخت پتھر گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے ، اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے ۔ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے ۔ نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی ، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بہی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے ، ایک میدان میں منزل کی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی ، کوئی کوڑا ، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں ، چھال ، لکڑی ، پتے ، کانٹے ، جرخت ، جھاڑ ، جھنکاڑ جو ملا لے آئے ۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اللہ سے ڈرتے رہو ، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں جو خیر و شر بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی اسے موجود پائے گا جیسے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا 30؀ۧ ) 3-آل عمران:30 ) اور آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اور آیت ( يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ Ḍ۝ۙ ) 86- الطارق:9 ) میں ہے تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہی ہر بدعہد کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے ۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے ۔ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ہاں البتہ درگزر کرنا ، معاف فرما دینا ، عفو کرنا ، یہ اس کی صفت ہے ۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا نیکیوں کو بڑھاتا ہے گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت جابر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لئے ایک اونٹ خریدا سامان کس کر سفر کیا مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر دروازے پر ہے انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ ؟ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) میں نے کہا جی ہاں ۔ یہ سنتے ہیں ، جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ کئے اور مجھے لپٹ گئے معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں اس لئے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا ، ننگے بدن ، بےختنہ ، بےسر و سامان پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے فرمائے گا کہ میں مالک ہوں میں بدلے دلوانے والا ہوں کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، ننگے بدن ، بےمال و اسباب ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا اس کے اور بھی بہت شاہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) کی تفسیر میں اور آیت ( اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) کی تفسیر میں بیان کئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے اور پہاڑ ایسے ہونگے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہوجائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی ؟ اسی لئے آگے فرمایا ' ' و زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا ' 47۔ 2 یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر و مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] یعنی پہاڑوں جیسی سخت چیزوں پر اللہ کا قانون زوال جاری وساری ہوگا وہ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ کر فضا میں یوں اڑتے پھریں گے جیسے بادل اڑتے پھرتے ہیں (٢٧: ٨٨) زمین کے سب نشیب و فراز ہموار ہوجائیں گے زمین بالکل چٹیل میدان کی طرح بن جائے گی یہی یوم حشر ہوگا جس میں تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور کوئی متنفس اس حشر سے بچ نہ سکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ ۔۔ : ” يَوْمَ “ ” أُذْکُرْ “ محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔ دنیا کی بےثباتی اور آخرت کے اجر کی پائیداری کی مناسبت سے اب قیامت کے دن کا ذکر فرمایا، یعنی اس دن کو یاد کیجیے جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا اور وہ مختلف حالتوں سے گزرتے ہوئے آخر سراب کی طرح رہ جائیں گے، زمین کے سمندر، پہاڑ اور اونچی نیچی تمام جگہیں ہموار ہوجائیں گی اور پوری زمین پر نگاہ کے لیے کوئی رکاوٹ یا اوٹ باقی نہیں رہے گی۔ پہاڑوں پر گزرنے والی کیفیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نبا (٢٠) ، حاقہ (١٣ تا ١٥) ، طور (٩، ١٠) ، تکویر (٣) ، نمل (٨٨) ، معارج (٨، ٩) ، قارعہ (٤، ٥) ، مزمل (١٤) اور واقعہ (٥، ٦) زمین کے ہموار ہونے کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٥ تا ١٠٧) ۔ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا : اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا، کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ دیکھیے سورة واقعہ (٤٩، ٥٠) دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ اس حشر میں جن و انس کے علاوہ دوسری تمام مخلوقات بھی شامل ہوں گی، چناچہ فرمایا : وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ ) [ الأنعام : ٣٨ ] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا جان دار نہیں اور نہ کوئی پرندہ ہے جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمہاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقُ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٨٢ ] ” قیامت کے دن حق والوں کو ان کے حقوق ہر صورت ادا کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَۃً۝ ٠ۙ وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۝ ٤٧ۚ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ غدر الغَدْرُ : الإخلال بالشیء وترکه، والْغَدْرُ يقال لترک العهد، ومنه قيل : فلان غَادِرٌ ، وجمعه : غَدَرَةٌ ، وغَدَّارٌ: كثير الْغَدْرِ ، والْأَغْدَرُ والْغَدِيرُ : الماء الذي يُغَادِرُهُ السّيل في مستنقع ينتهي إليه، وجمعه : غُدُرٌ وغُدْرَانٌ ، واسْتَغْدَرَ الْغَدِيرُ : صار فيه الماء، والْغَدِيرَةُ : الشّعر الذي ترک حتی طال، وجمعها غَدَائِرُ ، وغَادَرَهُ : تركه . قال تعالی: لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها [ الكهف/ 49] ، وقال : فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وغَدِرَتِ الشاة : تخلّفت فهي غَدِرَةٌ ، وقیل للجحرة واللّخافیق «1» التي يُغَادِرُهَا البعیر والفرس غائرا : غَدَرٌ «2» ، ومنه قيل : ما أثبت غَدَرَ هذا الفرس، ثم جعل مثلا لمن له ثبات، فقیل : ما أثبت غَدَرَهُ «3» . ( غ د ر ) الغدر ( ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز میں خلل واقع کرنے اور اسے چھوڑ دینے کے ہیں اور ترک العھد یعنی بےوفائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی سے فلان غادر ( بےفعا ٰ ) کا محاورہ ہے غادر کی جمع غدرۃ ہے ۔ اور بہت بڑے بےوفا اور عہد شکن کو غدا کہا جاتا ہے الاغدروالغدیر اس پانی کو کہتے ہیں جو سیلاب کسی جوہڑ میں چھوڑ جازئے غدیر کی جمع غدران وغدر آتی ہے اور استغدارالغدر کے معنی ہیں تالاب میں پانی جمع ہوگیا ۔ غدیر ۃ لمبے بال گیسو بافتہ اس کی جمع الغدائر ہے اور غادرہ کے معنی ہیں اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف/ 49] نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی ( کوئی بات بھی نہیں مگر اسے لکھ رکھا ہے ۔ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] تو ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔ غدرت الشاہ ( عن الغنم ) کے معنی بکری کے دوسری بکریوں سے پیچھے رہ جانا کے ہیں اس سے صیغہ صفت فاعلی غدرۃ ہے اور غدرۃ ہے اور غدر اس سنگ زار زمین کو کہتے ہیں جس میں عرصہ دراز تک ویران پڑا رہنے کی وجہ سے سوراخ پڑگئے ہوں اور اس میں اونٹ یا گھوڑا چلے تو لنگڑا ہوجائے اسی سے محاورہ ہے مااثبت غدر حذا لفرس ( کہ یہ گھوڑا کسی قدر ثابت قدم ہے مااثبت غدرہ وہ کسی قدر ثابت قدم ہے یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو لغزش کے موقعہ پر ثابت قدم رہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور جس دن ہم پہاڑوں کو زمین پر سے ہٹا دیں گے اور آپ زمین کو دیکھیں گے کہ پہاڑوں کے نیچے سے کھلا میدان ہے اور ہم سب کو قبروں سے اٹھا کر میدان حشر میں جمع کردیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ) اب قیامت کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے کہ اس دن پہاڑ اپنی جگہ چھوڑدیں گے زمین کے تمام نشیب و فراز ختم ہوجائیں گے اور پورا کرۂ ارض ایک صاف چٹیل میدان کی شکل اختیار کرلے گا۔ (وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا) حضرت آدم سے لے کر آخری انسان تک پیدا ہونے والے نوع انسانی کے تمام افراد کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. The mountains will begin to move about like clouds when the gravitation of the earth shall be brought to an end. The Quran has described the same thing in( Surah An- Namal, Ayat 88 )in this way: When you see the mountains, you consider them to be firmly fixed, but they shall be floating about like clouds at that time. 43. “You will see the earth as a leveled plain”: You will find no vegetation and no building on it and it will become a barren plain. It is the same thing that has been stated in (Ayat 8) of this chapter. 44. That is, We will muster together every human being from the first man, Adam, to the last one born in the last moment of the Day of Resurrection: even that child which had breathed the first breath after its birth, shall be resurrected and all shall be mustered at one and the same tune.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :42 یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں ۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ ( النحل ۔ آیت ۸۸ ) ۔ تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :43 یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی ، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی ۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنایا ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :44 یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے ، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو ، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: قرآن کریم کی آیات کو سامنے رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے کے موقع پر پہاڑوں کو پہلے اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جائے گا پھر ان کو کوٹ پیس کر غبار کی طرح ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ چلانے کا ذکر اس جگہ کے علاوہ سورۃ نمل آیت 88 اور سورۃ تکویر آیت 3 میں بھی آیا ہے۔ اور انہیں کوٹ پیس کر غبار میں تبدیل کردینے کا ذکر سورۃ طٰہٰ آیت 105 سورۃ واقعہ آیت 5 6 اور سورۃ مرسلات آیت 10 میں موجود ہے 28: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو چیزیں زمین کے اندر پوشیدہ ہیں۔ وہ سامنے آجائیں گی جیسا کہ سورۃ انشقاق آیت 4 میں بیان فرمایا گیا ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ پہاڑوں، درختوں اور عمارتوں کے فنا ہوجانے کے بعد زمین حد نظر تک سپاٹ نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہوگا جیسا کہ سورۃ طٰہٰ آیت 106، 107 میں بیان فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٧۔ ٤٩:۔ ان آیتوں میں قیامت کا ذکر ہے کہ اس دن پہاڑ جاتے رہیں گے زمین صاف نکل آئے گی اور اکٹھا کریں گے ہم ان کو اس طرح کہ نہ چھوڑیں ان میں سے ایک کو بھی جس زمین کے ساتھ حشر کا ذکر ہے یہ وہ نئی زمین ہے جس پر حشر قائم ہوگا۔ یہ زمین دنیا کی زمین سے بالکل الگ اور نئی ہوگی کیونکہ شعب الایمان بیہقی تفسیر عبد الرزاق وغیرہ میں صحیح سند سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے ١ ؎ کہ اس زمین پر کسی گنہگار نے کوئی گناہ نہیں کیا اب یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی زمین پر روز گناہ کیے جاتے ہیں اس لیے یہ زمین بالکل نئی ہوگی مطلب یہ ہے کہ پہلے صور کے وقت دنیا کی زمین پر کے پہاڑ جو اڑا دیئے جائیں گے وہ پہاڑ یا کوئی ٹیلہ یا عمارت یا اور کوئی چھپ جانے کی جگہ اس نئی زمین پر نہ ہوگی پھر فرمایا اس نئی زمین پر سب حساب کے لیے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے اس وقت منکرین حشر کو یوں قائل کیا جائے گا کہ تم لوگ تو اس دن کے منکر تھے اب دیکھو تو یہ دن تمہارے سامنے آیا نہیں۔ پھر فرمایا اچھے لوگوں کے دائیں ہاتھ میں اور برے لوگوں کے بائیں ہاتھ میں جب نامہ اعمال دیئے جائیں گے تو برے لوگ اپنے اعمالنامے میں عمر بھر کے بداعمال دیکھ کر بہت گھبرائیں گے اور سزا کے خوف سے بہت ڈریں گے مگر بےوقت کا گھبرانا اور ڈرنا ان کے کچھ کام نہ آئے گا پھر فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ کسی پر کچھ ظلم نہ کرے گا بلکہ ہر شخص کے عملوں کے موافق جزا وسزا کا فیصلہ کیا جائے گا یہاں مختصر طور پر فقط برے لوگوں کے اعمال نامہ کا ذکر ہے سورة الحاقہ میں آئے گا کہ اچھے لوگ اپنے اعمالنامہ کو خوش ہو کر پڑھیں گے اور اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں سے کہیں گے لو تم بھی ہمارا اعمالنامہ پڑھ کر دیکھو۔ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص کو پہلے اس کے صغیرہ گناہوں کا نامہ اعمال دکھایا جائے گا اور کبیرہ گناہ اس کے اعمال نامہ میں سے الگ کردیے جائیں گے جس سے وہ شخص ان چھوٹے گناہوں کا ارادہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنی رحمت سے تیرے ان چھوٹے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا یہ سن کر وہ شخص کہے گا یا اللہ میں نے تو دنیا میں اور بڑے بڑے گناہ بھی کیے تھے ان کے بدلہ کی نیکیاں کہاں ہیں۔ اس قصہ کو بیان کرتے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت ہنسی آیا کرتی تھی ٢ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حشر کے دن سب لوگ قبروں سے ننگے بدن ننگے پاؤں بغیر ختنہ کیے ہوئے اٹھیں گے ٣ ؎۔ اس حدیث سے لقد جئتمونا کما خلقناکم اول مرۃ کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ماں کے پیٹ سے جس حالت میں بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ننگے بدن ننگے پاؤں بغیر ختنہ کیے ہوئے سب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس لیے قیامت کے دن جزا و سزا کا فیصلہ نہایت انصاف سے ہوگا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں کھیتی کی مثال سے دنیا کی ناپائیداری کا حال بیان فرما کر ان آیتوں میں حشر اور قیامت کا ذکر فرمایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد حشر اور قیامت کا قائم ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیر نیک وبد کی جزا و سزا کے دنیا کا پیدا کرنا بےفائدہ ٹھہرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان سے بہت بعید ہے۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٩٤ ج ٢ فصل فی الحشر ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٩٢ باب الحوض والشفاعۃ ٣ ؎ الترغیب ص ٢٩٤ ج ٣ فصل فی الحشر

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:47) یوم۔ منصوب ہے بوجہ اپنے فعل کے جو اس سے قبل محذوف ہے۔ ای اذکر یوم اور یاد کرو وہ دن۔۔ نسیر۔ مضارع جمع متکلم۔ تسییر (تفعیل) مصدر۔ ہم چلائیں گے۔ تسییر۔ کسی کو مجبور کر کے چلانا کہ چلنے والے کو چلنے کی قدرت ہی نہ ہو وہ صاحب ارادہ ہو جیسے پہاڑوں کو چلانا۔ یا کسی ایسے کو چلنے کا حکم دینا کہ چلنے والا حکم کو مان کر خود چلے اور چلنے کی اس کو قدرت بھی ہو جیسے آدمی کو چلانا۔ اول تسییر تسخیری ہے دوسری اختیاری ۔ آیت میں تسخیری تسییر مراد ہے۔ بارزۃ۔ برز یبرز۔ (نصر) بروز سے اسم فاعل واحد مؤنث۔ کھلی ہوئی۔ یعنی کھلا میدان۔ حشرنہم۔ حشرنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ ماضی بمعنی مستقبل ہم اکٹھا کریں گے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب جو تمام مردوں کے لئے ہے۔ یعنی ہم تمام مردوں کو اکٹھا کردیں گے۔ لم نغادر۔ مضارع نفی حجد بلم۔ صیغہ جمع متکلم ۔ مجزوم بوجہ لم۔ غادر یغادر مغادرۃ۔ مفاعلۃ۔ ہم نہیں چھوڑیں گے۔ غدر بےوفائی۔ غدارسخت بےوفا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی وہ اپنی جگہ سے ہل کر بادلوں کی طرح چلنے لگیں گے۔ (دیکھیے سورة النحمل :88)4 نہ اس میں کوئی اونچ نیچ ہوگی نہ کوئی پہاڑ نہ کوئی عمارت اور نہ کسی قسم کی روئیدگی۔ جیسے فرمایا : وانا لجا علون ما علیھا صعیداً جرزا (آیت 8)5 جیسے دسوری آیت میں فرمایا : قل ان الاولین والاخرین لجمعون الی میقات یوم معلوم کہہ دیجیے کہ تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک مقررہ دن میں اکٹھا کیا جائے گا۔ (واقعہ 51)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٣١ ایک نظر میں درس سابقہ کا خاتمہ باقیات صالحات پر ہوا تھا۔ اس سبق کا آغاز ہی یوم قیامت کے بیان سے ہوتا ہے جس میں باقیات صالحات کا وزن ہوگا ار ان کا حساب و کتاب ہوگا۔ قیامت کا بیان بھی حسب معمول مناظر قیامت میں سے ایک منظر کی صورت میں ہے۔ اس کے بعد پھر ابلیس کے اس طرز عمل کو پیش کیا جاتا ہے۔ جو اس نے اس وقت اختیار کیا جب اللہ نے اسے حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے ، اس نے امر ربی کی تعمیل سے انکار کیا۔ انسانوں پر تعجب ہے کہ وہ پھر شیطان کو اپنا دوست بناتے ہیں ، حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ تمام شیاطین انسانوں کے دشمن ہیں اور اس دوستی کے نتیجے میں وہ قیامت کے روز عذاب جہنم تک پہنچنے والے ہیں۔ پھر یہ شرکاء جوق یا مت کے دن ان لوگوں کی پکار کا جواب ہی نہ دیں گے جو ان شرکاء کی بندگی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار مثالیں دیں اور لوگوں کو سکھایا کہ وہ اس دن کے حساب و کتاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔ لیکن لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ بلکہ الٹا امم سابقہ کی ہلاکت کی طرح کے عذا بکا مطالبہ کرتے ہیں اور باطل انداز میں اہل ایمان کے ساتھ مجادلہ کرتے ہیں تاکہ حق کا مقابلہ کریں۔ اللہ کی آیات اور اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کریں۔ اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ان پر یہ عذاب آ بھی جاتا۔ قیامت کا یہ منظر اور امم سابقہ کے عذاب کا ذکر اس سورت کے مرکزی مضمون سے ہم آہنگ ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی قدریں بٹھانی چاہئیں تکاہ وہ ہدایت پکڑیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قیام قیامت کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ ) (اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور ان کی جگہوں سے ہٹا دیں گے اس دن کو یاد کرو) (وَ تَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً ) (اور اے مخاطب تو زمین کو اس حال میں دیکھے گا کہ کھلا ہوا میدان بنی ہوئی ہے) اس میں نہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ پر ہے نہ کوئی گھر ہے نہ دیوار ہے، نہ در ہے نہ بلندی، (فَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (سو میرا رب ان پہاڑوں کو بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک ہموار میدان بنا دے گا جس میں نہ تو ناہمواری رہے گی اور نہ کوئی بلندی) یہ تو پہاڑوں کا اور زمین کا حال ہوگا اور آسمان بھی پھٹ جائیں گے۔ چاند سورج بھی بےنور ہوجائیں گے اور ستارے بھی گرپڑیں گے۔ یہ قیامت کے ابتدائی احوال ہوں گے صور پھونکے جانے پر مردے قبروں سے نکال کر جمع کیے جائیں گے۔ (وَّ حَشَرْنٰھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اَحَدًا) (اور ہم انہیں جمع کریں گے سو ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ یہ اصلاح منکرین کا تیسرا طریقہ ہے۔ یعنی دنیا کی خاطر دین کو چھوڑتے ہیں وہی دنیا ان کے لیے وبال جان ثابت ہوگی اور آخرت میں اس کی وجہ سے دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ” نسیر الجبال الخ “ پہاڑوں کو چلانے سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن پہاڑوں کو ان کی جگہوں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ بادلوں کی طرح فضائے آسمانی میں اڑا دئیے جائیں گے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مر السحاب “۔” بارزۃ “ ظاہر اور نظر آنے والی زمین کا جو حصہ پہاڑوں سے چھپا ہوا تھا وہ اب عریاں ہو کر صاف نظر آنے لگے گا۔ ” لا یغادر الخ “ مجرمین جب اپنا نامہ اعمال دیکیں گے تو سخت متحیر ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے ؟ اس نے تو نہ کوئی چھوٹی بات چھوری نہ بڑی اس میں تو ہماری ہر بدی لکھی ہوئی ہے۔ لا یغادر ای لایترک۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور وہ اپنی جگہ قائم نہ رہیں گے اور آپ زمین کو دیکھیں گے کہ وہ ایک صاف کھلا ہوا میدان ہے اور ہم سب لوگوں کو میدان حشر میں جمع کرلیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ یعنی ابتداء میں پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور آخر کو ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے۔ فقل ینسفھا ربی نسفاء اور زمین بالکل صاف ہوجائے گی۔ لاتری فیھا عوجاً ولا امتا ۔ صاف میدان ہوجائے کے بعد سب کو قربوں سے اٹھا کر جمع کیا جائے گا اور کسی ایک شخص کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے گا۔